نئی دہلی:خواتین حقوق کی کارکن اورسینٹر فار سوشل ریسرچ کی ڈائریکٹر رنجنا کماری نے عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم ، خاص طور پر عصمت دری کے واقعات میں حکومت کہیں موجود نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ انہوں نے خواتین کے تحفظ اور حقوق سے متعلق بہت سے امور پر کھل کر بات کی۔ خواتین کمیشن کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوںنے کہاکہ اب عصمت دری کے ایسے بہت سے واقعات ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ حکومت یا پولیس نہیں ہے۔ ریاست میں کسی بھی پارٹی کی حکمرانی کے تحت کوئی مناسب نظام موجود نہیں ہے۔ حکومتوں کی تیاری کووڈ 19 کے دوران بھی نہیں دیکھی گئی۔ خواتین کے خلاف تشدد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور تازہ ترین واقعات خود اس کی گواہ ہیں۔ ہاتھرس کا معاملہ دیکھیں۔ ایف آئی آر درج کرنے میں آٹھ دن لگتے ہیں اور پھر پورا ملک اس واقعے سے واقف ہوتا ہے، لڑکی کی موت، اس کے بعد والدین کو اس کا چہرہ بھی نہیں ملتا ہے،پولیس نے اس کا جسم جلا دیا، اگر عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور حکومت اس کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے ، اگر پولیس اس کے ساتھ تعاون کرتی تو پیغام جاتا ہے کہ مجرموں کو بچانے اور اس کیس کو کور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خاص طور پر اترپردیش میں کسی بھی پارٹی کی حکمرانی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، جب تک کہ پولیس خواتین کی حفاظت کے لئے پوری احتیاط کے ساتھ کام نہیں کرے گی صورتحال بدلے نہیں ۔ خواتین وزراء یا دیگر عہدوں پر بیٹھی خواتین کے موقف کو دیکھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں کچھ نہیں ہورہا ہے۔
عصمت دری
ہاتھرس سانحے پر مولانا محمود مدنی کا ردِ عمل:اترپردیش سرکار کی ترجیحات الگ ہیں،اسے لا اینڈ آرڈر سے کوئی دل چسپی نہیں
نئی دہلی:اترپردیش کے ہاتھر س میں دلت خاتون کے ساتھ مبینہ طور سے کی گئی عصمت دری اور وحشیانہ سلوک پر افسوس اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے سرکار اور پولس ا نتظامیہ کے کردار پر سوال اٹھا یا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اترپردیش سرکار کی ترجیحات الگ ہیں، اسے ریاست میں بنیادی مسائل، عوامی ضروریات اور لاء اینڈآرڈر سے دل چسپی نہیں ہے۔جس کی وجہ سے سماج دشمن عناصر آزادگھوم رہے ہیں اور وہ قانون کی پکڑ سے خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ ہاتھرس میں جو کچھ بھی ہوا، اس کی مذمت کے بقدر ہمارے پاس کوئی لفظ نہیں ہے اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اہل خانہ کی مرضی اور اجازت کے بغیر پولس نے متاثرہ کی لاش کو خود سپرد آتش کردیا، اس سے زیادہ خاندان کے لیے اذیت کی بات کچھ اور نہیں ہو سکتی،یہ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ اترپردیش میں ایسے واقعات مسلسل ہورہے ہیں جو ایک مہذب سماج کے لیے بدنما داغ ہیں۔ یہ واقعات ریاست میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پر بھی سوال کھڑا کرتے ہیں۔ کمزورطبقات، اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے علیحدہ قوانین موجود ہیں، لیکن یہ اسی وقت موثر ہوسکتے ہیں جب کہ قانون کے رکھوالے اسے ایمانداری سے نافذ کریں۔مذکورہ معاملے میں یوپی پولس نے شروع میں اسے ہلکا معاملہ بنا کر پیش کیا اور کہتی رہی کہ گاؤں والوں کی آپسی لڑائی ہے، اور اس نے ایسی حالت کے باوجود پانچ دن تک اس کی ایف آئی آر تک درج کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی، اس لیے ایسے پولس افسران پر سخت کارروائی کی جائے جو دلت اور غریب خاندان کا معاملہ دیکھ کر یا طاقتوروں سے ہاتھ ملا کر اس معاملہ کو دبانے میں ملوث پائے جائیں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ متاثرہ کو انصاف دلانے کے لیے فاسٹ ٹریک کورٹ میں مقدمہ چلایا جائے اور مجرموں کو کیفرکردار تک جلد پہنچا کراسے نشان عبرت بنایا جائے۔
یوں تو ہندوستان بھر میں آئے دن زنا بالجبراورجنسی درندگی کے بیسیوں واقعات پیش آتے رہتے ہیں اوراپنے وقت کے اس جنت نشاں میں اب یہ کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے ۔ ہماراملک تاریخ کے تمام ادوار میں عظیم الشان تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے ، ہردور میں یہاں کی گنگا جمنی تہذیب اقوام عالم کے لیے دل چسپی اور کشش کا باعث رہی ہے؛ لیکن افسوس آج مغرب کی اندھی تقلید اور اباحیت پسندی کے سیل رواںنے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے تقدس کو پو ری طرح پامال کر دیا ہے ، جدیدیت اور فیشن کے نام پر فحاشیت فروغ پاتی جا رہی ہے ، زنا کا ری اور عصمت دری کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔ہندوستان میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اور جنسی آوار گی کے اس سیلاب بلاخیز پر قابو نہیں پا یا گیا تو یہاں کی تہذیب و ثقافت کا حال بھی یو نان و روم سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔
آج ایک طرف چیختی ،چلاتی عورتوں،سسکتی، بلکتی دوشیزاؤوں، معصوم ونابالغ بچیوں کے دامن عفت کو تار تار کردیاجاتاہے اوردوسری طرف رسمی تعزیتی الفاظ اور روایتی قانونی کارروائی کے علاوہ کوئی دادرسی کے لئے تیارنہیںہوتا۔انفرادی عصمت دری کے علاوہ اجتماعی آبروریزی کے لرزہ خیز واقعات نے تو دلوں کو دہلا کررکھ دیا ہے ،بالخصوص ابھی حال ہی میں پیش آمدہ ریاست و ملک کے متعددسانحات نے تو شرم وحیا کی ساری حدوں کو پارکردیاہے۔
تفصیلات کے مطابق اترپردیش ضلع ہاتھرس کے چندپا نامی دیہات میں رہنے والی انیس سالہ دلت لڑکی ۱۴؍ستمبر کو کسی کام سے جارہی تھی کہ گائوں کے اعلیٰ ذات کے چار لڑکوں نے اس کا اغوا کرلیا اور پاس کے ایک کھیت میں لے جاکر اس کے ساتھ حیوانیت ودرندگی کامظاہرہ کیا۔ متاثرہ کے ساتھ درندوں نے کس طرح کا وحشیانہ سلوک کیا تھا،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے متاثرہ کو اغو اکرکے ایک کھیت میں لے جایا گیا جہاںاس کی اجتماعی آبروریزی ہوئی،اس کے بعددلت لڑکی کی زبان کاٹ دی گئی تاکہ وہ ملزمین کا نام اپنی زبان سے نہ لے سکے۔ بدمعاشوں نے صرف اتنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس مظلوم کی کمر کی ہڈی بھی توڑ دی تاکہ وہ خود اپنے قدموں سے چل کر اسپتال تک نہ پہنچ سکے۔ اس معاملے میں پولیس نے متاثر ہ کے گھر والوں کی شکایت پر پہلے صرف چھیڑ چھاڑ اور مار پیٹ کا معاملہ درج کرنے کے بعد اسے علی گڑھ کے جے این ہاسپٹل میں علاج کیلئے بھیج دیا۔ معاملے نے جب طول پکڑا اور عوام احتجاج کرنے لگے تو آٹھ روز بعد پولیس نے اپنی’لکھا پڑی‘ میں عصمت دری کا بھی اضافہ کردیا۔اجتماعی عصمت دری کا شکار ہونے والی متاثرہ نے پندرہ روز تک موت سے جنگ کے بعد منگل کو بالآخر دم توڑ دیا۔اس نے دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں آخری سانس لی۔ دو روز قبل ہی اسے علی گڑھ سے دہلی علاج کیلئے لایا گیا تھا۔اس موت پر پورا ملک غمزدہ ہے۔ دہلی سے لے کر یوپی تک لوگ سڑکوں پر اُتر آئے اور ملزمین کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس معاملے میں ہاتھرس پولیس نے چاروں نامزد ملزمین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم، پولیس کا رول اس معاملے میں مشکوک رہا ہے کیونکہ اس نے پہلے عصمت دری کی دفعہ کے تحت معاملہ درج ہی نہیں کیا تھا۔
یہ توملکی میڈیاکے ذریعہ منظر عام پر آنے والے افسوس ناک واقعے کی روداد غم تھی۔ ریاست تلنگانہ میں بھی عصمت دری کے واقعات میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہاہے۔ابھی چند ماہ قبل عصمت ریزی کیس کے ملزمین کا انکاونٹر کیا گیا تھا اس وقت سوائے چند گوشوں کے سارے ملک کے عوام نے خیر مقدم کیا تھا اور یہ رائے عام ہوگئی تھی کہ عصمت ریزی کے ملزمین کے ساتھ اسی طرح کی کارروائی ہونی چاہئے۔
ایسے معاملات میں ایک اور قابل فکر بات یہ دیکھی جا رہی ہے کہ کسی کسی کیس کو میڈیا میں پوری شدت کے ساتھ اچھالا جاتا ہے اور کسی معاملہ میں میڈیا کی جانب سے مکمل سردمہری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ معین آباد عصمت ریزی کیس میں بھی ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔جب تک عصمت ریزی اور قتل کے ملزمین کے ساتھ یکساں نوعیت سے کارروائی نہیں ہوگی اور ملزمین کو کیفر کردار نہیں پہونچایا جائے گا اس وقت تک ان سنگین واقعات پر قابو پانا مشکل ہے۔
ان واقعات کو پڑھ کر یا سن کرہم ہیں کہ صرف کڑھتے ہیں، کلبلاتے ہیں اور ٹھنڈی آہ بھر کے رہ جاتے ہیں؛جب کہ یہ ایک اجتماعی افتاد ہے جو اجتماعی کوششوں سے ہی ٹالی جا سکتی ہے ۔ درج ذیل تحریر اگرچہ حالیہ پیش آمدہ واقعات کے پس منظر میں لکھی گئی ہے؛ مگر ہمارے یہاں بھی ہر روز اسی طرح کے دلخراش اور دل سوز واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں،لہذا ہمیں ان جرائم کے اصل اسباب کو سمجھنا ہوگا اور ان کے سدباب کی کوشش کرنی ہوگی۔قبل اس کے کہ ان دل دوز سانحات کے اسباب و سد باب پر روشنی ڈالی جائے اس حوالے سے دنیابھر کے مختلف ممالک کے اعدادو شمار بھی ملاحظہ فرمائیں !
اعداد وشمار:
میرے پیش نظر آبروریزی اور جنسی تشدد کے حوالے سے ٹاپ 10 ملکوں کی ایک فہرست ہے ؛جس میں دسویں نمبر پر ملک ایتھوپیا ہے جہاں کی ساٹھ فیصد خواتین کو سیکسوئیل وائلنس کا سامنا کرنا پڑتاہے اور ہر سترہ میں سے ایک خاتون ریپ کا شکار ہوتی ہے۔عصمت دری کے حوالے سے نوواں بڑا ملک سری لنکا ہے جہاںزنی کے تعلق سے پیش آنے والے صرف چارفیصد معاملات کی شنوائی ہوتی ہے؛ جب کہ ۹۶ ؍فیصدمعاملات سردخانہ میں ڈال دیے جاتے ہیں۔خواتین سے بدسلوکی اور بے حرمتی کی فہرست میں آٹھواں بڑا ملک کینیڈا ہے جہاں 2,516,918 ریپ کیسز دو ہزار ایک سے اب تک رجسٹرڈ ہوئے ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہاں کے سرکاری محکموں کا یہ مانناہے کہ یہ رجسٹرڈ کیسز ٹوٹل کا چھ فیصد بھی نہیں ۔ساتواں نمبر فحاشی و زناکاری میں سرفہرست ملک فرانس کا ہے، معلوم ہوناچاہیے کہ 1980 سے پہلے تک تو یہاں ریپ کوئی جرم ہی نہیں سمجھا جاتا تھا ، اس کے سدباب کا کوئی قانون سرے سے موجودہی نہیں تھا، عورت پر جنسی اور جسمانی تشدد پہ قانون بنایا ہی 1992 کے بعد گیا،فرانس جیسے لبرل ملک میں سالانہ 75000 ریپ کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں۔چھٹے پر ٹیکنالوجی کے بادشاہ جرمنی کا نمبر آتا ہے جہاں اب تک 6505468 کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں یاد رہے ان میں سے 240000 سے زیادہ متاثرہ خواتین خودکشی و تشدد سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں ، ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کرتے اس ملک میں انسانیت اتنی ہی تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے ۔پانچواں نمبر انگلینڈ کا ہے جہاں 16 سال سے 56 سال کی عمر کی ہر پانچ میں سے ایک عورت کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس طرح سالانہ چار لاکھ خواتین انگلینڈ میں اپنا وقار کھو بیٹھتی ہیں ۔چوتھے نمبر پر ہندوستان آتا ہے , جہاں ہر بائیس منٹ بعد ریپ کا ایک کیس رجسٹرڈ کیا جاتا ہے، یاد رہے اعداد و شمار کے ماہرین کے نزدیک یہ تعداد اصل تعداد کا دس فیصد بھی نہیں؛ کیوں کہ پسماندگی کی وجہ سے نوے فیصد خواتین رپورٹ درج ہی نہیں کرواتیں ،تیسرے نمبر پہ سویڈن ہے جہاں ہر چار میں سے ایک عورت ریپ اور ہر دو میں سے ایک عورت جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہے ۔دوسرے نمبر پرساؤتھ افریقہ ہے جہاں بلحاظ آبادی سالانہ 65000 سے زائد کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں ۔ پہلے نمبر پر دنیاکا مہذب ترین ملک امریکہ ہے جہاں ہر چھ میں سے ایک عورت تو ریپ کا لازمی شکار ہوتی ہے پر ہر 33 میں سے ایک مرد بھی عورتوں کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہوتا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق عصمت دری کا شکار ہونے والی خواتین میں چھ سا ل کی بچی سے لے کر ساٹھ سال تک کی بزرگ خواتین بھی شامل ہیں،ان میں سب سے زیادہ تعداد ہمسایوں اور رشتہ داروں کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کی ہے ۔
نیشنل کرائم ریکارڈز بیوروکی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں خواتین کے خلاف جرائم کے مجموعی طور پر تین لاکھ ستائیس ہزار تین سو چورانوے معاملات درج کرائے گئے ؛جن میں عصمت دری کی کوشش کے چار ہزار چارسو سینتیس معاملات شامل تھے ۔رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم کی شرح کے لحاظ سے قومی دارالحکومت نئی دہلی سر فہرست رہا، جب کہ آسام دوسرے نمبر پر ہے۔
عمومی اسباب:
عام طور پر دین سے دوری اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت ایسے واقعات کے وجود میں آنے کا سبب ہوتی ہے ۔نگرانی اور تربیت کے حوالے سے والدین کی بے توجہی اور لاپرواہی بھی اس کی اہم ترین وجہ ہے،علاوہ ازیں نکاح جیسی آسان سنت کو ایک مشکل مسئلہ بنادینابھی اس کی بنیادی وجوہ میں سے ہے ۔جہیز اور گھوڑے جوڑے کے اخراجات سے گھبراکر والدین شادی میں تاخیر کرتے جاتے ہیں؛جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ نوجوان نسل ناجائزراستوں سے اپنی ضروریات کی تکمیل پر مجبورہوجاتی ہے، حالانکہ دین نے بچوں کی شادی کی جو عمر مقرر کی ہے اگر اسی عمر کو سامنے رکھ کر شادی کردی جائے تو بہت سے جنسی مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔
ان کے علاوہ زنا کا ری اور عصمت دری کے اسبا ب و محر کات کا اجمالی خاکہ بھی پیش کیاجاتاہے ۔چناں چہ فحش اور عریاں فلمیں، ٹی وی سیریل،گندی اور مخرب اخلا ق کتب اور رسائل،نائٹ کلبوں اور ہو ٹلوں میں نیم عریاں رقص، شہوت انگیز سنیما پوسٹراور تصاویر،جنسی اشتعال پیدا کر نے والے اشتہارات، جسم کی ساخت کو نما یاں اور عریاں کر نے والے مختصر اور تنگ زنانہ لباس، مخلوط تعلیم،بازاروں، کلبوں، کالجوں، اسکولوں اور تفریح گا ہوں میں مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل ملاپ، نیز شراب اور دیگر منشیات کا بے دریغ استعمال۔وغیرہ
عصمت دری اور زنا کاری کے بڑھتے واقعات پر قا بو پانے کے لیے ان امور پر کنٹرول کی سخت ضروت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم اور ضروری اقدام یہ بھی ہونا چاہیے کہ معاشرے میں نکاح کو آسان اور سہل بنا یا جا ئے ، تاکہ جنسی تسکین کا جائز ذریعہ مہیا ہو۔
عام طور پر زانی کے تعلق سے سزائے موت یا عمر قید کا پرزور مطالبہ کیاجاتاہے ؛مگرغورکرنے کا مقام ہے کہ اگر صرف سزائیں ہی مسئلہ کا حل ہوتیں تو مجرمین کو پھانسی چڑھانے کے بعدجرائم میں نمایاں کمی واقع ہوجانی چاہیے تھی؛ جبکہ جرائم کی رفتار میں بھیانک اضافہ ہورہا ہے ۔ اسی لئے اسلام نے سب سے پہلے معاشرہ کی تطہیر اور مناسب تعلیم پر زور دیا ہے تاکہ خواتین کو صرف جنسی تسکین کا ذریعہ نہ سمجھتے ہوئے انہیں ماں، بہن اور بیٹی کے روپ میں عزت دی جائے ،پھر جنسی جرائم کے تدارک کے لئے حجاب کو لازم قرار دیا ہے جو عورت کی عزت و حرمت کی بہترین علامت ہے ۔ ساتھ ہی اسلامی اصولوں کے مطابق جنسی جذبات کو برانگیختہ کرنے والا لٹریچر، فلمیں، وہ تمام پیشے اور ذرائع جن میں عورت کی بے حرمتی ہوتی ہے ممنوع ہیں۔ اس کے بعد آخری تدبیر کے طور پر سخت سزائوں کا مرحلہ آتا ہے تاکہ ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی جو لوگ جرم کے مرتکب ہوں انہیں سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ دیگر ساری احتیاطی تدبیروں کو بالائے طاق رکھ کر صرف سخت ترین سزا کا مطالبہ ایک واردات کے مجرم کو کیفرِ کردار تک تو پہونچا سکتا ہے ، مشتعل عوام کے جذبات کی تسکین بھی کر سکتا ہے لیکن اس نوعیت کے سنگین جرائم کے دوبارہ ارتکاب کو روک نہیں سکتا۔
سدباب:
آج کی اس بڑھتی ہوئی درندگی کے روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ اسلام کے دامن عفت میں پناہ لی جائے ؛کیوں کہ عورت کی عزت و عصمت کے تحفظ کے لیے دین اسلام نے جو نقطہ نظر پیش کیا ہے اور جو قوانین وضع کئے ہیں وہ ہرقوم و ملت کے لئے قابل دید اور لائق تقلید ہیں ۔چناں چہ خانہ نشینی سے لے کرپردہ وحجاب تک ،مردو زن کے مابین تقسیم کار سے لے کرادائے فرائض وواجبات تک سب میں خواتین کی عزت وآبرو کا تحفظ کیا گیا اور گام بہ گام انہیں پاکدامنی کی تعلیم دی گئی ؛ تاکہ صنف نازک کے شکاریوںکو شکار کا پتہ نہ چلے بلکہ اس کی بھنک بھی معلوم نہ ہو۔
اسے زیوروں کی جھنکار کے ساتھ سڑکوں پر چلنے سے منع کیاگیا، بے ضرورت باہر نکلنے اور کمانے کے لیے بازاروں کا رخ کرنے سے روک دیاگیاکہ کہیںکسب معاش کے پردے میں درندہ صفت انسان اس کی آبرو کا سودانہ کرلے ، بال بچوں کے اخراجات؛ بلکہ خود اپنی کفالت اور کسب معاش سے اسے آزاد رکھا گیا تاکہ باہر نکلنے کی ضرورت ہی نہ پڑے ،اگر کسی بھی اہم ضرورت کے پیش نظر نکلنے کی ضرورت ہی آپڑے تو اپنے چہرے کو ڈھانکنے کی تاکیدکی گئی تاکہ ’’چہرے کی رونق کا اظہار‘‘ اس کی اپنی زندگی کو ’’بے رونق‘‘ نہ بنادے ، اس کی ’’بے لباسی‘‘ اقربا ورشتہ داروں کو ’’ذلت کالباس‘‘ نہ پہنادے ، اگر اپنے سماج اور سوسائٹی سے باہر جانے کی ضرورت پیش آجائے تو اپنی عزت کا سب سے بڑا محافظ ، باپ ، بیٹا ، بھائی، شوہر اور محرم کو ساتھ رکھنے کا حکم فرمایاگیا۔ دوسری طرف مردوں کو بھی نظر یں جھکاکر چلنے کا حکم دیا گیا۔ اجنبیہ کو دیکھنے پر عذاب آخرت اور دہکتی ہوئی آگ سے ڈرایاگیا، انہیں نکاح کی طرف شوق ورغبت دلائی گئی، سن بلوغ کے فوراً بعد نکاح پر ابھارا گیا ، تاکہ پاکدامنی اس کا شیوہ رہے اورجنسی جذبات کووہ اپنے کنٹرول میں رکھ سکے ۔
مہر اور نفقہ کے علاوہ نکاح کو بھاری بھرکم اخراجات اور من مانی خواہشات کے ذریعہ بارگراں نہیں بنایاگیا، نہ تو لمبی چوڑی مجلس اوربڑے مجمع کی نکاح کے انعقاد میں شرط رکھی گئی، نہ ہی محفل عقدمیں قاضی اور جج کی حاضری کو ضروری قراردیاگیا؛بل کہ بہ شرط وسعت ایک بیوی سے اگر تسکین نہ ہوتو چارتک کی اجازت دی گئی، ناموافق حالات پیدا ہوں اور پہلی بیویوں کے ساتھ رہنا دوبھر ہوجائے اور مصالحت بھی رشتہ کو استوار نہ کرسکے تو مردوں کو طلاق اور عورتوں کو خلع کا اختیار دیاگیا۔
یہ اور ان کے علاوہ پچاسوں ایسے احکام ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر عصمت دری کے واقعات پر قابو پایاجاسکتا ہے ۔
عافیت چاہو تو آؤ دامن اسلام میں
یہ وہ دریا ہے کہ جس میں ڈوبتا کو ئی نہیں
ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی
موجودہ دور میں ایک سماجی مسئلہ، جس نے ملکی اور عالمی دونوں سطحوں پر گمبھیر صورت اختیار کرلی ہے، خواتین کی عزت و آبرو کی پامالی اور عصمت دری ہے۔ کبھی معاملہ عصمت دری پر رک جاتا ہے تو کبھی ظلم کی شکار خاتون کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ایک گھناونی صورت اجتماعی آبروریزی کی ہے، جس میں کئی نوجوان مل کر کسی معصوم لڑکی کو اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں، پھر بڑے درد ناک طریقے سے اسے قتل کردیتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔ کسی دن کا اخبار اٹھاکر دیکھ لیجیے، عصمت دری کی بہت سی خبریں اس میں مل جائیں گی۔ ان میں سے کچھ ہی معاملے عدالتوں تک پہنچ پاتے ہیں اور جو پہنچتے ہیں، ان میں بھی عدالتی پیچیدگیوں کی وجہ سے فیصلہ آنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور بہت کم ہی کیسوں میں مجرموں کو سزا مل پاتی ہے۔
یہ واقعات اب اتنی کثرت سے پیش آنے لگے ہیں کہ ان کی سنگینی کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن انہی کے درمیان کبھی کوئی درد ناک واقعہ رونما ہوتا ہے تو عوام بیدار ہوجاتے اور اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ اس موقع پر ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف تجاویز سامنے آتی ہیں۔ مثلاً مجرموں کو سرِ عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیاجاتا ہے، سخت سے سخت قوانین بنانے کی بات کہی جاتی ہے، کڑی نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے اور مضبوط سیکورٹی فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے، لڑکیوں کو جوڈو کراٹا سیکھنے اور خود حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں بعض اطراف سے ایک آواز یہ بھی سنائی دیتی ہے کہ زنا کی وہ سزا نافذ کی جائے جو اسلام نے تجویز کی ہے۔ اسی بات کو بعض لوگ ان الفاظ میں کہتے ہیں کہ سزائے زنا کے لیے عرب ملکوں جیسا قانون بنایا جائے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ مطالبے ان لوگوں کی طرف سے بھی ہوتے ہیں جو اسلام کے شدید مخالف ہیں ، جو اسلام پر اعتراضات کرنے اور مسلمانوں کو برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، لیکن چوں کہ انھوں نے کہیں سے سن رکھا ہے کہ اسلام زنا کرنے والے کو پتھر مار مار کر ہلاک کرنے کا حکم دیتا ہے، اور جرم کی سنگینی کی بنا پر یہ سزا ان کے دل کی آواز ہوتی ہے، اس لیے ان کے اندرون میں چھپی خواہش ان کی زبان پر آجاتی ہے اور وہ خواہی نہ خواہی اسلام کا نام لینے لگتے ہیں۔
آبرو ریزی کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت سے سخت قانون بنانے کی بات کی جائے، یا اسلامی سزائے زنا کو نافذ کرنے کی تجویز رکھی جائے، دونوں مطالبے جذباتیت کے مظہر اور سنجیدگی سے محروم ہیں۔ کتنا ہی سخت قانون بنا لیا جائے، اس سے جرائم کا بالکلیہ خاتمہ ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سماج کو پاکیزہ بنانے کی تدابیر اختیار کی جائیں اور جو چیزیں غلط کاموں پر ابھارتی اور جرائم کے ارتکاب کی جانب مائل کرتی ہیں، ان پر پابندی عائد کی جائے۔ قانون جرائم کو روکنے میں معاون تو ہوسکتا ہے، لیکن محض قانون سے ان کا سدِّ باب ناممکن ہے۔ اگر جرائم کے تمام محرکات اور ترغیبات کو علی حالہ باقی رکھا جائے اور محض کوئی سخت تر قانون منظور کرلیا جائے تو جرائم میں تو کوئی کمی نہیں آئے گی، البتہ قانون کے غلط انطباقات کے اندیشے بڑھ جائیں گے۔ عدالتوں کے بھاری مصارف کی بنا پر اس کا خدشہ رہے گا کہ غریب اور اپنے دفاع سے عاجز سزاپاجائیں اور مال دار اور طاقت ور اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے سزا سے بچ جائیں۔اسی طرح اسلام کے کسی ایک حکم کا مطالبہ اور دیگر احکام سے صرفِ نظر درست رویّہ نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے اسلامی نظام کو ایک کل کی حیثیت سے قبول کرنا ہوگا۔ اسلامی تعلیمات کے اثرات کا مشاہدہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پورے کے پورے اسلام کو نافذ کیا جائے۔ جس طرح کوئی مشین اسی وقت صحیح طریقے سے کام کرے گی، جب اس کے تمام پرزے اپنی اپنی جگہ فٹ ہوں، اگر اس میں سے کوئی ایک پرزہ نکال لیا جائے تو نہ مشین صحیح ڈھنگ سے وہ کام کرے گی جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے اور نہ اس نکالے گئے پرزے سے وہ کام لیا جاسکتا ہے جو پوری مشین کے کرنے کا تھا، اسی طرح اسلام کے کسی ایک قانون کو نافذ کردیا جائے اور اس کے دیگر احکام پر عمل نہ کیا جائے تو اس سے بھی مطلوبہ فائدے حاصل نہیں ہوسکتے۔
ہر انسان میں فطری طور پر جنس (Sex) کی خواہش پائی جاتی ہے۔ اس کے تعلق سے مختلف رویّے اختیار کیے گئے ہیں۔ایک رویّہ جنسی خواہش کو دبانے اور کچلنے کا ہے تو دوسرا رویہ اس کے معاملے میں ہر طرح کی آزادی کی وکالت کرتا ہے۔ اسلام نہ تو جنسی جذبہ کو دبانے اور کچلنے کی ترغیب دیتا ہے اور نہ انسان کو کھلی چھوٹ دے دیتا ہے۔ وہ ہر انسان کو اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کا حق دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس نے اس کی تکمیل کو نکاح کا پابند بنایا ہے اور اس سے ماورا کسی طرح کا تعلق رکھنے کو حرام قرار دیا ہے۔اس کی نظر میں جتنا سنگین جرم زنا بالجبر ہے، اتنا ہی سنگین جرم زنا بالرضا بھی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی بھی لڑکا یا لڑکی بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد بغیر نکاح کے نہ رہیں، بلکہ جلد از جلد نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں۔ چنانچہ وہ ان کے سر پرستوں کو اس کی طرف متوجہ کرتا اور ان کا نکاح کرادینے کی تلقین کرتا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے نکاح کی صرف ترغیب ہی نہیں دی، بلکہ اسے آسان بنانے کے صریح احکام دیے ہیں۔
ایک چیز یہ بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد انسان کی بھرپور تربیت کرتے ہیں اور اسے زندگی کے کسی معاملے میں بہکنے سے بچاتے ہیں۔ ان عقائد پر ایمان سے آدمی کی زندگی سنورتی اور اس میں پاکیزگی آتی ہے۔ خاص طور پر دو عقائد کا کردار اس معاملے میں بہت نمایاں ہے:ایک یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ موجود ہے اورہر انسان کو دیکھ رہا ہے۔ وہ کوئی کام چاہے علانیہ کرے یا چھپ کر، اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کی خبر ہوجاتی ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے۔دوسرا عقیدہ آخرت کاہے۔ اس کے مطابق یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہ دنیا فنا ہوجائے گی اور دوسری دنیا برپا ہوگی۔ اس میں تمام انسان دوبارہ پیدا کیے جائیں گے اور ان سے اس دنیا میں کیے گئے ان کے تمام اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ جن لوگوں نے یہاں اچھا کام کیے ہوں گے انھیں جنت عطا کی جائے گی، جس میں طرح طرح کی نعمتیں ہوں گی اور جن لوگوں نے یہاں برے کام کیے ہوں گے انھیں جہنم میں جھونک دیا جائے گا، جس میں تکلیف و اذیت کا ہر سامان موجود ہوگا۔ اس کے علاوہ اسلام نے ہر فرد کے اندر حیا کا جذبہ ابھارا ہے۔یہ جذبہ اسے بے حیائی کے کاموں سے روکتا ہے۔ اگر کسی کے اندر حیا نہ ہو تو وہ غلط سے غلط کام کا ارتکاب کرسکتا ہے۔
اسلام نے افراد کے لیے جنسی آسودگی فراہم کرنے کے ساتھ معاشرہ کی پاکیزگی قائم رکھنے کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔ یہ تدابیر افراد کو جرائم کا ارتکاب کرنے سے باز رکھتی ہیں اور جنسی جرائم کے تمام ممکنہ چور دروازوں کو بند کرتی ہیں۔ مثلاً اس نے مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ بدنگاہی سے بچیں اور آبرو کی حفاظت کریں۔ اس کی ایک تعلیم یہ ہے کہ کوئی مرد یا عورت کسی نامحرم کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے۔ وہ مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط پسند نہیں کرتا۔ وہ چاہتا ہے کہ مرد اور عورتیں گھل مل کر نہ رہیں،اس لیے کہ مخلوط طور پر رہنے سے ان میں صنفی جذبات ابھرنے کا امکان رہتا ہے اور یہ چیز بسا اوقات بدکاری تک پہنچا سکتی ہے۔اسلام کی ایک ہدایت یہ ہے کہ کوئی عورت اپنے شوہر یا محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔وہ اپنی ضروریات کے لیے مختصر مسافت تک تو تنہا نکل سکتی ہے، لیکن دور کی مسافت پر تنہا جانا اس کے لیے روا نہیں ہے۔اسلام نے حکم دیا ہے کہ کوئی عورت سج دھج کر گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ باہر نکلتے وقت خوشبو لگائے۔ اس لیے کہ اگر وہ ایسا کرے گی تو اجنبی مردوں کی نگاہیں اس کی جانب اٹھیں گی اور ان کے صنفی جذبات مشتعل ہوں گے، اس وجہ سے اس پر دست درازی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔اسلام کا ایک حکم یہ ہے کہ عورتیں ایسا لباس پہنیں جو ان کے پورے جسم کو (سوائے چہرہ اور ہاتھ کے) چھپانے والا ہو۔ نہ ان کا سر کھلا ہو، نہ گریبان چاک ہو اور نہ لباس اتنا شفّاف ہو کہ ان کا بدن جھلکتا ہو۔ وہ غیر مردوں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار نہ کریں۔
درج بالا احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ اسلام نے ان چیزوں پر بھی پابندی عائد کی ہے جو بدکاری پر ابھارنے والی اور مردوں اور عورتوں میں صنفی جذبات برانگیختہ کرنے والی ہیں۔چنانچہ اس نے شراب کو حرام قرار دیا ہے۔شراب کے بارے میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ وہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ شراب پینے کے بعد آدمی اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتا اور بھلے برے کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ اسے کچھ پتہ نہیں رہتا کہ کب کیا حرکت کر بیٹھے؟ اسی طرح شراب سے آدمی کے صنفی جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں اور رشتوں کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔ظاہر ہے، جب اسلام کے نزدیک شراب نوشی حرام ہے تو وہ شراب کی فیکٹریاں قائم کرنے اور اس کا کاروبار چلانے کی کیوں کر اجازت دے سکتا ہے!اسی طرح اسلام سماج میں فحاشی کی اشاعت کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ وہ ان تمام چیزوں پر پابندی عائد کرتا ہے جن کے ذریعے بے حیائی اور عریانی عام ہو، گندی باتوں اور گندے کاموں کا پرچار ہو، جنھیں دیکھ کر اور سن کر عوام کے صنفی جذبات بھڑکیں اور برائی اور بدکاری کی جانب ان کا میلان ہو۔ موجودہ دور میں سماج میں فحاشی، بے حیائی اور عریانی پھیلانے والی بہت سی چیزیں رواج پا گئی ہیں، مثلاً گندی فلمیں، عریاں پوسٹر اور اشتہارات، بے حیائی کا پرچار کرنے والے رسائل، انٹرنیٹ پربے شمار عریاں سائٹس وغیرہ۔ سماج کے لیے ان چیزوں کا ضرر رساں ہونا کھلی حقیقت ہے، لیکن چوں کہ انھوں نے انڈسٹریز کی شکل اختیار کرلی ہے اور ان سے حکومت اور سربر آوردہ طبقہ کو خطیر رقمیں حاصل ہوتی ہیں اس لیے ان کی خطرناکی کو نظر انداز کرکے انھیں خوب بڑھا وا دیا جا رہا ہے۔
ان تعلیمات اور ہدایات کے بعدآخر میں اسلامی قانون اپنا کام کرتا ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود سماج میں کچھ ایسے بدخصلت افراد ہوسکتے ہیں جو بدکاری میں ملو ّث ہوجائیں۔ ایسے لوگوں کے لیے اسلام درد ناک سزا تجویز کرتا ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ زنا کرنے والے غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکی، ہر ایک کو سو کوڑے مارے جائیں اور اگر وہ شادی شدہ ہوں تو انھیں پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے۔
معاشرہ کو پاکیزہ رکھنے کے لیے اسلام کی ان تعلیمات کے اثرات کا دنیا نے اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ عرب کا معاشرہ فسق و فجور کے دلدل میں غرق تھا، عصمت و عفّت کے کوئی معنیٰ نہیں تھے۔ اسلام کی ان تعلیمات کے نتیجے میں ان کی زندگیاں پاکیزہ ہوگئیں اور عورت کو عزت و توقیر حاصل ہوئی۔ بعد کے ادوار میں جہاں جہاں ان تعلیمات پر عمل کیا گیا اور ان احکام کو نافذ کیا گیا وہاں سماج پر ان کے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے۔ آج بھی جو لوگ سماج میں برائیوں کو پنپتا دیکھ کر فکر مند ہیں اور آبرو ریزی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے اسلامی سزا کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اسے نافذ کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اگر وہ سنجیدہ ہیں تو انھیں پورے اسلامی نظام معاشرت کو قبول کرنا اور اسلام کی تمام تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا، تبھی مطلوبہ فائدے حاصل ہوسکتے ہیں، برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے اور معاشرہ کی پاکیزگی قائم رکھی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
ہندوستان میں زناکاری کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ چند روز قبل حیدرآباد میں ہوئے شرمناک واقعہ نے شریف لوگوں کی نیند حرام کردی جس میں ایک خاتون ڈاکٹر کی اجتماعی عصمت دری کرکے اسے زندہ جلا دیا گیا۔ دوسری طرف سنبھل سے ۱۰ کیلومیٹر فاصلہ پر مرادآباد روڑ پر واقع سرسی نامی قصبہ میں ایک لڑکی کی عصمت دری کرکے اسے بھی زندہ جلا دیا گیا۔ ۲۰۱۷ء میں لکھنؤ چنڈی گڑھ ٹرین میں بجنور کے قریب ہوئے ایک روزہ دار مسلم خاتون کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعہ نے تو انسانیت کو ہی شرمسار کرڈالا تھا۔ ۲۰۱۲ء کے نربھیا واقعہ نے بھی پورے ہندوستان کے لوگوں کے سکون کو ختم کردیا تھا۔ گنتی کے صرف چند واقعات ہی عام لوگوں کے سامنے آتے ہیں ورنہ موجودہ دور میں روزانہ بے شمار لڑکیاں ظالموں کی ہوس کا شکار بنتی ہیں جو اپنی اور گھر والوں کی آبرو کی حفاظت ظالموں کے خلاف شکایت درج نہ کرنے میں سمجھتی ہیں۔ ایسے مواقع پر پولیس کے رویہ سے بھی لوگ ناراض رہتے ہیں کہ وہ وقت پر شکایت درج نہیں کرتی یا کاروائی کرنے میں اتنی تاخیر کرتی ہے کہ مجرموں کو فرار ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ یقینا اب ہندوستانی قوانین کے مطابق ایسے مجرموں کو پھانسی کی سزا دی جانی چاہئے مگر عدالتی نظام میں بعض پیچیدگیوں کی وجہ سے مجرم یا تو چھوٹ جاتا ہے یا سزا کا فیصلہ اتنی تاخیر سے آتا ہے کہ اس سے عبرت حاصل نہیں ہوتی۔ ایک بار پھر لوگ خاص کر خواتین بی جے پی حکومت سے اپنی حفاظت کا مطالبہ کرنے کے لئے سڑکوں پر آکر جگہ جگہ احتجاج کررہی ہیں۔ نیز یہ بات بھی مسلّم ہے کہ صرف چند مجرموں کو پھانسی دے کر اس مہلک بیماری پر قابو پانا آسان نہیں ہے۔ اسلام میں متعین سزا اور اس سے بچنے کی تدابیر پر عمل ہی اصل میں اس جرم عظیم کا سد باب ہے۔ آئیے قرآن وحدیث کی روشنی میں سمجھیں کہ زنا کیا ہے؟، زنا کے اسباب کیا ہیں؟، زنا کے اقسام کیا ہیں؟، اس جرم عظیم سے کیسے بچا جائے؟ اور اسلام میں زانی کی سزا کیا ہے؟
نکاح کے بغیر کسی مرد وعورت کا مباشرت (Intercourse) کرنا زنا کہلاتاہے خواہ وہ طرفین کی اجازت سے ہی کیوں نہ ہو۔ اصل میں زنا نکاح کے بغیر مرد کی شرمگاہ کا عورت کی شرمگاہ میں داخل ہونے کا نام ہے لیکن میاں بیوی کے علاوہ کسی بھی مردو عورت کا ایک دوسرے کو شہوت کی نظر سے دیکھنا یا ایک دوسرے سے جنسی شہوت کی بات چیت کرنا یا ایک دوسرے کا تنہائی میں ملنا یا ایک دوسرے کو چھونا یا بوسہ لینا بھی حرام ہے۔ ان افعال کو بھی سارے نبیوں کے سردار حضور اکرم ﷺ نے زنا کی قسم قرار دیا ہے، اگرچہ ان افعال کی وہ سخت سزا نہیں ہے جو اصل زنا کی ہے۔ قتل، ظلم، جھوٹ، دھوکہ دھڑی اور چوری کی طرح زنا بھی ایک ایسا جرم عظیم ہے کہ تمام مذہب میں نہ صرف سختی کے ساتھ اس بڑے گناہ سے منع کیا گیا ہے، بلکہ زنا کرنے والے مرد وعورت کے لیے سخت سے سخت سزا بھی متعین کی گئی ہے ۔ نہ صرف اسلام بلکہ عیسائی اور یہودی مذہب میں بھی اس جرم عظیم کے مرتکبین کی سزا رجم (سنگ باری) ہے۔ یہ ایسا بڑا گناہ ہے کہ دنیامیں اس سے زیادہ بڑی سزا کسی دوسرے جرم کی متعین نہیں کی گئی کیونکہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک تمام انسانی معاشروں نے اس جرم عظیم پر نہ صرف لعنت بھیجی ہے بلکہ ایسے اعمال سے بچنے کی تعلیم بھی دی ہے جو زنا کی طرف لے جانے والے ہوں۔
انسانی فطرت بھی خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے ورنہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ جانوروں کی صف میں کھڑا ہوجائے گا۔ دنیا کی بقا بھی اسی میں ہے کہ زنا کو حرام قرار دیا جائے اور اس کے مرتکبین کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ تمام پرندوں، چرندوں، درندوں اور اللہ کی دیگر مخلوقات پر حکومت کرنے والے حضرت انسان محض جنسی شہوت کو پورا کرنے کے لیے یہ دنیاوی زندگی گزارنے لگے کہ جب چاہا اور جس سے چاہا لطف اندوز ہوگیا تو انسانی تمدن ہی ختم ہوجائے گا کیونکہ مرد وعورت میں نکاح کے عمل کے بعد صحبت کے نتیجہ میں اللہ کے حکم سے اولاد پیدا ہوتی ہے، ماں باپ اسے اپنی اولاد اور مستقبل کا سہارا سمجھ کر ان کے لیے تمام دشواریوں اور پریشانیوں کو برداشت کرتے ہیں، ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرتے ہیں، نیز دوسروں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کس کا بچہ یا بچی ہے تو رشتہ داری بنتی ہے اور پڑوس بنتا ہے، جس سے ایک دوسرے کے حقوق معلوم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک معاشرہ بنتا ہے۔ اگر انسانوں کو بھی جانوروں کی طرح آزاد چھوڑ دیا جاتا تو انسانی تمدن کا خاتمہ ہوکر یہ دنیا بہت پہلے ہی ختم ہوچکی ہوتی۔
زنا بہت بڑا گناہ ہے: اسلام نے صرف زنا کو حرام نہیں قرار دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیاکہ زنا کے پاس بھی نہ بھٹکو۔ وہ یقینی طور پر بڑی بے حیائی اور بے راہ روی ہے۔ (سورۃ الاسراء ۳۲) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زنا کو فاحشہ قرار دیا ہے۔ سورۃ الانعام آیت ۱۵۱ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بے حیائی (فواحش) کے کاموں کے پاس بھی نہ بھٹکو ،چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی۔ سورۃ الاعراف آیت ۳۳ میں اللہ تعالیٰ فواحش یعنی بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دے کر ارشاد فرماتا ہے: کہہ دو کہ میرے رب نے تو بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی۔ سورۃ الفرقان آیت ۶۷ میں ایمان والوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اور وہ نہ زنا کرتے ہیں۔ جو شخص بھی یہ کام کرے گااُسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قیامت کے دن اُس کا عذاب بڑھا کر دوگنا کردیا جائے گا۔ اور وہ ذلیل ہوکر اُس عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ حدیث کی سب سے معتمد کتاب (بخاری) میں وارد احادیث میں سے چند احادیث پیش ہیں تاکہ موجودہ زمانہ میں پھیلتے ہوئے اس گناہ سے خود کا بچنا اور دوسروں کو بچانا ممکن ہوسکے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کی شرطوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھ جائے گا، جہالت پھیل جائے گی۔ شراب پی جانے لگے گی اور زنا پھیل جائے گا۔ (بخاری) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بندہ جب زنا کرتا ہے تو مومن رہتے ہوئے وہ زنا نہیں کرتا۔ (بخاری) یعنی ایمان کی نعمت اُس وقت چھین لی جاتی ہے یا ایمان کا تقاضا ہے کہ کوئی بھی شخص زنا نہ کرے یا وہ شخص کامل مؤمن نہیں جو زنا کرے۔
زنا کے اسباب: (۱) نامحرم کو بلاوجہ دیکھنا: حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آنکھوں کا زنا بد نظری ہے، اور کانوں کا زنا غلط بات سننا ہے، اور زبان کا زنا غلط بات بولنا ہے، اور ہاتھ کا زنا غلط چیز کو پکڑنا ہے، اور پیر کا زنا برے ارادے سے چلنا ہے، اور دل خواہش اور تمنا کرتا ہے اور پھر شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ (بخاری) (۲) غیر محرم کے ساتھ باتیں کرنا: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عورتوں کو حکم دیا کہ اگر انہیں کسی وقت غیر محرم مرد سے گفتگو کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اپنی آواز میں لوچ اور نرمی پیدا نہ ہونے دیں، اور نہ ہی الفاظ کو بنا سنوار کر باتیں کریں۔ ارشاد باری ہے: اور نہ ہی چبا کر باتیں کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ تمنا کرنے لگے۔ اور تم معقول بات کرو۔ (سورۃ الاحزاب ۴) عورت کی آواز اگرچہ ستر نہیں ہے، یعنی ضرورت کے مطابق عورت غیر محرم سے بات کرسکتی ہے مگر اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر عورت کی آواز میں کشش رکھی ہے۔ اسی لیے عورت کو فقہاء نے اذان دینے سے منع کیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع کیا کہ مرد اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کے سامنے نرمی سے بات چیت کرے جس سے عورت کو مرد میں دلچسپی پیدا ہوجائے۔ (النہایہ) اِن دنوں سوشل میڈیا کے زمانے میں غیر محرموں سے چیٹنگ کرنا، مختلف فوٹو شیئر کرنا اور آن لائن بات چیت کرنا کافی عام ہوگیا ہے، لیکن یہ بہت خطرناک بیماری ہے، اس سے اپنے بچوں اور بچیوں کو حتی الامکان محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا ضروری ہے کیونکہ یہی وہ راستے ہیں جن کے ذریعہ ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں جن سے نہ صرف گھر اور خاندان کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ آخرت میں بھی دردناک عذاب ہوتا ہے۔ (۳) تاخیر سے شادی: حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے نوجوانوں! جو تم میں سے جسمانی اور مالی استطاعت رکھتا ہے وہ فوراً شادی کرلے کیونکہ شادی کرنے سے نگاہوں اور شرمگاہوں کی حفاظت ہوجاتی ہے۔ (بخاری) اِن دنوں کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے شادی میں عموماً تاخیر ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہمیں حتی الامکان بچوں اور بچیوں کی شادی میں زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ (۴) اجنبی مرد وعورت کا اختلاط: حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں رہتا ہے۔ (ترمذی) اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب اجنبی مرد وعورت ایک جگہ تنہائی میں جمع ہوتے ہیں تو ان میں تیسرا شخص شیطان ہوتا ہے، جو اُن کوگناہ پر آمادہ کرتا ہے۔ (مسند احمد) اِن دنوں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مشترک تعلیم کی وجہ سے اجنبی مرد وعورت کا اختلاط بہت عام ہوگیا ہے۔ نیز خواتین کا ملازمت کرنے کا مزاج دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ خواتین یقینا شرعی پابندیوں کے ساتھ قرآن وحدیث کی تعلیم کے ساتھ دنیاوی علوم حاصل کرسکتی ہیں، اسی طرح ملازمت اور کاروبار بھی کرسکتی ہیں۔ لیکن تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں رائج موجودہ تعلیمی نظام اور دفاتر میں کام کرنے والی بے شمار خواتین جنسی استحصال کی شکار ہوتی ہیں۔ میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ ہم اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم نہ دلائیں یا خواتین کا ملازمت کرناحرام ہے، لیکن زمینی حقائق کا ہم انکار نہیں کرسکتے۔ اس لیے بچوںاور بچیوں کی تعلیم کے لیے حتی الامکان محفوظ اداروں کو اختیار کریں کیونکہ بہر حال اس دنیا کو الوداع کہہ کر ایک دن اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوکر دنیاوی زندگی کا حساب دینا ہے۔
زنا کاری سے بچنے کی اہمیت: حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: (قیامت کے دن گرمی اپنے شباب پر ہوگی اور ہر آدمی کو بمشکل دو قدم رکھنے کے لیے جگہ ملے گی، مگر اس سخت پریشانی کے وقت بھی) سات قسم کے آدمی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے (رحمت کے) سایہ میں جگہ عطا فرمائے گا، اور اس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ان ساتوں اشخاص میں سے ایک شخص وہ ہے جسے خوبصورت اور اچھے خاندان کی لڑکی بدکاری کی دعوت دے تو دہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (بخاری) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھے اپنے دونوں ٹانگوں کے درمیان (شرمگاہ) کی اور اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان (زبان) کی ضمانت دی یعنی حفاظت کی تو میں اسے جنت کی ضمانت دوں گا۔ (بخاری) رشتہ سے قبل لڑکا اور لڑکی کا ایک دوسرے کو دیگر حضرات کی موجودگی میں دیکھنے اور حسب ضرورت بات کرنے کی شرعاً اجازت ہے، لیکن رشتہ کے بعد نکاح کے بغیر لڑکے اور لڑکی کا ساتھ سفر کرنا یا خلوت میں ملنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر نکاح ہوچکا ہے لیکن رخصتی نہیں ہوئی ہے تو دونوں کو ملنا اور بات چیت کرنا شرعاً جائز ہے۔
اسلام میں زانی کی سزا: سارے نبیوں کے سردار حضرت محمد ﷺ نے اپنے قول وعمل کے ذریعہ بیان فرمایا کہ سورۃ النور (آیت ۱ سے ۹ تک) میں وارد حدِّ زنا اُس مردو عورت کے لیے ہے جس نے ابھی شادی نہیں کی ہے اور زنا کا خود اعتراف کیا ہے یا چار گواہوں کی چند شرائط کے ساتھ گواہی سے زنا کا ثبوت ہوا ہے، یعنی اُس کو ۱۰۰ کوڑے ماریں جائیں۔ لیکن اگر زنا کرنے والا شادی شدہ ہے تو نبی اکرم ﷺ نے اپنے قول وعمل سے بتایا کہ اُس کی سزا رجم (سنگساری) ہے۔ صحابۂ کرام نے بھی شادی شدہ شخص کے زنا کرنے پر رجم (سنگساری) ہی کیا۔ لیکن یہ ذمہ داری صرف اسلامی حکومت کی ہے، کسی شخص یا تنظیم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو سنگساری کی سزا دے۔ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے حد جاری نہیں کی جاسکتی ہے، ہاں مسلمان سے ایسا گناہ ہونے پر پہلی فرصت میں اسے توبہ کرنی چاہئے اور پوری زندگی اس جرم عظیم پر اللہ تعالیٰ کے سامنے رونا اور گڑگڑانا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ معاف فرمادے اور آئندہ زنا کے قریب بھی نہ جاناچاہئے کیونکہ زنا کرنے والے شخص سے اللہ تعالیٰ بات بھی نہیں فرمائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے اگر زنا سے سچی توبہ نہیں کی۔