نئی دہلی:دہلی ہائی کورٹ نے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ذاکر خان کو اپنے عہدے اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزام میں برطرف کرنے کی درخواست پر دہلی حکومت سے بدھ کے روز جواب مانگا۔چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس جیوتی سنگھ کی بنچ نے نوٹس جاری کرتے ہوئے دہلی حکومت، کمیشن اور خان سے درخواست پر جواب دینے کو کہا۔ درخواست میں دعوی کیا گیا ہے کہ کمیشن کے چیئرمین کا تعلق عام آدمی پارٹی سے ہے اور پارٹی کے پروگرا میں حصہ لینے کے علاوہ ایجنڈے کے پروپیگنڈے کے تحت سرگرم عمل ہے۔ عدالت نے اس معاملے کی سماعت کے لئے اگلی تاریخ 31 اگست مقرر کی ہے۔دہلی کے رہائشی عبد الامیر امیرو کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کے چیئرمین ذاکر خان کو ظفر الاسلام خان کی جگہ چیئرمین مقرر کیاگیا۔ ذاکر خان نے 2012 میں کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر بدر پور شہری وارڈ میں کامیابی حاصل کی تھی اور 2017 میں عام آدمی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ درخواست گزار نے کہا کہ چیئرمین اور کمیشن کے دیگر ممبران ڈی ایم سی ایکٹ کے تحت کام کرتے ہیں اور عوامی ملازم ہوتے ہیں اس لئے ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت یا تنظیم سے نہیں ہونا چاہئے۔
وکیل، ہیمنت چودھری کے توسط سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ خان نے جان بوجھ کر ایک سیاسی پارٹی کو فروغ دینے کے لئے اپنے عہدے اور اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ انہوں نے جان بوجھ کر دوسروں کو متاثر کرنے کے اپنے موقف اور اختیارات کا غلط استعمال کیا اور فیس بک جیسے عوامی پلیٹ فارمز پر تصاویر لگائیں۔ درخواست میں خان کو عہدے سے ہٹانے کے ساتھ درخواست کی گئی ہے کہ انہیں دی گئی تمام سہولیات واپس لی جائیں۔
عام آدمی پارٹی
شاہین باغ کا شہزاد علی بی جے پی میں شامل،ٹوئٹر پر ہنگامہ،’کیجریوال بریگیڈ‘ شاہین باغ پروٹیسٹ کو ’بی جے پی اسپانسپرڈ‘ قرار دینے میں جٹی
سماجی کارکن و آرٹی آئی ایکٹوسٹ ساکیت گوکھلے نے شہزاد علی کو بتایا راشٹریہ علما کونسل کے دہلی چیپٹر کا سکریٹری،ثبوت کے طورپر ٹوئٹر پر پارٹی کا تقرری لیٹر بھی شیئر کیا
نئی دہلی:(قندیل نیوز) نیوز ایجنسی اے این آئی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پرچار بج کر بیس منٹ پرچند تصویروں کے ساتھ ایک مختصر سی خبر پوسٹ کی جس میں لکھا تھا کہ’’شاہین باغ کے سوشل ایکٹوسٹ شہزاد علی نے دہلی بی جے پی صدر آدیش گپتا اور پارٹی لیڈر شیام جاجو کی موجودگی بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس موقعے پر انھوں نے کہا کہ میں نے بی جے پی میں اس لیے شمولیت اختیار کی ہے کہ اس تصور کو غلط ثابت کرسکوں کہ بی جے پی مسلمانوں کی دشمن ہے۔ ہم مل کر ان سے سی اے اے سے متعلق مسلمانوں کے خدشات پر بات کریں گے‘‘۔
یہ خبرٹوئٹر پر اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو گئی اور جہاں ایک طرف عام آدمی پارٹی اور کانگریس والے اسے اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے میں لگ گئے کہ شاہین باغ کا احتجاج بی جے پی کے ذریعے اسپانسرڈ تھا،وہیں دوسری طرف مختلف سماجی کارکنان اور شاہین باغ احتجاج کا حصہ رہنے والے افراد شہزاد علی کے متعلق سوالات اٹھانے لگے۔ زیادہ تر لوگوں کا کہناہے کہ شہزاد علی شروع سے آخر تک شاہین باغ موومنٹ میں کہیں بھی نہیں تھا اور ہم نے کبھی اس کا نام بھی نہیں سنا،جبکہ کچھ لوگوں نے یہ کہاکہ شاہین باغ کا رہایشی ہونے اور شاہین باغ احتجاج کا حصہ رہنے میں فرق ہے اور ممکن ہے کہ یہ شخص شاہین باغ کا باشندہ ہو مگر اس کا این آرسی اور سی اے اے کے خلاف شاہین باغ میں تقریبا تین ماہ تک چلنے والے احتجاج سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
وہیں دوسری طرف معروف سماجی کارکن اور آرٹی آئی ایکٹوسٹ ساکیت گوکھلے نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر دو تصویریں شیئر کی ہیں،جن میں سے ایک راشٹریہ علماکونسل کے لیٹر پیڈ پر جاری ہونے والا تقرری نامہ ہے،جس میں یہ لکھا ہے کہ شہزاد علی کو دہلی پردیش کا سکریٹری بنایا جاتا ہے اور ساتھ ہی پارٹی کی توسیع و فروغ کی امید جتائی گئی ہے۔
اس خط کے اجرا کی تاریخ 11فروری 2019درج ہے۔ اور راشٹریہ علماکونسل دہلی کے صدر ایس ایم نوراللہ کے دستخط سے جاری ہوا ہے۔ ساکیت گوکھلے نے ایک دوسری تصویر انگریزی نیوز ویب سائٹ’’فرسٹ پوسٹ‘‘پرشائع شدہ علماکونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی کے ایک انٹرویوکی شیئر کی ہے،جس میں انھوں نے ملک کی مبینہ سیکولر پارٹیوں پر تنقید کی تھی اورعلما کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھاکہ انھوں نے مسلمانوں کو نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی حمایت پر اکساکر انھیں بی جے پی کا دشمن بنادیا ہے۔ یہ انٹرویو مذکورہ ویب سائٹ پر موجود ہے۔ ٹوئٹر پر شہزاد علی کی راشٹریہ علما کونسل کے لیڈروں کے ساتھ کئی تصویریں بھی گشت کر رہی ہیں۔ البتہ پارٹی کی طرف سے ابھی اس پر کوئی وضاحت نہیں آئی ہے۔
بہر کیف ٹوئٹر پر شام سے ہی یہ خبرٹرینڈ کررہی ہے اور مختلف قسم کے لوگ اپنی اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق مختلف آرا کا اظہار کررہے ہیں۔