علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبۂ عربی میں گاندھی جینتی کے موقع پر ایک روزہ بین الاقوامی ویبینارمنعقد ہوا جس کی صدارت اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر زکریا السرطی، ڈائریکٹر جنرل الضیا ء انسٹی ٹیوٹ برائے تحقیق، مراکش نے شرکت کی۔ ڈاکٹر یٰسین سعدان، سینئر ریسرچر ،جامعہ محمد الخامس مراکش اور ڈاکٹر حنا شبائکی ،پروفیسر امیر عبد القادر یونیور سٹی سنتینہ، الجزائر نے مہمان ذی وقار کی حیثیت سے اس پروگرام کو رونق بخشی۔پروفیسرطارق منصور نے اپنے صدارتی کلمات میں اس ویبنارکے ڈائریکٹر پروفیسر فیضان احمد صدر شعبہ عربی کو پروگرام کے انعقاد پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دلی مبارکباد پیش کی۔ اس کے بعد گاندھی جی کی شخصیت اور ان کے فلسفۂ حیات کے چند نمایاں پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ گاندھی جی نے اپنی پوری زندگی مساوات اور عدم تشدد کا درس دیا۔ جنوبی افریقہ میں قیام کے دوران انہوں نے اپنے انہیں نظریات اور اصولوں کا عملی مظاہرہ کیا۔ ہندوستان کی آزادی میں ان کے فلسفۂ حیات کا بہت بڑا رول رہا ہے، وہ قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے علمبردار تھے اور تقسیم ہند کے مخالف تھے۔ علی برادران کے ساتھ خلافت تحریک میں شریک تھے ۔ وہ اہنسا اور ستیہ گرہ کے اصولوں پر چل کر پوری دنیا میں مقبول ہوئے، جس کی جیتی جاگتی مثال شعبہ عربی کا یہ ویبنار ہے۔ ڈین فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر مسعود انور علوی نے ویبنار کے انعقاد پر شعبہ عربی کے تمام اساتذہ کرام کو مبارکباد پیش کی اور بحیثیت ڈین تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔صدر شعبہ عربی اور ویبنار کے ڈائریکٹر پروفیسر فیضان احمدنے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ گاندھی جی کے فلسفۂ زندگی کی معنویت جس طرح سے سابقہ ادوار میں رہی ہے اسی طرح موجودہ دور میں بھی باقی ہے۔ گاندھی جی کی زندگی اور انکے کارنامے اور اصول و نظریات پر جس طرح دنیا کی مختلف زبانوں میں تفہیم و تشریح کی گئی ہے اسی طرح عربی زبان میں بھی عرب ادبا ء اور مصنفین کی بے شمار تحریریں ملتی ہیں۔مہمان خصوصی پروفیسر زکریا السرطی نے اپنے کلیدی خطاب میں گاندھی جی کے فلسفۂ انسانیت کو موضوع بحث بنایا اور عرب دنیا میں ان کی مقبولیت کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ عالم عرب میں جن ادبا ء و مصنفین نے گاندھی جی کی شخصیت اور ان کے فکرو فلسفہ کو موضوع بحث بنایا ان میں عباس محمود العقاد، احمد امین، سلامہ موسی اور احمد شوقی کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
عربی
اردویونیورسٹی میں پی جی اور یوجی کورسزمیں داخلے کے لیے آن لائن درخواست کی آخری تاریخ 30 ستمبر
حیدرآباد:مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں میرٹ کی اساس پر داخلے 30؍ستمبر تک جاری رہیں گے۔ آن لائن درخواست داخل کرنے کی سہولت یونیورسٹی ویب سائٹ manuu.edu.in پر دستاب ہے۔ جز وقتی ڈپلوما اور سرٹیفکیٹ کورسز کی آخری تاریخ 20 نومبر ہے۔ یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویٹ پروگرام ( ایم اے-اردو، انگریزی، ہندی، عربی،مطالعات ترجمہ ،فارسی ؛ مطالعات نسواں، نظم و نسق عامہ، سیاسیات،سوشل ورک، اسلامک اسٹڈیز، تاریخ، معاشیات، سماجیات؛ صحافت وترسیل عامہ؛ ایم کام اور ایم ایس سی،ریاضی) ؛ انڈر گریجویٹ پروگرامس میں بی اے، بی اے(آنرس) – جے ایم سی، بی کام، بی ایس سی (ریاضی،طبیعات،کیمیا۔ایم پی سی)، بی ایس سی(ریاضی،طبیعات،کمپیوٹر سائنس،ایم پی سی ایس) اور بی ایس سی (حیاتی علوم – زیڈ بی سی)؛ بیچلر آف ووکیشنل کورسس کے تحت میڈیکل امیجنگ ٹکنالوجی (ایم آئی ٹی)اورمیڈیکل لیبارٹری ٹکنالوجی (ایم ایل ٹی)؛ مدارس کے فارغ طلبہ کے لیے برائے داخلہ انڈر گریجویٹ (بی کام/ بی ایس سی) اورپالی ٹیکنک پروگرامس کے لیے برج (رابطہ) کورسز میں داخلے دیئے جارہے ہیں۔ علاوہ ازیں لیٹرل انٹری کے تحت بی ٹیک اورپالی ٹیکنیک میں اہل طلبہ کو راست داخلے اور پی جی ڈپلوما ان ریٹیل مینجمنٹ اور جزوقتی ڈپلوما پروگراموں میں اردو ، ہندی،عربی،فارسی اوراسلامک اسٹڈیز،تحسین غزل واردومیں سرٹیفکیٹ کورس بھی دستیاب ہیں۔تمام کورسس کی تفصیلات کے لیے یونیورسٹی ویب سائٹ ملاحظہ کریں۔اس کے علاوہ یونیورسٹی کے انٹرنس پر مبنی ریگولر کورسس میں داخلہ کے لیے انٹرنس ٹسٹ 28، 29 اور 30 ستمبر کو منعقد کیے جائیں گے۔اہل درخواست گذار طلبہ یونیورسٹی ویب سائٹ سے ہال ٹکٹ ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔ انٹرنس کا تفصیلی شیڈول اور دیگر تفصیلات یونیورسٹی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔اس دوران نظامت داخلہ کی اطلاع کے بموجب ایسے امیدواروں جنہوں نے داخلے کے لیے مختلف زمروں کے تحت درخواست دی ہے کو مطلع کیاجاتاہے کہ انہیں اپنا سرٹیفکیٹ اپ لوڈ کرنا ہوگا۔لہٰذا او بی سی ، ایس سی / ایس ٹی ، ای ڈبلیو ایس اور پی ڈبلیو ڈی امیدواراپنامتعلقہ سرٹیفکیٹ جو کہ حکومت ہند کے فارمیٹ میںہو تیار رکھیں ، دیگر فارمیٹ مسترد کردیے جائیں گے۔سرٹیفکیٹ اپ لوڈ کرنے کی تاریخ کی اطلاع بعد میں دی جائے گی۔
دنیا کی جتنی زبانیں ہیں ان کے سلسلے میں عمومی اصول یہ ہے کہ نصف صدی کے دورانیہ سے ان کے الفاظ و معانی اور استعمالات بدل جاتے ہیں، دوسری اقوام سے خلط ملط اور دوسری ضرورتوں سے نئے الفاظ شامل ہوتے ہیں اور پرانے الفاظ متروک ہوجاتے ہیں۔
اس کی مثال میں آپ مولانا آزاد کے الہلال کو لیجئے، برصغیر کو جگانے اوراس کی نشات ثانیہ میں اس مجلہ کو سرخیل سمجھا جاتا ہے۔ اور مولانا آزاد کی نثر کو اعلی ترین نمونہ سمجھا جاتا تھا، لیکن اب الہلال کی فائلوں کو کھول کر دیکھئے اور سچے دل سے بتائیے کہ ان کی عبارتوں کا آپ پر کیا اثر پڑتا ہے، کیا وہی جس کے بارے میں آپ نے سن رکھا ہے؟
یہ صرف عربی زبان کا اختصاص ہے اوروہ بھی قرآن کے اعجاز وجہ سے ہے کہ آج سے پندرہ صدی پیشتر جن آیات قرآنی یا احادیث نبویہ سے دل گداز ہوتے تھے، آج بھی ہوتے ہیں، اب بھی خوش الحان قاری جب انہیں پڑھتا ہے تو آنکھوں سے آنسؤوں کی لڑی لگ جاتی ہے۔ یہ خاصہ کسی اور زبان میں نہیں ہے۔
جب دنیا میں قوم پرست تحریکیں اٹھیں اور سامراجی قوتوں کو اپنی زبان اور ثقافت زیردست اقوام پر مسلط کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی کوششیں ہوئیں کہ اپنے زبان وادب کو ماضی سے جوڑا جائے اور انہیں قدیم ثابت کرنے کی کوشش کی جائے، لہذا غٓالب اقوام کی اپنے زبان و ادب کو بچانے کے لئے منظم کوششیں ہوئیں اور اپنی زبانوں کو دوسری زبانوں کے الفاظ سے خالی کرنے کے لئے شعوری طور پر اور باقاعدہ کام ہوا ، اس کے لئے بڑے بڑے بجٹ مقرر کئے گئے۔
اپنی زبانوں کو ماضی سے جوڑنے کی کوششوں میں ایک اہم پروجکٹ تاریخی ترتیب پر کتب لغت کی تیاری کا کام ہے۔ انگریزی میں اس سلسلے میں بڑا کام ہوا ہے، جس میں آکسفورڈ، کیمبرج اور میریم ویبسٹر ڈکشنری معروف ہیں، ان ڈکشنریوں میں اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ زبان کے ہر ہر لفظ کے معنی اس زبان کے آغاز میں کیا تھے، کس مفہوم میں کس مصنف یا شاعر نے اپنی عبارت میں اس لفظ کو استعمال کیا ، انگریزوں نے مسلمانوں کی طرح اس بات کی کوشش کی کہ کتاب مقدس بائبل کی زبان معیاری بنائی جائے، لہذا جیمس کا انگریزی ترجمہ جہاں زبان وادب کا ایک مرجع بنا اردو میں بائبل کا ترجمہ بھی ایک معیار بنا۔اس سے یہ مشکل آسان ہوگئی کہ جب کسی قدیم مصنف کا کوئی استعمال غلط محسوس ہو تو پتہ لگایا جائے کہ اس نے اسے کس مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ بائیس جلدوں میں اردو لغت کبیر بھی اسی اصول پرتیار کی گئی ہے۔ اس کے ذریعہ اب وجہی ، نصرتی ، گیسو دراز وغیرہ دکن کی قدیم کتابوں کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے جو بادی النظر میں دلچسپ نہیں معلوم ہوتیں۔
لیکن عربی زبان میں الفاظ کے معنی اور استعمالات اس طرح نہیں بدلے۔ بہت معمولی تبدیلیوں کے ساتھ لکھی اور بولی جانے والی فصیح زبان اب تک یہی ہے لہذٓ اس میں اب بھی سات آٹھ سو سال قبل تیار کی جانے والی کتب لغت القاموس، لسان العرب وغیرہ سے کام چل رہا ہے، آکسفورڈ کے طرز پر عربی زبان کی بھی المعجم الکبیر سالہا سال سے تیار ہورہی ہے لیکن بات ابھی تک ابتدائی مرحلے میں رکی ہوئی ہے، کیونکہ عربی زبان میں تاریخ کی ترتیب پر لغت کی ضرورت دوسری زبانوں کی طرح محسوس نہیں ہورہی ہے اور پندرہ سو سال کے درمیان الفاظ کے معنی ومفہوم میں فرق طے کرنا بھی مشکل کام ہے۔اب یہی دیکھئے کہ مسلمانوں کی طرح قادیانیوں کا بھی خاتم النبیین پر ایمان ہے، لیکن چونکہ یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور گزشتہ پندرہ سو سال سے اس کے معنی و مفہوم میں کوئی تبدیلی نہیں واقع ہوئی ہے ؛لہذا قادیانیوں کی جانب سے اس لفظ کا نیا معنی ومفہوم امت نے قبول نہیں کیا۔ اب یہ کسی اور زبان کا لفظ ہوتا تو کیس کی نوعیت مختلف ہوتی، کیونکہ بائیبل کا جیمس ورژن بھی اب آوٹ ڈیٹڈ ہوگیا ہے، چند سال قبل اس کا نیا سرکاری ترجمہ رائج ہوچکا ہے۔
آزادی کے بعد ہندی کو خالص کرنے کی شعوری کوشش کی گئی،جس سے آل انڈیا ریڈیو کی زبان ایک اضحوکہ بن گئی، لہذا بول چال میں وہی زبان رائج رہی جسے بمبئی کی فلم انڈسٹری نے رائج کیا تھا، کیونکہ عوام اس کو سمجھتی تھی اور اثر لیتی تھی۔
ایران میں شہنشاہیت کے دور میں فارسی کو عربی اور دوسری زبانوں کے اثر سے آزاد کرنے کی کوشش کی گئی، جس کا خاطر خواہ اثر ہوا، اب وہاں اقبال ، سعدی،جامی اور رومی کی زبان متروک ہے، فارسی شاعر کی حیثیت سے ان کا احترام ہے، لیکن ان کے شعروادب سے جو اثر برصغیر اور افغانستان میں لیا جاتا ہے وہ بات نہیں ہے۔
اس سلسلے میں سب سے مؤثر کام کمال اتاترک نے کیا، اس نے ترکی کا عربی رسم الخط ختم کرکے ترکوں کو اپنے سابقہ دینی لٹریچر سے ہی کاٹ دیا ، اب عربی رسم الخط میں لکھی جانے والی زبان عثمانی ترکی کہلاتی ہے اور اسے جاننے والے سنسکرت وغیرہ مردہ زبانوں کی طرح معدودے چند رہ گئے ہیں۔ اب ترکی کو اپنے ماضی سے جوڑنے کے لئے عبرانی زبان کو جس طرح اسرائیل نے چند افراد کی بنیاد پر کیا، اسی طرح عثمانی ترکی کو زندگی دینی ہوگی۔
نئی دہلی۔ ہندوستان کے عہد ِوسطی کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کا ساراسرمایہ فارسی زبان وادب میں محفوظ ہے۔ آٹھ سو سالہ تاریخ پر محیط عہدوسطیٰ میں فارسی زبان وادب کے حوالے سے مختلف النوع کتابیں اردومیں لکھی گئی ہیں۔ اس کے باوجود فارسی زبان وادب کی مربوط تاریخ کا فقدان ہے۔اس کمی کو دیکھتے ہوئے قومی اردو کونسل نے ایک مبسوط اور معتبر تاریخ کی ضرورت محسوس کی ہے تاکہ فارسی اورعہدِوسطیٰ کے سرمائے کونئی نسل تک پہنچایاجاسکے۔یہ باتیں قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کونسل کے صدردفترمیں منعقدہ فارسی زبان وادب کے پینل کی میٹنگ میں کہیں۔انھوں نے کہا کہ اردو میں صلاحیت پیدا کرنے کے لیے فارسی کا جاننا بہت ضروری ہے۔ بغیر فارسی کی افہام وتفہیم کے اردو زبان وادب پر عبور حاصل نہیں کیا جاسکتا۔انھوں نے کہا کہ اگرچہ یہ منصوبہ گزشتہ کئی سالوں سے زیرِ غور رہا ہے، تاہم اب اسے حتمی طورپر آئندہ چھ ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ فارسی زبان وادب کی تاریخ کو چار ابواب میں منقسم کیا گیا ہے اورہر باب کے کئی ذیلی ابواب ہوں گے۔ اس کام کی تکمیل کے لیے ماہرینِ فارسی کی مدد لی جارہی ہے۔
اس موقع پر سید پروفیسر حسن عباس نے کہا کہ فارسی زبان ادب کی تاریخ کے منظر عام پر آنے کے بعد واقعی قومی اردو کونسل کی تاریخ میں ایک نئے روشن باب کا اضافہ ہوگااورنئی نسل ملک کے مختلف حصوں میں بکھرے پڑے فارسی زبان وادب سے متعلق علوم وفنون سے آشنا ہوگی۔پروفیسر ایچ ایس قاسمی نے کہاکہ ہم قومی اردو کونسل، بالخصوص جواں سال ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد کے ممنون ہیں جو ہندوستان کی گزشتہ سات سوسالہ تاریخ کو قلم بند کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو یقینا ایک غیر معمولی کام ہے۔ پینل کی صدارت پروفیسر آزرمی دخت صفوی نے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے جس پر کونسل نے کام کرنے کا ارادہ کیا ہے۔عہد وسطیٰ کے ہندوستان کے مختلف خطوں میں فارسی زبان وادب کا غلبہ تھا اور شعرا وادبا نے اپنی جو تخلیقات پیش کی ہیں، وہ اس عہد کی ترجمانی کرتی ہیں جسے ایک مربوط اور مبسوط شکل میں لانے کی بات ہورہی ہے۔پینل میں پروفیسر عراق رضا زیدی،پروفیسر عبدالحلیم کے علاوہ کونسل کے اکیڈمک اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی، ڈاکٹر فیروز عالم اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر،جناب ساجد الحق کے ساتھ ڈاکٹر شاہد اختر نے شرکت کی۔