نواز شریف ندوی
8739096040
اگر مورخ تاریخ لکھے گا تو ضرور یہ سچ بھی لکھےگا کہ جب پورا دیش کرونا جیسی مہاماری سے لڑرہا تھا تو اس نازک اور مصیبت زدہ وقت میں بھی کچھ لوگ ہندوستان میں ہندو-مسلم کارڈ کھیل رہے تھے، مسجدوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کو چھپا ہوا اور مندروں میں پھنسے ہوئے لوگوں کو پھنسا ہوا بتایا جارہا تھاـ
اور حیرت ہے کہ اس زہر کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہے جانے والے الیکٹرانک، پرنٹ، اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جا رہا تھا، اس طرح پروپیگنڈہ کیا گیا جیسے کرونا وائرس مسلمانوں اور تبلیغی جماعت کی وجہ سے ہی وجود میں آیا ہو.
میڈیا کی انتھک نفرت انگیز کوششوں کا پھل ہندوستان میں ہر جگہ نظر آنے لگا، محبتوں کا ملک نفرت کی آگ میں جھلسنے لگا، جگہ جگہ داڑھی ٹوپی والوں کو پکڑ پکڑ کر مارا گیا، مسلم، مُلّا، جماعتی اور تبلیغی کہہ کر مسلمانوں کی ماب لنچنگ کی گئی، نفرت انگیز عناصر اور شرپسند میڈیا اُس وقت خوشی کے شادیانے بجائے جب بیچارے غریب ٹھیلے پر سبزی بیچنے والوں کو بھی مذہب کی بنیاد پر تشدّد کا نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ تم مسلمان ہو اس لئے میری گلی میں سبزی بیچنے کیلئے قدم مت رکھنا، دودھ بیچنے والے مسلمانوں سے کہا گیا کہ ہم ہندو گوالے سے دودھ لیں گے، ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں، حالات ایسے سنگین ہوتے چلے گئے کہ سبزی بیچنے والے سے اس کا آدھار کارڈ دیکھ کر، اس کا مذہب اور ذات دیکھ کر ہی سے سودا خریدا جاتا تھاـ
ہندو سبزی والے ڈر سے اپنے ٹھیلوں پر بھگوا جھنڈے لگا رہے تھے تاکہ اس کا مذہب دور سے نظر آ جائے، پولیس اور ڈاکٹروں کی ٹیم سے مارپیٹ کرنے والے لوگ اگر مسلم ہوتے تو ان کا نام ان کے دھرم کے ساتھ بتایا جاتا، اور اگر مسلم نہیں ہوتے تو انہیں غصہ آور بھیڑ کہا جاتا، بی جے پی کے لوگ بےلگام ہو کر مذہبی جذبات کو بھڑکا رہے تھے اور لوگوں کو مشتعل کر رہے تھے لیکن ان پر کسی طرح کی کوئی کارروائی نہیں ہو رہی تھی، دیش کے مکھیا نے ان حالات پر "صومِ سکوت” رکھ لیا تھا، وزیر داخلہ مہینہ بھر سے روپوش ہو کر نفرت بانٹنے والے کاموں کی تائید کر رہا تھا. اور میڈیا ان ساری باتوں پر یا تو خاموش تھا یا طرفداری کر رہا تھا، ایک آدھ لوگ تھے جو آواز اٹھا رہے تھے، وہ اپنی جان ہتھیلی پر لیے اور ہر وقت مرنے کے لیے تیار سر پر کفن باندھے ان حالات کے خلاف بولتے تھےـ
ایسے نازک اور نفرت انگیز حالات میں بھی دیش کے اقلیتی طبقوں خاص کر مسلمان نہایت سنجیدگی کے ساتھ سماج کے دکھ درد میں شامل ہوتے رہے، کہیں مسلمانوں کا بائکاٹ کیا گیا تو کہیں مسلمانوں نے غیرمسلم کے جنازہ کو کاندھا دیا، مسلم مالی اعتبار سے کمزور اور اقلیت میں ہونے کے باوجود لوگوں کی پڑیشانیوں کو کم کرنے کی کوششیں کر رہے تھے اور ہندوستانی تاریخ میں خدمت خلق کی بےنظیر مثالیں قائم کیں ـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)