ٹوئٹر نے بھارت میں صحافی رعنا ایوب کے اکاؤنٹ پر پابندی لگا دی ہے۔ اس کو لے کر رعنا ایوب نے ٹوئٹر پر سوال اٹھایا ہے۔ نوٹس پوسٹ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ’ہیلو ٹوئٹر، آخر یہ کیا ہے؟‘
بھارت میں رعنا ایوب کے اکاؤنٹ کو بلاک کرنے کی کارروائی انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000 کے تحت کی گئی ہے۔ نوٹس میں لکھا ہے کہ ہم (Twitter) نے ہندوستان کے مقامی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی تعمیل کرتے ہوئے اس اکاؤنٹ کو ہندوستان میں بلاک کردیا ہے۔ نوٹس میں لکھا گیا ہے کہ ٹویٹر ان لوگوں کی آوازوں کے تحفظ اور احترام پر پختہ یقین رکھتا ہے جو ہماری سروس استعمال کرتے ہیں اگر ہمیں کسی مجاز ادارے (قانون نافذ کرنے والے ادارے یا سرکاری ایجنسی) کی جانب سے مواد کو ہٹانے کی قانونی درخواست موصول ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو مطلع کرنا ہماری پالیسی ہے۔ اکاؤنٹ ہولڈرزکو ہم یہ معلوم کرنے کے لیے نوٹس بھیجتے ہیں کہ آیا صارف اس ملک میں رہتا ہے جہاں سے اپیل کی گئی ہے یا نہیں؟
اس ایکشن پر ٹینس کھلاڑی مارٹینا ناوراٹیلوا نے بھی سوال اٹھایا ہے۔ انھوں نے کہاہے "تو اگلا کون ہے؟ یہ خوفناک صورتحال ہے….” انہوں نے اس پوسٹ میں رعنا ایوب اور ٹوئٹر کو ٹیگ کیا ہے۔ دریں اثنا پرسار بھارتی کے سابق سی ای او ششی شیکھر ویمپتی نے کہا کہ ٹویٹر کا نوٹس یا تو اچانک ہو سکتا ہے یا ماضی کے کسی واقعے پر دیر سے دیا گیا ردعمل ہوگا۔ مجھے بھی پچھلے سال ٹویٹر سے ایسا ای میل موصول ہوا تھا۔
صحافی
جی ، معروف فوٹوجرنلسٹ، پلترز ایوارڈ یافتہ، محنتی، جفاکش، سرگرم، فعال، مضبوط، اپنے کام سے جنون کی حد تک عشق کرنے والا، چاق وچوبند، نڈر، بے باک، بے خوف، سختی جھیلنے والا، اعلیٰ تعلیم یافتہ، فخر صحافت، اپنے کیمروں سے لی ہوئی تصاویر کو تاریخ کے صفحات میں محفوظ کرانے والا، دانش صدیقی ہوں ، میری پیدائش ۱۹۸۰ میں مہاراشٹر کی راجدھانی ممبئی میں والد اختر صدیقی کے ہاں ہوئی ، میرے والد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک شعبے کے سابق ڈین ہیں، میری ابتدائی تعلیم دہلی کے کیمبرج اسکول میں ہوئی، اس کے بعد شہر آرزو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد اپنی خواہش اور دیرینہ شوق صحافت سے منسلک ہوگیا۔اپنے کیرئر کی ابتدا ہندوستان ٹائمز کے نمائندے کی حیثیت سے کی پھر ٹی وی ٹوڈے نیٹ ورک سے منسلک رہا ۲۰۱۰ میں معروف برطانوی نیوز ایجنسی روئٹرز کے لیے بطور فوٹو جرنلسٹ کام کرنے لگا اور ہندوستان میں روئٹرز کی پکچر ٹیم کا ہیڈ بن گیا۔ میری شادی جرمنی کی رہنے والی ایک نیک سیرت خاتون سے ہوئی جس سے میری دو اولاد ہیں، ایک چھ سال کا لڑکا اور تین سال کی لڑکی ہے۔
ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے اپنے کیمرے سے دنیا کو سچ دکھایا، جہاں تک حکومت اور عوام کی نظریں نہیں پہنچیں، وہاں میں پہنچ کر دنیا کے سامنے سچ آشکار کیا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے ۲۰۱۵ میں نیپال میں آئے بھیانک زلزلے کی تصاویر کھینچی اور تباہی وبربادی کے مناظر کے عکس اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر کے دنیا کو متوجہ کیا، ہاں میں وہی ہوں جس نے مشرق وسطی میں جاری بھیانک خانہ جنگی کی تصاویر کھینچی، جس نے ہانگ کانگ سورش کو کوور کیا تھا۔ ہاں میں نے ہی۲۰۱۶۔۱۷ روہنگیا مسلمانوں کے مظالم کی تصاویر دنیا کے سامنے پیش کی، ساحل سمندر ، حالات سے مجبور روہنگیائیوں کی تصاویر جو ملتجی نگاہوں سے دنیا سے سوال کررہی تھیں کہ میرا جرم کیا ہے، میں کیوں بے گھرہوں ان لاچارو بے بس کی تصاویر کھینچی اور روہنگیائی مسلمانوں پر ہورہے ظلم کی انتہا کو اپنے کیمرے میں قید کیا اور جدید دنیا کے سامنے پیش کیا کہ لو یہ تمہارا مکروہ چہرہ ہے جہاں تم انسانیت کی باتیں کرتے ہو؛ لیکن انسانیت سے عاری ہو۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جسے روہنگیائی مسلمانوں پر ہورہے مظالم کی تصویر کشی کے لیے ۲۰۱۸ میں صحافت کے آسکر پلتزر ایوارڈ سے نوازاگیا تھا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے سی اے اے تحریک کے محرک شاہین باغ والوں کی تصاویر کھینچی اور سی اے اے کے مستقبل میں پڑنے والے خطرناک اثرات دنیا کے سامنے پیش کیا ، ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے دہلی فسادات میں مارے جارہے مظلوموں کی داد رسی کی، اور ایسی جگہوں سے تصاویر کھینچی جسے بطور ثبوت پیش کیاگیا۔ آپ نے میرے کیمرے سے لی گئی وہ دو تصاویر ضرور دیکھی ہوں گی جس میں ایک انسان سفید کرتا پہنے امن کی دہائی دیتے ہوئے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑے دوزانوں ہوکر زمین پر اوندھا پڑا ہوا ہے اور بلوائیوں کا ہجوم لاٹھی ڈنڈوں سے جمہوریت کے خون کے چھینٹے اڑا اڑا کر اسے پیٹ پیٹ کر قتل کررہا ہے اور دوسری تصویر وہ جب جامعہ ملیہ میں ایک اندھ بھکت گولی چلارہا ہے اور پیچھے پولس والے حصار بنائے کھڑے ہیں ان کے علاوہ سینکڑوں ایسی تصاویر ہیں جنہیں میں نے کھینچی اور دنیا کے سامنے پیش کیاجسے اگر میں شاید نہ کلک کرتا تو شاید دنیا کو اس کا علم تک نہیں ہوپاتا ۔
ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جب ملک میں اچانک لاک ڈاؤن کا نفاذ کیاگیا تو مزدور طبقے پریشان ہو اٹھے ، میلوں کا سفر اپنے شیر خوار بچوں کو کاندھوں پر لیے کررہے تھےان کی تصاویر کھینچی اور ملک کے عوام کو ہورہی پریشانیوں سے دنیا کو آگاہ کیا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جب کورونا کی دوسری لہر آئی، ہر طرف موت رقصاں تھی، شمشان میں لاشوں کوجلانے کےلیے مردوں کو مرنے کے بعد بھی انتظار کرنا پڑرہا تھا، ان کی تصاویر کھینچی، گنگا کنارے مدفون کورونا مہلوکین کی تصاویر کھینچی اور حکومت کو آئینہ دکھایا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جو اپنے کام میں مخلص اور اپنے جنون میں حد تک گزرجانے والا تھا، میں حال ہی میں افغانستان کی شورش کو کور کرنے گیا تھا وہاں طالبان اور افغانستان فورسیز کے مابین جھڑپوں کی تصویر کشی کررہا تھا ۱۵ جولائی کو قندھار کے اسپین بولدک میں حالات ناسازہوگئے اور میں ان جھڑپوں کی زد میں آگیا میرے سر میں گولی آلگی اور میں جاں بحق ہوگیا۔ میرے انتقال کی خبریں جیسی ہی عام ہوئی ایک کہرام برپا ہوگیا، ہر کوئی میرے تئیں ہمدرد تھا، میرے دشمن بھی میری تعریف کرنے کو مجبور تھے، یہاں تک کہ جن پر میرے قتل کا الزام عائد کیاگیا وہ بھی میرے قتل پر افسوس کا اظہار کررہے تھے۔دو دن بعد میری لاش طالبان نے ریڈ کراس کے حوالے کی اور جسد خاکی ایئر انڈیا کی فلائٹ سے ۱۸ جولائی ۲۰۲۱ کی شام دہلی پہنچا اور میری تدفین دیار شوق جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں عمل میں آئی۔ لوگوں نے میرے قتل ناگہاں کو صحافت کا عظیم نقصان قرار دیا، میرے چاہنے والے میرے کام کی ستائش کررہے ہیں اور خراج عقیدت پیش کررہے ہیں ، پوری دنیا میں میرے چاہنے والوں کی آنکھیں نمناک ہیں اور مجھے یاد کررہے ہیں اور ان شاء ا للہ رہتی دنیا تک جب جب میرے ذریعے کھینچی ہوئی تصاویر ان کے سامنے آئیں گی مجھے یاد رکھاجائے گا۔ اللہ میری مغفرت فرمائے اور میرےاہل خانہ سمیت مداحوں کو صبر سے نوازے، اور میری ہی طرح کوئی اور جرنلسٹ امت مرحوم کو نوازے جو حقائق کا علمبردار ہو اور سچائی دنیا کے سامنے پیش کرنا اپنا فریضہ سمجھے۔ آمین۔
مشہور صحافی اور دارالعلوم دیوبند کے سابق ترجمان عادل صدیقی کا انتقال،قاسمی قبرستان میں سپردِ خاک
دیوبند:(سمیر چودھری)دارالعلوم دیوبند کے میڈیا ترجمان و شعبہ محاسبی کے سابق ناظم اور مسلم فنڈ ٹرسٹ دیوبند کی منتظمہ کمیٹی کے رکن ،صحافی اور ادیب عادل صدیقی کا طویل علالت کے بعدآج اپنی رہائش گاہ محلہ خواجہ بخش میں تقریباً 91سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ۔ان کے انتقال کی خبر پر دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داران شہر کے سرکردہ افراد نے رہائش گاہ پر پہنچ کر اہل خانہ کو تعزیت مسنونہ پیش کی ۔مرحوم کافی دنوں سے صاحب فراش تھے ۔عادل صدیقی نے اعلیٰ تعلیم مکمل ہونے کے بعد سہارنپور ،مظفر نگر اور سیوہارا میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔بعد ازاں وہ حکومت ہند کے اطلاعات و نشریات کے محکمہ سے بطور اسٹنٹ انفارمیشن آفیسر منسلک رہے ۔ 1981میں اپنے ریٹائرڈمنٹ کے بعد قومی آواز،الجمعیۃ اور آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ رہے ، اسی کے ساتھ ساتھ ماہنامہ یوجنا اور آج کل کے نائب مدیر اعلیٰ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں ۔عادل صدیقی اردو اور انگریزی زبانوں کے ماہر تھے ملک میں مختلف رسائل ،میگزین اور اخبارات میں ان کے مضامین اور تجزیے تسلسل کے ساتھ شائع ہوتے رہتے تھے ۔انہوںنے انگریزی زبان کی متعدد کتب کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ۔ریٹائر منٹ کے بعد عادل صدیقی دیوبند واپس آ گئے اور دارالعلوم دیوبند کے دفتر محاسبی کے ناظم اور ادارہ کے ترجمان کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ۔اس دوران وہ آل انڈیا ریڈیو کے مخصوص پروگرام ’’اردو سروس‘‘کے مختلف پروگراموں میں عرصہ دراز تک شرکت کرتے رہے ۔عادل صدیقی کی وفات پردارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کے لیے دعاء مغفرت کی۔مسلم فنڈ ٹرسٹ دیوبند کے منیجر سہیل صدیقی ،سابق چیئر مین انعام قریشی اور یوپی رابطہ کمیٹی کے سکریٹری ڈاکٹر عبید اقبال عاصم نے اپنے تعزیتی پیغامات میں عادل صدیقی کی وفات کو اردو صحافت کا بڑا حادثہ قرار دیا۔انہوںنے کہا کہ عادل صدیقی نے صاف ستھری صحافت کے جو نقوش ثبت کئے ہیں ہو نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ان کا انتقال دنیائے اردو صحافت کا عظیم نقصان ہے ۔انہوںنے کہا کہ مرحوم کی خوش اخلاقی و خوش مزاجی ضرب المثل تھی ۔ملک کے صحافیوں میں بلند قامتی کے باوجود ان کی عاجزی و انکساری قابل دید و لائق تقلید تھی ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ دیوبند کے تمام صحافیوں اور سینئر صحافی اشرف عثمانی نے بھی عادل صدیقی کی وفات کو صحافت کا خسارہ عظیم قرار دیا ۔نماز جنازہ بعد نماز عصر احاطہ مولسری میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے ادا کرائی ،بعد ازاں قاسمی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔
سپریم کورٹ آف انڈیا میں گزشتہ دنوں دو صحافیوں کے مقدمات پر شنوائی ہوئی، جس میں سپریم کورٹ نے دو الگ الگ فیصلے جاری کیے جن کے ذریعے ایسا لگتاہے کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان خود عدالتِ عظمیٰ کی توہین کا تاثر دے رہےہیں ـ
پہلا مقدمہ ارنب گوسوامی کا تھا ارنب گوسوامی ایک الکٹرانک نیوز چینل ری پبلک کے اینکر ہیں انہیں مہاراشٹر پولیس نے خودکشی کے ایک مجرمانہ معاملے میں گرفتار کیا تھا، انہیں سیشن کورٹ اور ہائیکورٹ سے ضمانت نہیں ملی کیونکہ ان کی گرفتاری ایک مجرمانہ معاملے کے تحت ہوئی تھی ناکہ کسی صحافتی سرگرمی کی بنیاد پر، گرچہ ارنب گوسوامی اور ان کے چینل کی صحافت درحقیقت ایک پروپیگنڈہ مشین ہے، وہ صحافت کے نام پر سرکاری چاپلوسی کا لاؤڈ اسپیکر بنے ہوئے ہیں، اور ملک میں نفرت و زہر پھیلانے کا کام کرتےہیں، چونکہ وہ بھارتی گودی میڈیا کی صحافتی بھیڑ میں گھسے ہوئے ہیں اس لیے انہیں صحافی مجبوراً لکھا جارہاہے وگرنہ ان کا غیررسمی نام ” سَنگھی سرکاری لاؤڈ اسپیکر ” ہی ہےـ
ایسے نفرت انگیز اور بدتمیز انسان کو خودکشی کے ایک مجرمانہ معاملے میں گرفتار کیا جاتاہے اور ریاستی ہائی کورٹ تک اسے ضمانت نہیں دیتی، نیز مہاراشٹر اسمبلی کی طرف سے ارنب کو نوٹس کے معاملے میں سپریم کورٹ ارنب کے لیے آئین کی دفعہ ۳۲ کا حوالہ دیتی ہے اور گرفتاری والے معاملے میں اسے شخصی آزادی Personal Liberty کے نام پر ضمانت دیتے ہوئے رہا کرنے کا فیصلہ سناتی ہے ـ
دوسرا مقدمہ ہے کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کا، جوکہ درحقیقت Practical Journalist عملی صحافی ہیں، انہیں صحافتی سرگرمی کے دوران ہی گرفتار بھی کیاگیاہے، وہ ۵ اکتوبر کو اجتماعی عصمت دری کے معاملے میں رپورٹنگ کرنے جب ہاتھرس جا رہے تھے تب یوگی آدتیہ ناتھ کی فاشسٹ اترپردیش سرکار نے انہیں گرفتار کرلیا اور ان پر UAPA جیسی سنگین دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرکے انہیں جیل میں ڈال دیا، صدیق ۵ اکتوبر سے جیل میں بند ہیں مگر انہیں آئین کی دفعہ 32 کا فائدہ بھی نہیں ملا، اور 16 نومبر کو سپریم کورٹ نے ان کی کے معاملے پر سماعت کرتےہوئے انہیں ضمانت دینے سے بھی انکار کردیا صدیق کے مقدمے کو ہائیکورٹ سے حل کرانے کی نصیحت بھی دی اور خانہ پری کرنے کے لیے ایک نوٹس اترپردیش کی فاشسٹ سرکار کو بھیجا ہے، سپریم کورٹ میں صدیق کی طرف سے معروف سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل نے اچھی پیروی کی ـ
صدیق کپن کی گرفتاری پر ریاست کیرالہ کی صحافتی تنظیم Union of Working Journalist قانونی لڑائی لڑ رہی ہے، ساتھ ہی اس نے اسے صحافتی آزادی پر حملہ بھی قرار دیاہے، صدیق کی گرفتاری کو اکثریتی میڈیا کمیونٹی آزادانہ صحافت پر سرکاری ظلم مانتی ہے، لیکن ۱ مہینہ گزر جانے کے باوجود یہ صحافی سپریم کورٹ تک سے انصاف حاصل کرنے سے محروم ہے ـ
انصاف کا یہ Selective معیار کیوں ہے؟ ارنب گوسوامی جیسے سرکاری بھونپو کی گرفتاری کو وزیرداخلہ امیت شاہ نے صحافت پر حملہ اور ایمرجنسی کے مظالم سے تعبیر کیا تھا، مگر امیت شاہ صاحب سمیت تمام ہندوستانی وزیروں اور سرکاری نوکروں کی زبانیں صدیق کی صحافتی آزادی پر حملے کے خلاف گنگ ہے ـ
وہ تمام سرکاری وزرا، جو پروفیسر آنند تیلتمبڑے، گوتم نولکھا، شرجیل امام، خالد سیفی، ورورا راؤ،سٹین سوامی، اکھل گوگوئی، نتاشا، دیوانگنا، عشرت جہاں، آصف اقبال، گل فشاں، سدھا بھاردواج جیسے انصاف پسند، نظریاتی شخصیات اور حقوق انسانیت کے لیے محنت کرنے والوں کی گرفتاری پر خوشی مناتے رہے وہ ارنب کی گرفتاری پر حق آزادی کی دہائی دے رہےتھے وہ لوگ جو ہندوستان میں اپوزیشن پارٹیوں کی سرگرمیوں اور غلط سرکاری پالیسیوں سمیت سرکاری ظلم و زیادتیوں کے خلاف عوامی مظاہروں کو ملک سے غداری، دیش دروہ کی سرگرمیوں سے تعبیر کرتے نہیں تھکتے وہی بھاجپائی لوگ ارنب کی گرفتاری پر سڑکوں میں احتجاج کی کوشش کررہے تھے، لیکن ان کے احتجاج بھی آندولن کے انقلابی آہنگ اور صدائے احتجاج کی فطری اسپرٹ سے محروم بڑے ہی پھیکے پھیکے فلاپ شو تھے ـ
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بوبڈے صاحب کو بھی صدیق کی شخصی آزادی پر حملہ نظر نہیں آیا، وہی سپریم کورٹ جسے ابھی چند روز پہلے تک ارنب گوسوامی کی گرفتاری سے آزادی کی توہین نظر آرہی تھی اسی سپریم کورٹ نے صدیق کی حقِ آزادی پر آنکھیں موند لی ہیں، سپریم صاحب ! آپ کے یہ مختلف معیار آپکا وقر طے کر رہے ہیں ملک کے نوجوان انہیں کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ریٹائرڈ ہونے والے جج کو پارلیمنٹ کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے دیکھ رہےہیں، ہم یقینًا سپریم کورٹ سے جاری فیصلوں کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ آئینی حق کے تحت ان سے اختلاف کرتےہیں کیونکہ ہمیں احترام کا کلچر بچائے رکھناہے، سپریم صاحب آپ کو غور کرنا چاہیے کہ کنال کامرا جیسے اعلیٰ تعلیمیافتہ فکری جوان آپ سے کیوں خفا ہیں؟ ہم تو جس دن دیپک مشرا صاحب چیف جسٹس بن آئےتھے اسی دن سے افسوسناک ہورہےہیں، ڈیئر محترم سپریم کورٹ صاحب ! پرشانت بھوشن اور راجیو دھون آپکی عدالت میں سچ بولتے ہیں اور ان جیسے دیگر سینئر وکلاء، توجہ دیجیے کہ اب ملک میں قانون کے طلباء ججمنٹ سے زیادہ ان وکیلوں کی دلیلوں کو پڑھتے ہیں، مت بھولیے کہ وہ فیصلے جو انصاف کے ایوانوں سے ملاوٹ کے ساتھ باہر آتےہیں انہیں وقتی طورپر طاقت کے زور پر تو نافذ کیا جاسکتا ہے وہ تاریخ کی عدالت میں منصفانہ درج ہوتےہیں، آج آپ سپریم کورٹ کے جن عظیم مناصب پر بیٹھے ہیں کل پڑھی جانے والی تاریخ میں آپ کا ریکارڈ زیربحث آئےگا، کل کی تعلیم گاہوں میں قانون کی کتابوں میں آپکے فیصلوں پر آنے والی نسلیں تجزیہ اور تکرار کریں گی، کل وکالت اور ججز کی پڑھائی کرنے والے طلباء و طالبات آپ کی ان ریکارڈ فائلوں کو پڑھیں گے یہ آپ بھی جانتے ہوں گے شاید، جیسے عدالت و انصاف کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس کے صرف اصول ہوتےہیں ویسے ہی "تاریخ” کا کوئی دھرم نہیں ہوتا، فاشسٹ طاقت کے سہارے لکھی جانے والی بے اصولیاں غیرفطری ہوتی ہیں انہیں ان کی اصل جگہ تاریخ میں مل جاتی ہے، گاندھی کے قاتل گوڈسے کی عدالتی کارروائی میں سَنگھ کے سربراہ "ساورکر ” ناتھورام گوڈسے کی پشت پر تھے اور چند سالوں پہلے طاقتور امریکی صدر اوباما نیلسن منڈیلا کے جنازے میں قطار باندھے کھڑے تھے امید ہیکہ یہ حقائق آپکی نظروں میں ہوں گے، تاریخ کی عدالت میں بھاجپائی استعمار کی عدالتی تاریخ کا عنوان ہوگا ” دو صحافی ،ایک سپریم کورٹ، دو فیصلے "ـ
ہم لکھتے ہیں کیونکہ کیفی اعظمی کہتےہیں :
کوئی تو سود چکائے کوئی تو ذمہ لے
اس انقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے
حقانی القاسمی ادب و صحافت کا وہ استعارہ ہیں جن کی تحریروں کے رنگ و آہنگ نے اپنے تو اپنے ،غیروں کو بھی متوجہ کیاہے۔ نئی نسل کے ممتاز قلم کاروں کا ادبی و صحافتی منظرنامہ حقانی کے تذکرے کے بغیر اپنی بے بصیرتی پر آٹھ آٹھ آنسو روئے گا۔ انھوں نے اپنی تحریروں سے ادب و صحافت کو جو وقار بخشا ہے، اس کے لیے اردو برادری ان کے احسان سے دست کش نہیں ہوسکتی۔ اب وہ نئی نسل کے پڑاؤ کو عبور کرکے قلم کاروں کے اس قافلے میں شامل ہوچکے ہیں، جن کی تحریروں سے نہ صرف روشنی حاصل کی جاسکتی ہے بلکہ وہ ادب و صحافت کے ایک خاص رجحان کے فروغ کا بھی ذریعہ بن رہے ہیں۔
حقانی القاسمی سے میرے تعلقات کم و بیش ربع صدی پر محیط ہیں۔ وہ ’اخبارِنو‘ سے ہوتے ہوئے جب ’نئی دنیا‘ کے شعبۂ ادارت میں آئے تو میں ان دنوں ’نئی دنیا‘ اور روزنامہ ’عوام‘ سے وابستہ تھا۔روزنامہ ’عوام‘ کے ادبی صفحات کی ایڈیٹنگ میرے ذمے تھی اور نئی دنیا کا تبصراتی کالم ’کتاب نما‘ پابندی سے لکھا کرتا تھا۔ یوں تو ’سرِراہے‘ حقانی سے ملاقات روزکا معمول تھا،لیکن نئی دنیا کے دفتر میں خوب ملاقاتیں ہونے لگیں، وہیںایک روز مجھ پر یہ انکشاف بھی ہواکہ حقانی بہت اچھی نظمیں بھی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں ان کی ایک نظم روزنامہ ’عوام‘ کے ادبی صفحہ پر شائع کی تو اس کی خوب پذیرائی ہوئی، حالانکہ انھوں نے اپنے اس شوق کو خود ہی پروان نہیںچڑھایا یا ادبی اور صحافتی تحریروں نے انھیں اس کاموقع نہیں دیا، اس بارے میں راوی اور شاعر دونوں خاموش ہیں۔
حقانی کی صحافتی زبان میں جو تازگی، بلند حوصلگی اور جولانیِ فکر ہے، وہ ان کے ہم عصروں میں دور دور تک نظر نہیں آتی۔ اس لیے کہ ان کی ہر ہر سطر میں تخلیقی آہنگ کے جو نمونے ملتے ہیں اور ادبی و تنقیدی مزاج میں جو مماثلتیں پائی جاتی ہیں ان سے اردو ادب و صحافت کے وقارمیں بیش از بیش اضافہ ہوتا ہے۔ نئی دنیا میں جب وہ ’تکلف بر طرف‘ اور ’لا تخف‘ میں شامل مضامین قلم بند کررہے تھے، اسی وقت سے ادب و صحافت کی دنیا میں وہ اپنا الگ مقام بنا رہے تھے۔ پھر صلاح الدین پرویز کے سہ ماہی ’استعارہ‘ سے وابستگی کے بعد ان کے مقام و مرتبہ کو پنکھ سے لگ گئے اور وہ ادب و صحافت کی دنیا میں اعتبار کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔ یہ بات تو اسی وقت مشہور ہوگئی تھی کہ سہ ماہی ’استعارہ‘ کے ہر صفحہ کی ہر ہر سطر پرحقانی کے دستخط ثبت ہیں۔اس کے مالک و مدیر صلاح الدین پرویز بے پناہ مصروفیتوں کی وجہ سے استعارہ کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے اور حقانی القاسمی ’استعارہ‘ کے با اختیار مدیر تھے۔
حقانی القاسمی کے ادب و صحافت کے اس سنہرے سفرمیں تنقید کے جوہر بھی کھل کر سامنے آنے لگے، اس لیے کہ اب ان کے پاس ایک مضبوط پلیٹ فارم ’استعارہ‘ کی شکل میں موجود تھا۔ علی الخصوص ان کے مقبول عام کالم ’حقانی تبصرے‘ نے ادبی جرائد کی دنیا کو ورطۂ حیرت میںڈال دیا۔ جو تنقیدی روش ان کے مزاج کا آہنگ تھی، اس پر انھوں نے کتابوں کے ایسے گل بوٹے سجائے کہ آج بھی تبصراتی دنیا میں اردو کتابوں کے تبصروں پر اگر کہیں گفتگو ہوتی ہے تو ’حقانی تبصرے‘ کے عنوان کے بغیر وہ گفتگو ادھوری ہی قرار دی جائے گی۔ انھوں نے اپنے جادو نگار قلم سے ایسی کرشمہ سازیاں کیں اور اپنی غیرمعمولی صحافتی بصیرت سے تبصروں کو ایسی تخلیقی روحانیت عطا کی کہ وہ تحریریں تنقیدی تبصرے نہ ہوکر ایک مکمل تخلیق کے لباس میں نظر آئے۔
استعارہ کا ایک مستقل عنوان ’بدن کی جمالیات‘ بھی تھا جس میں حقانی نے ایسے ایسے جمالیاتی پہلوؤں کی نشاندہی کی، جن پر انگلیاں اٹھنا فطری تھا، لیکن انھوں نے ہار نہیں مانی اور ’بدن کی جمالیات‘ کی روشن تعبیریں ان کے تخلیقی سفر میں چار چاند لگاتی رہیں۔ انھوں نے صرف اپنے تجربات اور مشاہدات سے اپنی تخلیقی جمالیات کو اساطیری جمالیات کے مماثل کرنے کی ممکنہ کوششیں کی ہیں۔ کہیں کہیں ان کی جمالیات پر ماہر جمالیات شکیل الرحمن کی جمالیات کا عکس بھی نظر آتا ہے اور کیوں نہ نظر آئے تخلیق جب متن سے مکالمہ کرتی ہے تو اس کے تمام جمالیاتی پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے؟ تبھی تخلیق ناقدوں کی نظر میں قابلِ اعتنا ٹھہرتی ہے ورنہ کتنی تخلیقات ایسی ہیں جو اپنے متن کی جمالیات کے باوجود ناقدوں کی نگاہ میں کسی قابل نہیں ٹھہرتیں اور اپنے بہترین اسلوب نگارش کے باوجود کاغذی ثابت ہوتی ہیں۔
’استعارہ‘ نے ادبی صحافت کو جو رنگینی اور اسلوب عطا کیا، اس نے نئی دہلی اور ہندوستان کی ادبی صحافت کو نئی راہ دکھائی اور اس کا ہر شمارہ ایک تاریخ بنتا چلا گیا۔ صلاح الدین پرویز، حقانی القاسمی اور ’استعارہ‘ کی پوری ٹیم کی پذیرائی کی جاتی رہی ہے اور یہ ضروری بھی ہے، ورنہ پوری اردو برادری اس ٹیم کی قرض دار ہوتی۔
حقانی القاسمی کی اگلی منزل راشٹریہ سہارا نئی دہلی تھی۔ ان کا تقرر سہارا کے ادبی و ثقافتی ترجمان ماہنامہ ’بزمِ سہارا‘ کے شعبۂ ادارت میں ہوا۔ ’بزمِ سہارا‘ اپنے پہلے شمارے سے ہی اردو دنیا کو اپنا گرویدہ بنا چکا تھا۔ اس وقت کے راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر عزیزبرنی نے ’راشٹریہ سہارا‘ کے مینجمنٹ ایڈیٹر سے ’بزمِ سہارا‘ کے اخراجات کے لیے خصوصی فنڈ کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا۔ ورنہ سفید گلیزڈ کاغذ پر ملٹی کلر نفیس طباعت اور دیدہ زیب جاذب نظر سرورق کے بغیر شاید ’بزمِ سہارا‘ وہ مقبولیت حاصل نہ کرپاتا، جس کے لیے اسے یاد کیا جاتا ہے۔
حقانی نے اپنی منفرد اور بے باکانہ صلاحیتوں سے ’بزمِ سہارا‘ کی مقبولیت کو مزید جلا بخشی اور یہ رسالہ کامیابیوں کی بلندیوں پر پہنچتا چلا گیا۔ ’بزمِ سہارا‘ اردو کا وہ واحد رسالہ ہے، جسے ہندوستان کی ایئرلائن میں پہنچنے کا شرف حاصل ہے۔ اپنی کامیابیوں کے دور میں کیا اس کے بعد بھی اتنا خوب صورت، جامع اور وقیع ادبی اور ثقافتی رسالہ اردو برادری پیش نہیں کرسکی ہے۔ اس میں تخلیقات کے نئے نئے عنوان بھی قارئین کو اپنی جانب متوجہ کرتے تھے۔ حقانی نے ’شہر سخن‘، ’جہانِ دانش‘، ’گہوارۂ دانش‘، ’بادۂ کہن‘، اور ’مباحثہ‘ عناوین کے تحت ’بزمِ سہارا‘ کو ترقی کی نئی منزلوں سے آشنا کیا۔ پانچ برس میں ’بزمِ سہارا‘ نے قارئین کے ذہنوں میں ایسی شمعیں روشن کیں کہ آج بھی اپنے رنگ و نور سے وہ اردو دنیا کا ایک منفرد ’شناخت نامہ‘ ہے۔ ادب و صحافت کے فروغ میں جو سنگ میل اس رسالے نے قائم کیے اس میں بزم سہارا کی ایڈیٹوریل ٹیم کے ساتھ حقانی القاسمی کی چھاپ نمایاں نظر آتی ہے۔
’بزمِ سہارا‘ کی اشاعت بند ہونے کے بعد حقانی القاسمی ہفت روزہ ’عالمی سہارا‘ سے وابستہ ہوگئے۔ اور اس کا ادبی حصہ ’باب ادب‘ ترتیب دینے لگے۔ یہاں بھی ان کی ادبی صحافت نکھری نکھری لگتی ہے۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ ’بزمِ سہارا‘ کی اشاعت بند ہونے کے بعد ’باب ادب‘ سہارا کو قارئین کے لیے ایک تنکے کے سہارے کی طرح تھا جس میںان کی وارفتگیِ شوق کو معمولی سا سہارا مل جاتا تھا۔
حقانی القاسمی ادیب بھی ہیں اور صحافی بھی لیکن وہ اپنے نام کے ساتھ کسی ٹیگ کو پسند نہیں کرتے۔ انھوں نے خود اس بات کاا عتراف کیا ہے کہ میری حالت تو بالکل خواجہ احمد عباس کی طرح ہے کہ صحافی انھیں کہانی کار سمجھتے تھے اور ادیب انھیں صحافی….. ان کا بھی اسی طرح کا معاملہ ہے۔ ادبی حلقہ انھیں صحافی سمجھتا ہے اور صحافی برادری ادیب گردانتی ہے۔ انھوں نے یہ بات بالکل صحیح کہی ہے کہ صحافت ہو یا ادب اس کابنیادی کام سوتے ہوئے معاشرے کو بیدار کرنا ہے….. اور ادب اور صحافت دونوں ایک دوسرے سے باہم پیوست ہیں۔ دونوں میں ایک داخلی ربط ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ صحافت میں خبر پر ارتکاز ہوتا ہے اور ادب میں نظر پر….. اسی طرح یہ بات بھی حقیقت ہے کہ بغیر ادبی شعور کے اچھی صحافت ممکن نہیں ہے اور بغیر صحافتی بصیرت کے اچھے ادب کی تخلیق دشوار ہے۔ انگریزی اور اردو صحافت سے متعلق حقانی کا خیال ہے کہ انگریزی صحافت قاری کو اپنی سطح پر لانے کی کوشش کرتی ہے اور اردو صحافت قاری کی سطح پرا تر جاتی ہے جس کی وجہ سے اردو صحافت کا معیار مجروح ہوتا ہے۔
شاہدالاسلام کی صحافت پر کتاب ہم عصر صحافت… پر گفتگو کرتے ہوئے حقانی القاسمی لکھتے ہیں:
’’شاہد الاسلام نے ’جذباتی معروضیت‘ کے ساتھ صحافت کے جملہ عناصر و عوامل کا تجزیہ کیا ہے۔ جذباتیت اور معروضیت کے متضاد رشتوں کو بڑی خوب صورتی سے مربوط کیا ہے۔ مسائل کے تجزیے میں جتنی معروضیت ہے بیان میں اتنی ہی جذباتیت۔ یہ ہنر بہت لوگوں کو نصیب ہے۔ ورنہ صحافت سے جڑے ہوئے بیشتر افراد جذباتیت میں الجھ کر معروضیت کادامن چھوڑ دیتے ہیں۔ صحافت کا سماجیات، لسانی مذہبی تعصبات، مالکوں کے منفعت پسندانہ مزاج، ملازمین کا استحصال، اخبارات کے مذہبی جنون، فرقہ وارانہ خطوط پر صحافت کی تقسیم، قاری کی کمی اور صحافت کی اشتعال انگیزی، سرکولیشن اور نظام تقسیم کے حوالے سے لکھتے ہوئے بھی معروضی اور منطقی انداز اختیار کیا ہے اور ہر ایک بات دلائل و شواہد کے ساتھ کہی ہے۔‘‘
اس تبصراتی مضمون میں حقانی نے ’جذباتیت اور معروضیت‘ جیسے الفاظ سے شاہد الاسلام کی جس انداز میں توصیف کی ہے، اس کو سمجھنے والے بہت دور کی کوڑی سے تعبیر کرتے ہیں۔
حقانی القاسمی اردو زبان کی خوش بختی کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اردو زبان معاش سے مکمل طور پر مربوط نہیں ہے۔ پھر بھی اس دشت میں بہت سے قیس اور کوہ میں بہت سے فرہاد ہیں جو نفع و ضرر اور سود و زیاں کی پروا کیے بغیر اردو زبان و ادب کے وجود کو استحکام بخش رہے ہیں اور اردو کوعالمی ادبیات کے مقابل لارہے ہیں۔
انھوں نے معروف ناقد و ادیب ڈاکٹر انور سدید (پاکستان) کے حوالے سے ادبی رسائل کے مقاصد کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اس کا بڑا مقصد علوم نو کا تعارف اور علوم قدیم کی بازیافت، نظریات، ادب کی اشاعت، فکری رجحانات کی افزائش ادبی تحریکوں کا فروغ اور فنی تخلیقات کی پیش کش ہے۔ ادبی رسالے کا مقصد ادبا کی تخلیقی اور ذہنی کروٹوں کو فن پاروں کی صورت میں پیش کرنا اور مستقبل کے ادوار کے لیے محفوظ کرنا بھی ہوتا ہے۔ ادبی رسالہ نئے لکھنے والوں کی ذہنی تربیت کرتا ہے اور پرانے لکھنے والوں کے ذہن کو جلا اور مزید غور و فکر کی دعوت دیتا ہے— ادبی صحافت کے اثر و عمل کا دائرہ وسیع ہے اور ادبی رسائل وجرائد میں مختلف ادوار کی ذہنی اور فکری تاریخ ہی محفوظ نہیں ہوجاتی، بلکہ مختلف ادوار میں پروان چڑھنے والی تحریکوں اوررجحانات کاا حوال بھی رقم ہوتا چلا جاتا ہے اور اسے مستقبل میں سماجی تجزیہ اور تہذیبی تحلیل میں بھی معاونت ملتی ہے۔ اس لحاظ سے ادبی رسالے کو ایک ایسا اہرام سمجھیے جس کے باطن میں ایک دور کی سماجی، معاشرتی، فکری اور تخلیقی کروٹیں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ (معاصر ادبی صحافت: حقانی القاسمی بہ حوالہ مخزن، لندن 5)
حاصل کلام یہ ہے کہ اردو کی ادبی صحافت اپنی کم مائیگی اور وسائل کی کسی نہ کسی سطح پر عدم دستیابی کے باوجود برابر پروان چڑھ رہی ہے۔ ملک کے بہت سے بڑے شہروں سے معیاری ادبی رسائل شائع ہورہے ہیں اور اپنی اپنی سطح پر اردو کی ادبی صحافت کے بہترین مستقبل کی کلید بھی ہیں جس سے اردو کی ادبی صحافت کے وقار میں اضافہ ہورہا ہے اور معیار و مزاج بھی اپنے نئے نئے زاویوں کے باوصف قبول عام کی سند سے سرفراز ہورہا ہے۔ اس کو اردو کی صحافت کے لیے خوش آئند علامت کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
حقانی القاسمی نے ادبی صحافت کے حوالے سے بہت سے مضامین لکھے ہیں اور بہت سے اہم نکات کی طرف اشارے بھی کیے ہیں ان کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے!
یوپی:یوگی کا اعلان،صحافیوں کو ملے گا5 لاکھ کاہیلتھ انشورنس،کورونا سے موت ہونے پر کنبہ کو ملیں گے 10 لاکھ روپیے
لکھنؤ،اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے صحافیوں کے لئے ایک بڑا اعلان کیا ہے۔ اب ریاست میں تسلیم شدہ صحافیوں کو 5 لاکھ تک کا ہیلتھ انشورنس دیا جائے گا۔ اسی کے ساتھ کورونا میں صحافی کی موت پر ان کے اہل خانہ کو 10 لاکھ روپے کی مالی امداد دی جائے گی۔ وزیراعلیٰ یوگی نے لکھنومیں نوتعمیر شدہ پنڈت دین دیال اپادھیائے انفارمیشن کمپلیکس کے افتتاح کے موقع پر اس کا اعلان کیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ جمہوریت میں بڑے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے بحث ایک اہم ذریعہ ہےجو میڈیا میں ہوتی ہے۔وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ حکمران کا کام منصوبے بنانا ہے۔ انتظامیہ ان اسکیموں کو مختلف ذرائع سے لوگوں تک پہنچاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام، گورننس اور انتظامیہ کے مابین ایک اہم پل کے طور پر میڈیا کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔سی ایم یوگی نے کہا کہ ریاستی حکومت ریاست کے تسلیم شدہ صحافیوں کو ہر سال پانچ لاکھ روپے تک کا ہیلتھ انشورنس دے گی۔ اسی کے ساتھ اگر کوئی صحافی کورونا کی وجہ سے فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اہل خانہ کو 10 لاکھ روپے کی مالی امداد بھی دی جائے گی۔
عبدالعزیز
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
کلکتہ کی سر زمین پر اردو کے عظیم شاعر راحت اندوری کے لیے دعائے مغفرت اور تعزیت کا جلسہ منعقد ہوا ۔آٹھ دس ادبی شخصیات کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ سات افراد کی شرکت ممکن ہوسکی ۔اندور سے منیر احمد خان صاحب نے جو راحت مرحوم کو بچپن سے جانتے تھے ‘ جلسہ میں حصہ لیا۔ کلکتہ سے نسیم عزیز ی، نوشاد مومن، نوراللہ جاوید صاحبان اور راقم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور دعا ئے مغفرت کی۔ اردو دنیا کے بہت بڑے صحافی،شاعر اور ادیب عطا ءالحق قاسمی کا تعزیتی پیغام پڑھا گیا اور لا ہور کے ایک نوجوان شاعر رحمان فارس کا بہت خوب صورت منظوم خراج تحسین پیش کیا گیا ملاحظہ فرمائیں:
شعر کا سونا چمن کچھ اور خالی ہوگیا
ہائے کیسے شخص سے اندور خالی ہوگیا
سر حدوں کے اس طرف بھی اس کی راحت تھی بہت
ایسا لگتا ہے مرا لاہور خالی ہوگیا
کیسی رونقیں تھیں اس کے اک اک شعر میں
کہ زمانہ گم ہوا اک دور خالی ہوگیا
پوچھتے ہیں غزل آباد کے دیوار و در
یہ بھرا گھر کس طرح فی الفور خالی ہوگیا
عطاءالحق قاسمی صاحب کا تعزیتی پیغام: راحت اندوری بہت عمدہ شاعر تھے۔انڈیا کے شہر اندور میں رہائش پذیر تھے۔ میرے خیال میں مشاعروں میں ان سے زیادہ مقبولیت شاید ہی کسی کو حاصل ہو ئی ہو۔ شعر تو عمدہ کہتے تھے ‘ پڑھنے کا انداز بھی لا جواب تھا۔بہترین شاعر ہو نے کے علاوہ بہترین پر فارمر بھی تھے۔میں نے بیرون ملک ان کے ساتھ بہت سے مشاعرے پڑھے اور ہر بار ان کی آمد پر پورے ہال کو کھڑ ے ہو کر ان کا استقبال کرتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کی کوتاہیوں سے در گزر فرمائے ،آمین ۔
نسیم عزیزی :
معروف ادیب و شاعر نسیم عزیز ی نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ ڈاکٹر راحت اندوری ایک خوش طالع شاعر تھے کہ انہیں مشاعروں میں بے پناہ شہرت اور نام وری حاصل ہوئی۔ ان کی شاعری غیر اردو داں طبقے میں بھی پسند کی جاتی تھی۔ایک انوکھے طرز کی وجہ سے ان کا انداز پیش کش سامعین کو اپنی جانب متوجہ کرتا تھا۔انہوں نے تحت اللفظ میں کلام سنانے کا منفرد طریقہ وضع کیا تھا۔ ان کے نزدیک ’مشاعرہ‘ کی حیثیت ایک پر فارمنگ آرٹ کی سی تھی۔ وہ مصرعہ پڑھتے وقت آواز کے زیر و بم سے ایک ایک لفظ کو تصویر میں ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ شعر کہنے کا ہنر جانتے تھے لیکن مشاعروں کے مخصوص ماحول نے انہیں مرموز انداز بیان (رمزیہ پیرایہ اظہار) اختیار کرنے سے باز رکھا۔ انہیں خود بھی اس بات پرحیرت تھی کہ تقریباً پینتیس سال قبل کہا گیا یہ شعر ’’سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں/کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے‘‘ کیسے ایک مزاحمتی صدا اور انقلابی نعرہ بن کر عوام کی زبان پر جاری ہو گیا۔ بھج یونی ورسٹی نے 1985 میں راحت اندوری کو ان کے تحقیقی مقالہ بہ عنوان ’’اردو میں مشاعرہ‘‘ پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی تھی۔ ان کے کئی شعری مجموعہ ہائے کلام منظر عام پر آئے۔ یہ مناسب موقع نہیں کہ ان کے فن پاروں پر اظہار خیال کیا جائے۔ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری کا ایک عمدہ انتخاب شائع کیا جائے۔ ان کے متعلقین، لواحقین اور خیر خواہ یہ کام بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔ راحت اندوری کے نثر پارے بھی ہیں ۔اگر ان کی بھی اشاعت ہوجائے تو شاعر کی ایک اور روشن جہت ہمارے سامنے ہوگی۔ میں اس منظوم خراج عقیدت پر اپنی گفتگو تمام کرنا چاہوں گا، ملاحظہ کیجئے:
الفاظ شعلہ بار، صدا اس کی برق دم
کانوں پڑے تو حاکم دوراں لرز اٹھے
خاموش لب کو قوت اظہار دے گیا
اس مردِ حق نوا کی خدا مغفرت کرے!
ڈاکٹر نوشاد مومن :
ڈاکٹر نوشاد مومن نے راحت اندوری کا تعارف پیش کرتے ہوئے مرحوم کو ادب و ثقافت کی ممتاز شخصیت قرار دیا۔ ڈاکٹر راحت اندوری اپنے لہجے کی بے باکی سے اردو شاعری کی ایک۔ توانا آواز بن گئے تھے۔ اْنھیں مشاعرے کی جان بھی کہا جاتا تھا۔ ان کا اصل نام راحت اللہ قریشی تھا۔مرحوم قیصر اندوری کے شاگرد رشید تھے۔ ابتدائی دنوں میں راحت قیصر ی کے نام سے جانے جاتے پھر راحت اندوری بن کر اپنی شناخت مستحکم کی۔اْن کی شاعری عا م انسانوں کے دل کی آواز تھی۔ وہ جتنا اْردو حلقے میں مقبول تھے اتنا ہی ہندی داں حلقے میں بھی مقبول تھے۔ اپنی شاعری کے دم پر اْنہوں نے غیر اْردو داں طبقے کے دلوں میں خاص مقام حاصل کیا۔ لیکِن ناقدین ادب نے اْن پر خاص توجہ نہ دی۔ اْن کا یہ کہنا کہ مشاعرے کی شاعری اور رسائل و جرائد کی شاعری میں خاصا فرق ہے۔اس کے باوجود اْنہوں نے اپنا شعری سفر جاری و ساری رکھا اور مقبولیت کی بلندی کو چھو لیا۔اْن کا شعری لہجہ تلخ تھا۔اتنا تلخ کہ حکومتوں کے کان کھڑے ہو جاتے۔اْن کی شاعری میں ہندوستان بستا تھا۔اْن کے اشعار مظلوموں کی آواز تھے۔ان کی رحلت سے شعر و ادب کی دنیا کو بڑا نقصان ہوا ہے جس کی بھر پائی مشکل ہے۔
عبدالعزیز:
عبدالعزیز صاحب نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ راحت اندوری صاحب نے اپنی کتاب زندگی کا آخری ورق 11 اگست کو الٹ دیا۔ سارے عالم کو سوگوار چھوڑ کر چلے گئے ۔ انگریزی کے مشہور شاعرجان ڈان (John Donne) کے چند الفاظ سے شاعر انقلاب و احتجاج کی جدائی کی حقیقت کی صحیح ترجمانی ہوتی ہے :
"Any man’s death diminishes me, because I am involved in mankind, and therefore never send to know for whom the bells tolls”
(کسی بھی آدمی کی موت مجھے گھلا دیتی ہے کیونکہ میں انسانیت کا حصہ ہوں۔ اس لئے یہ نہ پوچھو کس کی موت کا اعلان ہورہا ہے کیونکہ کسی کی موت کا اعلان در اصل آپ کی موت کا اعلان ہے)
راحت صاحب بڑی خوبیوں کے مالک تھے مشاعرے میں آتے سارا ہال کھڑے ہو کر ان کا استقبال عطا الحق جیسے شاعر گواہی دیتے ہیں کہ اتنا مقبول شاعر ملک اور بیرون ملک میں کسی اور کو نہیں دیکھا ’حقیقت تو یہ ہے کہ مرحوم عام فہم لہجے میں اپنا مافی الضمیرادا کرتے اور ادائیگی کاانداز بھی بڑا پیارا اور نرالاہوتا‘ ہر کوئی متا ثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ جب مغربی بنگال کی مہواموئترا نے راحت اندوری کے درج ذیل اشعار مودی جی کے سامنے زور دار لہجے میں پڑھا:
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوںگے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کاخون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندستان تھوڑی ہے
آخر ی مصرعے میں پوری حقیقت بیان کر دی گئی صرف اندھے،گونگے بہرے کے ہی دلوں پر لرزش طاری نہیں ہوگی پورے ایوان پر تھوڑی دیر کیلئے سناٹا چھا گیاجسے Pin Drop Silenceکہتے ہیں ۔ کالے قانون کی تحریک میں مرحوم راحت کے بہت سے اشعار پڑھے جاتے تھے ۔اسی مصرعے کو شاہین باغ میں کے پرو ٹسٹر ایک بینر پر لکھا کر پر چار کر رہے تھے۔
راحت کی وفات کے دوسرے دن اس بینر کو انگریزی روزنامہ نے صفحہ اول پر نمایاں انداز سے چھا پا۔ اخبار مذکور سات لاکھ سے زائد شائع ہوتا ہے ۔ بہت بڑی خوبی یہ کہ ملک کی ہر زبان والے شاعر انقلاب و احتجاج کو آسانی سے سے سمجھ لیتے ہیں کسی دوسرے شاعر کو عوامی طبقہ آسانی سے نہیں سمجھ پاتا مثلاًان کا ایک شعر ہے :
انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا
یہ حال ہے تو کون عدالت جائے گا
اسے ہر عام وخاص آسانی سے سمجھ سکتا ہے اتنے عظیم شاعر کے رخصت ہو جا نے پر یہی کہا جا سکتا ہے:
وہ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر دیا
منیر احمد خان (اندور):
منیر احمد خان صاحب اندور سے تعلق رکھتے ہیں فرحت اندوری صاحب کو بچپن سے جانتے تھے۔ مرحوم سے رسم و راہ بھی تھی موصوف اندوری صاحب کے اخلاق مند ی کے واقعات سناتے ہوئے کہا کہ وہ بہت اچھے انسان بھی تھے بہت اچھے آرٹسٹ تھے ابتدائی زندگی میں فلمی پوسٹر لکھتے تھے سائیکل اور گاڑیوں کے نیم پلیٹ۔ لکھتے تھے مگر انہوں نے پڑھا ئی نہیں چھوڑ ی اعلی تعلیم حاصل کی ڈاکٹر یٹ کی بھی ڈگری حاصل کی راحت صاحب کی شاعری اور ان کے پیغام کو ہر کوئی پسند کرتا تھا اندور میں اسی سال ان کی شاعری کا پچاس سالہ جشن منایا گیا ملک اور بیرون ملک سے بچا س سے زیادہ شعراء کرام تشریف فرما ہوئے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی کانگریس اور بی جی پی کے رہنما بھی شریک محفل ہوئے سابق اسپیکر مسز۔ سمترا مہا جن نے بھی شرکت کی حقیقت تو اندوری صاحب اندور شہر کی شان تھے ۔آج ان کے چلے جانے شہر ویران سا ہوگیا اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا کرے آمین۔
نوراللہ جاوید:
راحت اندوری صاحب نے زبانوں کے حدود اور دیواروں کو اپنی اعلیٰ اور غیر معمولی شاعری سے توڑنے کی ہرممکن کوشش کی۔ بہ حثیت شا عر وہ کامیاب رہے ،ہر زبان وادب کے لوگ ان کی شاعری اور ادب سے یکساں فیضیاب ہوتے رہے اور ہوتے رہیں گے ۔دوسری اہم بات ان کے متعلق کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے آج کے سیاسی اور سماجی حالات کی ایسی خوبصورت اور بھر پور عوامی ترجمانی کی وہ ہر خاص و عام کی آواز بن گئے جو چیز کم ہی ادیب اور شاعر کے حصہ میں آتی ہے۔
نئی دہلی:معروف صحافی، شاعر اور طنز ومزاح نگار نصرت ظہیر کا تقریبا ستر سال کی عمر میں آج شام 5.30 بجے مختصر علالت کے بعد انتقال ہوگیاـ انھوں نے ایک سرگرم ادبی و صحافتی زندگی گزاری اور اس وقت اردو دنیا میں اپنی منفرد ادبی شناخت رکھتے تھے ـ انھوں نے ایک طویل عرصے تک روزنامہ سہارا میں کالم نگاری کی اور فی الحال روزنامہ انقلاب اور دیگر بہت سے مطبوعہ اخبارات اور ویب سائٹس پر ان کے مضامین شائع ہو رہے تھےـ نصرت ظہیر خصوصا اپنی دلچسپ اور معنی خیز طنزیہ تحریروں کے حوالے سے خاص شناخت رکھتے تھے ـ ان کی تحریروں میں سماج و سیاست کے سلگتے مسائل پر ہلکے پھلکے انداز میں بہت گہرا طنز ہوتا تھا، وہ فکاہی پیرایے میں اصلاحِ احوال کی دعوت دیتے تھےـ ان کے طنزیہ مضامین پر مشتمل کئی کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں ـ انھوں نے دہلی سے ایک رسالہ "ادب ساز "بھی نکالا اورکئی سال قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے شعبۂ ادارت میں بھی خدمات انجام دیں ـ ان کی تدفین ان کے آبائی وطن سہارنپور میں آج رات 12 بجے کی جائے گی ـ
اسد رضا
ناقدانہ ادب کی عزت ، سیاہ و سفید زلفوں سے آراستہ سر، دمکتی ہوئی پیشانی، تنقیدی بصارت کی نشانی، محققانہ ادب کی توقیر میں اضافہ کرنے والی ناک، اردو کے شعر وادب کی طرح بھرے بھرے رخسار، جن پر شرعی ریش اور غیر شرعی مونچھوں کی بہار، جمالیات کی بارش کرنے والے بلند ادبی قدلیکن جسمانی طور پر بوٹا سا قد اور فطری شرافت وذہانت کاحامل کوئی دانشور اگر کسی سمینار یا ادبی جلسے میں ناقدانہ انفرادیت اور عبرانی آمیز اردو میں فصاحت کی فرات اور بلاغت کی دجلہ بہاتا ہوا نظر آئے تو تسلیم کرلیجئے کہ آپ اکیسویں صدی کے مفکر اردو، منفرد ناقد ومحقق صحافت وادب کے دلکش امتزاج اور ادیب ناطق حقانی القاسمی کی زیارت بابرکت سے مشرف بہ تنقید ہوگئے۔
جناب حقانی القاسمی نے 15جولائی1970کو بہار پربہار کے ضلع ارریا میں ایک علم پرور خاندان میں آنکھیں کھولیں اور دارالعلوم دیوبند میں دینی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دنیوی تعلیم حاصل کرکے بڑے دانشوران اردو کی آنکھیں کھول دیں اور ان کے ہوش اڑادیے۔ حقانی صاحب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی ادبیات میں ایم اے اورایم فل کیا اور عربی، فارسی، اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں پر دسترس حاصل کی اور پیشے کے طور پر انہوںنے اپنے لئے اردو صحافت کو منتخب کیا لیکن ان کارجحان ادب اور تنقید کی جانب زیادہ ہے لہٰذا اردو راشٹریہ سہارا سے حقانی القاسمی نے صحافتی سفر شروع کیا پھر وہ ہفتے وار ’اخبار نو ‘اورویکلی ’’نئی دنیا ‘‘ سے وابستہ رہے۔ عالمی شہرت یافتہ میگزین ’’استعارہ‘‘ کو بام مقبولیت تک پہنچانے میں صلاح الدین پرویز کے ساتھ ساتھ حقانی صاحب کا بھی اہم رول تھا۔ اس میگزین کو حقانی القاسمی نے اپنی تنقیدی بصارت اور تحقیقی بصیرت سے آگے بڑھایا۔ استعارہ کے بند ہوجانے کے بعد حقانی صاحب نے ماہ نامہ ’’بزم سہارا‘‘ اور عالمی سہارا میں اپنے قلمی اور علمی جوہر دکھلائے اور نہایت اہم ادبی مباحث شروع کئے۔ اردو میں طنزومزاح کو گیا گزرا اور دوسرے تیسرے درجے کاادب تصور کرنے والے قد آور ناقدین کرام اور دانشوران عظام کے قائم کردہ نظریاتی بتوں کو توڑنے کے لیے ہی حقانی صاحب نے ماہ نامہ’’بزم سہارا‘‘ میں اس سوال پر بحث کرائی تھی کہ کیا طنزومزاح دوسرے درجے کا ادب ہے۔اس چھوٹے قد کے بڑے ناقد نے تنقید کو ایک نیا علمی وجمالیاتی رخ عطاکیا اورمغرب ومشرق کے من گھڑت اصولوں اور نظریات کی جم کر پول کھولی۔ چونکہ موصوف عربی، فارسی، اردو ، انگریزی اور ہندی کی ادبیات بالخصوص کلاسیکی ادبیات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کی تنقید پر بڑے بڑے پروفیسر انگلی اٹھاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ مثال کے طور پر حقانی القاسمی اپنے ایک مضمون ’واقیموالوزن بالقسط‘ میں رقم طراز ہیں: تنقید، تجسس اور تفحص کا عمل ہے، تنقید تخلیق کا مکاشفہ بھی کرتی ہے اور محاسبہ بھی، تنقید دراصل ایک طرح سے تخلیق کی توسیع وتفریج ہے، تنقید کوئی سائنسی ، طبیعیاتی یا ریاضیاتی عمل نہیں ہے۔‘‘
حقانی القاسمی کی تنقیدی بصیرت اور نظریاتی بصارت کا پرتو ہمیں ان کی کتب میں نظر آتا ہے۔ فلسطین کے چار ممتاز شعرائ، طواف دشت جنوں، لاتخف، دارالعلوم دیوبند: ادبی شناخت نامہ، تکلف برطرف، رینو کے شہر میں، خوشبو روشنی اور رنگ، بدن کی جمالیات، تنقیدی اسمبلاژ، ادب کو لاژ، شکیل الرحمن کاجمالیاتی وجدان اور آنگلیات وغیرہ حقانی القاسمی کی قابل ذکر کتب ہیں جن کی اردو دنیامیں کافی پذیرائی ہوئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہماری اردو زبان کا ہر چھوٹا بڑا،اعلیٰ وادنیٰ اور اہم وغیراہم مصنف ،مولف اور مترجم اپنے اور اپنی کتاب کے بارے میں حقانی صاحب سے مضمون لکھوانا او را س طرح اپنی قدر ومنزلت میں اضافہ کرانا چاہتا ہے۔ اب یہ بات دیگرہے کہ اپنی نسبی نجابت اور ادبی شرافت کے باعث حقانی القاسمی کسی کو مایوس نہیں کرتے۔ لیکن یہاں یہ تذکرہ بھی برمحل ہوگا کہ اپنی شرافت اور انکساری کے باوصف وہ غیور ہیں اور کسی بڑے سے بڑے افسر یا دانشور کی غلط باتوں کو برداشت نہیں کرتے۔ اگرچہ انہوںنے ماہ نامہ ’’بزم سہارا‘‘ اور ویکلی ’’عالمی سہارا‘‘ کو شہرت ومقبولیت کی بلندیوں تک پہنچایا لیکن راشٹریہ سہارا اردو، ادارہ کے ایک گروپ ایڈیٹر نے جب حقانی صاحب کی اَنا کو ٹھیس پہنچائی تو انہوںنے اس بڑی کمپنی کی ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ حالانکہ گروپ ایڈیٹر کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا اور انہوںنے ادارہ کے کئی سینئر صحافیوں سے سفارش کرائی کہ حقانی صاحب سہارا میں دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں لیکن ہمارے اس غیر ت مند ادبی صحافی نے دوبارہ سہارا میں قدم نہیں رکھا۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ حقانی صاحب معاشی لحاظ سے ثروت مند نہیں ہیں البتہ ان کے پاس علم وادب کے بیش بہا خزانے ہیں جنہیں وہ اکثر اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے لٹاتے رہے ہیں۔ وہ اگرچہ خود حالات کی وجہ سے اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل نہیں کرسکے لیکن کئی ریسرچ اسکالروں کی تھیسس لکھنے میںعلمی وتحقیقی مدد کرکے انہیں ڈاکٹر آف فلاسفی بنواچکے ہیں۔ آج کل وہ یک موضوعاتی مجلہ ’انداز بیان‘ کی ادارت کررہے ہیں۔
حقانی القاسمی کی زبان قدرے مشکل ہوتی ہے۔ اس لیے مرحوم مظہر امام نے ایک مرتبہ ان کی اردو تحریروں اور فکر کی ستائش کرتے ہوئے فرمایاتھا: ’’ارے بھئی حقانی میاں اردو میں کب لکھو گے؟‘‘۔ یہ صحیح ہے کہ تنقید وتحقیق کی زبان عموماً مشکل ہوتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حقانی صاحب چونکہ عربی زبان کے بھی ماہر ہیں؛ لہٰذا ہمیں ان کے معنی عام اردو لغات میں نہیں ملتے ۔ دراصل اردو لغات میں عربی ،فارسی اور ہندی کے الفاظ کے معنی ومفہوم تو آسانی سے نظر آجاتے ہیں عربی ،عبرانی اور یونانی کے الفاظ واصطلاحات کے معنی تلاش وجستجو کے بعد بھی دکھائی نہیں دیتے۔ اسی لیے اردو کے بڑے بڑے پروفیسر اور دانشور حقانی القاسمی کی زبان وبیان کی روانی ،فکر کی جولانی اور بین السطور کی کہانی کو پڑھ کر انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں۔اس لیے ڈاکٹر ایم صلاح الدین نے حقانی کو ’طرحدار ناقد‘ قرار دیاہے۔
حقانی القاسمی ایک ماہر مترجم بھی ہیں۔ انہوںنے انگریزی اور ہندی زبانوں سے اردو میں تراجم بھی کئے ہیں۔ وہ کسی بھی کتاب کا ترجمہ اس کی روح اور مفہوم کی گہرائی تک اتر کر اور جسم الفاظ ومعنی کو چھوکر کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کے تراجم کی عموماً ستائش کی جاتی ہے۔ جس کازندہ جاوید ثبوت یہ ہے کہ انہوںنے گجراتی کے معروف ناول نگار جوزف میکوان کے مقبول ناول ’’انگلیات‘‘ کا اردو میں اتنا شاندار اور جاندار ترجمہ کیاتھا کہ اس پر حقانی القاسمی کو 2016میں پروقار ادارہ ساہتیہ اکادمی نے ایوارڈ برائے ترجمہ سے سرفراز کیاتھا۔ اگرچہ اردو دنیا اور ادبی حلقوں نے حقانی صاحب کی اتنی قدر نہیں کی جس کے وہ مستحق ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ انہیں بالکل نظر انداز کردیا گیا ہو لہٰذا دہلی اردو اکادمی نے انہیں تخلیقی نثر کا ایوارڈ دیاتو اترپردیش اردو اکادمی اور مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے بھی حقانی القاسمی کو ایوارڈ دے کر اپنی معتبریت اور توقیر میں اضافہ کیا۔ لیکن یہاں یہ تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حقانی صاحب اگرچہ متعدد اہم کتب کے مصنف ہیں لیکن وہ اپنی کتب مختلف اردو اکادمیوں کو برائے انعام نہیں بھجواتے۔ اس سلسلہ میں انہیں میں نے کئی بار سمجھایا بھی اور پیار سے ڈانٹا بھی لیکن اس بے لوث ادیب پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ دریں اثنا حقانی القاسمی کے حساس د ل پر ایک بہت بڑا غم کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔ ان کی ہونہار، قابل اور پیاری منجھلی بیٹی انیقہ اپنے اسکول میں ایک حادثہ میں گرکر فوت ہوگئیں۔ تاہم اس صابر وشاکر ادیب نے اس صدمۂ عظیم کو برداشت کیا اور وہ پھر اپنی علمی تنقیدی اور صحافتی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے لیکن اب بھی کبھی کبھی اپنی اس چہیتی بیٹی کو یادکرکے ان کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
تخلیقی نقاد حقانی القاسمی کی شہرت بین الاقوامی ہے۔ لہٰذا بڑی بڑی دانش گاہوں، ادبی اداروں اور اردو اکادمیوں میں انہیں سمیناروں، اردو میلوں اور جلسوں میں مقالات پیش کرنے اور ادبی موضوعات پر تقریریں کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ چونکہ حقانی صاحب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ادارتی شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور ایڈیٹوریل صلاح کار ذمے داری پوری کررہے ہیں لہٰذا وہ ہر دعوت کو مشکل ہی سے قبول کرپاتے ہیں۔ بہرحال اپنے اس شعر کے ساتھ میں حقانی القاسمی کایہ خاکہ تمام کرتا ہوں کہ:
یوں ہی چلتا رہے یارب قلم اس کا صدیوں
رنگ تنقید کو تخلیق دیا ہے جس نے
Asad Raza
97- F, Sector-7
Jasola Vihar
New Delhi – 110025
Mob.: 9873687378