محض معلومات کی کثرت انسان کو عالم نہیں بنا دیتی ـ اس وقت معلومات کی دنیا میں کمی نہیں ہے بلکہ معلومات کی کثرت آج کی دنیا کیلئے ایک مستقل فتنہ ہے، معلومات کی دنیا کا انقلاب سوشل میڈیا کی فتنہ سامانی اور غیرضروری وغیر مفیدمعلومات کی کثرت اور فراوانی نےلوگوں کا ذہنی سکون چھین لیا ہے اور اس لحاظ سے دیکھیں تو
یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا معجزہ اور زبان نبوت کا فیض ہے کہ آپ نے نہ صرف یہ کہ علم نافع اور غیر نافع کے درمیان فرق کی نشاندہی کی ہے بلکہ علم غیر نافع سے پناہ مانگنے کی تلقین بھی کی ہےـ جس طرح کہ مردہ اور خشوع سے عاری دل سے پناہ مانگی ہےـ اللہم انی اعوذ بک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ـ آپ کی سکھائی ہوئی اہم ترین دعاؤں میں سے ہے ـ
علم کے میدان میں کمال کا دعویٰ کرنے والے اس وقت بہت ہیں جو میڈیا کے ذریعے اپنے کو بڑے القاب سے متعارف کرانے میں مشغول ہیں لیکن حقیقی علما کے اوصاف سے وہ کوسوں دور ہیں، ان کی وجہ سے دینی کاموں کا وقار بھی مجروح ہورہا ہےاور اصلاح کا عمل بے اثر ہوکر رہ گیا ہے ـ
علمائے دین کی خاص شان ہےاور اللہ تعالی کے یہاں ان کابہت بلند مقام ہے لیکن یہ مقام علمائے ربانیین کا ہے ـ
ربانی وہ عالم کہلاتا جو علمی بصیرت کے ساتھ اخلاص کی دولت سے بہرہ ور اور فنی مہارت کے ساتھ حسن اخلاق کے جوہر سے آراستہ ہوـ
اس کا اٹھنا بیٹھنا،اس کا چلنا پھرنا سب اللہ کی رضا کیلئے ہو ـ اس کا علمی مشغلہ محض ذہنی عیاشی اور لوگوں میں نام کمانے کیلیے نہ ہوـ
موجودہ ماحول میں مولانا محمد قاسم مظفر پوری صاحب کی شخصیت امتیازی شان کی حامل تھی ـ ان کا شمار علمائے ربانیین میں ہوتاتھاـ
– وہ زبردست عالم اور فقيہ تھے
-وہ شہرت پسندی سے بہت دور تھے
-وہ علم کے ساتھ عمل کے زیور سے آراستہ تھے
-ان کا عمل ان کے علم پر غالب تھا
وہ نوجوان علما کی شخصیت کی تعمیر کا بے پناہ جذبہ رکھتے تھے
– وہ تعلیم میں تدریج کے ساتھ شخصیت سازی پر زور دیتے تھے
عالم ربانی کی یہی خصوصیت بیان کی گئی ہےکہ: الربانی الذی یربی الناس بصغار العلم قبل کبارہ ( بخاری)
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ” کونوا ربانیین” کونوا حلماء فقھاء ـ
مولانا محمد قاسم مظفر پوری صاحب نے اپنے زندگی کا بڑا حصہ درس تدریس قضا اور اجتماعی مصالحت کے میدانوں میں گزارا ہے اور خاموشی کے ساتھ اس میدان میں اہم خد مات انجام دی ہیں اورایک عالم باعمل کا مثالی کردار پیش کیا ہے، مولانا قاضی محمد قاسم مظفرپوری صاحب کی پیدائش ١٩٣٧کی تھی، انھوں نے مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں تعلیم حاصل کی اور تکمیل دار العلوم دیوبند میں کی ـ ان کے نامور اساتذہ میں مولانا عبد الر حیم صاحب، مولانا عبد الحفیظ در بھنگوی، مولانا ریاض احمد چمپارنی، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، علامہ ابراہیم بلیاوی، مولانا مولانا اعزاز علی امروہوی، شیخ الحدیث مولانا فخر الدین احمد مراد آبادی وغیرہ رہے ہیں ـ
فراغت کے بعد تدریس، قضا اور عوامی اصلاحو دعوت کے کام کو انھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنالیا اور پورے اخلاص کے ساتھ اسے انجام دیتے رہے اور امارت شرعیہ کی طرف سے قاضی کے منصب پر فائز رہے ـ
انھوں نے متعدد کتابیں بھی تصنیف کی ہیں جن میں اہم ترین کتاب مولاناعبداللہ بہلوی کی عربی کتاب( ادلة الحنفية) کی دوسری اور تیسری جلدوں کی تکمیل ہے ـ
دوسری جلد پر میں نے مختصر عربی مقدمہ بھی لکھا تھا جس کے بارے میں مولانا نے خاص پسندیدگی کا اظہار فرمایاہےـ
پوری کتاب ان کے برادر زادہ مولانا رحمت اللہ صاحب کی تحقیق وتعلیق کیساتھ بیروت سے چھپ چکی ہے
ان کے اور بھی متعدد تعلیمی کتابچے واصلاحی رسائل ہیں جومقبول ومتداول ہیں اورجو اجتماعی اصلاح کے جذبے سے لکھے گئےہیں ـ
مولانا نے اپنے برادر زادہ مولانا رحمت اللہ صاحب کی تعلیم وتربیت اور علمی ترقی پر اس طرح توجہ دی ہے کہ ان کو بھی مولانا کی ایک تصنیف اور زندہ یادگار قرار دیاجا سکتا ہےـ
مولانا اپنی خاموش و کم آ میز طبیعت، سادہ مزاجی اور شہرت وناموری سے بے نیاز وضع قطع اور لباس کے باوجود اپنا ایک خاص علمی وزن رکھتے تھے اور مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب کےبعد امارت شرعیہ، فقہ اکیڈمی اور متعدد دوسرے دینی وعلمی اور اصلاحی اداروں کیلئے علمی وقار اور اعتماد کا نشان بن گئے تھے اور کسی اجلاس میں ان کے صرف موجود ہونے اورخاموش بیٹھے رہنے کو بھی فائدہ مند اور برکت و روحانیت کا وسیلہ اور کامیابی کی علامت سمجھا جاتاتھاـ
دعا ہے کے اللہ تعالی انھیں فردوس بریں میں جگہ دے اور امت کو رشد وہدایت کے مینار علمائے ربانیین سے محروم نہ کرے ـ
این دعا ازمن واز جملہ جہاں آمین باد
Tag: