نئی دہلی:سپریم کورٹ نے بدھ کے روزکہاہے کہ شاہین باغ جیسے عوامی مقامات پر غیر معینہ مدت کے لیے’ قبضہ کرکے‘ احتجاج قابل قبول نہیں ہے۔ جب کہ سی ا ے اے پرکئی درخواستیں سپریم کورٹ میں ہیں،لیکن ان پرابھی تک سماعت نہیں ہوسکی ہے۔جنوری میں یہ کہہ کرسماعت ٹال دی گئی کہ پہلے کشیدگی روکنی ہوگی،لیکن آٹھ ماہ بعدتک ان پرسماعت نہیں ہوسکی جن درخواستوں میں سی اے اے کی آئینی حیثیت کوچیلنج کیاگیاہے اورمذہبی بنیادپرقانون سازی قراردی گئی ہے۔احتجاج کے دوران سپریم کورٹ کی طرف سے تین مذاکرات کاربھی آئے تھے جووہاں موجودلوگوں کے جواب سے کافی متاثرہوئے ۔ شاہین باغ میں تاریخی احتجاج کا آغاز پچھلے سال دسمبر میں اس وقت ہوا تھا جب متنازعہ شہریت قانون کے خلاف موثر آواز اٹھی تھی۔یہ صداپوری دنیامیں سنائی دی اورپورے ملک میں جگہ جگہ شاہین باغ بنے ۔اس احتجاج کوبدنام کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی ،یہاں تک کہ فائرنگ تک کرائی گئی ۔عدالت نے کہاہے کہ دھرنا، مظاہرہ کسی مقررہ جگہ پر ہوناچاہیے اور قانون کے تحت عوامی مقامات یاسڑکوں پر قبضہ کرکے احتجاج کرنے یا ان کے حقوق کی پامالی کرنے سے لوگوں کو بڑی تعداد میں تکلیف کی اجازت نہیں ہے۔حالاں کہ مقامی لوگ باربارکہتے رہے ہیں کہ راستہ پولیس نے بیریکیڈلگاکرروکاہے اوراس وقت میڈیاکی ایک رپورٹ میں واضح طورپراسے دکھایابھی گیاتھا۔جسٹس سنجے کشن کول ، جسٹس انیرودھ بوس اور جسٹس کرشنا مراری کے بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ احتجاج کے حق اور لوگوں کے آنے اور جانے کے حق جیسے حقوق کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا۔بینچ نے کہا ہے کہ جمہوریت اور اختلاف ایک ساتھ چلتے ہیں۔بینچ نے کہاہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک کے عوام احتجاج کے وہ طریقے اپنائیں جو برطانوی حکمرانی کے خلاف اپنائے گئے تھے۔ بنچ نے کہاہے کہ عوامی مقامات پر مظاہروں کے لیے غیر معینہ مدت پر قبضہ نہیں کیا جاسکتا ، جیسا کہ شاہین باغ کیس میں ہے۔جب کہ مقامی لوگوں کاکہناہے کہ راستہ پولیس نے بندکیاتھا۔عدالت نے متنازعہ شہریت قانون کے خلاف احتجاج کے دوران گذشتہ سال دسمبر سے شاہین باغ جانے والی سڑک کو روکنے پر دائر درخواست پر اپنا فیصلہ سنایا۔ویڈیو کانفرنس کے ذریعے فیصلہ دیتے ہوئے بنچ نے کہاہے کہ دہلی پولیس جیسے حکام کو شاہین باغ کے علاقے کو مظاہرین سے خالی کرنے کے لیے کارروائی کرنی چاہیے تھی۔عدالت نے کہا کہ حکام کوخود ہی کارروائی کرنا ہوگی اور وہ ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے عدالتوں کے پیچھے پناہ نہیں لے سکتے ہیں۔شاہین باغ روڈ سے رکاوٹ دور کرنے اور ٹریفک کو ہموار کرنے کے لیے ایڈوکیٹ امیت ساہنی نے درخواست دائر کی تھی۔عدالت عظمیٰ نے اس درخواست پر سماعت 21 ستمبر کو مکمل کی۔
شاہین باغ احتجاج
پروفیسرعبدالمنان طرزی، دربھنگہ
تاریخ کی زینت بنیں خاتون شاہیں باغ کی
وہ کارنامے کر گئیں خاتون شاہیں باغ کی
تسلیم کرلیتیں بھلا کیسے سیہ قانون کو
دو ماہ سے ہیں لڑ رہیں خاتون شاہیں باغ کی
مَردوں سے بڑھ کے مرحبا جانباز وہ ثابت ہوئیں
سب کی حمایت پاگئیں خاتون شاہیں باغ کی
تم پر خدا کی رحمتیں اے ماؤ! بہنو! بیٹیو!
کوہِ گراں ثابت ہوئیں خاتون شاہیں باغ کی
ہم صبر استقلال کو کرتے تمہارے ہیں سلام
اے پیکرِ دینِ متیں خاتون شاہیں باغ کی
آنچل کو اپنے حق کا اب پرچم بنا ڈالا ہے یوں
تیار جھکنے کو نہیں خاتون شاہیں باغ کی
جس مدعا کو لے کے ہیں دو ماہ سے بر احتجاج
اب سن لے ربّ العالمیں خاتونِ شاہیں باغ کی
یاد آئیں حضرت عائشہ و فاطمہ، جنگِ اُحد
نصرت خداکی چاہتیں خاتون شاہیں باغ کی
یہ آہِ مظلوماں کبھی بیکار جائے گی نہیں
جن کو خدا پر ہے یقیں خاتون شاہیں باغ کی
اک نقشِ زرّیں طرزیؔ ہے تاریخ کا یہ احتجاج
ہیں ساحلِ جمنا نشیں خاتون شاہیں باغ کی
مختلف سیاسی وسماجی شخصیتوں کی آمد،سخت سردی اور بارش کے باوجود مظاہرین پرجوش ، یواین اوکی تحقیقاتی ٹیم کا دورہ کل
نئی دہلی۔ ۱۰؍جنوری ( جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ) جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیمی قانون، این آر سی و این پی آر کے خلاف احتجاج کا آج ۲۹؍واں دن تھا۔ سخت سردی اور بارش کے باوجود لوگوں کا جوش ولولہ قابل دید تھا۔ آج جمعہ ہونے کی وجہ سے مظاہرین کی کچھ زیادہ ہی بھیڑ تھی۔ طلبا نے مجموعی طورپر اپنے عزم وہمت کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس تحریک کو اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ہماری جان میں جان ہے۔ اس موقع پر طلبانے پرزور آواز میں حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ طلبا کی ایک بڑی تعداد بھوک ہڑتال پر بھی بیٹھی ہوئی ہے۔ اسی درمیان طلبا کو حمایت دینے اور ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے والوں کا بھی تانتا بندھا ہوا ہے۔ بڑی تعداد میں سماجی کارکنان، دانشوران اور ملی قائدین ، یونیورسٹی وکالج کے پروفیسران طلبہ کے ساتھ اظہار یگانگت کےلیے گیٹ نمبر 7 باب مولانا ابوالکلام آزاد پر پہنچ رہے ہیں۔ آج کے اس احتجاج میں جن شخصیتوں نے خطاب کیا ان میں معروف دانشور پروفیسر زویا حسن، سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ ڈاکٹر زیڈ کے فیضان، معروف قلمکار اشوک کمار پانڈے، آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان عاصم وقار، معروف اسلامی اسکالر مولانا یحییٰ نعمانی، یوتھ فور پیس کے جنرل سکریٹری علی نسیم رضی ، یوپی کانگریس کے نوجوان لیڈر سلمان خان علیگ، ایم ای ای ایم کے صدر سید فرمان احمد اور شعرا میں حسین حیدری، سومیہ دیپ مرشدآباد کے نام قابل ذکرہیں۔ آج کے احتجاج میں خطاب کرتے ہوئے معروف دانشورو جامعہ کے سابق وائس چانسلر مشیرالحسن کی اہلیہ پروفیسر زویا حسن نے کہاکہ آزادی کے بعد سے میں نے اتنی بڑی تحریک نہیں دیکھی ہے، نربھیا اور انا احتجاج بھی صرف دہلی تک ہی محدود تھا لیکن یہ احتجاج ملک بھر میں ہے۔ انہو ں نے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے۔سپریم کورٹ کے وکیل زیڈکے فیضان نے کہاکہ یہ سیاہ قانون آئین مخالف ہے، حکومت آپ کے احتجاج سے بوکھلائی ہوئی ہے، جامعہ کیمپس میں گھر کر دہلی پولس کے ذریعے تشدد پر انہو ں نے کہاکہ جو بھی جامعہ میں ہوا وہ وائس چانسلر اور پولس کی ملی بھگت سے ہوا۔ مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان عاصم وقار نے کہاکہ میں یہاں سیاست کرنے نہیں بلکہ اپنی ذمے داری نبھانے آیا ہوں کہ ہم اپنے حقوق اور آئین کے تحفظ کےلیے لڑیں، جس سے ملک کی روح بچی رہے، انہوں نے مظاہرین کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہاکہ آپ سب اکیلے نہیں ہیں ہماری پارٹی آپ کے ساتھ ہے،یہ لڑائی صرف مسلم اور حکومت کے درمیان نہیں بلکہ یہ ملک اور حکومت کے درمیان کی لڑائی ہے۔ معروف اسلامی اسکالر مولانا یحییٰ نعمانی نے کہاکہ آپ جو کررہے ہیں زیادہ تر لوگ یہ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، انہوں نے کہاکہ اس تحریک کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں ایک زبان، ایک نعرہ ہے ہم سب ایک ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جامعہ نے پورے ملک کو جگا دیا ہے۔ اس موقع پر سبھی مقررین نے جامعہ کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی اور تحریک جاری رکھنے پر مبارک باد دی۔ڈاکٹر شکیل احمد خان ، کدوہ ، بہار سے ممبر قانون ساز اسمبلی نے کہا ، “یہ احتجاج اگلی نسل کے لئے ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی ایک اور عنوان لے کر آئے گی اور ہماری توجہ دوبارہ ہٹانے کی کوشش کرے گی لیکن ہمیں اپنے معاملے پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگا اور لڑائی جاری رکھنا ہوگا۔ نوجوان لیڈر سلمان خان علیگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں بابا صاحب امبیڈکر اوران کے آئین کو مانتا ہوں، انہوں نے کہاکہ ہم تعلیم یافتہ ہیں اور ہماری تعلیم بے کار ہے اگر ہم فرقہ پرست حکومت کے خلاف نہیں لڑے ، انہوں نے مظاہرین سے کہاکہ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ اس تحریک کو اتحاد کے ساتھ جاری رکھیں ـ ادھر دوسری جانب جنوبی دہلی کے شاہین باغ کا احتجاج بھی انتہائی جوش وخروش کے ساتھ جاری رہا۔ دہلی ہائی کورٹ نے شاہین باغ کے مظاہرین کو راحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں سے مظاہرین نہیں ہٹیں گے۔ جس سے مظاہرین میں خوشی کی لہر ہے۔ ہائی کورٹ میں دائر عرضداشت میںں کہاگیا تھا کہ شاہین باغ علاقے میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کو لے کر ہورہے احتجاجی مظاہرے کی وجہ سے ڈی این ڈی فلائی اوور پر روز عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد لوگوں میں خوشی کے آثار دیکھے گئے، اس موقع پر مظاہرین نے کہاکہ اب جو ہوجائے ہم اس کالے قانون کو واپس لیے جانے سے پہلے یہاں سے جانے والے نہیں ہیں، ہم پولس کی گولی کھانے کو بھی تیار ہیں، لیکن بنا سی اے اے قانون کو ہٹوائے ہم یہاں سے جانے والے نہیں ہیں۔ قابل ذکرہے کہ اتوارکو شام 7:30 بجےشاہین باغ کے احتجاج میں یو این او کی ٹیم اس احتجاج اور ملک کے موجودہ منظر نامے کا جائزہ لینے کے لئے آرہی ہےـ منتظمین نے اس موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں سے شرکت کی درخواست کی ہےـ