ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی
جے این یو ، نئی دہلی
موبائل: 9718921072
مجھے سب سے پہلے تو اسی بات پر اعتراض ہے کہ اس عظیم اور عالمی تحریک کا نام ریشمی رومال کیوں مشہور ہو گیا ۔ 1916میں ریشمی کپڑے پر لکھے تین خفیہ خطوط انگریز سی آئی ڈی کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ انگریزوں نے ان کی چھان بین کی اور ایک ہزار صفحات پر اس کی رپورٹ تیار کی اور اس کا عنوان ”ریشمی خطوط کیس“ متعین کیا۔ اس عنوان سازی کے پس پردہ بھی سفید فاموں نے اس تحریک کو کنڈم اور محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔
میرا خیال ہے کہ اس تحریک کا نام یا تو تحریک شیخ الہند یا پھر تحریک دیوبند ہونا چاہیے تھا۔ مشہور محقق وعالم مولانا عبد الحمید نعمانی نے بھی تحریک شیخ الہند کو ایک کل اور ریشمی رومال کو اس کا ایک جز اور باب قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس رپورٹ کے ترجمہ وترتیب کا وقت آیا تو سید محمد میاں صاحب نے اس کا نام ”تحریک شیخ الہند“ رکھا، کیوں کہ ریشمی رومال سے ذہن مخصوص ومحدود سرگرمیوں ہی تک پہنچ پاتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک شیخ الہند میں انجمن ثمرة التربیت، جمعیة الانصار، ریشمی خطوط کیس، ہندو مسلم اتحاد کی جد وجہد، مختلف ممالک بطور خاص اسلامی ممالک سے امداد وتعاون کی بے پناہ کوششیں، اس کے نتیجے میں تین سال سے زائد کی قیدوبند کی مشقتیں، وہاں سے واپسی کی بعد ترک موالات کا فتویٰ، عدم تشدد کی تائید وتوثیق، جمعیت علمائے ہند کا قیام اور آخر میں ایک آزاد قومی یونیورسٹی کی تاسیس سب شامل ہیں۔
انجمن ثمرةالتربیت(1878) اور جمعیة الانصار(1909) کی سرگرمیاں ہوں یا سلسلۂ تدریس و تصنیف یا دور صدارت دارالعلوم ہو یا پھر قیام جامعہ، یہ بوریہ نشیں ہر ڈگر پہ آزادی ہند کا مرغ بسمل اور لیلائے آزادی کا صحرانورد قیس دکھائی دیتا ہے۔ اس داڑھی ،ٹوپی اور کرتا والے نے فرش سے عرش تک کا سفر کس طرح طے کیا وہ قابلِ دید و شنید ہے ۔
اس معمولی گوشت پوست کے ڈھانچے کے اندر ملک کی آزادی کا جنون اور سفید فاموں سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ یوپی کے گورنر جیمس میسٹن نے کہا تھا ” اگر اس شخص کی بوٹی بوٹی کر دی جائے تو ہر بوٹی سے انگریز کی عداوت ٹپکے گی “ ۔(دارالعلوم : ادبی شناخت نامہ،حقانی القاسمی ،آل انڈیا تنظیم علمائے حق نئی دہلی 2006ص: 31) اسی طرح تاسیس جامعہ کے موقعے پر شیخ الہند کی خرابی صحت کی وجہ سے کچھ مروت کے ماروں نے انھیں علی گڑھ سفر سے باز رہنے کی درخواست کی تو انہوں نے یہی کہا تھا ” اگر میری صدارت سے انگریز کو تکلیف ہوگی تو میں اس جلسے میں ضرور شریک ہوں گا“ ۔(نقشِ حیات، مولانا حسین احمد مدنی ، دارالاشاعت کراچی ، تاریخ اشاعت ندارد،ج: 2ص: 676)
آمدم برسر مطلب:
شیخ الہند کی اس تحریک میں برادرانِ وطن کی کس قدر شرکت و شمولیت رہی ہے اور ساتھ ہی اس نکتے کی طرف اشارہ بھی ضروری ہے کہ حضرت شیخ الہند اپنی اس جدو جہد سے کیا چاہتے تھے ؟آیا ایک خالص اسلامی حکومت کا قیام اس تحریک کامقصد تھا یا پھر ایک آزاد اور جمہوری حکومت کا قیام؟؟شیخ الہند کی زندگی اوران پر لکھی مختلف تحریروں اوران کے خطبات ومکتوبات کے گہرے مطالعے سے اس بات کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ ان کاان کاخواب ایک ایسے آزاد ہندوستان کا خواب تھا جہاں ہر انسان جس طرح بے روک ٹوک دھوپ کی کرنوں اور بارش کے قطروں سے فائدہ اٹھاتا ہے،اسی طرح وہ زندگی کی ہر ڈگر اور ہر موقعے پر بغیر کسی گھٹن کے سانس لے سکے اوراپنے جینے کا سامان کرسکے اور سماج کا ہر انسان اپنے اپنے مذہب کے مطابق کھل کر جینے کا حق رکھتا ہو، یہاں کی تمام اقوام باہم شیر شکربن کر رہیں۔
اسلام کے نظام زندگی پر جس طرح شیخ الہند پختہ یقین رکھتے تھے، اسی طرح اسلام کے جذبۂ رواداری کا سبق بھی ان کے پیش نظر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب جامعہ کی بنیاد ڈالی جارہی تھی توآپ نے ایک راہنما اصول بتاتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”اس یونیورسٹی کا تمام تر نظام عمل اسلامی خصائل اور قومی محسوسات پر مبنی ہوگا“۔ (خطبہ صدارت برائے تاسیس جامعہ29 اکتوبر 1920علی گڑھ)” اسلامی خصائل “کے ساتھ” قومی محسوسات “کا لاحقہ شیخ الہند کے گہرے اسلامی شعور اور اسی جذبۂ رواداری کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ انھوں نے طلبہ کو یہ نصیحت بھی کی تھی کہ وہ اپنے مذہبی شعار کے ساتھ ساتھ اپنے ہم قوموں کے دکھ درد کا مداوا کرنے والے ہوں اور ذمہ داروں کو یہ تاکید کی کہ اس ادارے کا دروازہ ہندی قوم کے ہر بچے کے لیے ہمہ وقت کھلا رہے۔
اب ہم ذرا اپنے قرنِ گزشتہ کو آواز دیتے ہیں کہ آخر شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے اندر اس جذبے کی چنگاری کس نے لگائی۔ تاریخ دارالعلوم میں محبوب رضوی مرحوم نے لکھا ہے کہ ابتدامیں دارالعلوم میں فارسی وریاضی کے درجات میں اچھے خاصے ہندو طلبہ پڑھا کرتے تھے اور ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا لیکن جب انگریزوں نے ملازمت کے لیے سرکاری تعلیم اور سرکاری سند کو لازمی قرار دے دیا تو پھر شدہ شدہ یہ پوری ٹولی بکھر گئی۔ (تاریخ ِ دارالعلوم دیوبند ، سید محبوب رضوی ، ادارہ اہتمام دارالعلوم دیوبند (1992)جلد 1 ،ص : 194)
اسی کا لازمی ثمرہ تھا کہ دارالعلوم کو برادرانِ وطن کی محبت وعقیدت اول روزسے حاصل رہی۔ منشی تلسی رام، رام سہائے، منشی ہردواری لال، لالہ تیج ناتھ، پنڈت سری رام، منشی موتی لال اور رام لال جیسے دیالوغیر مسلم دارالعلوم دیوبند کے مستقل چندہ دہندگان میں تھے۔ منشی نول کشور اپنے مشہور زمانہ مطبع ”اعظم“ لکھنو کی قیمتی قیمتی کتابیں دارالعلوم کی لائبریری کو برابر ہدیے میں ارسال کرتے بلکہ اپنے اخبار” اودھ اخبار“ کو بھی دارالعلوم کے نام مفت جاری کررکھا تھا۔ تاریخ دارالعلوم میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔
خیر سگالی کا یہ جذبہ کسی نہ کسی درجے میں آج بھی جاری ہے ابھی چند سال قبل دیوبند کے ایک معزز ہندو گھرانے کی ایک بیٹی نے شیخ الہند کی اسی تحریک پر ہندی زبان میں میرٹھ یونورسٹی سے .Ph.D کی ڈگری حاصل کی ہے۔
اس تصویر کے بعد ہم آگے بڑھتے ہیں۔ حضرت شیح الہند نے جب جمعیة الانصار کے ذریعے باضابطہ اپنے مشن کا آغاز کیا تواس میں چند اساتذہ وطلبہ کے ساتھ کچھ ہندو حضرات کو بھی شامل کیا۔ چوں کہ یہ مشن انتہائی خفیہ انداز کا تھااس لیے اس کی ابتدا کی تفصیل بھی معدوم ہے۔ صاحب ”تذکرہ شیخ الہند “ مفتی عزیز الرحمن بجنوری نے ”اراکین ریشمی رومال“ کے ضمن میں کچھ ہندو حضرات کا بھی تذکرہ کیا ہے جن سے خفیہ میٹنگ کے لیے شیخ الہند نے ایک علاحدہ کمرہ بھی کرایے پہ لے رکھا تھالیکن تفصیل بتانے سے ان کا قلم بھی خاموش ہے۔ (تذکرہ شیخ الہند، مفتی عزیز الرحمن بجنوری ،مکتبہ فدائے ملت مراد آباد،2012،ص: 256)ممکن ہے کہ یہ شرکا بھی حضرت شیخ الہند ہی کے شاگرد رہے ہوں۔ کاش !ان ناموں کا سراغ لگ پاتا۔
یہا ں آکر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ صوبہ سرحد اور افغانستان میں شیخ الہند کے ہزاروں شاگردان اور فیض یافتگان بھی بستے تھے اور وہ حضرت کے مشن سے ایک گونہ واقف بھی تھے اس لیے انھیں اپنی تربیت پر بھروسہ تھا۔ بقول مولانا عبیداللہ سندھی مرحوم کہ جب میں افغانستان پہنچا تو ایسا محسوس ہواکہ گزشتہ پچاس برسوں سے اس مہم کی تیاریاں چل رہی تھیں، میں انگشت بدانداں رہ گیا۔ اس تحریک کوایک طرح سے طلبہ تحریک بھی کہ سکتے ہیں مولانا سندھی کے ساتھ سفر کابل میں جہاں دیگر رفقا تھے وہیں غیر مسلم رضاکاروں کی بھی اچھی خاصی تعداد تھی۔
ویسے تو کئی ہندو صاحبان جرمن وجاپان جاکر آزادیہند کی کوشش میں جٹ چکے تھے ان میں امبا پرشاد، ہردیال پرشاد اور سروجنی نائیڈو کے بھائی چٹواپادھیائے کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں؛ لیکن شیخ الہند کی عبوری حکومت میں واضح طور پر راجہ مہندر پرتاپ اور چمپا کر ن پلّئی ہی کے نام سامنے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ہندو حضرات اس حکومت کا حصہ رہے ہوں گے ۔ ممکن ہے مذکورہ حضرات بھی اس میں شامل رہے ہوں اور اپنے اپنے مقام سے ہاتھ بھی بٹارہے ہوں!لیکن افسوس تاریخ یہاں بھی خاموش ہے۔ اسی طرح اس تحریک میں ہندوستان وافغانستان کو جوڑنے اور ہندوستانی انقلابیوں کی بھر پور مدد کرنے والوں میں پشاور کے میر چند گپتا کا نام بھی انتہائی روشن ہے۔شیخ الہند نے بہت سے بکھرے ذرات کو جب یکجا کیا تو خود بخود ایک مضبوط جماعت تیار ہو گئی۔ اسی گروہ نے جرمن، آسٹریا، ترکی اور افغانستان کے تعاون سے افغانستان ہی میں یکم دسمبر 1915میں ایک عبوری حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ مولانا برکت اللہ وزیر اعظم ، مولانا عبید اللہ سندھی وزیر داخلہ، چمپا کرن وزیر خارجہ، مولانا بشیر وزیر دفاع اور راجا مہندر پرتاپ صدر نشیں ٹھہرے۔
جب یہ حکومت قائم ہو گئی تواس نے مختلف ممالک میں اپنی سفارت بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ چناں چہ روس کی سفارت میں ایک ہندو اور ایک مہاجر طالب علم تھے۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ شیخ الہند نے ایک آزاد جمہوری ہندوستان کا خواب دیکھا تھا۔ غالب پاشا، انور پاشا اور جمال پاشا وغیر ہ کو بھی اس بات سے کوئی پریشانی نہیں تھی کہ اس میں ہندو کیوں شامل ہیں بلکہ انھوں نے برادران وطن کی شرکت کی تائیدکی اور اسے مفید قراردیا تھا۔ لہذا حضرت شیخ الہند نے کابل میں موجود اپنے شاگردوں کو یہ ہدایات بھیجیں کہ ” و ہ ہر طرح اپنی تحریک میں غیر مسلموں کو بھی شامل کریں اور انھیں ذمہ دار مناصب پر فائز کریں اورانھیں بطور خاص یہ یقین دلائیں کہ اس تحریک کا مقصد پھر سے ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت قائم کرنا نہیں بلکہ صرف ملک کی آزادی کا حصول ہے“۔ (معمار ان جامعہ ،ظفر احمد نظامی ،مکتبہ جامعہ لمیٹڈنئی دہلی ، 2011،ص: 26)
حضرت قرآن وحدیث پر بڑی گہری بصیرت رکھتے تھے۔ چناں چہ انھوں نے مالٹا سے واپسی کی بعد ترک موالات کا جو فتویٰ دیا اس نے پوری قوم بطور خاص مسلمانوں پر بڑے دور رس اثرات مرتب کیے اور ساتھ ہی اپنے ضعف ونقاہت کے باوجود ملک کے مختلف مقامات کا دورہ بھی کیا اور ترک موالات کے پلیٹ فارم پر ہندو مسلم کولانے کی ایک منظم کوشش کی۔
ظفر احمد نظامی نے لکھا ہے:
” بعد ازاں (مالٹا) شیخ الہند نے علالت کے باوجود ملک کے مختلف مقامات کا دورہ کیا اور ترک موالات کے پیغام کو عام کیا۔ ان اسفار سے ہندو مسلم اتحاد کو فروغ حاصل ہوا اور ہندو ستان کے عوام نے تحریک میں شمولیت اختیار کی“ـ (معماران جامعہ ص: 29)
ترک مولات کے سلسلے میں حضرت نے قرآن کی دس آیات کا حوالہ دیا اور ان کی روشنی میں یہود نصاریٰ سے موالات ودوستی کو ناجائز بتایا تاہم ان کے پیش نظریہ والی آیت بھی تھی کہ اللہ ان لوگوں کے متعلق جودین کے معاملہ میں تم سے نہیں لڑے اور انھوں نے تم کوتمہارے گھروں سے نہیں نکالا،اس سے منع نہیں کرتا کہ تم ان کے ساتھ بھلائی اور منصفانہ سلوک کرو(ممتحنہ، آیت 8)
چناں چہ اس جد جہد سے متاثر ہو کر بہت سے ہندو حضرات شیخ الہند کے کارواں میں شامل ہوگئے اور تحریک کو تقویت بخشی۔ جمعیت علما کے دوسرے اجلاس کے خطبۂ صدارت میں شیخ الہند نے فرمایا:
”حالات کی نزاکت کو محسوس کرکے جو کوشش اس کے لیے فریقین کے عمائد نے کی ہے اور کررہے ہیں اس کی میرے دل میں بہت قدر ہے“ آگے مزید فرماتے ہیں : ”اس لیے ہندوستان کی آبادی کے یہ دونوں عنصر بلکہ سکھوں کی جنگ آزما قوم کو ملاکر اگر صلح وآتشی سے رہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی چوتھی قوم خواہ وہ کتنی ہی بڑی طاقت ور ہو ان اقوام کے اجتماعی نصب العین کومحض اپنے جبر واستبداد سے شکست کر سکے گی“۔ (تذکرۂ شیخ الہند، مفتی عزیز الرحمن بجنوری ،مکتبہ فدائے ملت مراد آباد،2012،ص: 373)
یہاں ”اجتماعی نصب العین“ کا لفظ بھی مشترکہ اقدار کی طرف اشارہ کر رہا ہے اس پورے سلسلے میں نہ تو اپنے مذہب سے سرمو انحراف ہے اورنہ ہی دوسرے مذاہب سے چھیڑ چھاڑ۔ اپنے اپنے اعتبار سے ایک طرف راجا پرتاپ ہندووں کے فوائد کی بات کر رہے ہیں تو دوسری طرف مولانا عبیداللہ سندھی ؒاسلامی فوائدکے لیے آواز بلند کرتے ہیں،یہاں نہ تو کسی ہندو کو کوئی آپتیّ ہے اور نہ ہی کسی مسلم کو کوئی پریشانی۔
اسی کا اثر تھا کہ جب آپ مالٹا کے قید وبند سے رہا ہوکر اپنے وطن آتے ہیں تو ہندو مسلم کا مشترکہ قافلہ آپ کا پرتپاک استقبال کرتا ہے اور شیخ الہند کے خطاب سے بھی نوازتا ہے۔ گاندھی یہاں بھی حاضر ہیں اور تاسیس جامعہ میں بھی آپ کے دوش بدوش کھڑے ہیں۔
برادران وطن کو شیخ الہند سے گہرا لگاؤ اور محبت ہی کی بات تھی کہ ان کے انتقال کی بعد سیکڑوں اخبارات ورسائل نے اپنی اپنی طرف سے تعزیتی قرار دادیں پیش کیں اور عوام نے بڑے بڑے جلسے وجلوس کا اہتمام کرکے اپنے اس عظیم لیڈر کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ان میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو حضرات بھی قدم بقد م رہے ۔ آل انڈیا اسٹودنٹس کا بھی ایک عظیم جلسہ تعزیت ناگپور میں منعقد کیا گیا جس کی صدارت لالہ لاجپت رائے نے کی، اس میں آپ کی خدمات جلیلہ اور وطن عزیز کی خاطرعظیم قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے نظریہ اتحادِہندو مسلم کا سبق بھی دہرایا اور اسے اپنے لیے مشعل راہ بھی قرار دیا۔ اسی طرح سندھ میں ایک تعزیتی پروگرام کے بعد ایک مدرسہ ”محمودیہ“ کی بنیاد ڈالی گئی اوراس میں عربی، فارسی، اردو اورانگریزی میں مذہب وسیاست کی تعلیم دینے کا فیصلہ ہوا اور ساتھ ہی مفت میں ہر مذہب کے بچوں کے لیے اس کا دروازہ کھول دیا گیا۔ ایسا ہی ایک پروگرام مظفر پور بہارمیں بھی ہوا، اس میں بابو جھگڑولال نے حضرت کی پوری زندگی کا بھر پور جائزہ پیش کرکے اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار کیا۔(تذکرہ شیخ الہند، مفتی عزیز الرحمن بجنوری ،مکتبہ فدائے ملت مراد آباد،2012،ص: 324- 326)
ان تمام تفصیلات سے یہ بات پوری طرح روشن ہو جاتی ہے کہ حضرت شیخ الہند کے پیش نظر آیا محض مسلم تھے یا ہندو ستان میں بسنے والا ہر فرد اور اس کی آزادی؟؟ یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اتنی عظیم تحریک کی داغ بیل ڈالیں اوراس میں برادران وطن کو نظر انداز کردیں اور ان کی شرکت وشمولیت نہ ہو۔
شیخ الہند نے اپنے آخر ی ایام میں ایک آزاد یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی تو وہاں بھی ان کی یہی سوچ کار فرما تھی اور جامعہ ملیہ بھی بنی اور اسلامیہ بھی ۔ اسلام کے مکمل تشخصات کے ساتھ قومی محسوسات کا یہی وہ نقشہ تھا جوان کے آئینہ زندگی میں ہمہ وقت دیکھنے کوملتا تھا۔ اس لیے تحریک کو ملکی کے بجائے عالمی قرار دینا چاہیے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے صحیح کہا تھا کہ استاد محترم کو شیخ الہند کے بجائے شیخ العالم کہنا چاہیے۔ (تذکرہ شیخ الہند، مفتی عزیز الرحمن بجنوری ،مکتبہ فدائے ملت مراد آباد،2012،ص:325)
بلا شبہ ان کی تحریک ایک بین الاقوامی تحریک تھی اور بعض اعتبارات سے ملک کے چوٹی کے سیاسی رہنماؤں اور بانیانِ تحریکاتِ آزادی سے بھی بلند ان کا قد دکھائی دیتا ہے۔ آج جب تحریک ریشمی رومال کو ایک سو سال سال گزر چکے ہیں ۔ہمیں اس کے لیے پرعزم ہونا ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر جذبہ قربانی کے ساتھ ساتھ رواداری اورہندو مسلم اتحاد کے فروغ میں بھی عملاً حصہ لیں۔ بظاہر یہ تحریک نا کام ضرور ہوئی لیکن اس کے اثرات آزادی ہند کی شکل میں ضرور ظاہر ہوئے جس کا انکار ممکن نہیں۔ ہم ان بزرگوں کے احسان کا بدلہ چکانے کے اہل تو نہیں لیکن ان کے تعمیری اورمثبت مشن کو آگے بڑھاتے اور عملاً حصہ لیتے ہوئے احسان فراموشی سے ضرور بچ سکتے ہیں۔
خدا انہیں ان کی عظیم قربانیوں کا بہترین بدلہ دے اور ان کی قربانیوں کے طفیل آج کی ہندوستانی قوم کو متحد ہو کر وقت کے انگریزوں سے پنجہ آزما ہونے کا حوصلہ بھی دے ۔ آمین!