چند دنوں قبل برقی پیغام رسانی کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے موبائل ایپ واٹس ایپ نے اپنی پرائیوسی پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دیا اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کردیا کہ جو صارف بھی اس تبدیل شدہ پالیسی سے اختلاف کرے گا،اس کا اکاؤنٹ 8/فروری کو ڈیلیٹ کردیا جائے گا۔یہ اعلان دنیا بھر میں واٹس ایپ استعمال کرنے والے کرڑوں صارفین کوموصول ہوا۔رپورٹس کے مطابق پہلے مرحلے میں یہ پیغامات ہندوستانی صارفین کو موصول ہوئے، جن میں زیادہ تفصیل تو نہیں بتائی گئی، مگر جب صارف اس پر کلک کرتا تو اس کے سامنے واضح پیغام نمودار ہوتا۔واٹس ایپ کی جانب سے جاری ہونے والے پیغام میں بتایا گیا کہ کمپنی کس طرح آپ کی ذاتی معلومات حاصل کر کے انھیں فیس بک کے لیے استعمال یا اسے فراہم کرے گی۔ مزید بتایا گیا کہ واٹس ایپ سروس استعمال کرتے ہوئے آپ کسی دوسرے بزنس کے ساتھ رابطے میں آتے ہیں، تو اس کی تمام معلومات کمپنی کے پاس پہنچ جاتی ہیں،جن کو فیس بک کی زیرملکیت دیگر ایپلی کیشنز سے شیئر کیا جاسکتا ہے۔واٹس ایپ کی جانب سے جاری نئی پالیسی کے مطابق ادارے کو اپنی مارکیٹنگ، سپورٹ، تبدیلیاں اور سروسز کو بہتر بنانے کے لیے صارفین کی معلومات درکار ہیں، جو نئی پالیسی کو قبول کیے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتیں۔اس سلسلے میں کمپنی کے ترجمان کاکہنا تھا کہ ”واٹس ایپ اپنی سروسز کو بہتر کرنے کے لیے فیس بک اور دیگر تھرڈ پارٹی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے ہوئے ہے، واٹس ایپ صارفین کی معلومات ان سے شیئر کی جاتی ہیں، اس اقدام کا مقصد صارفین کے مسائل کو حل کرنا ہے“۔
مگر اس اعلان کے بعد فوراً پوری دنیا میں بالعموم اور ہندوستان میں بالخصوص واٹس ایپ کے خلاف شدید ناراضی و بے اعتمادی پھیل گئی اور لوگ تیزی سے واٹس ایپ کے متبادل کی تلاش میں نکل پڑے۔رائٹرزنے اس حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی کہ واٹس ایپ کو ابھی تک ہندوستان میں بڑے پیمانے پر اَن انسٹال نہیں کیا گیاہے؛ لیکن پرائیویسی کے بارے میں فکرمند صارفین حریف ایپس جیسے سگنل اور ٹیلی گرام کو تیزی سے ڈاؤن لوڈ کررہے ہیں۔ تحقیقاتی فرمز کا کہنا ہے کہ صارفین کی جانب سے ایسا کرنے سے ان ایپس کے ڈاؤن لوڈ چارٹس بڑھ رہے ہیں اور یہ ایپس بھارت میں پہلی مرتبہ ہر جگہ عام ہورہے ہیں۔ ہندوستان میں 40 کروڑ صارفین واٹس ایپ کا استعمال کرتے ہیں اور سب سے زیادہ شدید رد عمل یہیں دیکھا جارہا تھا،جس کی وجہ سے واٹس ایپ نے پچھلے ہفتے کم از کم 10 انگریزی اور ہندی اخبارات میں کروڑوں روپے لاگت کے اشتہاری پیغامات شائع کرائے اور اپنے صارفین کو یقین دہانی کروانے کی کوشش کی کہ ان کی ذاتی معلومات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ کمپنی کے اعلان کو غلط سمجھا گیا ہے۔واٹس ایپ نے ایک اخبار میں کیے گئے اعلان میں کہا کہ آپ کی پرائیویسی کا احترام ہمارے ڈی این اے میں شامل ہے۔میسجنگ ایپ نے کہا کہ اس کی پرائیویسی پالیسی اپ ڈیٹ کسی بھی طریقے سے آپ کے دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ آپ کے پیغامات کی پرائیویسی کو متاثر نہیں کرتی۔واٹس ایپ نے یہ بھی کہا کہ پرائیویسی پالیسی کی تبدیلیاں صرف صارفین کے کاروباری تعلقات سے متعلق ہیں۔ اتناہی نہیں،واٹس ایپ نے کم ازکم دودن تک سٹیٹس کے ذریعے بھی تمام صارفین کو مطمئن کرنے کی کوشش کی اور وضاحت کرتا رہا کہ واٹس ایپ آپ کی ذاتی معلومات کسی سے شیئر نہیں کرتا ہے۔
واٹس ایپ کی سکیورٹی کے حوالے سے نئے خدشات کے بعد روسی میسنجر ٹیلی گرام کی صارفین کے تعداد عروج پر پہنچ گئی، ٹیلی گرام کے بانی نے اسے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ڈیجیٹل ہجرت قرار دیا۔روسی میڈیا کے مطابق روسی میسنجر ٹیلی گرام نے امریکہ،ہندوستان اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے۔ٹیلی گرام کی جانب سے سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ اس عالمی رجحان کے بعد دو صدور نے اپنے ٹیلی گرام چینلز شروع کیے، جس میں برازیل کے صدر جیر بولسنارو اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان شامل ہیں۔بانی کا کہنا ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون اور یوکرین کے صدر ولادی میر زیلینسکی کے علاوہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سمیت متعدد دیگر عالمی رہنماؤں نے بھی ٹیلی گرام میسنجر میں اندراج کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ متعدد عوامی تنظیمیں غلط استعمال سے نمٹنے اور اپنے معاشروں میں اہم امور کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے ٹیلی گرام پر انحصار کر رہی ہیں۔ٹیلی گرام کے بانی نے زور دے کر کہا کہ میسنجر مبہم الگورتھم پر عمل نہیں کرتا جس سے یہ طے ہوتا ہے کہ صارف اپنی مرضی کا مواد ہی دیکھ سکیں گے۔اس سے قبل ڈوروف نے اعلان کیا تھا کہ ٹیلی گرام استعمال کرنے والوں کی تعداد 500 ملین سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ صرف 3 دنوں میں 25 ملین افراد ٹیلی گرام کا استعمال شروع کرچکے ہیں۔کچھ لوگوں نے ترکی الاصل میسیجنگ ایپ بی آئی پی(BIP)کی طرف بھی ہجرت کی،خاص کر بنگلہ دیش اور انڈونیشیا وغیرہ میں زیادہ لوگ اس کی طرف منتقل ہوئے۔بہر کیف چند دنوں کے مسلسل ہنگاموں اور واٹس ایپ کی وضاحتوں کے بعد اب معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوتا نظر آرہاہے،ویسے بات اگرواقعتاً پرائیویسی کے تحفظ کی کریں تو فی الحقیقت انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کسی بھی شخص کی اب کوئی پرائیویسی نہیں رہ گئی؛کیوں کہ آپ کوئی بھی ایپلی کیشن انسٹال کرتے ہیں تو وہاں آپ کو اپنی ذاتی معلومات،درست فون نمبر یا ای میل آئی ڈی ہی سہی،ہر حال میں دینا ہوتی ہیں،اس کے بغیر آپ اسے انسٹال نہیں کرسکتے،استعمال نہیں کر سکتے؛بلکہ نیااسمارٹ فون لیتے ہی اسے ایکٹیو کرنے کے لیے سب سے پہلے انٹرنیٹ کے سہارے اس پر اپنا اکاؤنٹ بنانا ہوتاہے،تبھی آپ کا فون چلے گا،اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتا اور ظاہر سی بات ہے کہ اکاؤنٹ بنانے کے لیے آپ کو ذاتی معلومات تو دینی ہی ہوں گی،پس اب پرائیویسی وغیرہ کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا۔انٹرنیٹ،اینڈرائڈموبائل اور آئی فون کے عہد میں اگر پرائیویسی پچانی ہے،تو سرے سے ان چیزوں سے کنارہ کش رہنا ہوگا،ورنہ تو قدم قدم پر آپ کے ذہن میں اندیشے پنپتے رہیں گے۔ایک بہتر قدم وہ بھی ہوسکتا ہے،جس کی طرف 18/جنوری کو دہلی ہائی کورٹ نے اس تعلق سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے رہنمائی کی ہے کہ اگر آپ کو واٹس ایپ کے تعلق سے اندیشے ہیں،تو اسے اپنے فون سے ڈیلیٹ کردیں؛ کیوں کہ اگر زیادہ گہرائی میں جائیں گے،تو کسی بھی سوشل پلیٹ فارم پر آپ کی پرائیویسی محفوظ نہیں ہے۔ پس کونسا ایپ استعمال کرنا ہے اور کونسانہیں،یہ آپ کی پسنداور متعلقہ ایپ کی خوبیوں،فیچرز پر منحصر ہے،اس کے لیے یہ دلیل غالباً بیکار ہی ہوگی کہ فلاں کمپنی ہماری ذاتی معلومات کی حفاظت کرے گی اور فلاں نہیں کرے گی۔
سوشل میڈیا
ثنا خان صاحبہ نے جب توبہ کی، دین کی طرف پلٹیں، ظاہر ہے ہر دیندار شخص نے اس سے خوشی محسوس کی، سوشل میڈیا پر متعدد اہل علم نے ان کو اس پر مبارکباد بھی دی. لیکن پھر جس طرح وہ چہرہ کھول کر میک اپ کر کے ویڈیوز بنا کر آیات وأحاديث پڑھنے لگیں دین پسند طبقے میں اسے انتہائی تشویش کی نظروں سے دیکھا گیا، پھر بھی لوگ خاموش رہے، البتہ وہ نوجوان جو سوشل میڈیا پر دینداری کا چولا پہن کر اپنی ہوسناک طبیعت کو تسکین پہنچاتے ہیں انہوں نے ثناء خان کے انسٹا اکاؤنٹ پر خوب لائک اور کمنٹ کیے اور خوب داد وتحسين سے نوازا، ایسا لگتا تھا کہ جیسے ثناء خان سے پہلے کبھی کسی نے دین کی بات کی ہی نہیں تھی ـ خیر ان سب کے بعد ثناء خان نے مفتی انس صاحب سے نکاح بھی کر لیا. ظاہر ہے اس فیصلے پر بھی کوئی عقلمند کیوں اعتراض کرے گا، لیکن حیرت اس پر ہوئی کہ مفتی صاحب نے اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ الگ الگ پوز میں تصویریں کھنچائی، ویڈیوز بنوائے اور انہیں سوشل میڈیا پر نشر کیا ، کم از کم ایک مفتی اور ایک بالیوڈ سے توبہ کر لینے والی خاتون سے ایسی توقع نہیں تھی. خیر ہم نے پھر بھی ان سارے معاملات پر کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ خود علماء کے طبقے میں بہت سارے لوگ اس قسم کی باتوں کو دوسرا رنگ دینے لگتے ہیں ـ
مگر آج ایک ویڈیو پھر منظر عام پر آیا ہے جس میں مفتی صاحب اور ان کی یہ تائب ہو چکی زوجۂ محترمہ ایک دوسرے کو آیت الکرسی پڑھ کر نظر بد سے دور کر رہے ہیں؟ یہ کیا ہو رہا ہے بھائی؟ یہ کون سا دین پیش کر رہے ہیں آپ لوگ؟ کیا آیت الکرسی کی فضیلت بیان کرنے کے لیے اب ایسے ہی اوچھے طریقے اپنائے جائیں گےـ
جناب مفتی انس صاحب اور محترمہ ثناء خان صاحبہ! میاں بیوی کے درمیان بیشک شدید محبت ہونی چاہیے، ہر اعتبار سے ایک دوسرے کی فکر ہونی چاہیے مگر یہ رشتہ، محبت اور تعلق نہایت نجی اور پرائیویٹ چیز ہے، ہمارے دین میں قطعاً اس کی گنجائش نہیں ہے کہ میاں بیوی یوں اپنی محبت وتعلق کی نمائش کرتے پھریں. دنیا بھر میں بہت سارے لوگ ضرور اس قسم کی سطحی کرتے ہیں مگر وہ اسلام کے نام پر نہیں کرتے، مگر آپ دونوں کی ان حرکتوں سے اسلام رسوا ہو رہا ہے، ایک مفتی اور عالم کی شبیہ داغدار ہو رہی ہے، توبہ اور دین کی طرف رجوع کا ایک غلط مفہوم اور پیغام نوجوانوں میں جا رہا ہےـ
اگر آپ دونوں واقعی اپنی ازدواجی زندگی شریعت کی روشنی میں گزارنا چاہتے ہیں تو اللہ کے واسطے یہ اوچھی حرکتیں بند کر دیں اور ایک دوسرے کے ویڈیو سوشل میڈیا پر نہ ڈالیں. ثنا صاحبہ! زائرہ وسیم کی مثال آپ کے سامنے موجود ہے، اللہ کی اس بندی نے جب سے انڈسٹری چھوڑنے کا اعلان کیا ہے اور توبہ کی ہے اس کے بعد اپنی کوئی تصویر یا ویڈیو سوشل میڈیا پر نہیں ڈالا ہے، آپ جس طرح ویڈیو بنا بنا کر دین کی باتیں کر رہی ہیں معاف کریں ہمارا دین اس کی اجازت نہیں دیتاـ
امید ہے آپ دونوں میری اس تلخ نوائی کو برداشت کریں گے اور اپنی اصلاح کریں گےـ
سوشل میڈیا پر 50فیصد سے زیادہ لڑکیوں کے ساتھ ہورہی ہے بدسلوکی،سروے میں فیس بک پہلے نمبر پر
نئی دہلی:کچھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نصف سے زیادہ خواتین کو آن لائن ہراساں یا بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ایک نئے سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے۔ یہ اعدادوشمار ہندوستان میں لڑکیوں کے حقوق اور مساوات کے لئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) پلان انٹرنیشنل کے ذریعہ کئے گئے ایک سروے سے حاصل ہوا ہے۔ آن لائن زیادتی اور ہراساں کرنے کی وجہ سے لڑکیوں کو سوشل میڈیا چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔سوشل میڈیا پر کی جانے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ 58 فیصد سے زیادہ لڑکیوں کو کسی نہ کسی طرح کی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پلان انٹرنیشنل نے اس سروے میں برازیل، ہندوستان، نائیجیریا، اسپین، تھائی لینڈ اور امریکہ سمیت 22 ممالک میں 15 سے 25 سال کی عمر میں 14000 لڑکیوں اور خواتین کو منتخب کیا۔سروے میں 58 فیصد سے زیادہ لڑکیوں کا خیال ہے کہ انہیں آن لائن بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ پانچ میں سے ایک (19 فیصد) نوجوان لڑکی آن لائن ہراساں ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا کا استعمال روک یا کم کر دیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہراساں ہونے کے بعد ہر 10 میں سے ایک (12 فیصد) نے سوشل میڈیا پر اظہار رائے کے انداز کو تبدیل کیاہے۔خواتین پر حملے کے واقعات سوشل میڈیا پر عام ہیں۔ حملے کے واقعات فیس بک پر سب سے زیادہ عام ہیں، جہاں 39 فیصد خواتین نے بتایا کہ انہیں ہراساں کیاگیا۔ دوسری طرف انسٹاگرام پر 23 فیصد خواتین، واٹس ایپ پر 14، اسنیپ چیٹ پر 10، ٹویٹر پر 9 اور ٹک ٹاک پر 6 فیصد خواتین کو بدسلوکی یا ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔سروے کے مطا بق ہراساں کی جانے والی تقریبا نصف لڑکیوں کو جسمانی یا جنسی تشدد کا خطرہ تھا۔ ان میں سے بہت سی لڑکیوں نے بتایا کہ بدسلوکی نے انہیں ذہنی طور پر متاثر کیا اور ایک چوتھائی جسمانی طور پر غیر محفوظ محسوس ہوا۔ پلان انٹرنیشنل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) این برجٹ کے مطابق، سوشل میڈیا پر یہ ہراسانی جسمانی نہیں ہے، بلکہ اس سے خواتین کے اظہار رائے کی آزادی کو خطرہ لاحق ہے۔خاص بات یہ ہے کہ دنیا بھر کی لڑکیوں کی جانب سے فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور ٹویٹر کو ایک کھلا خط لکھا گیا ہے، جس نے سوشل میڈیا کمپنیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ زیادتی کی اطلاع دینے کے لئے زیادہ مؤثر طریقے اپنائیں۔
بنگلور میں گزشتہ ہفتہ اہانت رسول ؐ کے واقعہ نے سوشل میڈیا کی افادیت پر کئی سنگین سوال کھڑے کر دئیے ہیں۔اس شرمناک واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شرپسند کہیں بھی کوئی قابل اعتراض پوسٹ ڈال کر کسی شہر کے امن و امان کو غارت کرسکتا ہے۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اظہارخیال کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کے دینی عقائد کو نشانہ بنانے کا چلن کوئی نیا نہیں ہے، لیکن جب سے شرپسندوں کو سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ہاتھ آیا ہے، وہ مسلمانوں کے خلاف اس کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔آئے دن ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن میں مسلمانوں کو مشتعل کرنے والی پوسٹیں ڈالی جاتی ہیں اور ان کے صبر وضبط کا امتحان لیا جاتا ہے۔اس قسم کے واقعات کے بڑھنے کا سبب یہ ہے کہ نہ تو سوشل میڈیا پر کسی کا کنٹرول ہے اور نہ ہی نظم ونسق قایم کرنے والی مشینری ان انتہائی سنگین معاملات کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک توہین رسالت ؐکے شرمناک واقعات کو روکنے کے لئے کوئی قانون بھی وضع نہیں کیا گیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس قسم کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے اور مسلمانوں کے ازلی دشمن اس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔
یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ مسلمان اپنے پیارے نبیؐ سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں اور وہ ناموس رسالت ؐپر اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپنے آپ کو جان بوجھ کر ہلاکت میں ڈالنا اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی بھی طور جائزنہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات اس کی مخالفت کرتی ہیں۔ یہ ایسا حساس موضوع ہے جس پر مسلمان اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ پاتے اور وہ توہین رسالت ؐ کے کسی بھی واقعہ کے خلاف سراپا احتجاج بن کربے تحاشا سڑکوں پر نکل آتے ہیں، خواہ انجام کچھ بھی ہو۔ گزشتہ منگل کی رات کو بنگلور میں بھی یہی ہوا۔ایک قابل اعتراض فیس بک پوسٹ کے بعد تین مسلم نوجوانوں نے توہین رسالت ؐ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانیں قربان کردیں۔کہا جاتا ہے کہ اگر بنگلورپولیس اس معاملے میں فوری کارروائی کرتی تو حالات اس درجہ خراب نہیں ہوتے اور نہ ہی تباہی وبربادی کے دل خراش مناظر دیکھنے کو ملتے۔یہ حقیقت ہے کہ پولیس نے اس معاملہ کی حساسیت کو سمجھنے میں بھول کی اور شکایت کنندگان پر عام تنازعات کی طرح آپسی سمجھوتہ کرنے کا دباؤ ڈالا۔جس سے نوجوانوں میں پہلے سے موجود اشتعال نے نئی کروٹ لی۔ توڑپھوڑ، آتش زنی اور لوٹ مار کا ایسا بازار گرم ہوا کہ بنگلور کے دوعلاقے میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگے۔ظاہر ہے کسی بھی معاملے میں قانون کو ہاتھ میں لینے یا تشدد میں شامل ہونے کی کسی بھی طور حمایت نہیں کی جاسکتی۔ مسلمانوں کو اس بات کا احساس ضرور ہونا چاہئے کہ حالات ان کے موافق نہیں ہیں اور اسلام دشمن طاقتیں تاک میں بیٹھی ہیں کہ وہ ذراسی بات کا بتنگڑ بناکر انھیں نرم چارہ سمجھ کر چباجائیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو کسی بھی حالت میں صبر وتحمل اور برداشت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ جس پیارے نبی ؐ کی محبت سے ہم سرشار ہیں، ان کی تعلیمات بھی یہی ہیں۔ انھوں نے نہ صرف اپنے دشمنوں کومعاف کردیا بلکہ دنیا کے سامنے صلہ رحمی اور درگزر کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ایسے میں اگر ہم اپنے پیارے نبیؐ کی خاطرتشدد میں شامل ہوتے ہیں یا پھر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں تویہ سراسر رسول اکرم ؐ کی اعلیٰ تعلیمات کے خلاف ہے اور ہمیں اس سے ہر ممکن گریز کرنا چاہیے۔
بنگلور کے ان مسلم نوجوانوں کی سوجھ بوجھ اور دور اندیشی کی داد دی جانی چاہئے جنھوں نے تشدد، افراتفری اور اشتعال کے خطرناک ماحول میں بھی اپنے جذبات پر قابو رکھا اور اپنی جان پر کھیل کر ایک مقامی مندر کی حفاظت کی۔ اگر خدا نخواستہ مندر کو کوئی نقصان پہنچتا تو یہ واقعہ بدترین فرقہ وارانہ تشدد کا سبب بن سکتا تھا۔سمجھدار اور باشعور نوجوانوں کی کوشش دراصل اس پورے معاملہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے بچانے کی تھی جس میں انھیں کامیابی ملی۔
بنگلور معاملے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق کانگریس کے ممبر اسمبلی اکھنڈ نواس مورتی کے بھتیجے نوین نے فیس بک پر ایک ایسی پوسٹ لکھی جس میں اہانت اسولؐ کا ارتکاب کیا گیا تھا۔یہ پوسٹ ایک گھنٹے کے اندر پورے شہر میں پھیل گئی اور مسلمان اپنے زخمی جذبات کو لے کر سڑکوں پر نکل آئے۔ موقع غنیمت جان کر کچھ سماج دشمن عناصر بھی ان میں شامل ہوگئے اوراس مشتعل ہجوم نے سڑکوں پر افراتفری مچادی۔ سینکڑوں موٹر گاڑیوں کو نذرآتش کیاگیا۔کئی مکان پھونک دئیے گئے۔سڑکیں ویران ہوگئیں۔ چاروں طرف جلی ہوئی گاڑیاں، ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں اور اینٹ پتھر بکھرے پڑے تھے۔ مشتعل ہجوم نے پولیس اسٹیشن کو بھی نہیں بخشا۔حالات کو قابو میں کرنے کے لئے پولیس نے آنسو گیس چھوڑی اورفائرنگ کی جس کے نتیجے میں تین نوجوان جاں بحق ہوگئے، جن کی شناخت واحد خاں، سید یٰسین پاشااور سید شیخ کے طور پر ہوئی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ کانگریسی ممبر اسمبلی شری نواس مورتی کا تعلق دلت طبقے سے ہے اور ان کے مسلمانوں سے اچھے رشتے ہیں تاہم ان کے
بھتیجے نوین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بی جے پی کا حامی ہے اور اس نے حال ہی میں رام مندر کے شلانیاس کی بھی حمایت کی تھی۔اس کی پوسٹ کے بعد ممبر اسمبلی شرینواسن پر بھی حملہ کیا گیا۔ نوین کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے اور اس پورے معاملے کی مجسٹریٹ کے ذریعہ جانچ کرائی جارہی ہے۔قابل ذکر بات یہ کہ بنگلور تشدد کے سلسلہ میں مقامی انتظامیہ احتجاج میں شامل لوگوں سے ایسے ہی تاوان وصول کرنے کی تیاری کررہی ہے جیسا کہ اتر پردیش کی یوگی سرکار نے سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں سے وصول کرنے کی کارروائی شروع کررکھی ہے۔کرناٹک کے وزیروزیر داخلہ باسوراج بومئی نے اس فساد کو منصوبہ بند قرار دیتے ہوئے اس کا الزام ایس ڈی پی آئی نامی مسلم تنظیم پر ڈالا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی سیاسی رقابتوں نے بھی اس معاملے میں گل کھلائے ہیں۔اب تک 200 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار شدگان میں کانگریس کی سٹی کارپوریٹر ارشاد بیگم کا شوہر کلیم پاشا بھی شامل ہے۔ اس ہنگامہ آرائی کے پیچھے گزشتہ انتخابات اور آنے والے لوکل باڈیز کے انتخابات میں مقامی لیڈران کی رسہ کشی بھی بتائی جاتی ہے۔ پولیس خاص طور پر ایس ڈی پی آئی کے کردار کو محور میں رکھ کر جانچ کررہی ہے۔
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ توہین رسالت ؐ کے ارتکاب کے بعد جب ایک ہزار سے زائد مظاہرین کے جی ہلی پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہوکر شاتم رسول ؐ کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے لگے تو پولیس نے کارروائی کیوں نہیں کی اور وہ کیوں حالات کے بگڑنے کا انتظار کرتی رہی۔پولیس نے اس تشدد کے خوفناک شکل اختیار کرنے کے بعد شاتم رسولؐ کو گرفتا ر تو کیا، لیکن یہ اس وقت ہوا جب شہر دھواں دھواں ہوچکا تھا۔پولیس کی مہارت اسی میں سمجھی جاتی ہے کہ وہ حالات کے بگڑنے کا پہلے سے اندازہ لگائے اور شر پھیلانے والوں پر گہری نگاہ رکھے۔ یوں بھی بنگلور کی پولیس اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے لئے مشہور ہے، لیکن اس معاملے میں اس کی کوتاہی اورلاپروائی کا نتیجہ جان ومال کے نقصان کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ لہٰذا کچھ تاوان اس سے بھی وصول کیا جانا چاہیے۔
یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے سوشل میڈیا کے اس سیلاب سے سماجی ہم آہنگی اورامن وامان کو جو خطرات لاحق ہورہے ہیں، ان پر آخر کیسے قابو پایا جائے۔ سوشل میڈیا کا دائرہ دن بہ دن پھیلتا چلا جارہا ہے لیکن اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ اب معاشرے کے لئے مضر ثابت ہونے لگا ہے۔اگر آپ اعداد وشمار کی رو سے دیکھیں تو حیران کن صورتحال سامنے آتی ہے۔اس وقت پوری دنیا میں روزانہ ایک ارب فیس بک، انسٹا گرام اور ٹوئیٹ کے ساتھ 65ارب واٹس ایپ میسج اور 239 ارب ای۔ میل کی آمدورفت ہوتی ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ ان میں اوسطاً ایک تہائی غلط، اسپیم اور فرضی ہوتے ہیں۔اسمارٹ فون اور انسٹا گرام سے لیس کروڑوں عوام کی وجہ سے سوشل میڈیاکمپنیوں کو ہندوستان سے تقریباً بیس فیصد بازار مل رہا ہے۔یعنی ہندوستان میں سوشل میڈیا کے ذریعہ روزانہ اوسطاً 20 ارب قابل اعتراض اور مجرمانہ معاملے ہورہے ہیں۔ لیکن نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکے اعداد وشمار کے مطابق2017 کے سائبر کرائم سے وابستہ21 ہزار 796 معاملے ہی پولیس نے درج کئے۔ یعنی باقی اربوں معاملوں میں نہ تو پولیس اور نہ ہی ڈیجیٹل کمپنیاں کوئی کارروائی کررہی ہیں۔ فیس بک اور واٹس ایپ پر منافرت پھیلانے والی بی جے پی لیڈران کی تقریروں کو نہ ہٹانے کی ضد نے صورتحال کو مزید سنگین بنادیا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئی دہلی:ٹیم انڈیا کے سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی نے انٹرنیشنل کرکٹ کو الوداع کہہ دیا ہے۔ دھونی نے سوشل میڈیا کے ذریعے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ہے۔ دھونی پہلے ہی ٹیسٹ کرکٹ کو الوداع کہہ چکے ہیں۔ انہوں نے ایک ویڈیو شیئر کی ، جس میں ان کے پسندیدہ گلوکار کشور کمار کا گایا ہوا گانا ‘مین پل دو پل کا شاعر ہوں.’۔بج رہا تھا۔ اس گانے سے دھونی نے بین الاقوامی کرکٹ کو الوداع کہا ہے۔ انہوں نے اپنا آخری بین الاقوامی میچ پچھلے سال جولائی میں کھیلا تھا۔ 2019 کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں بھارت کو نیوزی لینڈ کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہی دھونی کا آخری بین الاقوامی میچ تھا۔ دھونی ٹیم انڈیا کے سب سے کامیاب کپتان رہے ہیں۔ وہ دنیا کے واحد کپتان ہیں، جس نے اپنی کپتانی میں ٹیم کو تین تین آئی سی سی ٹرافیز دی ہیں۔ دھونی کی کپتانی میں ہندوستان نے 2007 کا ٹی 20 ورلڈ کپ ، 2011 ورلڈ کپ اور 2013 میں چیمپئنز ٹرافی ٹائٹل اپنے نام کیا ہے۔ دھونی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انڈین پریمیر لیگ میں کھیلیں گے۔ دھونی چنئی سپر کنگز کے کپتان ہیں اور آئی پی ایل کے 13 ویں سیزن کے ٹریننگ کیمپ میں شرکت کے لئے چنئی پہنچ گئے ہیں۔
احمدالیاس نعمانی
کیب يعنی Citizenship amendment bill ہماری پارلیمنٹ میں عنقریب پیش کیا جانے والا ایک بل ہے، اس بل کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہجرت کرکے آنے والے تمام غیر مسلم افراد کو ہندوستان کی شہریت حاصل ہوگی، جب کہ مسلمانوں کو نہیں ہوگی۔
اس کی خطرناکی کا اصل پہلو یہ ہے کہ آسام میں ہونے والی این آر سی میں جو 19 لاکھ سے زائد افراد غیر ملکی قرار دیے گئے ہیں ان میں سے تقریبا 14 لاکھ ہندو ہیں جنہیں اس بل کے پاس ہونے کے بعد ملک کی شہریت مل جائے گی، جب کہ 5 لاکھ کے قریب جو مسلمان ہیں ان کو شہریت نہیں ملے گی، وہ اس ملک میں غیر ملکی ہوں گے، یعنی انہیں ان کی زمینوں، جائیدادوں اور مکانوں سے بالجبر بے دخل کردیا جائے گا اور لے جاکر ڈٹنشن سینٹرز میں داخل کردیا جائے گا جہاں وہ اور ان کی اگلی نسلیں نہ جانے کب تک جیل سے بدتر حالت میں رہنے پر مجبور ہوں گی۔
یہ تو آسام کے پس منظر میں اس کی خطرناکی ہے، اگر حکومت کےارادے کے مطابق پورے ملک میں این آر سی ہوا تو لاکھوں نہیں کروڑوں ہندوستانی مسلمانوں کو اسی آفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، جن میں ہم آپ بھی ہوسکتے ہیں۔
یعنی اس بل کا مقصد بس یہ ہے کہ ظالمانہ این آر سی کی زد پر صرف مسلمان آئیں، ہندووں کو صاف بچالیا جائے۔
اگر یہ بل پاس نہ ہوسکا تو چونکہ این آر سی کی زد پر مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہندو آجائیں گے (جیسا کہ آسام میں ہوا) اس لیے این آر سی یقینا ٹل جائےگا۔ این آر سی کا سارا طوفان مسلم دشمنی ہی میں تو اٹھایا گیا ہے، کیب اسی کا راستہ صاف کرنے کی ایک کوشش ہے، جسےناکام بنانا ہر حال میں بہت ضروری ہے۔
ایک سوال یہ ہے کہ کیا کیب کو پاس ہونے سے روکا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہے: جی ہاں، اسے روکا جاسکتا ہے۔ اس کا آسان اور فطری طریقہ تو یہ تھا کہ اس بل کے خلاف ایسی لابنگ کی جائے کہ یہ راجیہ سبھا میں پاس نہ ہوسکے۔ یہ کچھ مشکل کام نہیں ہے، ماضی قریب میں ہی ہم نے دیکھا تھا کہ طلاق سے متعلق بل جب پہلے پیش ہوا تو پرسنل لا بورڈ کے بعض افراد نے اس کے خلاف لابنگ کی تو یہ بل پاس نہ ہوسکا، لیکن پھر جب دوبارہ پیش ہونے پر لابنگ نہیں کی گئی تو یہ پاس ہوگیا۔
لیکن چونکہ یہ لابنگ کا کام ملی تنظیموں کے ذریعہ ہونا تھا اور افسوس کہ وہ مہر بلب ہیں بلکہ ان میں سے ایک تنظیم کے ذمہ داران تو کھلے عام این آر سی کی حمایت کر چکے ہیں اس لیے اب راجیہ سبھا میں موجود اپوزیشن کے ممبران کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ تمام مسلمانوں کی نگاہ آپ پر ہے، اگر آپ نے اس بل کی صاف حمایت کی، یا واک آوٹ اور غیر حاضر رہ کر اس ظالمانہ بل کی درپردہ حمایت کی تو سمجھ لیجیے کہ آپ کی پارٹی کو ہمارا ووٹ کبھی نہیں ملے گا، ہم آپ کو اپنے بدترین دشمنوں میں شمار کریں گے، یقین جانیے کہ اگر امت یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوگئی تو ان شاء اللہ یہ بل پاس نہ ہوسکے گا، جیسے طلاق کا بل پہلی مرتبہ ناکام ہوا تھا، لیکن اگر امت نے آواز بلند نہ کی، شور نہ مچایا تو سمجھ لیجیے کہ لاکھوں یا کروڑوں مسلمانوں کی زمینیں اور مکانات ضبط ہوں گے اور وہ ڈٹنشن سینٹرس نامی بدترین جیل میں ہوں گے۔
سوشل میڈیا کے اس زمانے میں تنظیموں کے خاموش رہنے کے باوجود بھی شور مچانا اور اپنی فکر وناراضگی کا احساس دلانا کچھ مشکل نہیں اگر ہم باشعور ہوں۔
سوشل میڈیا سے ہی شور مچالیجیے، ہنگامہ کردیجیے، بعض اپوزیشن پارٹیز کچھ سرگرم ہورہی ہیں، آپ کی آواز ان کو اور زیادہ مخالفت پر آمادہ کرے گی۔ یہ وقت کا سب سے بڑا اور فوری توجہ طلب کام ہے، کم از کم اتنا تو کریے کہ اس بل کے خلاف ایک مختصر سی تحریر ہی سہی، چند جملے ہی سہی لکھ کر فیس بک یا ٹویٹر وغیرہ پر پوسٹ کیجیے، اپنے جاننے والوں کو اس بل کی خطرناکی سے آگاہ کیجیےاور ان سے بھی کچھ کہنے، لکھنے اور بولنے کی درخواست کیجیے۔