مولانامحمود احمد خاں دریابادی
شہریت ترمیمی بل پاس ہوگیا، صدر کے دستخط کے بعد قانون بن جائےگا ـ
آخر اس بل کے پاس ہونے کا مطلب کیا ہے ؟ یوں سمجھئے کہ آسام میں این آرسی سے باہر رہ جانے والے انیس لاکھ افراد میں سے تیرہ لاکھ ہندو بلاکسی پریشانی کے ہندوستانی بن جائیں گے ( بقول امت شاہ بھلے اُن لوگوں کے پاس راشن کارڈ تک نہ ہو) بس گنگا پرشاد، جمنا پرشاد جیسا نام ہونا کافی ہے ـ
رہ گئے آسام کے وہ سات لاکھ مسلمان جو این آرسی سے باہر ہیں حالانکہ پشتوں سے یہاں رہ رہے ہیں وہ بے چارے کاغذات درستی کے لئے در در ٹھوکریں کھائیں گے، ٹربیونل کے چکر لگائیں گے، ہزاروں، لاکھوں خرچ کرکے ہائی کورٹ پھر سپریم کورٹ، وہاں سے بھی ناکامی ہاتھ لگی تو ملک بدری یا جیل !! ڈیٹنشن سینٹر تو جیل سے بھی بدتر ہوتا ہے، جیل میں کم ازکم صبح شام روٹی تو ملتی ہے یہاں وہ بھی نہیں، آئندہ کیسے حالات ہوں گے ڈیٹنشن سینٹر کے باسیوں کو مزدوری، بچوں کی تعلیم، علاج معالجہ وغیرہ کے اختیارات حاصل ہوں گے یا نہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ـ
اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں ایک غریب مزدور ان پڑھ مسلمان، جس کا خاندان ہو، چھوٹے بچے ہوں وہ ٹربیونل کی بھاگ دوڑ، کاغذات بنوانے کے لئے رشوت، ہائی کورٹ سپریم کورٹ وغیرہ کا چکر کاٹنے کےبجائے اس بات کو آسان نہیں سمجھے گا کہ وہ نعوذباللہ اسلام چھوڑ کر ” گنگا پرشاد، جمنا پرشاد ” بن جائے ـ نہ بھاگ دوڑ، نہ رشوت، نہ ڈیٹنشن سنٹر، بس گنگا پرشاد بن جائیے گنگا نہا لیجئے ـ
ابھی تو صرف تین کروڑ آبادی والےآسام کی میں این آرسی کے اندر سات لاکھ مسلمان پھنسے ہیں، جب ایک سو تیس کروڑ کی آبادی والے پورے ہندوستان میں این آرسی نافذ ہوگا تو کتنے لاکھ مسلمان این آرسی میں پھنسیں گے، کتنوں کا ایمان خطرے میں ہوگا ؟بس ذرا تصور کرلیجئے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے ـ
اس موقع پر الگ الگ مشورے آرہے ہیں، مثلا انصاف پسند برادران وطن کو ساتھ لے کر جلسے، جلوس اور مظاہرے کئے جائیں ـ حالانکہ ہم اس قسم کا تجربہ بارہا کرچکے ہیں، اب بھی کرتے رہتے ہیں ـ ہم نے دیکھا ہے کچھ جٹادھاری سادھو، کچھ بھگوا پوش سنت مہاتما ہمارے جلسوں میں آکر چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں اور ہم سے پرجوش نعرے اور زبرست تالیوں کی داد لے کر خوش خوش چلے جاتے ہیں، ہمارا سینہ بھی فخر سے پھول جاتا ہے کہ اتنا بڑا مہاتما ہمارے جلسے میں حق بات ( منافقت پڑھاجائے) کرکے چلاگیا، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کےتین پات رہ جاتا ہے ـ
ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ اس بل کو عدالت میں چیلنج کیا جائے،بابری مسجد کا فیصلہ ہمارے سامنے ہے ـ اِس سے زیادہ لب کشائی ” توہین عدالت ” کہلاتی ہے اس لئے خاموش!!
تاہم ان تمام مشوروں پراگر عمل کیاجاتا ہے تو ہمیں اعتراض بھی نہیں، مگر عزیزان ملت ! کرنے کا کام کچھ اوربھی ہے!
یہ تو معلوم ہوچکا کہ اب این آرسی کا مطلب صرف مسلمانوں کو پریشان کرنا، ملک بدر، جیل یا نام نہاد ” گھر واپسی ” کرانا ہے توہم اس جال میں پھنسیں ہی کیوں؟ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہمارے تمام اکابر، تمام چھوٹی بڑی مذہبی، سماجی تنظیمیں، اخبارات، سوشل میڈیا میں لکھنے والے تمام قلمکار، تمام ائمۂ مساجد، مدرسوں، اسکولوں، کالجوں کے ذمہ دار، سب کو بس یہی بات کہنی چاہیے،بار بار کہنی چاہیئے، ڈنکے کی چوٹ کہنی چاہیےکہ اب ہم آنے والے کسی بھی این آرسی قانون میں شامل نہیں ہونگے ـ ہم این آرسی کا بائیکاٹ کرتے ہیں، بائیکاٹ بائیکاٹ،بائیکاٹ ـ
اگر کسی میں ہمت ہے تو ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کو سمندر میں پھینک کر دکھادےـ