نئی دہلی(پریس ریلیز) : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے ڈائریکٹر اور ستیہ وتی کالج دہلی یونیورسٹی کےسینئر اسوسیٹ پروفیسر شیخ عقیل احمد کو پروفیسر بنا دیا گیا ہے، ان کے پروفیسر شپ کے انٹرویو میں بحیثیت ایکسپرٹ پروفیسر ابنِ کنول اور پروفیسر محمد کاظم نے شرکت کی، شیخ عقیل احمد اردو حلقہ میں ایک سینیر استاد اور قلمکار کی حیثیت سے متعارف ہیں۔ ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں، مثلاً:اردو غزل کا عبوری دور، ادب اسطور اور آفاق، مغیث الدین فریدی، اردو میں تاریخ گوئی وغیرہ۔ ان کے سو سے زیادہ مضامین اور تحقیقی مقالے بھی ہندوستان اور ہندوستان سے باہر کے رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ فی الحال قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی میں بحیثیت ڈایرکٹر اردو زبان و ادب کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے پروفیسر منتخب ہونے پر ان کے محبین و متعلقین خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور مبارکباد دے رہے ہیں۔بطور خاص شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے سینیر استاد ڈاکٹر احمد امتیاز نے پروفیسر شیخ عقیل احمد کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ امید ہے شیخ عقیل احمد اردو زبان وادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے رہیں گے۔ ان کے علاوہ پروفیسر ندیم احمد JMI، پروفیسر ریاض احمد صدر جمّوں یونیورسٹی، پروفیسر مشتاق احمد رجسٹرار متھلا یونیورسٹی وغیرہ سمیت متعدد اساتذہ، اسکالرز اور طلبہ نے مبارکباد پیش کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیاہے۔
شیخ عقیل احمد
قومی اردو کونسل کے ڈائریکٹر شیخ عقیل احمد کا سابق وزیرِ اعظم کے یومِ پیدایش پر خراجِ عقیدت
نئی دہلی:لال بہادر شاستری اُن عظیم ہندوستانیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے ہماری سماجی زندگی پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ہماری عوامی زندگی میں شری لال بہادر شاستری کی شراکت انفرادیت کی حامل تھی کہ وہ عام ہندوستانیوں کی زندگی کے قریب تر تھے۔ ان کی بے مثال سادگی و انکساری کی وجہ سے ہندوستانی عوام انھیں اپنے ہی جیسا سمجھتے تھے۔یہ باتیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائریکٹر شیخ عقیل احمد نے سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو ان کے یوم پیدایش پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہیں۔انھوں نے کہا کہ لال بہادر شاستری کا یہ ماننا تھا کہ ایک مضبوط اور طاقتور قوم کی تشکیل کے لئے خود کفیل ہونا لازم ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے جدید ہندوستانی معیشت کے استحکام پر خاص توجہ دی۔ شاستری جی نے اہم اقتصادی پالیسیاں تیار کیں جن سے ہندوستان کے معاشی حالات کو بہتر بنانے میں خاصی مدد ملی۔ڈاکٹر عقیل نے کہا کہ لال بہادر شاستری کا نعرہ ‘جے جوان، جے کسان’ آج بھی ملک کے طُول و عرض میں مقبول ہے، جس کی بنیادی روح اپنے وطن اور قوم کی تعمیر و ترقی کے جذبے سے عبارت ہے۔ انھوں نے ایک طرف جہاں ہندوستانی فوج کی حوصلہ افزائی کی اور اس کے نتیجے میں 1965کی جنگ میں ہندوستان نے کامیابی حاصل کی وہیں ملک کو غذائی اجناس فراہم کرنے والے کسانوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کی ہمت بڑھائی، چنانچہ دیش بھر میں سبز انقلاب برپا ہوگیا اور غذائی اَجناس کی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ شیخ عقیل نے کہا کہ مودی جی کی حکومت بھی انہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دونوں محاذوں پر قابلِ قدر کام کررہی ہے اور جہاں اِس حکومت میں ہندوستانی فوج کے وقار میں اضافہ ہوا ہے وہیں کسانوں کی ترقی و خوشحالی کے لیے بھی اس حکومت نے اہم اقدامات کیے ہیں۔حال ہی میں حکومت نے زرعی اصلاحات سے متعلق جو بل منظور کیے ہیں ان سے کسانوں کو غیر معمولی فائدہ ہوگااور نہ صرف زرعی شعبے میں ایک انقلاب آئے گا، بلکہ اس سے کروڑوں کسانوں کو بااختیاربھی بنایا جاسکے گا۔
دہلی: اردو پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ یہ اردو کا وہ ادارہ ہے جو دنیا کے ان تمام لوگوں کے لیے ہے جو اردو زبان کی توسیع کا کام کرتے ہیں۔ اب قومی اردو کونسل اردو زبان کی توسیع و ترقی کا عالمی مرکز بن چکا ہے۔آج کا پروگرام قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے۔ یہ باتیں قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے صدر دفتر میں منعقدہ کتابوں کی رسم اجرا کے موقعے پر کہیں۔ اس موقعے پر کناڈا سے تشریف لائے معروف محقق و نقاد سید تقی عابدی کی کتاب ’باقیات و نادرات فیض احمد فیض‘ اور موریشس سے تشریف لائے ڈاکٹر آصف علی محمد کی کتاب ’ماریشس میں اردو‘ نیز ’تاشیانہ شمتالی کی کتاب ’جوش اور اقبال کا تقابلی مطالعہ‘ کا اجراڈاکٹر شیخ عقیل احمد اور پروفیسر انور پاشا کی موجودگی میں عمل میں آیا۔رسم اجرا سے قبل سید تقی عابدی نے اپنی تصنیف ’باقیات و نادرات فیض احمد فیض‘ کے بارے میں قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی نیز اس کے مآخذو منابع اور مواد کی فراہمی میں درپیش مشکلات سے حاضرین کو آگہی دی۔
ماریشس سے تشریف لائے ڈاکٹر آصف علی محمد نے ماریشس میں اردو کی صورت حال پر مبسوط گفتگو کی اور ہندوستان میں اپنے تعلیمی سفر کی روداد سناتے ہوئے کہا کہ ہم ہر سال ہندوستان آتے ہیں اور یہاں کے دانشوروں اور اہل کمال سے علمی قوت لے کر تازہ ہوتے ہیں۔ صدر نشیں پروفیسر انور پاشا نے بالترتیب سید تقی عابدی، ڈاکٹر آصف علی اور تاشیانہ شمتالی کی کتابوں پر اظہار خیال کیا۔انور پاشا نے قومی اردو کونسل میں سفیران اردو کی آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بر صغیر کے بعد اردو کا اگر کوئی گھر ہو سکتا ہے تو وہ ماریشس ہے۔ اردو وہاں کی تہذیبی و ثقافتی شناخت بن چکی ہے۔ آخر میں قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر شیخ عقیل احمد نے مہمانانِ گرامی ڈاکٹر سید تقی عابدی، ڈاکٹر آصف علی محمد، تاشیانہ شمتالی اور پروفیسر انورپاشا و دیگر خواتین و حضرات کا شکریہ ادا کیا۔