نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بدھ کے روز لکشدیپ کے مرکزی خطے میں نئے ضابطے کے مسودے پر مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ ساگر میں واقع ہندوستان کا یہ زیور تباہ کیا جارہا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ لکشدیپ کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا ہے کہ ساگر میں لکشدویپ ہندوستان کا زیورہے۔ اقتدار میں بیٹھے جاہل بنیاد پرست اسے ختم کررہے ہیں۔ میں لکشدویپ کے لوگوں کے ساتھ کھڑاہوں۔کانگریس نے منگل کو اس معاملے پر مرکزی حکومت سے استدعا کی تھی کہ وہ فوری طور پر ان مسودوں کو واپس لے اور پرفل کھوڑا پٹیل کو ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے ہٹائے۔پارٹی کی جنرل سکریٹری پریانکا گاندھی واڈرا نے کہا تھا کہ کانگریس لکشدویپ کے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے اور اپنے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے لڑے گی۔کانگریس کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے بھی پیر کو صدر رام ناتھ کووند کو ایک خط لکھا تھا جس میں لکشدیپ کے ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ انہوں نے صدر سے بھی کہا ہے کہ وہ پرفل پٹیل کے دور میں لیے گئے فیصلوں کو منسوخ کریں۔اطلاعات کے مطابق مسودہ ضوابط کے تحت لکشدیپ سے شراب کے استعمال پر پابندی ختم کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جانوروں کے تحفظ کا حوالہ دیتے ہوئے گائے کے گوشت سے تیار کردہ مصنوعات پر پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔ لکشدیپ کی زیادہ تر آبادی ماہی گیروں پر منحصر ہے ، لیکن حزب اختلاف کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ پرفل پٹیل نے کوسٹ گارڈ ایکٹ کی خلاف ورزی کی بنا پر ساحلی علاقوں میں ماہی گیروں کی جھونپڑیوں کو توڑنے کا حکم دیا ہے۔
راہل گاندھی
کانگریس کے قد آور لیڈر احمد پٹیل کا انتقال، سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور پی ایم مودی کا اظہارِ تعزیت
نئی دہلی: کانگریس کے قد آور رہنما اور راجیہ سبھا ایم پی احمد پٹیل کا آج صبح ساڑھے تین بجے دہلی کے میدانتا اسپتال میں انتقال ہوگیاـ وہ کچھ دنوں قبل کورونا وائرس سے متاثر ہوگئے تھے اور ان کے جسم کے کئی اعضا نے کام کرنا بند کردیا تھاـ احمد پٹیل کانگریس پارٹی میں غیر معمولی مؤثر کردار نبھاتے تھے اور پارٹی کی پالیسی سازی میں ان کا اہم حصہ ہوتا تھا ـ یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال پر کانگریس پارٹی میں شدید رنج وغم کی لہر دوڑ گئی ہےـ ایسے وقت میں جبکہ کانگریس کو احمد پٹیل جیسے اسٹریٹیجی ساز رہنما کی سخٹ ضرورت تھی ان کا انتقال کانگریس کے لیے بڑا نقصان ہےـ احمد پٹیل کے انتقال پر اظہار غم کرتے ہوئے صدر سونیا گاندھی نے کہا ہے کہ میں نے اپنا وفادار دوست اور معاون کھودیا ہے جن کی پوری زندگی کانگریس کے لیے وقف تھی ـ وہ ہمیشہ مدد کرنے کے لیے تیا رہتے تھےـ پی ایم مودی نے بھی انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہےـ انھوں نے ٹوئٹ کیا کہ کانگریس کو مضبوط کرنے میں احمد پٹیل کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائےگاـ راہل گاندھی نے ٹوئٹ کیا کہ احمد پٹیل کانگریس پارٹی کا ستون تھےـ انھوں نے پوری زندگی کانگریس پارٹی کو جیا اور مشکل وقت میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہےـ میں ان کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتا ہوں ـ
قانون ٹھیک ہے توکسان پریشان کیوں؟امبانی،اڈانی چلاتے ہیں مودی حکومت:راہل گاندھی
موگا:کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے آج مودی حکومت کے کسان قانون کے خلاف پنجاب کے شہر موگا میں ٹریکٹر یاتراکی شروعات کی۔ راہل گاندھی نے ایک جلسہ عام سے بھی خطاب کیا جس میں انہوں نے مودی حکومت پر شدید حملہ کیا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ مودی حکومت میں انگریزوں کی طرح برتاؤ کیا جارہا ہے۔ راہل نے کہا کہ اگر وہ اقتدار میں واپس آئے تو وہ کالے قانون کو کالعدم کردیں گے۔راہل گاندھی نے کہا کہ کوویڈ میں کسانوں کے لیے قانون کیوں لائے؟ اگر قانون ٹھیک ہے تو کسان کیوں احتجاج کررہے ہیں۔ کووڈ میں مودی سرکار نے بڑے تاجروں کا ٹیکس معاف کردیا ، غریبوں کو کچھ نہیں دیا۔انہوں نے مودی سرکار کو صنعتکاروں کاحمایتی قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ حکومت مودی کی ہے ، لیکن وہ امبانی اور اڈانی چلاتے ہیں،کوئی اور پردے کے پیچھے سے کٹھ پتلی چلا رہا ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ انگریزوں نے کسانوں کی ریڑ توڑی تھی، ملک غلام رہا ، نریندر مودی کاوہی مقصد ہے، اگر ہماری حکومت بنی تو ہم اس کالے قانون کو منسوخ کردیں گے۔وزیر اعلی پنجاب امریندر سنگھ ، کانگریس جنرل سکریٹری اور پنجاب امور کے انچارج ہریش راوت ، پنجاب کانگریس کے صدر سنیل جاکھر ، ریاستی وزیر خزانہ منپریت سنگھ بادل اور دیگر لیڈران بھی اس ریلی میں شرکت کے لئے موگا پہنچے تھے۔پنجاب کے جلسے میں راہل گاندھی نے ہاتھرس گینگ ریپ کا معاملہ بھی اٹھایا۔ انہوں نے کہاکہ کل میں یوپی میں تھا ، یہاں ہندستان کی ایک بیٹی تھی جسے قتل کیا گیا تھا اور مارے جانے والے افراد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی تھی اور جس کنبہ کی بیٹی کو مارا گیا تھا وہ اپنے گھر کے اندر بند تھا۔ڈی ایم نے انہیں دھمکی دی ، وزیراعلیٰ انہیں دھمکی دیتے ہیں ، ہندوستان کی یہی حالت ہے۔
اسمرتی ایرانی نے بھی سنبھالا بی جے پی کے دفاع کا محاذ،راہل گاندھی انصاف کے لیے نہیں بلکہ سیاست کے لیے ہاتھرس جارہے ہیں
نئی دہلی:مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے راہل گاندھی کو ہاتھرس کے دورے پر سخت نشانہ بنایا ہے۔ اسمرتی ایرانی نے کہا کہ راہل گاندھی متاثرہ افراد کے انصاف کے لئے نہیں بلکہ سیاست کے لیے ہاتھرس جارہے ہیں۔ راہل گاندھی کے ہاتھرس کے دورے کے پیش نظر دہلی-نوئیڈا ڈائرکٹ فلائی وے پر سکیورٹی انتظامات سخت کردیئے گئے ہیں۔مرکزی وزیر اور بی جے پی رہنما سمرتی ایرانی نے کہاکہ عوام کانگریس کی حکمت عملی سے واقف ہے۔اس لیے انہوں نے 2019 میں بی جے پی کوفتح دلائی ۔ انہوں نے کہاکہ جمہوری ملک میں سیاست دانوں کو روک نہیں سکتے ہیں، لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ راہل گاندھی کا ہاتھرس کا دورہ ان کی سیاست کے لئے ہے، مقتول کو انصاف دلانے کے لئے نہیں۔ آج صبح راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا اور کہاکہ ہاتھرس کے اس متاثرخاندان سے ملنے اور ان کے دکھ بانٹنے سے دنیا کی کوئی بھی چیز مجھے روک نہیں سکتی ہے۔یوپی پولیس نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو گاؤں میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔ نوئیڈا پولیس نے کہا ہے کہ وہ راہل گاندھی اور دیگر رہنماؤں کو دہلی-نوئیڈا بارڈر سے آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ راہل اور پرینکا اور دیگر رہنما دوپہر کے بعد ہاتھرس کے لیے روانہ ہوں گے۔ اسی دوران ہاتھرس صدر کے ایس ڈی ایم پریم پرکاش نے کہا کہ میڈیا کو گاؤں میں متاثرہ کے لواحقین سے ملنے کی اجازت ہے، کیوں کہ اب ایس آئی ٹی کی تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں۔
نئی دہلی:اترپردیش کے ہاتھرس میں ایک 20 سالہ دلت لڑکی کی مبینہ عصمت دری اور اسپتال میں داخل ہونے کے دوران موت ہونے کے بعد ملک میں ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں ریاست کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ جمعرات کے روز کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی جو متاثرہ اہل خانہ سے ملنے کے لئے ہاتھرس جارہے تھے، ان کے ساتھ دھکامکی ہوئی ۔ شیوسینا کے رہنما سنجے راوت نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور اسے ملکی جمہوریت کا گینگ ریپ قرار دیا۔شیوسینا کے ممبر پارلیمنٹ سنجے راوت نے کہا کہ راہل گاندھی قومی سطح کے سیاستدان ہیں۔ ہمارے کانگریس سے اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن پولیس نے ان کے ساتھ جوسلوک کیا اس کی کوئی حمایت نہیں کرسکتا۔ان کا کالر پکڑا گیا اور زمین پر دھکیل دیا گیا۔ یہ ایک طرح سے ملک کی جمہوریت کا گینگ ریپ ہے۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ کنگنا رناوت کے بارے میں راوت نے کہا کہ ممبئی میں ایک اداکارہ کا غیرقانونی تعمیرشدہ دفتر تھوڑا سا ٹوڑدیا ، اس وقت حکمران جاگ گئے جیسے آسمان ان پر ٹوٹ پڑا ہو۔ ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے، لیکن اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھ سکتا ہے۔ میں نے ملک کی تاریخ اور ملک کی روایت میں ایسا واقعہ کبھی نہیں دیکھا۔
راہل اورپرینکاگاندھی کوہاتھرس جانے نہیں دیاگیا،گرفتاری اوردھکامکی کاالزام،دہلی واپس لوٹے
لکھنؤ:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی اورپارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکاگاندھی واڈراکوجمعرات کے روز پولیس نے گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی لڑکی کے اہل خانہ سے ملنے کے لیے ہاتھرس جانے سے روک دیا ۔دھکامکی کے نتیجے میں راہل گاندھی گرگئے ۔اس درمیان ان دونوں کی گرفتاریوں کی خبربھی آئی ۔اب وہ دونوں دہلی واپس ہوگئے ہیں۔ریاست میں ان دونوں کو روکا گیاانھوں نے جنگل راج کاالزام لگاتے ہوئے پولیس پر لاٹھیاں چلانے کا الزام لگایاہے اورکہاہے کہ مغرور حکومت کی لاٹھیاں ہمیں نہیں روک سکتی ہیں۔ادھر پارٹی نے کچھ تصاویر جاری کی ہیں جن میں یہ دعویٰ کیاگیا ہے کہ اتر پردیش پولیس نے راہل گاندھی کو روکنے کے لیے ان کے ساتھ زیادتی کی جس کی وجہ سے وہ زمین پر گر پڑے۔کانگریس ذرائع کے مطابق، دونوں لیڈروں کے قافلوں کو گریٹر نوئیڈا پولیس نے روکا تھا۔ اس کے بعد وہ پیدل ہی ہاتھرس کے لیے روانہ ہوئے۔تھوڑی دور کے بعد پولیس نے انہیں دوبارہ روک لیا۔کانگریس نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں پارٹی کے سابق صدر پولیس سے پوچھتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں کس سیکشن کے تحت گرفتار کیا جارہا ہے۔پولیس کے روکنے کے بعد راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ ریاست میں جنگل راج کی یہ حالت ہے کہ متاثرہ خاندان سے ملنابھی حکومت کو خوفزدہ کرتا ہے۔انھو ں نے کہاہے کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ، پیاروں کو غم کی گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑا جاتا ہے۔اترپردیش میں جنگل راج کا عالم یہ ہے کہ کنبہ سے ملنے سے حکومت کو خوف آتا ہے۔ اتنا خوفزدہ نہ ہوں ، چیف منسٹر!‘‘پرینکاگاندھی نے الزام لگایاہے کہ پولیس نے ان کو اور راہل گاندھی کو ہاتھرس جانے سے روکنے کے لیے لاٹھیوں کااستعمال کیا ، لیکن مغرور حکومت کی لاٹھی سے انہیں روک نہیں سکتی۔انہوں نے ٹویٹ کیاہے کہ ہمیں ہاتھرس جانے سے روک دیاگیاہے۔جب ہم سب راہل گاندھی کے ساتھ پیدل نکلے تو ہمیں بار بار روکاگیا ، وحشیانہ انداز میں لاٹھی استعمال کی گئی۔
نئی دہلی:اترپردیش کے ہاتھرس میں غنڈوں کی وحشیانہ حرکتوں کانشانہ بننے والی کو15 دن تک زندگی کی لڑائی کے بعد شکست ہوئی۔ہاتھرس سے زیادتی کا نشانہ بننے والی دہلی کے صفدرجنگ اسپتال میں دوران علاج دم توڑ گئی۔ یوپی حکومت نے متاثرہ کے لواحقین کو 10 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ہاتھرس کی بیٹی کی موت پر کانگریس جارح ہے۔ جہاں دہلی میں خاتون کانگریس کارکنوں نے ایک مظاہرہ کیا ، وہیں یوپی کی جنرل سکریٹری انچارج پرینکاگاندھی نے متاثرہ کے اہل خانہ سے بات کی۔ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے بھی ٹویٹ کرکے یوپی کی یوگی حکومت پر حملہ کیا ہے۔راہل گاندھی نے ٹویٹ کیاہے کہ یوپی کے مخصوص جنگل راج نے ایک اور نوجوان خاتون کو مار ڈالا۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں مزیدکہا کہ حکومت نے کہا کہ یہ جعلی خبر ہے اور متاثرہ خاتون کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ۔
نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے پیر کو ایک بار پھر زراعت سے متعلق قوانین پر حکومت کو نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ پارلیمنٹ میں اور باہر بھی کسانوں کی آواز دبائی جارہی ہے۔ انہوں نے راجیہ سبھا میں ان بلوں کی منظوری کے دوران ہنگاموں سے متعلق ایک خبر شیئرکرتے ہوئے ٹویٹ کیاکہ زرعی قوانین ہمارے کسانوں کے لئے موت کافرمان ہے۔ ان کی آواز پارلیمنٹ اور باہر دونوں جگہ دبائی گئی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت ختم ہوچکی ہے۔کانگریس کے رہنما نے جس خبرکا حوالہ دیا اس میں دعوی کیا گیا ہے کہ راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین ہریونش نے کہا تھا کہ اپوزیشن ممبران ایوان میں زراعت کے بلوں پر ووٹ مانگنے کے دوران اپنی نشستوں پر نہیں تھے، لیکن راجیہ سبھا کے ٹی وی فوٹیج سے اس کے برعکس بات ثابت ہوتی ہے ۔ مون سون کے حالیہ اجلاس میں پارلیمنٹ نے زرعی پیداوار تجارت (فروغ اور سہولت) بل -2020 اور کسانوں (امپاورمنٹ اینڈ پروٹیکشن) پرائس انشورنس معاہدے اور زرعی خدمات سے متعلق معاہدے بل 2020 کی منظوری دی۔ صدر رام ناتھ کووند نے اتوار کے روز ان بلوں کو منظوری دے دی، جس کے بعد وہ قانون بن گئے۔
نئی دہلی:ملک میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں کوروناوائرس کے کیسز آ رہے ہیں۔ سابق کانگریس صدر راہل گاندھی کورونا پر حکومت پر مسلسل حملہ آور ہیں اور الزام لگا رہے ہیں کہ حکومت کورونا روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہی ہے۔در حقیقت پیداوار کے معاملے میں دنیا کی سب سے بڑی ویکسین کمپنی،سیرم انسٹی ٹیوٹ کے اعلیٰ عہدیدارنے حکومت کوبتایاہے کہ ملک میں کورونا ویکسین سب کے لیے دستیاب کرنے کے لیے80000 کروڑ روپے کی ضرورت ہے،کیاحکومت کے پاس اتنی رقم ہے؟ راہل گاندھی نے اس بارے میں وزیر اعظم مودی پر طنز کیا ہے۔ اتوار کے روز کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور سابق صدر راہل گاندھی نے اپنے ٹویٹ میں لکھاہے کہ سوال جائز ہے ، لیکن وہ کب تک حکومت کے جواب کا انتظار کرے گا؟ کاش کہ کوویڈ سے ملک کوبچانے کی حکمت عملی کی بات ہوتی۔
نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک اور کسانوں کے مفاد میں کسان بل فوری طور پر واپس لیں۔ راہل گاندھی نے وزیر اعظم مودی سے کہا ہے کہ وہ کسانوں کو کم سے کم سپورٹ قیمت کی ضمانت دیں۔ انہوں نے کہاہے کہ ملک بھر کے کسانوں کے مطالبے درست ہیں۔ ایک ویڈیوپیغام جاری کرتے ہوئے راہل گاندھی نے ٹوئیٹ کیاہے کہ کسان کے مطالبات مناسب ہیں، مودی جی ، ملک کی آواز سنیں۔ جے کسان ،جے ہندوستان۔راہل گاندھی حکومت کومسلسل بے روزگاری،کسان،مہنگائی اورمعاشی بدحالی پرگھیررہے ہیں اورعوام کی آوازمضبوطی کے ساتھ اٹھارہے ہیں۔
غریبوں کااستحصال اوردوستوں پرنوازش:راہل گاندھی نے لیبراصلاحات بل پرسرکارکوگھیرا
نئی دہلی:سابق کانگریس صدر راہل گاندھی نے جمعرات کو پارلیمنٹ میں منظور شدہ مزدور اصلاحات سے متعلق تین بلوں پر حکومت کونشانہ بنایا اور الزام لگایاہے کہ کسانوں کے بعد ملازمین پرحملہ کیاگیاہے۔راجیہ سبھا نے بدھ کے روز پیشہ ورانہ حفاظت ، صحت اورورکنگ کوڈ 2020 ، صنعتی تعلقات کوڈ 2020 اور سماجی تحفظ کوڈ 2020 کو منظوری دی جس کے تحت کمپنیوں کی بندش میں حائل رکاوٹوں کو ختم کیا جائے گا اور زیادہ سے زیادہ 300 ملازمین رکھنے والی کمپنیوں کو سرکاری اجازت کے بغیر ملازمین دیئے جاسکتے ہیں۔منگل کو لوک سبھا نے ان تینوں بل کو منظور کیا اور اب صدر کی منظوری کے لیے بھیجا جائے گا۔راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا ہے کہ کسانوں کے بعدملازمین احتجاج کریں۔ غریبوں کا استحصال،دوستوں پرنوازش۔یہ صرف مودی جی کاراج ہے۔کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے بھی ان بلوں کے بارے میں حکومت کو نشانہ بنایا۔انہوں نے ٹویٹ کیا ہے کہ اس مشکل وقت کا مطالبہ یہ ہے کہ کسی کو نوکری نہیں ملتی ہے۔ ہر ایک کی روزی سلامت رہے۔ بی جے پی حکومت کی ترجیح دیکھیں۔ حکومت نے اب ایک قانون پیش کیا ہے جس میں ملازمین کوہٹاناآسان ہوگیاہے۔ واہ رے حکومت ، آسان مظالم ہوئے۔
راہل گاندھی نے NEET امتحان میں بیٹھنے والے طلبا کو نیک خواہشات پیش کی،پی ایم مودی کی تنقید
نئی دہلی:کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے کورونا وائرس کی وبا کے درمیان NEET امتحان کروانے کے لیے مودی سرکار کو ایک بار پھر نشانہ بنایا ہے۔ نیز امتحان میں شامل طلباء کو نیک خواہشات بھی پیش کی ہیں ۔ وزیر اعظم نریندر مودی پر حملہ کرتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ مودی جی کو جتنی فکر اپنے دوستوں کی ہے کاش اتنی فکر NEET-JEE طلباء کے لیے ہوتی۔اتوار کے روز اپنے ٹویٹ میں راہل گاندھی نے لکھا ہے کہ نیٹ امتحان میں بیٹھنے والے طلباء کے لیے میری نیک خواہشات ہیں اور میں ان طلباء کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں جو کورونا جیسے وبائی مرض اور سیلاب کے سبب امتحان دینے سے قاصر رہے ۔ کاش مودی جی کو جتنی فکر اپنے سرمایہ دار دوستوں کو لے کر ہوتی ہے ،اتنی فکر جے ای ای – این ای ای ٹی کے امیدواروں اور طلباء کے بارے میں ہوتی ۔
کانگریس پارٹی کو غالباً اپنے اچھے دنوں کی کو ئی توقع نہیں – صفدر امام قادری
صدر شعبۂ اردو ،کالج آف کامرس ،آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ
نریندر مودی کی حقیقی کامیابی کا راز اُن کی تنظیمی صلاحیت اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر عوام کے بیچ اشتعال پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات میں بھی مضمرہے کہ انھوں نے ہندستان کی دوسری سیاسی جماعتوں اور بالخصوص کانگریس کو اس جگہ تک پہنچا دیا ہے جہاں اس میں آگے دیکھنے اور پھر سے کبھی مرکز میں حکمراں جماعت بننے کا جوش و جذبہ ہی نظر نہیں آتا۔ اگر ایسا نہیں ہو تا تو حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلا ف عوام کو متحد کر کے کانگریس 2019ء میں نریندر مودی کو دہلی سے دور کر چکی ہوتی ۔ مگر اسے آپسی لڑائی جھگڑے میں شامل ہو نے اور پارٹی کے داخلی تنازعات میں الجھنے میں زیادہ مزہ آتا ہے اور اسی کام کو وہ پارٹی سنجیدگی سے کرتی ہے ۔اب ایسی سیاسی جماعت کی طرف نگاہیں اٹھائے ہندستا ن کے سچّے سیکولر عوام کوکسی نئے راستے کی تلاش کرنی چاہیے ۔
جمہوریت میں خاندانی سیاست کے اپنے مسائل ہیں۔اندرا گاندھی کی وفات کے بعدپہلی بار لوگوں کی سمجھ میں آیا کہ راجیو گاندھی نہایت نا تجربہ کار سیاست دان ہیں اور پارلیامانی جمہوریت میں بھی ڈھائی آکھر تک نہیں پہنچے ہیں۔ان کے دوستوں نے مسٹر کلین کے طور پر امیج بنانے کی کوشش کی۔اندراگاندھی کی موت کی لہر میں انھوں نے دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کر لی تھی۔مگر ان کے پاس ملک اور دنیا کے بارے میں کوئی ٹھوس تصور نہیں تھا۔پارٹی کے یار لوگوں نے رٹے رٹائے جملے ان کے منھ سے اگلوانے شروع کیے ۔ان کے ایک دن کی تقریر اگلے روز الٹ جاتی تھی۔کانگریس نئے پرانے لیڈروں کے جال میں اسی زمانے میں پھنسی۔ یہ پھندا اندرا گاندھی کو بھی ایک زمانے میں کسنے کی کوشش کر رہا تھا مگر ان کی انتظامی سوجھ بوجھ اور فیصلے میں اپنے سیاسی تجربے کا استعمال ان کے لیے مددگارہوئے۔پارٹی ٹوٹی مگر اسے اپنے حق میں کرنے ،سرکار قائم رکھنے اور اپنی فوقیت ثابت کرنے میں وہ کامیاب رہی ۔راجیو گاندھی کے لیے دوسری بار اگر حکومت حاصل ہوتی تو ایسے امتحانات شروع ہوتے مگر پہلے وہ دوبارہ اپنی حکومت نہیں بنا سکے اور بہت جلد انھیں اپنی جان بھی گنوانی پڑی۔
کانگریس میں ہر زمانے میں بڑے بڑے سیاست داں اور اپنے اشارے پر چلانے والے لیڈر بھرے پڑے نظر آتے ہیں۔نرسمہا راو کو راجیو گاندھی کی وفات کا پہلا پھل ملا اور نرسمہا راو کے دورِ حکومت میں اس بات کی کوششیں ہوئیں کہ سونیا گاندھی اور پھر راہل گاندھی سیاست کے ایوان میں اپنی جگہ بنالیں۔ وقفے میں خاندان سے باہر کے ایک فرد کو وزیر اعظم بننے کا موقع ملا مگر نرسمہا راو نے اپنے تجربے کی بنیاد پر وہ میعاد کسی طور پر کامیابی سے نکال لی ۔ کانگریس کو وہاں پہنچا دیا جہاں سے اس کے لیے آسان مواقع نہیں تھے۔ اسی دوران بابری مسجد کا انہدام بھی ہوا۔ اکثر لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ راجیو گاندھی کے دور میں ہی وہاں تالا کھلا تھا اور مسجد میں پوجا پاٹ کا سلسلہ قائم ہوا تھا۔ نرسمہا راو نے اٹل بہاری واجپئی کی وزارت کے لیے راہیں ہموار کیں۔
رفتہ رفتہ کانگریس، کمیونسٹ پارٹی اور سیکولر جماعتوں کے ساتھ انتخابات میں شریک ہوکر اپنا وجود بچانے میں کامیاب رہی اور ۲۰۰۵ء کی وہ گھڑی آگئی جب انتخابات میں ’’ہندستان چمک رہا ہے‘‘کے شگوفے سے بھارتیہ جنتا پارٹی ماحول بنارہی تھی۔ کانگریس کو دور دور تک یہ پتا نہیں تھا کہ اقتدار اس کے ہاتھ میں آنے والی ہے۔ جس روز ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی، کانگریس کے صدر دفتر میں دوپہر تک سناٹا چھایا رہا اور کوئی اہم لیڈر کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ٹی وی چینلوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے شہسوار دبنگ بنے ہوئے تھے اور کانگریس کی طرف سے اپنی باتیں رکھنے کے لیے جو ترجمان نظر آرہے تھے، ان کی گھگھی بندھی ہوئی تھی۔ مگر دوپہر کے بعد سورج رفتہ رفتہ ڈھلنے لگا اور کانگریس کا آفتاب نئی روشنیوں کے ساتھ مقدر کا فیضان لٹاتے ہوئے طلوع ہوا۔ ان پندرہ برسوں میں عوام یہ تماشا دیکھتے رہے کہ کانگریس کے اہل کار سونیا گاندھی اور ان کے صاحب زادے راہل گاندھی یا کبھی کبھی پرینکا گاندھی کو اگلے وزیر اعظم کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ اسی انداز سے برانڈنگ ہوتی رہی مگر ۲۰۰۵ء میں سونیا گاندھی نے وزیر اعظم کے عہدے کو غالباً اس لیے قبول نہیں کیا کیوں کہ وہ اپنے صاحب زادے کو آنے والے وقت میں اس جگہ بٹھانا چاہتی تھیں۔ پندرہ سال اُدھر اور پندرہ سال اِدھر یعنی تین دہائیوں میں اس خاندان کے تینوں افراد اپنی کوششیں کرتے رہے مگر جو نتیجہ نکلا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ملک کے عوام یا سیاسی مشاہدین اس معاملے میں تذبذب میں مبتلا ہیں۔ کبھی سونیا گاندھی بن باس اختیار کرلیتی ہیں اور کبھی ان کے صاحب زادے ۔ کبھی کبھی برسو ں پرینکا گاندھی نظر نہیں آتیں اور کبھی ہندستان کے سب سے بڑے صوبے کی سیاست کا سکہ چلانے کے لیے کانگریس کی طرف سے پیش کردی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بن باس نہیں چاہتا مگر میدان میں ٹک کر اپنی شکستوں کی ذمہ داری لینے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں ۔ جیتے تو ہم فاتح اور ہارے تو کانگریس کی تنظیم کا مسئلہ۔ یہ ایسا کھیل ہے جس میں کانگریس کو اور بھی سکڑنا ہے۔
کانگریس اپنے گذشتہ سے سیکھنا نہیں چاہتی۔ ابھی جو اس کے ہاتھ میں علاقائی اقتدار موجود ہیں، وہاں بھی ڈاواں ڈول کیفیت ہے۔ کرناٹک اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں کو گنوا دینے کے بعد وہ کسی طرح راجستھان کی حکومت کو بچاپانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ہر سیاسی مبصر اس بات سے اتفاق کرے گا کہ راجستھان کی پریشانیوں کو کم کرنے یا ایک منزل تک پہنچانے میں کانگریس کے اعلا کمان سے زیادہ خود وہاں کے وزیر اعلا اشوک گہلوت کی سیاسی فراست اور طویل تجربہ ہے ورنہ دلی اور جے پور دونوں سمٹ ہی گئے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پشت پناہی الگ رہی۔ کانگریس میں وقت پر فیصلہ لینے کی صلاحیت سب سے کم رہی ہے اور موزوں کام میں یا اہم موقعے سے تو انھیں ایسی کوئی صلاحیت دکھانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ جب ان کی صف اول کے لیڈران بشمول جیورادتیہ سندھیااور سچن پائلٹ عوام میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ کانگریس صدر یا اعلا کمان سے مل کر انھیں بات کہنے کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑا مگر کوئی صورت نہیں پیدا ہوئی۔ ایسی پارٹی سیاست کیا محلے کی پنچایت بھی نہیں چلا سکتی۔
ابھی پچھلے دنوں جب کانگریس کے بہت سارے بڑے اور تجربہ کار لیڈروں نے سونیا گاندھی کو ایک خط لکھ کر پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے چند مشورے دیے ، اسی دن سے اس پارٹی میں بھونچال آیا ہوا ہے۔ خط کا متن ملاحظہ کیجیے تو اس میں سنجیدہ گفتگو کی گئی ہے اور ہر اعتبار سے کانگریس کی سیاسی اور سماجی بہبود کے مد نظر مشورے دیے گئے ہیں۔ مگر گذشتہ ہفتے کی کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کے روز ہی غلام نبی آزاد اور کپل سبل کے ٹویٹ اور بیانات یہ بتانے کے لیے کافی تھے کہ کانگریس اعلا کمان کو یہ جرات رندانہ پسند نہیں آئی۔ اب جب کہ تنظیمی ڈھانچے میں رد و بدل کے اعلانا ت ہوچکے ہیں تو یہ سمجھنا محال نہیں کہ اس خط کی وجہ سے ہی غلام نبی آزاد ، کھڑگے وغیرہ کو پارٹی میں اپنی پوزیشن گنوانی پڑی۔ ممکن ہے آنے والے دنوں میں کچھ اور لوگ بھی مکتوب نویسی کی پاداش میں راندۂ درگاہ کیے جائیں۔
پورے ملک کے عوام بھارتیہ جنتا پارٹی کی مطلق العنانی اور کھلی فرقہ پرستی یا معیشی حکمت عملی میں ناکامی سے عاجز آکر کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن پارٹیوں کا ایک فرنٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔ جگہ جگہ کانگریس کی جو سرکاریں بنیں، ان میں کانگریس کی کارکردگی کم اور بھارتیہ جنتا پارٹی سے نجات کی عوامی خواہش کا زیادہ دخل تھا۔ غلطی سے کانگریس نے اسے اپنی کامیابی سمجھ کر پرانے انداز سے چلنے کی گستاخی کی ۔ نتیجے میں بھوپال اور بنگلور ان کے ہاتھ سے نکل گئے ۔ کانگریس اب بھی دیہاتی نوٹنکی کی طرح سے چل رہی ہے۔ اندر اور باہر ، رسمی اور غیر رسمی باتوں کے فریب اب اسے اپنے جال میں پھنسا رہے ہیں۔ پانچ برس تک سونیا گاندھی عوامی منچ سے اعلان کرتی رہیں کہ اب یہ وقت آگیا ہے کہ راہل گاندھی کو کانگریس کی کمان سنبھالنی چاہیے۔ کبھی ایسا محسوس نہیں ہونے دیا کہ ایک ماں اپنے بیٹے کی وکالت کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ۲۰۱۹ء کے انتخاب میں شکست کے بعد راہل گاندھی نے کانگریس کی صدارت سے استعفیٰ دیا۔ اب ان کی والدہ محترمہ کانگریس کی کارگزار صدر بن گئیں۔ کہاوت پہلے سے موجود ہے ’’گھی کہاں گیا کھچڑی میں‘‘۔ ایک متبادل پرینکا گاندھی کے طورپرجنرل سکریٹری بن کے قطار میں موجود ہے۔ سیاست میںچُھپے گھات کھیلے جاتے ہیں مگر لڑائی آمنے سامنے لڑنی پڑتی ہے۔ نریندر مودی نے لال کرشن اڈوانی کو سامنے سے ہرایا۔ اب انھیں ا س کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ مگر کانگریس میں نہ اپنی قیادت کو عوام تک لے جانے کی بے چینی ہے اور نہ ہی اپنی خامیوں پر توجہ دینے کی فرصت۔
آنے والے وقت میں بہار میں انتخابات ہیں۔ سیاسی اعتبار سے بے حد حساس مسئلے سامنے آرہے ہیں۔ لالو یادو جیل میں ہیں اور بہت مشکل ہے کہ انتخابات میں وہ میدان میں آسکیں۔ پچھلی اسمبلی تو ان کی وجہ سے پارگھاٹ لگ گئی تھی۔ مگر راہل گاندھی یا سونیا گاندھی کو دلی کی ڈرائنگ روم پالیٹکس میں زیادہ مزہ آتا ہے۔ میدان میں اتر کر مخالف سے دو ہاتھ کرکے سرفرازی اب اس خاندان کے مقدر میں ہی نہیں ہے۔ کاش انھیں ہوش آتا ۔
کانگریس کے لیے اب بھی موزوں ہے کہ نئے پرانے وفادار اور بے وفا سارے کرداروں کو جمع کرکے اپنی طاقت اور اجتماعی قیادت کو سنبھالنے کے لیے بہار کے انتخاب میں میدان میں آنا چاہیے۔ وہاں پہلے سے تیجسوی یادو کی شکل میں خاندانی سیاست کے ناتجربہ کار سپاہی موجود ہیں۔ انھیں سکھاپڑھا کر میدان میں کامیاب کرانے کی ذمہ داری کانگریس کو ہی اٹھانی پڑے گی ورنہ بہار میں پھر سے نتیش کمار کا بر سرِاقتدار ہونا یہ پیغام دور تک پہنچائے گا کہ کانگریس کا زوال حتمی ہے اور نریندر مودی کے طوفان کو کوئی روک نہیں سکتا۔ وقت رہتے کانگریس کو تگڑمی سیاست سے خود کو اوپر اٹھانا چاہیے۔