صدر شعبۂ اردو،کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس
اُتّر پردیش کو ہندستانی سیاست کا حقیقی کارخانہ کہا جاتا رہا ہے۔ایک مختصر مُدّت کے لیے گجرات ماڈل اور وہاں نریندر مودی کی حکومت کے کارناموں کو چھوڑ دیں تو ہندستان کے بُرے اور منفی سیاسی تجربات کا سب سے بڑا ماڈل ہمیشہ سے اُتّر پردیش ہی رہا ہے۔ آزادی کے بعد انگریزوں کی غلامی سے نجات اور ایک نئے جوش اور جذبے کے ساتھ حکومتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس میں اُتّر پردیش سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آیا۔ یہ سوال قابلِ غور ہے کہ آخر کون سی بات ہے کہ ہندستان کے سب سے بڑے صوٗبے، سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ وزیرِ اعظم اور گورنر اور مرکزی وزرا عطا کرنے والے صوٗبے کو اب بھی پسماندگی کی مثال کے طور پر کیوں پیش کیا جاتا ہے۔آخر پنجاب، مہاراشٹر، ہریانہ، کیرل، کرناٹک اور آندھرا یا گجرات کی ترقّیوں کے ساتھ یہ صوٗبہ کیوں دوڑ سے باہر ہو گیا؟ سیاسی پُشت پناہی اور مواقع کے اعتبار سے اس صوٗبے کو تو ہر دور میں سبقت حاصل رہی۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندستان کے اس سب سے بڑے صوٗبے کا المیہ یہ رہا کہ یہاں تہذیب و ثقافت اور سماجی انقلاب کی ہَوا تک بھی نہیں پہنچی۔ جاگیر دارانہ سماج انگریزوں کی غلامی کے بعد آزاد ہوتے ہی جمہوری دور میں خود کو سماجی غلامی کی بیڑیوں سے آزاد کرانے کی جِدّو جُہد میں اُترا ہی نہیں۔ سماجی اصلاح کے بغیر جمہوری ادارے محض بے روٗح ڈھانچا بن کر رہ جاتے ہیں اور سماج پھر سے پُرانی زنجیروں میں مُقیّد ہو جا تا ہے۔اُتّر پردیش کا المیہ یہ رہا کہ یہاں کانگریس اور مسلم لیگ (آزادی کے قبل) کے افراد اکثر و بیش تر جاگیر دارانہ سماج سے آتے تھے۔تقسیمِ ملک کے بعد سب کے سب کانگریس کا حصّہ ہو گئے اور یو پی کی کانگریسی حکومت نے ذات پات، مذہب اور اوٗنچ نیچ کی بنیادوں پر تفریقی سیاست کو ہی اہمیت دی۔ اس کے اصلی نتائج اب سامنے آ رہے ہیں۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ ہندستان کی آزادی کے بعد کانگریسی حکومتوں نے فرقہ وارانہ سیاست سے خود کو الگ کر لیا تھا اور آزاد جمہوری ملک کے خوابوں میں مُنہمک ہو گئے تھے۔ آلِ احمد سروٗر نے آزادی کے بعد یو ۔پی۔ کی کانگریس حکومت کو فرقہ پرستی کا کھُلا کھیل کھیلنے والا قرار دیا۔انھوں نے’ہندستان کدھر‘ خطبے میں کہا ہے کہ دہلی میں نہروٗ کی سیکولر ڈیموکریسی چل رہی تھی مگر لکھنؤ میں گوبند بلبھ پنت اور ٹنڈن کی فرقہ پرست سرکار اپنے ایجنڈے میں مشغول تھی۔ یو ۔ پی۔ میں اردو تعلیم کا جو جنازہ اُٹھا، وہ بھی ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہوا۔ پورے سماج میں ایک غیر روادارانہ ماحول بنایاگیا اور دیہی علاقوں میں فرقہ پرستانہ آگ لگا کر پورے معاشرے میں کانگریس نے مسلمانوں کے لیے اور ان کی زبان کے لیے عرصۂ حیات تنگ کیا۔
پہلا تجربہ فرقہ وارانہ ضرور تھا مگراحیا پسندی کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ ٹھیک جیسے غلامی کے آداب ہیں، ملوکیت کے اطوار ہیں اور اس کے برعکس جمہوریت،رواداری اور روشن خیال سماج کے طور طریقے ہوتے ہیں۔ آزادی کی جنگ کے دوران مساوات، یکجہتی اور سماجی انصاف کی ایک خاص تربیت ہوئی تھی مگر تقسیمِ ملک اور فساد کی آڑ لے کر خاص طور سے اُتّر پردیش میں فرقہ پرستی سے چکّے کو الٹا گھمانے کی کو شش ہوئی۔ اگلے مرحلے میں سماجی انصاف کا بھی جنازہ نکلنا تھا۔ جنگِ آزادی کے دوران اورآئین سازی کے مرحلے میں جس ہوش مندانہ ماحول میں برابری اور انصاف کے اسباق پڑھائے گئے تھے، سب کے سب دھرے رہ گئے۔
ایسا نہیں ہے کہ جاگیردارانہ جکڑ بندی میں صرف اُتّر پردیش کی حکومت اور پھر سماج کی شمولیت رہی۔ راجستھان، بہار، بنگال میں بھی یہ ماحول تھا مگر وہاں سماجی تحریکوں نے اس سلسلے سے مناسب کام کیے۔ پنجاب نے بھی جاگیر دارانہ ماحول سے کم و بیش آزادی حاصل کرنے کی مہم ۱۹۵۰ء کی دہائی میں ہی شروع کر دی۔ زمین کا مساویانہ بٹوارا اور روٹی کپڑا اور مکان کی مُہم نے کام کیا۔ دشواری یہی ہوئی کہ اُتّر پردیش میں پہلا تجربہ فرقہ پرستی کے حوالے سے ہی سامنے آیا اور احیا پسندوں کے لیے کارآمد ثابت ہوا۔ اب آگے کیا تھا، طاقت ور برادریوں کے افراد حکومت میں تھے، انھوں نے جمہوری اداروں کی چھانو میں اپنی طاقت اور دائرۂ اثر کو بڑھانے میں کامیابی پائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کمزور طبقے کے افراد ، اقلیت کے پس ماندہ لوگ اور دلت بھائی بہنوں کے ساتھ عام خواتین اس نئی زندگی کا حصّہ ہی نہیں بن پائے یا انھیں اس ترقی میں شامل ہی نہیں ہونے دیا۔
اُتّر پردیش کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں نہ صرف کانگریس کی ترقی پسندانہ سیاست فیل ہوئی بلکہ وہاں سماج وادیوں کی سیاست بھی اسی جال میں پھنس کر ناکام ہوئی۔ رام منوہر ہوہیا، چودھری چرن سنگھ، کانگریس سے نکلے ہیم وتی نندن بہوگُنا، وشوناتھ پرتاپ سنگھ اور بعد میں ملائم سنگھ یادو اور ان کے خاندان کی سیاست۔اسی سلسلے میںمایاوتی جی کا نام بھی ہمیں شامل کرنا چاہیے۔ سرکاریں بنیں، ٹوٹیں اور پھر بنیں۔ محاذ قایم ہوئے اور ٹوٗٹے۔ مگر کسی نے ووٹ حاصل کرنے کے علاوہ سماجی انصاف، مساوات اور جمہوری تقاضوں کو عوام النّاس تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔ لوگ اگر کہتے ہیں کہ ان میں بھی مکھوٹا سرکاریں رہیں۔ دیکھنے میں بر سرِ اقتدار آپ ہیں مگر آپ سے بالکل مختلف نقطۂ نظر کے افراد اندر سے حقیقی کام کر رہے ہیں۔ ملائم سنگھ اور ان کے خاندان یا کماری مایاوتی کا سیاسی زوال صرف اسی سازش کی وجہ سے ہوا۔اگر انھوں نے اپنی حکومت جن بنیادوں پر قایم کی تھی، پس ماندہ، غریب اور دلِت طبقے کے حقوق کی بازیابی کے لیے جس طرح ووٹ حاصل کیے تھے؛ حکومت کرتے ہوئے ان کاموں کو وہ لوگ یکسر بھول گئے۔
بہار اور اُتّر پردیش کم و بیش ایک ہی انداز کی سماجی دشواریوں کی بنیاد پر کھڑے ہیں مگر بہار میں کرپوری ٹھاکر اور ایک حد تک لالوٗ یادو کے عہد میں سماج کے کمزور طبقوں کی طرف داری میں حکومتوں کے سامنے آنے کے واقعات نظر آئے۔ درجنوں خوں آشام مواقع آئے مگر عوامی سطح پر مقابلے کے لیے کمزور لوگ سامنے آنے لگے اور حکومت نے بھی حسبِ گنجایش کمزوروں کی طرف داری کی۔ پولیس اور انتظامیہ کو بھی معلوم تھا کہ وہ اپنی حد سے آگے بڑھیں گے تو حکومت اور عوام برداشت نہیں کریں گے۔ اس لیے یہ ممکن ہوا کہ گذشتہ تیس برسوں میں چاہے کسی محاذ کی حکومت ہو، اس کا لیڈر سماج کے کمزور طبقے سے آئے گا۔ اب بھی طرح طرح کی سازشیں ہو رہی ہیں مگر فرقہ پرست جماعتوں کو بھی اپنی پس ماندہ قیادت کو ہی بہار میں آگے رکھنا پڑتا ہے۔
یہ سماجی شرم کی بات ہے کہ زنا کاروں، قاتلوں اور جرائم پیشہ افراد کی طرف داری میں اُتّر پردیش میں ایک طبقہ جلوس نکال رہا ہے۔ یہ علی الاعلان گذشتہ کئی برسوں سے ہو رہا ہے۔پہلے اندرونی طور پر یا انتظامیہ اور پولیس کی سطح پر یہ تماشے ہوتے تھے مگر اب یو پی کے وزیرِ اعلا کی وجہ سے بلند حوصلے کے ساتھ ایسی طاقتیں میدان میں آ گئی ہیں ۔اس کے برعکس کسی صحافی اور سیاسی کارندے کو متاثّرین سے ملنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ پولیس اس طرح سے کام کر رہی ہے جیسے واقعی وہ جمہوری عہد میں نہ ہو بلکہ وہ کسی زمین دار کی نجی پولیس ہو اور اسے ظالموں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ ایک کے بعد ایک واقعات ہوتے جا رہے ہیں ، دلّی سے لے کر لکھنؤ تک کی حکومتوں کے مشاغل مختلف ہیں اور جو امکانات جاری ہو رہے ہیں ، اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ حکومتوں کے اشارے سے سب کچھ ہو رہا ہے۔
اُتّر پردیش کا سیاسی کارخانہ جنگِ آزادی اور اس کے بعد آئین سازی کے دوران کے تمام مثالی کاموں پر کالکھ پوتنے کے لیے کاربند ہے۔بابری مسجدکے ہر دور کے معاملات پر نظر رکھیے تو یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ سلسلہ در سلسلہ ظلم و جبر اور انصاف کے خون کی کہانیاں لکھی گئیں۔ پہلے بڑی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا کر لوگ کئی بار حکومت کی بے انصافی سے نجات حاصل کر لیتے تھے۔ اب کم و بیش وہ راستابند ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ لوگ یہ سوچنے گے ہیں کہ کیا اِسی دن کے لیے ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائی تھیں؟ جمہوریت کتاب میں لکھی ہوئی اچھی اچھی باتوں کا نظام ضرور ہے مگر اِسے زمین پر اُتارنے کے لیے ایمان اور انصاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ فرانس کے انقلاب میں آزادی، مساوات اور بھائی چارہ کے تصوّرات کو اصول کی طرح تسلیم کیا گیا تھا۔ ہندستان کی آزادی کے دوران مہاتما گاندھی کا ان اصولوں پر ہمیشہ زور رہا۔ افسوس اس کا ہے کہ برہمن وادی نظام کی ترجیحات کو ہم جمہوری اداروںکے حوالے سے آگے بڑھانے میں منہمک ہیں۔ اس میں سماج اور ملک دونوں کی شکست طے شدہ ہے۔
بابری مسجد کا انہدام بھی ایک بربریت اور قبیلائی طور تھا۔ گجرات کے فسادات بھی اسی نہج پر سامنے آئے۔سی بی آئی اور عدالتوں کے راستے بھی کم و بیش اسی انداز کے ہیں۔ حکومتیں مضبوط لوگوں کے ہاتھوں کی لاٹھی ہو گئی ہیں۔ اس لیے کمزور کی جان، مال اور آبروٗ کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔ یہ جمہوری حکومتوں کا طور نہیں ہے۔ یہ جنگلوں کے زمانے کے انسانوں کا راج ہے۔ اس جبر کے خلاف کوئی سیاسی پارٹی دل سے نہیں کھڑی نظر آتی ہے۔ خدا اپنے بندوں کی حفاظت کرے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)