یکسانیت، فکری، فنی یا اظہاری سطح پر ہو۔بوریت، اکتاہٹ اورجھنجھلاہٹ کا باعث ہوتی ہے۔ ایک ہی موسم، ماحول،فضا، رنگ،آہنگ ہوتو بے کیفی سی محسوس ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال اس کرشمہ یا کشش سے محروم ہوتی ہے جو دامن دل کو کھینچتے ہیں۔ نئی فضا، نئے افق، نئے جزیرے کی جستجو اس لیے ہوتی ہے کہ انسان تحیرواستعجاب کی کیفیت سے ہمکنار رہے اور اس کے اندر کا اضطراب اور تجسس زندہ رہے ورنہ یا تو وہ مرجائے گا یا پھر منجمد ہوجائے گا۔
یکسانیت اورMonotonyسے نجات حاصل کرنے کے لیے ہی انسان نے نئے علاقوں اور منقطوں کو دریافت کیا، نئی وادیوں کی جستجو کی۔ ادب جو انسانی فطرت کا آئینہ دار ہے وہاں بھی یہی ’ذوق جستجو‘ بلکہ سودائے جستجو اس کے پرکیف اور حسن تازہ کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ادب کے جمال کی دوشیزگی میں یہی عمل تجسس کارفرما ہے۔ اگر یہ عمل ٹھہرجائے تو پھر ادب بھی منجمد کائی زدہ گھاس یا پانی کی طرح کثافت زدہ ہوجائے گا۔ ہر دور میں ادب کو ایک نئی آکسیجن کی ضرورت محسوس ہوتی رہی ہے۔ ہرلحظہ نیا طور نئی برق تجلی ہی ادب کی زندگی کا ضامن ہے۔ ستاروں سے آگے کے جہاں کی جستجو ہی ادب کا مقصد ہے۔ اگر یہ مقصد فوت ہوجائے تو پھرادب ایک ’تن مردہ‘ میں تبدیل ہوجائے گا۔
ادب نئی کائناتوںکی جستجو سے عبارت ہے۔ احساس واظہار کے باب میں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے کہ جب تک کوئی نیا تخیل، تصور، اسلوب،آہنگ، سمفنی، میلوڈی نہ ہو تو احساس و اظہار کی معنویت منکشف نہیں ہوتی اور نہ ہی قاری ایسے احساس واظہار کا اسیر ہوسکتا ہے۔ قاری کے لطف وانبساط یااسیری کے لیے احساس کا انفراد اوراظہار کا تفرد ناگزیر ہے۔
یکسانیت باطن میں ہو یا خارج میں، انسان اسے زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتا۔ ایک متحرک اور حساس ذہن ایک مقام ایک منزل میں منجمد نہیں رہ سکتا۔ انجماد اس کے لیے موت ہے یا سب سے بڑی سزا اور ایسے انسان کو ہمہ وقت کسی نئے نکتہ کی تلاش رہتی ہے اورجب تک اسے کوئی ایسا نقطہ تحیر نہ مل جائے، تب تک وہ ملتہب رہتا ہے۔ ایسے انسان زیادہ تر تخلیقی عمل سے جڑے ہوتے ہیں اور شاید تخلیق بھی اسی اضطراب والتہاب کا نام ہے۔
معتبر، جینوئن تخلیق ہمیشہ نئے پانیوںمیں قدم رکھتی ہے اورتازہ سیال پانی کے لمس سے اپنے معنوی وجود کو توانا اور تابندہ کرتی ہے اور تازہ خوشبوؤں سے مشام جاں کو معطر کرتی ہے اس طرح اپنی روشنی اورخوشبو دور دور تک پھیلاتی ہے اور ایسی ہی تخلیق ماورائے زماں ومکاں ہوتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ ہمارے عصری تخلیقی ادب کا ایک بڑا حصہ ذہنوں کو نئے نکتوں سے آشنا کرنے یاقاری کو ’دیدہ حیراں‘ عطا کرنے میں ناکام رہاہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب میں آباد تارکین وطن اردو ادیبوں، تخلیق کاروں کی ایک خاصی تعداد ایسی ہے جو ہمارے ذہنوں کو نئی روشنی،نئے زاویے اور نئے نکتوں سے آشنا کرتی ہے۔ ان کی تخلیق میں تازہ ہواؤں کی خوشبو، نئے موسموں کی بشارت اور دلوں کی نئی دھڑکنیں ملتی ہیں۔ مغرب کے اجنبی ماحول اورنئے موسم نے ان کی تخلیق کا آہنگ اور ایڈیم بدلا۔ان کے تخلیقی ذہن کے لیے یہ نیا موسم نہایت زرخیز ثابت ہوا اورانھوں نے اپنی تخلیق کی ایک ’نئی رہ گزر‘ تلاش کرلی جو اپنے وطن، اپنی مٹی میں شاید بڑی مشقت کے بعد بھی نصیب نہ ہوتی۔ ایسے تخلیق کاروں کا ایک امتیازی نقطہ یہ بھی ہے کہ ان کے احساس واظہار کی کونپلیں شگفتہ وشاداب اس لیے ہیں کہ انھیں نئی ہوائیں میسر ہیں۔ ایسابھی نہیں ہے کہ مغرب میں آباد اردو کے تخلیق کاروں نے اپنی مٹی، موسم یا ماحول سے منہ موڑ لیا، ہاں یہ ضرور ہوا کہ اپنی مٹی،موسم میں مغرب کی خوشبو اورمہک بھی شامل کرلی۔ ان تخلیق کاروں کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ ’مشرقیت‘ کے صحت مند لمس نے ان کے اظہار واحساس میں حرارت، شدت اورحدت کے ساتھ تاثیر و تسخیر کی کیفیت بھی پیدا کردی ہے۔ اپنی تہذیبی،لسانی جڑوں سے جڑے ہونے کے باوجود ان کے طرزاحساس واظہار میں وہ صحت مند فعال، متحرک عناصر بھی شامل ہیں جو خالصتاً مغربی کلچر اور ایتھوس پر مبنی ہیں۔ اس ’فیوژن‘ نے ان کی تخلیق کو آفاقیت اور ثقافتی عالمگیریت کے تصور کو نئی تعبیر عطا کی ہے۔ متضاد اورمتخالف کلچر میں سانس لینے والے بھی ایسی تخلیق کو ’نگاہِ اعتبار‘ سے دیکھتے ہیں۔ ان تخلیق کاروں کے ہاں ’تضادات کی تطبیق‘ کا عمل سب سے زیادہ روشن ہے۔ مشرق و مغرب کے تہذیبی ،لسانی افتراق کو وصال اورتصادم کوتفاہم اور ترابط میں تبدیل کرنے کی یہی کوشش انھیں عالمی سطح پر معتبربناتی ہے۔ ان تخلیق کاروں نے مغربی لسان وتہذیب کی داخلی لہروں کے انتشار کوسمجھا ہے اور اس کے ارتباط سے بھی آگاہ ہیں۔ ان کی تخلیق میں دومتضاد تہذیبی لہروں کا Interplayصاف طور پر نظرآتاہے۔ کس طرح دولہریں ایک دوسرے میں مدغم ہوکر ایک سمت میں رواں ہوتی ہیں،اس کا پتہ بھی نہیں چل پاتا۔ ان کی تخلیق میں Harmonyکاایک مثبت اور توانا عنصر ہے۔گلوبلائزیشن اورcybernetic communicationکے اس عہد میں ایسی ہی فکری، اظہاری وسعت کی ضرورت ہے جس کی تمنا غالب ؔنے کبھی یوں کی تھی:
کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے
مغرب میں آباد اردو کے تخلیق کاروں کو یہی ’وسعت بیان‘ میسر ہے جس کی وجہ سے ان کا تخلیقی ادب زرخیز اور ثروت مند ہے اور اردو کی عمومی Ghetto mentalityسے الگ ۔افسانیات کا باب ہو یا شعریات کا، ان کے ہاں محیط الارضی آفاقی حسیت نمایاں ہے۔ شاید اردو کی نئی بستیوں میں مقیم تخلیق کاروں کے اسی تخلیقی تلاطم نے تنقید نگاروں کی توجہ مبذول کرائی ہے اور انھیں ان ’تخلیقی لہروں‘ کے اسرار کے اکتشاف پرمجبور کیاہے۔ یہ ’تخلیقی لہریں‘ گم بھی ہوسکتی تھیں مگرمخزن برطانیہ نے ان ’لہروں‘ کو گمشدگی کے غار سے بچالیا اورجب یہی لہریں ہمارے دل کی زمیں سے ٹکرائیں توہمیں ان لہروں کی قوت تازگی اور توانائی کا احساس ہوا۔
مخزن برطانیہ (مدیر:مقصودالٰہی شیخ) نے ان لہروں کونہ صرف نئی سمت عطا کی بلکہ انھیں اوربھی تحرک بخشا۔ اس طرح مخزن کے وسیلے سے مغربی ممالک میں آباد اردو کے ادیبوں کی تخلیقی حرکیات اور نفسی کیفیات سے ہمیں آگہی ہوئی۔ مخزنؔ نے ہی ان تخلیقی جواہرات کے امتیازات اور تفردات کو روشن کیا۔ مخزن کی وجہ سے ہی ان تخلیقی لہروں کوشناخت کی منزل ملی اوران کی تفہیم وتعبیر کے ساتھ تعیین قدر کا معاملہ بھی سامنے آیا۔ مخزن کا مقصد شاید اصرف شناخت عطا کرنا ہی نہیں بلکہ اپنی تہذیبی ولسانی جڑوں کی طرف مراجعت کے جذبہ کو بیدار کرنا بھی ہے۔ ڈاکٹر منیرالدین احمد (جرمنی) نے اپنے مکتوب میں بہت لطیف اشارہ کیاہے کہ :
’’وہ (مقصودالٰہی شیخ) چاہتے ہیں کہ مغربی دنیا میں رہنے والے اردو دانوں کو جن کی اگلی نسل اردو کی طرف پیٹھ پھیرتی نظرآتی ہے ان کی ماں بولی کی طرف متوجہ کیاجائے۔اگر ماںباپ اپنے وطن کی زبان سے بے اعتنائی برتیں توپھربچے کیسے اس زبان کو اہمیت دیں گے۔ میرے سامنے جرمن آباد کاروں کی مثال ہے جو سات صدیاں قبل روس میں جاکر آباد ہوگئے تھے۔ ان کے یہاں آج بھی جرمن زبان بولی جاتی ہے۔ میں نے اس کی دوسری مثال جنوبی امریکہ کے ملک چلی میں دیکھی جہاں پرجرمن آبادکار سترھویں اوراٹھارھویں صدی میں جانے لگے تھے جب میں وہاں گیاتو یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ ہسپانوی کے پہلو بہ پہلو جرمن بولی جاتی ہے اور اس بات پر وہ لوگ بے حد فخر مند ہیں۔‘‘
مخزن نے اسی روایت کا احیا کیا ہے اور اس جذبہ وجنوں کو زندہ رکھا ہے جو کسی بھی فرد کا اپنی مادری زبان کے ساتھ جڑا ہوتاہے۔ مخزن کے شماروںمیں جو تخلیقات شائع ہوئی ہیں، وہ اس جذبہ وجنوں کی زندہ تعبیریں ہیں۔ اور ان تخلیقات میںمہجوری کا جو کرب پنہاںہے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اپنے ثقافتی اور لسانی اقدار کے تئیں ان کا شغف کتنا گہرا ہے۔ وہ اپنی زمیں اور زبان سے دوری کے باوجود مربوط ہیں اورچاہتے ہیں کہ یہ ربط اور رشتہ نہ صرف بحال رہے بلکہ ان کی آنے والی نسلیں بھی اس سے جڑی رہیں۔
مخزن میں شائع ہونے والے مہاجر یا تارکین وطن تخلیق کاروں میں درباب افسانہ نعیمہ ضیاء الدین (جرمنی)، ڈاکٹر عمران مشتاق (یوکے)، قیصرتمکین(یوکے)، صفیہ صدیقی(یوکے)، رضاء الجبار(کنیڈا)، جتیندریلو(لندن)، بانوارشد(لندن)، آغامحمدسعید(لندن)، جمشیدمرزا، پروین لاشاری،افتخار نسیم، سائیں سچا، آصفہ نشاط، محسنہ جیلانی، نجمہ عثمان وغیرہ شامل ہیں اور شاعری کے ذیل میں احمدفقیہ،حسن شکیل مظہری، خالدیوسف ، سوہن راہی، طلعت اشارت، طلعت سلیم، حسن عباس رضا، باصرکاظمی، اکبر حیدرآبادی، ترغیب بلند، منور احمد کنڈے وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ان میں بیشتر وہ ہیں جو برصغیر کے مقتدر مجلات و رسائل میں تواتر وتسلسل کے ساتھ شائع ہوتے ہیں اور اپنے منفرد اورمختلف تخلیقی آہنگ و اسلوب سے قاری کو چونکاتے ہیں اور انھیں خاطرخواہ پذیرائی بھی ملتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کی پذیرائی صرف اس لیے ہوتی ہے کہ یہ دیارِغیر میں اردو زبان وتہذیب کاچراغ روشن کیے ہوئے ہیں بلکہ اس لیے ہے کہ ان کی تخلیق خودان کے انفراد کی گواہی دیتی ہے۔ تخلیق کی تعیین قدر کا خواہ کوئی بھی پیمانہ مقرر کیاجائے،ان کی تخلیق کو جینوئن ادب سے خارج نہیں کیاجاسکتاکہ ان کی تخلیق میں نئے احساس کا فسوں ہے اورنئے اظہار کا طلسم بھی۔ ان کے مشاہدات کی دنیا بھی وسیع ہے اورتجربوں کی کائنات بھی بسیط۔ ان کے پاس اسالیب کے نئے پیرہن بھی ہیں اور نادیدہ خیال کی خوشبو بھی۔ ان کی تخلیق میں تہذیبی جڑوں کے تحفظ اوراپنے تہذیبی وثقافتی شعور کی توسیع کا عمل بھی روشن ہے۔ اس طرح ان کا تخلیقی تجربہ بھی مختلف ہے اور تصوربھی۔ انھوںنے ان دیواروں کوبھی منہدم کیاہے جوتہذیب ولسان کے نام پر کھڑی کی گئی ہیں۔ان کی تخلیق ایک نئی سمفنی اورنئی میلوڈی سے عبارت ہے۔ اس تخلیق میں مشرق کا نقش بھی ہے اور مغرب کا عکس بھی۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیبی تصادم کی تفہیم کے لیے یہی تخلیقات سب سے موثر ترین وسیلہ ہیں کہ ان میں تعصب کی وہ عینک نہیںہے جو مغرب سے دور اورنابلد ہوکر بھی ہماری آنکھوں پر لگی ہوئی ہے۔ وہاں کے تخلیق کاروں نے براہِ راست مغربی کلچر کا مشاہدہ کیا ہے اور اس سے مکالمہ بھی اس لیے ہمارے لیے ایسی تخلیقات زیادہ معتبر حوالہ بن سکتی ہیں۔اوراسے معتبر حوالہ بنانے کی سعی مشکور مخزن نے کی ہے۔میں نے یہاں اپنے مطالعہ کو ان ہی تخلیقات پرمرکوز رکھا ہے جو مخزن برطانیہ میں شائع ہوئیں اور جن سے یہ احساس ہوا کہ ان تخلیق کاروں کا اپناوژن ہے اور ملٹی کلچرل تناظر بھی۔ ان کے وژن میں مشاہداتی ادراک اور مطالعاتی منہج کا بھی عمل دخل ہے۔ان کے زاویہ نظر کی اپنی ایک داخلی منطق، ترتیب وتسلسل بھی ہے۔
مغرب میں آباد ایسے تخلیق کاروںمیں نجمہ عثمان بھی ہیں جنھوںنے شیکسپیئر، برناڈشا، ایملی ژولا، ورجینیا وولف اور اگاتھا کرسٹی کے مطالعہ سے اپنے ذہنی وتخلیقی افق کو وسعت عطا کی اور اظہاری دائرے کوندرتوں سے ہمکنار کیا۔نجمہ عثمان شاعرہ بھی ہیں اور کہانی کاربھی۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ’شاخِ حنا‘ ہے اور دوسرا مجموعہ ’کڑے موسموں کی زد پر‘ مختلف اصناف سے ان کا تخلیقی رشتہ ہے اوراسی ہمہ جہتی نے ان کی فکر اورفن کو اعتبار عطا کیا ہے۔ ان کی طرزِفکر اورطرزِاحساس سے آگہی کے لیے جہاں ان کی بہت سی کہانیاں معاون ہو سکتی ہیں وہیں ان کے زاویہ فکر اور اندازِنظر کی تفہیم کا ایک مستحکم حوالہ ان کی کہانی ’سنگ گراں‘ ہے جو مخزن برطانیہ-۴میں شائع ہوئی ہے۔
کہانی،ان کے ذہن وضمیر کی شفافیت کے ساتھ ساتھ اقدار کی غیرمشروطیت کوبھی نمایاں کرتی ہے۔ مغربی ومشرقی قدروں کے مابین تصادم سے عبارت اس کہانی میںمعروضیت (objectivity)کی لہرموجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کہانی کے باطن میں موجزن ایک ’نئی ذہنی رو‘ نظرآتی ہے جو شاید زیادہ مبنی برحقیقت ہے اورجس کا مسلمات یامفروضات سے کوئی رشتہ نہیں ہے بلکہ آنکھوں دیکھی حقیقت پرمبنی ہے اوریہ یوں بھی ضروری ہے کہ سماج میں بہت سے موہوم اورمبنی برغلط تصورات جگہ پاگئے ہیں اورکسی بھی چیز کے بارے میں معروضیت کے بجائے جذباتیت اورادعائیت والا رویہ حاوی ہے۔ اس کہانی سے ’ثناخوان تقدیس مشرق‘ کوکئی سطح پر ذہنی اور جذباتی جھٹکے لگ سکتے ہیںکیونکہ یہاں معاملہ جو ہے وہ نہیں ہے اورجو نہیں ہے وہ ہے والا معاملہ ہے۔ بات یہ ہے کہ ہرچیز کو ایک طے شدہ تعصب سے دیکھنے کی روش عام ہے اوربغیر کسی تفتیش اور تحقیق کے اپنے ذہن میں مفروضوں کا گھروندا تیار کرنے کا طریقہ بھی عام ہے۔ اسی ذہنیت کی وجہ سے حقیقتیں مفروضوں میں بدل جاتی ہیں اور مفروضات حقائق میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی تہذیب یا معاشرہ کے بارے میں پہلے سے یہ طے کرلینا کہ وہ اچھا ہے یا برا ہے۔ اساسی طورپر ایک غلط ذہنی رویہ ہے۔ نجمہ عثمان کی یہ کہانی ’’سنگ گراں‘‘ اسی ’ذہنی روش‘ پرکاری ضرب لگاتی ہوئی سماج کے اس چہرہ کو دکھاتی ہے، جو آنکھوں سے اوجھل ہے۔ ایک سماج ظاہری طورپر خواہ کتنا ہی بہترنظرآئے،اگر اس کا ’باطن‘ برا ہے تو پھر وہ سماج قابل لعنت وملامت ہے۔
اس کہانی کی کردار ’سیما‘ ایک حقیقت پسندانہ ذہن رکھتی ہے جبکہ زبیدہ کریم ’مذہبی رومانیت‘ میں کھوئی رہتی ہیں اور ’مشرقیت‘ ہی ان کے لیے نجات دیدہ ودل ہے۔ مگر آخر میں ان کی مذہبی رومانیت اور مشرقیت کی شکست ہوتی ہے اور احساس ہوتاہے کہ مذہبی دعائیں بھی اپنا اثرکھوبیٹھتی ہیں۔ اب محض یہ ایسے الفاظ ہیں جو اپنے معانی کھوچکے ہیں۔ اورلفظ جب اپنی ’روح‘ کھودیتے ہیں توپھر وہ منجمد پتھر بن جاتے ہیں۔ یہاں بھی معاملہ دعاؤں کی بے اثری کا ہے۔ وہ دعائیں جو مشرقی اقدار سے مزین ایک مذہبی عورت اٹھتے بیٹھتے مانگتی رہتی ہے۔ کہانی سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ درس اوردعائیں، حقیقت سے راہ فرار اختیار کرنے کی ترکیبیں ہیں۔ یا جو ذہن حقائق کا سامنا نہیں کرناچاہتے، ان کے لیے مذہبی دعائیں ’پناہ گاہ‘ بن جاتی ہیں۔
اس کہانی میں ایک رجعت پسندانہ اورایک حقیقت پسندانہ تصور کے مابین ٹکراؤ کی کیفیت کہانی کی کئی باطنی سطحوںکو منکشف کرتی ہے۔ ماں جوکردار ہے وہ رجعت پسند ہے اور بیٹی جو کردار ہے وہ حقیقت پسند ہے۔ ان دونوں کرداروں کی ذہنی ساخت اور رویے کوسمجھنے کے لیے یہ ڈائیلاگ معاون ہوسکتے ہیں:
(الف) ان لوگوں سے دور رہو۔ یہ مغربی معاشرے کی آزاد تتلیاں ہیں تم مسلمان لڑکی ہو، ہماری تہذیب ان سے مختلف ہے۔
(ب) ہر معاشرے میں اچھی اور بری باتیں ہوتی ہیں۔ ان سے اچھی باتیں بھی توسیکھی جاسکتی ہیں۔ اورہمارا کلچر کون سا عیب سے پاک ہے۔
(الف) پروردگار اس کڑی آزمائش سے گزرنے کا حوصلہ دے۔
(ب) عامر اندر سے کتنا گہرا ہے آپ سوچ بھی نہیں سکتیں۔ مذہب کی آڑ لے کر اسلام کو بدنام کرنے والے ایسے لوگ دنیا کے ہرحصے میں موجود ہیں اورہماری سوسائٹی کوکھوکھلا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ میں ہیلن کوجانتی ہوں عامرنے اس سے رومانس لڑایا اور جب وہ حاملہ ہوگئی تویہ کہہ کر جان چھڑانا چاہی کہ نہ جانے کس کا بچہ ہے۔آپ انگریز قوم کوجتنا بھی برا بھلا کہیں ان میں ایک خوبی ہے کہ جھوٹ اوردوغلے پن سے دور رہتے ہیں۔خاص طور پر جہاں بچوں اورفیملی کی بات آجائے۔
(الف) کیاسوچا تھا اورکیا ہوگیا؟
(ب) آپ معاشرے سے ڈرتی ہیں۔ عامر میں سچ کہنے کی ہمت نہیں۔ اپناٹیسٹ کرانے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ ماں کے کہنے پر شادی کرلی۔ یہ سوچ کر کہ بہت سی لڑکیوں کے بچے نہیں ہوتے۔ بات خوبصورتی سے ڈھکی رہے گی۔ سارا الزام لڑکی پر آئے گا۔ مسٹرکریم جیسے شرفا سب کچھ سہہ جاتے ہیںاورمیں۔۔۔ سیماکریم آپ کی اس دوغلی سوسائٹی کی زد پر آگئی۔ میرا کیاقصور تھا امی؟ برطانیہ کے ترقی یافتہ ماحول میں پلی بڑھی لڑکی اپنے حقوق کے لیے نہیں لڑسکتی صرف اس لیے کہ شرافت اور نیک نامی کے لباس پر چھینٹے آجائیں گے۔ مسٹرکریم پرلوگوں کوانگلیاں اٹھانے کا موقع مل جائے گا۔ زبیدہ کریم کے درسی حلقے میں ان کی عزت گھٹ جائے گی۔
(الف) پروردگار اس دیارغیر میں ہمارے بچوں کوسیدھے راستے پر چلا۔ بچوں کو نیک برعطافرما۔ ہرآزمائش سے گزرنے کا حوصلے دے۔ میرے مولا۔ صبردے،توہم سب کو صبردے۔۔۔ تو مجھے صبردے!
(ب) میری وہ سہیلیاںجن کی صحبت سے آپ مجھے بچاتی تھیں وہ کم ازکم سچ سہنے اوربولنے کا حوصلہ تورکھتی ہیں اورحقائق کا سامنا کرتی ہیں۔اوریہ بات میں نے ان سے ہی سیکھی ہے—— شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی ان میریڈ مدر کی طرح زندگی گزاروں گی۔
’’الف ‘‘کی سوچ میں رجعت پسندی اور مفعولیت ہے جبکہ ’’ب ‘‘کی سوچ میںحقیقت پسندی اور فاعلیت ہے۔ کہانی میں دونوں کے فکری تضادات کی تصویریں نمایاں ہیں اور اس فکری تناؤ کی وجہ سے کہانی بہت بامعنی، معنویت سے معمور اور پراثر ہوگئی ہے۔کہانی کار نے کہیں بھی اپنی فکرکے زاویے کو نہیں پیش کیاہے بلکہ دونوں کرداروں کے تناؤ سے وہ سارے تناظرات روشن کردیے ہیں جو مشرق اورمغرب سے متعلق ہیں اور اس کہانی میں مغربی تناظر زیادہ پاورفل، بامعنی نظرآتاہے جبکہ مشرقی تناظر پرمنفیت حاوی ہے۔ مشرق نمائشی مذہب پسندی کی علامت کے طورپر سامنے ہے جبکہ مغرب ایک حقیقت پسندمعاشرہ کی صورت میں ہے۔ سیماؔ کا حجاب میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی بات کرنا دراصل مغربی معاشرہ سے لمس کا مرہون منت ہے۔ جہاں لوگ فراریت پسندی کے بجائے چیلنج کا سامناکرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ موضوعی اعتبار سے یہ کہانی مشرقی اور مغربی معاشرہ کے تضادات کوپیش کرتی ہے اوراس طورپر مغربی معاشرہ کی ایک مثبت تصویرتعبیر اور تفہیم سامنے آتی ہے جبکہ مشرقی معاشرہ کی ایک منفی تصویر ابھرتی ہے۔ یہ کہانی اپنے مقصد کے اعتبار سے بھی کامیاب ہے کہ بہت سے تصورات صرف سماج کے زائیدہ ہوتے ہیں۔ ا ن کی کوئی حقیقی بنیادنہیں ہوتی۔ کہانی ایک غیرمشروط ذہن کے ساتھ لکھی گئی ہے اس لیے کامیاب ہے۔ جہاں تک زبان وبیان کا تعلق ہے تویہ کہانی روایتی سانچے میں نہیں لکھی گئی ہے۔ کسی بھی سطح پر کہانی میں نہ ژولیدہ بیانی ہے اورنہ ہی ابہام۔ کہانی کا ایک ایک لفظ بین السطور میں مخفی مفاہیم اور مقاصد کوروشن کرنا نظرآتاہے۔
مشرقی ذہن اور ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی اس کہانی میں مشرق کے لیے ایک بہت بڑا پیغام بھی ہے کہ جھوٹے وقار اور شان وعزت کی خاطر چپ رہنا اورظلم سہنا بھی گویا ظلم کو جواز عطا کرنا ہے اور مشرق اسی مرض میں صدیوں سے مبتلا ہے۔
اسی طرز فکرکی ترسیل عطیہ خاں کی کہانی ’’یہ رشتے‘’ (مطبوعہ مخزن برطانیہ-۶) میںنظرآتی ہے۔ اس کہانی میں مشرقی اورمغربی قدروں کے مابین کشمکش اورتناؤ کا بیان ہے جس سے مشرق کی مجہولیت، مفعولیت روشن ہوتی ہے۔ جہاں’اقدار‘ کے نام پر ’آزادی‘ سلب کرنے کی روش کو تہذیب وشرافت کانام دیا جاتا ہے۔ جہاں اپنی آزادی اورخودمختاری کا کوئی مفہوم ہی نہیں ہے۔ جہاں انسانی جذبات واحساسات کا کوئی احترام نہیں، خاص طورپر لڑکیوں کی ’آزادی‘ کا توکوئی خانہ ہی نہیں ہے۔ اس کہانی کا کردار نزہت نامی ایک لڑکی ہے جو بہت سیدھی،خوش مزاج اور فرماں بردار ہے۔ کہانی کارنے اس کردار کو جس طرح پیش کیاہے اس سے محسوس ہوتاہے کہ وہ مغربی تہذیب کے جراثیم سے محفوظ رہنے کے لیے بہت سارے جتن کرتی ہے۔ کہانی کار کے بقول:
(الف) ’’نزہت کو یونیورسٹی میں لڑکیوں کی لڑکوں کے ساتھ حد سے زیادہ بڑھی ہوئی بے تکلفی سخت ناپسند تھی کہ کسی بھی لڑکے کے ساتھ پب گئیں اور پھررات اسی لڑکے کے ساتھ گزاردی۔ لڑکوں کی پیش قدمی سے بچنے کے لیے اس نے مذہب کا سہارا لیاتھا۔ یوں تواپنے والدین کی طرح نماز روزے کی پابندوہ پہلے سے تھی۔ حجاب پہن کر اس نے مغربی تہذیب کی جنسی آزادیوں سے خودکو محفوظ کرلیاتھا۔‘‘
(ب) ’’اس کے نزدیک خاندان کی بڑی اہمیت تھی۔ مغربی معاشرہ میں جولڑکیاں آزادی کے غلط تصور سے مدہوش ہوکر خاندانی زندگی کو ٹھکراکر نکل پڑتی ہیں۔ کم سن مائیں بن جاتی ہیں اور یہ غیرشادی شدہ کمسن مائیں کونسل کے فلیٹوں میں تنہا رہ کر اپنے بچوں کومناسب تعلیم وتربیت بھی نہیں دے پاتیں۔ نزہت کومغربی تہذیب کی اس طرح کی آزادی سخت ناپسندتھی۔‘‘
مشرقی تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی اورمغربی کلچر سے متنفر نزہت آخرکیوں بدل جاتی ہے۔ اورعین نکاح کے وقت شادی سے انکار کربیٹھتی ہے۔ اوریہ محسوس کرتی ہے کہ وہ مغربی ماحول کی پروردہ ایک آزاد وخودمختار انسان ہے اوروہ زنجیر جواسے زبردستی پہنائی جارہی تھی اسے توڑکر وہ آزاد ہوگئی ہے۔
تقلیب ماہیئت کایہ کرشمہ کیسے ہوا؟ یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے اور کہانی میں ہی اس پرشن کا اُتّر بھی ہے۔ نزہت یقینی طور پر مشرقی تہذیب میں پلی بڑھی اور اس کے لاشعورمیں یہ بات بٹھادی گئی کہ مغربی تہذیب میں صرف برائیاں ہوتی ہیں اور مشرقی تہذیب میں اچھائیاں، مگر جب اس کا مطالعہ ومشاہدہ بڑھا اوربرطانیہ کی فضا سے غیرشعوری طورپر متاثرہوئی تواس کے سامنے مشرق اورمغرب دونوں کی آزادی کا مفہوم روشن ہوگیا۔ وہ گوکہ مغرب کی آزادی سے متنفر تھی مگر انسان کی آزادی اورخودمختاری سے متنفرنہیں تھی۔ اسے احساس ہوا کہ مشرقی روایت اورتہذیب میں انسانی آزادی یاخودمختاری کا کوئی معنی نہیں ہے۔اس طرح مشرق ومغرب دونوں کے تصورات کونزہت نے پرکھا اور محسوس کیا کہ مشرقی روایت ایک طرح سے انسان کی آزادی کو سلب کرلیتی ہے۔اسے اتنا بھی حق نہیں دیتی کہ وہ اپنی زندگی کا خودفیصلہ کرسکے جبکہ مغرب نے اتنی آزادی دے دی ہے کہ اس کی نہ حد ہے اور نہ کوئی سمت ۔اسی لیے نزہت عین ایجاب وقبول کے وقت شادی سے انکار کردیتی ہے کہ روایت کی پاس داری کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ انسان کی آزادی اور خودمختاری چھین لی جائے۔
مشرق کی روایت پسندی اورمغرب کی آزادی دونوں ہی صحت مند معاشرہ کے لیے نقصان دہ ہیں۔ کہانی سے ایسا ہی احساس ہوتاہے۔ کہانی کے بین السطور سے واضح ہے کہ مغرب ہو یا مشرق دونوں کو اپنے معاشرتی رویے میں تبدیلی لانی چاہیے۔ روایت، تہذیب،حیا اورحجاب کے نام پر عورتوں کوان کے حقوق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔
عطیہ خاں نے ایک نہایت ہی اہم مسئلہ پر کہانی لکھی ہے اور مشرقی ومغربی احساس کے مابین تصادم کی اچھی تصویر کشی کی ہے۔ یہاں بھی دونوں تناظرات اپنی حقیقی شکل میں موجود ہیں۔ کہانی کارنے کسی بھی تناظر کو مسخ کرنے کی کوشش نہیںکی ہے اور نہ ہی کسی طرح کی بے جا وکالت کی ہے۔ عطیہ خاں نے دونوں تناظرات کی تفہیم کے بعدہی کوئی منطقی نتیجہ اخذ کیاہے اور یہی منطقیت کہانی کو موثربناتی ہے۔
عطیہ خاں کی اس کہانی میں بھی ایک حقیقت پسندانہ تناظر ہے۔ عطیہ ایک مشہورافسانہ نگار ہیں جن کا افسانوی مجموعہ ’’تجربات وحوادث‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ عطیہ خاں مغرب میں آباد پرانی اورنئی نسل کی نفسیات اوران کی ذہنی پیچیدگیوں سے بھی آگاہ ہیں۔ ان کی کہانیوں میں مشرقی ومغربی طرز احساس کی لہریں موجزن ہیں۔ وہ نہ مغرب کے مزاحم کردار اور نہ ہی مشرق کے دفاع کارکی حیثیت سے سامنے آتی ہیں بلکہ تجربات وحوادث کی بنیادپر کہانی کے تانے بانے بنتی ہیں۔
مغرب ومشرق کے تہذیبی، ثقافتی، فکری تناظرات کی تفہیم میں صفیہ صدیقی کی کہانیاں بھی رہنمائی کرتی ہیں۔ صفیہ اپنی تہذیبی جڑوں سے جدا نہیں ہیں۔ انھیں اپنی مٹی سے محبت ہے اور مغرب میں آباد ایشیائی تارکین وطن کے درد وکرب سے آگاہ ہیں اورانھیں یہ بھی احساس ہے کہ مشرقی عورت دو دنیاؤں میں گرفتار ہے۔ ان کی ایک الگ طور وطرز کی کہانی ہے، ایک طوفانی شام (مطبوعہ مخزن برطانیہ-۴) جس میں انھوںنے مغرب میں آزاد جنسی تعلقات اورغیرازدواجی رفاقت کے گمبھیر مسئلہ کونہایت فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اورمغرب کی اس آزادروی سے متاثرمشرقیوں کے سماجی شعور کی تبدیلی کے المیہ کو اجاگرکیا ہے۔ اس کہانی میں اپنی تہذیبی اور نسلی شناخت کی گمشدگی کا کرب بھی نمایاں ہے اور مغرب کی مادیت پرست صارفی ذہنیت پر طنز بھی ہے۔
جنید اور سالم کھان اس کہانی کے دوکردار ہیں جو اپنی متوازی سوچ کے ساتھ کہانی میں موجود ہیں۔ جنید مشرقی تہذیب وروایت کا پاسدار ہے جبکہ سالیم کھان مشرقی ہوتے ہوئے اپنی تہذیبی شناخت اورسماجی اقدار سے واقف نہیں ہے۔ وہ مغربی رنگ میں مکمل طورپر ڈوبا ہوا ہے۔ اس لیے وہ گرل فرینڈ کے ساتھ بغیر شادی کیے ہوئے زندگی گزارتا ہے، کہانی کے متن میں دونوں کرداروں کی سوچ کی متوازی لہریں یوںنمایاں ہوتی ہیں:
(الف) نہیں میں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ چارسال سے رہ رہا ہوں مگرہم نے شادی کی ضرورت نہیں محسوس کی۔ ایک کاغذ کے ٹکڑے میں کیا رکھا ہے؟
(ب) ہم جب دوپاؤنڈ کی کوئی چیز خریدتے ہیں تواس کی گارنٹی مانتے ہیں اورجب اتنا بڑا ایموشنل انوسٹمنٹ ہوتو کوئی گارنٹی نہیں۔ گارنٹی توکسی رلیشن شپ کی نہیں ہوتی مگراتنی لاتعلقی کہ کاغذ کا ٹکڑا کہہ کر شادی کے اگریمنٹ کورد کردینا۔ پھر یہ کہ میں اس رلیشن شپ کوبہت اہم سمجھتاہوں کیونکہ اس میں بچے بھی شریک ہوتے ہیں اور پارٹنر چینج کرتے رہنے میں بچے بہت خوار ہوتے ہیں اور اس سولائزدنیا میں بچوں کی جوبربادی ہوتی ہے وہ کسی غریب اورجاہل ملک میں نہیں ہوتی پوری نسل کی نسل تباہ ہوجاتی ہے۔
(الف) میری دوسال کی بیٹی ہے مگریہ پوائنٹ مجھے معلوم نہیں تھا۔ سیلی تومجھ سے کہتی تھی۔ میں ہی تیارنہیں ہوا۔ ڈیڈی بھی کہتے تھے کہ شادی کرلوگے تو ہرچیز میں سے آدھالے لے گی۔ شادی کی جھنجھٹ ہی میں نہ پڑو۔
(ب) جناب اب قانون بن گیا ہے کہ اگرآپ دونوں ساتھ رہتے ہیں توگھرمیں اس کا بھی حصہ ہے کیونکہ گھر تو عورت سے ہی بنتا ہے خواہ شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں۔
الف کی سوچ پرمغربیت حاوی ہے جبکہ ب کی سوچ مکمل طورپر مشرقی ہے۔ کہانی کارنے مشرقی فکر کومتوازن اورمنطقی ثابت کرتے ہوئے الف کی سوچ کی تبدیلی کو بھی بیان کیا ہے۔
’’سیلی کہتی ہے کہ ہم لوگ کیوں نہ کنورٹ ہوجائیں، پھر مسلم میرج کریں۔‘‘ کہانی اپنے پیغام کی ترسیل میں کامیاب ہے۔ مشرق کو فتح اورمغرب کوشکست ملتی ہے اور معاملہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ سیلی کی ماں جو اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتی ہے، وہ بھی شادی کرنے پر رضامند ہوجاتی ہے۔مگر آگے کیا ہوتاہے۔ وہ کہانی کے کلائمکس میں ہے کہ ’’سیلی کی ماں کویہ یادہی نہیں کہ اس کاباپ کون تھا۔‘‘
اس ایک جملہ میں مغرب کی جنسی آزاد روی پر کتنا گہرا طنز ہے اور اس بات پر ملال بھی کہ مغرب کی کوئی تہذیبی شناخت ہے اورنہ ہی نسلی شناخت، اسی لیے مغرب میں خاندانی نظام بکھراؤ یا انتشار کا شکار ہے، کم ازکم مشرق کے پاس اپنا نسلی شناخت نامہ تو ہے۔اس کہانی میں مغرب کے آزادی نسواں کے تصور پربھی کاری ضرب ہے کہ مغرب نے عورتوں سے جنسی معروض کے علاوہ ان سے تمام شناخت چھین لی ہے اور عورت کے جذباتی اور اقتصادی استحصال کے لیے شادی کے متبادل تلاش کرلیے ہیں۔ کیا یہ عورت کی آزادی کا احترام ہے یا آزادی کے نام پر اقتصادی استحصال—— کہانی کارنے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ عورت ایک باوقار وجود کا نام ہے، صرف جنسی معروض نہیں۔ اور تہذیبی جڑوں سے کٹ کر کوئی بھی عورت اپنی مکمل شناخت کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتی۔
صفیہ صدیقی نے کہانی بہت ہی پراثرانداز میں لکھی ہے۔ اور یہ کہانی کئی سطحوں پراحساس کو مرتعش کرتی ہے۔ صفیہ کے اسلوب میں بڑی توانائی اورطاقت ہے اور انھیں اپنی بات کہنے کا صرف ہنرنہیںآتابلکہ کنونس کرنے کا طریقہ بھی معلوم ہے۔
صفیہ صدیقی کے وژن میں وسعت اور اظہار میں تازگی اور جدت ہے اور اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے مطالعاتی دائرہ کوصرف اردو تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ انھوں نے جین آسٹن، ہارڈی، چارلس ڈکنز، وکٹوریا ہالٹ، اسٹائن بک، گبرائیل گارسیا مارکیز جیسے عالمی تخلیق کاروں کو پڑھا ہے اوراپنے باطن میں جذب بھی کیاہے۔ ان کے تین افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور ایک ناول بھی ’دشت غربت میں‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ وہ فکشن کی معاصر لہروں سے آگاہ ہیں اور ادب کی آتی جاتی لہروں پربھی ان کی نگاہ ہے۔
آصفہ نشاط بھی ان تخلیق کاروں میں سے ہیں جنھوںنے تارکین وطن کے مسائل اور مشکلات کو اچھی طرح سمجھا ہے اور مشرق و مغرب دونوں کے تہذیبی، معاشرتی تناظرات سے بھی آگاہ ہیں۔ان کے مشاہدات و تجربات کی دنیا بھی وسیع ہے۔ فکشن اورشاعری دونوں سے ربط ہے۔
’بھابھی کی لیبارٹری‘ان کی ایک ایسی کہانی ہے جس میں اپنے تہذیبی تشخص اورنسلی شناخت کی گمشدگی کا کرب نمایاں ہے۔ اس کہانی کا کردار جب امریکہ پہنچتا ہے تو وہ محض ایک ’عدد‘ یا ایک مشین میں تبدیل ہوجاتاہے۔ مادیت اور دولت کی اندھی ہوس انسان سے اس کا سارا تشخص ہی چھین لیتی ہے۔ انسان صرف اپنی ذات میں محدود یا ملازمت میں مقید ہوکر رہ جاتاہے۔ آصفہ نشاط کی یہ کہانی اس کرب کا خوب صورت اظہاریہ ہے۔ کہانی کے کردار کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ وہ اپنی تہذیبی جڑوں سے کٹ گیا ہے اوراپنے شجر سے بچھڑ گیاہے۔ اب اس کی کوئی تہذیبی، یا نسلی شناخت نہیں ہے،اس کی پہچان صرف ایئرکنڈیشنڈ گھر،انٹرکام سسٹم، موبائل فون اور موبل ہوم ہے۔ کہانی کا کردار افسردہ ہے اسے احساس ہے کہ:
’’موبل ہوم میں وہ خوشی کہاں تھی جوآنگن میں کھیلتے بچوں کی کلکاریوں سے ملتی۔ میرے اندر کوئی چیخ رہا تھا کہ میں کیکٹس ہوں، بے پتے، بے شاخ کا پھل، لاولد ہوں، میں نے اپنی رگیں کیوں کاٹ دیں کیوں ختم کی میں نے اپنی نسل۔اگر میں نے اپنی تہذیب کا خاتمہ کرہی دیاتھا تو میں نے اپنے آپ کو بانجھ کیوں کرلیا۔ کیا کھویاکیاپایا۔‘‘
یہ مغرب میں آباد تارکین وطن کا مجموعی المیہ ہے جو دولت کی چکاچوندھ میں ہر چیز فراموش کردیتے ہیں اور اس طرح ان کا پورا وجود بانجھ ہوجاتاہے۔
کہانی میں ایک پیغام مخفی ہے اوراس پیغام کی ترسیل میں آصفہ نشاط کا اظہار اسلوب کامیاب ہے۔ تہذیبی تشخص کے تئیں بیداری اوراپنی تہذیبی جڑوں کا تحفظ ہی اس کہانی کا بنیادی مقصد ہے۔ کہانی میں مغرب پرطنز نہیں ہے بلکہ مغرب میں آباد ان افراد پر طنز ہے جو اپنی تاریخ،تہذیب اور تشخص کوبھلابیٹھے ہیں۔
آصفہ نشاط نے اس نوع کی اوربھی کہانیاں لکھی ہیں جن سے مشرق ومغرب کے تہذیبی تناظرات کی تفہیم نو میں مدد مل سکتی ہے۔
مغرب میں آبادافتخارنسیم ایک متحرک،منحرف توانا تخلیقی ذہن کا نام ہے جس کی تخلیق میں Neo-humanismکی عبارتیں روشن ہیں اور جس کی تخلیقی رگوں میں وہ درد لہریںہیں جو انسانی ذہن وضمیر کومرتعش کردیتی ہیں۔ وہ معاشرتی رسوم وقیود، مسلمات و مفروضات سے آزاد اپنے طورپر کائناتی حقائق کی تعبیر و تفسیر تلاش کرنے والے تخلیق کارہیں۔ انھیںکہنگی اور فرسودگی سے سخت بیرہے۔ وہ ہر ایک لمحہ ایک نئی کائنات اورایک نئے جہاں کی جستجو میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی اپنی ذہنی ترجیحات ہیں اور ان کے اپنے مخصوص نفسیاتی ادراکات بھی ہیں۔ ان کے لیے کائنات ایک معمہ ہے اوراس معمہ کو حل کرنے کے لیے اپنے ذہن کی توانائی صرف کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ممنوعہ علاقے کیا ہیں اور ان ممنوعات کی منطق کیا ہے وہ تمام تر ممنوعات، محظورات کو مسترد کرتے ہوئے اپنی منطق کا استعمال کرتے ہیں اور اس طرح کائنات کو بالکل تازہ تناظر میں دیکھتے ہیں۔
افتخار نسیم کا اپنا ایک مخصوص وژن ہے اوراسی کی روشنی میں وہ حیات وکائنات کے مسائل اور مدوجزر کو دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ ان کی ہر کہانی ایک نئے زاویے اور نئی جہت کا کشاف ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی ذات کے باطن میں مستغرق ہوکر کائنات کوتمام تر زاویوں سے دیکھا ہے اور اس طرح کہ ان کی داخلی کائنات، خارجی کائنات سے الگ وجود نہیں رکھتی۔ وہ پوری کائنات کوہی اپنی ذات میں شامل سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کی ذات سے کرب اور درد کے وہ تمام سلسلے جڑگئے ہیں جن سے انسانیت ہرلمحہ، ہرپل گزرتی رہتی ہے۔ ان کی شخصیت میں جتنی شفافیت ہے، اتنی ہی ان کی تخلیق اورنظریے میں۔انھوں نے خارج کے آئینے میں اپنا چہرہ نہیں دیکھا بلکہ اپنے باطن کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا ہے اس لیے دیگر لوگوں کی طرح انھیں اپنا ’چہرہ‘ چھپانے یا نقاب لگانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی وہ معاشرہ میں معتوب و مردود قرار دیے جاسکتے ہیں مگر منافق یا محجوب نہیں،ان کا ہر نظریہ عمل روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ان کے قول وعمل میں بھی اس طرح کا تضاد نہیں ہے جو بعض مذہب پرستوں کی روش خاص ہے۔ ان کے لیے جرأت، بے باکی اوراپنے نظریے کا بے باکانہ اظہار ہی سب سے بڑا سرمایہ ہے۔
ان کی کہانی ’’اپنی اپنی زندگی‘‘ ایک مختلف زاویہ نظر سے اسلوب اظہار ، منطقی استدلال اوراساطیری ،استعاراتی حسن کی وجہ سے مقبول ہے۔ یہ کہانی گوکہ Gay Movementسے متعلق ہے مگر اس میں انسانی دردمندی کی وہ آگ روشن ہے جوپتھردل انسان کوبھی موم کرسکتی ہے۔کہانی اپنی منطقی ترتیب، تاریخی تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اورآگہی کے ایسے دیے روشن کردیتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔
ان کی یہ کہانی دردمندی سے عبارت ہے اوراحتجاج بھی ہے ایسے سنگ دلوں کے خلاف جومذہبی ہوتے ہوئے بھی انسانیت کا درد نہیں سمجھتے۔ جواخوت وانسانیت کا درس تو دیتے ہیں مگرخود اس پر عمل نہیں کرتے۔ افتخار نسیم نے اسی معاشرتی منافقت کے خلاف احتجاج کیا ہے:
’’پردیس میں اپنوں کی بے حسی نے اس کے دماغ پر بہت برااثرڈالا اس کے بھائی کے پاس دنیابھر کی دولت تھی لیکن اب وہ مڈل ایج میں داخل ہوچکا تھا اور امریکہ میں رہنے والے دوسرے مسلمانوں کی طرح جو۱۹۷۰ء کے شروع میں یہاںآئے سب کچھ کیا۔ وطن واپس جاکر شادی کرکے بیوی کولے آئے اوراب Born again Muslimہوگئے۔ ایسا کیوں ہوتاہے کہ جو مذہبی ہوجاتے ہیں ان کے دل بجائے نرم ہونے کے اورسخت ہوجاتے ہیں۔ طبیعت میں ایک کرختگی سی آجاتی ہے۔ وہ ایک قسم کے God Complexکا شکار ہوجاتے ہیں۔ راحت کے بھائی کو جب علم ہوا کہ راحت Gayہے تو اس نے اس کے ساتھ تعلقات ختم کرلیے۔‘‘
ان جملوںمیں جونشتریت ہے وہ دراصل اس لیے ہے کہ انسان، اپنے انسانی رشتوں کوبھول چکاہے اور اس نے اچھے اور برے کے درمیان اتنا فرق یافاصلہ پیداکردیا ہے کہ ’برا‘ لاکھ اچھا ہونا چاہے، اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگوں نے اپنے انسانی منصب اورفرائض کوبھی فراموش کردیاہے۔ ان کی ذات خدا سے بھی برتر ہوگئی ہے جو گنہ گار بندوں کے لیے رحیم و کریم ہے، جس کے دامن عفو دراز میں ہرخاطی وعاصی کوجگہ مل جاتی ہے مگران خداترس برگزیدہ بندوں کا معاملہ کچھ یوں ہے:
’’کیا میدان حشر میں ہوں؟خون کو خون نہیں پہچان رہا۔ یہ وہی لوگ ہیں جو مسجدوں کوچندہ دیتے ہیں لیکن ایک بیمار کی مدد نہیں کرسکتے۔ اگرراحت Gayنہ ہوتاHetro sexualہوتا تو کیا اس کا بھائی اس کی مدد کرتا؟ کیا ہمارا معاشرہ صرفMajorityکا ساتھ دیتا ہے؟ Minorityکا کوئی خدا نہیں؟‘‘
ایک بڑا سوال انسانی اور خاص طور پر مذہبی معاشرے کے سامنے ہے۔ کیا اقلیت اور اکثریت کی یہ تفریق مناسب ہے۔ کیا انسانیت کو ایسے خانوںمیںبانٹا جاسکتا ہے۔سوال بہت اہم ہے مگرجواب کسی کے پاس نہیں کہ سماج کے اپنے نارمس ہیں، اپنے اصول وضوابط ہیں، اپنے قاعدے قانون ہیں،جو ان نارمس سے انحراف کرے گا،اذیت اس کا مقدر ہوگی۔
افتخار نسیم نے اس طرز احساس کے خلاف زبردست احتجاج کیاہے۔ وہ انسانی وجود کواس کے اعمال وافعال کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے اس کے دکھ، درد میں شریک ہیں۔ اعمال و افعال کی بنیادپر سزا تو یوم الحساب میں ملے گی مگر یہ انسانی کائنات میدان حشر تونہیں ہے۔ یہاں تو خدانے بندوں کو صرف درد دل کے واسطے بھیجا تھا مگر آج کے عہد کا انسان طاعت کے پیمانے پرانسانی وجود کو ناپ رہاہے۔
افتخار نسیم کی دردمندی کا احساس ان کی کہانیوں میں نمایاں ہے۔ وہ بنی نوع آدم کو اعضائے یک دیگر ندجان کر ان کے دردوکرب کواظہار کے پیکرمیں ڈھالتے رہتے ہیں۔ ان کی خوبی یہ بھی ہے کہ سفید چاک سے سیاہ تختے پرمعاشرہ کا اعمال نامہ لکھ رہے ہیں تاکہ میدان حشر میں معاشرے کوگنہ گاروں کی صف میں کھڑا کیاجاسکے۔ افتخار نسیم کا بس یہی ایک گناہ ہے مگر وہ معاشرے سے خوف زدہ نہیں بلکہ خودمعاشرہ ہی افتخار نسیم سے خوف زدہ ہے۔
افتخار نسیم نے بہت سی بولڈ کہانیاں لکھی ہیں اور اپنی جرأت مندی کا ثبوت دیاہے۔ اگروہ مغرب کے بجائے مشرقی معاشرہ میں ہوتے تو شایدسنگ ہوجاتے یا ان کے لیے ایسی کہانیاں لکھناممکن نہ ہوتا ’اپنی اپنی زندگی‘ جیسی کہانی لکھنے کے لیے انھیں تحریک مغرب سے ملی ہوگی اورتحرک بھی۔
مغرب میں مقیم اردو کے مہاجر تخلیق کار، فنی، فکری، ہیئتی اور اظہاری سطح پر نئے نئے تجربے کررہے ہیں اور اردو کے تخلیقی ادب کو مالامال کررہے ہیں۔ان کی تخلیقات میں مغربی آہنگ واحساس بھی ہے اورمشرق کی میلوڈی بھی۔اس طرح اردو کے قاری احساس و اظہار کی دو متضاد لہروں سے بیک وقت روبرو ہوتے ہیں۔اسی لیے میں ان تخلیق کاروں کو سلام کرتاہوں کہ ان کی وجہ سے مغرب و مشرق کے تہذیبی تصادم کی نئی تفسیر اور تعبیر سامنے آتی ہے اور دونوں کے مابین جومکالمہ ہے، وہ عرفان وآگہی کے منظرنامہ کومنورکرتاہے۔
مغرب میں ایسے تخلیق کاروں کی ایک بڑی تعداد ہے جو مشرق ومغرب کے مابین خلیج کوپاٹنے میںاہم کردار ادا کررہی ہے اوریوں بھی جب مشرق و مغرب کی منزل ایک ہوتو پھر سمتوں کے اختلاف کو اور وسیع کرنے کی ضرورت ہی کیاہے۔ یہ تخلیق کاراس لیے بھی قابل احترام ہیں کہ یہ لسانی وفکری اجنبیت کو ’مانوسیت‘میں تبدیل کرنے کے عمل میں مصروف ہیں مغرب میں آبادتارکین وطن کے اس تخلیقی زاویے اوراس فکری جہت سے آشنائی کاسہرا مخزن برطانیہ کے سر ہے جو مغرب و مشرق کے مابین ایک تہذیبی وثقافتی رابطے کی راہ مسلسل ہموار کررہاہے۔
شاعری
تاریکی کی دھول ہٹے اور تو آئے
دیواروں پر دھوپ پڑے اور تو آئے
خاموشی کےلحن میں آنکھیں بات کریں
ان دیکھی تصویر بنے اور تو آئے
چھم چھم بارش برسے ترسے کھیتوں پر
سوندھی سی خوشبو آئے اور تو آئے
تو آئے اور آنگن آنگن روشنی هو
روشنیوں کی نہر بہے اورتو آئے
خوشحالی کے گیت سنائیں ناچیں، گائیں
شادابی کا شہد گھلے اور تو آئے
روز امید کا دیا جلاؤں ،سو جاؤں
صبح سویرے آنکھ کھلے اور تو آئے
لفظوں کی مزدوری کرتے دن گزرے
شام ڈھلے،پھر دیا جلے، اور تو آئے
صالحہ صدیقی
Email- [email protected]
19صدی کے ہجوم شعرا میں اپنی الگ شناخت بنانے والے ”سیماب اکبرآبادی“ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ان کی تصانیف کی اشاعت نے خود ہی یہ فریضہ انجام دیا ہے۔ان کی تصانیف نہ صرف عصری شاعری کی عکاس ہے بلکہ قاری کے ذہن کے دریچوں کو بھی کھولتی ہے۔ سیماب اکبر آبادی کی شاعری کا جائزہ ”بحیثیت انقلابی شاعر“کے لینے سے قبل ان کی سوانح پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔کیونکہ کسی بھی مصنف یا تخلیق کا ر کو عام انسان سے تخلیق کار بننے میں اس کی ذاتی زندگی،عہد و ماحول،اس کے معاشرے کے حالات و واقعات کے اثرات اہم رول ادا کرتے ہے۔
سیماب اکبرآبادی کا پورا نام سید عاشق حسین تھا،جب کہ ”سیماب“ تخلص اختیا ر کرتے تھے۔وہ 1880میں اکبرآباد (آگرہ) محلہ نائی منڈی ککو گلی املی والے مکان میں پیدا ہوئے۔اپنی ولادت کے تعلق سے اپنے ہجری سنہ ولادت کی نشاندہی اپنے ایک شعر ”کا ر امروز“ ص 253میں یوں کی ہے ؎
ستا سی سال بعد میرؔ ہے تخلیق غالب کی
یہی وقفہ ہے میری او ر غالب کی ولادت میں
سیماب کے والد مولوی محمد حسین صدیقی اجمیر شریف میں ”ٹائمز آف انڈیا“ پریس کی شاخ کے انچارج تھے۔سیماب نے ابتدا میں مولانا جمال الدین سرحدی‘ مولانارشید احمد گنگوہی،مولانا قمرالدین اور مولانا عبد الغفور جیسے قابل فارسی و عربی ادب کے اساتذہ سے دینی علوم اور منطق کی تکمیل کی۔انگریزی تعلیم کے لیے برانچ اسکول میں داخلہ لیا،پھر کالج بھی گئے لیکن والد کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔شعر و شاعری کا ذوق انھیں ابتدا ہی سے تھا، اس لیے ذوق کے حلقہ ئتلامذہ میں شامل ہوگئے۔ان کا کلام صوفی،نظام المشائخ، سالک،ہمدرد،اور صبح بنارس میں شائع ہوتا رہا۔غزل،نظم،اور منظوم ترجمے میں سیماب کو کمال حاصل تھا۔
انگریزی سے شناسائی کے سبب وہ شعرو ادب کے جدید حجانات سے بھی کسی نہ کسی حد تک آگہی رکھتے تھے۔ لہٰذا سیماب کی شاعری کا رخ بدل گیا۔ابتدائی شاعری دیگر شعراکی طرح عشق و عاشقی پر ہے لیکن آگے چل کر ان کی شاعری کا رخ بدل گیا۔وہ شعر کی مقصدیت پر زو ر دینے لگے۔انھوں نے اپنی آخری سانس تک شعر و ادب کی خدمت انجام دی۔ان کی وفات 1951 میں کراچی میں ہوئی۔اگر ہم سیماب اکبر آبادی کی شاعری میں انقلاب کی بات کریں تو ان کی شاعری میں جو انقلابی رنگ آیا اس سلسلے میں وہ خود رقم طراز ہیں کہ:
”اوائل مشق سخن تک مجھے قدیم تغزل سے دلچسپی تھی لیکن زمانے کے ساتھ علم و معلومات کا دائرہ جس قدر وسیع ہوتا گیا رنگ قدیم سے لگاو ئ کم ہوتا گیا۔اب شاعری میں بلند خیالات او ر بلند انسانی جذبات کی ترجمانی کا حامی ہوں۔میں شاعری میں فلسفہ اور حقائق و معارف کے نکات پسند کرتا ہوں۔میں اس شاعری کا منکر ہوں جس کا موضوع صرف عورت اور اس کے متعلقات ہوں،جو مرد پرستی کی نفسیات پر مشتمل ہوں………….میں نظم کو غزل پر ترجیح دیتا ہوں۔“
سیماب اکبر آبادی اردو شاعری میں اصلاح کے خواہش مند تھے۔ انھوں نے اپنے خیالات کی اشاعت کے لیے کئی با ر انجمن بھی بنائی،قصر ادب کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد نو آموز شعرا کے کلام کی اصلاح اور ان کی تربیت تھا۔ان کے شاگردوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔مختلف مقامات پر مشاعروں کا اہتمام بھی کیاجاتا تھا۔ان کی رائے تھی کہ جہاں مشاعرہ ہو وہاں صدارت کے لیے عالم کو مدعو کیا جائے،جو شاعری کے مسائل پراظہار خیال کرے اور اس کی اصلاح و ترقی کے لیے تجویزیں پیش کرے خود انھوں نے بہت سے مشاعروں کی صدارت کی اوران میں خطبات پیش کیے جو منظر عام پر بھی آچکے ہیں۔ان میں وقت کے جدید تقاضوں کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے،او ر بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ بدلنے کی رائے دی گئی ہیں۔انھوں نے کئی شعری مجموعے اپنی یادگار چھو ڑے جن میں کلیم عجم،سدرۃ المنتہی،اور لوح محفوظ ان کی غزلیہ شاعر ی کے مجموعے ہیں۔ان کی نظمیہ شاعری میں شامل ہیں ریاض الاظہر،عزیز الخطب،جامع الخطب،ارشاد احمد،فریاد، جنت کے خطوط وغیرہ۔ آپ نے بچوں کے لیے بھی نظمیں لکھیں۔آپ کی نظموں کا پہلا مجموعہ کا ر امروز1934، دوسرا مجموعہ ساز و آہنگ 1941،تیسرا مجموعہ شعر انقلاب 1947 میں منظر عام پر آیا۔سیماب اکبر آبادی نے بہت سی نظمیں کہیں،ان میں سیاست،وطنیت،معاشرتی حالات اور معاملات سبھی کچھ شامل ہیں۔جس کے سبب ان کے یہاں موضوعات کی وسعت دکھائی دیتی ہے۔سیماب اکبر آبادی نے اقبال اور دیگر شاعروں کی طرح مذہبی رہنماؤں کو بھی اپنی نظموں کا موضوع بنایا اس سلسلے میں ان کی نظم ”گوتم بدھ“ اور ”سری کرشن“ انتہائی اہم ہیں،اشعار ملاحظہ فرمائیں:
نظم ”گوتم بدھ“
حسن جب افسردہ پھولوں کی طرح پامال تھا
جب محبت کا غلط دنیا میں استعمال تھا
بے خودی کے نام پر جب دور جام بادہ تھا
جب تجلی حقیقت سے ہر اک دل سادہ تھا
زیست کا اور موت کا ادراک دنیا کو نہ تھا
ظلم کا احساس جب بے باک دنیا کو نہ تھا
بند آنکھیں کر کے اس دنیا کے مکروہات
تونے حاصل کی ضیائے دل،تجلیات سے
برف زاروں کو ترے انفاس نے کرما دیا
تیرے استغنا نے تخت سلطنت ٹھکرادیا
یاد تیری آج بھی ہندستاں میں تازہ ہے
چین،جاپان ااور تبت تک ترا آوازہ ہے
روشنی جس کی نہ ہوگی ماند وہ مشعل ہے تو
سر زمین ہند کا عرفانیئ اول ہے تو
نظم ”سری کرشن“
ہوا طلوع ستاروں کی دلکشی لے کر
سرور آنکھ میں نظروں میں زندگی لے کر
خودی کے ہوش اڑانے بصد نیاز آیا
نئے پیالوں میں صہبائے بے خودی لے کر
فضائے دہر میں گاتا پھرا وہ پریت کے گیت
نشاط خیز و سکوں ریز بانسری لے کر
جہان قلب سراپا گداز بن ہی گیا
ہر اک ذرہ محبت کا ساز بن ہی گیا
ہر ایک ذرے کو دل دے کے بے قرار کیا
جو مشرب اس کا نہ اس طرح عام ہو جاتا
جہاں سے محو محبت کا نام ہو جاتا
سیماب اکبر آبادی نے بچوں کے لئے بھی ان کی نفسیات کو ذہن میں رکھ کر نظمیں لکھیں،جنھیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ معصوم بچوں کی معصوم ذہنیت کو کتنی اچھی طرح سمجھتے تھے،سیدھے سادے آسان لفظوں میں پانی کی طرح بہتی بچوں کی نظم ”برسات“ کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
نظم ”برسات“
برکھا آئی،بادل آئے
اوڑھے کالے کمبل آئے
ٹھنڈی ٹھنڈی آئیں ہوائیں
کالی کالی چھائیں گھٹائیں
گرمی نے ڈیرا اٹھوایا
دھوپ پہ سایہ غالب آیا
بادل سے امرت جل برسا
امرت جل کیسا کومل برسا
ہوگئی زندہ مردہ کھیتی
سیماب اکبر آبادی غزلوں کی دنیا کے بادشاہ نظر آتے ہیں۔جہاں ان کی وسعت نظر اور وسعت فہم کا قائل ہو نا پڑتاہے۔سیدھے سادے انداز میں لکھی معنی خیز غزلیں ذہن کو جھنجوڑتی ہیں۔ان کی غزلیں ان کی شخصیت کا آئینہ ہے، جس میں ان کے خیالات،احساسات،تجربات،مشاہدات اور زمانی و مکانی تبدیلیوں و تقاضوں کو بھی بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ نمونہئ کلام ملاحظہ فر مائیں:
محبت میں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے انساں پر
ستاروں کی چمک سے چوٹ لگتی ہے رگ جاں پر
٭
اب کیوں ہمارے سامنے آتے ہو بے حجاب
جب خو گر تجّلی مستور کر دیا
٭
بدل گئیں وہ نگاہیں یہ حادثہ تھا اخیر
پھر اس کے بعد کوئی انقلاب ہو نہ سکا
سیماب کی انفرادیت اس بات میں مضمر ہے کہ وہ اردو غزل کے مروجہ موضوعات یعنی حسن و عشق اور ومانیت سے گریز کر کے بقول ڈاکٹر شہپر رسول ”فلسفہ،حقائق و معرفت اور عشق حقیقی پر اپنی توجہ مرکوز کر تے ہیں۔“(بحوالہ،اردو شاعری میں پیکر تراشی) اشعار ملاحظہ فرمائیں:
انجام ہر اک شئے کا بجز خاک نہیں ہے
کیا ہے جو یہ عالم خس وخاشاک نہیں ہے
آنکھوں سے ہر اک پردہئ موہوم ہٹادے
اتنی نگہ شوق ابھی چالاک نہیں ہے
٭
بدن سے روح رخصت ہورہی ہے
مکمل قید غربت ہو رہی ہے
میں خود ترک تعلق پر ہوں مجبور
کچھ ایسی ہی طبیعت ہو رہی ہے
٭
دل تیرے تغافل سے خبردار نہ ہو جائے
یہ فتنہ کہیں خواب سے بیدار نہ ہو جائے
مدت سے یہی پردہ یہی پردہ دری ہے
ہو کوئی نو پردہ سے نمودار نہ ہو جائے
سیماب اکبر آبادی نے تا عمر شاعری کی خدمت کی او ر اپنے بعد اپنے شاگردوں کی ایک جماعت بھی چھوڑی جو ان کے مقصد حیات کو آگے بڑھاتے رہے۔ وہ شاعری کو لطف اندوزی یا وقت گزاری کا سامان نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس میں زندگی کا مقصد بھی تلاش کرتے تھے۔بلا شبہ وہ ایک ممتاز شاعر تھے جن کو آج تک پڑھنے اور ان کی شاعری کو سمجھنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
نایاب حسن
حیران آنکھوں،شبنمی رخساروں،کشادہ پیشانی اوراداس مسکراہٹ والی ایک لڑکی نے محض25سال کی عمرمیں اردوشاعری کی دنیامیں اِس شکوہ کے ساتھ قدم رکھاکہ معاصراہلِ ادب و شعرکی نگاہیں خیرہ ہوگئیں۔اردوادب میں شعراکی فہرست توطویل ترہے،مگرشاعرات اور وہ بھی ایسی شاعرات،جن کے لب و لہجے نے،اندازواسلوب نے،مضامینِ شعرنے،خیالات کی ندرت و جودت و جدت نے اورالبیلے طرزِاظہاروادانے ایک دنیاکومسحورکردیاہو،کم ازکم اردوادب وشاعری میں نایاب نہیں توکم یاب ضرورہیں۔پروین شاکر(24نومبر1952-26دسمبر1994)نے اردوشاعری کوجولہجہ دیا،وہ سب سے اچھوتا،انوکھااوردل چسپ تھا،انھوں نے صنفِ نازک کے مسائل، مشکلات، خانگی الجھنوں،انفرادی مشکلوں،معاشرتی جکڑبندیوں،حسن و عشق کی خاردارراہوں کی آبلہ پائیوں کاذکراپنی شاعری میں بڑے منفرداندازمیں کیا۔پروین شاکربلاکی ذہین ہونے کے ساتھ اعلیٰ علمی لیاقتوں سے بھی آراستہ تھیں،انگریزی زبان و ادب میں جامعہ کراچی ،ہارورڈیونیورسٹی اورٹرینیٹی کالج (امریکہ) سے انھوں نے اعلیٰ علمی ڈگریاں حاصل کی تھیں،شعوروآگہی ان کا نمایاں ترین وصف تھا،وہ آگہی،جس نے ان پر شہرِذات کے دروازے کھولے اورجس کے بعدان کی خلاقانہ قوت و صلاحیت نے اردوشاعری کومالامال کردیا۔پروین شاکرنے پہلی بارصنفِ نازک کے متذکرہ بالامسائل کوآشکارکرنے کے لیے ’ضمیرِمتکلم‘کااستعمال کیا،جن مسائل کا انھوں نے اپنی شاعری میں ذکرکیاہے،ہوسکتاہے،وہ سارے مسائل خودانھیں درپیش نہ ہوئے ہوں،مگران کی شاعری کوپڑھنے ،مطالعہ کرنے اور سمجھنے سے یہ اندازہ بخوبی طورپرلگایاجاسکتاہے کہ اجتماعی طورپرصنفِ نازک کاہرزمانے میں اُن مسائل سے سامنا رہا ہے، جن کا ذکرمختلف پیرایوں میں پروین شاکرنے اپنی شاعری میں کیاہے؛شاید یہی وجہ ہے کہ جوں ہی اردوشاعری میں اُن کا ظہورہوا،انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، ان کے کلام کا پہلا مجموعہ ”خوشبو“ 1976ءمیں منظرِعام پرآیااور صرف چھ ماہ کے اندراس کا پہلاایڈیشن ختم ہوگیا۔پھریکے بعد دیگرے ”صدبرگ“ (1980) ”خودکلامی“ (1980) ”انکار“ (1990) ان کی زندگی میں شائع ہوئے اور سب کوبے پناہ مقبولیت،پذیرائی اور تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا،ان کا پانچواں شعری مجموعہ ان کی جواں مرگی کے سانحے کے دوسرے سال”کفِ آئینہ “ کے نام سے ان کی بڑی بہن نسرین شاکرکی نگرانی میں زیورِطبع سے آراستہ ہوا،اپنی وفات سے قبل وہ اسے ترتیب دے رہی تھیں اور”کفِ آئینہ“خودانہی کا تجویزکردہ نام ہے۔پروین شاکرکی شاعرانہ عظمت و بلندقامتی کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ انھیں پہلی ہی کتاب ”خوشبو“پر”آدم جی ایوارڈ“سے سرفرازکیاگیا،جبکہ 1990ءمیں پاکستان کا اعلیٰ شہری اعزاز’تمغئہ حسنِ کارکردگی ‘بھی انھیں تفویض کیاگیا،1982ءمیں جب وہ سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھیں،تواردوکے پرچے میں ایک سوال خودان کی شاعری کے تعلق سے تھا،ان کی زندگی میں ہی ان کی شاعری کے انگلش،جاپانی و سنسکرت زبانوں میں ترجمے شروع ہوچکے تھے۔ پروین شاکرکومتعددناقدین نے بیسویں صدی کی مشہورایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد(5جنوری 1935ء-13فروری 1967ء)سے تشبیہ دی ہے اورواقعتاً دونوں کی خانگی و معاشرتی زندگی سے لے کرشاعری کی تھیم اور جواں مرگی تک میں عجیب و غریب مماثلت پائی جاتی ہے،پروین شاکرکوفروغ سے ذہنی وابستگی بھی تھی،انھوں نے فروغ کے لیے ایک نظم بھی لکھی تھی،جوان کے شعری مجموعہ ”خودکلامی“ میں شامل ہے:
مصاحبِ شاہ سے کہوکہ
فقیہِ اعظم بھی تصدیق کرگئے ہیں
کہ فصل پھرسے گناہ گاروں کی پک گئی ہے
حضورکی جنبشِ نظرکے
تمام جلادمنتظرہیں
کہ کون سی حد جناب جاری کریں……..
پروین شاکرکی ممتازشاعرانہ خصوصیت جذبے کی صداقت ہے،وہ اپنے خیال و فکرکوپوری وضاحت ،دیانت اور شفافیت کے ساتھ بیان کرتی ہیں ، چاہے معاملاتِ عشق ہوں یاکاروبارِ معاشرت و سیاست،کسی بھی پہلوپرجب وہ گویاہوتی ہیں،توکسی قسم کا ابہام،اِغلاق اوراُلجھاؤنہیں چھوڑتیں، لطافت، شوخی،خیال کا جمال اوراحساس کی نازُکی بھی نسوانیت کے تمام ترحسن و دل کشی کے ساتھ پروین شاکرکے یہاں جلوہ گرہیں، بارش، شبنم،نور، روشنی، رنگ، دھوپ، جنگل، آندھی، ہوا، گلاب ،تتلی،سانپ وغیرہ مظاہرِ فطرت وہ استعارے ہیں،جوپروین کی شاعری کوکردارفراہم کرتے اورجن میں تفکروتدبرسے ان کی شاعری کا تانا بانا تیار ہوتا ہے،خواب اور نیندبھی پروین کی شاعری میں استعمال ہونے والے اہم استعارے ہیں۔ تشبیہ،استعارہ و کنایہ شاعری اور خاص طورسے غزلیہ شاعری کی جان ہوتی ہے اور یہ وصف پروین شاکرکی شاعری میں کمال کی حد تک پایاجاتاہے،ذیل کے کچھ اشعارسے پروین شاکرکی مذکورہ شعری خصوصیات کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے:
تری ہنسی میں نئے موسموںکی خوشبوتھی
نویدہوکہ بدن سے پرانے خواب اترے
سپردگی کا مجسم سوال بن کے کھلوں
مثالِ قطرئہ شبنم تراجواب اترے
چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو
ہواکے ساتھ سفرکا مقابلہ ٹھہرا
جانے کب تک تری تصویر نگاہوں میں رہی
ہوگئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے
میں نے پھرتیرے تصورکے کسی لمحے میں
تیری تصویرپہ لب رکھ دیے آہستہ سے
چہرہ میراتھا،نگاہیں اس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اس کی
شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں
تیزہوتی ہوئی سانسیں اس کی
ایسے موسم بھی گزارے ہم نے
صبحیں جب اپنی تھیں،شامیں اس کی
دوررہ کر بھی سدارہتی ہیں
مجھ کوتھامے ہوئے بانہیں اس کی
کھلی آنکھوں میں سپناجاگتاہے
وہ سویاہے کہ کچھ کچھ جاگتاہے
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مراتن موربن کر ناچتاہے
میں اس کی دست رس میں ہوں مگروہ
مجھے میری رضاسے مانگتاہے
تجھ کو کھوکربھی رہوں خلوتِ جاں میں تیری
جیت پائی ہے محبت نے عجب مات کے ساتھ
پروین شاکرنے محبوب کی بے رخی،بے توجہی، عدمِ التفات یا بے وفائی کوبھی اپنی شاعری میں جگہ جگہ بیان کیاہے،مگر یہاں بھی وہ طرزِادامیں دیگرشعراسے ممتازہیں،اس کیفیت کوبیان کرتے ہوئے ان کا لہجہ شاکیانہ توہے ہی،مگرملتجیانہ اورپرامید بھی ہے،وہ محبوب کی بے رخی سے دل گیر ہوتی ہیں، مگردرپردہ اس کا اظہار بھی کرتی ہیں کہ وہ کسی نہ کسی صورت ان کی طرف متوجہ ہو:
اب تواس راہ سے وہ شخص گزرتابھی نہیں
اب کس امیدپہ دروازے سے جھانکے کوئی
اسی کوچے میں کئی اس کے شناسابھی توہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
اب نہ پوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ
وہ اگر آئے،توکچھ بھی نہ بتانے آئے
کوئی توہو،جومرے تن کوروشنی بھیجے
کسی کا پیارہوامیرے نام لائی ہو
اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے
کون ہوگاجومجھے اس کی طرح یاد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روزاِک موت نئے طرز کی ایجادکرے
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجرکافیصلہ بھی تھا
ہم نے توایک بات کی،اس نے کمال کردیا!
ہمیں خبرہے ہواکامزاج رکھتے ہو
مگریہ کیاکہ ذرادیرکورکے بھی نہیں!
توبدلتاہے توبے ساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں اُلجھ جاتی ہیں
پروین شاکرکی شاعری میں رومانوی خیالات کی بھی فراوانی ہے،جوخاص طورسے نوجوان نسل کے لیے باعثِ کشش ہے۔حسن و عشق کے لمحئہ وصال کی تعبیروترجمانی میں انھوں نے کمالِ ہنرمندی کا مظاہرہ کیاہے اورسرشاری،وابستگی و سپردگی کی کیفیات کوبڑے لطیف و حسین پیرایے میں بیان کیاہے،خاص طورسے”خوشبو“کی غزلوں کا زیادہ تر حصہ اسی قسم کے خیالات کا اظہارہے،ایک غزل:
سبزمدھم روشنی میں سرخ آنچل کی دھنک
سردکمرے میں مچلتی گرم سانسوں کی مہک
بازووں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن
سلوٹیں ملبوس پر،آنچل بھی کچھ ڈھلکاہوا
گرمیِ رخسار سے دہکی ہوئی ٹھنڈی ہوا
نرم زلفوں سے ملائم انگلیوں کی چھیڑ چھاڑ
سرخ ہونٹوں پرشرارت کے کسی لمحے کا عکس
ریشمیں بانہوں میں چوڑی کی کبھی مدھم دھنک
شرمگیں لہجوں میں دھیرے سے کبھی چاہت کی بات
دودلوں کی دھڑکنوں میں گونجتی تھی اِک صدا
کانپتے ہونٹوں پہ تھی اللہ سے صرف اِک دعا
کاش یہ لمحے ٹھہرجائیں،ٹھہرجائیں ذرا!
معاملاتِ حسن وعشق کے علاوہ معاشرت و سیاست میں پائی جانے والی ناانصافی و نابرابری،استحصالی سسٹم،چہارسمت بکھرے ہوئے خوف، زیردستوں کے تئیں زبردستوں کے آمرانہ و ظالمانہ رویے کے خلاف کھلااحتجاج بھی پروین شاکرکی شاعری میں متعددمقامات پردیکھنے کوملتاہے:
میراسرحاضرہے،لیکن میرامنصف دیکھ لے
کررہاہے میری فردِ جرم کو تحریرکون
میری چادرتوچھنی تھی شام کی تنہائی میں
بے ردائی کومری پھر دے گیاتشہیر کون
وہ خوف ہے کہ سرِ شام گھرسے چلتے وقت
گلی کا دورتلک جائزہ ضروری ہے
لہوجمنے سے پہلے خوں بہادے
یہاں انصاف سے قاتل بڑاہے
کسی بستی میں ہوگی سچ کی حرمت
ہمارے شہرمیں باطل بڑاہے
انھوں نے معاشرے کے دبے کچلے،مزدوروکامگارطبقے کے مختلف کرداروں پربھی شاعری کی ہے اوران لوگوں کی طرف حمایت کا ہاتھ بڑھایاہے،جن کی شب و روزکی جفاکشی سے دوسرے لوگ توخوب فیضیاب ہوتے ہیں،مگروہ بے چارے ساری زندگی تہی مایہ و بے سروساماں ہی رہتے ہیں۔”انکار“کی نثری نظموں کابیشترحصہ ایسے ہی کرداروں کومنسوب ہے۔
پروین شاکرکاایک اوراہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک مخصوص شعری صنف”نثری نظم“کونئی بلندیوں اور مقبولیت کی نئی منزلوں تک پہنچایا،ان کے دورمیں اور ان سے پہلے بھی کئی بڑے شاعروں نے اس صنف کواختیار کیاتھا،مگرپروین شاکرکی بدولت اس صنفِ شاعری کا جغرافیہ مزیدوسیع و عریض ہوگیا۔
پروین شاکرکی دلکش و سحرطراز شاعری نے اردوکے لفظیاتی ذخیرے اورتعبیراتی و اسلوبی نظام کوبھی نئی اورخوش رنگ شکلوں سے آشناکیا،انھوں نے اپنے خیال کوالفاظ و اظہار کا جامہ پہنانے کے لیے لفظوں کی ایسی تراکیبِ نوترتیب دیں،جس سے اردوادب کوایک سے بڑھ کر ایک خوب صورت پیرایہ ہاے اظہارملے،انھوں نے اپنی پوری شاعری میں جونئی اورانوکھی تعبیریں استعمال کیں،ان کی صحیح تعدادکئی سو ہوسکتی ہے۔مگراپنی رسائی کے بقدرراقم ان کی شاعری کامطالعہ کرکے جنھیں اکٹھاکرسکاہے،وہ یہ ہیں:شیشہ رُو،بنفشی ہاتھ،دریچۂ گل،موجۂ گل،سایۂ گل،پابہ گِل،چشمِ گل،قامتِ شعر، سروبدن،قریۂ جاں،خانہ بجاں،شجرِ جاں،حجلۂ جاں،نقدِ جاں،جاں گزارنا،رخشِ جاں،پیشِ جاں،عرصۂ جاں،آتشِ جاں،کلبۂ جاں،طائرِ جاں،شیشۂ جاں،خیمۂ جاں، تہہ خانۂ جاں،عکسِ خوشبو،حرفِ سادہ،موجِ ہوا،ذہین نگاہ،دستِ صبا،پہاڑ دن،اُجاڑ رات،زبانِ رنگ،لمسِ مرگ،گلابی دھوپ،سانپ راتیں، اُلوہی لمحے،قباے خاک،دل زدہ،پھول بدن،شہرِ ناسپاس،اُجلی خواہش،سحاب لہجہ،خزاں زاد،نایافت شہریت،خواب آسا سکوت،بے چہرہ وجود،قرطاسِ بدن، ہوابردہوجانا،شبنم بدست،شب گزیدہ،خوش بدن،درِکم باز،زَردائی ہوئی رُت،شہرِ سخن فروشگاں،مادرزاد منافق،شہرِ صدآئینہ،شبنم رنگ پیشانی،گلابی لذت،لمسِ گریزاں،نرم فامی،لالہ فامی،سبک نام،چھاؤں اُگانا،موسمِ بے اختیاری،چہرہ اُگانا،دست بستہ شہر،بے فیض بدن،بھوکی آنکھ،جلتا فقرہ،شب زاد،موجۂ خواب،سہم ناکی،عنکبوتی ہنر،کوفۂ عشق،سورج خور،شاخِ گریہ،خوابِ یکتائی،لمحۂ جمال،حرفِ اندمال،ناخنِ وصال،گونگے سناٹے،خوش چشم،دلِ شب زاد،تہی زاد،جمشید کُلاہی،خنجرِ گل فام،شہرِ رسن بستہ، کلاہِ زخم زدہ،سفاک لمحے،نشاطِ حسن بازی،کنارۂ روح، شہادت گہہِ وفا،حرفِ سبز،صاعقہ مزاج، بدن گیرغراہٹ،ستارہ ساز ہاتھ،زمزمہ آثار،ہوانژاد،کفِ گلاب،آئینہ نژاد،فصیلِ شوق،آئینے کی آنکھ،دیدۂ بے خواب،اصل شناس،افراطِ خواہش،تفریطِ وقت،درہمِ خودداری،دینارِ عزتِ نفس،منسوخ شدہ قدریں،آدابِ مسافرداری،صلیبِ خوں آشام،صیغۂ عقد، ہوامزاج،ستارہ سوار،قیمتِ شگفت،نیم بیدار منظر،بیضوی موڑ،شاخِ بدن، خوش لمس ہوا،زندگی کمانا،تیرِ شناسائی،سنسان زندگی،ہجومِ ہم خوابگاں،بنجر ذہنوں میں پھول اگانا،ناخنِ ملال،تہہ خانۂ غم،دیوارِ خواہش،بدن کے موسم، ذہن افگن مسئلہ،فصیلِ جسم،آوارگانِ شب،طائرِ امید،آسماں جناب،سوچ سے خوشبوبنانا،یرقانی سوچ،گرگ زاد غم خواری،دل کی آبروریزی،ہمہ تن چشم،بساطِ زیست،زمیں زاد،نشتر بدست شہر،فرشِ فلک،عہدِ مہرباں،دہلیزِ سماعت،فضاے حرف و صوت،توازن گر طبیعت،خانۂ آئینہ ساماں،گلابی خوشبو، حدِّبصارت، جنتِ خاشاک نہاد،عظمتِ یک لحظہ،وقت کی ہم گامی،نصابِ تملُّق،کوے جفا،عذابِ دربدی، سفیدپوشیِ دیوارودر،خرقۂ غم،پوششِ رسوائی،چادرِ دل داری، حصارِ دعا،جگنوسی زمیں،کفِ آسماں،قباے شجر،دیارِ عزال چشماں،شب پیمائی،موسمِ بے چہرگی،آئینہ بردوش،عکسِ بے منظر،پرندِ خوش خبر،مداراتِ الم،سبزۂ بیگانہ،ریشمیں فرصت،شعلہ رُو،فرش خوابی،ہواے شہرِ ستم،قباے سخن،مجاورینِ ادب، طائرِ خوں بستہ،بوسیدہ بیوی،جہنمی درجۂ حرارت، محبت کی کلینکل موت،نوخیز خوشبو،منصبِ دلبری، نرم روشنی،وعدہ گہہِ ہستی،صبح چہر،آوازکاچہرہ چھونا، جنوں خیز خوشبو، موسمِ عنبرفشاں۔
پروین شاکرکاآبائی وطن ہندوستان کے گیاضلع سے تھا،1947ءمیں ان کے والد کراچی ہجرت کرگئے تھے اورپروین شاکرکی پیدایش ونشوونماوہیں ہوئی،مگراس کے باوجودانھیں ہندوستانیت سے گہری وابستگی تھی اوراسی نسبت سے یہاں کی ہندی زبان اور ہندوتہذیب سے بھی وہ آگاہ تھیں، انھوں نے اپنی شاعری میں بعض خالص ہندی الفاظ کوجس چابک دستی و ہنرمندی سے برتااور استعمال کیاہے،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ ہندی زبان و ادب پر بھی دستگاہ رکھتی تھیں،ان کے یہاں دیوتا، مدُھر، سنگیت، سمے، سنسار،پریم،روپ،من موہن، سَکھی، سُر، اَنگ، رُت، سنگم، دیس، بَن، جنم، سندیس، ساگر، آدرش، گمبھیر، راج کماری،بھور، سنگ، ساجن، گوری، مُکھ، نین، مُسکانا،سہاگن،سندرتا، جَگ، پرویَّا، پجاری، سادھو، منتر،بن باس لینا، ریکھا، وِیر، مہکار، سیندور، کجرا، ہِردے،چتا،داسی،درشن،امرِت،شریر،کومل سر، پوتر، چرن، بھوَن، بھیتر ، سنجوگ، پتی، آکاش، چندرما، آتما، چھایا، راجا،بدھائی،جل،بِنتی،سینتنا،سانجھ سویرے،سمبندھ،سمان،راج رتھ،آرتی اتارنا، آڑھت، آشا، پُرش، بھاگ، اپمان، بلیدان، سمپورن، شبد، ادھیکار، دان کرناجیسے الفاظ جگہ جگہ استعمال ہوئے ہیں۔اسی طرح انھوں نے کئی غزلوں میں ہندووں کی مذہبی علامتوں مثلاً دیوالی،مندر،گنگا،کرشن،گھنشیام جیسے کرداروں کوبھی مضامینِ غزل کے طورپراستعمال کیاہے۔
الغرض پروین شاکراردوکی ایک مکمل،ہمہ جہت اورکامیاب ترین شاعرہ ہیں،جن کی شاعری دلوں کے تارچھیڑتی اوراحساساتِ دروں کی سچی ترجمانی کرتی ہے،یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کوایک عرصہ گزرگیا،مگرہنوزان کانام دنیاے ادب و شعرمیں روشن و تاب ناک ہے اور آیندہ بھی رہے گا(ان شاءاللہ)، خودپروین کوبھی اس کا ادراک ہوگا،سوانھوں نے پہلے ہی کہہ دیاتھاکہ:
مربھی جاؤں توکہاں لوگ بھلاہی دیں گے
لفظ میرے،مرے ہونے کی گواہی دیں گے
ڈاکٹر ارشد صاحب قاسمی نے آج پاسبان کی عظیم شخصیت بے مثال شاعر فضیل احمد ناصری کے تازہ ترین سلسلہ کے 100 ویں قسط پوری ہونے پر دلچسپ اور معلوماتی انٹر ویو لیا ان کے ساتھ *ترجمان پاسبان مولانا خالد صاحب اعظمی*بھی شریک رہے
تو لیجیے پیش ہے مکمل انٹرویو
(مرتب: اظفر اعظمی )
محترم ممبران ۔۔۔
جیساکہ آپ حضرات واقف ہیں آج ہمارے گروپ کے انٹرویو سیشن میں ایک عظیم شخصیت مولانا فضیل احمد ناصری مہمان ہیں۔ مولانا ناصری آسمانِ علم و ادب کے درخشندہ ستارہ ہیں انکے علمی و تحقیقاتی مضامین ملکی سطح کے میگزین و اخبار میں شایع ہوکر قبولِ عام کی سند سے سرفراز کئے جاچکے ہیں کئ نیشنل لیول کے اخبارات کے وہ مستقل کالم نگار رہے ہیں ۔ شوشل میڈیا پر انکی تحریریں بے حد مقبول ہیں۔ انکا بے ساختہ دلوں کو چھو لینے والا ، بیباک اندازِ تحریر انھیں ملک کے صفِ اول کے قلمکاروں میں نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔انکی تحریریں اتنی مربوط ، تعبیرات پر گرفت اتنی زبردست ، الفاظ کا استعمال اس قدر برمحل ، اور جملے اس قدر سلاست سے آراستہ ہوتے ہیں کہ انکے طویل مضامین میں بھی اکتاہٹ کا شایبہ نہیں ہوتا۔ بلکہ آتشِ شوق اور تیز ہوجاتی ہے۔
فضیل احمد ناصری وقت کے حفیظ جالندھری ہیں جنکا قلم شاہنامہ کے طرز پر رواں دواں ہے انکے الفاظ قدیم شعراء کے دیوان میں تلاش کرنے کے بجائے مجدد زبان کا خطاب دیجئے ویسے بھی زبان ہمیشہ ارتقائ مرحلہ میں ہوتی ہے زبان میں تقلید وہی لوگ کرتے ہیں جنکا دامن ِ تخیل و لغت تنگ ہو۔ اور یہاں تو الفاظ دست بستہ رشک و حسرت سے پہلے مَیں کی صداء لگاتے ہیں۔
مولانا ناصری ایک علمی و روحانی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ وہ زبردست قادرالکلام شاعر ہیں انکے سلسلہ وار منظوم کلام کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالات پر انکی کتنی گہری نظر ہے نیز وہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے لئے کس قدر متفکر ہیں۔
دوستو۔ آیئے آج اسی عظیم شخصیت کی زندگی کے ان تمام پہلووں کا احاطہ انھیں کی زبان میں سنتے ہیں جنکے جاننے اور سننے کے لئے آپ بے انتہا مشتاق ہیں۔
محترم ناصری صاحب۔
سب سے پہلے میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنے مصروف ترین وقت میں سے کچھ وقت پاسبان کے انٹرویو کے لئے نکالا۔ آپ کی شخصیت کا تعارف یقینا نسلِ نو کے لئے مہمیز کا کام کرے گی۔
*ناصری صاحب*
ڈاکٹر صاحب! یہ آپ اور پاسبان کی کرم فرمائی ہے کہ اس حقیر پر نگاہِ التفات پڑی۔ میں آپ سب کا تہِ دل سے ممنون ہوں۔
*ڈاکٹر صاحب*
محترم ناصری صاحب۔ قبل اس کے کہ میں آپ کا علمی و خاندانی پس منظر پوچھوں۔ سب پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نام کا آخری جز جو آپ کی شخصیت کا تعارف بن گیا ہے۔ یعنی ” ناصری ” اسکی وجہِ لاحقہ قاریین کے گوش گزار کریں تاکہ آپ کو مخاطب کرنے میں سہولت ہو۔
*ناصری صاحب*
ڈاکٹر صاحب! میرے سترہویں دادا قطب الاقطاب، مخدوم شاہ "محمد ناصرالدین ناصرؒ” ہیں۔ انہیں کی طرف میرا خاندان منسوب ہو کر ناصری کہلاتا ہے۔
*ڈاکٹر صاحب*
ماشاءاللہ آپ کا نسب نامہ محفوظ ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کا خاندان علمی ہے۔
برائے کرم اپنے خاندانی احوال مختصرا بتاییں۔
اگر اس تعلق سے آپ کی کوئ تحریر ہو تو اسے پوسٹ کردیں تاکہ ہمارے قارییں آپ کی زندگی کی خوبصورت کتاب سے فیضیاب ہوسکیں۔
*ناصری صاحب*
جی! نسب نامہ محفوظ ہے۔ مخدوم شاہ بہار میں سیدوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ مخدوم شاہ محمد ناصر ابن حضرت شہاب الدین قتال بہار کے مشہور بزرگ تھے۔ یہ میرٹھ کے باشندہ تھے۔ وہاں سے منتقل ہو کر حضرت علاء الحق پنڈوی کے زمانے میں بنگال چلے گئے۔ پھر وہاں سے بہار شریف۔ اس کے بعد دربھنگہ کو مستقل مسکن بنایا۔ اب یہ خاندان دربھنگہ میں آباد ہے۔
ان کا سلسلہ نسب کئی واسطوں سے سلطان سید احمد صوفیؒ سے جا ملتا ہے۔ اس خاندان کے لوگ ایشیائے کوچک کے حکمراں رہے ہیں۔
*ڈاکٹرصاحب*
ماشاءاللہ۔
*ناصری صاحب*
سوال وقت طلب تھا۔ اختصار پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
*ڈاکٹرصاحب*
جیسا کہ مجھے معلوم ہوا حاجی امداداللہ صاحب رح سے بھی آپ کے داداکا تعلق تھا ؟
*ناصری صاحب*
جی۔ میرے والد کے پردادا حضرت مولانا شاہ منور علی دربھنگویؒ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے خلیفہ تھے۔ ان کے ساتھ اپنی زندگی کے چھ سال مکہ مکرمہ میں گزارے۔ پھر انہیں کے ایما پر اپنے گاؤں "رسول پور نستہ” میں مدرسہ امدادیہ قائم فرمایا، جو بہار میں علمی نشاۃ ثانیہ میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
*ترجمان صاحب*
ماشاءاللہ۔
بہت صوفیانہ اور حاکمانہ خاندان ھے آپ کا..
اب آپ اپنی ابتدائی تعلیم سے لیکر انتہا تک کے سفر پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالیں۔
*ناصری صاحب*
میری مکتبی تعلیم والد مرحوم مولانا جمیل احمد ناصری کے پاس ہوئی۔ حفظ وہیں شروع کیا۔ باقاعدہ حفظ مدرسہ حسینیہ پروہی مدھوبنی میں ہوا۔ دورہ حفظ مدرسہ دینیہ غازی پور میں ہوا۔ درجہ فارسی تا درجہ عربی چہارم مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ دربھنگہ میں پڑھا۔ 1996 میں دارالعلوم دیوبند پہونچا۔ ششم میں داخلہ لیا۔ تین سال پڑھ کر 1998 میں فراغت پائی۔
*ترجمان صاحب*
ماشاءاللہ انتہائی اختصار کے ساتھ اپنے تعلیمی سفر سے آپ نے ھمیں روشناس کرایا..
تعلیم سے فراغت کے بعد آپ کی کیا خواھش رھی مطلب آپ کیا کرنا چاھتے تھے.؟
*ناصری صاحب*
میرے خاندان میں علما کی کثرت تھی، پھر میرے دادا کے چھوٹے بھائی حضرت مفتی محمود احمد ناصریؒ علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے شاگرد تھے۔ ان کی تدریس خاندان میں معروف تھی۔ میری بھی خواہش تدریس کی ہوئی، جس میں الحمدللہ میں کامیاب رہا۔
*ترجمان صاحب*
تدریسی سفر کا آغاز آپ نے کہاں سے کیا اور فی الحال کہاں ہیں؟؟
*ناصری صاحب*
تدریس کا آغاز دارالعلوم عزیزیہ میراروڈ ممبئی سے کیا، وہاں پانچ برس گزارے، وہاں سے نکلا تو اجامعہ دارالقرآن احمد آباد اور وہاں سے نکلا تو جامعہ فیضان القرآن احمد آباد میں مدرسی کرتا رہا۔ اب 2008 سے جامعہ امام محمد انورشاہ دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دے رہا ہوں۔ ہمارا مدرسہ "معہدِ انور ” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جو اس کا سابق نام ہے۔
*ترجمان صاحب*
ماشاءاللہ..
آپ ایک کامیاب مدرس بہترین ادیب اور قلمکار ھیں جیسا کہ ھمارے اکسپرٹ نے بتایا.
شعر و شاعری کا ذوق آپ کے اندر کہاں سے اور کیسے پیدا ھوا.!
اس کا صنف پر طبع آزمائی کا محرک کیا ہے؟
*ناصری صاحب*
شاعری میرا خاندانی ورثہ ہے۔ میرے چچا پروفیسر متین احمد صبا مرحوم زبردست شاعر تھے۔ صدرجمہوریہ ایوارڈ یافتہ۔ میرے والدین بھی اچھے اشعار گنگنایا کرتے تھے۔ میرے چچا مولانا حسین احمد ناصری مدظلہ بھی بھی اشعار پڑھتے رہتے تھے۔ وہیں سے یہ ذوق مجھے ملا۔
*ڈاکٹر صاحب*
شعر گوئ کی ابتداکب سے ہوئ ؟
*ناصری صاحب*
عربی دوم کے زمانے سے ہی تک بندی شروع کردی تھی۔ باقاعدہ شاعری مفتئ اعظم مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کی وفات پر مرثیے سے کی۔ یہ دارالعلوم میں میرا پہلا سال تھا۔ مفتی صاحب کی مجلسوں سے بارہا باریاب ہو چکا تھا، اسی دردِ جدائی نے مرثیہ لکھوایا۔ 1996
*ڈاکٹرصاحب*
اردوشعراء میں آپ کن کن شعرا سے زیادہ متاثر ہیں
*ناصری صاحب*
غالب، میرتقی میر، بہادر شاہ ظفر، اقبال۔ ماضی قریب کے شعرا میں ڈاکٹر کلیم عاجز مرحوم اور احمد فراز۔ ڈاکٹر کلیم صاحب سے ایک نظم میں اصلاح بھی لی ہے۔
*ڈاکٹر صاحب*
ماشاءاللہ۔ اب شعر گوئ میں آپ کا استاذ کون ہے۔ یعنی آپ کس سے اصلاح لیتے ہیں ؟
*ناصری صاحب*
میں نے شاعری کسی سے نہیں سیکھی۔ البتہ ایک نظم بعنوان "ہو گیا اسلام ہندوستان میں زنار پوش” میں میں نے ڈاکٹر کلیم عاجز مرحوم سے اصلاح لی تھی۔
*ڈاکٹر صاحب*
محترم ناصری صاحب۔
آپ کو شعر کہنے کے لئے کسی خاص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے ؟
*ناصری صاحب*
ماحول خراب ہی چل رہا ہے۔ اسی رونے دھونے نے شاعری سکھادی ہے۔
*ڈاکٹرصاحب*
کوئ ایسا قافیہ۔ جس پر کوششِ بسیار کے بعد بھی آپ شعر نہ کہ سکے ہوں ؟
*ناصری صاحب*
نہیں، ایسا کوئی قافیہ نہیں۔ ہر قافیہ پر کوشش کی اور کامیاب رہا۔
*ڈاکٹر صاحب*
الحمد للہ۔
آپ کی تحریریں بھی انتہائ مقبول ہیں۔ اردو زبان کی کس کتاب نے آپ کو زیادہ متاثر کیا ؟
*ناصری صاحب*
مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا انظرشاہ کشمیری اور مولانا اعجاز احمد اعظمی رحمہم اللہ میرے پسندیدہ قلم کار ہیں۔ انہیں کی تقلید میں خامہ فرسائی شروع کی۔
*ڈاکٹرصاحب*
ناصری صاحب۔
آپ کے بعض مضامین میں تلخی ، طنز ، اور بسا اوقات چھینٹہ کشی کی بو آتی ہے۔ کیا آپ اپنی تحریر کے اس پہلو کو تبدیل نہیں کرنا چاہینگے ؟؟
*ناصری صاحب*
جی! میری تحریریں نہی عن المنکر کے جذبے کے تحت وجود پذیر ہوتی ہیں۔ نہی عن المنکر میں تلخی تو ہے ہی۔
*ڈاکٹرصاحب*
کوئ ایساموقف جس پر آپ مضبوطی سے جمے تھے۔ لیکن جب آپ کی فکر میں استحکام آیا تو وہ موقف تبدیل کرنا پڑا ؟
*ناصری صاحب*
الحمدللہ فراغت کے بعد سے ہی نہی عن المنکر کا جذبہ حاوی رہا۔ ایسی نوبت نہیں آئی کہ ایک موقف آیا اور پھر تبدیل ہو گیا۔
*ڈاکٹرصاحب*
آپ کا ایک مضمون کافی مشہور ہوا تھا جس میں آپ نے ” امبانی العلماء ” کی اصطلاح لکھی تھی۔ یہ اصطلاح ہم نے پہلی بار سنی یہ کہیں سے مستعار لی تھی یا آپ کے ذہن کی اپج تھی ؟؟
*ناصری صاحب*
جی! اس مضمون نے کافی دھماکہ کیا۔ خود امبانی العلما بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اسی مضمون کے بعد مدیر محترم مولانا عبداللہ خالد خیرآبادی کے گروپ "قاسمی احباب” میں میرے لیے "عامر عثمانی ایوارڈ” کا اعلان ہوا۔ یہ میرے ذہن کی پیداوار تھی۔
*ڈاکٹرصاحب*
آپ پر جذبہ نہی عن المنکر کا غلبہ ہے اس فکر کے ساتھ اداروں میں اپنی شناخت بنانا اور ترقیات کا سفر طے کرنا مشکل ہوتا ہے آپ کو کوئ دشواری نہیں ہوئ ؟
*ناصری صاحب*
بڑی دشواریاں آئیں۔ مگر یہ سب چلتا رہتا ہے۔ میرا نظریہ غالب کی زبان میں یہ ہے:
غالب! برا نہ مان! جو واعظ کہے برا
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
*ترجمان صاحب*
محترم ناصری صاحب..
آپ اس قدر تسلسل کے ساتھ بے تکان اتنی خوبصورت اور دلکش نظمیں اور غزلیں کیسے لکھتے ہیں اسکے لئے کونسا معجون کھاتے ہیں
ناصری صاحب
خمیرہ ابریشم عنبریں جواہر والا
*ترجمان صاحب*
تدریسی سفر بسا اوقات ایسے مراحل آتے ہیں جب تدریس سے دل اچاٹ ھوجاتا ھے کیا آپ کے سامنے ایسا کوئی مرحلہ آیا..؟
*ناصری صاحب*
سوال بڑا دل چسپ ہے۔ ایسے مراحل بارہا آئے کہ طبیعت نے لائن بدلنے پر آمادہ کیا، مگر الحمدللہ قدم ڈگمگا نہ سکا۔ اساتذہ کی چشمکیں کبھی کبھی انتہا سے زیادہ مہلک ہوتی ہیں۔ انہیں سے ڈر لگتا ہے۔
*ترجمان صاحب*
جی اساتذہ کے درمیان رقابت کے جراثیم بہت پائے جاتے ہیں میں بھی یہ جھیل چکا ھوں.
اس بچنے کا کوئی فارمولا بو تو روشنی دالیں.
*ناصری صاحب*
علمی صلاحیت کے ہوتے ہوئے رقابتوں سے بچنا ناممکن ہے۔ بس ایک ہی فارمولہ ہے مہتمم کے دیے ہوئے کام بہتر طریقے سے انجام دیے جائیں۔ پھر کسی کی رقابت اثرانداز نہیں ہوتی۔
*ترجمان صاحب*
بیشک. امید کہ آپ کی یہ تجویز دیگر اساتذہ مدارس کے لئے رھنما ثابت ہو گی.
*ترجمان صاحب*
اگر آپ کو کسی مدرسہ کا مہتمم بنادیا جائے تو اس وقت طلبہ اساتذہ اور مدرسہ کیلئے کیا لائحہ عمل ھوتا؟
*ناصری صاحب*
مجھ میں اہتمام کے جراثیم نہیں پائے جاتے۔ انتظامی امور میں بالکل کورا ہوں۔ دال چاول کا بھاؤ بھی بتا نہیں سکتا۔ مہتممین کو میرا مشورہ ہے کہ تعلیمی معیار اعلیٰ ترین کرنے کے ساتھ اعلیٰ ترین تربیت کا بھی انتظام کریں۔ اس کے لیے اعلیٰ صلاحیتیں درکار ہوں گی، جو ظاہر ہے کہ اعلیٰ ترین مشاہرے کے بغیر ممکن نہیں۔ آج مدارس کالج میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ تربیت ندارد ہے۔ درسگاہوں میں موبائل چل رہے ہیں۔ گیم چل رہا ہے۔ اساتذہ میں رقابتیں عروج پر ہیں۔ حضرات مہتممین کو اس جانب بطور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
*ترجمان صاحب*
بہت مفید اور کارآمد مشورہ ھے اس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے. اچھا. پاسبان علم و ادب کے ھی کے ذریعہ معلوم ھوا کہ آپ ایک سوشل چینل *اسلامک میڈیا سروس* کے صدر و سرپرست ھیں اور اس پر سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم پر کام شروع کرنے والے ھیں. وہ کام شروع ھوا یا نہیں اسکی ترتیب کیا ھوگی اس چینل کے اور کیا مقاصد ھیں.؟
*ناصری صاحب*
یہ یوٹیوب چینل ہے، جسے میرے عزیز مولانا وحیدالزماں صاحب نے شروع کیا ہے۔ اس کے ذریعے اسلامی مواد شائع کیے جاتے ہیں۔ میں نے سیرت النبیﷺ پر سلسلہ وار کام کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ ابھی تھوڑی مصروفیت ہے۔ جلد ہی آغاز کردوں گا۔ پاسبان کا ترانہ بھی اس چینل نے شائع کیا ہے۔
*ترجمان صاحب*
ماشاءاللہ اللہ قبول فرمائے اور آسان بنائے.
آپ نے شعر و سخن کے میدان میں سنچری لگاکر اور اختتام نعت اور حمد سے کرکے جو عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ہے.
شعر و شاعری کی دنیا میں ایک نئے باب کا آغاز ھے ھم اس پر آپ کو مبارک باد پیش کرتے.
ساتھ ھی آپ نے پاسبان علم و ادب کے لئے جو ترانہ بنایا ھے وہ ھمارے لئے نہایت اھم ھے آپ نے پاسبان علم و ادب کو لازوال بنادیا.
سوال یہ ہے کہ *ترانہ بنانے میں کو کوئی دقت تو نہیں پیش آئی*.
*ناصری صاحب*
میرا مسئلہ یہ ہے کہ فرمائشی نظمیں جلدی نہیں لکھ پاتا۔ بڑا ڈر لگتا ہے۔ ترانے کی فرمائش پر اولا جھجکا، پھر ہمت کی اور خدا خدا کرکے اسے تیار کیا۔ زحمت تو تھوڑی بہت ہوئی، مگر اسے تیار کر کے مجھے لگا کہ میں نے بہت کچھ پالیا ہے۔ *میں اس کی تخلیق اپنی زندگی کی اہم کامیابی سمجھتا ہوں*۔
*ترجمان پاسبان*
ماشاءاللہ. اللہ آپ کو جزائے خیر دے. اور تمام احباب سے درخواست ہے کہ اپنا وعدہ پورا فرمائیں.(یہ ایک وعدے کی یاد دہانی ہے جو احباب نے ترانے سے خوش ہوکر محترم ناصری صاحب سے کیا تھا )
*ترجمان صاحب*
واٹس ایپ کی دنیا میں بہت سارے گروپ ھیں آپ خود کئی گروپ چلاتے ہیں.
پاسبان علم و ادب آپ کو کیسا لگا. اس کے ممبران کے بارے میں کیا خیال ہے. ؟؟؟
کوئی پیغام کوئی دلی آواز ھو تو بے تکلف اظہار فرمائیں.
*ناصری صاحب*
پاسبانِ علم و ادب سے میری وابستگی منتظمِ اعلی محترم مولانا *شفیق صاحب* کی رہینِ منت ہے۔ وہ مجھے "قاسمی احباب” سے جانتے تھے۔ جب سے میں اس حلقے سے وابستہ ہوا ہوں، خود کو بامراد باور کرتا ہوں۔ تمام گروپوں میں اس کو بدرجہا امتیاز حاصل ہے۔ علم و ادب کے جیسے ستون یہاں بیک وقت موجود ہیں، واٹس ایپ کے حلقوں میں نہیں پائے جاتے۔ یہاں کے مباحثے لاجواب اور جان دار ہوتے ہیں۔ ترجمانِ پاسبان محترم مولانا خالد صاحب کی ترجمانی میرے لیے بطورِ خاص باعثِ کشش ہے۔ یہ حلقہ میرے *دل کی دھڑکن ہے*۔❤
*ترجمان صاحب*
شکرا جزاک اللہ فی الدارین خیرا
پاسبان علم و ادب کے تعلق سے آپ کا یہ گرانمایہ تاثر ھم پاسبانیوں کیلئے باعث صد افتخار ھے.
*ترجمان پاسبان علم وادب*
رات کافی ھوچکی اس لئے اسی پر اکتفا کرتے ھوئے آفیشل انٹرویو بند کیا جاتا ہے احباب میں سے جو حضرات ناصری صاحب سے کچھ پوچھنا چاھتے ھیں پوچھ سکتے ہیں ابھی انکی چھٹی نہیں ھوئی ھے.
سوال و جواب مکمل ھونے کے بعد آپ حضرات اپنا تاثر پیش کرنا نہ بھولیں.
آپ تمام حضرات کا بہت بہت شکریہ.
محترم ناصری صاحب سے گروپ ممبران نے بھی کئی دلچسپ سوالات کیے۔
???????
*مولانا وسیم صاحب* موجودہ قلمکاروں میں کس قلمکار کی تحریر آپ کو زیادہ متاثر کرتی ہے..
*ناصری صاحب*ہندوستان کے حلقہ علما میں حضرت مولانا نورعالم امینی، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر اور مولانا علاءالدین ندوی زیدمجدہم میرے پسندیدہ اہلِ قلم ہیں۔ مناظراتی تحریروں میں حضرت مولانا جمیل احمد نذیری دام ظلہ مجھے خاصے پسند ہیں۔
*مولانا عبیداللہ شمیم صاحب*
آپ کے کتنے شعری مجموعے اب تک منظر عام پر آچکے ہیں اور دیگر تصانیف؟؟
*ناصری صاحب*حدیثِ عنبر کے نام سے 256 صفحات کا مجموعہ کلام دو سال پیش تر آچکا ہے۔ میبذی کی اردو شرح تفہیم المیبذی اور حسامی کی اردو شرح تفہیمِ الہامی بھی آ چکی ہے۔ وحیدالدین خان کے رد میں 80 صفحات پر مشتمل ایک رسالہ بھی چھپ چکا ہے۔ مزید چند کتابیں اشاعت کے قریب ہیں۔ خاکہ نویسی مجھے بہت پسند ہے۔ ان شاءاللہ ان کا مجموعہ بھی بہت جلد آ جائے گا
*حافظ خطیب صاحب*
ناصری صاحب.باسبان ماشاءاللہ بہت خوبیوں کاحامل هےلیکن کیاآپکواس بات کااحساس هےکہ یہاں اکثر مباحث پایہء تکمیل تک نہیں پہونچ پاتے؟نیز پاسبان میں اپکےنزدیک کوئی ایسی کمی هےجسےختم هوناچاہئے؟؟
*ناصری صاحب*
واقعی یہ اس کی بڑی خامی ہے۔ انسان کا نظریہ تبدیل ہونا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ وہی یہاں بھی ہے۔ جو جس نظریے کو لے کر چل رہا ہے، ہزار دلائل کے باوجود اس سے ایک انچ ہٹنے کو تیار نہیں۔ بعض بحثیں خطرناک جھگڑوں پر منتج ہوتی ہیں۔ یہ پاسبان کے لیے اچھا نہیں ہے۔ صبروتحمل اور الفاظ کے انتخاب میں لچک پیدا کی جائے تو ہر بحث نتیجہ خیز ہوگی اور بمچک سے بچا جا سکے گا۔..
*مولانا عبیدالرحمن صاحب*
آپ کی ایک مشہور تصنیف *تفہیم المیبزی* ہے جو عربی مدارس کے تقریبا ہر اس طالب علم کے پاس موجود ہوتی ہے جو عربی پنجم تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند میں داخلہ کا متمنی ہوتا ہے
تو سوال یہ ہے کسی کی فرمائش پر لکھے ہیں یا ازخود طلباء کی پریشانی کو مد نظر رکھتے ہوئے؟
*ناصری صاحب*
یہ کتاب جب مجھے پہلی بار ملی اور طلبہ نے سبق سنا تو انہیں اتنا پسند آیا کہ شرح کی ہی فرمائش کر ڈالی۔ یہی سببِ تالیف ہے۔
مولانا الیاس صاحب
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
?مولانا فضیل احمد ناصری صاحب?
ماشاء الله: آپ کے شعر و سخن کےخوبصورت”تازہ ترین سلسلہ” کی سویں قسط آج مکمل ہوگئی ہے? اس عظیم کارنامہ پر آپ کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی خوشی ہوئی?
خوشی کے اس موقع پر ہماری طرف ســے ڈھیــــــــــــــــــــــر ?ساری مبارک باد قبول فرمائیں ⚘?⚘
اب آپ سے ایک چھوٹا سا سوال ہے۔
وہ یہ کہ آپ کی کونسی تحریرسب سے زیادہ شرف قبولیت کو پہنچی اور بذات خود آپ کو اپنی کونسی تحریر سب سے زیادہ اچھی لگی!!
*ناصری صاحب*
میری ایک تحریر”قلتِ تنخواہ کا قہر اور مدارس سے بدکتے فضلا” بہت زیادہ پسند کی گئی۔ پڑوسی ملک میں اس کی گردش بہت زیادہ رہی۔
*ایڈمن اعلی مولانا شفیق صاحب*
پاسبانِ علم وادب ایک مشن ہے، کسی بھی کام یا مشن میں دو ہی امکانات ہیں
(1) کامیابی (2) ناکامی۔
پاسبانِ علم وادب کے لئے کوئی ایسی تجویز پیش فرمائیں جو کامیابی کی بلندی تک پہونچ کر گوہر مقصود حاصل کرلے ؟
*ناصری صاحب*
گروپ کی حد تک تو ہر طرح کے افراد چل سکتے ہیں، مگر زمینی سطح پر کام کرنے کے لیے مختلف الخیال اور متصادم الافکار احباب سے گریز ضروری ہے۔ پاسبان کا خلائی وجود ناکامی و کامیابی دونوں ذائقے چکھ سکتا ہے، مگر میرا یقین ہے کہ زمینی سطح پر اس کے اقدامات لازوال نقوش ثبت کریں گے۔ اس کے ممبران ہمہ پہلو اور کثیرالجہات ہیں۔
*مولانا عبیدالرحمن صاحب*
جزاک اللہ خیرا
ایک دوسرا اور آخری سوال کہ اپنے شعری سلسلے کی سنچری مکمل کرنے پر آپ کو کیسا محسوس ہورہا ہے
کیا آپ اس خوشی کے موقع پر اپنے لئے و اہل پاسبان کے لیے کوئی شعر کہنا پسند کرینگے؟
*ناصری صاحب*
بڑی مسرت محسوس ہو رہی ہے۔ یقیناً یہ پاسبان کا فیض ہے۔ یہاں سے حوصلہ ملتا رہا اور قلم گرمِ سفر رہا۔ اقبال کا یہ شعر پاسبان کی نذر ہے:
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا
*مولانا ذاکر ندوی صاحب*
مولانا ناصری صاحب آپ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشناس کرنے کے لئیے ہم ڈاکٹر ارشد صاحب اور مولانا خالد کےصاحب کے بیحد ممنون ہیں۔ ایک سوال آپ کی تدریسی زندگی میں مختلف مراکز کی سیر کے تعلق سے ہے۔ کسی ایک مدرسہ میں عدم استقرار کے کیا اسباب تھے؟
*ناصری صاحب*
مجالاتِ علمیہ کی تبدیلیوں کا اہم سبب اساتذہ سے بمچک رہی۔ میں بعض اساتذہ کی غیرشرعی حرکات پر ٹوکتا رہتا، یہی میری برطرفی کا سبب بنتا۔ اس کی تفصیل درد ناک ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کا اظہار ممکن نہیں۔
*مولانا الیاس صاحب*
آپکی کونسی تحریر بحیثیت مدرس دیوبند میں آنے کا سبب بنی
*ناصری صاحب*
"تجھ سا نہیں دیکھا” حضرت مولانا انظرشاہ کشمیریؒ کے انتقال پر اسی عنوان پر طویل مضمون لکھا تھا، وہی دیوبند آمد کی وجہ بن گیا۔
*مولانا وحید الزماں صاحب*
ایک سوال میری طرف سے بھی *آپکو اسلامک میڈیا* میں بطور صدر کیسا محسوس ہوتا ہے کیا آپکو اس چینل سے دشواری تو نہیں ہوتی؟؟
*ناصری صاحب*
یہ چینل اچھا چل رہا ہے۔ اچھی چیز ہر شخص کو پیاری ہوتی ہے۔ میرے لیے یہ چینل پیارا ہے
*مولانا الیاس صاحب*
تیسرا اور آخری سوال
تازہ ترین سلسلہ کی تحریک کا سبب کیا چیز بنی
*ناصری صاحب*یوپی میں حکومت کی تبدیلی اور پھر ملک و عالم میں مسلمانوں کی زبوں حالی۔ یہ سفر ایک سال پیش تر شروع ہوا۔
*ترجمان پاسبان مولانا خالد صاحب*
ماشاءاللہ. ساڑھے نو بجے سے شروع ھوکر تقریباً ڈھائی گھنٹے تک چلنے والا انٹرویو سوال و جواب اور تاثرات کا سلسلہ بارہ بجے تک چلا اب انڈیا میں ھم لوگوں کا بارہ بج گیا ہے.
ناصری صاحب کوچھٹی دیجئے.
اللہ حافظ شب بخیر.
*ناصری صاحب*
جی اب اجازت دیجیے۔ ان شاءاللہ پھر کسی موقعے پر۔ پاسبانِ علم و ادب کا بے پناہ شکریہ۔ پاسبان زندہ باد۔ علم و ادب پائندہ باد۔