گزشتہ دنوں جب عالمی شہرت یافتہ امریکی جریدہ ”ٹائم میگزین“ نے دنیا کی 100 بااثر شخصیات کی فہرست میں شاہین باغ کی 82 سالہ بلقیس کو بھی شامل کیا تو پوری دنیا ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گئی۔ اس خبر کو عالمی پیمانے پر شہرت حاصل ہوئی اور ایک بار پھر میڈیا نمائندوں کا رخ شاہین باغ کی طرف ہو گیا۔ در اصل بلقیس شاہین باغ کے سی اے اے مخالف احتجاج کا ایک معروف چہرہ بن گئی تھیں اور ان کی شہرت اسی حیثیت سے ہوئی تھی۔ کرونا وائرس کی وجہ سے شاہین باغ کا خواتین کا دھرنا تو ختم ہو گیا تھا لیکن ٹائم میگزین کے اس فیصلے نے ایک بار پھر اس دھرنے کو سرخیوں میں لا دیا۔
بلقیس شاہین باغ میں پہلے دن سے لے کر آخری دن تک دھرنے پر موجود رہیں۔ وہ صبح کے وقت پہنچتی تھیں اور نصف شب تک وہاں موجود رہتی تھیں۔ انھوں نے پورے ملک کی بے شمار خواتین کو سی اے اے کی مخالفت کرنے کے لیے حوصلہ بخشا اور ایک ان پڑھ خاتون ہونے کے باوجود انھوں نے مذکورہ قانون اور اس سے متعلق دیگر سوالات کے جو جواب دیے وہ تعلیم یافتہ طبقات کے لیے بھی باعث حیرت تھے۔ انھوں نے جس جرات آموزی کا مظاہرہ کیا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ اِس وقت بھی جبکہ ٹائم میگزین نے انھیں اتنا بڑا اعزاز عطا کیا، انھوں نے صحافیوں کے سوالوں کے بہت معقول اور مدلل اور سنجیدہ جواب دیے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے تو انھوں نے یہ کہہ کر اپنی وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا کہ مودی میرے بیٹے جیسے ہیں۔ انھیں میں نے تو نہیں لیکن میری جیسی ایک بہن نے ہی پیدا کیا ہے۔ میں ان کی عزت کرتی ہوں اور ان سے ملنے میں خوشی ہوگی۔
حالانکہ مودی ہی کی زیر قیادت چلنے والی مرکزی حکومت نے سی اے اے مخالف مظاہرین کو کیا کیا نہیں کہا اور کس کس طرح ان مظاہروں اور دھرنوں کو ختم کرانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ شاہین باغ دھرنے کے قریب فائرنگ تک کروائی گئی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ فائرنگ حکومت کے اشارے پر ہوئی لیکن فائرنگ کرنے والاشخص اسی سیاسی جماعت کے نظریات کو ماننے والا تھا جو حکومت کر رہی ہے۔ مودی کے وزیر داخلہ امت شاہ نے دہلی کے ووٹروں کو شاہین باغ تک کرنٹ پہنچانے کا پیغام دیا۔ اس حکومت کے کمانڈروں نے دھرنے میں شامل لوگوں کو ملک دشمن، پاکستانی، دہشت گرد اور غدار کہا اور انھیں گولی مارنے کے نعرے لگائے۔ اسی جماعت کے ایک لیڈر کپل مشرا نے انتہائی استعال انگیز تقریر کی جس کے بعد ہی شمال مشرقی دہلی میں مسلمانوں کے خلاف فساد بھڑکا دیا گیا۔ اس فساد میں 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے 40 مسلمان ہی تھے۔
اسی حکومت کی وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرنے والی دہلی پولیس نے دہلی کے فسادات کے لیے انھی لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے جنھوں نے سی اے اے مخالف تحریک میں حصہ لیا تھا۔ پولیس نے اپنی فرد جرم میں کپل مشرا کو تو امن کا ایک دیوتا بنا کر پیش کیا ہے۔ پولیس نے یہ تاثر دیا ہے کہ فساد بھڑکانے میں کپل مشرا کا کوئی ہاتھ نہیں تھا بلکہ وہ تو فساد کے خلاف تھے۔ پولیس نے گولی مارنے کا نعرہ لگانے والوں اور یہ کہنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی کہ شاہین باغ کے مظاہرین ہندووں کے گھروں میں گھس کر ان کی ماں بہنوں کی عزت لوٹیں گے۔ پولیس نے سلمان خورشید، پرشانت بھوشن، یوگیندر یادو، ہرش مندر، برندا کرات اور ایسے کئی لوگوں کے نام چارج شیٹ میں شامل کیے ہیں جنھوں نے ان مظاہروں میں تقریریں کی تھیں۔ اس کے علاوہ جن پندرہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے وہ سب وہی ہیں جو مظاہرے میںپیش پیش تھے۔
پولیس نے یہ تھیوری گھڑی ہے کہ در اصل سی اے اے مخالف مظاہرے ایک منظم پلاننگ کا حصہ تھے اور اس پلاننگ میں مرکز کی مودی حکومت کو اکھاڑ پھینکنا بھی شامل تھا۔ ان مظاہروں کو مختلف تنظیموں اور گروپوں کی جانب سے فنڈ فراہم کیا جاتا تھا۔ حالانکہ یہ الزام بھی دوسرے تمام الزامات کی مانند بے بنیاد ہے۔ اور اگر بہ فرض محال یہ مان لیا جائے کہ کچھ تنظیموں یا گروپوں نے فنڈنگ کی تو یہ غیر قانونی یا غیر آئینی کیسے ہو گیا۔ تمام سیاسی پارٹیاں فنڈ اور چندہ لیتی ہیں اور اب تو بی جے پی نے اس میدان میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اگر پولیس کی یہ دلیل تسلیم کر لی جائے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) نے فنڈنگ کی تب بھی یہ کوئی غیر قانونی بات نہیں۔ کیونکہ بہر حال پی ایف آئی پر ملک گیر پابندی نہیں لگی ہے۔ بہر حال پولیس کی چارج شیٹ پر علیحدہ بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس جو کارروائیاں کر رہی ہے اس سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ حکومت سی اے اے مخالف مظاہرین کو سبق سکھانا چاہتی ہے۔
جہاں تک میڈیا کی بات ہے تو ہم مغربی میڈیا کو اسلام دشمن کہہ کر خواہ جتنا چاہیں معتوب کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسی معربی میڈیا نے دبنگ دادی کی خدمات کا اعتراف کیا اور انھیں دنیا کی سو بااثر شخصیات کی فہرست میں شامل کیا۔ جبکہ ہندوستانی میڈیا کے ایک بہت بڑے طبقے نے سی اے اے مخالف احتجاج اور دھرنوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ وہاں بیٹھنے والی خواتین پر پانچ پانچ سو روپے لینے اور بریانی کھانے کے لالچ میں پہنچنے کا الزام عاید کیا گیا۔ میڈیا کے اس طبقے نے شاہین باغ کی خواتین کو بے عزت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن مغربی میڈیا نے شاہین باغ کے دھرنے کو تسلیم کیا اور بلقیس کو عالمی سطح پر ایک رتبہ فراہم کرکے دھرنے کو آئینی ہونے کی سند بخش دی۔
ٹائم میگزین کے اس فیصلے کو ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں نمایاں مقام حاصل ہوا۔ سب کو خوشی ہوئی۔ بہت سے میڈیا اداروں نے بھی اپنی مسرت کا اظہار کیا۔ لیکن اس فیصلے سے زی نیوز کے سدھیر چودھری کے پیٹ میں شدید درد ہو گیا۔ انھوں نے اپنے مخصوص پروگرام میں مغربی میڈیا کو ہند مخالف اور شاہین باغ سے محبت کرنے والا قرار دیا اور کہا کہ ٹائم میگزین نے ان پانچ سو لوگوں کو اتنہائی اہمیت دے دی جو دھرنا گاہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سدھیر چودھری جیسے لوگوں کو یہ پانچ سو افراد نظر آئے۔ (حالانکہ وہاں اتنی کم تعداد کبھی نہیں رہی۔ بعض اوقات تو لاکھوں لاکھ لوگ وہاں موجود رہتے تھے۔) ان کو پورے ملک میں ہونے والے دھرنے دکھائی نہیں دیے اور عالمی سطح پر ان کی حمایت نظر نہیں آئی۔ اس شخص کو اس سے بہت دکھ پہنچا کہ ٹائم میگزین نے شاہین باغ کے دھرنے کو ایک وقار اور اعتبار کیوں عطا کر دیا۔
بہر حال ٹائم میگزین کے اس فیصلے نے سی اے اے جیسے غیر آئینی قانون کے خلاف لڑائی لڑنے والوں کو ایک حوصلہ بخشا ہے اور انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جب بھی حالات موافق ہوئے اور ضرورت پڑی تو اس کے خلاف ایک بار پھر احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔
سی اے اے
یوگی حکومت کانیا فیصلہ:خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کے شہر بھر میں پوسٹر لگیں گے
لکھنؤ:اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے ایک بڑا فیصلہ لیا ہے۔ یوپی میں اگر کوئی خواتین سے بدتمیزی کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو اس کے پوسٹر شہر بھر میں لگائے جائیں گے۔ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کے دوران بھی یوگی حکومت نے ایسے ہی اقدامات اٹھائے تھے۔ حکومت نے سڑکوں پر ایسے لوگوں کے پوسٹر لگائے تھے جن پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کاالزام تھا۔خواتین پولیس اہلکاروں کو یہ ذمہ داری دی جائے گی۔ خواتین پولیس شہر کے چوراہوں پر نظر رکھے گی۔ ریاست میں خواتین کے خلاف جرائم کے متعدد مقدمات کے بعد سی ایم یوگی نے یہ فیصلہ لیا ہے۔وزیراعلیٰ نے افسران کو ہدایت کی کہ وہ غلط حرکتوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ اس کے ساتھ ہی ، سی ایم یوگی نے عوامی مقامات پر ایسے مجرموں کے پوسٹر لگانے کی ہدایت کی ہے۔اگر کہیں بھی خواتین کے ساتھ کوئی مجرمانہ واقعہ ہوتا ہے تو متعلقہ بیٹ انچارج ، چوکی انچارج ، اسٹیشن انچارج اور سی او ذمہ دار ہوں گے۔سی ایم یوگی نے کہا کہجو لوگ خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتی،بدسلوکی،جنسی استحصال یا استحصال کرنے والے مجرموں اوربدانتظامیوں کے مددگارہیں۔ان کے نام بھی سامنے آنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے ان کے مددگاروں میں خوف پیدا ہوگا۔
ترجمہ:نایاب حسن
دہلی پولیس نے پچھلے ہفتے ان لوگوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی ہے جن پر اس سال فروری میں رونما ہونے والے نارتھ ایسٹ دہلی کے فسادات میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ مگر جتنے لوگوں کے خلاف بھی چارج شیٹ داخل کی گئی یا انھیں گرفتار کیا گیا ہے،تقریباً سارے ہی مسلمان ہیں۔ پولیس کا بیانیہ یہ ہے کہ کچھ جہادی تنظیموں نے مل کر اس فساد کا منصوبہ بنایا تھا ؛تاکہ ٹرمپ کے دہلی میں ورود کے دن یہ سب کرکے عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ خراب کی جائے۔ پولیس کی چارج شیٹ کے مطابق اس کا پلاٹ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تیار کیا گیا تھا اور شاہین باغ میں خواتین کا اجتماع شہریت کے مسلوب ہونے کے خوف سے نہیں تھا؛بلکہ وہ بھی اس جہادی پلاٹ کا حصہ تھا؛لیکن اگر پولیس کی اس منطق کو مان لیں تو ہم اس فساد میں ۵۳مسلمانوں کے جاں بحق ہونے کی کیا توجیہ پیش کریں گے؟زیادہ تر مسلمانوں کی ہی پراپرٹی کیوں تباہ کی گئی؟ مسجدوں پر کیوں حملے کیے گئے، جبکہ ایک بھی مندر کو نقصان نہیں پہنچایا گیا؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کا دہلی پولیس کو کورٹ آف لا میں جواب دینا ہوگا،مگر اس حیثیت سے کہ اُن دنوں میں دہلی میں تھی اور اس حیثیت سے کہ میں نے دوسرے بہت سے رپورٹرز سے زیادہ ہندو مسلم فسادات کو رپورٹ کیا ہے، میں بتاتی ہوں کہ کیا ہوا تھا؟اور میں آپ پر چھوڑتی ہوں کہ آپ دیکھیں کہ ہم مکمل فیصلہ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں یا اسے توڑمروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میرا بیانیہ یہ ہے کہ پندرہ دسمبر ۲۰۱۹ کو جامعہ ملیہ سے جو احتجاج شروع ہوا اور سڑکوں ، گلیوں تک پہنچا اس کا ایک وسیع تر پس منظر تھا اور وہ یہ کہ مودی نے جوں ہی دوسری بار لوک سبھا الیکشن میں کامیابی حاصل کی،انھوں نے اس ایجنڈے پر عمل کرنا شروع کردیا جس کا واحد مقصد(عالمی سطح پر محسوس ہو یا نہ ہو)’نیو انڈیا‘میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری باور کروانا تھا۔
چنانچہ مودی کے پہلے دور حکومت میں جس لنچنگ کی شروعات ہوئی تھی اس کا دائرہ گئوکشی یا بیف تک محدود نہیں رہا۔ ان کا دوسرا دور حکومت شروع ہونے کے محض دوہفتے بعد تبریز انصاری نامی معمولی چور کو جھارکھنڈ کے ایک گاؤں میں پول میں باندھ کر پیٹا گیا،ایک بھیڑ اسے مارنے کے ساتھ جے شری رام کے نعرے لگانے پر بھی مجبور کرتی رہی۔ پھر جب وہ پولیس کے ہاتھ لگا تو اسے ہسپتال پہنچانے کی بجاے اسی ناگفتہ بہ حالت میں چوری کے الزام میں تھانے لے جایا گیااور بالآخر چار دن بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس کا انتقال ہوگیا۔ اس کے قاتلوں کو اپنی اس انسانیت سوز حرکت پر ذرہ برابر پشیمانی نہیں تھی،بلکہ انھوں نے فخریہ اپنی وحشت و بربریت کی ویڈیو بنائی اور اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ بھی کیا،مگر اس سب کے باوجود پولیس نے کسی کے خلاف بھی ایکشن نہیں لیا۔ انصاری کی لنچنگ اس حیوانیت کی یاددہانی کروانے والی تھی،جو موجودہ ہندوستان کے اندرون میں موجود تھی، اس قسم کے عوامی قتل کا سلسلہ اب عام ہے اور یہ اتنا زیادہ ہونے لگا ہے کہ اب نہ کسی کو اس پر حیرت ہوتی ہے ،نہ خوف محسوس ہوتا ہے۔
یہ سب چل ہی رہا تھا کہ پارلیمنٹ نےجدید قوم کی حیثیت سے ہمارے ملک کی تاریخ میں پہلا تفریق کرنے والا قانون پاس کیا تو مسلمانوں نے نوٹس کیا کہ مودی کا دوسرا دورِ حکومت ان کے لیے تازہ خوفناک حقیقت لے کر آیا ہے ۔شہریت کو ان کے خلاف ہتھیار کے طورپر استعمال کیا جاسکتا ہے اور سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ این آرسی کی سمت میں پہلا قدم ہے۔ وزیر داخلہ نے بارہا کہا بھی کہ این آر سی ہر حال میں ہوگی ، مگر جب مسلمان سڑکوں اور گلیوں میں احتجاج کرنے نکلے تب وزیر اعظم کو یہ کہنا پڑا کہ فی الحال حکومت کا این آرسی لاگو کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لیکن مسلمانوں کو ان کی بات پر یقین نہیں آیا ؛کیوں کہ اگلے ہی دن این پی آر کا اعلان کردیا گیا اور وہ بھی کئی تشویشناک پہلو لیے ہوئے تھا۔
ترنگا جھنڈا لہراتے ہوئے اور دستورِ ہند کی کاپی ہاتھوں میں لیے مسلمان ملک کے مختلف شہروں اور یونیورسٹیوں میں احتجاج کرتے رہے۔اس کی شروعات دسمبر دوہزار انیس میں اس وقت ہوئی تھی جب احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دہلی پولیس جامعہ ملیہ کے کیمپس میں جا گھسی،لائبریری اور ہاسٹل میں جا کر طلبہ و طالبات کو زدوکوب کیا ،اسی کے بعد شاہین باغ احتجاج کی بھی شروعات ہوئی تھی۔ موسمِ سرما کے یخ بستہ شب وروزدھرنے پر بیٹھی خواتین کا یہ کہنا تھا کہ انھیں اپنی شہریت چھن جانے کا خدشہ ہے۔انھوں نے مجھ سے کہا کہ ایسے لاکھوں غریب مسلمان ہیں جن کے پاس ایسا کوئی دستاویز نہیں کہ وہ اپنی شہریت ثابت کر سکیں۔ سی اے اے ان کے لیے مسئلہ نہیں ہے،اصل مسئلہ متوقع این آر سی ہے۔
وہ چاہتی تھیں کہ وزیر داخلہ سے بات کرکے ان کے سامنے اپنے خدشات بیان کریں ۔مگر اسی زمانے میں دہلی میں الیکشن تھا؛چنانچہ وزیر داخلہ نے مظاہرین سے بات کرنے کی بجاے شاہین باغ کو باغیوں اور جہادیوں کا گڑھ قرار دیا اور اپنی انتخابی تقریروں میں اس کے خلاف اور بھی بہت سی باتیں کیں۔اس سے دوسرے وزرا کو بھی حوصلہ ملا اور انوراگ ٹھاکر نے عوامی جلسے میں لوگوں سے’’گولی مارو سالوں کو”جیسے نعرے لگوائے۔ یہ سوال درست ہوسکتا ہے کہ کون یہ فیصلہ کرے گا کہ کون باغی ہے اور کون باغی نہیں ہے؟مگر مودی کے وزرا نے عملی طورپر یہ واضح کر دیاکہ جو لوگ بھی سی اے اے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں وہ غدار ہیں ،ملک دشمن ہیں۔ فساد سے ایک دن پہلے ہی بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے احتجاجی مسلم خواتین کو دھمکی دی تھی کہ وہ اپنا احتجاج ختم کردیں ،ورنہ ٹرمپ کے جانے کے بعد انھیں سخت ایکشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ عین ممکن ہے کہ فساد شروع ہونے کے بعد اس میں شدت پسند مسلمان بھی شامل ہو گئے ہوں یا عام آدمی پارٹی کے کونسلر طاہر حسین کے گھر کی چھت پر فائر بم وغیرہ پائے گئے ہوں اور اس فساد میں بہت سے ہندو بھی مارے گئے ہوں ،مگر اس کا اصل نشانہ مسلمان تھے۔ دہلی کا ماحول ان کے خلاف اس حد تک نفرت آمیز ہوگیا کہ شروع میں کورونا پھیلنے کا سارا الزام تبلیغی جماعت کے سر تھوپنے کی کوشش کی گئی۔
کچھ دنوں سے مسلمانوں کے خلاف چھیڑی گئی نفرت انگیز مہم میں گرچہ عارضی طورپر کورونا کی وجہ سے تھوڑی کمی ہوئی ہے،مگر ہمارے زہریلے نیوز چینلز پھر بھی وقتاً فوقتاً اس کے اظہار سے بازنہیں آرہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ بند نہیں ہوا تو دہلی جیسے واقعات دوسرے شہروں میں بھی رونما ہوسکتے ہیں۔
(اصل مضمون روزنامہ انڈین ایکسپریس میں ۲۰ ستمبر کو شائع ہوا ہے)
فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’’ ہم دیکھیں گے‘‘جو سیاست کی بالادستی اور ناانصافیوں کے خلاف بغاوت کا اعلامیہ بن چکی ہے ،چونکہ اردو میں لکھی گئی ہے اور شاعر اپنے عقیدے کے اعتبار سے مسلمان ہے، اس کا مطالعہ مشرقی علوم اور مشرقی زبانوں کا بہت زیادہ ہے اس لیے لازمی طور پر ایسا ہے کہ نظم کی زمین مشرقی مہا بیانیوں کے علامتی لفظ وصوت اور تصوروخیال سے بھر گئی ہے۔ اور یہ بالکل فطری ہے ، کوئی بھی نظم جس زبان میں لکھی جاتی ہے اسی زبان کے مہاوروں، کہاوتوں،علامتوں ،استعاروں اور تشبیحات وتلمیحات بلکہ خود شاعر کے ایمان و مذہب کو ظاہر کرنے والی علامتوں او ر صوتیات سے مملو ہوتی ہے اور جب تک لفظ اور علامتوں کا برتاوا منفی نہیں ہے، تب تک اس میں کچھ برائی بھی نہیں۔ اس کے برعکس اگر ظلم کی مخالفت اور آزادیوں کی حمایت کی با ت ہے تو یہ ہر طرح سے پروگریسو ہے اور اس کی ہر حال میں تائید کی جانی چاہیے۔
یہ نظم اس وقت لکھی گئی تھی جب فیض امریکہ میں مقیم تھے اور وطن سے دور اپنے اس قیام کو جلا وطنی سے بھی تعبیر کرتے تھے ، یہ نظم فیض کے دیوان ’’مرے دل مرے مسافر‘‘ میں شامل ہے۔ اس کا عنوان ’ویبقیٰ وجہ ربک‘‘ہے، جو سورۂ رحمان کی آیت کا ایک ٹکڑاہے۔ یہ نظم ڈکٹیٹر شپ کے خلاف بغاوت کا اعلامیہ ہے اور جمہور کی حکومت کا مژدہ سنانے والی ہے۔ ا س میں یہ دعویٰ بہت یقین کے ساتھ دوہرایا گیا ہے کہ حالات ایک دن یقینا بد لیں گے۔شاعر کے دل میں یقین کی یہ کیفیت قرآن کے بیانیے اور اس پر اعتماد ویقین سے بھی پیدا ہوئی ہے ۔ اور ان ادبی وسیاسی سرگرمیوں اور وابستگیوں سے بھی، جن سے وہ عمر بھر وابستہ رہے۔اقبال اور رومی تو ان کے پسندیدہ شاعر رہے ہیں۔
اس نظم میں جتنے بھی ایسے الفاظ آئے ہیں جو مذہبی شعار اورعلامات کے حوالے سے جانے پہچانے ہیں جیسے کعبہ وبُت اور حرم وانا الحق وغیرہ ، حقیقت یہ ہے کہ یہ سب الفاظ علامتی اور استعاراتی معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی بھی حقیقی معنیٰ میں استعمال نہیں ہوا ۔ بُت سے مراد بھی ہندو مذہب کےدیوی ودیوتاؤں کی کوئی مورتی نہیں ہے بلکہ ظالم حکمراں اور نامراد اہل سیاست مراد ہیں۔اردو شاعری میں بُت کا استعمال بہت کثرت اور بہتات کے ساتھ ملتا ہے۔اور اکثر جگہ اس سے معشوق مراد ہوتا ہے، خاص کر وہ ،جو شوخ اوربے پرواہ ہے جو محبت کا مثبت جواب نہیں دیتا۔پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی نے کہا ہے:
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
نسیم کے اس شعر میں ’’ بُت‘‘ سے مراد کوئی مورتی نہیں ہے اور نہ ہی ’’کفر ‘‘کا اشارہ کسی غیر مسلم کی طرف ہے، بلکہ بت سے مراد معشوق ہے اور کفر سے مراد اس کی ضد اور ’نہیں نہیں‘ ہے۔
فیض کی نظم میں اللہ کا نام بے شک حقیقی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے اوراس نظم کی یہی لائن ’’ بس نام رہے گا اللہ کا‘‘ اس نظم اور اس کے عنوان میں ربط پیدا کرتی ہے۔مگر یہاں لفظ ’اللہ‘ کے استعمال کی وجہ یہ ہے کہ نظم اردو زبان میں ہے اورشاعر اللہ کی ذات میں عقیدہ (آستھا) رکھتا ہے۔ اگر شاعر غیر مسلم ہوتا یا نظم دوسری زبان میں ہوتی تو اللہ کے سوا کوئی دوسرا لفظ ہوسکتا تھا جیسے مالک ،بھگوان اور گاڈ وغیرہ۔ اسی طرح ’حرم ‘اور ’کعبہ ‘ بھی ایوان سیاست کی اعلی مسندوں کے معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں۔ اور یہ اسی طرح ہے جس طرح عدالتِ عالیہ کو’’ انصاف کا مندر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ ایسا کہتے وقت حقیقی مندر مراد نہیں ہوتا اور نہ ہی عدالت ِعالیہ کو مندر بتانا مقصود ہوتا ہے۔
’’ہم دیکھیں گے/لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے‘‘
ان لائن میں دو نوعیت کا مضمون ہے۔ ایک یہ کہ دیکھتے ہیں اللہ ظلم کو مٹانے اور انصاف قائم کرنے کا اپنا وعدہ کس طرح پورا فرماتا ہے اور دوسرے یہ کہ اللہ کا یہ وعدہ سچ ہوکر رہے گا اور ہم (یعنی انسان، نہ کہ خود فیض) اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔
’’وہ دن کے جس کا وعدہ ہے/جو لوح ازل میں لکھا ہے‘‘
یہاں وعدے کے دن سے قیامت کا دن مراد نہیں ہے اور نہ ہی لوح ازل سے محض قرآن مراد ہے، جیسا کہ بعض اہل قلم نے بتانے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے قوانین فطرت میں بھی اور قوانین شریعت میں بھی اللہ کا یہ اصول اور وعدہ ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جب ظالم بے موت مارا جاتا ہے اور مظلوم سرخ رو ہوتا ہے۔ موسیٰ وفرعون کی لمبی داستان ِ دلخراش میں ایک دن وہ بھی آیا جب فرعون غرقاب ہوا اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم سرخ روہوئی ۔ یہی بات قرآن میں اس طرح لکھی ہے۔ جاء الحق وذہق الباطل۔ جس طرح فرعون کا غرق ہونا دنیا میں ہی ہوا ، اسی طرح یہ بھی دنیا ہی میں ہوتا ہے کہ باطل کا چراغ گل ہوتا ہے اور حق کی شمع روشن ہوتی ہے۔اس لئے ’’وعدے کے دن ‘‘سے قیامت کا دن مراد لینا درست نہیں اور’’ لوح ازل ‘‘سے قرآن ہی سمجھنا بھی غلط ہوسکتا ہے۔اس میں ابتدائےآفرینش کے معنی بھی ہوسکتے ہیں۔اسی طرح نظم میں زمین کے دھڑدھڑ دھڑکنے اور بجلی کے کڑکڑ کڑکنے کی صوتیات کی خام بنیادیں قرآنی بیانئے میں تلاش کرنا بھی دور کی کوڑی لانےکے مترادف ہے۔مگر کئی قلم کاروں نے یہ کوشش بھی کرڈالی ہے۔
’’جب ارضِ خدا کے کعبے سے /سب بت اٹھوائے جائیں گے‘‘
ارضِ خدا کے کعبے سے یعنی اللہ کی زمین کے قابل احترام مقامات اور ایوان سیاست سے ، جب ظالم حکمرانوں کو بے عزت کرکے نکالا جائے گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح بیت اللہ سے بتوں کو نکالا گیا تھا۔ یہا ں تلمیحاً اُس واقعے کی طرف اشارہ ہے، جب بیت اللہ الحرام کو بتوں سے پاک کیا گیا تھا ، مگر مقصود آج کے زمانے کے ظالم حکمرانوں سے سیاست کے ایوانوں کو پاک کرنا ہے۔ اور مردودِ حرم، (سیاست کے محل اور ایوانوں سے دھتکارے ہوئے لوگ) یعنی عوام کو ایوان سیاست کی اعلیٰ مسندوں پر بٹھایا جائے گا۔آج کی دنیا میں جو دھتکارے ہوئے لوگ ہیں اور دبے کچلے انسان ہیں ، جلد ہی وہ دن بھی آئے گا جب وہ سیاسی و مذہبی محلوں اورایوانوں کی اعلی مسندوں پر جلوہ افروز ہوں گے اور یہ ہوکر رہے گا کیونکہ قدرت کے کارخانے میں ہمیشہ سے یہی ہوتا رہا ہے۔
اس نظم کا عنوان اور پھر نظم میں موجود بعض الفاظ اور تلمیھات اس کو مذہب اسلام ،اسلامی تہذیب اور پھر اسلامی بیانیے سے جوڑ دیتی ہیں۔عنوان کے لیے تو قرآن کے الفاظ من وعن لے لیے گئے ہیں۔ اس میں منصور کے نعرے ’انا الحق‘ کا ذکر بھی بطور تلمیح آگیا ہے ۔یہ نعرہ بھی بنیادی طور پر کسی غیراسلامی مذہب کے مخالف نہیں ہے، بلکہ اُس وقت جب یہ نعرہ حسین بن منصور حلاج کی زبان سے اداہواتھا ، اسے اسلامی توحید کے خلاف ہی سمجھا گیا تھا ، بعد میں سیاست بھی اس کے خلاف ہوگئی اور منصور کو دار پر کھینچا گیا۔ اور پھر مزید بعد کے زمانوں میں یہ نعرہ سیاست گردی کے خلاف اور غلامی کے خلاف ’انقلاب زندہ باد ‘ جیسا نعرہ بن گیا ۔ اور فیض کی نظم میں اس نعرے کی گھن گرج نعرۂ انقلاب کی گھن گرج کے ہم معنیٰ ہی ہے۔اب اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ فیض اس نعرے سے فی الواقع کیا معنیٰ سمجھتے تھے، وہ بھلے ہی منصور کو درست مانتے ہوں اور اپنے من میں ’انا الحق‘ کی کوئی توجیہ کرتے ہوں جیسے کہ بہت سے صوفیاء اور علماء نے کی ہے ،مگر نظم میں یہ محض عزم واستقلال اور انقلاب کے معنیٰ میں ہی ہے۔ اس میں اس عزم کا اظہار ہے کہ منصور حلاج کی طرح ہم بھی خوشی خوشی تختہ دار کو چوم لیں گے مگر اپنے دعوے سے سرمو انحراف نہ کریں گے۔
ایک جملۂ معترضہ کے طورپر یہ بھی سن لیں کہ نعرۂ اناالحق سے کوئی کچھ بھی سمجھے اور جو چاہے معانی نکالے مگر’ اناالحق‘ فرعون کے نعرے ’انا ربکم الا علیٰ‘ سے بہت مختلف ہے۔ اس میں غرور اور خدائی کا دعویٰ ہے جبکہ’ اناالحق‘ میں عاجزی اور فنا کا تصور ہے۔دونوں قلبی واردات کی سطح پر ایک دوسرے کے متضاد ہیں، ایسے ہی جیسے کفر اور ایمان ایک دوسرے کے کھلے متضاد ہیں۔
اورجس طرح کوئی فلم، ناول یا افسانہ وغیرہ جس کی زمین مذہبی علامتوں پر استوار ہو، یا اس کی کہانی مندر، مسجد، گردوارہ یا چرچ وغیرہ کے ارد گرد گھومتی ہو تو محض اس بات سے وہ افسانہ، ناول یا فلم مذہبی نہیں ہوجاتی،اسی طرح کوئی نظم، فن پارہ یا ادب مذہبی علامتوں کی وجہ سے مذہبی نہیں ہوجاتا۔انہیں اگر کوئی چیز مذہبی بناتی ہے تو وہ لفظوں ، استعاروں اور تلمیحات کا برتاوا ہے کہ ان میں معنیٰ کو کس کیف ونوع کے ساتھ برتا گیا ہے۔اگر کسی نے یہ بات نہیں جانی تو اس نے آرٹ اور ادب کو نہیں جانا۔
اس نظم کو یا اس کی کسی لائن کو ہندومخالف بتاناشعر وادب سے سراسر ناآشنائی والی بات ہے یا پھر یہ کہ سیاست چلانا مقصود ہے اور کچھ نہیں، کوئی بھی ادب وساہتیہ کا آدمی اس نظم کو ہندومخالف نہیں کہہ سکتا ۔اور جبکہ یہ معلوم ہے کہ یہ نظم خود پڑوسی ملک کے حکمراں جنرل ضیاء الحق کی بعض پالیسیوں کے خلاف کہی گئی تھی ،تب تو اور بھی کوئی تُک نہیں بنتی کہ اسے ہندو مخالف بتایا جائے۔
تعجب ہے کہ پڑوسی ملک پاکستان میں جس شاعر کو ہندوستان نواز کہا گیا، آج اسی کے چند بول ہندو مخالف قرار دئے جارہے ہیں۔اس نظم سے ایک زمانے میں پاکستان کی حکومت خوف کھاتی تھی اور آج ہندوستان کی حکومت کو اسی نظم سے ڈر ستارہا ہے۔ سیاسی اکھاڑوں کے پہلوان بھی کتنے بہادر ہوتے ہیں، کہ لفظ وصوت کی گھن گرج سے ڈرجاتے ہیں ، حالانکہ ان کے اپنے پاس توپوں ، میزائیلوں اور ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ ہوتی ہے اور پھر بھی وہ کمزور اور سریلی آوازوں سے خوف کھاتے ہیں۔ کیا یہ اپنے آپ میں کچھ کم تعجب خیز بات ہے۔
مولانا احمد حسین قاسمی
روزروشن کی طرح اب یہ بات بھارت کے عوام کے سامنے واضح ہوگئی ہے کہ مودی حکومت ایک وسیع پس منظر میں CAA(سیٹیزن شپ امینڈ منٹ ایکٹ) کے ذریعہ عوام کو گمراہ کر رہی ہے،اس قانون کے تیر سے وہ بیک وقت کئی شکار کرنا چاہتی ہے،جن کے خد وخال ملک کے تعلیم یافتہ شہریوں کے ساتھ عوام پر بھی ظاہر ہو چکے ہیں، خصوصیت کے ساتھ ایک بات اب زبان زد ہوچکی ہے کہ: حکومت صرف اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے یہ قانون لائی ہے ”ظاہر ہے کہ جہاں حکومت کی سیاست کا اصول ہی سراسر منفی اور غلط ہو وہاں ترقی ممکن ہی نہیں، اوربہت دنوں تک ایسی حکومت قائم بھی نہیں رہ سکتی ہے۔ادھرچند دہائیوں سے سیاست میں ایک ناپاک روایت در آئی ہے، جس کے چلن نے آج اصول وضابطہ کی شکل اختیار کر لی ہے:”عوام کے ذہن کو اہم ایشوز سے غیر ضروری ایشوز کی طرف کسی بھی ہولناک واقعہ یا حادثہ کے ذریعہ پھیر دینا“تاکہ عوام اسی میں الجھے رہیں، اور حکومت بہ آسانی اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کو چھپاتی رہے، ملک کے شہریوں کو کوئی ایسا موقع فراہم ہی نہ کیا جائے جس میں وہ حکومت کا گریبان پکڑ سکیں،اور ان سے جواب طلب کر سکیں،موجودہ حکومت کا اب تک یہی طریقہ رہا ہے۔
GST،نوٹ بندی،منصوبہ بند پلوامہ حملہ کے جواب میں سرجیکل اسٹرائیک،تین طلاق مخالف بل،کشمیر سے ۰۷۳ /ایکٹ کا ہٹانا،عدلیہ پر آستھاکادباؤبناکربابری مسجد، رام جنم بھومی کا غیر منصفانہ عدالتی فیصلہ اور ان تمام سے بڑھ کر جمہوریت کو پارہ پارہ کردینے والے، ملک کو دو نظریوں میں تقسیم کردینے والے اور مذہبی منافرت کی چنگاری کو ہوا دے کر ملک کو دہکتی آگ میں جھونک دینے والے CAAجیسے قانون نے حکومت کی قلعی کھول دی ہے، اس حکومت نے ہندوستان کی خارجی سیاست میں پاکستان کو محور بنایااور عوام کو اس میں الجھانے کی تمام کوششیں کیں، جن کا ماحصل جانی ومالی نقصانات کے سوا کچھ بھی نہیں۔
دوسری جانب داخلی سیاست میں اس نے مختلف طریقوں سے یہاں کی اقلیتوں کو نشانہ بنایا، یہ دونوں منفی طریقہئ سیاست اب رازہائے سر بستہ نہیں رہے، بلکہ ان دونوں موضوعات پر ملک کے ارباب بصیرت اور دنیا کے اہل فکرونظر نے کھل کر لکھا اورصاف وشفاف بیانات دئیے کہ ملک کو ترقی کی شاہ راہ پر لے جانے کے وہ نسخے ہرگز نہیں جن کو بی جے پی حکومت نے اپنامنشور بنارکھاہے۔
دنیا کے بے باک اہل قلم نے حکومت کے اس منفی رویے پر بہت کچھ لکھا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس ملک کی اپنی فضا ء، اپنی ضروریات،اپنی نفسیات،اپنا مزاج ومذاق،ترقی کے اپنے نوع بہ نوع تقاضے ہیں، مگر مودی حکومت ان مذکورہ حقائق سے بالکل مختلف لائحہ عمل پر کام کر رہی ہے، جوکسی بھی طرح ملک کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے،وہ اسٹر یٹجی اور طریقہ کار جو اس نے اسرائیل سے سیکھاہے، وہ اس عظیم جمہوری ملک کے لیے سم قاتل ہے، حکومت کے یکے بعد دیگرے ترتیب وار ماضی کے اہم فیصلے حکومت کے منفی ذہن کا واضح عکاس ہیں۔بدقسمتی سے نفرت کے سوداگر انگریز،”پھوٹ ڈالو اور راج کرو“ کے اصول پر ملک کو غلامی کی زنجیر میں جکڑے رکھنے کی ناپاک روایت دے کر چلے گئے، جس نفرت کا بیج انہوں نے بھارت کے عوام کے دلوں میں مذہبی بنیاد پر بویا تھا اب اس کی زمین کوتر کرنا اوراپنے زہریلے افکار ونظریات اور گفتار وکردار سے اس کے پودے کووجود بخشنا اور پھر اسے ایک تناور درخت کی شکل دینا کسی بھی طرح اس عظیم ملک کے حق میں سود مند ثابت نہیں ہوسکتا اورنہ ہی یہ ملک اس کا متحمل ہے۔انسانی سماج کے لئے نفرت زہرہلاہل ہے،کوئی بھی سماج نفرت کے ساتھ اجتماعی زندگی نہیں گذار سکتا ہے، نفرت تو انگریزوں نے آزادی کی صبح سے پہلے ہی پھیلا دی تھی،جس کا نتیجہ تقسیمِ ملک کی شکل میں ظاہر ہوا۔ دوسری جانب انگریزوں سے لڑنے والے ملک کے بہادر سپوت اس نفرت کے سایہ میں خودبا ہم لڑ پڑے، جس سے اس وقت ملک کو بڑے پیمانے پر مصیبتوں سے دو چار ہو نا پڑا۔اس کے بعد تقسیم اور فرقہ وارانہ تباہی کے زخموں سے چور اس بھارت کو اطمینان وسکون اور دلداری کی ضرورت تھی، طویل غلامی کے بعداسے اپنی آزادی کی فضا، خوشحالی وترقی اور سماجی زندگی میں باہم اخوت ومحبت اور مسرت وشادمانی درکار تھی،جس کا بعض پیش رو حکومتوں نے خیال بھی رکھنا چاہا، مگر سیاست کے بھیڑیوں اور تخت وتاج کے حریصوں نے وقفہ وقفہ سے فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے بھارت کے پرانے زخم پر نمک پاشی کا مستقل کام کیا۔خصوصا جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے ملک کی صورت حال اب تر ہوتی جارہی ہے۔وہ لگاتار ایسے مہلک اور خطرناک فیصلے لینے لگی جس سے ملک میں انارکی پھیلی، ملک اوراس کے عوام ترقی کیاکرتے،اپنی تجارت وملازمت،گوناگوں مصروفیت اور سکون زندگی چھوڑ کر سڑکوں پر آگئے،جس سے طلبہ وطالبات کی تعلیم اورعوام کے روزمرہ کے معمولات زندگی بے حدمتاثر ہوئے۔
CAA کا پس منظر اب یہاں کے شہریوں کے سامنے پورے طور پر آچکا ہے، RSSکا ہندوتوا نظریہ بھی پوری دنیا میں معروف ہوچکا ہے، اس کی تہ در تہ حقیقتیں بھی طشت از بام ہوچکی ہیں، دنیا کی سب سے خفیہ ترین سمجھی جاے والی تنظیم آر ایس ایس(RSS) اب کسی سے مخفی نہیں رہی، ملک اور ملک سے باہر اس کے نظریا ت کی وسیع پیمانے پر تشریح ہو رہی ہے، موجودہ ملکی حالات کے پیش نظرپوری دنیا کا یہ کہناہے کہ یہ ملک گول والکر، ساورکر او ر گوڈ سے کے متشدد نظریہ پر ہر گز نہیں چل سکتا، جن کی ملک کی آزادی میں کبھی کوئی حصہ داری اور شراکت نہیں رہی ہے، ان کے نظریات کے حاملین اس ملک میں صرف اور صرف برہمن ہیں جو منوواد کے قائل اور منواسمرتی کا نفاذ چاہتے ہیں،ان کی تاریخ رہی ہے کہ یہ ہمیشہ سیکولرزم اور جمہوریت کے دشمن رہے ہیں، یہاں کا دستور روز اول ہی سے ان کی آنکھوں کا کانٹا بناہوا ہے، جنہیں ترنگا سے سخت نفرت ہے، آج تک انہوں نے آرایس ایس کی مرکزی آفس میں ہندوستان کے ترنگا کی پرچم کشائی نہیں کی۔ برسر اقتدار حکومت کے بڑے بڑے سورما بشمول مودی اورا میت شاہ ان کے ہی ترجمان ہیں،جنہوں نے یہ ٹھان لیاہے کہ ملک کہیں جائے،اس کی معیشت کا دیوالیہ ہوجائے،تعلیم گاہیں بند ہوجائیں،ترقی کے سارے نقشے دھرے رہ جائیں،ملک کی چھوٹی بڑی صنعتیں برباد ہوجائیں،کسانوں کی خودکشی عام ہوجائے،مقامی مصنوعات دھول کی نظر ہوجائیں،بے روزگاری سرچڑھ کر بولے،مہنگائی آسمان چھولے،شہریوں کی زندگیاں تباہ ہوجائیں،بیٹیوں کی عصمتیں تارتار ہوجائیں،ملک میں بڑھتی غربت کی شرح کا گھٹاٹوپ اندھیرا پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے اورفرقہ وارانہ فسادات سے پورا ملک جل اٹھے،مگر ہمیں وہی کرنا ہے جس کی آرایس ایس نے ہمیں تعلیم دی ہے، جس سے ہماری سیاست کا بازارگرم رہے، ہماری حکومت قائم ودائم رہے اوراپنے فانی اورختم ہونے والے عارضی تخت وتاج کے لئے پورے ملک کو اگر نفرت کی بھٹی میں جھونکنابھی پڑے توہم اس کے لئے تیار ہیں،حکومت کے اعلیٰ عہدہ داروں اورامیت شاہ کے حالیہ بیانوں سے توایساہی لگتاہے۔حالانکہ ایشیا کے اندر ایسے بہت سے ممالک ہیں جو ہرطرح کی ترقیات سے مالامال ہیں، حکومت کی نظر میں وہ نہیں ہیں۔ وہاں کی تعلیمی،اقتصادی، معاشی اورسماجی نقطہ ہائے نظر سے استفادہ کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل مرتب کرے اوران ممالک کی نئی ترقیات،تعلیمی منصوبہ بندیوں،معاشی حصولیابیوں اوروہاں کے شہریوں کو حاصل شدہ بنیادی ضروریات زندگی اورمیسر آسائش حیات کو اپنے حکومتی منشور میں شامل کرنے لئے ان کا حقیقت پسندانہ مطالعہ کیاجائے، حکومت کو ان امورپر توجہ دینی چاہئے،ترجیحی بنیادپر ایک ایک کرکے پہلے اہم عوامی ضرورتوں کی تکمیل کی جائے اورعوام کو روزگار کے اہم مواقع اورمعیشت کے ضروری میدان فراہم کئے جائیں اورملک کے نوجوانوں کی خاطرخواہ حوصلہ افزائی کی جائے۔ دیکھاجائے تواس کے لئے حکومت کے پاس کوئی فکری اورارادی قوت نظرنہیں آتی۔بھارت جیسے کثیرالمذاہب والے ملک میں اجتماعی ہم آہنگی اورسماجی اتحاد بنیاد کے پتھر کی مانند ہے، جس کی فکراہل حکومت کو سب سے پہلے کرنی چاہئے،ملک میں سکون وعافیت اورامن وامان کا قیام مختلف نظریات کے حامل شہریوں کے لئے اولین ترجیح کادرجہ رکھتاہے، عقلمند حکومت ہمیشہ ان اصولوں کو مقدم رکھتی ہے،حکومت سے بھارت کے عوام کا پرزور مطالبہ ہے کہ وہ کوئی بھی ایسا کام نہ کرے جس سے اسے شرمسارہونا پڑے،پوری دنیا میں حکومت کی جگ ہنسائی توہوہی رہی ہے ساتھ میں اس سے ملک کی اعلیٰ شبیہ بھی خراب ہورہی ہے جس کے لئے حکومت جوابدہ ہے۔
(مضمون نگار امارت شرعیہ کے معاون ناظم ہیں)
سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہروں پرملی تنظیموں اورمختلف مذاہب کے نمایندگان کی میٹنگ
30جنوری کو دہلی میں وسیع احتجاج کا اعلان،یوپی کے دورے پروفد جائے گا، بین مذاہب کمیٹی کی تشکیل
نئی دہلی:مختلف مذہبی، سماجی و سیاسی جماعتوں سے وابستہ قائدین پر مشتمل ایک مشاورتی اجلاس نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد ہوا، جس میں قائدین نے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ملک گیر پیمانے پر ہو رہے احتجاجات کی صورتحال پر بحث کی اور آئینِ ہند کے ذریعہ دئے گئے شہریت کے بنیادی حق کے لئے ان عوامی مظاہروں کو باہم مربوط اور مضبوط کرنے کے لئے سنوِدھان سرکشا آندولن (دستور بچاؤ تحریک) شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اجلاس کی صدارت مولانا محمد ولی رحمانی (جنرل سکریٹری، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ و امیر شریعت، امارتِ شریعہ، بہار، جھارکھنڈ و اڑیسہ) نے کی۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے مولانا ولی رحمانی نے کہا کہ ہم ایک بے حد نازک دور سے گذر رہے ہیں،جس میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ذمہ دار شہری اور جماعت آگے بڑھ کر ہمارے ملک اور اس کی آئینی اقدار کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کرے۔اجلاس میں یہ کہا گیا کہ ہندوستان کے کونے کونے میں ہو رہے حالیہ مظاہروں میں پورے ملک کا احساس صاف نظر آ رہا ہے، جس میں صرف دائیں بازو کی فسطائی طاقتوں کو چھوڑ کر سماج کے ہر ایک طبقے نے بلاتفریق بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ اجلاس نے تعلیمی اداروں میں طلبہ اور قصبوں حتیٰ کہ گاؤں دیہات میں خواتین کے ذریعہ نبھائے گئے قائدانہ کردار کی ستائش کی۔ اجلاس میں بی جے پی حکومت کے عوام مخالف منصوبوں کو شکست دینے تک حالیہ احتجاجات کو جاری رکھنے اور اسے زیادہ سے زیادہ مضبوطی دینے لئے مختلف وسائل اور طریقوں پر بھی مذاکرہ کیا گیا اور اس پر اہم فیصلے بھی لئے گئے۔سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف عوامی تحریک کی نگرانی، ربط اور مضبوطی کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی، جس میں درج ذیل ممبران شامل ہیں:
جسٹس بی جی کولسے پاٹل (صدر، لوک شاسن آندولن)، وامن میشرام (صدر، بامسیف)، مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی (اسلامی دانشور)، ایم کے فیضی (صدر، ایس ڈی پی آئی)، چندر شیکھر آزاد (چیف، بھیم آرمی)، فادر سوسائی سیبسٹین (وکار جنرل، دہلی آرک ڈیوسس)، مولانا عبیداللہ اعظمی (خدمتِ خلق، مسلم پرسنل لاء بورڈ)، ڈاکٹر اسماء ظہراء (بانی، مسلم ویمن ایسوسی ایشن)، ڈاکٹر مائکل ولیم (صدر، یونیائٹڈ کرسچن فورم)، فادر ڈینزل فرنانڈیز (سابق ڈائرکٹر، انڈین سوشل انسٹی ٹیوٹ)۔ ساتھ ہی راج رتن امبیڈکر (صدر، دی بدھسٹ سوسائٹی آف انڈیا) اور محمد شفیع (قومی جنرل سکریٹری، ایس ڈی پی آئی) دونوں کو جنرل سکریٹری کے طور پر منتخب کیا گیا۔اس تحریک میں خواتین کے کردار کو مضبوطی دینے کے لئے خواتین کی ایک سہ رکنی ٹیم بھی تشکیل دی گئی جس میں یاسمین فاروقی بطور کنوینر، اور ڈاکٹر اسماء ظہرا ء اور مہرالنساء خان شامل ہیں۔:اجلاس میں درج ذیل قائدین بھی شریک رہے:ایڈوکیٹ محمود پراچہ، فادر اجیت پیٹرک،ایڈوکیٹ اے محمد یوسف (سکریٹری، این سی ایچ آر او)، ایم محمد علی جناح (جنرل سکریٹری، پاپولر فرنٹ آف انڈیا)، لال منی پرساد (سابق ایم پی و سابق وزیر، یوپی)، بھائی تیج سنگھ (قومی صدر، امبیڈکر سماج پارٹی)، ای ایم عبدالرحمن (رکن، قومی مجلس عاملہ، پاپولر فرنٹ آف انڈیا)، سید سرور چشتی (خادم، خواجہ اجمیر شریف)، مجتبیٰ فاروق (ڈائرکٹر، رابطہئ عامہ و رکن مرکزی مجلس شوریٰ، جماعت اسلامی ہند)، بھانو پرتاپ سنگھ (قومی صدر، آر جے ایس پی)، ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی (قومی سکریٹری، ایس ڈی پی آئی)، عبدالسلام (سابق ایم ایل اے، آعظم گڑھ، یوپی)۔(راج رتن امبیڈکر (صدر، دی بدھسٹ سوسائٹی آف انڈیا(محمد شفیع (قومی جنرل سکریٹری، ایس ڈی پی آئی
مسعود جاوید
١- میری ذاتی رائے یہ ہے کہ شہریت ترمیم ایکٹ اور اس کے لاحقے این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہروں کو مذہبی رنگ نہیں دیا جانا چاہیے۔ نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں ہے مگر ہمارے احتجاج اور مظاہروں کا اولین مقصد اس وطن عزیز اور اس کے جمہوری نظام کا تحفظ ہے اور اس کے مقدس دستور کی خلاف ورزی کرنے والوں کی مخالفت کرنا ہے۔ ہم اس ملک کے مخالف نہیں ہیں اس ملک کی موجودہ حکومت کی تفریق پر مبنی غلط پالیسیوں کے مخالف ہیں۔
١- ہم جیسے کو تیسا tit for tat کی روش اختیار کرکے جے شری رام کے مقابل نعرۂ تکبیر اللہ اکبر یا لا الہ الا اللہ کہ کر احتجاج کے اصل کاز کو دانستہ یا غیردانستہ طور پر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
٢- جے شری رام کا نعرہ گرچہ مفہوم کے اعتبار سے غیر مسلموں کے لئے درست ہے مگر اس کا بے جا استعمال نے عوام کے ذہنوں میں اس کا منفی مفہوم سرایت کر دیا ہے۔ ایک ایسا نعرہ جس سے مسلمانوں کو خوفزدہ کیا جا سکے۔ اس لیے اس سے برابری کرنے کی بعض احباب کی کوشش مفید نہیں مضر ہو سکتی ہے۔ اگر کسی نے جے شری رام کے نعرے کے تناظر میں نعرۂ تکبیر اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ پر مذہبی عصبیت اور شدت پسندی کا الزام لگایا تو اس پر مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
٣- جامعہ اور شاہین باغ میں منتظمین مقررین اور رضا کاروں کی کمی نہیں ہے۔ اس لئے یہاں آکر تقریر کرنے کی بجائے علماء پیشہ ور مقررین مجدی صاحب مدنی صاحب مکی صاحب سعیدی صاحب قاسمی ندوی مظاہری اصلاحی فلاحی حضرات اپنے اپنے حلقہ اثر و نفوذ میں جامعہ اور شاہین باغ کے طرز پر پرامن احتجاج کا نظم کریں۔
٤- اسی طرح سیاسی لیڈران اور سماجی دانشوران یہاں آتے ہیں ان کی آمد سے بلا شبہ ہماری حوصلہ افزائی ہوتی ہے وہ یقین دہانی بھی کراتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں مگر اے کاش وہ بھی اپنے حلقہ اثر ورسوخ میں اس کاز کو لے کر احتجاجی مظاہرہ کرتے۔ اس سے حکومت وقت کو احساس ہوتا کہ دستور کے تحفظ کی لڑائی صرف مسلمان نہیں دیگر مذاھب کے لوگ بھی لڑ رہے ہیں۔ صرف جامعہ اور شاہین باغ نہیں ہندوستان کے کونے کونے میں احتجاج ہو رہا ہے۔ الحمدللہ اب اس کا داءرہ دن بہ دن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔۔۔ کولکتہ ، پٹنہ، گیا ، الہ آباد کانپور اور جنوبی ہند کے مختلف شہریوں میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔
شہر کرے طلب اگر تم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ اختیار ہو، آگ لگا دیا کرو
شہریت قانون ترمیمی بل (اب ایکٹ) کیخلاف احتجاج کا سلسلہ 4/دسمبرکو آسام اورپھر تریپورہ وغیرہ شمال مشرقی ریاستوں سے شروع ہوا۔ 13/دسمبرکو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء نے اسکے خلاف ایک پرامن مارچ نکالا۔ یہ بات قابل ذکرہے کہ جامعہ کی تاریخ،ہماری تحریک آزادی کا ایک زریں باب ہے۔ اس کے نام کے ساتھ اگرچہ’اسلامیہ‘شامل ہے، لیکن اس کے کردار کی عظمت اور نظریہ کی وسعت یہ ہے کہ پہلے دن سے ہی اس نے بلاتفریق مذہب وملت ہر قوم کے افراد کو اپنے دامن میں سمیٹا ہے۔ اس کے بانیوں میں مولانا آزاد،شیخ محمودحسن، حکیم اجمل خاں، مولانا محمد علی جوہروغیرہ کے ساتھ گاندھی جی کا نام بھی نمایاں ہے۔ وہ گجراتی تھے۔برطانیہ میں پڑھے تھے۔ تاجرگھرانے سے تعلق تھا۔بقول امت شاہ ’وہ بڑے چَتُر بنیا تھے۔‘بیشک وہ دوراندیش سیاستداں تھے۔ اسی لئے جامعہ کی تحریک کے ساتھ جڑے۔
جامعہ کی تعلیمی بنیادیں استوارکرنے والوں میں ڈاکٹرذاکر حسین، مختاراحمدانصاری اور عابد حسین جیسی شخصیات کا خون جگرشامل ہے۔ یہ ہمارے ملک اورقوم کے وہ روشن ستارے ہیں، جن کی نظرمیں کسی ایک فرقہ کی نہیں، پورے ملک کی عظمت اوربہبود مقدم تھی۔ مسلم ذہن کو جدید تعلیم سے روشناس کرانااسی فکرمندی کا حصہ ہے۔ مگر اس طرح کہ قدیم صالح قدریں، جن کی بنیادیں اسلامی معاشرت میں ہیں، منہدم نہ ہونے پائیں بلکہ مستحکم ہوں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ آج بھی انہی قدروں کا پاسپان ہے۔ اس کے طلباء میں 50فیصد غیرمسلم ہیں۔اساتذہ اوراسٹاف میں بڑی تعداد میں دیگر قوموں کے افراد ہیں۔اورسب گھل مل کررہتے ہیں۔ اس میں بی ایچ یوکی طرح کوئی فیکلٹی ایسی نہیں جس میں غیرمذہب کا داخلہ ممنوع ہو۔ حتیٰ کہ اردو، فارسی اورعربی ہی نہیں، شعبہ اسلامیات بھی سب کیلئے کھلا ہے۔
جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء اوراساتذہ احتجاج کرنے نکلے، تب وہ کسی ایک فرقہ کے درد میں نہیں بلکہ ایک صالح قومی نظریہ کی حفاظت کیلئے نکلے تھے، اوربلاتخصیص تمام فرقوں، علاقوں اور مذہبوں کے نوجوان لڑکے اورلڑکیاں قدم سے قدم ملاکر نکلے تھے۔ میں دل کی گہرائیوں سے جامعہ کے بانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اوران طلباء وطالبات، اساتذہ اور اسٹاف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جنہوں نے شہریت ترمیمی بل پر، جو دراصل ہماری قومی روح کو مجروح کرتاہے، پرامن احتجاج کی ٹھانی۔ احتجاج کایہ طریقہ ہمیں اپنی تحریکِ آزادی سے ورثہ میں ملا ہے۔جامعہ کو اس ورثے میں کچھ زیادہ حصہ ملاہے۔ یقینا اس احتجاج سے جامعہ کے بانیوں، خیرخواہوں اورفیض پانے والوں کی روحوں کو بڑاسکون ملا ہوگا کہ جامعہ نے اس سبق کو پھردوہرایا ہے جس سے اس کی بسم اللہ ہوئی تھی۔ شاباش طلباء وطالبات، جو اس میں شامل ہوئے پولیس کی زیادتیوں کے باوجود عدم تشدد کی راہ پر اٹل رہے، بالکل گاندھی جی کی طرح۔خاص طورسے طالبات نے مضبوط رویہ اختیار کیا۔ہم جے این یواورمسلم یونیورسٹی کے جیالوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اگرانہوں نے جبراورظلم کے اس اندھیرے میں اپنے ضمیر کی شمعیں روشن نہ کی ہوتیں تو ممکن ہے کہ تحریک کچل دی جاتی۔
کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہمیں ان کے پس پشت وہ مصلحت نظرنہیں آتی جو خالق کائنات کی نظر میں ہوتی ہے۔ بھلا غورکیجئے اگر’اوپر‘ کے اشارے پر پولس نے جامعہ کے طلباء کے ساتھ زیادتی نہ کی ہوتی، غیرقانونی طورسے یونیورسٹی کمپس میں گھس کرلائبریری، مسجد اورٹائلٹس میں مارپیٹ اورتوڑ پھوڑ نہ کی ہوتی تو کیا اس مہم کو ایسی قومی تائید مل جاتی کہ کم وبیش 33 یونیورسٹیوں کے طلباء حمایت میں نکل آئے۔ان میں سمپورنانند سنسکرت یونیورسٹی بھی شامل ہے۔ بیرون ملک بھی احتجاجو کی جھڑی سی لگ گئی۔اس کی بدولت سول سوسائٹی اٹھ کھڑی ہوئی۔ آپ نے دیکھا بڑے بڑے شہروں میں ہی نہیں چھوٹے بڑے قصبوں اوردیہات تک میں اس شمع کی شعائیں پہنچیں، حالانکہ کال دینے والا کوئی نہیں تھا۔ ایسے پرہجوم مظاہرے ہوئے کہ حکومت ہڑبڑا گئی اوربھاجپا کی سرکاروالی ریاستیں تشدد پر اتر آئیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء کی یہ تائید وحمایت دراصل اس قومی نظریہ کی تائید ہے جس کی بنیاد پرہم نے آزادی کی جنگ جیتی تھی۔ بھلا یہ بات ان لوگوں کی سمجھ میں کیسے آسکتی ہے جنہوں نے تحریک آزادی کی مخالفت اورفرنگیوں کی حمایت کی تھی۔ آخرڈی این اے بھی توکوئی چیز ہے۔نوٹ کیجئے احتجاج کے دوران تشدد کے واقعات صرف بھاجپا سرکار والی ریاستوں میں ہوئے۔ شواہد بتارہے ہیں کہ زیادتی پولیس یا اس کے گماشتوں نے کی۔د ہلی میں بسیں بھی کسی اورنے جلائیں۔تقریباسبھی موتیں پولیس کی گولی سے ہوئیں۔ سب سے زیادہ 19یوپی میں جہاں وزیراعلیٰ نے اعلان کیا تھا، ’سرکاربدلہ لیگی‘ چنانچہ تحریک کوفرقہ ورانہ رنگ دینے کیلئے ایک ہی طبقہ کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔میرٹھ،مظفرنگر، بجنور، سنبھل، فیروزآباداورلکھنؤ وغیرہ میں عوام پر قہرنازل کیاگیا۔ مگرکاٹھ کی ہانڈی زیادہ دیر نہیں چلاکرتی۔ جھارکھنڈ کے رائے دہندگان نے اس کا جواب دیدیا ہے جس نے تنگ نظر ہٹلر پرست حکمرانوں کوسوچنے پرمجبورکردیا ہے۔
بہت سے لوگ سوال کررہے ہیں کہ ملک بھرمیں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ان پرہجوم احتجاجو ں کا کیا فائدہ ہوا؟ حکومت تواس کو واپس لینے کو تیارنہیں؟ بیشک قانون کی واپسی کا امکان نہیں۔ اگرسرکاربدل گئی تب بھی نہیں۔ لیکن دو بڑے فائدے ہوئے ہیں۔ پہلی بارمودی سرکارکے کسی اقدام کے خلاف ملک بھرمیں عوامی آواز اٹھی۔ ان کے حامی پست ہوئے۔ یہ اس کے باوجود ہوا کہ اس کی محرک کوئی سیاسی پارٹی نہیں تھی۔ کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔ سب عوام نے خود کیا۔ موجودہ ماحول میں ایسا جو ش وجذبہ ابھرآنا ایک بڑی تبدیلی ہے۔ بعض سیاسی پارٹیوں نے تواس کی ملک گیروسعت اور شدت کے بعد ہی اس کو بھنانے کی تگ ودوشروع ہوئی۔ جب شورپوری بلندی پر پہنچ گیا اورعوام کا موڈ خوب صاف ہوگیا تب نتیش کماربھی بولے،دیگروزرائے اعلی نے بھی این آرسی کے خلاف آواز اٹھائی۔ ورنہ اکیلی آواز ممتابنرجی کی سنائی دیتی رہی۔مگریہ بھی اچھا ہوا کہ سیاسی لیڈرشروع میں نہیں بولے۔ اگربول پڑتے تو پانسہ الٹا پڑسکتاتھا۔ ہماری چندہ بٹورنے والی قیادت خاموش رہی۔اگروہ بول پڑتی تو تحریک کوفرقہ ورانہ رنگ دیدیا جاتا۔
ہاں سب کے ساتھ مسلمان اس تحریک میں شریک ہوئے۔ایسا ہی ہونا چاہئے۔ ازلی مخالفوں نے بھی نوٹ کیا کہ تین طلاق، دفعہ 370 اور اجودھیا فیصلے کے بعد بھی خاموش رہنے والا فرقہ، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف کیوں اٹھ کھڑا ہوا؟ اسی لئے اس تحریک پر فرقہ پرستی کا لیبل لگانے میں کامیابی نہیں ملی۔ حالانکہ مودی جی نے جھارکھنڈ کی ریلی میں یہ کہہ کر کہ قانون کے مخالفوں کو کپڑوں سے پہچانو، اس کو فرقہ ورانہ رخ دینے کی چال چلی تھی۔ بھاجپا کے کچھ چھوٹے لیڈروں کے بھی ایسے ہی بیا ن آئے تھے جن سے ظاہرہوا کہ ان کو عوام کی موڈ کی سمجھ ہی نہیں آئی۔
بھاجپا کی دہلی ریلی:اس ملک گیر تحریک کا توڑ کرنے کیلئے بھاجپا نے گزشتہ اتوار 22دسمبر دہلی میں ایک ریلی کی۔ کرسیاں دورتک لگی تھیں مگربہت سی خالی رہیں۔ بعض شرکا نے کیمرے پربتایا کہ ان کو دو، دو سوروپیہ دے کرلایا گیا۔ جب ان سے پوچھا کہ کیا دہلی کے چناؤمیں بھاجپاکو ووٹ دوگے تونا کہہ دیا۔ دہلی والوں کا جواب تھا، مودی جی نے وعدے پورے نہیں کئے۔ لیکن اگلی کرسیوں پرپارٹی کے ورکر ضرورنعرے لگاکر نمایاں ہونے کی کوشش کرتے رہے۔
اس ریلی میں مودی جی نے اعلان کیا کہ ملک بھرمیں این آرسی (شہریت کا قومی رجسٹر)لانے پر حکومت نے غور ہی نہیں کیا۔انہوں نے الزام لگایا کہ یہ افواہ اپوزیشن نے پھیلائی ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ خود وزیر داخلہ اورپارٹی کے صدرامت شاہ اوردیگروزیروں نے پارلیمنٹ میں کئی بار اعلا ن کیا کہ این آرسی پورے ملک میں لاگوکیا جائے گا۔امت شاہ نے شہریت ترمیمی بل پر بحث کے دوران کہا تھا،’ترتیب سمجھ لیجئے۔ اس کے بعد این سی آرآئے گا جو پورے ملک پرلاگوہوگا۔‘ ایک جلسہ میں کہاکہ1924سے پہلے، تمام’گھس پیٹھیوں‘ کو نکال باہر کیا جائے گا۔ یہی بات مغربی بنگال میں پارٹی کارکنوں کے جلسے میں اور جھارکھنڈ کی انتخابی ریلی میں کہی۔ پارٹی کے کارگزارصدر جے پی نڈا نے بھی دہلی ریلی سے دو دن پہلے 20/دسمبرکو کہا کہ این آرسی تولایا جائے گا۔ لیکن اب پردھان منتری کے اس اعلان اور وزیر داخلہ امت شاہ کے اے این آئی کو انٹرویو سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کیڑے نے اپنے پنجے سمیٹ لئے ہیں جو اس شرکو پھیلانے کیلئے ذہنوں میں کلبلارہا تھا۔ یہ اس ملک گیر تحریک کی بڑی کامیابی ہے۔ اگریہ تحریک اس قدر زور دار طریقے سے نہ اٹھتی اورساتھ ہی جھارکھنڈ میں پارٹی کا جھنڈا نہ اکھڑ گیا ہوتا تو پوری قوم آسام کی طرح اس عذاب میں مبتلا کی جاتی۔ پریشان توسبھی ہوتے مگراس کے زدقبائلی باشندوں، دلتوں، غریبوں،ناخواندہ لوگوں اورخاص طور سے اقلیتوں پر پڑتی۔ غیرمسلموں کو شہریت دیدی جاتی اورمسلمان حق رائے دہی سے محروم کردئے جاتے۔ اس الٹ پھیر کا سہرا طلباء اوراُس نظریہ کے سرہے جس کی اساس ہندستان کا آئین ہے۔یہ ظلم کے خلاف حق کی جیت ہے، جو ہندستان جیسے ملک میں ہی ممکن ہے، جس کے باشندو ں کے خمیر میں مہمان نوازی اورتواضع شامل ہے۔
آپ کویاد ہوگا کہ مئی میں پارلیمانی چناؤ کے بعد مودی جی نے کہا تھا کہ اس چناؤ کی خاص بات یہ رہی کہ کسی نے سیکولر زم کا نام تک نہیں لیا۔ انہوں نے ٹھیک کہا تھا۔ بیشک یہ لفظ سیاستدانوں کے زبانوں پر نہیں آیا تھا، لیکن لاکھوں دلوں اور دماغوں میں محفوظ تھا جس کا مظاہرہ اس تحریک کے دوران ہوگیا۔ یہاں ایک وضاحت کرتا چلوں۔ بعض لوگ سیکولرزم کا مطلب مذہب سے بے تعلقی اوردین بیزاری سمجھتے ہیں۔ ہندستان کے پس منظرمیں اورہمارے آئین کے مطابق سیکولر ریاست کا مطلب ہے، مذہب کی بنیاد پرکسی شخص سے کوئی بھید بھاؤ نہیں۔ سرکار کا اپنا کوئی مذہب نہیں اور ہرکسی کو پھلنے پھولنے کی آزادی۔ ہمیں برادرانِ وطن کا ممنون ہونا چاہئے کہ نہایت سخت مخالف ماحول اورہندتووا کا زور ہونے کے باجود ریاست کے سیکولرکردار پر حملہ کرنے والے قانون کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اوربرملا اہل اسلام سے اظہاراتحاد کیا۔ ہر شب کا خاتمہ نئی سحرسے ہوتا ہے۔ ہم اپنے عمل اورکردار سے امن ومحبت اوردینی قدروں کا پیغام دیتے رہیں تو وہ سحرنمودار ہوکر رہے گی۔ بقول سروربارہ بنکوی:
نہ ہو مضمحل میرے ہم سفر، تجھے شاید اس کی نہیں خبر
انہی ظلمتوں کے دوش پر ابھی کاروانِ سحر بھی ہے
مودی،امیت شاہ اور سیتارمن کےطلبہ پرنشانہ سادھنے کے بعد اب فروغ انسانی وسائل کے وزیرمنیش پوکھریال نے کہاہے کہ طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں کوکسی قیمت پربرداشت نہیں کیاجائے گا
نایاب حسن
پورے ملک کی تعلیم گاہوں اور عام لوگوں کے درمیان مرکزی حکومت کے ذریعے پاس کردہ نئے شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف پائی جانے والی شدید ناراضگی اور احتجاجات کے بیچ آج مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل رمیش پوکھریال نے کولکاتا میںبی جے پی کی ٹیچرس سیل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مرکزی حکومت تعلیمی اداروں میں سیاسی گرمیوں کوکسی قیمت پر برداشت نہیں کرے گی۔انھوں نے کہاکہ ہر شخص سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے آزاد ہے مگر کالج اور یونیورسٹی جہاں دوردراز سے طلبہ پڑھنے کے لیے آتے ہیں انھیں اس قسم کی سرگرمیوں سے پاک رکھنا ہوگا۔انھوںنے سختی سے کہاکہ نریندر مودی حکومت اسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کرے گی۔ انھوں نے اپوزیشن پارٹیوں بالخصوص کانگریس پر الزام لگایاکہ وہ سی اے اے کے حوالے سے لوگوں میں غلط معلومات پھیلاکرماحول خراب کررہی ہے۔انہوں نے بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتابنرجی پر بھی نشانہ سادھا۔نئی تعلیمی پالیسی کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ تینتیس سال کے بعد حکومت کے ذریعے تیار کردہ نئی تعلیمی پالیسی ہندوستان اَساس ہوگی اوراس میں ہماری قومی قدروں کے تحفظ پر زور دیاجائے گا۔قابل ذکرہے کہ گزشتہ دوہفتے سے زائد سے دہلی کی جے این یو،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی یونیورسٹی اور ملک کی دیگر دسیوں یونیورسٹیوں کے طلبانئے قانون کے خلاف سڑکوں پر ہیں اوران کے سپورٹ میں بیرون ہندکی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے ہندوستانی طلبہ بھی احتجاجی مارچ نکال رہے ہیں۔اس سے پہلے خود وزیر اعظم مودی،وزیر داخلہ امیت شاہ ،وزیر خزانہ نرملا سیتارمن بھی طلبہ کے احتجاجات کولے کر سخت بیان بازی کرچکے ہیں،اب فروغ انسانی وسائل کے وزیر نے بھی جس لہجے میں یہ کہاکہ تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں کوبرداشت نہیں کیاجائے گااس سے حکومت کی منشاپر سوال اٹھنے لگے ہیں۔کیاحکومت طلبہ کی سیاست کو ختم کرنا چاہتی ہے؟پھر یونیورسٹیوں میں اسٹوڈینٹ یونینز کاوجود کیوں ہے؟اور مختلف مین اسٹریم کی سیاسی پارٹیاں ان کی سرپرستی کیوں کررہی ہیں؟جہاں کانگریس اور دیگر چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کا طلبہ ونگ یونیورسٹیز اور کالجز میں سرگرم ہے وہیں خود بی جے پی کا سٹوڈینٹ ونگ بھی آل انڈیاودیارتھی پریشدکے نام سے سرگرم ہے،توکیاحکومت یونیورسٹیوں سے طلبہ یونینز کوختم کرناچاہتی ہے یا حکومت کے وزراصرف ایک قسم کے طلباپر نشانہ سادھ رہے ہیں جو حکومت کی پالیسیوں اور اس کے طریقۂ کارپر سوال اٹھاتے ہیں؟اگر ایسی بات ہے،توہندوستانی جمہوریت کے لیے شرمناک ہے۔خاص طورپر اس وجہ سے بھی کہ بی جے پی کی پیدایش خود طلبائی سیاست اور احتجاجات کی دین ہے۔ ستر کی دہائی میں ایمرجنسی سے پہلے اور بعد کے سیاسی حالات میں ملک کے بیشتر تعلیمی ادارے اور ان کے طلبہ اس وقت کی اندراگاندھی حکومت کے خلاف برسرِ احتجاج تھے،جن میں کئی وہ لوگ بھی شامل تھے جوآج بی جے پی کا نمایاں چہرہ ہیں۔شاید بی جے پی کو بھی طلبہ کے ذریعے چھیڑی گئی اس تحریک سے اقتدارکی کرسی کھسکنے کا خطرہ محسوس ہونے لگاہے،اس لیے مودی سمیت سارے وزرااسے ہر قیمت پر کچلناچاہتے ہیں۔
شکیل رشید(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
وہ کہتے ہیں ’پاکستان چلے جاؤ‘!
ہم کہتے ہیں ، کیوں؟ کیا یہ ملک آپ کے باپ کا ہے ؟ وہ کہتے ہیں کاغذ دکھاؤ، ہم کہتے ہیں ، کیوں؟ ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے!اترپردیش کا ’نازی‘ کہہ رہا ہے ’ہم نے سب کو چپ کرادیا ہے ‘!پراسی لکھنؤ سے صدف جعفر کی آواز ’ زنداں‘ سے چھن کر آرہی ’ سی ا ے اے کے خلاف جنگ جاری رہنی چاہیے ۔ ‘وہ گولیاں داغ رہے ہیں تاکہ ڈراکر، دھمکا کر، قتل کرکے عوام کی آواز دبائی جاسکے پر گولیاں کھاکر جانیں دینے والوں کی مائیں کہہ رہی ہیں ’ میرا بیٹا ملک اور آئین کے لئے شہید ہوگیا ہے ۔‘
کس کس کی آواز بند کرو گے ، کتنے سینوں کو اپنی گولیوں سے سرخ کرو گے ، کتنوں کو حوالۂ زنداں کروگے ، اب کوئی خاموش نہیں رہنے والا ہے ، کوئی پاکستان نہیں جانے والا ہے ، کوئی کاغذ نہیں دکھانے والا ہے ، کوئی قطار میں کھڑا ہوکر اپنی شہریت ثابت نہیں کرنے والا ہے ، اس لئے کہ یہ سب ، جن سے ’کاغذات‘ مانگے جارہے اور جنہیں پاکستان جانے کو کہا جارہا اور جن کے سینے سرخ کئے جارہے ہیں ، وہ سب’ ہندوستانی‘ ہیں ، اس ملک میں پیدا ہوئے ہیں ، یہیں پلے بڑھے ہیں ۔ اور ایک دن یہیں مرجائیں گے !
سپریم کورٹ کے سابق جج، جسٹس مارکنڈے کاٹجو کا حال ہی میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے یہ پیشن گوئی کی ہے کہ’ ’ نازی دور کا عنقریب آغاز ہوجائے گا ۔ ‘‘ یوپی میں یوگی سرکار جوکررہی ہے وہ ایک طرح سے ’ نازی دور‘ کے آغاز کا اعلان ہی تو ہے ! مظاہرین کی املاک سیل کرنے کا حکم ، جو جسٹس کاٹجو کے مطابق غیر قانونی ہے کیونکہ تعزیرات ہند اس طرح کی اجازت نہیں دیتی ۔۔۔ یہ ظالمانہ اور جابرانہ اقدام ہے ۔ ’نازی دور‘ کی علامت ظاہر ہونے لگی ہیں ، اب یہی دیکھ لیں کہ حکمران سچ کو چھپاتا ہے ۔ وزیرداخلہ جھوٹ پر جھوٹ بولے چلاجاتا ہے ۔ ایک ریاست کا وزیراعلیٰ اسی طرح ،جیسے کہ گجرات میں ہوا تھا ، پولس کو چھوٹ دے دیتا ہے کہ ’ مارا جائے ‘۔۔۔ اور پولس گولیاں چلاکر لوگوں کو مارتی ہے اور جھوٹ بولتی ہے کہ ’ ایک بھی گولی نہیں چلی‘!ایک ریاست کا وزیر اعلیٰ دو مہلوکین کے لئے ’ معاوضہ ‘ کا اعلان کرتا ہےاور پھر اعلان واپس لے لیتا ہے کیونکہ مہلوکین کی شناخت تشدد کرنے والے مظاہرین کےطور پر ممکن ہے ۔ پولس راتوں کو گھروں میں گھس گھس کر عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں پر لاٹھیاں برساتی ، سامانوں کو توڑ پھوڑ دیتی اور مکینوں کو خوف کے عالم میں جینے پر مجبور کرتی ہےاور سپریم کورٹ نہ سُننے کو تیار ، نہ انصاف کرنے کو تیار ۔ پولس یونیورسیٹوں میں گھس کر طلبا کو پیٹتی ، مارتی ہے اور قانون وانصاف کا پیمانہ پولس کی جانب ہی جھکا رہتا ہے ۔
بھلا کیا ایسا ملک ’ جمہوری‘ کہلانے کا مستحق ہے ، کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ملک آئین اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کررہا ہے ، اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کررہا ہے ؟ نہیں ۔ پر یہ ’ جنگ‘تو اسی لئے ہے کہ ملک کو ’نازی دور‘ میں داخل ہونے سے روکا جائے ،حکام کو قانون اور انصاف کی پاسداری نہ کرنے پر جوابدہ بنایا جائے اور ملک کے حکمرانوں کو سبق سکھایا جائے کہ اگر وہ آئین میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے ، ملک کو’ہندوتوا‘ کے راستے پر لے جائیں گے اور اگر وہ ملک کے عوام کو ’ فرقہ وارانہ‘ بنیاد پر تقسیم کرنے کی سعی کریں گے تو ان کے خلاف آواز اٹھائی جائے گی اور یہ آواز اٹھتی رہے گی ۔ یہ آواز ’جھوٹ‘ کے خلاف ہے ۔ پہلے وزیراعظم نریندر مودی نے دہلی کے رام لیلا گراؤنڈ میں کذب بیانی سے کام لیا کہ پورے ملک میں این آرسی لاگو کرنے کی کوئی بات ہی نہیں ہوئی ۔ پھر انہوں نے کہا کہ ’حراستی مراکز‘ یعنی ڈیٹینشن کیمپ تو کہیں بنائے ہی نہیں گئے ہیں ۔ پھر ان کے دستِ راست امیت شاہ نے کہا کہ کون کہتا ہے کہ این آرسی اور سی اے اے کو ایک دوسرے سے جوڑا جائے گا ! یا تو ان کے حافظے بہت کمزور ہیں یا یہ عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں ۔ دونوں نے بار بار این آرسی کی بات کی ہے ، اسے پورے ملک میں لاگو کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ پہلے سی اے اے آئے گا پھر پورے ملک میں این آرسی لاگو کی جائے گی ۔اور یہ تو مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی وزارت ہی ہے جس نے ’ حراستی مراکز‘ کے لئے فنڈ جاری کیا ہے ، بھلا ان کی حکومت کیسے کہہ سکتی ہے کہ ملک میں کہیں ’ حراستی مراکز‘ نہیں بنے ہیں ! آسام میں بنے ڈٹینشن کیمپ میں جنہیں ’غیر ملکی‘ قرار دے کر محبوس رکھا گیا ہے ان میں سے کوئی 26 کے قریب اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ کرناٹک میں ’ حراستی مرکز‘ بن رہا ہے ، نوی ممبئی میں یہ بنایا جارہا ہے ۔ بلکہ وزارتِ داخلہ نے پورے ملک کی ریاستی سرکاروں کو ہدایت دی ہے کہ حراستی مراکز بنائے جائیں تاکہ جن افراد کے کاغذات نہیں ہیں انہیں غیر ملکی قرار دے کران میں رکھا جاسکے! یہ سب کھلے طور پر ساری دنیا کے سامنے ہورہا ہے پھر بھی جھوٹ پر جھوٹ بولاجارہا ہے ۔ جھوٹ کے سہارے بہت زیادہ دنوں تک حکومت نہیں چل سکتی ۔ جھوٹ ایک معتدی مرض کی طرح ہے ، حکمراں جھوٹ بولیں گے تو ان کے حکام، ان کی پولس جھوٹ بولے گی ، جیسا کہ یوپی پولس کے حاکم اعلیٰ اوپی سنگھ نے کہا کہ ’’مظاہرین میں سے کوئی بھی پولس کی گولی سے نہیں مارا گیا کیونکہ پولس نے ایک بھی گولی نہیں چلائی۔‘‘پر سچ یہی ہے کہ پولس نے گولیاں چلائیں اور سیدھے سینوں پر چلائیں ۔ پولس ’غلام‘ ہے ، اس نے ’ حاکم‘ کا ’ حکم‘ سنا کہ ’بدلہ لو‘ ان سے جو کالے شہریت قانون اور این آرسی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ۔ اور بدلہ اس طرح لیا گیا کہ 20 سے زائد افراد کے سینے سرخ کردیئے گئے ، ہزاروں کے خلاف مقدمات قائم کردیئے گئے ، دوکانیں اور املاک ضبط کرلی گئیں ، گالیاں دی گئیں اور کہا گیا کہ ’’تمہارے لئے دو استھان، پاکستان یا قبرستان‘‘۔ بجنور میں بیس سالہ سلیمان کے پیٹ میں گولی ماری گئی ۔ سلمان کی غمزدہ ماں اکبری روتے روتے کہتی ہیں ۔’’میرا بیٹا ایک بڑا افسر بننا چاہتا تھا لیکن ملک اورآئین کی حفاظت کے لئے شہید ہوگیا۔‘‘ شہید سلیمان یوپی ایس سی امتحانات کی تیاریاں کررہا تھا، اس کا خواب تھا کہ وہ کلکٹر بنے ۔ پر ایک غریب نوجوان کو وہ بھی ایسے نوجوان کو جس کا نام سلیمان ہو ، یوگی سرکار کیسے کلکٹر بنتے ہوئے دیکھ سکتی تھی۔ گولی ماردی۔۔۔!! انس عمر میں سلیمان سے صرف پانچ سال بڑا تھا جب پولس کی ایک گولی نے اس کی سانسوں کے سلسلے کو روک دیا۔ بجنور میں اس کے غمزدہ والدین کہتے ہیں کہ ان کے بچے کا ’ مظاہروں‘ سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ پر پولس کیا ماننے والی ہے ، وہ تو لکھنؤ کے اس 15 سالہ بچے کو بھی جو ساتویں کلاس کا طالب علم ہے ’گرفتار‘ کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زورلگارہی ہے ۔ وہ اپنی بہن کے گھر جارہا تھا کہ پولس کی گولی اس کی پیٹھ کو چیرتے ہوئے گذرگئی تھی۔ اس فہرست میں 19 سالہ محمد جمال کا نام بھی شامل ہے جو لکھنؤ کے اسپتال میں پڑا ہوا ہے ۔ یہ فہرست بہت لمبی ہے مظفر نگر سے لے کر میرٹھ تک یوگی کی پولس نے مسلمانوں کے خلاف ’ جنگ‘ لڑی ہے ۔ جو بھی فیکٹ فائنڈنگ ٹیمیں میرٹھ ، بجنور، مظفر نگر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گئی ہیں انہوں نے پولس مظالم کی ایک ایک تفصیل پیش کردی ہے ۔ پولس ہر جگہ نہتے اور بے قصوروں کو مارتی رہی ، قریب سے ان پر گولیاں داغتی رہی اور مقدمے بناتی اور گرفتار کرتی رہی ـ ضعیفوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ مظفر نگر کے ایک ٹمبر مرچنٹ 72 سالہ حاجی حمید حسن کی داستان سن لیں، پولس ان کے دومنزلہ مکان میں گھس گئی اور سارے مکان کو تہس نہس کردیا ، ان کی فریاد پر کہا کہ تم لوگوں کے لئے دوہی استھان ہیں ، پاکستان یا قبرستان ۔ انہیں ڈنڈوں سے پیٹا گیا، ان کے ٹخنوں اور گھٹنوں پر ڈنڈے برسائے گئے ۔ گھر کا سارا سامان لوٹ لیا گیا ۔ 4 فروری کو ان کے گھر میں شادی ہے پر سارے زیورات اور پانچ لاکھ روپئے لوٹ لئے گئے ۔ پولس تنہا نہیں تھی ، سادہ لباس میں بھی لوگ تھے جو بقول مظلومین آر ایس ایس کے رضاکار تھے ۔ لکھنؤ، بجنور ، میرٹھ ، مظفر نگر کی عورتوں اور بچوں نے رونگٹے کھڑے کردینے والی کہانیاں سنائی ہیں ۔۔۔ گھروں کے اندر پولس افسر اپنے سپاہیوں کو حکم دے رہے تھے کہ’’ان کے گٹھنوں اور پیٹ پر مارا جائے ۔‘‘
ظلم تو ہوا ہے پر حوصلے توڑےنہیں جاسکے ہیں ۔ ایک جانب یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے دفتر سے یہ ٹوئٹ کیا جارہا ہے کہ ’’پرتشدد مظاہروں پر کیسے قابو پایا جائے اس کی روشن مثال‘‘ پر دوسری طرف مظاہرے اور احتجاج بند نہیں ہوئے ہیں ۔ حالانکہ مسلمانوں سے ’ بونڈ‘ تک لئےگئے ہیں۔ یوگی کہہ رہے ہیں کہ ’’ ہم نے سب کو چپ ؍ خاموش کرادیا ہے ‘‘ یا باالفاظ دیگر سب کی بولتی بند کرادی ہے ۔۔۔ پر میرٹھ کی آواز سنیئے ،ظلم اور ستم کے باوجود لوگ کہہ رہے ہیں ’’بھلے ہی سرکار ہمارے بچوں کو شرپسند کہے اور اخبار والے فسادی کہیں ، مگر ہمارے بچے دیش کے لئے قربان ہوئے ہیں۔‘‘ آج جب کہ مقامی پارٹیوں نے ، کیا سماج وادی پارٹی اور کیا بہوجن سماج پارٹی اور ان کے مسلم اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمنٹ نے ’ ساتھ ‘ چھوڑ دیا ہے تب بھی میرٹھ سے اٹھنے والی ایک نوجوان صحافی سلیم صدیقی کی یہ آواز سن لیں:’ ’ بی جے پی اور آر ایس ایس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم چپ ہیں اس لئے کمزور ہیں مگر ہماری خاموشی کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، ہر بات کی حد ہوتی ہے ، جب طلاق ثلاثہ بل قانون بنا تب ہم چپ رہے ، جب بابری مسجد کے خلاف فیصلہ آیا تب ہم چپ رہے ، مگر کبھی نہ کبھی تو لاوا پھوٹنا ہی تھا۔‘‘ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کے احتجاج اور مظاہروں سے یہ لاوا پھوٹا ہے ، اس میں بہت ساری یونیورسٹیاں اورطلبا شامل ہیں ،بھیم آرمی بھی شامل ہے ، ونچت اگھاڑی بھی ،برہمن بھی، ٹھاکر، سکھ ، اور عیسائی بھی ۔ بلکہ سارا ہندوستان شامل ہے ۔۔۔ تو مودی جی ، امیت شاہ ، یوگی اور ان کے حواری کان کھول کر سن لیں کہ سارا ملک ، سارا بھارت کہہ رہا ہے ’’ہم ڈرتے نہیں ہیں ۔۔۔ ہم ڈرے نہیں ہیں۔‘‘
مولانا محمد علاءالدین ندوی
استاذدارالعلوم ندوة العلما، لکھنٶ
سب سے پہلے تو میں اپنے ملک میں پھیلے تعلیمی اداروں کے اُن باشعور اور غیرت مند طلبہ کو اور وطن کے سبھی باشندوں کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد دوں گا جو شہریت کے نئے کالے قانون کے خلاف پورے ملک میں صدائے احتجاج درج کرا رہے ہیں، اس لئے مبارکباد پیش کروں گا کہ نفرت کی دیواریں کھڑی کرنے والے اس قانون کے دور رس اثرات اور بھیانک نتائج کو انہوں نے سمجھا کہ کس چابکد ستی اور صفائی کے ساتھ قانون کا سہارا لے کر دستور کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اور ملک کے عوام کو بانٹنے کا کام کیا گیا ہے، وہیں مذہب کی بنیاد پر ایک کمیونٹی کو ملک کے قومی دھارے سے الگ تھلگ کرنے کی پالیسی کے مد نظر غیر آئینی، غیر جمہوری اور انسان دشمنی پر مبنی یہ بل پاس کرایا گیا ہے۔ملک کے طلبہ نے نہ صرف یہ کہ اس بل کے خطرناک منصوبوں کو سمجھا بلکہ اس کے خلاف زور دار آواز بلند کی اور سیکولر ملک کے دستور کی حفاظت کے لئے ہر جبر و تشدد کے باوجود سینہ سپر رہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ طلبہ کے اس جوش و جذبے اور ان کی بیدار مغزی اور ان کی ہمت مردانہ کو سلام کرتا ہوں اور اُن کے اس قابل فخر تاریخی اقدام جو جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مسلم یونیورسیٹی علی گڑھ سے شروع ہوا ہے کو روشن مستقبل کا اشارہ سمجھتا ہوں۔ اے گلشن ہند کے بلبلو اور مستقبل کے معمارو! اسی عزم و پامردی کے ساتھ تم آگے بڑھتے رہو، تم دیکھو گے کہ لوگ آتے جائیں گے اور آزادی کا تمہارا یہ کارواں بڑھتا چلا جائے گا۔
شہریت ترمیمی بل کے پاس ہو جانے کے بعد سے ایک طرف باشندگان ہند کے عوام میں روز بروز بے چینی بڑھتی جا رہی ہے ، مزاحمت میں ہر دن شدت آرہی ہے، جو ایک خوش آئند اشارہ ہے کہ اس ملک کے عوام خاص طور سے طلبہ ہندوستان کو توڑنے کی ہر سازش کو ناکام بنا کر رہیں گے۔
ان حالات میں مسلم قیادت پہ سوالات کھڑے کئے جارہے ہیں، دور قریب سے یہ آواز سنائی دے رہی ہے کہ کہاں ہے مسلم قیادت؟ کیوں ان کی زبانوں پہ مہر لگ گئی ہے؟ قیادت کے حوالے سے نا زیبا الفاظ بھی زبانوں پر آرہے ہیں اور عام طور سے لوگ مایوسی کا اظہار کرتے سنے جاتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر قیادت (لیڈر شپ) ایک باشعور، باصلاحیت، مخلص اور بیدار مغز ہیئت ترکیبی کا نام ہے تو ہندوستانی مسلمانوں میں وہ قیادت موجود ہے، وہ ہرگز بانجھ نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی فرد واحد کی آمریت، یا کسی متفق علیہ نجات دہندہ کا نام قیادت ہے تو مسلم قوم ایسی قیادت سے یقیناً محروم ہے۔ لیکن اس قسم کی سوچ ناقص علم و آگہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔
ہندوستان میں مسلم قیادت ہے، یعنی وہ قیادت موجود ہے جو قرآن و سنت کی کسوٹی پر کھرے اترنے والے اصولوں کی روشنی میں ملت کی رہنمائی کی اہلیت رکھتی ہے۔ کیا اس اہلیت کے بغیر ہی مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیۃ علمائے ہند، جماعت اسلامی ہند، جمعیۃ اہل حدیث، بریلوی مکتبۂ فکر اور اہل تشیع کی اپنی اپنی تحریکیں اپنے اپنے کاز میں سرگرم سفر ہیں۔ اصل سوال اس وقت یہ ہے کہ یہ تنظیمیں کہاں روپوش ہیں؟ یہ اپنی الگ الگ قیادتوں کے ساتھ مشترکہ ملی، قومی اور وطنی مسائل پہ مشاورت کے لئے ابھی تک یکجا کیوں نہیں ہوئیں؟ دستور اور ملک و ملت کے بچاؤ کی خاطر ان کی فکر مندی، ان کی سرگرمیاں اور ان کی فراست ایمانی کے جلوے ابھی تک کیوں نمودار نہیں ہوئے؟ اگر یہ تنظیمیں اپنی اپنی مصلحتوں کی بنا پر متحدہ پلیٹ فارم تشکیل نہیں کر سکتیں تو کم از کم مشترکہ مفادات میں مشاورت تو کر سکتی ہیں، لائحہ عمل وضع کر کے ملت کی رہنمائی تو کر سکتی ہیں، بکھرے ہوئے منتشر اجزاء کو جوڑ کر ایک متعین سمت ِسفر کی سمت رہنمائی تو کر سکتی ہیں، اگر یہ سب کر سکتی ہیں تو پھر کیوں اقدام نہیں کر رہی ہیں؟ آخر کس دن کا انتظار ہے؟
ہندوستانی مسلمانوں کو اس امر میں سخت حیرانی ہے کہ شہریت ترمیمی بل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے ملت کے جگر گوشوں اور تعلیمی اداروں کے طلبہ نے جس بیدار مغزی کا ثبوت دیا ہے اور میدانِ انقلاب میں کود پڑے ہیں امت کے قائدین ان بچوں کی ہمت افزائی کرنے، ان کے سروں پر ہاتھ رکھنے اور اور ان کی پشت پناہی کرنے کے لئے ایک ہنگامی میٹنگ تک نہیں بلاپائی۔ اگر طلاق ثلاثہ جیسے ایک جزوی مسئلے پر ملت کے ذی ہوش اکابر اور ذمہ دار حضرات بار بار میٹٹنگیں کر سکتے ہیں تو اس وقت اس بل کے سلسلے میں اس قدر سرد مہری کا مظاہرہ کیوں؟ یہ مسئلہ تو ان کے وجود و بقاء کا مسئلہ ہے۔ اگر اس وقت نہ اٹھے تو مستقبل کا مورخ ہرگز ان کو معاف نہیں کرے گا۔ طلبہ نے جس مورچے کا انتخاب کیا ہے ( اور اسی کی ہار و جیت میں دستور ہند کی حفاظت پنہاں ہے ) اس مورچے کو مسلم قیادت کی بھر پور حمایت اور پشت پناہی حاصل نہ ہوئی تو اس قیادت پہ ظلم کی تائید کرنے کا الزام عائد ہوگا جو تاریخ کے ضمیر کی آواز ہوگا۔
آزاد ہندوستان میں مسلمانوں پہ بڑے بڑے طوفان آئے، لیکن کوئی طوفان، کوئی آفت، کوئی سازش اتنی گہری، ایسی خطرناک نہیں تھی۔ جو ایکٹ لایا گیا ہے وہ مسلمانوں کے وجود کو ملیامیٹ کر ڈالنے والا ہے، اپنے باپ دادا کے ملک میں ان کی جڑ بنیاد کھود ڈالنے والا ہے۔ شہریت ایکٹ کے پردے میں ملک کے سیکولر ڈھانچے پر حملہ کر کے یہاں کے باشندوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا منصوبہ ہے۔ اسی مذہبی تقسیم ہی کی بنیاد پر یہاں کی قومیت کو اعلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ جوڑا جائے گا پھر اعلی ذات کے ہندوؤں کے علاوہ یہاں کا ہر شہری دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری ہو گا، جس کے لئے مستقبل کے ہندو راشٹریہ میں کوئی جگہ نہ ہوگی۔ اگر اس وقت مسلم قیادتیں اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں سے باہر نہیں آتیں، اپنی اپنی مصلحتوں کے خول سے نہیں نکلتیں، یا گھر بیٹھے ہی کم از کم اپنے جگر گوشوں کے انقلابی مزاحمت کی رہنمائی نہیں کرتیں، اگر حالات کی پکار اور وقت کے ضمیر کی آواز کو نہیں سنتیں ڪ، اگر ملک کے تانا بانا کو بکھرنے سے بچانے کی ذمہ داری نہیں اٹھاتیں۔ اگر اپنی سرد مہری کو ترک کرکے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے جس مبارک اقدام کا آغاز ہوا ہے اُس کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے اپنے مثبت رویوں اور ایمانی جذبے سے غذا نہیں پہنچاتیں، تو آج چند لمحوں کی غفلت صدیوں کے لئے اور شاید اپنے وطن عزیز میں ہمیشہ کے لئے امت اسلامیہ کا نام و نشان مٹا دے گی۔
اس لئے میں دست بستہ ملت کے قائدین سے درخواست کرتا ہوں کہ حقوق کی لڑائی اور دستور کی حفاظت کے جس مبارک کام کا آغاز آپ کے جگر کے ٹکڑوں اور ملک کے باضمیر عوام نے کیا ہے اسے نتیجہ خیز بنانے کے لئے اٹھئے اور اسے لمبے عرصے (Long Term) تک جاری رکھنے کے لئے، ان کی بر وقت صحیح رہنمائی فرمائیے۔ ابھی تک جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہ ایک منتشر بھیڑ ہے اسے مزید مفید، کار آمداور منصوبہ بن طریقے سے انجام تک پہنچانے کے لئے خدا را آگے آئیے کیونکہ پورا ملک آپ کو امید و بیم کی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ جنگ نہ جیتی گئی تو پورا ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا، نہ بھی ہوا تو ملت کو ایسا نقصان پہنچے گا جس نہ تو تصور کیا جا سکتا ہے نہ ہی بعد میں اس کی تلافی کا کوئی امکان ہے۔ گستاخی معاف کیا جائے تو میں جرأت بیجا کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمعیۃ علماء کے صدر محترم سے گزارش کروں گا کہ اپنی فراست ایمانی اور بصرت افروزی سے صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کی صحیح رہنمائی فرمائیے اور اس کاز کے لئے فوری طور پر مختلف تنظیموں کے قائدین کو جمع کر کے ملک و ملت کے مفاد میں مثبت، دیرپا اور قابل حل لائحہ عمل تیار کیجئے۔ اللہ آپ سے راضی ہو۔ اس کا ارشاد ہے: یٰآیھا الذین اٰ منوا اصبروا و صابروا و رابطواو اتقوا اللہ لعلکم تفلحون(آل عمران:۲۰۰) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پا مردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو، امید ہے کہ تم فلاح پاؤگے۔
نایاب حسن
سینٹرل ہندوستان میں سی اے اے/این آرسی کے خلاف احتجاجات کی لہر تعلیمی اداروں اور دانش گاہوں سے اٹھی ہے،جہاں ملک کا منتخب ترین طبقہ رہتاہے اور جس کے بارے میں کہاجاتاہے اور صحیح کہاجاتاہے کہ یہی طبقہ ملک کے مستقبل کا معمار،اس کی امنگوں کامرکز اوراس کی آرزووں کاقبلہ ہوتاہے۔یہ بھی ایک حسن اتفاق ہے کہ یہ لہر جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اٹھی اور پورے ملک کی تعلیم گاہوں اورعام شہریوں میں پھیل گئی، حتی کہ اس کی صداے بازگشت آکسفورڈ، کیمبریج اوریالے تک سنی جانے لگی ـ 1920میں گاندھی،علی برادران اور شیخ الہند وغیرہ کے ہاتھوں اس یونیورسٹی کی پیدایش تحریکِ عدم تعاون کی کوکھ سے ہوئی تھی اور2019میں موجودہ فاشسٹ حکومت کے خلاف پرزوراور توانامزاحمت کی علامت کے طورپر اس کا”ری برتھ“ہواہے۔جامعہ،ابناے جامعہ،منتسبینِ جامعہ اورملک بھر میں اس تازہ تحریکِ عدم تعاون سے جڑے لوگوں کے لیے یہ اتفاق باعثِ فخر ہوناچاہیے۔
اس تحریک کولگ بھگ آدھے مہینے کا عرصہ ہونے جارہاہے،مگر اس کی انرجی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے،آج تیسرے جمعے کوبھی جھارکھنڈ کے جمشید پورسے لے کر بہار کے چمپارن اور کرناٹک کے منگلور سے لے کر ممبئی کے آزاد میدان تک سے ہزارہامظاہرین کی تصویریں آئی ہیں،مردودیوگی نے گرچہ یوپی میں تمام وسائل و ذرائعِ اطلاعات پر پابندی لگارکھی تھی،مگر متعددشہروں سے پرامن احتجاج کی خبریں مل رہی ہیں۔مظاہرین میں اس انرجی کے کئی سورسزہیں،جن میں سے ایک اہم تویہ ہے کہ لوگوں میں اس ملک کے دستور،سیکولرزم اور مساوات کے حق کو بچانے کا ایک نہایت مضبوط جذبہ پیدا ہوگیاہے اور وہ جذبہ اب سردہونے والانہیں ہے،دوسرے ایسی تحریکوں کو انرجی دانشوروں،مصنفوں،ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں سے بھی ملتی ہے؛چنانچہ اس تحریک سے رام چندرگوہا،اروندھتی رائے، یوگیندریادوجیسے دانشوران کی وابستگی بھی اہم ہے اور محمد ذیشان ایوب،سوارابھاسکر،انوراگ کشیپ،سنیل گرور، رچاچڈھا اور سشانت سنگھ وغیرہ جیسے اداکاروں کی عملی شرکت سے بھی ان مظاہروں میں انرجی آرہی ہے، متعدددیگر فلم اداکاروں اورہدایت کاروں نے بھی طلبہ کے ذریعے چھیڑی گئی اس تحریک کی تائید کی،طلبہ پرپولیس کی زیادتی کی مذمت کی اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے احتجاج کرنے والی اس نئی نسل کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ہندی اور انگریزی کے متعدد شاعر و ادیب بھی اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں اور مارکیٹ میں سب سے زیادہ رائج ناول نگارچیتن بھگت جیسے مودی بھگت بھی اب کھل کر مودی حکومت پرنقد کررہے ہیں ۔البتہ اردوکے شاعروں اور ادیبوں نے مجموعی طورپر مایوس کیاہے،حالاں کہ متعدد نوجوان شعرانے احتجاجی نظمیں اور غزلیں لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کیااور مظاہرین کو حوصلہ دیاہے،معروف طنزومزاح نگار مجتبی حسین اور شیریں دلوی نے احتجاجاً اپنے ایوارڈزواپس کیے ہیں،اسی طرح رحمان عباس اورمشرف عالم ذوقی جیسے دوچارلوگ ہیں، جوشروع سے شہریت ترمیمی قانون اوراین آرسی پرکھل کرلکھ رہے ہیں،مگرمین سٹریم کے بیشتر شاعروں اور ادیبوں کی جانب سے کوئی حوصلہ بخش رسپانس،کوئی مضبوط سٹینڈ سامنے نہیں آیاہے۔حالاں کہ ایسی عوامی تحریکوں میں ایسے لوگوں کی بڑی ضرورت ہوتی ہے، شاعر اور ادیب عوامی احساسات کے ترجمان ہوتے اور ان کی نبض پہچانتے ہیں،وہ ایسے موقعوں پر انقلاب کے نعروں میں تب و تاب پیدا کرسکتے اور نوجوانوں کے حوصلوں کوقوتِ پرواز عطا کرسکتے ہیں،مگر موجودہ ادبی منظرنامے پر زیادہ تر اردوکے ادیبوں کے کارنامے مانگے کے اجالے ہوتے اور بیشتر شاعر کاروباری ہوتے ہیں،سوان سے ایسے کسی رسک کی توقع نہیں کی جاسکتی،مگر چوں کہ یہ تحریک ملک کے منتخب ترین طبقے یعنی طلبہ کے ذریعے شروع کی گئی ہے،سوانھوں نے اپنی پسند اور معیار کے مطابق اردوشعروادب سے ایسی آوازیں تلاش کرلی ہیں،جن سے انھیں اپنے جذبات کے توانااظہار میں مدد مل رہی ہے۔ان میں سے ایک حبیب جالب ہیں ـ گزشتہ دنوں جے این یو میں سٹوڈینٹ یونین کے انتخابات کے دوران ایک طالب علم ششی بھوشن کے ذریعے ان کی مشہورِزمانہ نظم”دستور“سوشل میڈیاپر خوب وائرل ہوئی تھی اور عصری دانش گاہوں کے ماحول میں اس کی گونج ابھی سنی ہی جارہی تھی کہ اب یہ نئی تحریک شروع ہوگئی، سوجامعہ ملیہ کے باہر،جنتر منترپر یا دہلی پولیس کے ہیڈکوارٹر کے باہراحتجاجات کے دوران آپ کو ایسے طلبہ و طالبات آسانی سے مل جائیں گے،جواپنے اپنے مخصوص لب و لہجے میں جالب مرحوم کی احتجاجی آوازسے آواز ملاتے ہوئے”میں نہیں مانتا،میں نہیں جانتا“کے زمزمے بلند کررہے ہوں گے۔دہلی کے باہر کے شہروں میں ہونے والے احتجاجات میں بھی اس نظم کی گونج بہت تیزی سے سنی جارہی ہے۔اس کے علاوہ مختلف پلے کارڈزاور بینرزپر بھی اس کے مصرعے دیکھے جاسکتے ہیں،جالب صاحب کی اس نظم میں،اس کے مصرعے مصرعے میں ایک سحرہے،اسے سنتے ہی دل دماغ میں مزاحمت اور احتجاج کی لہریں اٹھنے لگتی ہیں،چوں کہ جالب مرحوم قول و عمل ہر دواعتبار سے سسٹم کی ناانصافیوں اور حکومتی مظالم کے خلاف ایک چٹان تھے، انھوں نے پوری زندگی لڑتے ہوئے گزاری،سوان کی نظموں میں؛بلکہ ان کے مصرعوں میں آج بھی ایک عجیب تاثیر ہےاوراسی تاثیرمیں ڈوب کر ہندوستان کے نوجوان مودی-شاہ کی جوڑی کوچیلنج کرنے نکلے ہیں ـ دوسرے فیض احمد فیض ہیں اور خصوصاان کی نظم”ہم دیکھیں گے“اپنی تمام تر معنویتوں کے ساتھ اس تحریک پر چھائی ہوئی ہے۔فیض کی خوش قسمتی ہے کہ وہ خود اپنی نظموں اور غزلوں کو جس بھدے لہجے میں پڑھتے تھے،انھیں اپنی زندگی میں اور وفات کےبعد اتنے ہی اچھے گانے والے ملے ہیں۔اقبال بانو،نیرہ نور،فریدہ خانم،ٹیناثانی وغیرہ سے لے کر آج کے ہندوپاک کے گانے والے تو انھیں گاہی رہے ہیں،کئی برٹش سنگرزبھی فیض کو گارہے ہیں اور اچھا گارہے ہیں۔ہمارے اِن احتجاجات کے دوران بھی فیض کو نئے سنگرزملے ہیں،دہلی میں جامعہ،جے این یو،ڈی یو وغیرہ اور دیگر شہروں کے طلبہ و طالبات کی بہت سی ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں، جن میں وہ اپنے مخصوص بے ساختہ اور جذبات سے معمور لب و لہجے میں ”ہم دیکھیں گے!“کی صدائیں بلند کررہے ہیں،قابل ذکرہے کہ فیض کی اس نظم کا اصل عنوان ہے”ویبقی وجہ ربک“جوایک قرآنی آیت کا اقتباس ہے اور اس میں جہاں انقلابی خیالات کا طاقت ور اظہارہے،وہیں ایک خداکے وجود اوراس کی وحدانیت کابھرپور بیان بھی ہے۔اِنہی احتجاجات کے دوران چنددن قبل آئی آئی ٹی کانپورکے طلبہ کی ایک ویڈیووائرل ہوئی تھی کہ کالج کے اوپن ایئرتھیٹرمیں سیکڑوں طلبہ موجودہیں اور ایک طالب علم یہ نظم پڑھ رہاہے،ترنم سے نہیں، تحت اللفظ، پڑھتے پڑھتے جب وہ اس شعر پر پہنچتاہے”بس نام رہے گااللہ کا…جوحاضربھی ہے غائب بھی“ توایک لال ٹوپی والے مہاشہ یہ چلاتے ہوئے مجمع میں گھسنے کی کوشش کرتےہیں کہ”یہ نہیں چلے گا“۔مطلب یہ لطیفہ ہی ہوگیا،بے چارہ ”اللہ“لفظ سن کرہی بھڑک گیا۔ اسے لگاکہ پڑھنے والاشایداسلام کی تبلیغ کررہاہےـ خیر یہ ایک واقعہ ہے،مگر ان احتجاجات کے دوران آپ کو جگہ جگہ ایسے طلبہ و طالبات کاگروپ مل جائے گا،جو فیض کےہم آواز ہوکر”ہم دیکھیں گے“کے نعرے لگارہے،مودی و شاہ کے فاشزم کے سامنے سینہ سپر ہوکربازارمیں پابجولاں چلنے کی قسمیں اٹھارہے،لبوں کی آزادی اور زبان کی قوت کا اظہار کرتے ہوئے ظلم وجورسے خلقِ خداکے الجھنے کی روایت کو زندہ کررہے اورجو آگ میں پھول کھلانے کے سفر پررواں دواں ہیں ۔راحت اندوری کا ایک شعر بھی ان مظاہروں میں بڑا چل رہاہے،شعر کوئی تیس پینتیس سال پراناہے،مگر جب سے بی جے پی حکومت میں آئی ہے،اسے نئی زندگی مل گئی ہے،گزشتہ سال انھوں نے کپل شرماکے شومیں اسے سناکر پورے ہندوستان کے کانوں اور ذہنوں میں پہنچادیاتھا،گزشتہ جون میں پارلیمنٹ میں مہواموئترانے اسے پڑھاتھا،اداکارامالاپال اور فلم سازعاشق ابونے اس کا ملیالم ترجمہ انسٹاگرام پر پوسٹ کیا اور شیوسینا لیڈر سنجے راوت نے اسے ٹوئٹ کیاتھا،حالیہ احتجاجات کے دوران جگہ جگہ ایسے پلے کارڈزنظر آجائیں گے،جن پر یہ شعر لکھاہوانظرآئے گا:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے!
25دسمبر کوتو معروف انگریزی روزنامہ ”انڈین ایکسپریس“نے اس شعر پر خصوصی رپورٹ بھی شائع کی تھی،راحت اندوری سے رپورٹرکی گفتگو کےچند اقتباسات بھی نقل کیے گئے تھے، گفتگوکاآخری جملہ یہ تھا ”میرے آس پاس جو کچھ ہورہاہے، اس پر اگر میں نہ لکھوں،تو میرے اور نیروکے درمیان کیا فرق رہ جائے گا؟اگر میرے شہر اور ملک میں آگ لگی ہوئی ہے اور میں اپنی محبوبہ کی زلفوں کی شان میں قصیدے لکھ رہاہوں،تویا تومیں اندھاہوں یا بہراہو“۔
بہرکیف حکومت کے خلاف اٹھنے والی اس ملک گیرتحریک پرگرچہ زیادہ تراردوکے شاعروں اور ادیبوں نے افسوسنا ک سردمہری کامظاہرہ کیاہے،مگر جالب و فیض کی روحیں ان مظاہرین پر سایہ فگن ہیں اور راحت اندوری تازہ نہ سہی،پرانے اشعار کے ساتھ ان کے درمیان موجودہیں۔ اگریہ انقلاب کامیابی سے ہم کنارہوتایااس کے ذریعے ہندوستانی جمہوریت کی بقا واستقلال کی راہیں ہموارہوتی ہیں، تواس میں جہاں ہمارے نوجوانوں کی عملی جدوجہد اورقربانیوں کادخل ہوگا، وہیں اس میں حبیب جالب، فیض احمدفیض اوردیگر شعراوادباکی بھی حصے داری بھی، جن کے نتائجِ فکران کے جذبۂ عمل وانقلاب کو مہمیز کر رہےاوران کے حوصلوں کوتوانائی بخش رہے ہیں ـ
https://youtu.be/y8UAD_awltw
محمد علم اللہ
شہریت ترمیم قانون اور مجوزہ این آر سی کے خلاف ملک گیر تحریک جاری ہے۔ہر چند کہ یہ تحریک ابھی ختم نہیں ہوئی ہے؛لیکن اس نے بہت سے نتائج ابھی سے دے دیے ہیں۔
اول: ملی قائدین کہے جانے والے دلال اگر ضمیر بیچ کر خاموش ہو جائیں تو بھی خود قوم ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کسی ارشد مدنی، ولی رحمانی، کلب جواد یا محمود مدنی کے بغیر چلائی جانے والی تحریک زیادہ مؤثر اور کامیاب ہو سکتی ہے۔
دوم:جامعہ اور اے ایم یو کے اساتذہ اپنےاحتجاجی طلبہ کے ساتھ پوری طاقت کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں جبکہ ندوہ اور دیوبند کے منتظم اور اساتذہ اپنے احتجاجی طلبہ کو ہی ڈرانے دھمکانے میں لگے ہوئے ہیں۔
سوم:دلالوں کے بے نقاب ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ مولانا ولی رحمانی نے اسی نتیش کمار سے ملاقات کی، جس کی پارٹی نے شہریت ترمیم قانون کی منظوری ممکن بنائی تھی۔ مولاناکلب جواد بھی حکومت کی خوشنودی کے لئے بیان بازی کر رہےہیں ۔
چہارم:مولانا ارشد مدنی کہ رہے تھے کہ احتجاج سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ان کو دیکھ لینا چاہیے کہ احتجاج نے ہی تحریک کو ملک گیر وسعت دی ہے۔
اس تحریک سے کچھ سبق بھی ملے ہیں۔
اول: اب اگر کسی اردو اخبار کے پہلے صفحہ پر مولاناارشد مدنی، مولانا ولی رحمانی، مولانامحمود مدنی یا مولاناکلب جواد کی لمبی لمبی پریس ریلیزیں چھپیں تو اس اخبار اور اس کے ممتاز رپورٹر پر لعنت ضرور بھیجیں۔
دوم: کسی جلسے میں اگر مذکورہ بالا ننگ ملت مدعو ہوں،تو وہاں بالکل نہ جائیں۔ اس سے ان لوگوں کی دکانیں جلد بند ہو سکیں گی۔
سوم: شہریت ترمیم قانون اور این آر سی مخالف تحریک کو مکمل طور پر پرامن رکھیں اور میڈیا یا پولیس کوتشددپھیلانے کا کوئی بہانہ نہ ملنے دیں۔
چہارم:تحریک میں سیکولر ذہن کے غیر مسلم بھائیوں کو ضرور شامل کریں۔ تحریک کو مذہبی رنگ نہ دیں اور ہر ممکن حد تک مذہبی علامتوں سے پرہیز کریں۔ یہ تحریک کسی مذہب کے لئے نہیں؛بلکہ آئین کےتحفظ لیے ہے۔
اشتیاق احمد چمپارنی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی
اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ این آر سی اور سی اے اے کا براہ راست نشانہ مسلمان ہیں لیکن خوشی اس بات سے ضرور ہے کہ مسلمان اب بیدار ہو چکے ہیں اور اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ کسی بہکاوے میں نہ آنا یہ ان کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہے.
موجودہ احتجاج کو دیکھتے ہوئے حکومت لوگوں کو بار بار یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ این آر سی اور سی اے اے مسلمانوں پر اثر انداز نہیں ہونگے اور جو ہندوستان کے شہری ہیں انہیں کچھ نہیں ہوگا لیکن اس یقین دہانی سے خوش ہوکر اس نئے پیش کردہ قوانین کے خلاف اپنی سرگرمیاں روک دینا اس حدیث کو نظر انداز کر نے کے مترادف ہوگا جس میں ہمارے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ مومن ایک بل سے دو بار نہیں ڈسا جاتا، کیا آپ کو بابری مسجد کا واقعہ یاد نہیں؟ جب نرسمہاراؤ کی حکومت اور سپریم کورٹ نے یقین دلایا تھا کہ مسجد نہیں توڑی جائے گی حتی کہ وہاں جمع ہونے والے کار سیوکوں نے بھی یہ کہا تھا کہ ہم لوگ ریہرسل کے لیے جمع ہورہے ہیں مسجد توڑنے کے لیے نہیں لیکن آخر کار مسجد گرا دی گئی، اگر اس بار بھی ہم نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا اور یقین کر لیا کہ اس ایکٹ کا اثر ہم پر نہیں پڑےگا تو یاد رکھیے ایک مرتبہ پھر ہم تاریخ میں گنہگار تسلیم کیے جائیں گے،
جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس ایکٹ کا مسلمانوں سے کچھ لینا دینا نہیں ان سے ذرا پوچھیے کہ جو حکومت بڑھتی ہوئی آبادی کو لے کر فکر مند ہے وہ کیسے چاہے گی کہ شہریت دیکر آبادی اور بڑھا دی جائے؟ یاد رکھیں یہ ایک بہت بڑی سازش ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد سے شہریت چھین کر باہری غیر مسلموں کو بسانا ہے بلکہ میرا خیال یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو شہریت سے محروم کردیا جائے گا اور جب تک آپ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائینگے بہت سارے الیکشن گزر جائیں گے اور آپ حق ووٹ اور سرکاری ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور پھر اس کا اثر کیا ہوگا آپ خود تصور کر لیجیے، اس لیے خدا را اس نئے قانون کی مخالفت کرنا مت چھوڑیئے، اس کے لیے ہمارے پاس سب سے بڑی طاقت پر امن احتجاج ہے اگر ہم نے احتجاج کرنا بند کر دیا تو یقین جانیے عدالت میں ہونے والی سماعت پر بھی اس کا اثر پڑیگا جو کہ ہمارے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، جیسا کہ بابری مسجد سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلہ سے ثابت ہوتا ہے جس میں یہ مانا گیا کہ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی اور مسجد توڑنا غلط تھا لیکن آخری فیصلہ اکثریت کے حق میں آیا، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہماری خاموشی اور اکثریت کی طرف سے بار بار مندر وہیں بنانے اور فتنہ و فساد کی دھمکی نے سپریم کورٹ پر ضرور دباؤ بنایا ہوگا؟ اور یقیناً دباؤ یہی ہوگا کہ مسلمانوں کے حق میں فیصلہ سے فتنہ و فساد ہوگا جبکہ ہندوؤں کے حق میں فیصلہ پر مسلمان خاموش رہینگے
امت شاہ جس پر جج لویا کو قتل کرنے کا الزام ہو، جس پر مظفر نگر فساد میں اہم رول ادا کرنے کا الزام ہو اس آدمی سے مسلمانوں کے لیے بھلائی کی امید رکھنا ہی جرم ہے؛ لیکن سی اے اے اور این آر سی کی خطرناکیت آپ اس وقت اور اچھی طرح سمجھ لینگے جب گجرات فساد میں امت شاہ کے گھناؤنے کردار کا مطالعہ کرینگے، یہی وہ آدمی ہے جس سے ایک سینیئر گجراتی صحافی راجیو شاہ نے سوال کیا تھا کہ آپ دونوں کمیونٹی کے لوگوں کو بلا کر بھائی چارے کے لیے کیوں نہیں کہتے؟ تو امت شاہ نے مسکراتے ہوئے صحافی سے پوچھا تھا تمہارا گھر کس جانب ہے؟ صحافی کے اس جواب پر کہ میرا گھر تو ہندوؤں کے علاقہ میں ہے امت شاہ کا جواب تھا کہ پھر تم فکر مت کرو تم کو کچھ نہیں ہوگا جو کچھ ہوگا مسلم علاقہ میں ہوگا یہ تھا اس آدمی کا جواب جو اس وقت گجرات کا وزیر داخلہ تھا اور آج بدقسمتی سے ہندوستان کا وزیر داخلہ ہے، یاد رکھیں یہ وقت ہمارے ملک کی جمہوریت کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے اگر ماضی کی طرح ہم اب بھی اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے تو ہماری آنے والی نسلیں کبھی بھی سر اٹھا کے نہیں چل سکیں گی اور اس کے ذمہ دار ہم ہونگے اس لیے کہ ظلم پر خاموش رہنا جرم ہے.
پٹنہ:معروف بالی ووڈایکٹر اور کانگریسی لیڈر شتروگھن سنہانے ایک نیوزچینل کو انٹرویودیتے ہوئے این آرسی اور سی اے اے پر زبردست تنقید کی ہے اور کہاہے کہ این آرسی دراصل انارکی ہے،جوپورے ملک کے امن وامان کو نقصان پہنچارہی ہے۔انہوں نے وزیراعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ پر بھی نشانہ سادھااورکہاکہ یہ دونوں گرچہ عوامی حمایت ملنے کی وجہ سے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہیں مگراس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دونوں ملک کے سب سے قابل لوگ ہیں،جس طرح انہوں نے بغیر سوچے سمجھے نوٹ بندی کا فیصلہ کیاتھا اسی طرح شہریت ترمیمی قانون پاس کیا ہے اور پورے ملک میں این آرسی کے نفاذ کا ارادہ رکھتے ہیں اور اب جب ملک بھرمیں احتجاجات ہورہے ہیں تو خبریں آرہی ہیں کہ یہ اس قانون پر نظر ثانی کررہے ہیں۔انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ پولیس کی زیادتی کی بھی شدید مذمت کی اور کہاکہ پولیس نے مجرمانہ حرکت کی ہے اورجو لوگ اس معاملے میں ملوث ہیں ان کی نشان دہی ہونی چاہیے اورانہیں سزاملنی چاہیے،ساتھ ہی انھوں نے ملک بھر میں این آرسی اور سی اے اے کیخلاف احتجاج کرنے والے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ احتجاج کو پرامن رکھیں اور کسی قسم کے تشددسے پرہیز کرتے ہوئے اس غیر دستوری و غیر آئینی قانون کیخلاف احتجاج کریں۔