شاعر اور مرتب : ڈاکٹر تابش مہدی
صفحات : 304،قیمت 300،سن اشاعت : 2021 ء
ناشر : ادبیات عالیہ اکادمی ،ابوالفضل ،نئی دہلی 25–
مسلسل ساتھ ہے خوشبوئے پنہانی نہیں جاتی
کسی بھی حال میں پیارے ! غزل خوانی نہیں جاتی
مذکورہ بالا شعر کے خالق ڈاکٹر تابش مہدی ہیں اور اتفاق سے زیر تبصرہ ان کے غزلیہ مجموعہ کا نام بھی ’’غزل خوانی نہیں جاتی ‘‘ہے ،ڈاکٹر تابش مہدی کا شمار عمدہ قلمکار ،ادیب ،شاعر اور ناقد کے طور پر ہوتا ہے ،ادبی اور علمی حلقوں میں ڈاکٹر تابش مہدی محتاج تعارف نہیں ہیں ۔ان کاشعری اور ادبی سفر تقریبا پانچ دہائیوں کو محیط ہے ۔
ڈاکٹر تابش مہدی نقد ،تحقیق ،سیرت وسوانح ،تصوف اور دعوت و تحریک وغیرہ موضوعات پر کئی درجن کتابیں ان کے قلم گہر بار سے منظر عام پر ٓآکر داد و تحسین قبول کر چکی ہے ۔ بہت ہی ذہین و فطین ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع تجربات بھی رکھتے ہیں ۔تقریباتمام ہی اصناف سخن میں طبع آزمائی کرتے ہیں ،فنی باریکیوں پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ زبان پر بھی ان کی اچھی پکڑ ہے ۔اردو ،فارسی اور عربی تینوں سے ہی اچھی مناسبت ہے ۔
نعت گوئی اور منقبت وغیرہ بھی عمدہ لکھتے ہیں ،لمعات حرم ،سلسبیل ،صبح صادق اور طوبیٰ وغیرہ کے نام سے نعتیہ مجموعہ ٔ کلام اور نجوم ہدایت کے نام سے منقبت بھی منظر عام پر آچکے ہیں ۔
ڈاکٹر تابش مہدی کی غزل سے مناسبت بھی ہے اور غزل کے رموز ونکات ،نزاکت و کیفیت اور مزاج و آہنگ کو نہ صرف یہ کہ اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ اسے برتنے کا بھی عمدہ سلیقہ رکھتے ہیں ۔
نقش اول ،تعبیر ،کنکر بولتے ہیں ،غزل نامہ ،مشک غزالاں اور غزل خوانی نہیں جاتی کے نام سے اب تک چھ غزلیہ مجموعے شائع ہوکر داد وتحسین حاصل کر چکے ہیں ۔
ڈاکٹر تابش مہدی کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جو شاعری میں مقصدیت کے قائل ہیں ان کی غزلوں میں بھی ہ وصف نمایاں ہے ،تابش مہدی کی شاعری کا بنیادی مقصد ہی معاشرے کی اصلاح اور انقلاب ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب ’’ غزل خوانی نہیں جاتی ‘‘ تابش مہدی کا غزلیہ مجموعہ ہے ،اس میں 159غزلیں اور تین نظمیں شامل ہیں ۔غزل خوانی نہیں جاتی ان کا چھٹا غزلیہ مجموعہ ہے ،اس میں روایتی رنگ اور جدید آہنگ دونوں شامل ہیں ،اس مجموعہ کلام میں ڈاکٹر تابش مہدی نے اعتراف کیا ہے کہ عمر کا کوئی بھی پڑائو ہو ،غزل کا چسکا جسے لگ جائے وہ ختم نہیں ہوتا ہے ۔
شروع کی دو غزلوں میں حمدیہ رنگ ہے :
تو ہی حیات مری ،تو ہی آئینہ میرا
تجھے تو ہوگی خبر کیا ہے مدعا میرا
اسی کے نام سے ہر کام کا کیا آغاز
اسی کے نام پہ ہر اختتام میں نے کیا
تابش مہدی کی غزلوں میں روایتی اور کلاسیکی رنگ بھی خوب ہے :
تم حسینوں سے نہ رکھنا کبھی امید وفا
ان کو آتا ہے فقط آپ پہ نازاں ہونا
مجھ کو متاع غم ملی ،زخم وفا ملا
اے ناز حسن ! تو ہی بتا تجھ کو کیا ملا
دوستی اور محبت کے بارے میں تابش مہدی کا بھی وہی نظریہ ہے جو مرزا غالب ہے ،دوطرفہ ددوستی کو پسند کرتے ہیں ،اس شعر میں اس فکر کو محسوس کیجیے :
دوستی اور محبت کا تقاضا ہے یہی
تم ہمارے بنو اور ہم بھی تمہارے ہو جائیں
تابش مہدی کی شاعری میں جا بجا احتجاجی رنگ و آہنگ بھی دیکھنے کو ملتا ہے ،اس شعر میں ان کے احتجاجی رنگ کو دیکھیے :
ہندی میں شعر لکھ کے تلفظ غلط کیا
کتنا بڑا مزاق ہے یہ شاعری کے ساتھ
خلاصہ کلام تابش مہدی کی شاعری میں سادگی ،جوش اور نغمگیت کے ساتھ مقصدیت اورحق پسندی بھی ہے ،کہیں کہیں طنزیہ لہجہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔
تعلی کی بھی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ غالب اور اقبال کا رنگ بھی جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے ۔ادبیات عالیہ اکادمی نئی دہلی نے ڈاکٹر تابش مہدی کے اس شعری مجموعہ کو شائع کرکے قابل قدر کارنامہ انجام دیا ہے امیدہے قارئین اسے پسند بھی کریں گے اوراپنے ذوق کی تسکین کا سامان بنائیں گے ۔