نئی دہلی:دہلی فسادات کے معاملے میں دیوانگنا کالیتا، نتاشا نروال اور آصف اقبال تنہا کو کرکرڈوما عدالت کے حکم کے بعد تہاڑ جیل سے رہا کردیا گیا ہے۔ عدالت نے تینوں کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے دہلی پولیس کی درخواست خارج کردی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ دہلی پولیس نے عدالت سے تصدیق کے لئے 21 جون تک کا وقت مانگا تھا۔ یہ حکم ان تینوں کی رہائی کے لئے دہلی ہائی کورٹ جانے کے بعد آیا ہے۔ ان تینوں کو دہلی پولیس نے پچھلے سال یعنی مئی 2020 میں دہلی تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے کے بعد گرفتار کیا تھا۔ ان کی رہائی سے قبل، جے این یو کے طلباء اور میڈیا کے ساتھ حامی تہاڑ جیل کے باہر جمع ہوتھے۔ دیوانگنا کالیتا نے نعرے لگانے والے حامیوں کے درمیان جیل گیٹ سے باہر آنے کے بعد صحافیوں سے کہاکہ یہ حکومت کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے،ہم ایسی خواتین ہیں جو ان سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم بچ گئے کیوں کہ ہمیں دوستوں، خیر خواہوں کی زبردست حمایت حاصل ہے، ہم ان سب کے شکرگزار ہیں۔نتاشا نروال نے کہا کہ وہ اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتیں کیوں کہ یہ ابھی عدالت میں موجود ہیں۔ نروال نے کہاکہ تاہم ہم دہلی ہائی کورٹ کا شکریہ ادا کرنا چاہیں گے، جس پر ہم یقین رکھتے ہیں۔ ایسا کوئی بھی احتجاج جو ہم نے کیا وہ دہشت گردی نہیں ہے، یہ خواتین کے ذریعہ جمہوری احتجاج تھا۔نروال نے کہاکہ وہ ہمیں جیل کے دھمکی سے نہیں ڈراسکتے، اگر وہ ہمیں جیل میں ڈالنے کی دھمکی دیتے ہیں تو اس سے ہماری لڑائی جاری رکھنے کے ہمارے عزم کو مزید تقویت ملے گی۔ ناروال کے والد مہاویر ناروال کاویڈ سے مئی میں انتقال ہوگیا تھا جب وہ جیل میں تھی۔ ان کا بھائی، جو اسے لینے آیا تھا،انہوں نے کہا کہ اسے اپنے والد کی یاد آتی ہے، اگر وہ زندہ ہوتے تو جیل سے باہر آنے پر ان کا استقبال کرنے آتے۔نارووال نے این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہاکہ مجھے نہیں معلوم کہ میں (والد کی موت) سے کس طرح نمٹوں گی۔ یہ ہمارے لئے ایک سبق ہونا چاہئے کہ یہ نظام ہمیں اپنے پیاروں سے کس طرح الگ کرتا ہے۔ میرا معاملہ بے نقاب ہوا لیکن وہاں بہت سارے لوگ تھے جن کو فون کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی،ہمیں خود سے یہ پوچھنا چاہئے کہ ہم اس مقام پر کیسے پہنچے جہاں دہشت گردی اور اختلاف کے مابین لائن دھندلی پڑ گئی ہے؟ لوگوں کو بے بنیاد الزامات کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ حکومت کے خلاف احتجاج دہشت گردی نہیں ہے۔
عدالت
ترجمہ :عبدالباری قاسمی
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر بے قصور ہوگا تو اپنے آپ باہر آ جائے گا، ان کو میں کہہ دوں کہ کیوں نہ آپ کو سال بھر کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے؟ کیوں نہ ملک کے ہر شہری کو 18 سال کا ہوتے ہی ایک سال کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے؟ ہم سب بے قصور ہیں، باہر آ ہی جائیں گے۔
عمر خالد گرفتار ہو گیا، ٹویٹر پر پڑھاکہ دہشت گرد ہے، کچھ نے کہا دہشت گرد نہیں ہے تو رہا ہو جائے گا، اکثریت کو لگتا ہے کہ جہاں آگ ہوتی ہے دھواں وہیں سے اٹھتا ہے، کچھ سالوں قبل شاید یہ بات صحیح بھی تھی، اب اس سوشل میڈیا کے زمانے میں آگ بھی کمپیوٹر گرافکس سے بنائی جا سکتی ہے اور دھواں بھی۔ خیر سوال یہ ہے کہ عمر خالد دہشت گرد ہے یا نہیں؟ اور اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
میں آج تک نہ کسی دہشت گرد سے ملا ہوں اور نہ ہی کسی دہشت گرد کو جانتا ہوں۔ ہاں میں عمر سے کئی بار ملا ہوں اور سیکڑوں بار بات کر چکا ہوں؛ لیکن مجھے معلوم نہیں دہشت گرد کیا بات کرتے ہیں؟ ہو سکتا ہے عمر نے دہشت گردوں کی طرح مجھ سے کوئی بات کی ہو اور چوں کہ آپ سب لوگ ایسے کئی دہشت گردوں سے مل چکے ہوں گے، تو میں آپ کو اس کے ساتھ ہوئی کچھ باتیں بتاؤں گا۔
ہو سکتا ہے آپ لوگ اس کے اندر کا دہشت گرد پکڑ لیں، ابھی گرفتاری سے تین دن قبل بھی وہ جے پور میں تھا اور کورونا کی وجہ سے میں بھی ممبئی سے گزشتہ3-4 مہینے سے بھاگ کر جے پور میں چھپا ہوا ہوں، ہم تین چار دن روزانہ ملے، گھنٹوں گفتگو بھی ہوئی، میری اہلیہ بھی اس بار اس سے کافی دیر تک ملی، اس نے بھی مذاق میں مجھ سے کہا، کتنا شاندار اور مہذب لڑکا ہے، پڑھا لکھا بھی ہے، ایسے لڑکوں کو تو لڑکیوں کے والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے ڈھونڈتے ہیں، میں نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا ” بس دو مسئلے ہیں ایک تو پڑھا لکھا ہے، تو کچھ کماتا نہیں اور دوسرے مسلمان ہے تو دہشت گرد ہے‘‘۔ وہ ہنسی، میں نہیں ہنسا؛ کیوں کہ بولتے بولتے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ باتیں اب ہندوستان میں مذاق نہیں ہیں، سچ ہیں۔
ان دنوں ہمارے ملک میں پڑھے لکھے کچھ کماتے نہیں ہیں اور مسلمان تو دہشت گرد ہوتے ہی ہیں،ہارورڈ کو ہارڈ ورک (شدید محنت) نے ایسا دبوچا ہے کہ لوگوں نے کتابیں چھوڑ کر طمنچے اٹھا لیے ہیں؛ کیوں کہ ’’ گولی مارنی ہے نا۔۔۔۔۔۔ کو‘‘۔ میرا اور عمر کا کافی بے ادب سا رشتہ ہے۔ وہ اکثر اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر ایسے کھڑا ہوتا ہے جیسے اپنے ہی ہاتھ سے اپنی کمر کو دبا دبا کر سیدھی کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ جب آپ کی بات سن رہا ہوتا ہے، تو لگاتار ہم – ہم کرتا رہتا ہے، (غضب تھکاؤ) کئی بار اسے ٹوک چکا ہوں کہ ایک ’’ہم‘‘ سے دوسرے ’’ہم‘‘ کے درمیان وقفہ رکھا کرو؛ لیکن وہ عادی مجرم ہے، بے ساختہ اس کے منھ سے ’’ہم – ہم‘‘ نکلتا رہتا ہے، آنکھوں کے نیچے کالے گڈھے ہیں، وزن بس اتنا ہے کہ ابھی تھلچر ہے، دو کلو اور وزن کم ہوا تو پرندہ بن کر آسمان میں اڑ جائے گا۔ اگر فکر اتنی اچھی نہیں ہوتی تو خاصا زہر آدمی ہے۔ تو چلیے اب جلدی سے سنیے وہ باتیں جو میرے اور عمر کے درمیان ہوئی ہیں، پھر ہم مل کر عمر کے اندر کا دہشت گرد پکڑتے ہیں۔
تو سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں اس بات کا جو سب سے زیادہ ہوئی، وہ تھی عمر خالد کی گرفتاری کی بات، سوال یہ نہیں تھا کہ وہ گرفتار ہوگا کہ نہیں، سوال یہ تھا کہ ایسا کب ہوگا اور اسے باہر آنے میں کتنا وقت لگے گا؟ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ کوئی نہ کوئی یہ کہہ دیتا تھا گرفتار ہوگا کیوں؟ کیا کیا ہے؟ اور یہ سن کر ہم ہنسنے لگتے تھے۔
آج بھی لوگوں کو ایسا لگتا ہے جیسے ملک میں قانون کام کر رہا ہے، کچھ اور وقت کی بات ہے، یہ غلط فہمی بھی دور ہو جائے گی، ڈاکٹر کفیل خان کو یوگی حکومت نے 8 مہینے جیل میں رکھا، ڈاکٹر کفیل خان کو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف اشتعال انگیز بیان دینے کے جرم میں 29 جنوری کو گرفتار کیا گیا تھا، ڈاکٹر کفیل خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 12 دسمبر 2019 کو ایک تقریر کی تھی، معلوم ہے ان پر کیا کیا دفعات لگائی گئیں؟ پہلے مذہبی جذبات بھڑکانے کے جرم میں 153A میں کیس درج کیا گیا تھا اور بعد میں 153 Bملکی سلامتی کے خلاف بیان بازی 109( اکسانے) اور 502 (2)(امن و شانتی کو بگاڑنے) جیسی دفعات میں کیس درج کیا گیا.
گرفتاری کے بعد 13 فروری کو ڈاکٹر کفیل خان پر راسوکا لگایا گیا۔ اب یہ راسوکا کیا ہے؟ قومی سلامتی قانون یعنی این ایس اے کے تحت ایسے کسی بھی انسان کو 12 مہینے تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے، جس سے قانونی نظام کو خطرہ لاحق ہو۔ حالاں کہ تین مہینے سے زیادہ تک کسی کو جیل میں رکھنے کے لیے صلاح کار بورڈ منظوری لینی پڑتی ہے۔ مطلب کسی بھی آدمی کو سال بھر کے لیے یوں ہی جیل میں سڑایا جا سکتا ہے۔
اب تک آپ کے گھر والے، اولاد سب بس سانس روکے ایک سال تک بیٹھے رہیں گے، جو لوگ یہ کہتے ہیں اگر بے قصور ہوگا تو اپنے آپ باہر آ جائے گا ان کو میں کہہ دوں کیوں نہ آپ کو ایک سال کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے؟
کیوں نہ ملک کے ہر ہر شہری کو 18 سال کا ہوتے ہی ایک سال کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے۔ ہم سب بے قصور ہیں، باہر آ ہی جائیں گے۔ خیر 8 مہینے کے بعد ہائی کورٹ نے اس معاملے میں ضلع انتظامیہ کی سرزنش کی۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ پوری تقریر کو سنے بغیر ہی راسوکا لگا دیا گیا، جب کہ ڈاکٹر کفیل خان کا بیان ملکی اتحاد کی ترجمانی کرتا ہے، میں دہراتا ہوں کہ ڈاکٹر کفیل خان کا بیان ملکی اتحاد کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہی عمر کے ساتھ بھی ہوگا، میں لکھ کر دے رہا ہوں، 3 مہینے بعد، 6 مہینے بعد، 9 مہینے بعد یا ایک سال بعد کورٹ کہے گا’’عمر کا بیان، اس کے کام ،اس کے نظریات قومی اتحاد کی عکاسی کرتے ہیں‘‘۔ مگر اس وقت تک کسی کی زندگی کا ایک سال جیل میں برباد ہو چکا ہوگا۔ جیسے ڈاکٹر کفیل خان کے 8 مہینے غارت ہو گئے۔ ہم نے ایمرجنسی کے بارے میں سنا تھا، جس میں ملک کے تمام حزبِ اختلاف کے نیتا ؤں کو جیل میں بند کر دیا گیا تھا، مگر اس وقت کم از کم اسے ایمرجنسی کا نام تو دیا گیا تھا۔ یہ ایک نئی طرح کی ایمرجنسی ہے جو کچھ آہستہ چل رہی ہے۔ ہر آواز جیل میں جائے گی، ایک ساتھ نہیں ایک ایک کرکے، یہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے، جس کو یہ غلط فہمی ہے کہ ملک میں اب بھی جمہوریت زندہ ہے، جلد ہی اس کی غلط فہمی دور کر دی جائے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ حق کی لڑائی کے لیے جیل جانا کوئی بری بات ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہر انقلابی کے لیے جیل جانا اشوک چکر کی طرح ہے۔
یہ وہ تمغہ ہے جو ہر انقلابی فخر سے اپنے سینے پر سجاتا ہے؛ لیکن ان لوگوں کی بھی بات کرنا ضروری ہے، جو بے گناہ لوگوں کو صرف اس لئے جیل میں ڈال رہے ہیں کہ انہیں آوازیں پسند نہیں ہیں، جنہیں یہ پسند نہیں کہ کوئی سر اٹھے، کسی کی بانہیں تنے، کسی کی گردن ان کے سامنے نہ جھکے، ان لوگوں کو آپ کیا کہیں گے، ارے میں بھول گیا، مجھے تو آپ کو وہ سب باتیں بتانی ہیں جو عمر کرتا ہے، ہمیں ان باتوں میں دہشت گرد ڈھونڈنا ہے، وہ اکثر مجھ سے کہتا ہے، میں مسلمانوں کے لیے لڑتا ہوں کیوں کہ ابھی ان پر ظلم ہو رہا ہے۔ اگر مسلمان ظلم کر رہے ہوتے، تو میں ان کے خلاف لڑ رہا ہوتا، میں ان سب کے لیے لڑوں گا، جو آج کمزور ہیں، چاہے وہ دلت ہوں یا کمزور، چاہے غریب مزدورہوں یا کاری گر۔ ” تمہیں شاید کرنے کی عادت ہے "جب میں اس سے کہتا ہوں تو وہ جواب دیتا ہے، جب تک انہیں ظلم کرنے کی عادت ہے، مجھے لڑنے کی عادت ہے، وہ ظلم کرنا چھوڑ دیں، میں لڑنا چھوڑ دوں گا اور پھر میں چپ ہو جاتا ہوں۔ میں نے کہا نا آدمی زہر ہے؛ لیکن سوچتا بہت اچھا ہے۔ ایک دن میل کی بتی پر بات ہوئی، پہلے سمجھا دوں کہ "میل کی بتی” کیا بلا ہے۔ جب آپ اپنے سینے پر اپنی انگلی رگڑتے ہیں، تو ان انگلیوں کے نیچے کالی – کالی میل کی لکیریں بن آتی ہیں، انہیں ہی
میل کی بتی کہتے ہیں۔ اس کے لیے دو تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے، پہلے تو کھال پر پسینے کی ایک پتلی پرت کا ہونا، پھر غسل اور اس عمل کے دوران کم از کم ایک گھنٹہ کا وقفہ ہونا۔ تو اب جب آپ کو میل کی بتیاں سمجھ میں آ گئی ہیں، آپ سوچ رہے ہوں گے ہماری اس سے متعلق کیا باتیں ہوئی ہوں گی۔ عمر کا خیال ہے میل کی بتی اور بھارت کا بہت گہرا تعلق ہے، بھارت کو صرف وہ سمجھتا ہے جس نے میل کی بتیاں جی ہیں، میل کی بتیاں ایک دماغی حالت ہے، اس ملک کے ہر محنتی انسان کو معلوم ہے کہ وہ ہر وقت میل کی بتیوں سے ڈھکا ہے وہ کبھی بھی ویسے صاف نہیں ہوگا یا ہوگی جیسے لوگ ٹی وی پر دیکھتے ہیں؛ لیکن یہ میل کی بتیاں اس کا ڈھال ہیں اور یہی اس کا سچ ہیں۔ میل کی بتیوں سے کروڑوں لوگ اپنے گھر والوں کی پرورش کر رہے ہیں، باورچی خانوں میں کھانے پکا رہے ہیں، سڑکوں پہ آواز لگا رہے ہیں، یہ میل کی بتیاں اس ملک کی روح ہے، یہ پسینے میں لپٹی میل کی بتیاں ہماری طاقت ہےاور آخرمیں وہ سوال پوچھتا ہے، یار یہ جو 24 گھنٹے اے سی میں رہتے ہیں، کیا ان کے میل کی بتیاں آتی ہیں، مجھے اس کا جواب نہیں معلوم شاید آپ جانتے ہوں۔ ہمارے درمیان اکثر ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں، اس کا خیال ہے کسی کو کسی کی جان لینے کا حق نہیں ہے؛ لیکن سب کی جان بچانا سب کا فرض ہے، اس کا سوال ہے کہ کتنا امیر ہونا کافی ہے؟ کیا امیری کی کوئی حد ہے؟ جب ملک میں 20 کروڑ لوگ بھوکے سوتے ہیں تو کیا امیری کی کوئی حد نہیں ہونی چاہیے؟ وہ اس بات سے پریشان ہے کہ کہ وہ پڑھا لکھا ہے، لیکن وہ لڑکے لڑکیاں جو بچپن میں اس کے ساتھ محلے میں کھیل کود رہے تھے جن میں سے کچھ تو اس سے کہیں زیادہ سمجھ دار تھے، آج وہ لوگ ان ہزاروں محلوں میں کیوں پگھل رہے ہیں؟ وہ بہت بولتا ہے، جب ایک بار شروع ہوتا ہے تو بولتا ہی رہتا ہے؛ لیکن اس کی آنکھوں میں غم اور اس کی آواز سے رنج ٹپکتا رہتا ہے،وہ جب ہنس رہا ہوتا ہے تواپنی ہنسی سے پریشان ہوتا ہے اور جب خوش ہوتا ہے تو اپنی خوشی سے ناراض۔ جیل جانے سے پہلے ہی اسے معلوم تھا کہ وہ جیل جائے گا، اس نے یہ بھی ارادہ کر لیا تھا کہ اس بار وہ سگریٹ چھوڑنے کی پوری کوشش کرے گا، اس نے وہاں جیل میں پڑھنے کے لیے کتابوں کی ایک فہرست بھی بنا رکھی تھی، وہ خبر دار تھا، وہ تیار بھی تھا؛ لیکن یہ کیسا نظام ہے میرے ہم وطنو؟ ہم سب کو معلوم ہے کہ نا انصافی ہوگی اور ہمیں برداشت بھی کرنا پڑے گا، نہ کوئی دوا ہے نہ علاج۔ اس ظلم کو برداشت کرنے کی اب عادت سی بن گئی ہے۔
خیر مجھے امید ہے کہ ان باتوں میں آپ نے عمر کے اندر کا دہشت گرد تلاش کرلیا ہوگا اور اگر نہ ملا تو اس کے نام میں مل ہی گیا ہوگا۔ آخر اس کا نام عمر خالد ہے، ستیہ میو جیتے ہندوستان کا قومی آئیڈیل جملہ ہے، جس کا مطلب ہے سچ ہی فتح یاب ہوتا ہے، سچ کی ہی جیت ہوتی ہے۔ شاید ہندوستان کا مقصد بھی سچ کی تلاش ہے؛ لیکن آج ہم سچ نہیں ڈھونڈ رہے ہیں، آج ہم ناموں میں دہشت گرد ڈھونڈ رہے ہیں، ستیہ میو جیتے چاہے آج ہمارا قومی مثالی جملہ ہو، مگر جس رخ پر آج ہندوستان جا رہا ہے، دیر نہیں ہے کہ ہمارا قومی مثالی جملہ ہوگا "نفرتیو جیتے "کیوں کہ شاید اب یہاں نفرت ہی جیتے گی۔
(داراب فاروقی اسکرپٹ رائٹر ہیں اور فلم ڈیڑھ عشقیہ کی کہانی لکھ چکے ہیں)
رنجن گگؤیی نے بابری مسجد کا فیصلہ سنایاـ چالیس دن تک عدالت چلتی رہی اور عدالت نے قبول کیا کہ رام جنم بھومی کا معاملہ بہت حد تک فرضی ہےـ مسلمانوں کا پلڑا بھاری تھا، فیصلہ آیا، جہاں سب کچھ فرضی تھا ، وہ جیت گئے، کہا گیا کہ عقیدے کی بنا پر فیصلہ سنایا گیا ہےـ یہ بھی کہا گیا کہ ایسا نہ ہوتا تو ملک میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو جاتے ـ عقیدہ ہندوؤں کے پاس تھا،عقیدہ مسلمانوں کے پاس نہیں تھا . دو انصاف دو قانون کی جو واہیات شکل عدلیہ نے پیش کی ، اس کی نظیر ساری دنیا میں نہیں ملے گی،اس وقت بھی یہ سوال پیدا ہوا کہ پھر سیدھے سیدھے فیصلہ دے دیتے ، چالیس دن تک سنوائی کی کیا ضرورت تھی ـ
بابری مسجد کے مجرم بری ہو گئے . تمام شواہد آج بھی سرچ کرنے پر مل جائیں گے . جوشی کے کندھے پر سوار اوما بھارتی، دہشت گردکدال پھاوڑوں کے ساتھ اینٹ سے اینٹ بجاتے ہوئے لاکھوں کا مجمع اور اس سے قبل دہشت اور وحشت کا رتھ ، جو جمہوریت کی سڑکوں کو روندتے ہوئے بڑھا ، اور اس وقت رتھ کے مہارتھی اڈوانی کو کہاں علم تھا کہ وقت نے انھیں ایک ایسے بلیک ہول میں پھیکنے کی تیاری کر لی ہے کہ ان کی باقی زندگی ان کے لئے بوجھ بن جائے گی . فیصلہ ٢٨ برس بعد آیا . فیصلہ سنانے والا جج اسی دن ریٹائر ہونے والا تھا، اس نے اخبار نہیں دیکھاتھا،ٹی وی پر دہشت گردوں کے حملے نہیں دیکھ تھے،اس نے کہا ، دھول اڑ رہی تھی اور کسی کا چہرہ واضح نہیں تھا،صرف اتنا بتانے میں ٢٨ برس لگ گئےـ
ہاتھرس ، بلرام پور – ھاتھرس میں یوگی کی پولیس رات تین بجے منیشا کے جسم پر پیٹرول ڈال کر آگ لگا دیتی ہےـ منیشا کا ریپ اور قتل کرنے والوں کی حمایت کرتی ہے . بڑی ذات کے ہندو لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو کر عصمت دری کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں ـ پیٹرول ڈال کر آگ لگانے والے نر بھکشی کو موت کی سزا کیوں نہ دی جائے ؟ آر ایس ایس نے اس جاہل ڈھونگی کو وزیر ا علی کی کرسی دیتے ہوئے یہ ضرور غور کیا ہوگا کہ اسی جاہل شخص نے اپنی تقریر میں مسلمان عورتوں کو قبر سے نکال کر بلاتکار کرنے کو کہا تھا، جو مسلمانوں کو قبرستان بھیجے وہ وزیر ا علیٰ،جو قبر سے نکال کر ریپ کرنے کو کہے ، اسے ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست تحفے میں دی جائے، میڈیا نے آواز بلند کی،مگر مجھے اس میڈیا پر بھروسہ نہیں ہے،جب میڈیا کو مزید قاروں کے خزانے کی تلاش ہوتی ہے تو اس کی آواز بدل جاتی ہے . ایک زمانہ تھا ، جب ارنب گو سوامی بھی فسطائی طاقتوں کے خلاف چیختے تھے .قیمت مل گئی تو فسطائی طاقتوں کے لئے چیخنے لگے .کردار بدل گیا . اسی فیصد کانگریسی این ڈی اے کا حصّہ بنے،کردار بدل گیا . ملک غارت ہوا .کوئی آواز نہیں .ملک تباہ ہوا .کوئی آواز نہیں، کروڑوں کے روزگار گئے ، کوئی آواز نہیں ـ کسانوں کو کمزور کرنے کے لئے قانون آیا ، کوئی آواز نہیں،مسلمان سڑکوں ، شاہراہوں ، گلیوں میں مارے جاتے رہے اور میڈیا کے آتشی بیانات انھیں ہلاک کرنے کے لئے مخالفت کی صدا بلند کرتے رہے . اس میڈیا پر بھروسہ نہیں ـ
ایک برس قبل ٹائم میگزین رپورٹ کے حوالے سے ایک مختصر جائزہ پیش کیا گیا تھا . جائزے میں مودی کو ، ملک کو تقسیم کرنے والا قرار دیا گیا . ایک دنیا ہماری سیاست پر نظر رکھ رہی ہے . کیا حقیقت میں تقسیم کے راستے کھل گئے ہیں ؟
فسطائی طاقتیں انسانی نفسیات کا مطالعہ رکھتی ہیں۔ ہٹلر کے پاس بھی فدایین تھے –جو اسکے اشاروں پر ایک لمحے میں جان دے دیا کرتے تھے — ملک کے موجودہ حالات مسلمانوں کے لئے بد تر ہوئے جا رہے ہیں ـ حکومت یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے کہ مسلمانوں کو زیر کرنے کے لئے کیا کیا تدبیریں کی جا سکتی ہیں .ہم مسلسل شکست سے دوچار ہوتے رہے . تمام فیصلے ہمارے خلاف ،انصاف دو حصّوں میں تقسیم،حکومت کے پاس مسلمانوں کو زیر کرنے کے لئے ایک لمبی فہرست ہے ـ پھر ایک کے بعد دوسرا نشانہ لگنا شروع ہو جاتا ہے-حکومت کی فسطائی منطق کے سامنے آپ بے بس اور مجبور ہیں۔ممکن ہےکہا جائے لاوڈ اسپیکر پر اذان نہ دیں،محلے میں ایک مسجد کی جگہ تین مسجدیں کیوں ؟ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی آپکو زیر کیا جائے گا .یاد کیجئے حکومت بننے کے ساتھ ہی راج ناتھ سنگھ نے پہلا بیان ملک کے سیکولر اور لبرل کردار پر دیا تھا .در اصل فسطائی طاقتوں کو ان دو لفظوں سے ڈر محسوس ہوتا ہے — فسطائی طاقتیں پوری شدّت اور منصوبوں کے ساتھ مذہب ،مشترکہ وراثت پر حملہ کر رہی ہیں . کیا یہ تقسیم کی شروعات نہیں ہے ؟ ہماری ملت اور گنگا جمنی تہذیب کو چند برسوں میں کچلنے کی سازش ہوئی ہے ۔ تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ ایسے مواقع پر پر جوش و خروش کا مظاہرہ کیا جاتا تھا ۔لیکن نئی فسطائی تھذیب نے آپس کی دوستی کو مضبوط کرنے کا خوبصورت بہانہ بھی ہم سے چھین لیا ہے۔پرب تیوہار کے موقع پر سب سے بڑا خطرہ فرقہ وارانہ فساد کا ہوتا ہے ۔ایک مخصوص نظریہ کے لوگوں نے ملت ،اخوت بھائی چارگی کے درمیان زبردست دیوار حائل کر دی ہے .پچھلے کچھ برسوں میں ہم لگاتار ایسے موقعوں پر حادثوں سے دوچار ہوتے رہے ہیں دو برس 26 جنوری کے موقع پر کاس گنج میں ،ہم دیکھ چکے ہیں کہ قومی پرچم لہرانے کے جذبے کو بھی کس طرح ایک مخصوص نظریہ کے لوگوں نے کچلنے کی کوشش کی۔ہماری حب الوطنی بھی ان لوگوں کو منظور نہیں ۔ کاس گنج کے معصوم مسلمانوں نے اپنے دل کی آواز سنی اور پرچم لہرانے کی کوشش کی تو بھگوا بریگیڈیر نے نہ صرف انکے معصوم جذبوں کو ٹھیس پہچایی بلکہ جب صورت حال نازک ہوئی تو حب الوطن مسلمانوں پر پولیس نے گرفتاری کے بعد غداری کی دفعہ بھی لگادی اور سیکو لرزم کے صدیوں پرانے لباس کو تار تار کر دیا۔. ہندوستان آھستہ آھستہ تقسیم کی طرف جاتا ہوا نظر آ رہا ہے . زیادہ تر مخالف بیانات کا پس منظر یہ ہے ،کہ دنگے بھڑکے نفرت کا پر تشدد ماحول پیدا ہوا۔ملک کے حالات خراب ہوئے۔ ملک کے مختلف حصّوں میں آگ لگی۔انسانیت داغدارہوئی — سامانوں کو نقصان پہچا۔. ایسے اشتعال انگیز بیانات سامنے اہے جنہونے گووند پانسرے ،بھولکر ،کلبرگی ، پہلو خان ،اخلاق کو مارنے میں نمایاں کردار ادا کیا .یہ وحشت اور دہشت کو زندہ کرنے والے ملک مخالف بیانات تھے جنہوں نے گاو رکشکوں کے متعدد مشتعل ہجوم کو پیدا کیا .انکے تشدد کے واقعات سڑکوں پر آج بھی عام ہیں ـ پاکستان اور قبرستان بھیجو جیسے نعرے دینے والے ،قانون اور آئین کی شق سے کس دائرے میں آتے ہیں ؟۔کیونکہ ایسے ہر اشتعال انگیز بیان کے بعد فسادات ،انسانوں کی ہلاکت ،جان و مال کے نقصان جیسی خبریں سامنے آی ہیں ۔اس مکمل جایزے پر آئیے تو بیشتر نیوز چینل اور میڈیا ہندوستانی جمہوریت کا مذاق اڑاتا ہوا نظر آتا ہے .۔۔ان میں سے زیادہ تر چینلوں نے مخالف آگ بھڑکا کر انسانی جانوں کا زیاں کیا ہے۔اور آج بھی کر رہے ہیں . ترسیل اور ابلاغ پر حکومت کا دباو قایم . ہے . اخبارات اور ٹی وی چنیلز سے اعتماد اٹھ چکا ہے ۔ الیکشن کمیشن اور عدالتیں بھی شک کے دائرے میں ہیں . متھھی بھر سیکولر لوگوں کی بے چینی بتاتی ہے کہ ملک کہاں جا رہا ہے ۔یہ میرا انڈیا نہیں ہے . ایک مخصوص نظریہ کی پارٹی نے شہہ اور مات کاایسا کھیل شروع کیا ہے ، جس کے صفحات عالمی سیاست کے لئے بھی نئے ہیں۔
حکومت کے تمام سیاسی مہرے پٹ چکے ہیں . ہر طرح کی ناکامیاں سامنے ہیں . پھر بھی سیاست کے ان گلیاروں میں جشن ہے . کیونکہ زعفرانی بندر ان کے ساتھ ہیں . تازہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے کیا ملک ایک بڑے انقلاب کے لئے تیار ہے ؟ ایسا لگتا نہیں ہے . انتخابات میں شکست و فتح کے کھیل کا کویی مطلب نہیں رہ گیا . این ڈی اے شکست خانے کے بعد مہرے خرید کر حکومت بنا لیتی ہے . یہ کوئی اور ملک ہے ـ یہ میرا ملک نہیں ہے ـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
بنگلورو:کرناٹک کے تمکورکی ایک عدالت میں بالی ووڈاداکارہ کنگنا رناوت کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کیاگیاہے۔ کسانوں کی توہین کرنے کاالزام لگاتے ہوئے کنگنا رناوت کے خلاف مقدمہ درج کیاگیاہے۔ دائرمقدمے میں کہاگیاہے کہ کنگنارناوت نے ٹویٹ کرکے زرعی بل کی مخالفت کرنے والے کسانوں کی توہین کی ہے۔اس ٹویٹ کے حوالے سے کسانوں نے کئی جگہوں پراحتجاج بھی کیاہے۔ تاہم بعدمیں وضاحت دیتے ہوئے کنگنارناوت نے کہاکہ انہوں نے کسانوں کی توہین نہیں کی ہے۔واضح ہوکہ کسان تنظیمیں ملک بھرمیں مرکزی حکومت کے زراعت بل کے خلاف سراپااحتجاج ہیں۔
صفدر امام قادری
صدر شعبۂ اردو ،کالج آف کامرس ،آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
ان دنوں وبائی ماحول کے پردے میں حکومتِ ہند طرح طرح کے فیصلوں کی جھڑی لگا کر مشکل حالات میں اپنے فائدے کے مواقع حاصل کرنے میںہوا کی رفتار سے اُڑ رہی ہے۔ جب سے بابری مسجد کے سلسلے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ،اس کے بعد سے ایک عجیب و غریب جگل بندی چل رہی ہے۔ ہر کام میں حکومتِ ہند کو مختلف عدالتوں کا سہارامل جا رہا ہے اور بار بارانصاف کے طلب گار افراد ٹھگے ہوئے محسوس کر رہے ہیں۔ ان کاموں میں وبا متاثرین کی تعداد میں جو تیزی ہے ، اس سے بھی زیادہ برق رفتاری دیکھنے کو مل رہی ہے۔
نیٹ اور جے۔ای۔ای۔ کے مقابلہ جاتی امتحان کرائے جانے کے معاملے میں سرکار نے ایک ضدّی آدمی کی طرح فیصلہ لینے کی جلدی دکھائی ہے۔دو سو اور پانچ سو افراد پر مشتمل قانون ساز اسمبلی اور پارلیامنٹ کی نشستیں کرانے میںحکومت ابھی تک ناکام ہے جہاں پچیس برس سے کم عمر کا کوئی بھی آدمی رکن نہیں ہوتا۔مگر حکومت کو سولہ سترہ برس کے لاکھوں بچّوں کو ملک کے گوشے گوشے میں پہنچ کر امتحان دلانے کی عجیب و غریب عجلت ہے۔آدھاملک، طلبہ و طالبات اور ان کے سر پرست پریشان ہیںکہ اس غیر یقینی صورتِ حال میں ان کے لختِ جگر اپنی کامیابی کی توقع میں ہتھیلی پر جان لٹانے کے لیے کہاں کہا ں جائیں گے۔
آسام، اڑیسا ،مغربی بنگال ، بہار، اترپردیش ،اترا کھنڈ، گجرات اور راجستھان سیلاب کی چپیٹ میں ہیں۔ملک کے دو تہائی حصّے میں آنے جانے کے وسائل موجود نہیں ۔ ٹرین کا نظام حکومت نے بند کر رکھا ہے۔ایسی حالت میں ہمارے بچّے کہاں تک پہنچ سکیں گے اور کیسے امتحان دے پائیں گے، یہ صر ف خدا ہی جانتا ہے۔
ہندستان کے وزیرِ اعظم کو لاکھوں کروڑوں کے مسائل سے اکثر سر و کار نہیں ہو تا ہے اوروہ خاموش رہنے میں اپنی عافیت محسوس کرتے ہیں ۔اس معاملے میں حکومت کے وکیل کے طور پر ملک کے وزیرِ تعلیم کو سامنے رکھا گیا ہے اوروہ ایک فکر مند شہری کے انداز میں اپنے نو نہالوں کی معاونت کا حوالہ دیتے ہو ئے کہتے ہیںکہ بچّوں کے مستقبل کو پسِ پُشت نہیں رکھا جا سکتا۔ وزیرِ تعلیم کے لیے کُمک کے طو ر پر یو ۔جی۔سی ۔اور دوسرے سرکاری ادارے ہمیشہ موجود رہتے ہیں ۔سب کو معلوم ہے کہ حکومت کے تمام اداروں کو ایک ہی راگ میںمقرّرہ متن دہرانا پڑے گا اور یہی ہو رہا ہے۔
ملک کے مختلف صوبوں میں رہنے والے طلبہ نے سپریم کورٹ میں درخواست دی کہ یہ امتحانات ایک مّدت کے لیے ٹال دیے جائیں ورنہ بچّوںکی جان سے کھلواڑ کا اندیشہ پیدا ہو تا ہے۔عدالت نے حکومت کا نقطۂ نظر سمجھا اور بچّوں کے مقابلے حکومتِ ہند کی باتیں اسے زیادہ پسند آئیں ۔ ایساکئی مہینوں سے لگاتار ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔بابری مسجد کے سلسلے سے نظرِ ثانی کی درخواست فوراًخارج کر دی گئی ۔ لاک ڈاؤن میں ریل یا بس چلے یا بھوکے ننگے عوام کو حکومت خوراک فراہم کرے ،اس کے لیے سماعت کی تاریخ اس قدر طول کھنچتی گئی کہ سارے بگاڑ بھی انجام تک پہنچ چکے تھے۔ جسے بھوک سے مرنا تھا، وہ مر چکا تھا۔جسے ہزار کلو میٹر اور دو ہزار کلو میٹر پیدل چل کر سڑک پر کچل کر مر جانا تھا، وہ بھی اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔ سیاسی مبصّرین نے اسے حکومت کی طرف داری ہی مانا تھا اور آئین کے رکھوالوں کا عوام کے حقوق کی حفاظت سے خود کو دور رکھنے کو ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھا تھا۔
ابھی پرشانت بھوشن کے معاملے میں جلدی جلدی سماعت کرنے اور سزا تک پہنچ جانے کے معاملے میں بہت سارے قانون کے ماہرین نے اپنا یہ مشاہدہ درج کرایا کہ اس میں ایسی جلدی لازم نہیں تھی۔سب کو معلوم ہے کہ پرشانت بھوشن موجودہ حکومت کو مختلف مواقع سے پریشانی میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔بعض افراد کو اب یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ حکومت حسبِ ضرورت اور توفیق کچھ کام خود کرتی ہے اور کچھ کام عدالت میں پہنچ کر اپنے انداز سے کرالینے میں کا میاب ہوتی ہے۔ موسیقی کی اصطلاح میں اسے جگل بندی کہتے ہیں ۔ جہاں دو گانے والے یا بجانے والے ایک ساتھ اپنی مہارت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
ملک کے سارے ا سکول اور کالج ،یونی ورسٹیاں بند ہیں ۔درس و تدریس کا کام اس لیے نہیں کرایا جا رہا ہے تاکہ جب بہت سارے لوگ یکجا ہو ں گے تو وبا کے پھیلنے کے امکانات بڑھیں گے ۔ایک اسکول اور ایک کالج میں کسی ایک جماعت میں پانچ سو اور ہزار بچّے نہیں ہو تے ۔ تیس سے سوا سو کے قریب طالبِ علم ایک کلاس میں شامل ہو تے ہیں۔ ملک کا کوئی بھی تعلیمی ادارہ یا خود حکوتِ ہند تیس اور پچاس یا سو بچّوں کو جمع کر کے تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے مگر امتحان دینے کے لیے ایک مرکز پر پانچ سو اور ہزار بچّے جمع کر نے میں حکومت کے پاس بہت جوش اور جذبہ کا م کر رہا ہے۔اسے سپریم کورٹ کی طرف دا ری حاصل ہے اور کانگریس یا بہت ساری ریاستی حکومتو ں کی گزارشات کو اَن دیکھی کر نے میں اقتدار کا نشہ اضافی سرور پہنچا رہا ہے۔ تین سو اور چار سو کلو میٹر دور کے سینٹر تک یہ بچّے کیسے پہنچیں گے ، حکومت نے یہ مان لیا ہے کہ یہ سب بچّو ں اور ان کے سر پرستوں کا مسئلہ ہے ۔ اب الطاف حسین حالی کی رباعی یا د آتی ہے جس میں وہ کپڑے دھونے کے مرحلے میں داغ اور دھبّے کو مٹانے کی کوششوں میں اس بات کی تنبیہ کرتے ہیں کہ کپڑے کو حساب سے ہی رگڑنا چاہیے ورنہ بہ قولِ حالی:’دھبّا رہے کپڑے پہ نہ کپڑا باقی‘۔اب امتحان اور میڈکل اور انجینیرنگ کے مواقع فراہم تو ہو جائیں گے مگر کسی وجہ سے اگر ہمارے بچّے ہی نہ بچے تو کیا ہوگا؟
حکومت کے بڑ ے اداروں سے لے کر عدالتوں اور انتظامیہ کے نمائندوں میں سماج کا وہ طبقہ سب سے آگے ہے جسے ملائی دار طبقہ کہا جاتا ہے۔اسے وزیرِ اعظم نے پہلے ہی سے ایک فارمولہ دے رکھا ہے۔وہ وبا میں سنہرے موقعے کے تلاش میں ہے۔گذشتہ مارچ سے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی مالی اعتبار سے پست اور زندگی کی مشکلات میں مبتلا ہے۔ تیس کڑور سے زیادہ افراد اپنے روزگار گنوا چکے ہیں ۔ ان سب کے گھروں میں دو وقت کا کھانابھی بہ مشکل حاصل ہو رہا ہے۔ایسے لوگوں کے بال بچّے کیا پچھلے پانچ مہینوں میں اپنی تعلیم پر یکسو ہو کر مرتکز رہ سکے ہوں گے؟ ہر گز نہیں ۔جو کسی طرح سے جی سکتے ہیں ،ان کے بھی نفسیاتی حالات معمول پر نہیں ہیں۔ یہ پوری دنیا میں دیکھا جا رہا ہے۔حکومت اور فیصلہ کرنے والے اداروں میں ایک بڑا طبقہ ایسے ہی مواقع کی تاک میں رہتا ہے۔جن کے پیٹ بھرے ہو ئے ہیں اور جن کے گھر بار ٹھیک سے چل رہے تھے، ان کے بچّوں نے اس دوران اسی طرح پڑھنا لکھناجاری رکھا۔ زبر دستی امتحان کرانے میں صر ف اسی ملائی دار طبقے کو فائدہ حاصل ہو گا ۔ اسے غربا اور مساکین یا محروم طبقوں کی اولاد سے زیادہ مقابلہ نہیں کرنا پڑے گا۔ اگر پانچ سات لاکھ لوگ امتحان میں شامل نہ ہوں اور پانچ سات لاکھ لوگ کم تیاری کے ساتھ میدان میں آئیں تو اس ملائی دار طبقے کے بچّوں کو آسانی سے اور کم مقابلہ کر کے کامیابی مل سکے گی ۔ اسی لیے افسروں سے لے کر وزرا اور جج تک ایک ہی بولی بو ل رہے ہیں۔
ملک کے چھے صوبوں کی حکومتو ں نے سپریم کورٹ کی نظرِ ثانی کی درخواست جمع کی ہے۔خدا کرے کہ سپریم کورٹ کو ملک کے زمینی حالات سمجھ میں آجائیں اور اس امتحان کی تاریخ میں کم از کم دو مہینے کی توسیع کر دی جائے۔ حکومت اور عدالت کا کہنا ہے کہ امتحانات روکے نہیں جاسکتے ۔ملک کے بچّوں کے ا یک سال یا ایک سیشن کی بربادی کا یہاں معاملہ نہیں ہے۔ آنے والے دوسیشن میں دو یا تین مہینوں کی تخفیف کر کے ،چھٹیوں کو کم کر کے یاتعلیم کے اوقات بڑھا کر ہم اس دیری کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ اگر وبائی صورتِ حال مزید بد تر ہوئی اور ہمیں پورا ایک سیشن گنوانا پڑا تب بھی لاکھوں بچوں کی جان کے مقابلے یہ یکسر نقصان نہیں ہے۔ اگلے سال میڈیکل اور انجینیرنگ کی سیٹیں دوگنی کر کے اس صورتِ حال سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔مگر دشواری یہ ہے کہ حکومت اور کبھی کبھی کورٹ بھی ایک ضدّی اور شہ زور بچّے کی طرح اپنے فیصلے اور منطق پیش کرتے ہو ئے نظر آرہی ہیں۔ کسی جمہوری اور فلاحی ملک میں یہ طَور کسی بھی طرح سے زیبا نہیں ۔ خد ا عوام کے مفاد میں فیصلے لینے کا ہمیں شعور عطا کرے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
پٹنہ:شہریت ترمیمی قانون۹۱۰۲ کاقانونی اوردستوری نقطہ نظرسے جائزہ لینے اوراس کے نتائج پرغوروخوض کرنے کے سلسلہ میں شہرپٹنہ کے ممتازوکلاء کی ایک میٹنگ مفکراسلام حضرت امیر شریعت کی ہدایت پرمورخہ ۵۱/دسمبرروز اتوار امارت شرعیہ پھلواری شریف کی میٹنگ ہال میں زیرصدارت قائم مقام ناظم جناب مولانامحمدشبلی القاسمی صاحب منعقد ہوئی،اس میٹنگ میں قائم مقام ناظم صاحب نے وکلاء حضرات کا خیرمقدم کرتے ہوئے اپنی افتتاحی گفتگومیں کہاکہ اس وقت شہریت ترمیمی قانون ۹۱۰۲ء کے سامنے آنے کے بعد پورے ملک میں غیرمعمولی اضطراب اوربے چینی کاماحول پیدا ہوگیاہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قانون ملک کے آئین،دستور اورملک کے مزاج کے پس منظر میں نہایت ہی سیاہ اورظالمانہ قانون ہے،یہ ملک کو دوہری تقسیم کی آگ میں جھونکنے کی ناپاک کوشش اورمذہب کی بنیادپر تفریق پیداکرنے اورمنافرت پھیلانے کی گھناونی سازش ہے،اس قانون کاایک بڑامقصدمسلمانوں کی شہریت پر حملہ اوراس کو تباہ وپریشان کرناہے، ایسے حالات میں ملک وملت کی صحیح رہنمائی کرناایک اہم دینی وملی ذمہ داری ہے۔
چنانچہ آج کی میٹنگ میں شریک تمام وکلاء نےCAAکے مختلف پہلوؤں کاقانونی جائزہ لیتے ہوئے اس بات پر اتفاق کا اظہارکیاکہ شہریت ترمیمی قانون دستور کی کئی بنیادی دفعات کی روح کے خلاف اور ایک خاص طبقہ کے حق شہریت پر کھلاہواحملہ ہے،نیز مذہب کی بنیاد پرکھلی ہوئی تفریق پیداکرناہے،اس لئے امارت شرعیہ جیسے ادارہ کواس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں جانا چاہئے اورعدالت سے اس ظالمانہ قانون کوکالعدم کرنے کی اپیل کرنی چاہئے،قابل شکر ہے کہ اس وقت امارت شرعیہ کوایک اولوالعزم، باہمت اورتجربہ کارعظیم شخصیت حضرت مولاناسیدمحمدولی رحمانی صاحب جیسے امیرشریعت کی سرپرستی حاصل ہے۔میٹنگ میں چندوکلاء حضرات پر مشتمل ایک کمیٹی جناب راغب احسن صاحب سنیئر ایڈوکیٹ ہائی کورٹ پٹنہ کی سرکردگی میں تشکیل دی گئی،جس میں ایڈوکیٹ جناب سیدمصلح الدین اشرف صاحب،ایڈوکیٹ جناب عبیدالرحمن صاحب،ایڈوکیٹ جناب نفیس الضحیٰ صاحب،ایڈوکیٹ ارشدجمیل ہاشمی صاحب،ایڈوکیٹ کمال الدین صاحب اورایڈوکیٹ جناب جاوید اقبال صاحب کے نام شامل ہیں،یہ حضرات سپریم کورٹ کے لئے ڈرافٹ تیارکریں گے اورپھرسپریم کورٹ کے ماہروتجربہ کاروکیلوں سے مشورہ کے بعد سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیاجائے،میٹنگ میں یہ بھی طے پایاکہ جمہوری ملک میں اپنے حقوق کے تحفظ اورظلم کی دفاع کے لئے ہرشہری کو پرامن احتجاج اورمظاہرہ کا حق حاصل ہے، اس لئے ضرورت ہے کہ اس قانون کے خلاف ملک کے امن پسنداورسیکولرمزاج رکھنے والے طبقوں،غیرمسلم بھائیوں اورمختلف جماعتوں کی قائدین کی معاونت میں مضبوط احتجاج اورمظاہرہ بھی کئے جائیں،اورہرسطح پر اپنی ناراضگی کا اظہارکیاجائے،اس سلسلہ میں وزیراعلیٰ بہار،وزیرقانون اورمسلم ممبران اسمبلی،ضلع کلکٹروغیرہ کوبھی میمورنڈم بھی دیاجائے،جس میں اس سیاہ قانون کے سلسلہ میں ناراضگی کااظہارکرتے ہوئے اس قانون کو واپس لینے کی گذارش کی جائے۔
میٹنگ کا یہ بھی احساس تھاکہ امارت شرعیہ نے اس سے پہلے دین بچاؤ دیش بچاؤ کی مہم چلائی تھی،جس کاایک نمایاں اثرمحسوس کیاگیاتھا،ضرورت ہے کہ اس وقت بھی آئین بچاؤاوردیش بچاؤ کی مہم چلایاجائے،اوراس وقت تک تحریک کوجاری رکھاجائے جب تک اس سیاہ قانون کوواپس نہ کرلیاجائے۔اس موقع پر تمام وکلاء حضرات نے یہ بھی کہاکہ آج کی یہ میٹنگ اوراس سے پہلے امارت شرعیہ کی طرف سے بلائی گئی کئی اہم میٹنگیں اوران کے دانشمندانہ فیصلے یقیناقابل تحسین ہیں۔آج کی میٹنگ میں جن وکلاء حضرات نے شرکت کی،ان میں ایڈوکیٹ انورعالم،عبدالعزیز،محمدضیاء القمر،محمدکمال حسین،محمدفیروز،رئیس احمد،سید قیصرعالم، شکیب ایاز،محمدایاز،آفتاب عالم،شاہ نوازصاحب وغیرہ کے نام شامل ہیں۔