یر چیز کو اس کی حیثیت کے مطابق جگہ دینی چاہئے یہی طریقہ وسط ہے۔ ہماری ذاتی رائے میں جو ادارے آن لائن تعلیم میں افادیت محسوس کرتے ہیں وہ اپنا سلسلہ جاری رکھیں اور جو اسے مفید نہیں سمجھتے اسے چھوڑدیں۔ کبھی بہت زیادہ فضائل بیان کرنے سے بھی معاملہ بگڑ جاتا ہے اور کبھی بہت زیادہ نقائص بیان کرنے سے بھی خسارہ اٹھانا پڑتا ہے۔
ہمارے بزرگ تھے حضرت مولانا ابرارالحق خلیفہ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ، وہ ہمارے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے 1969 سے سرپرست اعلی رہے اور 1979تک ہرسال یہاں نگرانی کے لئے آتے رہے، اس کے بعد آنا کم ہوگیا، یہ دس سال اس ادارے میں ہمارے طالب علمی اورتدریس کے دن رہے ، حضرت کو ہم نے بارہا تبلیغی جماعت کے طریقۂ کار کے سلسلے میں کہتے سنا کہ نافع ہے، کافی نہیں۔
جب بھی تعلیم وتربیت اور دعوت کے سلسلے میں کوئی نئی چیز سامنے آتی ہے تو ہمارے ذہن میں حضرت کی یہ بات تازہ ہوجاتی ہے۔ اب یہی دیکھیے، آن لائن تعلیم کو بعض ادارے مفید پارہے ہیں، اس سے جو مفید تجربات ہورہے ہیں وہ بتارہے ہیں، لیکن اس کی تعریف میں اتنا آگے بڑھا جائیں کہ اس کے کافی ہونے کا تصور سامنے آنے لگے تو یہ بات خلافِ حقیقت ہوگی، ہماری رائے میں تعلیم یا دعوت دین کے کسی نئے طریقۂ عمل کی اتنی تعریف نہیں کرنی چاہیے کہ اس سے جو افراد یا ادارے احتیاط برت رہے ہیں، وہ الرجک ہوجائیں۔
جن لوگوں نے نیا طریقۂ کار اپنایا ہے انہیں تجرباتی دور سے گذر کر اپنے عمل اور اس کی بارآوری کے بہتر نتائج پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔
اس کے باوجود ہماری تمام تعلیمی اداروں کے ذمہ داران سے ہماری گذارش ہوگی کہ جو طلبہ آپ کے ماتحت زیر تعلیم ہیں ان کے اوقات اور عمریں آپ کے پاس امانت ہیں، لاک ڈون کے دنوں میں ان کی عمروں کا بے تحاشہ ضیاع ہورہا ہے، جیسے جیسے ان کے پاس اپنے اوقات کا مفید مصرف کم ہوگا وہ جہالت کی طرف لوٹیں گے، ان کا پڑھا ہوا ذہنوں سے دھل جائے گا،اس سے بچنے کے لئے ان کی مناسب رہنمائی نہ کرنے کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔ جو احباب سمجھتے ہیں کہ آن لائن تعلیم کے فوائد ہی فوائد ہیں اور تعلیم وتربیت کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے وہ غلطی پر ہوسکتے ہیں، لیکن اگر وہ یہ سوچتے ہیں کہ پھول نہیں تو پھول کی پنکھڑی ہی سہی، اس راہ سے تو ان طلبہ کی عمریں کچھ مفید کاموں میں لگ رہی ہیں تو ان کا یہ سمجھنا درست ہے۔
جن لوگوں نے آن لائن تعلیم کو مکمل طور پر مضر یا غیر مفید سمجھا ہے ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بتائیں کہ کورونا کے ان فارغ اوقات میں طلبہ کے اوقات کو مفید بنانے کے لئے انہوں نے کیا نظام وضع کیا ہے، واضح رہے کہ پند ونصائح، ذمے داری دینے اور جواب طلبی کے بغیر فائدہ مند نہیں ہوتے۔
عبدالمتین منیری
دنیا کی جتنی زبانیں ہیں ان کے سلسلے میں عمومی اصول یہ ہے کہ نصف صدی کے دورانیہ سے ان کے الفاظ و معانی اور استعمالات بدل جاتے ہیں، دوسری اقوام سے خلط ملط اور دوسری ضرورتوں سے نئے الفاظ شامل ہوتے ہیں اور پرانے الفاظ متروک ہوجاتے ہیں۔
اس کی مثال میں آپ مولانا آزاد کے الہلال کو لیجئے، برصغیر کو جگانے اوراس کی نشات ثانیہ میں اس مجلہ کو سرخیل سمجھا جاتا ہے۔ اور مولانا آزاد کی نثر کو اعلی ترین نمونہ سمجھا جاتا تھا، لیکن اب الہلال کی فائلوں کو کھول کر دیکھئے اور سچے دل سے بتائیے کہ ان کی عبارتوں کا آپ پر کیا اثر پڑتا ہے، کیا وہی جس کے بارے میں آپ نے سن رکھا ہے؟
یہ صرف عربی زبان کا اختصاص ہے اوروہ بھی قرآن کے اعجاز وجہ سے ہے کہ آج سے پندرہ صدی پیشتر جن آیات قرآنی یا احادیث نبویہ سے دل گداز ہوتے تھے، آج بھی ہوتے ہیں، اب بھی خوش الحان قاری جب انہیں پڑھتا ہے تو آنکھوں سے آنسؤوں کی لڑی لگ جاتی ہے۔ یہ خاصہ کسی اور زبان میں نہیں ہے۔
جب دنیا میں قوم پرست تحریکیں اٹھیں اور سامراجی قوتوں کو اپنی زبان اور ثقافت زیردست اقوام پر مسلط کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی کوششیں ہوئیں کہ اپنے زبان وادب کو ماضی سے جوڑا جائے اور انہیں قدیم ثابت کرنے کی کوشش کی جائے، لہذا غٓالب اقوام کی اپنے زبان و ادب کو بچانے کے لئے منظم کوششیں ہوئیں اور اپنی زبانوں کو دوسری زبانوں کے الفاظ سے خالی کرنے کے لئے شعوری طور پر اور باقاعدہ کام ہوا ، اس کے لئے بڑے بڑے بجٹ مقرر کئے گئے۔
اپنی زبانوں کو ماضی سے جوڑنے کی کوششوں میں ایک اہم پروجکٹ تاریخی ترتیب پر کتب لغت کی تیاری کا کام ہے۔ انگریزی میں اس سلسلے میں بڑا کام ہوا ہے، جس میں آکسفورڈ، کیمبرج اور میریم ویبسٹر ڈکشنری معروف ہیں، ان ڈکشنریوں میں اس بات کا اہتمام کیا گیا ہے کہ زبان کے ہر ہر لفظ کے معنی اس زبان کے آغاز میں کیا تھے، کس مفہوم میں کس مصنف یا شاعر نے اپنی عبارت میں اس لفظ کو استعمال کیا ، انگریزوں نے مسلمانوں کی طرح اس بات کی کوشش کی کہ کتاب مقدس بائبل کی زبان معیاری بنائی جائے، لہذا جیمس کا انگریزی ترجمہ جہاں زبان وادب کا ایک مرجع بنا اردو میں بائبل کا ترجمہ بھی ایک معیار بنا۔اس سے یہ مشکل آسان ہوگئی کہ جب کسی قدیم مصنف کا کوئی استعمال غلط محسوس ہو تو پتہ لگایا جائے کہ اس نے اسے کس مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ بائیس جلدوں میں اردو لغت کبیر بھی اسی اصول پرتیار کی گئی ہے۔ اس کے ذریعہ اب وجہی ، نصرتی ، گیسو دراز وغیرہ دکن کی قدیم کتابوں کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے جو بادی النظر میں دلچسپ نہیں معلوم ہوتیں۔
لیکن عربی زبان میں الفاظ کے معنی اور استعمالات اس طرح نہیں بدلے۔ بہت معمولی تبدیلیوں کے ساتھ لکھی اور بولی جانے والی فصیح زبان اب تک یہی ہے لہذٓ اس میں اب بھی سات آٹھ سو سال قبل تیار کی جانے والی کتب لغت القاموس، لسان العرب وغیرہ سے کام چل رہا ہے، آکسفورڈ کے طرز پر عربی زبان کی بھی المعجم الکبیر سالہا سال سے تیار ہورہی ہے لیکن بات ابھی تک ابتدائی مرحلے میں رکی ہوئی ہے، کیونکہ عربی زبان میں تاریخ کی ترتیب پر لغت کی ضرورت دوسری زبانوں کی طرح محسوس نہیں ہورہی ہے اور پندرہ سو سال کے درمیان الفاظ کے معنی ومفہوم میں فرق طے کرنا بھی مشکل کام ہے۔اب یہی دیکھئے کہ مسلمانوں کی طرح قادیانیوں کا بھی خاتم النبیین پر ایمان ہے، لیکن چونکہ یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور گزشتہ پندرہ سو سال سے اس کے معنی و مفہوم میں کوئی تبدیلی نہیں واقع ہوئی ہے ؛لہذا قادیانیوں کی جانب سے اس لفظ کا نیا معنی ومفہوم امت نے قبول نہیں کیا۔ اب یہ کسی اور زبان کا لفظ ہوتا تو کیس کی نوعیت مختلف ہوتی، کیونکہ بائیبل کا جیمس ورژن بھی اب آوٹ ڈیٹڈ ہوگیا ہے، چند سال قبل اس کا نیا سرکاری ترجمہ رائج ہوچکا ہے۔
آزادی کے بعد ہندی کو خالص کرنے کی شعوری کوشش کی گئی،جس سے آل انڈیا ریڈیو کی زبان ایک اضحوکہ بن گئی، لہذا بول چال میں وہی زبان رائج رہی جسے بمبئی کی فلم انڈسٹری نے رائج کیا تھا، کیونکہ عوام اس کو سمجھتی تھی اور اثر لیتی تھی۔
ایران میں شہنشاہیت کے دور میں فارسی کو عربی اور دوسری زبانوں کے اثر سے آزاد کرنے کی کوشش کی گئی، جس کا خاطر خواہ اثر ہوا، اب وہاں اقبال ، سعدی،جامی اور رومی کی زبان متروک ہے، فارسی شاعر کی حیثیت سے ان کا احترام ہے، لیکن ان کے شعروادب سے جو اثر برصغیر اور افغانستان میں لیا جاتا ہے وہ بات نہیں ہے۔
اس سلسلے میں سب سے مؤثر کام کمال اتاترک نے کیا، اس نے ترکی کا عربی رسم الخط ختم کرکے ترکوں کو اپنے سابقہ دینی لٹریچر سے ہی کاٹ دیا ، اب عربی رسم الخط میں لکھی جانے والی زبان عثمانی ترکی کہلاتی ہے اور اسے جاننے والے سنسکرت وغیرہ مردہ زبانوں کی طرح معدودے چند رہ گئے ہیں۔ اب ترکی کو اپنے ماضی سے جوڑنے کے لئے عبرانی زبان کو جس طرح اسرائیل نے چند افراد کی بنیاد پر کیا، اسی طرح عثمانی ترکی کو زندگی دینی ہوگی۔