سریش چوانکے
آپ نے حال ہی میں سول سروسز سے متعلق بہت سارے ٹویٹس دیکھے ہوں گے جنھیں انڈیا کا سب سے اہم اور باوقار امتحان سمجھا جاتا ہے۔ سول سروسز یعنی یو پی ایس سی کے ذریعہ ہونے والے ان امتحانات کے بارے میں ایک حلقہ سوشل میڈیا پر سوالات اٹھا رہا ہے۔ ’یو پی ایس سی جہاد‘ہیش ٹیگ کے ساتھ بہت سارے ٹویٹس ایک طویل عرصے سے ٹرینڈ کر رہے ہیں جن میں مسلم امیدواروں کے لیے مختلف معیار کی بات کی جا رہی ہے۔ ان میں سے کچھ ٹوئٹس اس طرح ہیں: ’یو پی ایس سی میں ہندوؤں کے لیے 6 مواقع ہیں تو مسلمانوں کے لیے نو مواقع ہیں، ہندوؤں کی زیادہ سے زیادہ عمر 32 سال جبکہ مسلمانوں کے لیے 35 سال ہے۔‘
اس کے علاوہ ان ٹویٹس میں اردو میڈیم میں دیے جانے والے امتحانات میں کامیابی کی شرح اور مسلمانوں کے لیے کوچنگ سینٹر وغیرہ پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس سے قبل سوشل میڈیا میں یو پی ایس سی امتحان میں ’اسلامک سٹڈیز‘ کا ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کرتا رہا۔ سوشل میڈیا پر یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ ’اسلامک سٹڈیز مضمون کے ذریعے مسلمان آئی اے ایس، آئی پی ایس اور آئی ایف ایس بن رہے ہیں جبکہ یو پی ایس سی میں ویدک یا ہندو سٹڈیز جیسا کوئی مضمون نہیں۔‘ سوشل میڈیا پر کیے جانے والے ان دعوؤں کی بی بی سی ہندی کی فیکٹ چیک ٹیم نے کی تحقیقات کی ہیں۔ آئیے معلوم کریں کہ یو پی ایس سی کے سول سروسز امتحان کے معیار کیا ہیں۔
یو پی ایس سی کس اہلیت کا مطالبہ کرتا ہے؟
رواں سال 12 فروری کو یو پی ایس سی نے سول سروسز کے ابتدائی امتحان کے لیے ایک نوٹس جاری کیا جس میں اہلیت، عمر، ریزرویشن اور امتحانات کے مضامین وغیرہ کے بارے میں معلومات دی تھیں۔ کون امیدوار آئی اے ایس، آئی ایف ایس یا آئی پی ایس بن سکتا ہے؟ اس سوال پر نوٹس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ انڈیا کا شہری ہونا ضروری ہے نہ کہ کسی خاص مذہب، ذات یا مسلک کا۔ اس کے بعد عمر کے سوال کا جائزہ لیتے ہیں۔ یو پی ایس سی نے سول سروسز امتحان کے لیے واضح طور پر بتایا ہے کہ اس کے لیے کم سے کم عمر 21 سال جبکہ زیادہ سے زیادہ 32 سال ہے لیکن اس میں صرف شیڈول ذات (ایس سی)، شیڈول ٹرائب (ایس ٹی)، زیادہ پسماندہ ذات (او بی سی)، جسمانی طور پر معذور اور سابق فوجیوں کے لیے عمر میں نرمی ہے۔
ایس سی اور ایس ٹی برادری کے لیے زیادہ سے زیادہ عمر 37 سال ہے، او بی سی برادری کے لیے زیادہ سے زیادہ عمر 36 سال اور جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے 42 سال ہے۔ اس کے علاوہ سول سروسز کے امتحان تک آپ کا گریجویٹ ہونا لازمی ہے۔ اس میں کہیں بھی مسلمان یا کسی دوسرے مذہب کا کوئی ذکر نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمر کا پیمانہ معاشرے پر مبنی ہے نہ کہ مذہب کی بنیاد پر۔
مسلمانوں کو زیادہ مواقع ملتے ہیں؟
سوشل میڈیا پر یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ یو پی ایس سی امتحان میں مسلمانوں کو نو مواقع حاصل ہیں۔ اس دعوے کو درست ماننے سے پہلے یو پی ایس یس کے نوٹس پڑھیں جس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ امیدواروں کے اس میں شرکت کے زیادہ سے زیادہ چھ مواقع ہیں جبکہ ایس سی، ایس ٹی برادریوں اور جسمانی طور پر معذور امیدواروں کے لیے امتحان دینے کی کوئی حد نہیں۔
اس کے علاوہ او بی سی برادری سے آنے والے امیدوار یہ امتحان زیادہ سے زیادہ نو بار دے سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یو پی ایس سی کسی بھی مذہب کی بنیاد پر موقع نہیں دے رہی اور صرف 9 مرتبہ مسلمانوں کو امتحان دینے کا دعویٰ غلط ہے۔اس کے علاوہ سول سروسز کے امتحان کے 26 اختیاری مضامین میں اسلامک سٹڈیز نام کا کوئی مضمون نہیں۔ بھوپال میں سول سروسز کی کوچنگ کرنے والے لکشمی شرن مشرا کا کہنا ہے کہ اسلامی سٹڈیز کے مضمون والی بات مکمل طور پر غلط ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’یو پی ایس سی میں کوئی اسلامی سٹڈیز کا مضمون نہیں۔ اردو ادب کے مضمون میں ادب سے متعلق سوالات ہیں نہ کہ مسلمانوں سے متعلق۔ آپ کو حیرت ہو گی جب آپ یہ دیکھیں گے کہ ان دنوں تاریخ میں مغل عہد سے متعلق سوالات نہیں پوچھے جاتے ہیں۔ آج مسلمانوں کی تاریخ سے ہی سوال نہیں پوچھا جا رہا اور کہا جارہا ہے کہ یہ سب پڑھ کر مسلمانوں کا انتخاب ہو رہا ہے۔‘
سوشل میڈیا پر انٹرویو میں مسلمانوں کو زیادہ نمبر (مارکس) دینے کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے۔ اس پر لکشمی شرن مشرا کا کہنا ہے کہ ’ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ کسی مسلمان نے انٹرویو بورڈ کی سربراہی کی ہو۔ بورڈ کے تمام ممبروں کے پاس مساوی نمبر ہیں۔ انٹرویو میں 275 نمبر ہوتے ہیں جبکہ سارا سلیکشن مین امتحانات کے نمبروں پر مبنی ہوتا ہے۔ جس کے کل نمبر 1750 ہیں۔‘
اردو میڈیم سے فائدہ مل رہا ہے؟
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے دعوؤں میں ایک دعویٰ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ مسلم امیدوار اردو ادب اور اردو میڈیم کی بدولت سول سروسز میں زیادہ آ رہے ہیں۔اردو میڈیم کے بارے میں بات کی جائے تو سنہ 2019 کے 94 ویں فاؤنڈیشن کورس میں لال بہادر شاستری انتظامیہ اکیڈمی میں 326 ٹرینی آئی اے ایس تھے۔
اگر آپ ان ٹرینی آئی اے ایس کے سول سروس میں میڈیم کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان میں سے 315 کا انگریزی میڈیم تھا، ہندی میں آٹھ اور گجراتی، کننڑ اور مراٹھی میڈیم سے ایک ایک طلبہ تھے یعنی اس میں اردو میڈیم کا کوئی آئی اے ایس نہیں تھا۔
اسی طرح ہم نے سنہ 2018، 2017 اور 2016 کے تربیتی کورسز کا میڈیم دیکھا جس میں سے کوئی بھی اردو میڈیم سے نہیں آیا تھا۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر اردو ادب کی بدولت کامیابی حاصل کرنے کے بارے میں بھی بات کی جارہی ہے۔
انڈین آئین کے آٹھویں شیڈول میں شامل 22 زبانوں کو سول سروسز کے مین امتحان میں اختیاری مضامین کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ یو پی ایس سی نے ایک اعداد و شمار جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کتنے لوگوں نے مرکزی امتحان میں کس زبان کے ادب کو اختیاری مضمون کے طور اپنایا ہے۔
سنہ 2017 میں جہاں 265 افراد نے ہندی ادب کا انتخاب کیا وہیں 114 افراد نے کننڑ، 111 نے ملیالم اور 106 نے تمل ادب کا انتخاب کیا۔ جہاں تک اردو کا سوال ہے تو صرف 26 امیدواروں نے اس کو بطور مضمون منتخب کیا۔ سنہ 2018 میں صرف 16 امیدوار تھے جنھوں نے اردو ادب کو اختیاری مضمون کے طور پر منتخب کیا۔
زبان ادب کے موضوع پر لکشمی شرن مشرا کا کہنا ہے کہ ’طلباء بہت سارے پیرامیٹرز کو مدنظر رکھتے ہوئے زبان و ادب کے اختیاری مضمون کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کی شروعات پالی زبان سے ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پالی کا نصاب مختصر تھا اور اس کے جاننے والے کم تھے۔ اس کے بعد جنوبی انڈیا کے طلبا کی وجہ سے سول سروسز کے امتحان میں جنوبی انڈین زبانوں کا غلبہ بڑھ گیا۔ کننڑ زبان و ادب کے طلبا کو بہت زیادہ فوائد ملے جبکہ سنسکرت زبان و ادب کے طلبا نے پچھلی دہائی میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔‘
’ان دنوں اردو اور سندھی ادب تیزی سے ابھرنے والے مضامین ہیں لیکن اس کا انتخاب کرنے والے طلبا بہت کم ہیں اور وہی اس کا انتخاب کرتے ہیں جنھیں یقین ہے کہ وہ آرام سے اس مضمون میں امتحان پاس کر لیں گے۔ جو مسلمان ان امتحانات میں کامیاب ہو رہے ان میں سے 80 فیصد اردو کو اختیاری مضمون کے طور پر منتخب نہیں کرتے ہیں۔‘
اردو ادب کی کامیابی کی شرح کیوں زیادہ نظر آتی ہے؟ اس سوال پر لکشمی شرن مشرا کا کہنا ہے کہ ’فرض کیجیے کہ پولیٹیکل سائنس کا انتخاب دس ہزار طلبا کر رہے ہیں لیکن ان میں سے صرف چند طلبا کامیاب ہو رہے ہیں جبکہ اردو کو کم ہی لوگ اختیار کرتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر پاس ہو رہے ہیں تو اس کی کامیابی کی شرح تو زیادہ ںظر آئے گی ہی۔‘
آئیے لکشمی شرن مشرا کی بات کو اس طرح سے سمجھتے ہیں۔ سنہ 2017 میں ہندی زبان و ادب میں 265 امیدواروں نے امتحان دیا اور 19 پاس ہوئے جبکہ اردو میں 26 امیدواروں نے امتحان دیا اور صرف پانچ پاس ہوئے۔ اس طرح یہاں ہندی ادب کی کامیابی کی شرح 7.1 فیصد ہوئی جبکہ اردو ادب کی کامیابی کی شرح 19.2 فیصد ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اعداد و شمار کو توڑ موڑ کر عوام کو الجھایا جارہا ہے۔
صرف مسلمانوں کو مفت کوچنگ کی سہولت حاصل ہے؟
سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ حکومت مسلمانوں کو سول سروسز امتحان کے لیے مفت کوچنگ فراہم کررہی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ سوشل جسٹس اینڈ ایمپاورمنٹ، وزارت اقلیتی امور سمیت کئی دوسری وزارتیں ہیں جو سول سروسز امتحان کی تیاری کرانے والی متعدد کوچنگ سکیموں کو فنڈ فراہم کرتی ہیں اور کوچنگ بھی مہیا کراتی ہیں اور یہ مسلمانوں کے بجائے خواتین، اقلیتوں، ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی برادری کے لیے ہوتی ہیں۔
حال ہی میں سوشل جسٹس اینڈ ایمپاورمنٹ نے ایس سی اور او بی سی طلبہ کو اپنی پسند کے کوچنگ انسٹیٹیوٹ میں کوچنگ کے لیے ایک سکیم شروع کی جس میں کوچنگ کے ساتھ سکالرشپ بھی دی جائیں گی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی، جامعہ ہمدرد یونیورسٹی اور زکوۃ فاؤنڈیشن جیسی متعدد غیر سرکاری تنظیمیں سول سروسز امتحان کی تیاری کراتی ہیں۔ یہ سب اقلیتوں، خواتین، معاشی طور پر پسماندہ، ایس سی اور ایس ٹی طلبا کے لیے کوچنگ فراہم کراتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف یہی تنظیمیں ہیں جو مسلم لوگوں سے وابستہ سول سروسز امتحان کی کوچنگ چلارہی ہیں؟
لکشمی شرن مشرا کا کہنا ہے کہ اس بار سول سروسز کے نتائج میں جین برادری کے اچھے خاصے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، تو کیا یہ کہنا چاہیے کہ یو پی ایس سی جین مت کی حمایت کررہا ہے۔ ’جین انٹرنیشنل ٹریڈ آرگنائزیشن‘ جین مت کی ایک تنظیم ہے۔ اس کے پاس ایک ہزار کروڑ روپے کا فنڈ ہے۔ اس فنڈ کے تحت اس تنظیم نے جے پور، اندور، دہلی، چینئی میں رہائشی کوچنگ سینٹرز کھولے ہیں جہاں جین برادری کے بچوں کو تین سے چار سال تک مفت کوچنگ دی جاتی ہے۔ مدھیہ پردیش کے پی ایس سی میں جین مذہب کے امیدواروں کا انتخاب اچھا ہے اور ان کی کامیابی کی شرح 20-25 فیصد ہے۔‘
’ہر برادری اور ریاست یہ چاہتی ہے کہ ان کے لوگ سول سروسز میں پہنچیں۔ جب گجرات میں نریندر مودی وزیراعلی تھے تو سردار پٹیل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن نے سول سروسز امتحان کی کوچنگ شروع کی تاکہ گجراتی شہری زیادہ سے زیادہ سول سروسز میں پہنچ سکیں۔ مہاراشٹر میں مہاراشٹر نو نرمان سینا نے بلاک سطح پر کوچنگ شروع کی۔ آر ایس ایس کی سنکلپ سنستھا کے بارے میں سب جانتے ہیں جو ان امتحانات کی تیاری کراتا ہے۔ ہر مذہب، ہر ذات، ہر برادری سول سروسز میں اپنی نمائندگی بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے!
حقیقت یہ ہے کہ یو پی ایس سی یعنی سول سروسز امتحانات میں مسلمانوں کی کامیابی کی شرح انتہائی کم رہی ہے۔ سنہ 2019 کے امتحانات میں کامیاب ہونے والے کل 829 میں سے 42 مسلم امیدوار ہیں جو کہ کل تعداد کا صرف پانچ فیصد ہیں جبکہ ملک میں مسلم آبادی تقریبا 15 فیصد ہے۔ سنہ 2018 میں صرف 28 مسلم امیدواروں نے اس میں کامیابی حاصل کی تھی جبکہ سنہ 2016 اور 2017 میں 50-50 امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ بی بی سی ہندی کی فیکٹ چیک ٹیم نے اپنی جانچ میں یہ پایا کہ سروسز امتحانات میں مسلمانوں کو خصوصی چھوٹ دیے جانے کے دعوے سراسر غلط ہیں۔
(بشکریہ بی بی سی اردو)
"۔۔۔۔ ملک کی سپریم کورٹ ہونے کی حیثیت سے ہم آپ کو یہ کہنے کی اجازت نہیں دے سکتے کہ مسلمان سول سروسز میں گھس پیٹھ کر رہے ہیں۔۔۔” جسٹس چندر چوڑ
"…… عدالت پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس پروگرام کا مقصد مسلم کمیونٹی کو بدنام کرنا اور اسے سول سروسز میں گھس پیٹھ کی مہلک کوشش کا ذمہ دار قرار دینا ہے۔۔۔۔۔” جسٹس کے ایم جوزف
28 اگست 2020 کو سدرشن ٹی وی کے زہریلے پروگرام پر پیشگی پابندی لگانے سے انکار کرنے کے بعد آخر کار آج سپریم کورٹ نے ’بنداس بول‘کے تحت ’سول سروسز میں مسلمانوں کے جہاد‘نامی پروگرام کے باقی ایپی سوڈ کے ٹیلی کاسٹ پر پابندی عاید کردی ہے۔
گوکہ یہ پابندی اگلے احکامات تک ہے اور اگلی سنوائی 17ستمبر کو ہے‘ تاہم سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ میں آج جو Proceedings درج ہوئیں وہ بہت حوصلہ افزا ہیں۔ 28 اگست کو یہ ضرور ہوا تھا کہ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت،پریس کونسل آف انڈیا اور سدرشن ٹی وی کو نوٹس جاری کردیا تھا جس کے جواب پر آج بحث ہوئی ـ
ادھر 28 اگست کو ہی جامعہ کے طلبہ دہلی ہائی کورٹ پہنچ گئے تھے جہاں سے اس پروگرام کے پیشگی ٹیلی کاسٹ پر مشروط پابندی عاید ہوگئی تھی۔ ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ سدرشن ٹی وی کو نوٹس جاری کرے اور اس کا جواب مل جانے کے 48 گھنٹے کے اندر اس پر فیصلہ کردے۔حکومت نے حسب توقع مگر خلاف قانون سدرشن کے جواب پر فیصلہ کردیا اور اسے یہ زہریلا پروگرام ٹیلی کاسٹ کرنے کی اجازت دے دی۔معلوم ہوا ہے کہ سدرشن اس پروگرام کے 4 ایپی سوڈ دکھا چکا ہے اور کچھ باقی ہیں۔ سپریم کورٹ نے نہ صرف ان باقی ایپی سوڈز پر پابندی عاید کی ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر آوارہ چینلوں کی ناک میں نکیل ڈالنے کا بھی اشارہ دے دیا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے بھی وزارت اطلاعات ونشریات کے ذریعہ اجازت دیے جانے کے خلاف حکومت کو نوٹس جاری کردیا ہے۔
سدرشن ٹی وی کے ایڈیٹر اوراینکر سریش چوانکے نے اگست کے آخر میں ایک ٹویٹ جاری کرکے اس زہریلے پروگرام کا ٹریلر دکھایا تھا۔اس میں بتایا گیا تھا کہ ”مسلمان یوپی ایس سی کے ذریعہ جہاد“میں مصروف ہیں اور نوکر شاہی میں گھس پیٹھ کرکے بڑی سازش کر رہے ہیں۔
آج جب سپریم کورٹ میں اس معاملہ میں سنوائی شروع ہوئی توامیتابھ پانڈے اور نوریکھا شرما نے سابق سول سروینٹس کے نوتخلیق شدہ گروپ ’Constitutional Conduct’کی معرفت سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرکے اس معاملہ میں پارٹی بنائے جانے اور’منافرت انگیز بیانات‘ پر قدغن لگانے کے لئے کچھ حتمی اصول وضع کرنے کی اپیل کی۔
سپریم کورٹ نے ملک کے پانچ ممتاز شہریوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کی ہدایت دی جو الیکٹرانک میڈیا کے لئے معیاری رہنما اصول اور ضابطے بنائے گی۔عدالت نے یہ واضح کردیا کہ "ہمیں اس کمیٹی میں سیاسی مزاج کے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم ایسے شہریوں کو ممبر کے طورپر دیکھنا چاہتے ہیں جن کا رتبہ قابل ستائش ہو”۔انوپ جارج چودھری ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ پورے ملک میں سول سروسز میں کل 292 مسلمان افسر ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اگر آپ سدرشن ٹی وی پر چلنے والے اس شو کی اسکرپٹ کو دیکھیں تو اس میں کہا گیا ہے کہ مسلمان سول سروسز میں گھس پیٹھ کر رہے ہیں۔مسلم اوبی سی دوسرے اوبی سی کا حصہ بھی ہڑپ کر رہے ہیں۔اس شو میں گراف کے ذریعہ مسلمانوں کیلئے حرام…..اور غدارکا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔یہ بہت ہی بدقسمتی کی بات ہے۔
اس موقع پر جسٹس چندر چوڑ نے نوٹ کیا کہ پٹیشنر میڈیا رپورٹنگ کیلئے رہنما اصول چاہتے ہیں۔جسٹس کے ایم جوزف نے بہت ہی اہم بات کہی۔انہوں نے کہا کہ ”یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وزول میڈیا (ٹی وی) کس کی ملکیت ہیں اور کمپنی کے تمام شیئر ہولڈنگ کا اسلوب کیا ہے۔۔۔ یہ تمام تفصیلات عوام کی معلومات کیلئے کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود ہونی چاہئیں۔کمپنی کا Revenue Model یعنی آمدنی کا نمونہ بھی ویب سائٹ پر ہونا چاہئے۔۔۔ معلوم ہونا چاہئے کہ حکومت کسی ایک چینل کو زیادہ اشتہارات اور کسی کو کم تو نہیں دے رہی ہے۔
جسٹس جوزف نے ٹی وی چینلوں پر ہونے والی Debates کے طریقہ کار اور ان کی نوعیت پر بھی سوال اٹھائے۔انہوں نے کہا کہ:”یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بحث کے دوران اینکر کا کردار کیا ہوتا ہے۔جب دوسرے بولیں تو کیسے سناجاتا ہے۔یہ چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ اینکر کتنا وقت لیتا ہے۔وہ (اینکرز) اسپیکر بند (Mute) کردیتے ہیں اور سوال پوچھتے ہیں۔
جسٹس چند رچوڑ نے سدرشن کیس پر واپس آتے ہوئے کہا: کہ اینکر (سریش چوہانکے) کو شکایت ہے کہ ایک خاص گروپ سول سروسز میں داخل ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنے تبصرے میں کہا:
1- یہ کتنی موذی اور چھل کپٹ والی بات ہے۔
2- ایسے احمقانہ الزامات خود یوپی ایس سی امتحانات پر بھی سوال کھڑے کرتے ہیں۔
3- یہ الزامات بغیر کسی حقیقی بنیاد کے ہیں۔
4- اس کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟
5- کیا ایک آزاد معاشرے میں ایسے پروگرام کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
6- کیا میڈیا کیلئے ایسے نافذ العمل معیارات نہیں ہونے چاہئیں کہ جس کی رو سے خود میڈیا آرٹیکل 19(1)(a) کے دعوے پر پورا اتر سکے؟
(واضح رہے کہ یہ شرپسند چینل اسی آرٹیکل کا حوالہ دے کر شرپھیلانے کی آزادی چاہتے ہیں)۔
اس موقع پر مرکزی حکومت کے وکیل اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ جسٹس جوزف کے بیان کے دو رخ ہیں۔میڈیا پر کنٹرول جمہوریت کے لئے خطرناک ہوگا۔اس پر جسٹس جوزف نے جواب دیتے ہوئے کہا: جب ہم صحافتی آزادی کی بات کرتے ہیں تو یہ مطلق (آزدای) نہیں ہے۔صحافی کو وہی آزادی ہے جو اس ملک کے دوسرے عام شہریوں کو حاصل ہے۔امریکہ کی طرح یہاں بھی صحافیوں کے لئے کوئی الگ قسم کی آزادی نہیں ہے۔ہمیں ایسے صحافیوں کی ضرورت ہے جو بحث کے دوران منصفانہ رویہ اختیار کریں۔
اس کے بعدجسٹس چندر چوڑ نے کہا: ملک کے بہترین (دماغوں) کے ذریعہ ان اقدامات کی تجاویز آنے دیجئے جو ہمارے پلیٹ فارم (عدلیہ) پر بحث میں معاون ثابت ہوں اور پھر معیار طے کئے جائیں۔اس وقت ایک اینکر (چوہانکے) ایک خاص کمیونٹی(مسلمانوں) کو نشانہ بنارہا ہے۔یہ کہنے کے لئے کہ ہم ایک جمہوریت ہیں ہمیں کچھ معیارات وضع کرنے پڑیں گے”ـ
اس پر سدرشن ٹی وی کے وکیل شیام دیوان نے جواب دینے کے لئے کچھ مہلت مانگی۔اس پر جسٹس چند رچوڑ نے کہا: آپ کا موکل (سدرشن) ملک کو برباد کر رہا ہے اور ہندوستان کی متنوع تہذیبی ثقافت کو قبول نہیں کر رہا ہے۔آپ کے موکل کو اپنی آزادی کا استعمال کرتے وقت احتیاط کرنی پڑے گی۔
سپریم کورٹ میں آج کی بحث بہت تفصیلی تھی۔لنچ کے وقفہ کے بعد جب عدالت دوبارہ بیٹھی تو جسٹس چندر چوڑ نے نیوز براڈ کاسٹرس ایسو سی ایشن (این بی سی اے) کی وکیل نشا بھمبھانی سے پوچھا: ” ہم آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا لیٹر ہیڈ کے علاوہ بھی آپ کا کوئی وجود ہے؟ آخر آپ اس وقت کیا کرتے ہیں جب میڈیا کے ذریعہ جرائم کی متوازی تحقیقات چل رہی ہوتی ہیں اور ساکھ کو داغدار کیا جارہا ہوتا ہے؟
اس پر سالیسٹرجنرل تشار مہتا نے عدالت سے ہی پوچھ لیا کہ مثال کے طورپر وکیل گوتم بھاٹیا کچھ ایسا لکھ دیں کہ جس سے میں اتفاق نہیں رکھتا اور میں حساب بے باق کرنا چاہتا ہوں اور میں ایک ایسا گھناؤنا مضمون لکھ دوں کہ جس کا وہ جواب نہ دیں توپھر آپ (عدلیہ) اسے کیسے ریگولیٹ کریں گے؟ اس پر جسٹس چندر چوڑ نے جواب دیا: لیکن اس کا موازنہ آپ نفع کمانے والی اکائیوں سے نہیں کرسکتے؟علمی فائدے کیلئے دانشورانہ مضمون ایسی تنظیموں سے بالکل مختلف ہیں۔
جسٹس کے ایم جوزف نے کہا: پروگرام کوڈ کا ضابطہ نمبر6 کہتا ہے کہ کیبل ٹی وی پروگرام ایسی کوئی چیز نہیں دکھاسکتے کہ جو ایک خاص مذہب اور طبقہ کو نشانہ بنائے۔اس موقع پر پٹیشنر کے وکیل شادان فراست نے عدالت سے کہا کہ سدرشن کا پروگرام پورے طور پر سول سروسز میں موجود مسلمانوں کی شبیہ خراب کر رہا ہے۔انہیں دہشت گرد کہا گیا ہے۔منافرت انگیز بیانات ایسی چیز ہیں کہ جس کاحق جواب ممکن نہیں ہے۔ آخر اس بیان کا کیا جواب دیا جائے کہ سول سروسز میں مسلمانوں کو نہیں آنا چاہئے۔۔۔؟
سدرشن کے وکیل شیام دیوان نے رٹ کا جواب دینے کیلئے دوہفتہ کا وقت مانگا۔لیکن انہوں نے یہ قبول کرنے سے انکار کردیا کہ باقی ایپی سوڈ نہیں دکھائے جائیں گے۔جسٹس چندر چوڑ نے پوچھا کہ اس پروگرام کا لب لباب کیا ہے؟ تو دیوان نے جواب دیا کہ: وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک تحقیقاتی اسٹوری ہے‘ اس کا تعلق ملک کی سلامتی سے ہے اور یہ لوگوں کے حق میں ہے۔اس میں (سول سروسز کی تیاری کرانے والے پرائیویٹ مسلم اداروں میں) ایسے ملکوں سے بھاری فنڈ آرہا ہے کہ جو ہندوستان کے دوست ممالک نہیں ہے۔اور سدرشن ٹی وی سمجھتا ہے کہ یہ اس کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو اس سے مطلع کرے۔
جسٹس جوزف نے کہا: جیسے ہی دوہفتوں کی مہلت ختم ہوگی یہ پروگرام بھی ختم ہوچکا ہوگا۔حکومت نے آپ سے کہا تھا کہ پروگرام کوڈ کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے۔اب جرمانہ کیا ہو؟
اس کے بعد شادان فراست نے عدالت کے سامنے سدرشن کے اس پروگرام کی کچھ کلپس رکھیں۔عدالت نے یہ کلپ غور سے دیکھیں۔اور فوراً سدرشن کو ہدایت دی کہ وہ17ستمبر تک باقی شوز نہ دکھائے۔۔۔ واضح رہے کہ 17ستمبر کو پھر سماعت ہوگی۔۔۔ شیام دیوان نے اس ہدایت پر سخت احتجاج کیا۔۔۔ انہوں نے کہا کہ پروگرام پر پیشگی پابندی عاید نہیں کی جاسکتی۔ہم چار شوز دکھاچکے ہیں۔اگر یہ پیشگی پابندی ہے تو میں استدلال کروں گا۔غیر ملکوں سے فنڈز آنے کا صاف لنک موجود ہے۔
اس پر جسٹس چندر چوڑ نے کہا: ہمیں تشویش اس امر کی ہے کہ جب آپ کہتے ہیں کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ اس گروپ کا حصہ ہیں جو سول سروسز میں گھس پیٹھ کر رہا ہے۔ہم اسے برداشت نہیں کرسکتے۔ ملک کی سپریم کورٹ ہونے کی حیثیت سے ہم آپ کو یہ کہنے کی اجازت نہیں دے سکتے کہ مسلمان سول سروسز میں گھس پیٹھ کر رہے ہیں۔آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جرنلسٹ (چوہانکے) کو ایسا کرنے کی پوری آزادی ہے۔
اس کے بعد جسٹس چندر چوڑ نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے پوچھا کہ کیا 9 ستمبر کو مرکزی وزارت اطلاعات ونشریات نے اس پروگرام کو11 اور 14 ستمبر کو دکھانے کی اجازت دیتے وقت دماغ کا استعمال کیا تھا؟ اس پر تشار مہتا کے پاس کوئی جوا ب نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ میں حکومت سے پوچھ کر بتاؤں گا۔اب 17ستمبر کو تشار مہتا کو عدالت کو یہ بتانا پڑے گا۔عدالت نے بہر حال تمام فریق کو سننے کے بعد مندرجہ ذیل فیصلہ لکھوایا:
”……وہ صورت حال بدل گئی ہے جو پیشگی پابندی کے مرحلے میں ہوتی ہے۔پٹیشنر نے بتایا ہے کہ فرضی خبریں دکھائی گئی ہیں۔اسکرین شاٹ‘ویڈیو کلپ اور اسکرپٹ کے ذریعہ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سول سروسز میں آنے کو گھس پیٹھ کی ایک ساز ش بتایا گیا ہے۔یہ بھی دلیل دی گئی ہے کہ یہ پروگرام ملک میں نفرت آمیز بیانات کا محور بن گیا ہے۔عدالت پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس پروگرام کا مقصد مسلم کمیونٹی کو بدنام کرنا اور اسے سول سروسز میں گھس پیٹھ کی مہلک کوشش کا ذمہ دار قرار دینا ہے۔یہ ہمارا فرض منصبی ہے کہ ہم کیبل ٹی وی ایکٹ کے پروگرام کوڈ پر عمل آوری کو یقینی بنائیں۔جمہوری معاشرے کی مستحکم عمارت‘آئینی حقوق کی پاسداری اور فرائض کی بنیاد مختلف فرقوں کی بقائے باہم پر ہے۔۔۔کسی ایک کمیونٹی کو بدنام کرنے کی کوشش کا ساتھ نہیں دیا جاسکتا۔ہمارا موقف یہ ہے کہ صورت حال میں تبدیلی آگئی ہے۔اب تک جو بھی شوز دکھائے گئے ہیں ان سے پروگرام کے نیچر اور مقصد کا پتہ چلتا ہے۔اس عدالت کے اگلے احکامات تک سدرشن نیوز کو مزید ایپی سوڈ اس نام سے یا کسی بھی نام سے براڈ کاسٹ کرنے سے روکا جاتا ہے“ـ
سدرشن ٹی وی نے جو زہر پھیلانا تھا وہ ٹریلر کے ذریعے پھیلا دیا۔ اس نے نہ صرف مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا بلکہ دستور میں دی گئی حق مساوات کی ضمانت کی دھجیاں اڑائیں۔ اس طرح قانونی پیچیدگی سے بچنے کے لئے اس نے ٹریلر کا سہارا لیا۔ جامعہ کے طلبا، آئی پی ایس ایسوسی ایشن اور دیگر انصاف پسند لوگوں نے اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے جامعہ کے طلبا کی درخواست پر ٹریلر کی اسٹوری نشر کرنے پر پابندی لگا دی۔سپریم کورٹ ممکن ہے حقِ اظہار رائے کے تحت پابندی ہٹا دے۔
سدرشن ٹی وی کا بد نام زمانہ اینکر ہندوؤں کو یہ کہہ کر ڈرا رہا ہے کہ یو پی ایس سی کے مقابلہ جاتی امتحان میں جامعہ کوچنگ سینٹر کے کامیاب ہونے والے 30 طلبا وطالبات میں سے 14 مسلم طلبا و طالبات کی کامیابی یعنی تقریباً 45% (جبکہ پورے ملک میں کامیاب ہونے والے مسلم طلبا وطالبات کی شرح تقریباً 5% ہی ہے لیکن ہندوؤں کو گمراہ کرنے کے لئے اس نے صرف جامعہ کوچنگ کو ایشو بنایا) کی کامیابی خطرے کی گھنٹی ہے اور اسے نوکر شاہی (بیوروکریسی) جہاد کا نام دیا ہے۔
یونین پبلک سروس کمیشن ملک میں ہونے والے کمپیٹیشن میں سخت مقابلہ جاتی امتحانات میں سے ایک ہے۔ اس میں کامیاب ہونے والے:
١- آئی اے ایس (انڈین اڈمنسٹریٹیو سروس) یعنی ڈی سی / ڈی ایم دوسرے لفظوں میں ضلع انتظامیہ کے سربراہ (سادہ لفظوں میں ضلع کے مالک ہوتے ہیں ) یا وزارتوں کے سکریٹریز بنتے ہیں۔
٢-آئی پی ایس انڈین پولیس سروس میں ایس پی سپرنڈیپنڈنٹ آف پولیس بنتے ہیں
٣- آئی ایف ایس انڈین فارن سروس کے تحت بیرون ملک ہندوستان کے سفیر اور قنصل بنتے ہیں
یہ بدطینت اینکر ہندوؤں سے سوال کر رہا ہے کہ آپ اپنے ضلع کے کسی مسلم مالک کے رحم و کرم پر رہنا پسند کریں گے ؟ وغیرہ وغیرہ؛ لیکن انگریزی کے مقولہ blessing in disguise کی مانند کل کچھ مسلم نوجوان جو میڈیکل اور انجینئرنگ کی تیاری کر رہے ہیں یا +2 کے بعد آئی ٹی یا کوئی اور پروفیشنل کورسز کا منصوبہ بنا رکھاہے، نے بتایا کہ اب بطور ضد وہ یونین پبلک سروس کمیشن یعنی آئی اے ایس اور آئی پی ایس یا کم از کم صوبائی پبلک سروس کمیشن کی تیاری کی ٹھان رہے ہیں۔ امر واقعی یہ ہے کہ آئی اے ایس وغیرہ کے مقابلہ جاتی امتحانات کے بارے میں بہت سے نوجوانوں کو تفصیل سےمعلوم نہیں تھا۔ سدرشن ٹی وی نے اس موضوع کو اٹھا کر سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنا دیا جس کی وجہ سے مسلم نوجوانوں کے اندر اسے جاننے کا تجسس پیدا ہوا۔ اللہ کرے ان کے ارادے ، اس موضوع کے ٹھنڈا ہونے کے ساتھ، متزلزل نہ ہوں۔ ان کا آئی اے ایس اور آئی پی ایس بننے کا عزم باقی رہے۔
ویسے تو آئے دن ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر اس طرح کی باتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ کوئی اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرتا ہے، کوئی مسلمانوں کے چار بیویاں اور چالیس بچے بتا کر ہندوؤں کو ڈراتا ہے کہ ٢٠٥٠ تک مسلم اس ملک میں اکثریت میں ہو جائیں گے اور قابض ہو جائیں گے، یہ اینکر جھوٹ اس اعتماد کے ساتھ بولتا ہے کہ سیدھے سادے ہندو تو ہندو، بعض مسلمان بھی یقین کر لیتے ہیں اور اسی بیانیہ کو ذہن میں رہ کر اسلام اور مسلمانوں کے عائلی قوانین، پرسنل لا وغیرہ پر تنقید و تنقیص کرتے ہیں۔ یہ اینکر چند سال قبل لال قلعہ کو ہندوؤں کا تعمیر کیا ہوا مندر ثابت کرنے کے درپے تھا اور بطور ثبوت کہہ رہا تھا کہ اسلام کا رنگ ہرا ہے جبکہ ہندوؤں کا رنگ گیروا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لال قلعہ دہلی میں لگے پتھروں کا رنگ لال گیروا ہے۔
ہمارا سنجیدہ طبقہ بلکہ میں خود بھی اس طرح کی بکواس کو کبھی قابل اعتنا نہیں سمجھا اور یہی کہتا رہا کہ ملک کے اصل مسائل گرتی ہوئی معیشت بے روزگاری پڑوسی ممالک کے ساتھ بگڑتے رشتوں سے توجہ ہٹانے اور سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ایسی من گھڑت اور بے بنیاد باتیں ٹی وی چینلز پر چلائی جاتی ہیں لیکن اب شاید پرسیپشن چینج کرنا ہوگا وہ اس لئے کہ شوشہ سے ہی سہی، یہ چینلز ڈیمیج تو کر رہے ہیں اور نقصان بھی ناقابل تلافی ہو رہا ہے۔ اس لئے کہ ہمارے پاس دفاع کرنے کے لئے اور حقیقت بتانے کے لئے چینل، انگریزی، ہندی اور مقامی زبانوں کے اخبارات نہیں ہیں۔