ترجمہ:محمد ابراہیم خان
تاریخ کے مختلف ادوار گواہ ہیں، جب بھی کوئی ملک اپنی سرحدوں کو توسیع دیتے ہوئے سلطنت یا استعماری قوت کا درجہ پاتا ہے تب بڑے پیمانے پر جنگیں بھی چھڑتی ہیں اور اِن جنگوں کے نتیجے میں نقل مکانی کے نتیجے میں وبائیں بھی پھیلتی ہیں۔ ان وباؤں کے ہاتھوں کئی سلطنتیں تباہی سے دوچار ہوچکی ہیں۔ آج کی بڑی طاقتوں کو اس بنیادی تاریخی حقیقت کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ تباہی کو ٹالا جاسکے۔
کورونا وائرس محض ہیلتھ ایمرجنسی کا معاملہ نہیں۔ یہ ایک بڑا سیاسی معاملہ یا موڑ بھی ہے۔ ماحول عجیب رنگ کا ہو چلا ہے۔ ایسے میں کوئی بڑی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ اگر ہم یورپ میں قرون وسطیٰ کے دوران رونما ہونے والی ’’سیاہ موت‘‘ (طاعون کی وبا) سے ۱۹۱۸ء میں پھیلنے والے ’’اسپینش فلو‘‘ تک جتنی بھی وبائیں پھیلیں اُن کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ سوال صرف صحتِ عامہ کا نہ تھا بلکہ معاشروں اور سیاست پر بھی اِن وباؤں کے شدید اثرات مرتب ہوئے۔
رومن سلطنت سے اب تک استعماری یعنی توسیع پسند قوتوں اور وباؤں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ ۱۰۰ سال کے دوران جدید ترین علوم و فنون میں پیش رفت اور سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ عالمگیر نوعیت کی وباؤں پر قابو پانا اب بھی انسان سے ممکن نہیں ہوسکا۔
’’سیاہ موت‘‘ چوہوں نے پھیلائی تھی۔ اب مورخین ریکارڈ کھنگال کر بتا رہے ہیں کہ یورپ میں انتہائی تباہ کن طاعون چوہوں نے نہیں، بلکہ انسانوں نے پھیلایا تھا۔ یہ وبا ایشیا سے یورپ پہنچی تھی۔ ایسے میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ استعماری قوتوں کے درمیان رسّا کشی یا جنگ نے وباؤں کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
کرائمیا میں کافہ شہر کا محاصرہ تو منگولوں نے کرلیا مگر اِس شہر کو اطالوی قوت کے پنجے سے چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو پارہے تھے۔ منگولوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے طاعون پھیلایا۔ وہ ایسے کہ طاعون سے مر جانے والوں کی لاشیں شہر میں پھینکی گئیں۔ یہ عیسائی تاجروں (جینوز) کا شہر تھا۔ منگولوں نے انہیں بعض معاملات میں رعایت دے رکھی تھی۔ یورپ سے تجارت کے علاوہ غلاموں کی تجارت پر بھی ان کی اجارہ داری تھی۔
مسلم منگولوں اور عیسائی تاجروں میں (جنہوں نے مشرقی بحیرۂ روم کے خطے میں صلیبی جنگوں کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا تھا) غیر معمولی کشیدگی چل رہی تھی۔ مذہب کے اختلاف نے اس کشیدگی کو مزید ہوا دی۔ پہلے حملے میں ۱۵ ہزار منگول مارے گئے۔ جب شہر فتح ہوگیا تو فرار ہوتے ہوئے عیسائی تاجر اپنے ساتھ طاعون لے کر قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) پہنچے۔ وہاں سے یہ وبا پورے یورپ میں پھیل گئی۔ اس وباء نے ایک عظیم سلطنت کی بنیادیں ہلادیں اور بالآخر اُسے ختم کرکے دم لیا۔
۱۹۱۸ء کی وبا:
دورِ جدید کی بدترین وبا ’اسپینش فلو‘ تھی۔ یہ نام بھی بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ حال ہی میں ریکارڈ کی چھان بین سے معلوم ہوا ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانوی اور فرانسیسی افواج کے پیچھے کی صف میں چین سے محنت کشوں کی منتقلی ہوئی اور انہی سے یہ فلو پھیلا۔ کینیڈا سے یورپ منتقل ہونے والے تین سے پچیس ہزار چینی محنت کشوں کو فلو کی علامات ظاہر ہونے پر قرنطینہ کیا گیا تھا۔
کینیڈا کی ولفرڈ لوریئر یونیورسٹی کے تاریخ دان مارک ہمفریز کہتے ہیں کہ آرکائیو سے معلوم ہوا ہے کہ نومبر ۱۹۱۷ء میں چین میں سانس سے متعلق ایک بیماری کو اسپینش فلو کے مماثل قرار دیا گیا۔ بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسپینش فلو نے پہلی جنگِ عظیم کی بساط لپیٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ماحول کی تبدیلی اور طاعون:
جنگیں اور وبائیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ چھٹی صدی عیسوی کے دوران جسٹن کے مقام سے پھیلنے والے طاعون نے روم کی سلطنت کا خاتمہ کردیا تھا۔ یہ وبا ۵۴۲ء میں قسطنطنیہ پہنچی۔ صرف ایک سال قبل یہ وبا رومی سلطنت کے باہری صوبوں تک محدود تھی۔ چھٹی صدی عیسوی سے آٹھویں صدی عیسوی کے دوران بحیرۂ روم کے خطے میں طاعون کسی نہ کسی شکل میں کم و بیش ۲۲۵ سال تک تباہی و بربادی کا بازار گرم کرتا رہا۔ قسطنطنیہ تک طاعون شمالی افریقا کی نو آبادیوں سے آیا تھا۔ اُس زمانے میں رومن سلطنت کے لیے خوراک، تیل، ہاتھی دانت اور غلاموں کی رسد کے حوالے سے مصر کلیدی کردار کا حامل تھا۔ جارجیا یونیورسٹی کے جان ہارگن نے لکھا ہے کہ طاعون چوہوں اور پسوؤں سے پھیلا۔ ان دونوں کو بھرپور انداز سے پنپنے کے لیے مصر میں اناج کے بڑے بڑے گودام میسر آئے۔ اب طاعون کو پھیلنے سے کون روک سکتا تھا۔
ایک طرف طاعون تھا اور دوسری طرف ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیاں۔ سردی بڑھ گئی۔ سورج کی روشنی کم کم میسر ہوتی رہی۔ بہت سے آتش فشاں پھٹ پڑے اور فصلیں تباہی سے دوچار ہوئیں۔ خوراک کی شدید قلت نے کئی خطوں کو لپیٹ میں لیا۔
مورخین بتاتے ہیں کہ طاعون اور اسپینش فلو جیسی وبائیں جنگوں کے نتیجے میں پھلیں اور توسیع پسندانہ عزائم بھی اِن وباؤں کی پشت پر تھے۔ فوجی، ان کا سامان اور اُن کا سامان اٹھانے والی گاڑیاں اور جانور وباؤں کو پھیلانے میں معاون ثابت ہوئے۔
’’سیاہ موت‘‘ کے زمانے میں قسطنطنیہ رومن سلطنت کا سب سے بڑا کاروباری مرکز تھا۔ یہی طاعون کا مرکز بھی بنا۔ معاملہ اِتنا بگڑا کہ بحالی ممکن نہ ہوسکی۔ ایک صدی بعد اسلام آیا جس نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ چودھویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں طاعون کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ آخری بار یہ وبا پوری شدت کے ساتھ قسطنطنیہ میں ۱۸۱۲ء میں نمودار ہوئی اور کئی عشروں تک برقرار رہی۔ یہ زمانہ سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کا تھا۔
چیچک بھی ایشیا سے افریقا پہنچی۔ اسلامی سلطنت کی توسیع ہوتی گئی اور وبائیں بھی پھیلتی گئیں۔ عیسائی مغرب نے مشرق کے نزدیک ترین علاقے فتح کیے تو یہ وبا یورپ بھی پہنچی۔ ارضِ مقدس کو فتح کرنے والے صلیبی جنگوں کے سپاہی شان و شوکت کے ساتھ گھر ضرور پہنچے مگر چیچک کے ساتھ۔
تین صدیوں کے بعد ایک بار پھر ثابت ہوا کہ وبائیں بڑی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے ہی پر مجبور نہیں کرتیں بلکہ بسا اوقات اُن کے خاتمے کا اعلان بھی کرتی ہیں۔ ۱۵۲۱ء میں ہرنن کورٹیز نے محض چند سو سپاہیوں کی مدد سے ایزٹیک حکمران کو شکست دی مگر حقیقی فاتح چیچک تھی۔ چیچک اور دوسری بہت سی بیماریاں اس خطے کے لیے بالکل نئی تھیں اور مقامی باشندوں کو اُن کے موثر علاج کے حوالے سے کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ ایزٹیک دارالحکومت ٹینوچ ٹٹلن کے مقدر میں صرف تباہی لکھی تھی۔ فتح کے صرف ایک سال بعد اس شہر کی ۴۰ فیصد آبادی چیچک اور دیگر وباؤں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گئی۔
مشرق و مغرب میں نئی کشیدگی:
وباؤں میں غیر معمولی مماثلت پائی جاتی ہے۔ ہر دور کی طرح اس بار بھی ایک بڑی وبا ایشیا سے اٹھی ہے اور عالمگیریت نے اِسے تیزی سے پھیلانے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ ایک دور تھا کہ کسی وبا کو کہیں اور پہنچنے اور پھیلنے میں سال نہیں بلکہ عشرے لگ جاتے تھے، مگر اب فضائی سفر نے وبا کا پھیلاؤ بہت آسان بنادیا ہے۔
چین اور امریکا کے درمیان بہت کچھ ماضی کی سلطنتوں سے مماثل ہے۔ امریکا موجودہ دور کا روم ہے، یعنی دم توڑتی ہوئی سلطنت۔ چین اُس کے لیے حقیقی خطرہ بن کر ابھرا ہے۔ دیگر تاریخی وباؤں کے برعکس کورونا وائرس کی وبا کسی جنگ کے بطن سے پیدا ہوتی نظر نہیں آئی ہے۔ ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی سازش تلاش کرنے والوں کا البتہ یہ کہنا ہے کہ کورونا وائرس دراصل دو بڑی طاقتوں کے درمیان جراثیمی ہتھیاروں کے استعمال کا معاملہ ہی تو ہے۔
کورونا وائرس کا پامردی سے مقابلہ کرنے اور اُسے شکست دینے میں امریکا ناکام رہا ہے۔ چین کی کامیابی نے امریکا اور اس کے حلیفوں کے لیے خِفّت کا سامان کیا ہے۔ سیاسی موازنے کی فضا تیزی سے پنپ رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے چین پر الزام تراشی نے نئی سرد جنگ کو جنم دینے کی کوشش کی ہے۔ امریکا کے پاس دنیا کی طاقتور ترین فوج ہے اور دنیا بھر میں اس کے فوجی اڈے ہیں مگر وہ ایک نادیدہ کیڑے سے جنگ ہار گیا ہے۔ امریکا کی طاقتور دکھائی دینے والی اسٹاک اور منی مارکیٹ کریش ہوگئی ہے۔ لاکھوں افراد ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اقتصادی امور میں غیر معمولی قیادت کا دعویٰ ضرور کر رہے ہیں مگر یہ دعویٰ کسی کو قائل کرتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اب امریکی صدر کو کسی ایسے بہانے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے وہ عالمی برادری کی توجہ کورونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے امریکی قیادت کی ناکامی سے ہٹاسکیں۔ گزشتہ ہفتے خلیج فارس میں ایرانی جہازوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی کو اِسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
بازنطینی مورخ پروکوپیس نے طاعون کے لیے شہنشاہ کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جسٹن شیطان صفت تھا اور یہ کہ طاعون کی شکل میں خدا نے اُسے اس کے بُرے اعمال کی سزا دی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اب تو ہوش کے ناخن لینے چاہییں۔
(بہ شکریہ معارف ریسرچ جرنل)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)