ریاض:مشاعروں کی دنیا کے طرح دار اور مزاحمت کی بلند و بالا آواز راحت اندوری کی یاد میں ادارہ ادب اسلامی اور ایف آئی سی ریاض سعودی عرب کے زیر اہتمام ایک آن لائن بین الاقوامی زوم مشاعرہ انعقاد کیا گیا۔ راحت اندوری کے دو مصرعے ’’ ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے، ، اور’’میں چاہتا ہوں کوئی اور کاروبار کروں ،،بطور طرح دیئے گئے تھے ،جن پر شعراء کرام نے شاندار گرہیں لگائیں۔
مشاعرے کا آغازقاری منت اللہ کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا ، اس کے بعد جمیل احمد نے رضوان الہ آبادی کی حمد جبکہ حسان عارفی اور اسمعیل روشن نے نعت پاک پڑھی ۔اس مشاعرے کی صدارت پانچ شعری مجموعوں کے خالق اورعالمی شہرت یافتہ شاعر افتخار راغب نے کی جبکہ نظامت کے فرائض منصور قاسمی نے انجام دیئے اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے معتبر شاعر ظفر فاروقی موجود رہے ۔منصور قاسمی نے راحت اندوری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا:راحت اندوری اپنے کلام اور آواز سے ہر دور میں پہچانے جائیں گے ، ان کی دلکش اور سحر طراز شاعری ہمیشہ سنی جائے گی ۔اس مشاعرے میں ہندو پاک کے علاوہ خلیجی ممالک کے بہت سے سامعین شریک تھے ۔حسان عارفی کے کلمات تشکر کے ساتھ مشاعرہ کا اختتام ہوا۔
راحت اندوری
بزمِ صدف کا عالمی آن لائن مشاعرہ: منتخب اور معیاری شاعری سے ایک عالَم محظوظ ہوا
ڈاکٹر الفیہ نوری
بزمِ صدف نے راحت اندوری کی یاد میں جو علمی مذاکرہ اور مشاعرہ منعقد کیا،اس کا خاص پہلو یہ تھا کہ اس میں ہم عصر شاعری کے اتنے اچھے نمونے سامنے آئے جس سے اس بات کا ثبوت فراہم ہو ا کہ آج بھی مشاعروں میں اگرمنتخب شعرا مدعو کیے جائیں اور کسی متشاعریا فضول قسم کے شاعر یا شاعر نماحضرات کو شامل نہ کیا جائے تواب بھی مشاعرے کا وقار بحال ہو سکتا ہے۔بزمِ صدف کے مشاعرے کی صدارت برطانوی شاعر اور بزمِ صدف بین الاقوا می ایوارڈ یافتہ باصر سلطان کاظمی نے کی اور نظامت کے فرائض بزمِ صدف نئی نسل ایوارڈ یافتہ شاعر اور ادیب ڈاکٹرواحد نظیرنے انجام دیے ۔صدر اور ناظم کے شامل مشاعرے میں چودہ شعرائے کرام شامل تھے۔ عوامی مشاعروں میں اکثراچھے شعرا بھی بازار کے مطابق شعر پیش کر کے اپنا اور مشاعرے کا معیار خراب کرتے ہیں مگربزمِ صدف کے آن لائن مشاعرے میں شروع سے ہی ایک ادبی وقاربحال رہا جس کی وجہ سے شعرائے کرام نے اپنے بہترین اشعار سے دنیا بھر کے سننے والوں کو محظوظ کیا۔فیس بُک لائیو اور دوسرے ذرائع سے دنیا کے درجنوں ملکوں میں شائقین اس مشاعرے کو دیکھ اور سُن رہے تھے ،اس لیے تمام شعرا نے اپنے چنندہ اشعار پیش کیے اور سب کے حلقۂ اثر میں اضافہ ہوا۔
مشاعرے کے آغاز سے پہلے ناظمِ مشاعرہ نے مکتبۂ صدف کی طرف سے ڈاکٹر عابدہ پروین اور نیلوفر یاسمین کی مرتبّہ صفدر امام قادری کے خاکوں کی کتا ب’ جانے پہچانے لوگ‘ کے اجرا کااعلان کیا۔وبائی صورتِ حال میں آن لائن اجرا کا یہ موقع سامنے آیا تھا ۔ واحد نظیر صاحب نے اپنے تعارفی کلمات میں اس بات کی وضاحت کی کہ بزمِ صدف اپنے ہر پروگرام میں اپنی تازہ مطبوعات کی اشاعت اور پیش کش کا انتظام کرتی رہی ہے ۔ اسی روایت کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بین الاقوامی مشاعرے میں معروف نقاد صفدر امام قادری کے پندرہ خاکوں کے مجموعے کا اجراعمل میں آیا۔اس کتاب میں صفدر امام قادری نے اپنے والد اشرف قادری اور والدہ کے ساتھ اپنے اساتذہ پروفیسر نا ز قادری، پروفیسر راحت حسین اور سید ہاشم رضا کے خاکے قلم بندکیے ہیں ۔ ان کے علاوہ ممتاز مصنفین شفیع جاوید ،وہاب اشرفی ،مجتبیٰ حسین ،اسرار جامعی، حبیب تنویر ،ش۔ مظفر پوری،مختار الدین احمد،محمد مختار وفا، مرزا کھونچ اور منظر سلطان کے خاکوں سے یہ کتاب آراستہ ہوئی ہے۔ واحد نظیر نے یہ توقع ظاہر کی کہ یہ کتاب علمی حلقوں میں پسندیدہ نگاہوں سے ملاحظہ کی جائے گی۔
یہ مشاعرہ ممتاز اور مقبول شاعر راحت اندوری کی یا د میں منعقد کیا گیا تھا، اس لیے ناظمِ مشاعرہ ڈاکٹر واحد نظیر نے راحت اندوری کی نعت سے محفل کا آغاز کیا۔ان دو اشعار پہ محفل جھوم اٹھی:
اگر نصیب قریبِ درِ نبی ہو جائے
مری حیات مری عمر سے بڑی ہو جائے
میں میم حے لکھوں اور پھر میم دال لکھوں
خدا کرے کہ یوں ہی ختم زندگی ہو جائے
مشاعرے کے پہلے شاعر کے طور پر جھارکھنڈ ، رانچی سے نئی نسل کے ابھرتے ہو ئے شاعر تسلیم عارف کو زحمتِ سخن دی گئی۔تسلیم عارف نے پہلے تحت اور پھر ترنم سے اپنے اشعار سنائے۔ان کے درج ذیل اشعار پہ خوب خوب داد ملی:
کوئی بھی ایسی ڈگر نہیں ہے
جہاں غموں کا گزر نہیں ہے
خدا کا جس دل میںڈر نہیں ہے
مری نظر میں بشر نہیں ہے
کویت میں مقیم مسعود حساس نے اپنے عہد کے حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کئی غزلیں سنائیں۔زبان کی سطح پرانھوں نے تجربہ پسندی سے تمام سننے والوں کو متاثر کیا۔ان کی پیش کش کا انداز بھی بڑا رواں اور پُر اثر تھا۔ ان کے ذیل کے اشعار داد حاصل کرنے میں کا میاب رہے:
جسم سے ساتھ نبھانے کی مت امید رکھو
اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے
ذرا سی بات تھی دل پھر بھی آج بھر گیا ہے
قضا کے آنے سے پہلے ہی کوئی مر گیا ہوگا
اب اس پہ کیسے بھلا کوئی اعتبار کرے
زبان دے کے کئی بار وہ پلٹ گیا ہے
ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی دانش نے لندن سے مشاعرے میںشرکت کی ۔وہ بزمِ صدف قطر کے نائب صدر ہیں۔انھوں نے حالاتِ حاضرہ اور وبائی ماحول کے پیش ِ نظر چند ایسے اشعار پیش کیے جن سے بدلی ہوئی دنیا کا ہر پہلو روشن تھا۔انھوں نے مختلف غزلوں سے جو اشعار سنائے ،ان میں درج ذیل سب سے پسندیدہ قرار پائے:
اے چاند دیکھ تجھ سے ہی ملنے کی آس میں
نکلے ہیں ہم سفر پہ خلائی لباس میں
گنتی ہیں، ہندسہ ہیں اجل کے شمار میں
ہم کیا ہیں ہست و بوٗد کے اس کاروبار میں
ٹھہریں گے تھوڑی دیر مسافر پڑاو میں
کب تک رکیں گے خیمۂ نا پایدار میں
ٰدیکھو کسی کی یاد میں راتوں کو جاگ کر
بے چینوں کا لطف کہاں ہے قرار میں
دانش بلا وا دوست کا آجائے کس گھڑی
ہم سب کھڑے ہوئے ہیں اسی انتظار میں
بزمِ صدف کے اس مشاعرے میں قطر کی نمائندگی’ دست رس‘ شعری مجموعے کے خالق احمد اشفاق کر رہے تھے۔حالات کی بے یقینی اور زندگی کی صبر آزما کیفیتوں کو انھوں نے اپنے اشعار میں شامل کیا تھا۔انھو ں نے اپنے مخصوص انداز میں دو غزلیں پیش کیں جن کے مختلف اشعار پر انھیں خوب خوب داد ملی۔ چند اشعار ملاحظہ ہو ں:
جدھر بھی پانو رکھوں راستا بنا ہوا ہے
ترا وجود مسلسل دعا بنا ہوا ہے
کئی دنوں سے کوئی خیریت نہیں اس کی
خموشیوں کا عجب سلسلہ بنا ہوا ہے
ابھی ابھی تو میں لوٹا تمام کرکے سفر
نئے سفر کا نیا وسوسہ بنا ہوا ہے
آج اس کے جنازے میں ہے اک شہرصف آرا
کل مر گیا جو آدمی تنہائی کے ڈر سے
بزمِ صدف کی نئی نسل انعام یافتہ شاعرہ عشرت معین سیماجرمنی سے مشاعرے میں شریک ہوئیں۔وہ ایک ساتھ شاعر ، افسانہ نگاراورتنقید نگار ہیں۔انھوں نے عالمی حالات کے پیشِ نظر چندنئے اشعار پیش کیے جن میں ایک طرف بے بسی کی کیفیت تھی تو اسی کے ساتھ مقابلہ آرا ہو نے کا حوصلہ بھی نظر آیا۔ان کے جو اشعارپسند کیے گیے، ان میں سے چند حسبِ ذیل ہیں:
اب کے سوچا ہے کہ ہم جشن منا ہی لیں گے
خونِ ناحق سے چراغوں کو جلا ہی لیں گے
کب تلک پانو کی زنجیر کو روئیں ہم سب
آج اک رقص کی محفل کو سجا ہی لیں گے
اب ہے اس موجِ تلاطم سے بچانا مشکل
ہم سفینے کو کسی پار لگا ہی لیں گے
سر پہ ڈالی ہے جو تم نے مرے ارمانوں کی
ہم نے سوچا ہے کہ وہ خاک اُڑا ہی لیں گے
مشاعرے کے ناظم ڈاکٹر واحد نظیر کو بہ طورِ شاعر ڈاکٹر ندیم ظفرجیلانی نے مختصر تعارف کے ساتھ آواز دی۔واحد نظیر محقق ،نقاد،نعت خواں اور غزل گو کے طور پر معروف ہیں۔انھوں نے اپنی مرصّع غزل پیش کی جس کے ایک ایک شعر پر انھیں شعرائے کرام نے داد دی۔ان کی غزل لفظیات اور مزاج کے اعتبار سے بالکل مختلف تھی، اسی لیے انھوں نے خصوصی توجّہ حاصل کر نے میں کا میابی پائی۔چند اشعار ملاحظہ کریں:
جبینِ وقت پر منصف نے کب ہے فیصلہ لکھا
رہا محکوم ، حاکم نے اسے جب جو کہا لکھا
یہ کیسے دور میں لوح و قلم سونپے گئے ہم کو
پڑھے لکھوں کے کام آئے نہ کچھ بھی پڑھا لکھا
میں اپنا حال کیا لکھوں بس اپنے ملک جیسا ہے
بہت ہیں مسئلے لیکن نہیں کچھ مسئلہ لکھا
ہمارے چاند سے چندن کی خوش بوٗ بھی نکلتی ہے
پھر اس کو چاند سے اچھا لکھا تو کیا برا لکھا
اب مشاعرے میں ناظم نے بزمِ صدف کے ڈائریکٹر پروفیسر صفدر امام قادری کو آواز دی ۔ وہ نقاد اور محقق کے طور پر اپنی پہچان رکھتے ہیں مگر انھوں نے گاہے بہ گاہے شعر بھی کہے ہیںجو رسائل و جرائد میں شائع ہو تے رہے ہیں ۔ان کے ان شعار کو محفل میں تو جہ کے ساتھ سنا گیا:
لپٹا ہوا ہے جسم سے جو بوجھ ہٹ سکے
سوٗرج کرو بلند کہ سایہ بھی گھٹ سکے
منھ میں ایک لفظ نہیں، ہاتھ میں زنجیریں ہیں
گھپ اندھیرے میں مرے خواب کی تعبیریں ہیں
قتل کے خونیںمناظر دیکھتے رہ جائیں گے
اس وراثت میں ہمارے مسئلے رہ جائیں گے
سب کے کاندھے پر سلگتے موسموں کا قہر ہے
ایٹمی بارش میں آدم کھوکھلے رہ جائیں گے
اس نگر سے روٹھ کر کب کی گئی تازہ ہوا
آدمی کی شکل میں بس مرثیے رہ جائیں گے
کئی یگوں کے فسانے تھے میری آنکھو ں میں
یہ اور بات کہ خاموش و بے صدا میں تھا
ہر ایک سمت سے یلغار تھی رفیقوں کی
فراتِ وقت پہ سالارِ کربلا میں تھا
جدّہ، سعو دی عرب سے بزرگ شاعر مہتاب قدر بزمِ صدف کے اس مشاعرے میں شرکت فرما رہے تھے۔انھوں نے چند قطعات اور پھر غزل کے اشعار پیش کیے۔ ان کے کلام میں طنز اور روحِ عصر کی یکجائی سے ایک اثر آفریں کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ انھوں نے ایک مختصر سی نظم بھی پیش کی جس میں سماج اور دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے انسانیت نواز قوتوں کو بے دار کرنے کا تازیانہ پیش کیا گیا تھا ۔ان کے چند اشعار ملاحظہ کریں ـ:
الٹ کے کاسہ اسے تاج کرکے دیکھتے ہیں
چلو فقیری میں اب راج کرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس سے ترقی کی راہیں کھلتی ہیں
تو کل کے کام چلو آج کر کے دیکھتے ہیں
مشاعرے میں لکھنؤسے مقبول شاعر حسن کاظمی شریک تھے۔ حسن کاظمی نے خاص طور سے راحت اندوری کے ارتحال پر اپنے رقّت آمیز تاثرات کا اظہار کیا۔حسن کا ظمی اپنے دیرینہ تعلقات واضح کرتے ہو ئے راحت اندوری کی یا د میں ایک ایسی غزل پیش کرنے میں کامیاب ہوئے جس کا ہر شعر رنج و غم اور یادوں کی درد آمیزی سے تیار ہو ا تھا۔ان کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
کوئی نشان، کوئی نقشِ پا نہیں ملتا
وہ آس پاس ہے لیکن پتا نہیں ملتا
چہک سے جس کے مرے گھر میں ایک رونق تھی
کہاں گیا ہے وہ پنچھی، پتا نہیں ملتا
وہ ساتھ تھا تو مری رہ گزر بھی آساں تھی
بچھڑ گیا تو کوئی راستا نہیں ملتا
کبھی دعائیں نہ مانگیں ،بس اس بھرم کے لیے
میں مانگتا جو خدا سے تو کیا نہیں ملتا
بھری بہار میں کیسی ہوا چلی ہے حسن
کسی بھی شاخ کا پتّا ہرا نہیں ملتا
امریکہ سے محتر مہ حمیرارحمان بزمِ صدف کے اس مشاعرے میں شرکت کررہی تھیں۔نئی تانیثی شاعری میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔انھوں نے نئے معنوی نظام سے پرانے الفاظ کو روشنی بخشی تھی۔حمیرارحمان کی شاعری میں مہجری سو ز اور گذشتگان کا ایک نوحہ بھی نظر آیا۔ ان کے بعض اشعار میں وبائی ابتلا کی کش مکش بھی دیکھنے کو ملی۔ان کے چند منتخب اشعار ملاحظہ ہو ں:
نڈر نہیں تھے مگر یہ کمال کرتے رہے
محبتوں میں بہت سے سوال کرتے رہے
وہ کون تھے جو کسی کے مقابلے پہ نہ تھے
مگر شکست کو ذاتی خیال کرتے رہے
کوئی چراغ حمیرا جلا نا آیا نہیں
اندھیرے بڑھنے کا پیہم ملال کرتے رہے
بہت دن ہو گئے ہیں غار سے باہر نکلنا ہے
ہمیں خود اپنے استفسار سے باہر نکلنا ہے
مہینوں سے کوئی اچھی خبر چھوٗ کر نہیں گزری
ہمیں ہر روز کے اخبار سے باہر نکلنا ہے
حمیرا جس میں رہ کر خواب سے رشتہ نہیں رہتا
ہمیں اس لمحۂ بے دار سے باہر نکلنا ہے
اس مشاعرے میں کینیڈاسے محترمہ شاہدہ حسن شریک ہوئیں۔اگرچہ انگریزی زبان وادب کی پروفیسر رہیں مگر ان کی بنیادی شناخت ایک اردوشاعرہ کی ہے ۔انھوں نے ہجرت در ہجرت کے مسائل ملاحظہ کیے ہیں ۔ اس لیے ان کی شاعری میں زندگی کا بے حد گہراشعور نظر آتا ہے ۔ وقت کی نہ جانے کتنی جانی انجانی راہیں ان کی شاعری میں یکجا ہو کر کلام کو جاودانی بخش رہی ہیں ۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ اب نہ ہوگا کہ پھر ان آنکھوں کو خواب کو ئی نیا ملے گا
ہم اپنے سارے چراغ لے کر چلیںگے تو راستا ملے گا
شور اِ ک ہوش رُبا ہے مجھ میں
کتنا سنّاٹا بسا ہے مجھ میں
کبھی ہونے نہیں دیتا تنہا
کون یہ بول رہا ہے مجھ میں
سوکھے پتوں کی طرح اُڑتی ہوں
کس قدر تیز ہوا ہے مجھ میں
بہہ نکلتا ہے میری آنکھوں سے
اک سمندر جو چھپا ہے مجھ میں
تھام لیتا ہے مجھے گِرتے وقت
مجھ کو لگتا ہے خدا ہے مجھ میں
کسی نے پوچھا جو مجھ سے مری محبتوں کا جواز کیا ہے
میں رفتگاں کی روش کو سلام کرتی ہوئی ملوں گی
دہلی اردو اکادمی کے نائب صدر پروفیسر شہپر رسول کو ناظمِ مشاعرہ ڈاکٹر واحد نظیر نے ان کے بعض مشہور اشعار کا حوالہ دیتے ہو ئے شعر پڑھنے کے لیے مدعو کیا۔ہم عصر اردو شاعری میں شہپر رسول اپنے مخصوص معیار اورمنفرد اسلوب کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں ۔روایت اور جدت کے درمیان ایک ہم آہنگی اور امتزاج پیدا کرنے میں انھیں جو کامیابی ملی، اسی سے ان کے اشعار زبان زدِ خاص و عام ہیں۔انھوں نے شعرائے کرام کی فرمایش کا لحاظ رکھتے ہوئے متفرق اشعار کے ساتھ تین غزلیں پیش کیں:
میں نے بھی دیکھنے کی حد کر دی
وہ بھی تصویر سے نکل آیا
میری تنہائی کی خوابوں سے شناسائی ہے
یہ بھی اک زاویۂ انجمن آرائی ہے
بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں ، نظر آئوں کس کو
میری وحشت ہی یہاں میری تماشائی ہے
اس قلندر کو بھی مطلوب ہے شہرت شہپر
جس کو مجذوٗب سمجھتے ہو، وہ دنیا ئی ہے
محفل میں جب سے اس نے پکارا ہمارا نام
دشمن بنا ہوا ہے ہمارا، ہمارا نام
تم کو پکارتے ہیں ، ہمیں دیکھتے ہیں لوگ
جیسے کہ ایک ہی ہو تمھار ا ہمارا نام
بد دعا اس نے مجھے دی تھی، دعا دی میں نے
اُس نے دیوار اٹھائی تھی، گِرا دی میں نے
شہر سے میرے تعلق کا سبب پوچھا گیا
سادگی میں تری تصویر بنا دی میں نے
اس نے سیلاب کی تصویر بنا بھیجی تھی
اسی کاغذ سے مگر ناو بنا دی میں نے
ابو ظہبی سے جناب ظہور الاسلام جاوید شریک ِ بزم تھے۔وقت کے نشیب وفراز اور ہجرت کے صبر آزما مراحل میں زندگی کی بنتی اور بگڑتی شکلوں کو انھوں نے اپنے اشعار میںپیش کر کے مشاعرے کو عروج تک پہنچایا۔مختلف غزلوں کے جو اشعار لوگوں نے خصوصی توجہ سے سنے،ان میں سے چند ملاحظہ ہوں:
کسی کے سجدۂ حق پہ جبین رونے لگی
کسی نے ایڑیاں رگڑیں زمین رونے لگی
ہمیں معلوم ہے اس سے محبت کیسے کرنی ہے
کہاں پر بھول جانا ہے ، کہاں پر یاد رکھنا ہے
کوئی لمحہ تکبر کا کبھی طاری نہ ہو جائے
ڈرو اس سے وہی لمحہ کہیں بھاری نہ ہو جا ئے
دل ٹٹولا شبِ تنہائی تو محسوس ہوا
ہم بھی اے دوست ترے چاہنے والے نکلے
میں یہ سمجھا کہ کوئی نرم زمیں آ پہنچی
غور سے دیکھا تو وہ پانو کے چھالے نکلے
مشاعرے کی صدارت ممتاز شاعر ناصرکاظمی کے صاحب زادے برطانیہ میں مقیم جناب باصر سلطان کاظمی کر رہے تھے۔2018ء میں بزم،ِ صدف نے انھیں اپنا بین الاقوامی ایوارڈ پیش کیا تھا۔اردو کے مہجری سرمایۂ ادب میں باصر سلطان کاظمی کا ایک خاص مقام ہے۔ناظمِ مشاعرہ نے ان کا تعارف کراتے ہوئے یہ خاص بات بتائی کہ آس پاس کی چیزوں کو باصر سلطان کاظمی شعر کا قالب عطا کر دیتے ہیں۔باصر سلطان کاظمی نے کبھی طنز و مزاح کا روپ اختیار کیا اور کبھی اس میں اپنے عہد کا سوز پیوست کیا مگر ان کا کمال یہ تھا کہ کبھی ترسیل کی ناکامی ہاتھ نہیں آئی۔انھوں نے چند متفرق اشعار اور غزلوں سے سامعین کو سرشار کیا۔ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ملتا نہیںہے دشت نوردی میں اب وہ لطف
رہنے لگا ہے ذہن میں گھر کا اثر سوار
پڑا ہے آج ہمیں ایک مطلبی سے کام
خدا کرے کہ اسے ہم سے کام پڑ جائے
ہر بار تم کو اس کا کہا ماننا پڑے
باصر یہ دوستی تو نہیں نوکری ہوئی
مجنوں سے کہو کٹ چکی اک عمرجنوں میں
باقی کسی معقول طریقے سے گزارے
بے کار سے پتھر ہیں چمکتے ہیں جو شب کو
پوشیدہ ہیں دن میں تری قسمت کے ستارے
مشاعرے سے پہلے مذاکرہ منعقد ہو ا تھا جس میں اردو کو آزادی اور امن کی زبان کے طور پر پہچاننے کی کوشش ہوئی تھی۔شعرائے کرام کا استقبال بزمِ صدف کے چیر مین جناب شہاب الدین احمد نے کیا ۔سرپرست اعلا جناب محمد صبیح بخاری نے وبائی ماحول میں ایسے پروگراموں کی ضرورت پر زور دیا۔بزمِ صدف کے ڈائریکٹر جناب صفدر اما م قادری نے دنیا کے مختلف ملکوں کے شعرائے کرام کا خاص طور سے شکریہ ادا کیا۔ جناب جاوید احمد اور جناب عابد انور صاحبان نے اس آن لائن پروگرام کو کامیاب بنانے والوں کا خاص طور سے شکریہ ادا کیا۔اس طرح یہ مشاعرہ ایک خاص معیار اور علمی وقار کے ساتھ ہندستانی وقت کے مطابق ڈیڑھ بجے رات میں اپنے انجام کو پہنچا۔
راحت اندوری بھی سدا کے لیے روٹھ چلے۔وہ شاعر جس نے چالیس پینتالیس برسوں تک حرف و صوت پر حکمرانی کی۔جس نے تمام رنگوں، رَسوں، روشنیوں اور خوشبوؤں کو پْر شکوہ شعری پیکر عطا کیا۔جس نے ایوانِ مشاعرہ کے بہت سے مسلّمات کو رد کیا اور اپنی شرطوں پر عوامی سماعتوں کو ایک نیا ذوق بخشا،وہ چل بسا۔لیکن اس کی آواز قیامت تک گونجتی رہے گی۔
میں جب نگاہ اٹھا کر گزشتہ چند دہائیوں کی طرف دیکھتی ہوں تو مجھے راحت اندوری جیسا مزاحمت اور احتجاج کا توانا مردِ آہن نظر نہیں آتا ہے،لیکن یہ بھی سچ ہے کہ راحت اندوری یک سْرے اور یک رنگے شاعر نہیں ہیں۔ان کا کلام زندگی کی طرح ہمہ رنگ ہے۔ان کی آواز اور ان کے لفظ میں کہیں لطیف و نازک خیال واحساس کی آمیزش ہے، کہیں رومانی جذبات کی خوشبو، کہیں خارا شگافی کا عزم ہے، کہیں زندگی اور موت کا تصادم ، کہیں ندرتِ تخیل کی زرگری ہے، کہیں سفاک عہد کے وحشت خیز مناظر ،کہیں رندی و سرمستی کی پرکیف وادیاں ہیں ،تو کہیں فقر و درویشی کی بے نیازیاں۔
کسی چراغ کی مانند جل کے دیکھوں گا:
میرے لیے راحت اندوری دراصل زندگی کی شکست خوردہ، مضمحل اور مایوس گھڑیوں میں حوصلوں اور امنگوں کا نام ہے۔وہ حرکت وعمل کا پیامی ہے۔سفر اس کی نظر میں حیات وکائنات کی فطرت ہے۔ڈر، خوف اور تذبذب سے ان کی طبیعت بیزار ہے۔وہ روایت شکنی کے بغیر ترقی کو ناممکن قرار دیتے ہیں،وہ کامرانی کے لیے وافر اسباب و وسائل کے بجائے سچے جنون کے مبلغ ہیں۔وہ زندگی کی رزم گاہ میں معرکہ آرائیوں کو محبوب رکھتے ہیں۔خطر پسندی ان کی سرشت ہے:
راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں منزلیں
راستے آواز دیتے ہیں سفر جاری رکھو
لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں
روایتوں کی صفیں توڑ کر بڑھو ورنہ
جو تم سے آگے ہیں وہ راستہ نہیں دیں گے
جگنوؤں کو ساتھ لے کر رات روشن کیجیے
راستہ سورج کا دیکھا تو سحر ہوجائے گی
محبت کے سفر پر نکل کے دیکھوں گا
یہ پل صراط اگر ہے تو چل کے دیکھوں گا
اجالے بانٹنے والوں پہ کیا گزرتی ہے
کسی چراغ کی مانند جل کے دیکھوں گا
مجھے طوفانِ حوادث سے ڈرانے والو
حادثوں نے تو مرے ہاتھ پہ بیعت کی ہے
سچ پوچھیے تو جدیدیت کے نام پر کچھ فیشن پرست فن کاروں نے شعر وادب کو زندگی اور انسان سے کاٹ دیا تھا۔ان کے لیے تخلیقی عمل لکھنؤ امام باڑے کی بھول بْھلیّاں ہوگیا تھا۔ادب ایک عجیب پہیلی پن، مریضانہ نفسیات، قنوطی رویہ اور منفی تصورات کا پیش خیمہ بن گیا تھا۔لیکن راحت اندوری نے اس حصار کو توڑ کر اپنا تخلیقی رشتہ ترقی پسندوں سے استوار کیا۔گرچہ وہ نظریاتی سطح پر ترقی پسند نہیں تھے، لیکن ان کا حیات آفریں شعری آہنگ انھیں ترقی پسندوں سے ہم رشتہ کردیتا ہے۔
یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی ہے:
راحت اندوری نہ زندگی سے خوف زدہ ہیں، نہ موت سے خائف۔وہ ان دونوں کے تصادم کا تخلیقی شعور رکھتے ہیں اور گزرتے لمحات کو زندگی سے موت کی طرف سفر سے تعبیر کرتے ہیں۔انھیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ جسم عارضی اور فانی ہے،جب کہ روح ابدی اور لازوال۔ہر حساس فن کار کی طرح وہ بھی زندگی کے احسان آمیز قرض کو اپنی غیرت و خودداری کے خلاف سمجھتے ہیں:
آتے جاتے پل یہ کہتے ہیں ہمارے کان میں
کوچ کا اعلان ہونے کو ہے تیاری کرو
جسم سے ساتھ نبھانے کی مت امید رکھو
اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے
یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی ہے
کہیں اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں
راحت اندوری کا شعری خمیر بڑی حد تک مذہبی اقدار سے اٹھا ہے۔وہ اس زندگی کی ناپائیداری کو تسلیم کرتے ہوئے اخروی بہتری کے تمنائی ہیں۔
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو:
میں نے پہلے لکھا ہے کہ راحت اندوری کو ترقی پسندی سے طبعی مناسبت ہے۔لیکن اس سے یہ غط فہمی نہ پیدا ہوجائے کہ راحت اندوری اکہرے اور سپاٹ قسم کے شاعر ہیں، ان کے یہاں جدت و ندرت نہیں ہے اور وہ بس کھلی ڈلی راست بیان بازی کرتے ہیں۔راحت اندوری اس عام مفہوم میں ترقی پسند رویہ نہیں رکھتے بلکہ ان کی لفظیات، استعاراتی کائنات اور تخیل وادراک کی تازہ کاری انھیں جدیدیت سے ہم آہنگ کردیتی ہے۔اس ضمن میں یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
میری قیمت کون دے سکتا ہے اس بازار میں
تم زلیخا ہو تمھیں قیمت لگانی چاہیے
سورج نے اپنی شکل بھی دیکھی تھی پہلی بار
آئینے کو مزے بھی تقابل کے آگئے
کیوں یہ سیلاب سا ہے آنکھوں میں
مسکرائے تھے ہم، خیال آیا
زخم کا نام پھول کیسے پڑا
تیرے دستِ ہنر سے پوچھتے ہیں
’’خواب‘‘ جدیدیت کا ایک محبوب محوری عنصر ہے۔لیکن ’’خواب‘‘جدیدیوں کے یہاں ایک وحشت، آشوب، شکستِ ذات اور عصری سفاکی سے وابستہ سنگین مسئلہ ہے۔جب کہ راحت اندوری کے لیے ’’خواب‘‘دراصل اعتبارِ ذات سے منسلک ہے۔لہٰذا اس کو معیاری ہونا چاہیے۔شیشہ اور پتھر کے مابین جو تصادمی تعلق ہے اور اس مرکزی تصور کے انسلاکات جس طرح ہماری شعری روایت میں تواتر کے ساتھ برتے گئے ہیں۔راحت اندوری کا مذکورہ شعر اس روایت کے گہرے شعور سے ظہور پذیر ہوا ہے۔کوچۂ محبوب میں عاشق کی رسوائی اور پتھروں سے اس کی تواضع کا مضمون بھی قدیم ہے۔ذرا ناصر کاظمی کا وہ مشہور شعر یاد کیجیے:
کچھ یادگارِ شہرِ ستم گر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
راحت اندوری نے اسی روایتی مضمون میں ایک سیاسی حسیت جگا دی ہے۔بازارِ مصر میں زلیخا نے یوسف کو خریدا، اس پرانی تلمیح سے شاعر نے کس طرح ایک نیا زاویہ پیدا کرلیا اور خودداری اور جذبۂ عشق کے درمیان جدلیاتی رشتے کو کس طرح شعری زبان عطا کردی ہے، یہ راحت اندوری کا کمال ہے۔اسی طرح منقولہ دیگر اشعار کی جدت طرازیاں بھی مسلّم ہیں۔
اس کی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب:
عام طور پر راحت اندوری کو گھن گرج اور جاہ وجلال کا شاعر سمجھا جاتا ہے۔بلکہ ان کی شبیہ ایک ’’رومان مخالف کردار‘‘ کی ہے۔لیکن ان کے یہاں عشق ورومان کے امڈتے جذبات بھی خوب خوب ملتے ہیں۔حسن کی سرشاری، محبت کا وفور، والہانہ شیفتگی وفریفتگی اور ہجر کی کسک______سبھی کچھ راحت اندوری کے اشعار میں مل جاتا ہے۔ان کی رگوں میں بغاوت اور مزاحمت کے شرارے ہی نہیں بلکہ دلکش ودلربا معشوق کی محبتیں بھی دوڑتی ہیں:
اللہ برکتوں سے نوازے گا عشق میں
ہے جتنی پونجی پاس لگادینی چاہیے
تیری ہر بات محبت میں گوارہ کرکے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کرکے
آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر
لوگ لیتے ہیں مزہ ذکر تمھارا کرکے
کبھی دماغ، کبھی دل، کبھی نظر میں رہو
یہ سب تمھارے ہی گھر ہیں، کسی بھی گھر میں رہو
سسکتی رت کو مہکتا گلاب کردوں گا
میں اس بہار میں سب کا حساب کردوں گا
مجھے بھروسہ ہے اپنے لہو کے قطروں پر
میں نیزے نیزے کو شاخِ گلاب کردوں گا
سحر تک تم جو آجاتے تو منظر دیکھ سکتے تھے
دیے پلکوں پہ رکھے تھے، شکن بستر پہ رکھی تھی
دنوں کے بعد اچانک تمھارا دھیان آیا
خدا کا شکر کہ اس وقت باوضو تھے ہم
تصور میں نجانے کون آیا
مہک اٹھے در ودیوار میرے
اس کی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب
چاقو واقو، چھریاں وریاں، خنجر ونجر سب
جس دن سے تم روٹھے، مجھ سے روٹھے روٹھے رہتے ہیں
چادر وادر، تکیہ وکیہ، بستر وستر سب
مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی کہاں اب پہلے جیسی ہے
پھیکے پڑ گئے کپڑے وپڑے، زیور ویور سب
محبت اپنی معراج پر پہنچ کر عبادت بن جاتی ہے۔وہی پاکیزگی، وہی تقدس، وہی فنائیت اور وہی روحانی وابستگی جو بندگی کی صفات ہیں، عشق ان سے متصف ہوجاتا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ راحت اندوری کا محبوب کوئی ماورائی اور مجرد مخلوق ہے۔ان کے رومانی اشعار میں نسوانی سراپا بھی ابھرتا ہے۔ان میں جذبات و احساسات کی حدت وحرارت بھی ہے اور حسن وعشق کا ناز و نیاز بھی۔
موت کا زہر ہے فضاؤں میں:
راحت اندوری کو اردو شاعری کا’’نیل کنٹھ‘‘ کہنا بیجا نہ ہوگا۔انھوں نے اپنے عہد کے زہر کو اپنی تخلیقی سرشت میں جذب کرلیاہے:
موت کا زہر ہے فضاؤں میں
اب کہاں جاکے سانس لی جائے
یہاں اک مدرسہ ہوتا تھا پہلے
مگر اب کارخانہ چل رہا ہے
کہہ دو اس عہد کے بزرگوں سے
زندگی کی دعا نہ دی جائے
اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے
چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے
جھلس رہے ہیں یہاں چھاؤں بانٹنے والے
وہ دھوپ ہے کہ شجر التجائیں کرنے لگے
آنگن کے معصوم شجر نے ایک کہانی لکھی ہے
اتنے پھل شاخوں پہ نہیں تھے، جتنے پتھر بکھرے ہیں
راحت اندوری کو دکھ ہے کہ زہریلی فضا سانس لینے کے قابل نہیں رہی۔صنعتی اجارہ داری نے علم و معرفت کے مراکز ہڑپ لیے ہیں۔بے بسی کا عالم یہ ہے کہ اب اندھیروں سے روشنیاں خوف زدہ ہیں اور دوسروں کو پناہ بخشنے والے سایہ دار درخت خود دھوپ سے پناہ مانگتے ہیں۔ معصومیت ستم رسیدہ ہوگئی ہے۔
ہم قلندر ہیں، شہنشاہ لقب کرتے ہیں:
راحت اندوری کی درویشی رشکِ سلطانی ہے۔ان کے دربارِ بے نیازی میں سلطنتیں کاسہ لیس نظر آتی ہیں۔راحت اندوری دراصل ایک قلندرانہ تیور کا نام ہے:
ہم پہ حاکم کا کوئی حکم نہیں چلتا ہے
ہم قلندر ہیں، شہنشاہ لقب کرتے ہیں
مجھے بتوں سے اجازت اگر کبھی مل جائے
تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں
فقیر، شاہ، قلندر، امام کیا کیا ہے
تجھے پتہ نہیں، تیرا غلام کیا کیا ہے
میرے حجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
آسماں لائے ہو؟ لے آؤ! زمیں پر رکھ دو
۱۵؍ اگست کو راحت اندوری کی یاد میں بزمِ صدف انٹرنیشنل کا آن لائن مذاکرہ اور عالمی مشاعرہ
۱۱را؍ملکوں کے شعرا اور ادبا شرکت کریں گے،پروفیسر پیر زادہ قاسم کی صدارت ہوگی
پٹنہ۔۱۲؍اگست:اردو کے طرح دار شاعر اور بغاوت کی آواز راحت اندوری کے ارتحال کے غم میں بزمِ صدف انٹرنیشنل ۱۵؍ اگست کی شام کو ایک بین الاقوامی مذاکرۂ علمی اور مشاعرے کا انعقاد کر رہا ہے جس کی صدارت مشہور عالمی شاعر پروفیسر پیر زادہ قاسم کریں گے۔ اس یادگاری تقریب اور مشاعرے میں ہندو پاک کے علاوہ یورپ، امریکہ،کینیڈا اور خلیج کے شامل گیارہ ممالک کے دانش وران اور ممتاز شعرا شرکت کریں گے۔ اس موقعے سے منعقد ہونے والے مذاکرے کا موضوع ’ اردو: آزادی اور امن کی زبان-ایک عالمی تناظر‘ طَے کیا گیا ہے جس میں ہمارے ادبا و شعرا اور دانش وروں کے خصوصی خطابات ہوں گے۔
اردو زبان و ادب کی عالمی تنظیم بزمِ صدف انٹرنیشنل، دوحہ( قطر) کی جانب سے ممتاز شاعر راحت اندوری کی یاد میں آیندہ ۱۵؍ اگست ۲۰۲۰ء کی شب ہندستانی وقت کے مطابق ۹ ؍ بجے ، پاکستانی وقت کے مطابق ساڑھے آٹھ بجے اور قطر وقت کے مطابق ساڑھے چھے بجے شام میں ایک مذاکرہ اور عالمی مشاعرے کا پروگرام طے کیا گیا ہے۔ راحت اندوری مرحوم کے شاعرانہ مزاج کے عین مطابق مذاکرے کا عنوان ’ اردو: آزادی اور امن کی زبان-ایک عالمی تناظر‘ متعیّن ہے۔
پروگرام کی صدارت مشہور عالمی شاعر پروفیسر پیر زادہ قاسم کریں گے۔ انگلینڈ سے جناب باصر سلطان کاظمی، جرمنی سے محترمہ عشرت معین سیما، امریکہ سے محترمہ حمیرا رحمان، کینیڈا سے محترمہ شاہدہ حسن، ابو ظہبی سے جناب ظہور الاسلام جاوید، سعودی عرب سے جناب مہتاب قدر، دوبئی سے جناب ریحان خاں، کویت سے جناب مسعود حسّاس، قطر سے ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی دانش، جناب احمد اشفاق اور محترمہ ڈاکٹر آشنا نصرت، پاکستان سے جناب عباس تابش اور ہندستان سے پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر ارتضیٰ کریم، جناب حسن کاظمی، پروفیسر صفدر امام قادری، ڈاکٹر واحد نظیر اور ڈاکٹر تسلیم عارف شرکت فرما رہے ہیں۔
پروگرام کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے بزمِ صدف کے چیر مین شہاب الدین احمد، سرپرستِ اعلامحمد صبیح بخاری ،ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری نے بتایا کہ یہ پروگرام زوٗم ایپ اور فیس بُک لائیو کے ذریعے عوام تک پہنچایا جائے گا۔ ان اصحاب نے وبائی حالات کے پیشِ نظر مرحوم راحت اندوری کے مقام ومرتبے کے مطابق اس یادگاری تقریب کے آن لائن انعقاد کی غرض و غایت واضح کی۔ پروگرام میں ابتدائی طور پر خراجِ عقیدت اور مذاکرے کو شامل کیا گیا ہے اور دوسری نشست میں عالمی مشاعرے کا انعقاد ہوگا۔
بزمِ صدف نے اردو شاعری اور شاعروں کے قدر دانوں سے التماس کیا ہے کہ راحت اندوری کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے فیس بُک لائیو پر بڑی تعداد میں ہندستانی وقت کے مطابق ۹؍بجے شب میں جمع ہو ں اور اس پروگرام کو کامیاب بنائیں۔ اس موقعے سے دنیا کے گیارہ ممالک کے شعرا کے کلام سے بھی عوام روٗبہ روٗ ہوں گے۔
منفرد لب ولہجہ کے فنکار،محبت و بغاوت کے امتزاج کے پیکر،عالمی شہرت یافتہ،اردو کے جرأت مند شاعر راحت اندوری صاحب کل اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ اللہ مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائےـآمین
آرٹسٹ خواہ ادیب ہو شاعر ہو افسانہ و ناول نگار ہو ،مصور ہو،صحافی ہو یہ سب کے سب اپنے فرض منصبی کے تحت سماج میں نمودار ہونے والی برائیوں اور زیادتیوں کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اقتدار میں رہنے والے حکمرانوں کو ، مال و دولت کے نشے میں چور ارباب ثروت کو ، ضعیفوں کو کچلنے والے طاقتوروں کو کبھی خاطر میں لائے بغیر اپنے احساسات کو اپنی زبان،قلم اور برش کی وساطت سے عوام کے سامنے لانے کی جرأت کرتے ہیں۔
لیکن ہر شعبے میں اور ہر پیشے میں بعض فنکار ایسے بھی ہوتے ہیں جو منصب و جاہ ، اعزاز و اکرام اور مال و دولت کی ہوس میں یا استبدادی نظام کے آہنی پنجوں سے خوف زدہ ہو کر اپنے فنون اور ان کے فطری مطالبات کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتے۔ راحت اندوری صاحب ان فنکاروں میں سے ایک تھے،جو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے میں کبھی متذبذب نہیں رہے، منافقانہ اسلوب کبھی اپنایا اور نہ کبھی مصلحت کی چادر اوڑھی۔ ان کے مشاہدات میں جو کچھ آیا دیانت داری کے ساتھ اس کا اظہار کر دیا ۔ تاہم ایسا نہیں ہے کہ وہ محض ایک باغی شاعر تھے۔ وہ بیک وقت محبت کے پھول بھی بکھیرتے تھے اور معاشرے میں پائے جانے والے زخموں پر نشتر بھی چلاتے تھے۔
اس کی یاد آئی ہے سانسوں ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
راحت اندوری صاحب عوامی شاعر تھے،عام فہم اسلوب بیان اور طرز نگارش کی وجہ سے وہ عوام کے ذہنوں تک اپنے احساسات،جذبات اور خیالات کو پہنچاتے تھے یا عوام کی ترجمانی کرتے تھے۔ اس طرح وہ مشاعروں کو لوٹ لیتے تھے اور ان کے بے شمار اشعار زبان زدخاص و عام ہو جاتے تھے۔ اردو اور غیر اردو قارئین و سامعین عام انسان سے لے کر مقننہ کے ایوانوں میں نمائندگی کرنے والے بھی موقع کی مناسبت سے ان کے اشعار نقل کرتے ہیں۔ وہ ایک طرف حکومت وقت کو للکارتے تھے تو دوسری طرف عوام کو پست ہمتی کے خلاف کھڑے ہونے کے لئے ان کے حوصلے بلند کرتے تھے۔ وہ سیاسی لیڈروں پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا احتجاج درج کراتے وقت اپنی حب الوطنی پر آنچ نہیں آنے دیتے تھے۔ وہ جبہ و دستار والے بزعم خود جنت کے ٹھیکیداروں کی بخیہ بھی اڈھیرتے تھے۔
ہاں میں مانتا ہوں وہ عمائدین اردو ادب کی طرح ثقیل اردو میں ادبی شہ پارے نہیں بکھیرتے تھے۔ وہ صاف گو تھے اور اپنے خیالات کے اظہار کے لئے بچ کر نکلنے والی تعبیرات کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ ادب برائے ادب نہیں،ادب برائے زندگی میں یقین رکھتے تھے۔ وہ گنجلک تعبیر اور مجرد ادب سے دور اپنے کلام کے توسط سے لوگوں کے دلوں میں گھر بنا لیتے تھے۔ اس لئے کہ ادبی شہ پارے اور تجریدی مصوری تک رسائی ایک محدود و مخصوص طبقہ کی ہوتی ہے۔ Abstract art کے شاہکاروں کی قدر و قیمت عموماً highly qualified صاحب ثروت خواتین و حضرات ہی سمجھ سکتے ہیں، عام لوگوں کو وہ محض مختلف رنگوں کا امتزاج نظر آتے ہیں،عام لوگوں کو ان تجریدی فن کے نمونوں کو سمجھنے کے لئے شرح کی ضرورت ہوتی ہے۔
شعر کی مقبولیت کا معیار ایک یہ بھی ہے کہ سننے اور پڑھنے والے کو فوراً یاد ہو جائے اس لئے کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ ان کے خیالات، احساسات اور جذبات ہیں،جنہیں شاعر نے الفاظ و تعبیرات کا جامہ پہنا دیا ہے۔ خیالات کو زرق برق نہیں شستہ زبان،سنجیدہ موضوع اور حالات حاضرہ کی تمثیل کا پیرہن عطا کرنے میں راحت اندوری صاحب لاجواب تھے۔
١- سی اے اے این آر سی کے تناظر میں :
اپنی پہچان مٹانے کو کہا جاتا ہے
بستیاں چھوڑ کے جانے کو کہا جاتا ہے
٢- میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ صورتحال پر :
سب کی پگڑی کو ہواؤں میں اچھالا جائے
سوچتا ہوں کوئی اخبار نکالا جائے
٣- ملک کی ابتر معیشت، غریبی بے روزگاری اور دوسری طرف غیر ضروری سرکاری اخراجات – سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کے تحت ٩٢٢ کروڑ کی لاگت سے پارلیمنٹ کی مجوزہ نئی عمارت کی تعمیر :
نئے ایوان کی تعمیر ضروری ہے مگر
پہلے ہم لوگوں کو ملبے سے نکالا جائے
٤- بابری مسجد رام جنم بھومی پر عدالت کے فیصلے کے پس منظر میں :
انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا
یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا
٥- مایوس کن حالات میں حوصلہ دیتے ہوئے :
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
٦- اقلیتوں کے لیے مراعات پر :
میں نے اے سورج تجھے پوجا نہیں سمجھا تو ہے
میرے حصے میں بھی تھوڑی دھوپ آنی چاہیے
٧- حب الوطنی پر :
میں مر جاؤں تو میری اک الگ پہچان لکھ دینا
لہو سے میری پیشانی پہ ہندوستان لکھ دینا
٨- سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کے منافقانہ رویہ پر :
دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں
سب اپنے چہروں پہ دوہری نقاب رکھتے ہیں
٩- معاشرہ میں خانگی کشیدگی اور جھگڑے پر :
میری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے
مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے
١٠- جرأت مندانہ زندگی گزارنے پر :
لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں
راحت اللہ قریشی عرف راحت اندوری بن رفعت اللہ قریشی 11اگست 2020ء بروز منگل بوقت پانج بجے شام موت سے ہار مان گئے، انہوں نے اربندو ہوسپیٹل اندور مدھیہ پردیش میں آخری سانس لی، زندگی کا روگ جسے لگا اسے موت سے ہار ماننی ہی پڑتی ہے،وہ قلب کے مریض تھے اور ذیابیطس ( شوگر ) نے ان کے قوی کو پہلےسے نڈھال کر رکھا تھا ، کرو ناکا بہانہ ہو گیااور دو روز میں سب کچھ تمام ہوگیا ؛ حالانکہ کہ وہ جس قوت ارادی کے مالک تھے اس کو دیکھتے ہوئے مشہور شاعراور ناظم مشاعرہ کمار وشواش نے پورے وشواش (یقین)کے ساتھ کہا تھا کہ اس بارکرو نا نے غلط جگہ کا انتخاب کیا ہے،خود راحت صاحب کو بھی یقین تھا کہ وہ اسے مات دے دیں گے، انہوں نے کرونا پازیٹو ہونے کی اطلاع خود ہی ٹیوٹئر پر دی تھی، اور مخلصین کو فون کرنے سے منع کر دیا تھا تھا اور کہا تھا کہ میرے بارے میں فیس بک اور سوشل میڈیاسے خبریں ملتی رہیں گی، خبر آئی تو زندگی کی نہیں موت کی، انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ گھر سے یہ سوچ کر نکلا ہوں کہ مر جانا ہے۔۔ اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے ۔ پوری ادبی دنیا میں اس خبر سے ماتم پسر گیا،سیاسی اورغیر سیاسی لوگوں نے تعزیتی بیانات جاری کیے۔اردو شاعری کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ عصری حسیت سے بھر پوراور سیاسی لوگوں کی دوغلی پالیسیوں پر ضرب کاری لگانے اورنوجوانوں کو پھولوں کی دکانیں کھولنے اور خوشبو کے بیوپار کی صلاح دینے والا شاعر ابدی نیند سو گیا،ان کے اندر جو جرأت اظہار تھی اورجسےوہ شاعری میں پورے طور پربرتتے تھے اس کی مثال فیض اور ساحر کے بعد اردو شاعری میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ان کی شاعری کے ساتھ ان کا انداز پیشکش، (بوڈی لینگویج )بھی خاصا مرعوب اور متأثر کن تھا، اپنے مخصوص انداز اور حسین شاعری کی وجہ سے وہ اردو مشاعروں کی آبرو تھے، اور ملکوں ملکوں انہوں نے اردو شاعری کو مقبول و محبوب بنانے کا کام کیا تھا۔کرونا سے متأثر ہونے کی وجہ سے ان کا جنازہ ہوسپیٹل سے ان کے گھر نہیں لے جایا جا سکا اور اسی دن رات کے ساڑھے نو بجے اندور میں اے بی روڈ واقع چھوٹی خزرانی قبرستان میں جنازہ پڑھنے والوں کی محدود تعداد کی موجودگی میں ان کی تدفین عمل میں آئی، پسماندگان میں انہوں نے اہلیہ سیما راحت، تین بیٹے فیصل راحت ، ستلج راحت،سمیر راحت اور ایک بیٹی شبلی عرفان کو چھوڑا۔
راحت اندوری کا اصل نام راحت اللہ قریشی تھا ،شہرت انہیں ان کے قلمی نام راحت اندوری سے ملی، وہ اپنے والد رفعت اللہ قریشی کے گھر اندور میں یکم جنوری 1950ء بروز اتوار پیدا ہوئے والدہ مقبول النساء نے معاشی تنگی کے باوجود انہیں بڑے ناز و نعم سے پالا ، ان کے والد کپڑے کے ایک کارخانے میں کام کرتے تھے،ہائر سکنڈری تک کی تعلیم اندور کے نوتن اسکول سے حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اسلامیہ کریمیہ کالج سے 1973ء میں بی اے ، برکت اللہ یونیورسٹی سے 1975ء میں ایم اے ، اور مدھیہ پردیش کی بھوچ اوپن یونیورسٹی سے 1985ء میں "اردو میں مشاعرہ” کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، ان کے مقالہ کے نگراں ڈاکٹر عزیز اندوری تھے ،تدریسی زندگی کا آغازآئی کے کالج اندور سے کیا،انہوں نے دیوی اہلیہ وش ودہالیہ اندور میں سولہ سال قبل تک تدریس کے فرائض انجام دئیے۔
1968ءمیں ڈاکٹر راحت اندوری نے پہلا شعر کہا ” اس کے قبل و جاں نثار اختر کے ایک مصرع پر گرہ لگا چکے تھے ,جاں نثار اختر نے ان کے آٹو گراف پر لکھا تھا کہ "ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح "راحت صاحب کے منھ سے دوسرا مصرع بے ساختہ نکلا”ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح” اس کے بعد راحت شعر کہنے لگے ،انہوں نے دھوپ دھوپ،رت میرے بعد، پانچواں درویش،اورکن فیکون جیسی کتابیں دنیائے اردو ادب کو دیں،یہ ان کےمجموعہ کلام ہیں، جن میں ان کی شاعری کے مخصوص تیور کو دیکھا جاسکتا ہے۔27/مئ 1986ء کو ان کی شادی سیما نامی خاتون سے ہوئی،جو بعد میں سیما راحت سے مشہور ہوئیں۔1988ء میں انہوں نے مشہور شاعرہ انجم رہبر سے نکاح کرلیا ان کے بطن سے ایک لڑکا سمیر راحت پیدا ہوئے؛ لیکن یہ ازدواجی زندگی ان کو راس نہیں آئی۔1993ء میں یہ رشتہ طلاق پر ختم ہوا، سیما راحت نے راحت صاحب کی انسانی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود آخری دم تک ان کا ساتھ نبھایا،البتہ راحت صاحب اور انجم رہبر کو ترک تعلق کا صدمہ پوری زندگی رہا، جس کا اظہار دونوں موقع ملتے ہی اپنے اشعار میں کرنے لگتے تھے۔
اللہ رب العزت نے راحت اندوری کے چہرے کی خوبصورتی لے کر دل بڑاخوبصورت بنادیاتھا، وہ ایک کامیاب نغمہ نگار اور مشہور مصور بھی تھے،انہوں نے مشہور مصور فدا حسین صاحب کے ساتھ بھی کام کیا تھا،ان کی شاعری میں رومانیت، زمانہ کے نشیب و فراز، سیاستدانوں کی بے راہ روی اور نیرنگیں حالات پر بھرپورتبصرہ ملتا، ان کی شاعری میں طنز و مزاح کی زیریں لہروں کا بھرپور احساس ہوتا ہے، وہ خود پر بھی طنز کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔کہا کرتے کہ ایک نوجوان شاعر کو جو میری نقالی کی کوشش کرتا تھا ایک صاحب نے مشورہ دیا راحت اندوری بننے کے لئےصرف دانت ہی سفید نہیں کرنے پڑتے چہرابھی کالا کرنا پڑتا ہے، راحت اندوری نے ایک درجن سے زائد فلمی نغمے لکھے،جو منا بھائی، ایم بی بی ایس، آشیاں، فریب،مرڈر،غدار وغیرہ میں فلمائےگئے؛لیکن انہوں نے جلد ہی محسوس کر لیاکہ پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی جی حضوری ان کے بس میں نہیں ہے؛ چنانچہ انہوں نے فلمی دنیا سے خود کو الگ کر لیا اورساری توجہ شاعری اور مشاعروں پر دینی شروع کیں، اسٹیج مشاعرہ کے ساتھ انھوں نے ٹی وی چینلوں میں بھی آنا شروع کیا، سب ٹی وی کے پروگرام "واہ واہ کیا بات ہے بہت خوب”اور” کپل شرما "کے شو میں بھی ان کی طوطی بولتی تھی۔ ان کی شاعری کا اپنا رنگ و آہنگ تھا اور پیشکش کا انداز بھی اپنا تھااس لئے لوگ ان کو پسند کرتے تھے، انہوں نے ترقی پسندی کے خول میں خود کو بند نہیں کیا، جدیدیت اور مابعد جدیدیت سے بھی ان کا کچھ لینا دینا نہیں تھا،لیکن ان کی مقصد ی شاعری ترقی پسندی کی یاد دلاتی تھی، ترقی پسندوں نے معاشی جبرو استحصال اورانسانی محرومی اور نامرادی کو موضوع سخن بنایا تھا، راحت اندوری نے سماجی انتشار ،انسانی کرب، سیاسی بازیگری کو موضوع سخن بنایا،اور چونکہ کہ یہ موضوعات انسانی زندگی سے ہم آہنگ تھے اس لیے ان کی شاعری جگ بیتی بن گئی، جو سنتا اسے اپنی آواز معلوم ہوتی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان،امریکہ، آسٹریلیا، کویت،متحدہ عرب امارات اور انگلینڈ میں بھی وہ یکساں مقبول تھے ،ان کے اشعار پر داد دینے کے لئےلوگ اتنے مستعد ہوتے کہ کبھی کبھی ان کو کہنا پڑتا کہ دوسرا مصرع تو مکمل ہونے دیجئے، وہ ایک غیور اورخوددارشاعر تھے، اس لیے وہ وہی سناتے تھے جو وہ سنانا چاہتے، فرمائشوں پر کچھ سنا دینایاحکمرانوں کے مشاعرہ میں موجود ہونے پر لہجہ بدل دینا ان کے بس کا نہیں تھا ،ان کے اندر جو جرأت اظہار تھی وہ ان کو اس پر مجبور کرتی تھی، وہ سامعین کی نفسیات کو سمجھتے تھے اور شعرکے انتخاب میں اس کا خاص خیال رکھتے تھے ،ان کی شاعری کی لفظیات بہت پر شکوہ اور خیالات بہت اعلی اور ارفع نہیں ہے،جس کو سمجھنے کے لئے بہت زیادہ ذہنی جمنا اسٹک کرنی پڑے ، وہ مواد اور الفاظ دونوں سامنے سے اٹھاتے تھے، جسے آپ عوامی کہہ سکتے ہیں، نظیر اکبر آبادی عوامی شاعر تھے لیکن وہ دور دوسرا تھا آج کی عوامی شاعری وہی ہے جو راحت اندوری نے کی، راحت نے غزلوں کے ساتھ حمدیہ اور نعتیہ شاعری بھی کی؛ جو کمیت کے اعتبار سے کم لیکن کیفیت کے اعتبار سے اعلیٰ و ارفع ہے، ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ان کی ایمانی حرارت،اعتقادی استواری، اورکامل حب نبوی کا پتہ چلتا ہے، وہ سب کچھ ختم ہونے کا جہاں تذکرہ کرتے ہیں وہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک ایمان ہے جو اب تک باقی ہے۔ راحت اندوری گزشتہ چار ماہ سے اپنے طور پر ہوم کرنٹائن تھے ،صرف علاج و معالجہ اور چانچ وغیرہ کے لیے گھر سے نکلا کرتے تھے، سماجی فاصلہ کا بھرپور خیال رکھتے تھے، انھوں نے نیوز 18 پر عید کے موقع سے آخری بار اس کی جانب سے منعقد اسٹوڈیو مشاعرے میں اپنا کلام سنایا تھا، وہ لاک ڈاؤن سے بہت پریشان تھے اور انہیں اس کا غم ستا رہا تھا کہ مسجدوں کے دروازے بھی بند ہیں، ان کا آخری شعر اسی حوالے سے ہے۔ خاموشی اوڑھ کے سوئی ہیں مسجدیں ساری ۔کسی کی موت کا اعلان بھی نہیں ہوتا
راحت اندوری جیسے عظیم شاعر جس کے قلم کی ایک جنبش ارباب اقتدار میں ہلچل پیدا کردیتی تھی، جس کا ایک مصرع افسردہ دلوں کے تسکین کا ساماں ہوا کرتا تھا، جس کا منفرد لہجہ جرات اظہار کا نمونہ ہوتا تھا، جس کے کلام میں شائستگی اور شگفتگی ایسی کہ بے قرار دل کو قرار آجائے، ایسے سخنور کے لیے کچھ لکھنا یا بولنا سورج کو چراغ دکھانے کے مصداق ہوگا۔ مگر چوں کہ بڑے لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنے کی روایت ہے، سو میں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی بننے کے لیے چند بے ربط جملے لکھ کر اس عظیم شاعر کے تئیں اپنی محبت کا نذرانہ پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
راحت کی شاعری نئی نسل کے لیے مشعل راہ تھی، راحت اندوری کو درجنوں مرتبہ اسٹیج پر سننے موقع ملا ،وہ غضب کے شاعر تھے ، سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتا تھا، بات چاہے کتنی تلخ ہو، وہ خوش اسلوبی سے ادا کرنے پر مکمل قدرت رکھتے تھے۔
راحت کا یہ شعر :
میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے
میرے ذہن میں تبھی سے پیوست ہے جب میں نے کئی سال قبل اسے پہلی بار انہی کی زبانی سنا تھا۔
زندگی کے نشیب و فراز اور تنگی و ترشی کے باوجود کبھی ان کے پائے استقامت میں لرزش نہیں آئی؛ بلکہ ہر موڑپر جرات کا مظاہرہ کیا ۔ حق گوئی اور بے باکی ان کے فن میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی – ایمرجینسی جیسے سخت اور مشکل ترین دور میں بھی راحت نے راحت کی سانس نہیں لی ؛بلکہ ارباب اقتدار سے آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کی۔ ملک میں رونما ہونے والے حادثات سے وہ کبھی دل براداشتہ نہ ہوتے؛ بلکہ پہلے سے اور زیادہ قوت وجرات کا اظہار کرتے:
سبھی کا خونہ ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
اس طرح کی بے شمار شاعری راحت کے خزانے میں ملے گی۔
راحت ایک ایسے انقلابی شاعر تھے جن کی شاعری آنے والی نسلوں میں اعتماد پیدا کرے گی۔ راحت نے اردو غزل کو وقار عطا کیا ،انہوں نے اردو شاعر ی کو نئی سمت دی۔
ذیل میں اپنی یاد داشت سے ان کے چند اشعارپیش ہیں، جو راحت مرحوم کی تخلیقی صلاحیتوں کی جیتی جاگتی مثال ہیں:
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر
جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں
بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے
میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہئے
خیال تھا کہ یہ پتھراؤ روک دیں چل کر
جو ہوش آیا تو دیکھا لہو لہو ہم تھے
دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا
گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے
مری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے
مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے
میں آ کر دشمنوں میں بس گیا ہوں
یہاں ہمدرد ہیں دو چار میرے
میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا
یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی
میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا
اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا
کالج کے سب بچے چپ ہیں کاغذ کی اک ناؤ لیے
چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بیکاری ہے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو
یہ ہوائیں اڑ نہ جائیں لے کے کاغذ کا بدن
دوستو مجھ پر کوئی پتھر ذرا بھاری رکھو
ڈاکٹر مشتاق احمد
پرنسپل، سی ایم کالج، دربھنگہ (بہار)
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]
یہ حقیقت ازلی اور ابدی ہے کہ اس دنیائے سرائے فانی میں جو آیا ہے اسے ایک دن جانا ہے کہ کسی کو یہاں دائمی زندگی نصیب نہیں ۔قرآن نے یہ واضح کردیا ہے کہ ہر جاندار چیز کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔اس لئے ہر شخص لا شعوری طورپر بھی موت کے تئیں سنجیدہ رہتا ہے کہ نہ جانے کس وقت کون سی سانس اس کی آخری سانس ثابت ہو ۔ بالخصوص فنکار وتخلیق کار جو حسّی طورپر عوام الناس سے قدرے زیادہ بیدار ذہن ہوتا ہے وہ موت کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کچھ ایسے کارنامے انجام دے جو اس کی ابدی زندگی کے ضامن بن جائیں۔کیوں کہ انسان اپنے افکار ونظریات کی بدولت ہی زندہ رہتا ہے ۔جسم تو خاکی ہے اور اس کوخاک میں مل جانا ہے اور یہ احساس ڈاکٹر راحتؔ اندوری کو بھی تھا ۔
ڈاکٹرراحتؔ اندوری کی شاعری کس درجے کی ہے اور ناقدینِ ادب کی نظر میں کیا اہمیت رکھتی ہے یہ بحث اپنی جگہ ہے لیکن اس سچائی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ فیض احمد فیضؔ کے بعد اردو شاعری بالخصوص غزلیہ شاعری کو عوام الناس تک پہنچانے میں جن شعراء نے کلیدی کردار ادا کیا ہے ان میں راحت ؔ اندوری کی حیثیت نمایاں ہے ۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ غیر اردو داں طبقے میں اردو غزل کو مقبول بنانے میں راحتؔ اندوری کا ایک بڑا کارنامہ ہے یہی وجہ ہے کہ آج ان کی موت پر اردو حلقے میں جتنا ماتم ہے اس سے کہیں زیادہ دیگر ہندوستانی زبانوں کے ادباء اور شعراء سوگوار نظر آرہے ہیں۔ سوشل میڈیا ان کی موت کی خبر اور اظہارِ تعزیت سے بھرا پڑا ہے اور کیوں نہ ہو کہ حالیہ دنوں میں الکٹرانک اور سوشل میڈیا کے پروگراموں میں راحتؔ اندوری کی شمولیت ادبی پروگراموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ مختلف ٹی وی چینلوں اور دیگر سوشل میڈیا پورٹل پر دن بھر ان کی ریکارڈنگ چلتی رہتی تھی ۔ ان کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے سینکڑوں اشعار ضرب الامثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس طبقے کا ادب سے کچھ لینا دینا نہیں وہ بھی راحتؔ اندوری کی شاعری کا دلدادہے ۔
البتہ یہ ایک المیہ ہے کہ اردو کے اکیڈمک حلقے میں راحتؔ اندوری کو وہ درجہ نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔ ان کو مشاعرہ باز شاعر کہہ کر نظر انداز کیا گیا ۔ ان کی شاعری اور شخصیت کے اعتراف میں بہت پہلے ’’لمحے لمحے ‘‘ کا ایک دستاویز سامنے آیا تھا اور اس میں مختلف شعبۂ حیات سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ان کی شاعری پر تبصرہ کیا تھا لیکن اس کے بعد ان پر کم ہی توجہ دی گئی ۔ میں مشرف عالم ذوقی کی اس بات سے اتفاق رکھتا ہوں کہ ’’ہماری ادبی دنیا کی گروہ بندی نے بہت سے حقیقی فنکاروں کو نظر انداز کردیا ‘‘ ۔ورنہ راحتؔ اندوری کی شاعری کے اندر نہ صرف کلاسیکی اردو غزل کی تہذیب زندہ ہے بلکہ تخلیقیت کی ایک نئی دنیا بھی آباد ہے ۔انہوں نے غزل کو نہ صرف موضوعاتی اعتبار سے کائناتی بلکہ شبِ غم اور غمِ زیست کا آئینہ بھی بنایا ہے۔لوازماتِ شعری کا اہتمام ان کا خاصّہ رہا اور فنِ عروض پر اس قدر دسترس حاصل تھی کہ مشاعرے کے اسٹیج پر ہی فی البدیہہ غزل کہہ لیتے تھے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ ان سے میری پہلی ملاقات ۱۹۸۷ء کے ایک مشاعرہ میں ہوئی تھی اور آخری ملاقات کلکتہ میں پندرہ روزہ سرپرست اخبار کے زیر اہتمام منعقد عالمی مشاعرے میں ۲۶؍ دسمبر ۲۰۱۹ء کو ہوئی تھی۔یعنی تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے پر ان سے میرے ادبی روابط محیط ہیں۔اس طویل عرصے میں ان کی مقبولیت میں زمین وآسمان کا فرق آیا لیکن ان کے خلوص اور محبت میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی ۔ ۲۰۰۹ء میں جب میں ملّت کالج دربھنگہ میں پرنسپل تھا تو ایک پروگرام میں شامل ہونے کے لئے ان سے رابطہ کیا اور حسبِ دستور میں نے شرکت کے لئے آمد ورفت کے اخراجات کے علاوہ رقم بھی دریافت کی ۔ انہو ںنے کہا کہ اگر آپ مجھے پیسے پر بلانا چاہتے ہیں تو میرے پاس وقت نہیں ہے اور اگر اپنی دیرینہ محبت کو قائم رکھناچاہتے ہیں تو میں پیدل بھی حاضر ہو سکتا ہوں ، اور ہوا یہی کہ ان کے متعلق بہت طرح کی افواہیں بھی سنتا تھا کہ وہ وقت پہ حاضر نہیں ہوتے یا پھر کہیں زیادہ پیسے مل گئے تو وہاں چلے جاتے ہیں ۔ لیکن وہ حسبِ وعدہ پروگرام کے ایک دن قبل ہی دربھنگہ آئے اور جس انکساری کا ثبوت پیش کیا وہ میرے لئے آج بھی قابلِ تقلید ہے۔ اسی طرح لکھنؤ میں اطہر نبی صاحب نے کیفی اعظمی پر ایک عالمی سمینار منعقد کیا تھا اور شام میں مشاعرہ بھی تھا ۔ میری ٹرین لیٹ تھی اور میں تاخیرسے ہوٹل پہنچا ۔ کائونٹر پر جیسے ہی پہنچا تو دیکھا کہ راحتؔ بھائی تشریف رکھتے ہیں ۔ دیکھتے ہی لپٹ گئے اور فرمایا مجھے معلوم تھا کہ آپ کی ٹرین لیٹ ہے اور آپ پہنچنے والے ہیں اس لئے منتظر تھا ۔ میں نے مسکراتے ہوئے از راہِ مذاق کہا کہ آپ اپنے مشغلے سے فارغ ہوگئے ۔ زور دار ٹھہاکے ساتھ گویا ہوئے ’’آج بھر کے لئے توبہ کرلی ہے‘‘۔ اس سمینار میں پروفیسر ارتضیٰ کریم صاحب کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ بھی راحتؔ صاحب کا بے تکلفانہ تھا۔ پروفیسر جہانگیر وارثی جو اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ لسانیات کے چیئر مین ہیں وہ اس وقت یعنی ۲۰۰۶ء میں امریکہ میں مقیم تھے اور وہ بھی اس پروگرام میں شامل تھے ۔ ہم لوگ گھنٹوں ہوٹل میں ان سے ان کا نیا کلام سنتے رہے اور محظوظ ہوتے رہے ۔ حال ہی میں کلکتہ میں ان سے آخری ملاقات ہوئی اور اس ملاقات میں بھی ہم دونوں پرانی یادوں کو تازہ کرتے رہے ۔
بہر کیف! بیسویںصدی اور اکیسویں صدی کی غزلیہ شاعری کی تاریخ راحت ؔ اندوری کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی کہ ان کے شعری مجموعے ’’دھوپ دھوپ، پانچواں درویش، میرے بعد، رُت بدل گئی ، ناراض ‘‘ اور ’’موجود ‘‘کے اشعار اس بات کی شہادت پیش کرتے ہیں کہ ا ن کے اشعار غزلیہ شاعری کو معراج بخشنے والے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب مشاعروں میں متشاعروں کی بھیڑ جمع ہوتی ہے اس میں راحتؔ اندوری کا جادو سرچڑھ کربولتا رہا ۔ وہ جہاں کہیں جاتے سامعین کے دلوں کی دھڑکن بن جاتے اوراس کی واحد وجہ تھی کہ وہ شہسوارِوقت تھے اور انسانی نفسیات کے ایک بڑے نبّاض تھے۔ وہ محفل اور موقع محل دیکھ کر اشعارپڑھتے تھے اورجہاں جس طرح کے شعر کی ضرورت ہوتی اسے ہی پیش کرتے تھے۔
راحتؔ اندوری نے مشاعرے کی خاطر اپنی ملازمت ترک کی ۔ہم سب جانتے ہیں کہ وہ اندور کے اندر کمار کالج میں اردو کے استادتھے ۔ اردومیں پی ایچ ڈی کی اور ادبی تحقیق وتنقید پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ یہ خیال غلط ہے کہ وہ صرف جہانِ جم میں گم رہتے تھے بلکہ جہانِ ادب کی صحرانوردی بھی ان کا مقدر تھا۔ اس کا احساس مجھے حالیہ ملاقات کلکتہ میں بھی ہوا کہ کئی نئی کتابوں کا انہوں نے ذکر کیا اور مایوسی کا اظہار کیا کہ جامعاتی تحقیق یک رخی ہوتی جا رہی ہے ۔راحتؔ اندوری یکم جنوری ۱۹۵۰ء کو اندور میں ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے اور ۱۱؍ اگست ۲۰۲۰ء کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔انہوں نے بیس سال کی عمر سے مشاعرہ پڑھنا شروع کیا اور آخر دم تک مشاعرے کی جان بنے رہے۔ غرض کہ نصف صدی تک مشاعروں کی دنیا کے بے تاج بادشاہ رہے ۔انہوں نے فلم کا رخ کیا تو وہاں بھی انہوں نے اپنی پہچان قائم رکھی ۔فلم’’ منّا بھائی ایم بی بی ایس کا گیت ’’ایم بولے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘فلم ’’قریب‘‘ کا گیت ’’چوری چوری جب نظر ملی ‘‘اور فلم گھاتک کا گیت ’’کوئی جائے تو لے آئے ‘‘ اس کے علاوہ فلم ’’نیند چرالی، بیگم جان، مرڈر، خوف اور آرزو ‘‘ اور ’’تمنا‘‘ جیسی کامیاب فلموں میں ان کے گیت مقبول ہوئے۔ان کی غزلیہ شاعری نے اردو سے کہیں زیادہ غیر اردو داں طبقے کو اپنے سحر میں گرفتار کیا ۔ ادبی جلسوں سے لے کر سیاسی حلقوں میں بلکہ پارلیامنٹ کے اجلاس میں بھی ان کے اشعار کی گونج سنائی دیتی تھی۔ آج جب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں تو اردو سے کہیں زیادہ ہندی اور دیگر ہندوستانی زبانوں میں ان کو یاد کیا جا رہاہے او ران کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا جا رہاہے ۔
راحتؔ اندوری کو یوں تو تمام شعری اصناف پر عبور حاصل تھا لیکن وہ بنیادی طورپر غزل کے شاعر تھے اور غزل کی تہذیب کے پاسدار تھے۔ ان کے پڑھنے کا انداز اور شعر کو باربار دہرانے کی عادت ان کا خاصّہ تھا ۔ ان کی شاعری میں مکمل ہندوستان بولتا ہوا نظر آتا ہے ۔ وہ غمِ عشق کے بھی شاعر تھے اور غمِ زیست کے بھی ۔ ان کی شاعری عوامی شاعری کا درجہ رکھتی ہے ۔ ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے وہ علمبردار تھے اور تمام طرح کی فرقہ واریت کے خلاف جنگ لڑنے کو تیار رہتے تھے ۔ ان کی بیباکی نے انہیں پوری دنیا میں ایک نئی شناخت دی تھی ۔ان کے سینکڑوں اشعار اس وقت میرے ذہن کے پردے پر دستک دے رہے ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے ؎
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا ہمارے پائوں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گذرے ہوں گے کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
میری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے میرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے
آنکھوں میں پانی رکھو ،ہونٹوں پر چنگاری رکھو زندہ رہنا ہے تو ترکیبیںبہت ساری رکھو
گھر سے یہ سوچ کے نکلا ہوں کہ مر جانا ہے اب کوئی راہ دکھادے کہ کدھرجانا ہے
جسم سے ساتھ نبھانے کی امید مت رکھو اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے
موت لمحے کی صدا ، زندگی عمروں کی پکار میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے
میں مر جائوں تو میری یہ پہچان لکھ دینا لہو سے میری پیشانی پہ ہندوستان لکھ دینا
ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں محبت کی اسی مٹی کو ہندوستان کہتے ہیں
مختصر یہ کہ اردو غزلیہ شاعری کو پروان چڑھانے والوں کی تاریخ جب کبھی لکھی جائے گی تو راحتؔ اندوری کے بغیر وہ مکمل نہیں ہو سکتی کہ راحتؔ کی غزلیہ شاعری نے رومان اور انقلاب کی نئی دنیا آباد کی ہے۔انہوں نے عصری حسّیت کوشعری پیکر میں ڈھالنے کا ایک بڑا ادبی وعلمی فریضہ انجام دیاہے۔ انسانی معاشرے کا کون سا ایسا موضوع ہے جو ان کی غزلوں کا موضوع نہیں بنا ہے۔سیاست،مذہب، محبت، عداوت، قومیت ، ہندوستانیت اور انسانیت ان کی شاعری کے محور ومرکز رہے ہیں ۔ افسوس صد افسوس کہ مذہبِ انسانیت کا علمبردار اب ہمارے درمیان نہیں رہا ۔ میر تقی میرؔ نے شاید اسی طرح کے فنکاروں کے لئے کہا تھا کہ ؎
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
ڈاکٹر جسیم الدین، شعبۂ عربی ،دہلی یونیورسٹی، دہلی
راحت اندوری نے کائنات شعر وشاعری میں نہ صرف منفرد وممتاز شناخت بنائی ، بلکہ اپنے فکر وفن اورتخیل کی پروازسے اردو شاعری کونئی سمت عطاکی۔شعر و شاعری کی بنیاد تخیل پر ہوتی ہے کہ ایک آدمی بات کو بیان کرتے ہوئے جتنا مبالغہ کرے گا، جتنا زیادہ تخیل اونچا ہوگا، اتنا ہی شعر خوبصورت ہو گا۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ شاعری رومانی عکاسی کے بغیر شاعری نہیں رہتی بلکہ وعظ ہوجاتی ہے، مگر رومانی عکاسی اور جسمانی عیش وطرب میں فرق ہونا چاہیےـ راحت کی شاعری میں جہاں رومانیت ہے ،وہیں درماندوں کا درماں بھی ہے۔اس شاعر بے مثال کی شاعری میں جہاں حب رسول کے عناصر موجودہیں ، وہیں ظلم وجبر کی تاریخ دہرانے پر مصر رہنے والی فسطائی طاقتوں کے خلاف اعلان جنگ بھی ہے ۔شاعری ، موسیقیٰ، مصوری اور سنگ تراشی اپنی ہیٔت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں ، لیکن ان کی علاحدگی فراق کی علاحدگی نہیں ہے ، بلکہ وصال کی علاحدگی ہے یعنی وہ الگ الگ ہونے کے باوجود ایک دوسر ے سے اس طرح پیوست ہیں کہ جس طرح حسن اپنے مکمل اظہار کے لیے مختلف الاصل ادائیں رکھتاہے، یا جس چیز کو ہم شعر کہتے ہیں ،وہ صرف لفظ ومعنی کا مرکب نہیں ہوتا، بلکہ اس میں کئی چیزیں سموئی ہوئی ہوتی ہیں، مثلاً ایک اچھا شعر الفاظ ومطالب کی یک رنگی کے علاوہ تخیل اور اس کی گہرائی ، تاثیر اور اس کی گیرائی بھی رکھتاہے اور یہ سب اس کے مؤثرات ہوتے ہیں، جن سے اس کا حسن دوبالاہوتاہے۔ ایسے ہی غزل کے اشعار ،تجربے، مطالعے اور مشاہدے کے ساتھ اپنی ایک فضا اور ایک آواز پیدا کرتے ہیں، پھر حافظے اور وجدان پر نقش ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام اوصاف راحت کی شاعری میں بدرجۂ اتم موجزن ہیں۔اگر وہ حب رسول سے سرشار ہوتے ہیں تو ان کی شاعری عشق رسول کے پیراہن میں نمودار ہوتی ہے:
زم زم و کوثر و تسنیم نہیں لکھ سکتا
یا نبی آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت
آپ کے نام کی اک میم نہیں لکھ سکتا
راحت اندوری کی شاعری میں جہاں تخیل کی پرواز غیر محدود ہے ، وہیں معنیٰ ومطالب کی گیرائی وگہرائی بھی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہیں۔ہر چندکہ خود ساختہ شعراکی بے ہنگم بھیڑ نے اردو کے شعری افق کوآلودہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،لیکن راحت اندوری جیسے شاعرنے تن تنہا معنیٰ خیزاور بلند معانی ومطالب سے آراستہ شاعری سےاردوشاعری کے افق کوتابندگی بخشی۔ان کے شعری زنبیل میں ہرسطح کے سامعین کے لیے اشعار موجودتھے، وہ جب مشاعرہ میں کلام میں پڑھتے تو شروع کے ایک مطلع سے ہی سامعین کی شعر فہمی کی سطح کو ناپ لیتے اور پھر اسی معیار کے اشعار سے مشاعرہ کا سماں باندھتے۔ میں پہلی بار میں 2005 میں ایم سی ڈی بارات گھر نزد خلیل اللہ مسجد بٹلہ ہاؤس میں منعقدہ مشاعرہ میں ان کی شاعری سےکم اور پیش کش کے انداز سے زیادہ لطف اندوز ہوا۔ بعدازاں جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی ، مشاعرہ جشن جمہوریت لال قلعہ اور آئی آئی ٹی ،دہلی میں منعقدہ مشاعروں میں ان کی شاعری سے محظوظ ہوا۔وہ اشعار ترنم میں نہیں تحت میں پڑھتے تھےِ، لیکن پڑھنے کا اسٹائل اتنا البیلا ہوتاتھا کہ سامعین شعرکا مصرعہ مکمل ہونے سے پہلے ہی دادتحسین کے لیے تھرکنے لگتے۔ ان کا مشہورکلام جو زبان زد عام وخاص ہے ملاحظہ فرمائیں:
اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
شاعری آج دیگر اصناف ادب کی طرح زوال پذیرہے ، شاعری میں آج فکروفن کی وسعت وہمہ گیری اور پرواز کی تخیل گم ہوتہ نظر آرہی ہے ، جب کہ شاعری ایک باکمال صنف ہے جس کے آہنگ وانداز سے ایوان حکومت میں لرزہ طاری ہواہےاور شعرانے اپنے بلند معانی ومطالب سے آراستہ شاعری کے ذریعہ قوموں کی تقدیر بدلی ہے۔ڈاکٹر راحت اندوری ایسے عظیم شعراکے سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی تھے۔بلاشبہ ایساشاعربرسوں، دہائیوں میں نہیں ،بلکہ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔نصف صدی تک شاعری کے افق پر دمکنے والا یہ ستارہ بھی آخر کارکورونا کی زد میں آکر غروب ہوگیا۔ میں بہت رنجیدہ ہوں کہ مہلک وائرس کورونا نے نہ جانے کتنی عظیم ہستیوں کو اپنا نوالہ بنالیا، کیا شاعر، کیا ادیب ، کیا مفسر، کیا متقی وپرہیزگار، کیا ادیب ودانشور، آئے دن ایک سے بڑھ کر ایک شخصیت ہم سے رخصت ہوتی جارہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میدان علم وفن کے آفتاب وماہتاب ایسے ہی رخصت ہوتے رہے تو کائنات علم وفن تاریک ہوجائے گی ۔خدا اس وبا سے ہمارے معاشرے کو پوری طرح سے حفاظت فرمائے اور جو عظیم شخصیات ہم سے جدا ہوئی ہیں ، ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔
بڑے شوق سے سن رہاتھا زمانہ
تمھیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
مظفرپور:11/اگست (پریس ریلیز ) بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر راحت اندوری کاآج اندور کے ایک اسپتال میں دوران علاج انتقال ہوگیا۔راحت اندوری (عمر70سال) کورونا سے متاثر تھے اور اسپتال میں اپنا علاج کروارہے تھے کہ آج سہ پہر اچانک حرکت قلب پرشدیدحملہ ہوا جس کے باعث انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔آج ہی انھوں نے ٹوئیٹر پرااپنے لئے دعا کی درخواست کی تھی ۔ راحت اندری کے انتقال کی خبر سنتے ہی مظفرپور کے ادباء،شعراء، مصنفین ،صحافی، قلمکار،علماء، و سمجائی رہمناؤں میں غم کی لہر دوڑ گئی ۔مظفرپور کے معروف صحافی محمد آفاق اعظم نے راحت اندوری کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شاعری عوام کے دل کی دھڑکنوں کی ترجمان رہے کرتی تھی،عوام کے دلوں کو جوش و خروش سے بھر دیتاتھا۔ما یوسی کے اندھیرے میں امید کی کرن بن جا یاکرتی تھی ۔انہو نے مشاعروں کو ایک نئی سمت ایک نئی روش عطا کی تھی۔راحت اندوری سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد غزل سرا ئی کا ایسا طرز رہا۔ان کا لب و لہجہ منفرد اور آواز پہاڑی تھا۔پچھلے کئی دہا ئیوں سے ان کی شاعری صور اسرا فیل کا کام کر رہی تھی۔آپ سو توں کو بیدار کرنے کا فریضہ انجام دےرہےتھے ہ۔ان میں سما جی و سیاسی شعور پیدا کر رہےتھے۔اپ کی شاعری عرفان و آگہی کا ایک بگل تھے۔انصاف منچ کے ریاستی نائب صدر ظفر اعظم نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ را حت اندوری عصری چیرہ دستیوں کو بے نقاب کرنے والے مائہ ناز شاعر تھے۔شعور و ادراک کے چراغ جلا تے تھیں ۔ان کا تخاطب تیکھا ہو تا تھا۔آپ خفتہ ضمیر انسانی کو جھنجوڑتے تھیں ۔سماج کو آئینہ دکھا تے تھیں ۔ان کی پرواز تخیل لا مکاں ہو تی تھی۔آپ عزم و حوصلہ کے امین بن جا تے ہیں۔ان کی شاعری تعفن طبع کے لئے نہیں زمانے کو پہچاننے کے لئے ہو تی تھی۔آپ نا صح بن کر نہیں دوست بن کر بات کرتے تھیں ان کے خلوص اور درد مندی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔آپ غم کے اندھیرے میں ہمت کا اجالا با نٹتے تھیں ۔ان کی زنبیل میں دکھوں کا مداوا اور نسخہ کیمیا رہتاتھا۔ انصاف منچ کے ریاستی ترجمان اسلم رحمانی،ومسلمس یونائیٹڈ فرنٹ بہار کے ریاستی صدر جاوید قیصر نے راحت اندوری کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ راحت اندوری عالمی سطح کے شاعر تھیں ۔دنیا میں جہاں جہاں اردو ہے وہاں راحت اندوری نے اپنے سلیس و سادہ اور با معنی غزلوں سے لوگوں کو متا ثر کیا اور ان سے انہیں جی بھر کے داد و تحسین ملی۔راحت اندوری کو سننے ہجوم بے تاب رہتا تھا۔انہیں مشاعرے کا Star Poet کہا جا تا تھا۔انہیں لوگ ہمہ تن گوش ہو کر سماعت کرتے تھیں ۔وقت کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہو تا۔ان کے لب و لہجہ میں بلا کی کشش ہو تی تھی ۔ان کی شاعری دلوں میں براہ راست اترتی چلی جا تی تھی ۔ایک ایک لفظ گنگا کے پا نی کی طرح صاف و شفاف ہو تاتھا ۔وہ عوامی شاعری کرتے تھیں ۔کوئ لفظ بھی ثقیل او ر نا قابل فہم نہیں ہو تا تھا۔ تعزیت کا اظہار کرنے والوں میں، انصاف منچ کے ریاستی صدر سورج کمار سنگھ، آفتاب عالم، فہد زماں، اکبر اعظم صدیقی، خالد رحمانی، اعجاز احمد، کامران رحمانی، مطلوب الرحمن، محفوظ الرحمن، شفیق الرحمن کا نام شامل ہے
شعر کا سُونا چمن کچھ اور خالی ہوگیا
ہائے کیسے شخص سے اِندور خالی ہوگیا
سرحدوں کے اِس طرف بھی اُس کی راحت تھی بہت
ایسا لگتا ہے مرا لاہور خالی ہوگیا
کیسی کیسی رونقیں تھیں اُس کے اک اک شعر میں
اک زمانہ گُم ہُوا، اک دَور خالی ہوگیا
پوچھتے ہیں اب غزل آباد کے دیوار و در
یہ بھرا گھر کس طرح فی الفور خالی ہوگیا
صبح ہی خبرملی تھی کہ راحت اندوری کورونا سے متاثر ہوگئے ہیں اور شام ہوتے ہوتے ان کے جاں ہار ہونے کی خبر بھی آگئی:
یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
کیسا دلچسپ انسان تھا اور کیسا انوکھا شاعر۔ جس کی زبان میں شفافیت تھی اور لہجے میں بے باکی،جوایک فن کار شاعر تھا اور اس کی فنکاری کے سامنے بڑے بڑوں کا چراغ کجلا جاتا تھا،جس نے کم و بیش نصف صدی تک اردو و ہندی مشاعروں کی دنیا پر راج کیا اور ایک عالم کو اپنا قائلِ معقول کیے رکھا۔ وہ تخیلاتی دنیا سے زیادہ عالمِ حقائق کی ترجمانی کرتا تھا اوریہ ترجمانی کبھی کبھی نہایت تلخ صورت دھار لیتی،مگر وہ اپنی طبیعت اور افتاد و مزاج سے سمجھوتا نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے حسن و عشق کے خیال انگیزموضوعات پر بھی خوب صورت غزلیں کہیں ،مگر اس سے زیادہ خوب صورتی اور مہارت کے ساتھ اس نے سماجی انتشار پر شاعری کی اور سیاسی جبر کو واشگاف کیا۔ وہ حقیقی معنوں میں مست مولا ٹائپ شاعر تھا،اسٹیج کوئی بھی ہو اور اسٹیج پر سرکارِ والاتبار کے کیسے ہی جلیل القدر نمایندے بیٹھے ہوں،راحت اندوری وہی پڑھتا ،جو اسے پڑھنا ہوتا۔
وہ اشعار پڑھتے ہوئے سامعین کے موڈکا تو لحاظ کرتے تھے،مگر منتظمینِ مشاعرہ اپنے مطلب کی شاعری ان سے نہیں پڑھوا سکتے تھے۔ اشعار پڑھنے کا ان کا انداز بھی دلچسپ تھا،ایسا لگتا کہ شعر پڑھنے اور سامعین کے حوالے کرنے سے پہلے وہ خود اس شعر کا مزا لینا چاہتے ہیں۔ ان کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ دوچار اشعار کے بعد ہی انھیں اندازہ ہوجاتا کہ سامعین کا مجمع کس ذوق و مزاج کا حامل ہے اورپھر اسی کے مطابق اشعار پڑھتے۔
راحت اندوری کی شخصی زندگی کا ہمیں علم نہیں ،مگر ایک بڑے شاعر اور سلیبریٹڈ شخصیت ہونے کی حیثیت سے ملکی مسائل و معاملات پر بھی ان کا موقف نہایت واضح اور دوٹوک ہوتا تھا،انھیں ذاتی منفعت و نقصان سے زیادہ اجتماعی و قومی مفاد عزیز رہتا تھا؛چنانچہ جہاں وہ ہزاروں کے مجمعوں میں ملک کے سیاسی و سماجی ماحول پر شاعرانہ تبصرے کرتے،وہیں ضرورت پڑنے یا صحافتی اداروں کے رابطہ کرنے پر کھل کر حالات حاضرہ پر بھی اظہار خیال کرتے۔ انھیں کوئی بھی سیاسی طاقت مرعوب نہ کرسکی،انھوں نے ستر کی دہائی میں ایمرجنسی کے خوفناک دورانیے میں بھی اپنے بے باک لب و لہجے کا جادو جگائے رکھا اور آج کے فسطائی عہد میں بھی ان کی زبان و قلم کا سفر اسی رفتار اور تیور کے ساتھ جاری و ساری رہا۔ ایک غزل انھوں نے کئی دہائی قبل کہی تھی جس کا مطلع تھا:
اگر خلاف ہیں ،ہونے دو،جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے،کوئی آسمان تھوڑی ہے
اور اسی کا ایک شعر تھا:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
اس غزل کے دوسرے اشعار بھی خاصے معنی خیز ہیں اور جب انھوں نے پہلی بار یہ غزل کہی تھی،تبھی اسے اردو حلقوں میں غیر معمولی شہرت ملی،مگر کئی دہائی بعد جولائی 2017میں جب وہ کپل شرما کے شو میں مدعو کیے گئے اور وہاں انھوں نے اس غزل کو پڑھا،تو اس کے بعد اسے ہندوستان گیر سطح پرازسرِ نو شہرت ملی اور گویا بچے بچے کی زبان پر یہ یہ شعر چڑھ گیا۔ گرچہ یہ کافی پرانا تھا،مگر موجودہ ماحول میں ملک کے ستم رسیدہ ،مظلوم و مجبور حلقوں کو اس سے خاصی توانائی اور حوصلہ ملا، عام شہریوں کی دیش بھکتی کو question کرنے والے نرگسیت زدہ بھگوائیوں کے سامنے لوگ اس شعر کو ڈھال کے طورپر استعمال کرنے لگے۔ پچھلے سال دسمبر کے وسط میں جب این آرسی اور سی اے اے کو لے کرملک گیر احتجاج شروع ہوا،تو احتجاج کرنے والے شہریوں کے حوصلہ و جذبہ کو ابھارنے میں متعدد مرحوم شعرا کے ساتھ راحت اندوری اور ان کی شاعری کا بھی خاص کردار رہا۔ اس زمانے میں اگر آپ پورے ملک کے سیکڑوں شہروں اور دیہاتوں میں جاری دھرنوں کا دورہ کرتے اور لوگوں کے ہاتھوں میں موجود پلے کارڈز اور بینر وغیرہ پر نظر دوڑاتے،تو ہر جگہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں راحت صاحب کا مذکورہ بالا شعر ضرور نظر آجاتا۔ چوں کہ وہ شعر براہِ راست این آرسی اور سی اے اے جیسے موضوع سے relate کرتا تھا؛اس لیے اسے سننے اور پڑھنے میں اور بھی توانائی کا احساس ہوتا تھا۔ اس احتجاج کے دوران اس شعر کی اس حد تک مقبولیت کی وجہ سے انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس نے25 دسمبر2019 کو خاص اس شعر کے حوالے سے ایک اسٹوری بھی شائع کی تھی اور اسی مناسبت سے اخبارنے ان سے بات چیت بھی کی تھی۔ اس اسٹوری میں ان کی گفتگو کے کئی اقتباس نقل کیے گئے تھے،جن میں سے ایک یہ تھا کہ ”میرے آس پاس جو کچھ ہورہاہے، اس پر اگر میں نہ لکھوں،تو میرے اور نیروکے درمیان کیا فرق رہ جائے گا؟اگر میرے شہر اور ملک میں آگ لگی ہوئی ہے اور میں اپنی محبوبہ کی زلفوں کی شان میں قصیدے لکھ رہاہوں،تویا تومیں اندھاہوں یا بہراہوں“۔
راحت اندوری کی یہ بات دراصل ادب اور معاشرہ کے باہمی ربط کو بیان کرتی ہے،دونوں کے رشتوں کی وضاحت کرتی ہے۔ یہیں سے ہمیں اس حقیقت کا بھی پتا چلتا ہے کہ حقیقی ادب وہ ہے،جو تخلیق ہونے کے بعد قبل اس کے وردی پوش ناقدین اس کے ادبی مقام و مرتبے کا تعین کریں، براہِ راست اپنے مخاطب تک پہنچتا اور اس کے ذہن و دل پر اثر انداز ہوجاتا ہے۔ بلا شبہ راحت اندوری نے تا زندگی ایسی ہی شاعری کی،ان کے اشعار ادبی و تنقیدی اعتبار سے کس مقام و مرتبے کے حامل ہیں،اس سے قطع نظر یہ ایک بین حقیقت ہے کہ انھوں نے ایک جہان کو اپنے لب و لہجے،دلچسپ طرزِ ادا،اپنی خیال افروزی،اپنی بے باکی،اپنی تخلیقی ہنر مندی،اپنی فنکاری اور اپنے غیر معمولی حوصلہ مندانہ تیوروں کا اسیر کیے رکھا۔ ان کی آواز اس ملک کے کروڑہا لوگوں کو اپنے دل کی آواز محسوس ہوتی تھی،انھیں خود بھی اس چیز کا احساس تھا،سو وہ ہر اس مسئلے پر اپنی شاعری کے ذریعے بے باکانہ اظہار خیال کرتے تھے،جس کا تعلق عوام،سماج اور اسے متاثر کرنے والی سیاست سے ہوتا تھا۔
راحت اندوری کی خاص خوبی فکر و خیال کی استقامت بھی تھی۔ انھوں نے کبھی بھی حالات کے حساب سے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔ چاہے وہ سیاسی موقف ہو یا فکر و عقیدے کا معاملہ ہو۔ مقبولیت و شہرت کی معراج تک بھی پہنچے اور بسا اوقات تنگی و ترشی کا دور بھی آیا،مگر تخلیقی سفر کی ایک سمت جو متعین کی،اسے بدلنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ وہ اپنی بہت سی عملی کوتاہیوں کا بھی برملا اظہار کرتے تھے،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا دل ایمان و ایقان میں پختہ اور ان کا ذہن و ضمیر عقیدہ و مذہب کے باب میں مستقیم تھا۔ ان کے نعتیہ اشعار اور خدا کی وحدانیت و توکل کو آشکار کرنے والے ان کے مصرعے ان کی اندرونی کیفیات کا واضح بیانیہ ہیں۔
راحت قریشی المعروف براحت اندوری کی پیدایش 1950میں اندور میں ہوئی۔ گریجویشن اسلامیہ کریمیہ کالج سے پاس کیا اور پوسٹ گریجویشن برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے مکمل کیا اور مدھیہ پردیش بھوج یونیورسٹی سے ’’اردو میں مشاعرہ‘‘کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ دن درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے،پھر کل وقتی شاعر ہوگئے اور مشاعرہ خوانی کے سلسلے میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک کے بیسیوں ملکوں کو ناپ ڈالا۔ منا بھائی ایم بی بی ایس،مرڈر،عشق سمیت درجن بھر سے زائد بالی ووڈ کی فلموں میں گانے بھی لکھے۔ رُت،میرے بعد،دھوپ بہت ہے، ناراض،موجود،چاند پاگل ہے وغیرہ ان کے شعری مجموعے ہیں ،جو اردو کے ساتھ دیوناگری رسم الخط میں بھی شائع ہوئے ہیں۔ خود راحت اندوری پر متعدد ادبی رسالوں نے ان کی زندگی میں ہی خاص نمبر نکالے۔ ان کی شخصیت اور شاعری پر ایک کتاب طارق شاہین اور عزیز عرفان نے 2002میں مرتب کی تھی،جو ساڑھے چار سو صفحات سے زائد پر مشتمل ہے اور اس میں سردار جعفری ،قمر رئیس ،عبدالقوی دسنوی،وامق جونپوری،رفعت سروش،مظفر حنفی،عتیق اللہ،زبیر رضوی،عنوان چشتی، ظفر گورکھپوری،کیف بھوپالی ، قیصر الجعفری، ندا فاضلی ،بشیر بدر،اسعد بدایونی،رؤف خیراورمنور رانا سمیت دیگر درحجنوں ناقدین،معاصر شعرا اور تخلیق کاروں کی تحریریں اور تاثرات جمع کیے گئے ہیں۔ راحت اندوری کی شخصیت اوران کے فن کی تفہیم میں اس کتاب سے خاصی مدد مل سکتی ہے۔
وہ مشاعروں میں قہقہہ لگاتے ہوئے حکومت کو چیلنج کرتا تھاـ اس کا قہقہہ مشہور تھا،سیاہ چہرے پر طنز کی بجلیاں کوندتیں اور اس کی مسکراہٹ سے ہزاروں تیر برستے اور کروڑوں لہو لہان ہو جاتے،میں کیوں لکھتا اس پر ؟ لکھتا تو سنجیدہ مہذب دانشوروں کے درمیان نشانہ بن جاتا،بازارواور مشاعرہ باز،یہ کوئی شاعری ہے ؟ مگر ایوان سیاست میں اس کے نام سے زلزلہ آ جاتا تھا،جب وہ کہتا تھا:
تمہارے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
اور اتنا کہہ کر وہ تیز قہقہہ لگاتا جیسے حکمرانوں کو تنبیہ کر رہا ہو کہ سنبھل جاؤ،ہم بھی کسی آندھی ، کسی طوفان سے کم نہیں، ہم سے مت ٹکراؤ ـ
سنجیدہ فلسفوں کا کاروبار کرنے والو، جدیدیت اور پختہ ادب کی پہچان رکھنے والو ، ایک کہانی سنو، ایک ملاح تھا،اس کی کشتی میں ایک دانشور سوار ہوا، دانشور نے پوچھا ، کیا تاریخ سے تمہاری واقفیت ہے ؟ ادب سے ہے ؟ سائنس سے ہے ؟ جغرافیہ سے ہے؟ ملاح ہر بار انکار میں گردن ہلا دیتا اور دانشور ہر سوال کے بعد کہتا ، نہیں جانتے ، تمہاری زندگی بیکار ہے، اس درمیان کشتی میں پانی بھرنے لگا،ملاح نے دانشور سے سوال کیا”آپ تیرنا جانتے ہیں؟ ” دانشور نے انکار کیاـ نہیں جانتا،دریا میں کودنے سے قبل ملاح نے کہا ، پھر آپ کی زندگی بیکار ہے،
طوفان آ چکا،آندھیوں نے ہزاروں گھر پھونک دیے، بند کمروں میں ادب کی نمائش کرنے والے کیا جانیں کہ راحت اندوری کیا تھا ؟ منور رانا کی ضرورت کیوں ہے ؟ فسطائی طاقتیں پوری شدّت اور منصوبوں کے ساتھ مذہب ،مشترکہ وراثت اور تہذیب پر حملہ کر رہی ہیں، دانشوری کو طاق پر رکھیے،کیا آپ حکومت کے ایسے منصوبوں کو خاک میں ملا سکتے ہیں ؟ منور رانا اور راحت اندوری جیسوں کی آواز پوری دنیا کو ہلا دینے کی طاقت رکھتی ہے،سنجیدہ ادب لکھنے والوں اور سنجیدہ قاری کا قصور یہ ہے کہ وہ ابن صفی کو تو ضروری تسلیم کرتا ہے مگر راحت اندوری تک پہچنے میں روح فنا ہو جاتی ہے، آزادی یوں ہی مل گئی ؟ کیا اس وقت یہ پروپیگنڈا ضروری نہیں تھا کہ غلامی کی مخالفت کی جائے، آزادی کی چیخ کو آواز دی جائے اور اس وقت آزادی کے نغمے کس نے نہیں لکھے، سب نے لکھے، ہم آج اس مہذب دور میں زیادہ غلامی کے شکار ہیں، موب لنچنگ ، فسادات ، دو قانون، مسلمانوں کا الگ ، غیر مسلموں کا الگ،کوئی ادیب ہے جو مسلمانوں کے لئے جنگ کر رہا ہو،جنگ راحت کرتا تھا، ڈرتا نہیں تھا،بیباک تھا،کپل شرما شو میں بھی دو بار دعوت ملی، دونوں دفعہ چھا گیا اور پیغام بھی دے گیا کہ تمہارے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے ـ
مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے
ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو
یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے
اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر
جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
ہے میرے چاروں طرف بھیڑ گونگے بہروں کی
کسے خطیب بناؤں کسے خطاب کروں
وہ گونگا نہیں تھا ، بولنا جانتا تھا، وہ اپنی قیمت پہچانتا تھا، وہ جنگجو تھا، جب ضرورت ہوتی ، وہ بیدار کرنے آ جاتا، اب کورونا نے حقیقت سامنے رکھ دی اور یہ سوال خدا سے بھی ہے،خدا ، میرے خدا ، راحت کا جرم سنگین اور سیاسی ایوانوں میں بیٹھے خداؤں کو معافی ؟ یہ کیسا انصاف میرے خدا؟ کورونا اپنے ساتھ کیسے کیسے لوگوں کو لے گیا ، ان لوگوں کو جن کے دم سے زندگی اور کائنات کا حسن باقی تھا اور جو نفرتیں پھیلا رہے ہیں ، جو آگ لگا رہے ہیں ، جو ملک کو زخمی کر رہے ہیں ، تیری خوبصورت دنیا میں داغ لگا رہے ہیں ، انھیں زندہ رہنے کے لئے چھوڑ رکھا ہے یہ تفریق کیوں خدا ؟ یہ کیسا انصاف ؟
میں پھر ان سوالوں پر آتا ہوں ـ آزادی کے بعد کے فرقہ وارانہ فسادات، ادب کا خیمہ خاموش رہا، 1984ہوا پھر1992، کوئی ہلچل اس خیمے میں نظر نہیں آئی، کچھ ہلکی پھلکی علامتی کہانیاں لکھ دی گئیں۔1992 کے بعد کا منظر نامہ دیکھ لیجئے ـ خاموشی کی روایت قائم ہے، سیاسی عدم بیداری کی فضا قلم کے محافظ پیدا نہیں کرتی ـ جدیدیت کے علمبردار وں کو کوئی غرض نہیں کہ ملک کہاں جا رہا ہےـ بیمار مریضوں ،سوکھی انتڑیوں کے باسی مردہ قصّوں میں اگر زندگی کی حرارت نہیں تو یہ قصّے فقط الفاظ کی بھول بھلیاں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں،ترقی پسند زندہ مکالمے کرتے تھے،بیانات دیتے تھے ۔حق کے لئے جنگ کرتے تھے ۔ 1992کے بعد کا عام رویہ ہے کہ ادب کو عام اذہان اور مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں۔نیند میں سویے ادیبوں پر آپ فخر کر سکتے ہیں تو کیجئے،لیکن وہ ادیب ہی کیا جسے بدلتے سیاسی منظر نامے کی چیخ سنائی نہ دے ـ
راحت یہ چیخ سنتا تھااور جب وہ لکھتا تھا تو اس کی چیخ ساری دنیا کی چیخ بن جاتی تھی:
ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں
محبت کی اسی مٹی کو ہندوستان کہتے ہیں
’میرے اندر سے ایک ایک کرکے سب ہوگیا رخصت
مگر اندر جو باقی ہے اسے ایمان کہتے ہیں‘
میں من کی بات بہت من لگا کے سنتا ہوں
یہ تو نہیں ہے تیرا اشتہار بولتا ہے
کچھ اور کام اسے جیسے آتا ہی نہیں
مگر وہ جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے
میں اس کے چہرے کو دیکھتا، حضرت بلال حبشی کی یاد تازہ ہو جاتی ـ وہ چہرے سے سیاہ مگر اندر سے تندور اور ایسے تندور کی ابھی ضرورت تھی،جب اسلام کی عظمت کا آفتاب بلند ہوا ، مکہ کی وادیوں سے اذاں کی جو پہلی آواز گونجی وہ حضرت بلال کی تھی، مودی کی اس انداز میں خبر کون لے گا کہ وہ جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے،کون کہے گا ، تمھارے باپ کا ہندوستان،یہ راحت ہی کہہ سکتے تھے اور راحت ہی چلے گئےـ اپنے نغموں سے اقلیتوں کے زخم پر مرہم رکھنے والا ، راحت پہنچانے والا چلا گیاـ