نئی دہلی(پریس ریلیز) : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے ڈائریکٹر اور ستیہ وتی کالج دہلی یونیورسٹی کےسینئر اسوسیٹ پروفیسر شیخ عقیل احمد کو پروفیسر بنا دیا گیا ہے، ان کے پروفیسر شپ کے انٹرویو میں بحیثیت ایکسپرٹ پروفیسر ابنِ کنول اور پروفیسر محمد کاظم نے شرکت کی، شیخ عقیل احمد اردو حلقہ میں ایک سینیر استاد اور قلمکار کی حیثیت سے متعارف ہیں۔ ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں، مثلاً:اردو غزل کا عبوری دور، ادب اسطور اور آفاق، مغیث الدین فریدی، اردو میں تاریخ گوئی وغیرہ۔ ان کے سو سے زیادہ مضامین اور تحقیقی مقالے بھی ہندوستان اور ہندوستان سے باہر کے رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ فی الحال قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی میں بحیثیت ڈایرکٹر اردو زبان و ادب کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے پروفیسر منتخب ہونے پر ان کے محبین و متعلقین خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور مبارکباد دے رہے ہیں۔بطور خاص شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے سینیر استاد ڈاکٹر احمد امتیاز نے پروفیسر شیخ عقیل احمد کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ امید ہے شیخ عقیل احمد اردو زبان وادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے رہیں گے۔ ان کے علاوہ پروفیسر ندیم احمد JMI، پروفیسر ریاض احمد صدر جمّوں یونیورسٹی، پروفیسر مشتاق احمد رجسٹرار متھلا یونیورسٹی وغیرہ سمیت متعدد اساتذہ، اسکالرز اور طلبہ نے مبارکباد پیش کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیاہے۔
دہلی یونیورسٹی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی،دہلی
قبل مسیح کی چھٹی اور پانچویں صدیاں اس اعتبار سے بے حد اہم ہیں کہ ان میں کئی فلسفوں اور مذہبوں کے بانیان پیدا ہوئے جنھوں نے دنیا کوروشن خیالی، روحانی عرفان اورذہنی آسودگی کے اسباب مہیا کرائے۔چین میں کنفیوشش، ایران میں زرتشت،یونان میں فیثاغورث اور ہندوستان میں گوتم بدھ اور مہابیر کا تعلق انھی دو صدیوںسے ہے۔فی الوقت گفتگو مہاتما بدھ، بدھ مت،اس کے صحیفے ’دھَمَّپد‘ اوران سب کے رشتوںمیں آنے والی اردوزبان کے حوالے سے کی جائے گی۔
عہد عتیق کی چندبے حد برگزیدہ شخصیتوں میں سے ایک اہم اور محترم نام مہاتما گوتم بدھ کا ہے ۔گوتم بدھ کا پیدائشی نام سدھارتھ ہے۔ان کے والد قدیم ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست ’کپل وستو‘ کے راجہ تھے(کپل وستو اب نیپال میں ہے)۔ نوجوانی میں گوتم کی شادی یشودھرانام کی دوشیزہ سے ہوئی،دونوں کو ایک لڑکا پیدا ہوا جس کانام راہل رکھا گیا۔اور پھر یوں ہوا کہ گوتم بدھ شاہانہ زندگی اور بیوی بچے کو چھوڑ کر حق کی تلاش میں نکل پڑے۔برسوں کی تپسیا ،ریاضت اور مراقبے کے بعد آخر کار انھیں حق سے آشنائی یعنی معرفت حاصل ہوئی۔اور ان پر یہ اسرار منکشف ہوئے کہ ریاضت، تپسیا اور چلہ کشی سے نہیں بلکہ نیک اور پاکیزہ زندگی ، اعتدال پسندی ،صلہ رحمی اور ترک خواہشات سے حق کو پایا اور معرفت حاصل کی جاسکتی ہے۔
گوتم بدھ نے معرفت حاصل کرنے کے بعد عام لوگوںکوشفقت و محبت، ہمدردی و احترام ، وفاداری، مساوات، حسن سلوک اورادب و تعظیم کی ہدایات دیں۔ انھیںانسان کی بنیادی صفات و خصوصیات سمجھائیں، موت و حیات کافلسفہ بیان کیا، رنج و غم کے اسباب بتائے اور ان سے نجات کے طریقوںکی تعلیم دی ۔ تاہم انھوں نے دوسرے بڑے مذاہب جیسے ہندو،عیسائی، یہودی اور اسلا م کی مانند نہ تو خدا کے وجود پر کوئی بحث کی ہے ، نہ کائنات کی تخلیق کے اسباب پر روشنی ڈالی ،اور نہ ہی زندگی، موت اور روح کی وضاحت کی ہے۔آخرت، قیامت، حشر و نشر اور جنت و جہنم جیسے مسائل پر بھی ان کے فرمودات بہت واضح نہیں ہیں۔ بدھ نے ان کے متعلق غور و فکر، گفتگویا سوالات کو غیر ضروری قرار دیا ہے ۔اُن کے مطابق اِن سب باتوں کا جاننا،یا نہ جاننا انسان کے لیے نہ تو فائدہ مند ہے ، نہ نقصاندہ۔ گویا وہ ایک مذہب کے بانی سے کہیں زیادہ انسانی زندگی کے فلسفی ،مصلح اخلاق اور انسان دوست کے بطور اپنے افکار بیان کرتے ہیں۔مابعد الطبیعاتی پیچیدگیوں کے بجائے ان کا سارا زور دنیاوی زندگی کے فلسفے،حسنِ اخلاق،عمدہ افکار اور اعمالِ صالح پر ہے ۔ البتہ عقیدہ ٔ تناسخ یعنی آواگون (arvagona) کوانھوں نے تسلیم کیا ہے اور اسے کافی اہمیت دی ہے۔
عام خیال ہے کہ بدھ ’ناستک ‘یعنی خدا کے منکرتھے ،مگر بعض عالموں کی رائے یہ ہے کہ انھیں ’ ناستک‘ خدا کے انکار کی وجہ سے نہیں بلکہ مروجہ عقائد کی تردید اور ’ویدوں‘کا انکار کرنے کی بنا پر کہا گیا۔ ان علماء کی جماعت کے مطابق اس بات کے کئی شواہد موجود ہیں کہ گوتم بدھ خدا پر یقین رکھتے تھے ،خاص طور سے Tevigga Suttanamمیں مرقوم اس واقعے کے حوالے سے جب ـ’کوشالہ‘ نامی علاقے کا دورہ کرتے ہوئے Manasakta نام کے گاؤں میں گوتم بدھ کا مقامی برہمنوں کے ساتھ مکالمہ ہوتاہے۔اسی طرح وہ آخرت کے بھی قائل ہیں۔
دنیا کے بیشتر بڑے مذاہب اور عقائد کی اپنی مقدس کتابیں ہیںجن میں ان کے اصول وضوابط، احکام و مسائل اور تاریخ و واقعات محفوظ ہیں۔یہ کتابیں یا تو آسمانی صحائف کی شکل میں ہیں جیسے قران، انجیل، زبور اور تورات یا مذہب یا عقیدے کے بانی یابزرگوںکے اقوال و ملفوظات پر مبنی یاپھر ان کے پیروکارں کے ذریعے لکھی ہوئی کتابیںہیں۔ جیسے سکھوں کی گرو گرنتھ صاحب،زرتشت کی ’ژند وستا‘ہندو دھرم کی وید مقدس ،اپنشد،پُران اور گیتا وغیرہ ۔ لیکن بودھ کی مذہبی کتاب ایک دو یا پانچ سات نہیں ،بلکہ متعدد کتابوں کے مجموعے ہیں،جنھیں تین زمروں میں تقسیم کیا گیاہے ۔
یہ زمرے ’تری پٹک ‘(Tripitaka)یعنی تین پٹاریوںکے نام سے منسوب ہیں ۔ تینوں پٹاریوںمیںمتعدد ابواب پر مشتمل کئی کئی کتابیں شامل ہیں۔متعدد کتابوں پر مشتمل پہلی ٹوکری کانام ’وِنیا پِٹک‘ (Vinaya Pitaka)ہے۔ تیسری پٹک کانام’ ابھی دھم‘ (-Pitaka Abhidhamma)ہے ۔اس میں بھی کئی ایک کتابیں ہیں۔اور دوسری کانام سُتّ پٹک(Sutta Pitaka) ہے ۔سُتّ پِٹک پانچ حصوں میں منقسم ہے۔ اس کے پانچویںحصے’ کُھدّک‘(Khuddak) میں پندرہ گرنتھ ہیں انھی گرنتھوں میں سے دوسرے نمبر کا گرنتھ ’دھَمّپَد‘ (Dhammapada)ہے ۔
چونکہ گوتم بدھ (563ق م ) کے زمانے میں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا اس لیے ایک عرصے تک ان کی تعلیمات سینہ بہ سینہ یا کہیے زبانی منتقل ہوتی اور دیس بدیس پہنچتی رہیں۔تقریباً تین سو سال کے بعد 252ق م میںاشوک کے عہد میں پہلی مرتبہ انھیں مبسوط شکل میں ’پا لی‘ زبان میں قلمبند کیا گیا ۔دوسری روایت یہ ہے کہ بودھ گرنتھوں کوپہلی بار لنکا کے راجہ’ وَٹّا گامی‘(76-88 ق۔م ) کے حکم سے تحریری شکل میں جمع کیا گیا۔ ’مہاونش‘ نام کے گرنتھ میں اس بات کا ذکر موجود ہے۔ ( دَھمّپد، ہندی،کن چھیدی لال گپت، چوکھمبا ودّیا بھون،وارانسی،2012،ص، 14) ذہن نشیں رہے کہ بھگوان بدھ نے تمام احکامات وتلقینات اورپند وعظ بہار کی زبان ’ماگدھی‘ میں ارشاد فرمائے تھے ،جو اس وقت مگدھ کے عام لوگوں کی بول چال کی زبان تھی(جسے دیسی،یا پراکرت بھی کہا جاتا ہے) ۔ بدھ کی ان تمام باتو اور وعظوں کو تحریری شکل میں لانے کے لیے انھیں’پالی‘ زبان میںمرتب کیا گیا۔ مگر اصل جلدیں مرتب کیے جانے کے بعد کم عرصے میں ہی ناپید ہوگئیں۔حسن اتفاق ان کی ایک نقل راجا اشوک کے بیٹے مہند(Mahend) کے پاس محفوظ تھیں جنھیں وہ اپنے ساتھ سری لنکا لے گئے تھے جہاں ان کا ترجمہ وہاں کی سنگھالی زبان میں ہوا۔ کچھ عرصے بعدراجہ مہند والی وہ نقلیں بھی جو وہ اپنے ساتھ سری لنکا لے گئے تھے، اصل جلدوں کی طرح معدوم ہوگئے، مگر سنگھالی کا ترجمہ رہ گیاتھاجسے صوبۂ بہار کے ضلع ’ گیا‘ کے ایک راہب بدھ گھوش(Budh Gosh)نے اصل تسلیم کرتے ہوئے پھر سے اس کا ترجمہ پالی زبان میں کیا۔اب برصغیر میں یہی تری پٹک ( Tripitaka) مستند اور قدیم سمجھی جاتی ہیں۔
تری پٹک کومذہب ، فلسفہ، منطق، تمثیل،کتھا،تجربات (بشمول انسان اور متعدد جانداروں کے)اور سائنس کا خزانہ کہیے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ان میںعلمیت ،ادبیت ،شعریت ،تجسس،آسودگی اورکنونسنگ پاورغضب کی ہے۔اسی تری پٹک خزانے کا ایک بیش بہا موتی ’دھَمّپَد‘ ہے۔ ’دھَمّپَد‘ دو لفظوں سے بنا ہے۔ایک سنسکرت لفظ’ دھرم ‘ جسے پالی زبان میں ’د َھمّ ‘ کہتے ہیں۔ دوسرا’ پد‘ جس کے معنی راستے کے ہیں ، یوں اس کے معنی ہوئے دھرم کا راستہ۔ ’پد‘ کے معنی ’فرمان ‘یا ’بول ‘کے بھی ہیں۔ اس طرح ’دھَمّپَد‘ کا ترجمہ ’مذہبی فرمان‘ یا’ بھگوان بدھ کی باتیں‘ بھی کرسکتے ہیں۔ ’دھَمّپَد‘ چھبیس ا بواب اور چارسو تئیس گاتھائوں (اقوال؍ باتوں)پر مشتمل صحیفہ ہے ۔ چھبیس ا بواب کے عنوانات درج ذیل ہیں۔عنوانات کے اردو ترجمے پنڈت بشیشور پرشاد منور ؔ لکھنوی کے کیے ہوئے ہیں۔پندرھویں باب کے عنوان کا انھوں نے کوئی ترجمہ نہیں کیا ہے:
پہلی گفتگو:نیک و بد کا مقابلہ ۔2۔عمل کی فضیلت۔3۔دل کی تربیت۔4۔پھولوں کا استعارہ۔5۔پانچویں جہالت کا نتیجہ۔6۔پنڈت (عالم) کا بیان۔7۔تارک کامل کا بیان۔8۔ہزار کا بیان۔9۔گناہ کا ذکر۔10۔سزا کا ذکر۔11 ۔ آگ کی تمثیل۔12۔اپنی ذات کے بارے میں۔13۔دنیا و عقبیٰ کے بارے میں۔14۔عقل مندوں کے باب میں۔ 15۔۔۔۔۔۔۔۔ 16۔محبت کے ذکر میں۔17۔غصے کے ذکر میں۔18۔کثافت کے باب میں۔19۔مضبوط دھرم کے باب میں۔20۔طریق عمل کے باب میں۔21۔بہترین مفاد کے بارے میں۔22۔دوزخ کے بارے میں۔23۔ہاتھی کی مثال۔24۔ترشنا یعنی حرص کے باب میں۔25۔فقیری کے ذکر میں۔26۔برہمن کے بارے میں۔(دھمپد،بشیشور پرشاد، انجمن ترقی اردو،(ہند)علی گڑھ، 1954)
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے چھ بڑے مذاہب عیسائی،یہودی، اسلام،ہندو،جین اور بودھ میں سے تین یعنی ہندو، جین اور بودھ کا تعلق ہندوستان سے ہے، اور ان میں سے آخرالذکر دو کا صوبۂ بہار سے ہے ۔ گوتم بدھ کو بہار میں ہی معرفت حاصل ہوئی تھی اور انھوں نے بیشتر وعظ و تلقینات اور ہدایات بہار کے مختلف علاقوں میںہی دیے تھے۔’ دھپمد‘ میںبھی شامل بہت سے اپدیشوں کا تعلق بہار کی سرزمین سے ہے۔
دھمپد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ بودھ مت کے مختلف گرنتھوں سے بھگوان بدھ کی باتوں کو منتخب کرکے اسے کتابی شکل دی گئی ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس میں دوسرے دھرموں کے شاستر کی اہم باتوں کو بھی شامل کیاگیا ہے۔ (ایضاً، 13 ) ’دھَمّپَد‘ کے انتخاب و ترتیب کے تعلق سے ایک روایت یہ ہے کہ اس کاانتخاب بھگوان بدھ کے نروان حاصل کرنے یعنی ان کے انتقال سے پہلے ہی کرلیا گیا تھا ، البتہ اسے تحریری شکل یا تو477 ق۔م،یا پھر لنکا کے راجہ وٹا گامی کے عہد (88-77 ق۔م)میں دی گئی۔ ’ دھَمّپَد‘ کی گاتھائیںچونکہ انتہائی اختصار سے بیان کی گئی ہیںاس لیے کن چھیدی لال گپت کا کہنا ہے انھیں اس وقت تک آسانی سے نہیں سمجھا جا سکتا ہے جب تک اس کے ساتھ دوسرا معاون گرنتھ’دَھمّپدَ ٹّھا‘نہ پڑھا جائے،جس میں دھمپد کے اپدیشوں سے متعلق تین سو پانچ کتھائیں (کہانیاں) ہیں۔ ممکن ہے کن چھیدی لال جی کی مراد ’دھَمّپَد‘ کے اقوال کی شان نزول یا سائل کے سوال ،یا تجسس کو سمجھنے ، یا بیان کی باریکیوں تک پہنچنے سے متعلق ہو، جن کے جوابات،یا سیاق میں کہی گئی باتیں ’دھَمّپَد‘ میں منقول ہیں۔ یوں ’دھَمّپَد‘ کے بنیادی اپدیشوں کو بغیر کسی معاون کتاب کے سمجھنا کچھ ایسا مشکل مسئلہ نہیں ہے، یہ کتاب اپنے آپ میں کافی ہے۔
’دھَمّپَد‘ پر مزید گفتگو سے پہلے بدھ مت کے تعلق سے چند بنیادی باتوں کا جان لینا شاید زیادہ بہتر ہوگا ۔مثلاً یہ کہ بدھ مت کا کلیدی فکری نظام چار عظیم سچائیوں پر استوار ہے جن میں بدھ مت کا بنیادی فلسفہ مضمر ہے۔ پہلی عظیم سچائی یہ ہے کہ زندگی دکھوں سے بھری ہوئی ہے۔ دوسری عظیم سچائی یہ ہے کہ دکھ بلا سبب نہیں،بلکہ اِن دکھوں کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔تیسری عظیم سچائی یہ ہے کہ اِن دکھوں سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے ، اورچوتھی عظیم سچائی یہ کہ دکھوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے کچھ طریقے ہیں ۔ پہلی تینوں سچائیاں در اصل بدھ مت کے نظریاتی اصول ہیں، جب کہ چوتھی سچائی آٹھ عملی طریق کارپر منحصر ہے جن کے اختیار کرنے سے دکھ دور ہوجاتے ہیں اور نروان حاصل ہوتا ہے۔ دکھ سے نجات حاصل کرنے کے یہ آٹھوںعملی طریقۂ کار ’اشٹانگک مارگ‘ (ہشت اصولی راستہ) کہلاتے ہیں۔جو حسب ذیل ہیں: صحیح علم۔صحیح ارادہ۔صحیح گفتگو۔صحیح عمل۔ صحیح ذریعہ معاش۔ صحیح کوشش۔ صحیح یادداشت ، اور صحیح غور و فکر (مراقبہ)۔
اب ذرا چار عظیم سچائیوںاور ان سے متعلق آٹھ اصولوں کوقدرے وضاحت سے اس طرح جانیںکہ :
(1)انسانی زندگی پیدائش سے لے کر موت تک دکھوں سے بھری ہوئی ہے ۔جس میں بشمول پیدائش اور موت، ناپسندیدہ چیزوں سے واسطہ پڑنا اور محبوب چیزوں کا بچھڑ جاناہے۔
(2)دکھوں کی وجہیںلاعلمی،امید،لالچ،حرص و ہوس اور خواہشات ہیں۔
(3) سچے علم کے حصول اورنفسانی خواہشات پر کنٹرول کے ذریعے ان دکھوںسے نجات حاصل کی جا سکتی ہے ۔
(4) سچے علم کو حاصل کرنے اوردکھوں سے نجات پانے کے لیے بدھ کے بتائے ہوئے وہ آٹھ طریقے یہ ہیں جنھیں بدھ مت میں اشٹانگک مارگ کہا جاتا ہے:
(1)سمیک درشٹی: (صحیح نقطۂ نظر)۔ چیزوں کو بالکل ویسی ہی دیکھنا جیسی کہ وہ ہیں۔کہہ سکتے ہیں کہ اس اصول کے تحت حقائق کی ماہیت اور ان کے صحیح ادراک پر زور دیا جاتا ہے، فانی اور غیر فانی میں امتیاز کیا جاتا ہے،شکوک اور غلط نظریات سے احتیاط کیاجاتا ہے ، علم اور لا علمی کے فرق کوجاننے کی کوشش کی جاتی ہے ،اورچاروں عظیم سچائیوں پریقین رکھاجاتاہے۔
(2) صحیح سنکلپ:( صحیح ارادہ)۔ اُن خیالات و جذبات سے پرہیز کرنا جو اخلاقی برائیوں کو جنم دیتے ہیں، مثلاً نفرت، غصہ،غرور، حسد،لالچ، شک ،خود غرضی، تعصب ،تشدد،دھوکا اور لذت پرستی وغیرہ۔ساتھ ہی تمام مخلوقات کے لیے ایثار، محبت اور ہمدردی کے رویے اپنانا۔
(3)سمیک واک:( صحیح کلام )۔ برائی اور فساد کو جنم دینے والی باتوں مثلاً جھوٹ، غیبت ، سخت کلامی،خود ستائی، اور یاوہ گوئی سے پرہیز اور حق گوئی، نرم گفتاری،معتدل اور مدلل طرز گفتگو اپنانا۔
(4) سمیک کرمانتا: (صحیح اعمال)۔ ان تمام اعمال سے بچنا جنھیں بدھ نے ممنوع قرار دیا ہے، مثلاً جھوٹ ،چوری، ظلم ،خود غرضی، بد چلنی اور فتنہ و فساد وغیرہ ۔ اسی طرح اس کے بتائے ہوئے اعمال کی پابندی کرنا جیسے حسن سلوک، خوش اخلاقی ، ہمدردی، خدمت خلق ،جانداروں پر رحم اور فیاضی وغیرہ۔
(5) سمیک اجیوا: (صحیح ذریعۂ معاش)۔ حلال رزق کاحصول اور کمانے کے غلط ذرائع سے پرہیز ۔مثلاً بے ایمانی، ظلم، زیادتی، رعب، جبر یا کسی کو نقصان پہنچاکر روزی یا دولت حاصل کرنا۔
(6) سمیک ویایام: ( صحیح کوشش)۔ اپنے اندر پاکیزہ اور پسندیدہ خیالات و جذبات کو فروغ دینا اور غلط اور ناپسندیدہ خیالات و جذبات جیسے نفسانی خواہشات، نفرت ،لالچ،ہوس اور غصہ وغیرہ کو ابھرنے سے روکے رکھنے کی کوشش کرنا۔
(7) سمیک سمرتی:( صحیح یاد داشت) ۔ اچھی اور مناسب باتوںکو یاد رکھنا ،زندگی، موت اور دکھوں کو ذہن نشیں رکھنااورغلط اور بری باتوں کوبھول جانا۔
(8)سمیک سمادھی: (صحیح مراقبہ )۔ صحیح غور وفکرکے ذریعے اصل حقیقت تک پہنچنا۔ یہ آٹھواں اصول بنیادی حیثیت کا حامل اور بدھ مذہب کی اہم ترین عبادت ہے۔کیونکہ بدھ مت کے مطابق صحیح مراقبہ زندگی کے اصل مقصد یعنی باطن کی تطہیر کے لیے لازمی اور نروان کے حصول میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔
بدھ مت میںنروان( ’نجات‘ ) ایک خاص حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان رنج و خوشی،دوستی اور دشمنی ،آلام ومصائب آرزوؤں اور خواہشوں سے ماوریٰ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ زندگی اور موت (جنم اور مرن کے تسلسل؍مرنے اور پھر اعمال کے مطابق نئی نئی جون میں جنم لینے) سے دائمی نجات پاجاتا ہے ۔باربار اپنے کوموں کے پھل کے مطابق جنم لینے اور مرنے کے تسلسل میں آخری جنم اور آخری موت کو نروان کہا جاتاہے۔یہ نروان یعنی جینے اور مرنے کے دکھوں سے نجات ایک یا دو جنموں میں نہیں بلکہ کئی جنموں کے بعد اچھے کرموں اور بالکل پاک صاف زندگی گزارنے بعدحاصل ہوتا ہے۔ بھگوان بدھ بھی کپل وستو میں پیدا ہونے اور شراوستی میںآخری بار مرنے سے پہلے متعدد بار جنم لے چکے تھے۔یہ آخری موت بھگوان بدھ کے نروان کی منزل ہے۔
مذکورہ چار عظیم سچائیوں اور آٹھ اصولوں کے علاوہ مہاتما بدھ نے انسانی معاشرے کو انتشار سے بچانے اور افراد کو مہذب بنانے کے لیے پانچ باتوں پر مشتمل ایک اخلاقی نظام ’پنچ شیلا‘ بھی مرتب کیا، جو اس طرح ہے:
1۔کسی بھی جاندار کی جان نہ لینا
2۔چوری نہ کرنا
3۔جھوٹ نہ بولنا
4۔نشہ اور نشہ آور چیزوں سے پرہیز کرنا
5۔زنا نہ کرنا
آج بھی بدھ مذہب میں داخل ہونے کے لیے ’پنچ شیلا‘کو نبھانے کا عہد اس کے بنیادی ارکان میں سے ایک لازمی رکن ہے۔اس کے علاوہ بدھسٹوں کے لیے شرن کے یہ تین اصول بھی ضروری ہیں: (1) بدھم شرنم کچھامی۔(2) دھمم شرنم گچھامی۔(3) سنگھم شرنم گچھامی۔یعنی میں بدھ کی شرن (پناہ) میں جاتا ہوں۔میں دھرم کی شرن میں جاتا ہوں۔ میں سنگھ(تنظیم)کی شرن میں جاتا ہوں۔
بدھ نے والدین اور اولاد،استاذ اور شاگرد، میاں بیوی ، دوست اور ساتھی اور آقا اور ملازم کے احکام و فرائض بھی متعین کیے ہیں۔ بعض پیشوکی انھوں نے ممانعت کی ہے، مثلاً ہتھیار بیچنے،لونڈی اور غلام کوخرید نے اور بیچنے،شراب بنانے اور بیچنے، گوشت بیچنے اور زہر بیچنے سے۔ بدھ مت میں نسل، ذات، کلاس اورجنسی تفریق کو کو ئی دخل نہیں ہے ۔
شاید اس بات کے اعادے کی ضرورت نہیں ہے کہ پہلے پہل مہاتما بدھ کی تبلیغ کی طرف وہ لوگ راغب ہوئے جو معاشی اعتبارسے کمزور، سماجی لحاظ سے حاشیے پر رہنے والے اور لٹریری طور پر ادبی ذوق سے تقریباً عاری اور اعلیٰ طبقے کی زبان کے بجائے دیسی اور عام بول چال کی زبان بولنے اور سمجھنے والے لوگ تھے۔
بدھ مت کوایک مذہبی انقلاب کہنا چاہیے جو آلام و مصائب ،جسمانی کثافت،روحانی اسراراور اور زندگی اور موت کی پیچیدگیوں کے حل کی تلاش کی صورت شروع ہوا تھااور بالآخر ایک بے حد موثر اور منظم مذہب کے طور پر تشکیل پایا۔ بدھ مت نے لوگوں کو انسانی برابری ،سماجی انصاف،عزت نفس اور زندگی کے منطقی اور روحانی طریقوں سے روشناس کرایااور حسن اخلاق اور نیک اعمال کی ترغیب دی۔ بدھ مت میں عقیدت کے مقابلے منطقیت،عبادات کے مقابلے اعمال اور احساس ِ تفاخر کے مقابلے میں خاکساری پر زور دیا گیاہے ۔ اس نے ذات پات کی تفریق ، عورت اور مرد کی برتری اور کمتری اور مذہبی امور کی اجارہ داری کو بھی ختم کیا۔ بنیادی طور پر اس مذہب کی روح عمدہ خیالات،اچھے اخلاق اور صحیح اعمال میں پوشیدہ ہے۔شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ مہاتما بدھ نے ہندوستان میں انسانی مساوات کا پہلا باضابطہ منشورجاری کیا۔شاید اسی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد کے بعد خواص نے اور پھر بادشاہوں تک نے اس مذہب کو اپنایا، سرکاری حیثیتیں دیں اور اس کی تبلیغ کی۔ تسلیم یہ بھی کرنا چاہیے کہ غالباً تب تک کا یہ پہلا مذہب تھا جو بہار سے شروع ہوکر پورے ہندوستان اور پھرروم و یونان اور دوسرے ممالک تک پہنچا اور دنیا کے بیشتر حصوں میں پھلنے پھولنے لگا۔ لیکن اس کا دوسرا دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ بوجوہ یہ ہندوستان میں کم اور پھر ختم ہونے لگا۔ علامہ اقبال نے’بانگ درا‘ کی نظم’نانک‘ میں، اپنی ہی جنم بھومی میں گوتم بدھ اور بدھ مت کے فلسفے کو نظر انداز کیے جانے کے حوالے سے بڑے معنی خیز اشارے کیے ہیں:
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
آہ! بدقسمت رہے آوازِ حق سے بے خبر
غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر
آشکار اس نے کیا جو زندگی کا راز تھا
ہند کو لیکن خیالی فلسفے پر ناز تھا
شمع حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی
بارش رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی
آہ! شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
دردِ انسانی سے اس بستی کا دل بے گانہ ہے
برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں
شمع گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں
اس کے علاوہ علامہ اقبال نے اپنی مشہور زمانہ فارسی تخلیق ’جاوید نامہ‘میںبھی گوتم بدھ کا ذکر بڑے ہی سلیقے اور احترم کے ساتھ کیا ہے ۔ جب وہ رومی کے ساتھ فلک قمر پر پہنچتے ہیں تو وہاں ان کی ملاقات زرتشت، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمدؐ کے ساتھ ساتھ گوتم بدھ سے بھی ہوتی ہے۔
گوتم بدھ کے حوالے سے اردو میںکئی کتابیںلکھی گئیں،جیسے منشی احمدالدین کی’ مہاتما بدھ‘جو 1903میںکشمیری پریس، لکھنؤسے شائع ہوئی،ڈاکٹر م۔حفیظ سید ایم۔اے کی ’گوتم بدھ: سوانح حیات و تعلیمات‘ جسے انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی نے 1942میں شائع کیا ،ایسے ہی کئی اور کتابیں۔
’دھمپد‘ کا پہلا انگریزی ترجمہ 1840میں ہواتھااور پھر دنیا کی بیشتر زبانوں میں اس کے ترجمے کیے گئے۔ اردو میںبھی دنیا کی بیشتر مذہبی کتابوں کی طرح ’دھمپد‘ کے بھی ترجمے ہوئے۔ فی الوقت جو ترجمہ پیش نظر ہے ،وہ ہے اہم شاعر بشیشور پرشاد منورؔ لکھنوی کا منظوم ترجمہ’’ دھمپد یا سچی راہ ‘‘کے عنوان سے جو 1954میں انجمن ترقی( اردوہند)علی گڑھ سے شائع ہوئی تھی ۔ اسے اردوزبان کا امتیاز اور اس کی رواداری کہنا چاہیے کہ اس زبان نے اپنے اندر نہ صرف عالمی ادب ،تاریح وسیر، منطق وفلسفہ ،سائنس وکیمیااور ہر قسم کے موضوعات کو سمویا بلکہ دنیا کے تمام مذاہب اور بیشتر عقائد کا تعارف کرایا ،مضامین اور کتابیں لکھیںاور ان کے مقدس صحیفوں کے ترجمے بھی عام لوگوں تک پہنچائے ۔ دھمپد کا ترجمہ بھی اردو زبان کی علم دوستی اور مذہبی رواداری کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس ترجمے کی زبان بہت ہی آسان،عام فہم،دلنشیں اور دلچسپ ہے ۔اس کی خوبی یہ ہے کہ مشکل مسائل کو بھی کم سے کم اشعار میںبڑی خوبصورتی کے ساتھ سلیقے سے ڈھالا گیاہے۔ یہاں ’دھمپد‘ کے مختلف ابواب سے مہاتما بدھ کے کچھ منتخب ، فکر انگیز اپدیش منور صاحب کی منظوم شائستہ زبان میں ذہن کی آسودگی اور ذوق کی آبیاری کے لیے پیش کیے جارہے ہیں۔بعض مثالوں میں کچھ مصرعوں کو حذف کردیا گیا ہے:
دل کی تربیت :
بے حدچنچل ہوتا ہے دل
اس کو ٹھہرانا ہے مشکل
ہوتا ہے جو شخص خِرد وَر
آجاتا ہے غالب اس پر
کرلیتا ہے تیر کو سیدھا
جیسے تیر بنانے والا
عالم بے عمل :
دھرم گرنتھوں سے کیا حاصل
ان کا پڑھنا ہے لا حاصل
ان کو عمل میں لائے نہ جب تک
عیش پرستی جائے نہ جب تک
ایسا انساں ہے اک گوالا
گائیں پرائی دوہنے والا
اس کا بیڑا پار نہ ہوگا
وہ پھل کا حقدار نہ ہوگا
بے معنی ہے ایسا پڑھنا
بے مصرف ہے اس کا پڑھنا
محبت کے ذکر میں:
جو ہوں اپنے ساتھ ان کا چھوڑ دو
ہیں جو رشتے نام کے سب توڑ دو
جو ہوں بے گانے رہو اس سے بھی دور
دل نہ ہو لیکن کسی سے بھی نفور
ہے عزیزوں کی جدائی ناگوار
اس سے دل انساں کا رہتا ہے فگار
اور بے گانے کی جب ہوتی ہے دید
دل پہ اس سے چوٹ لگتی ہے شدید
شمع سے الفت، نہ پروانے سے ہو
لوث اپنے سے ، نہ بے گانے سے ہو
ہار جیت:
دشمنی ہوتی ہے پیدا جیت سے
اور بھی بڑھتا ہے جھگڑا جیت سے
ہارنے والے کو ہوتا ہے ملال
شیشہ دل میں پڑا رہتا ہے بال
دل سے بدلے کی ہوس جاتی نہیں
نیند راتوں کو اسے آتی نہیں
ہے نظر میں جس کی یکساں جیت ہار
اس کے دل میں ہے سکون پائیدار
امن میں اس کے خلل آتا نہیں
وہ کسی حالت میں گھبراتا نہیں
جہالت کا نتیجہ:
یہ تو میرا لخت جگر ہے
وہ تو میرا نور نظر ہے
میں ہوں مال و زر کامالک
گھر کامالک ،در کا مالک
دعویٰ جو یہ کیا کرتا ہے
رنج وہ مول لیا کرتا ہے
خود یہ جسم نہیں جب اپنا
پھر بے کا ر یہ دعویٰ کیسا
ہیں یہ سب اسباب مصیبت
کس کا بیٹا ، کس کی دولت
حرص:
حرص سے ہے گرم بازارِ الم
حرص سے رہتا ہے دل پابند ِغم
اس بلائے بد سے جو رہتا ہے دور
اس کے نشّہ سے نہیں رہتا جو چور
اس کے دل میں رنج آسکتا نہیں
وہ کسی سے خوف کھا سکتا نہیں
کثافت کے باب میں:
جس کے مسلک میں تشدد ہو دخیل
اور چوری جس کا پیشہ ہو رذیل
ہر سخن میں جس کے شامل ہو دروغ
نشہ بازی سے جو پاتا ہو فروغ
مشغلہ جس کا ہو عصیاں پروری
غیر عورت سے کرے ہم بستری
زندگی جس کی ہو سر تا پا گناہ
ہوکے رہتا ہے بشر ایسا تباہ
ہر عمل گویا ہے اس کا خود کشی
کھودتا ہے اپنی جڑ وہ آپ ہی
٭
ہے محبت کا نتیجہ رنج و غم
ہے محبت آئینۂ دار الم
فر قت محبوب ہے وجہ عذاب
عشق کیا ہے وہ جو ہوخانہ خراب
جس کو آزار محبت ہی نہیں
جو گرفتار محبت ہی نہیں
اس کو غم کوئی، نہ کوئی فکر ہے
خوف کا دہشت کا پھر کیا ذکر ہے
دل پر قابو:
ہاتھ آ نا ہے اس کامشکل
ہے رفتار میں تیز بہت دل
اس پر قابو پاجانے سے
اس کو راہ پہ لے آنے سے
غم سے فراغت مل جاتی ہے
امن کی دولت مل جاتی ہے
غصے کے ذکر میں:
دوسرا کوئی اگر غصا کرے
ہوش کھو بیٹھے غضب پرپا کرے
اپنا غصہ آدمی خود تھام لے
عقل سے فرزانگی سے کام لے
اس کو ٹھنڈے دل سے قابو میں کرے
جل نہ جائے خود بھی اس کی آگ سے
ہوبرا کوئی ، بھلائی تم کرو
کیوں برے بن کر برائی تم کرو
بخل پر حاوی رہے بخشش کا ہاتھ
راستی سے جنگ ہو باطل کے ساتھ
۳۔جسم۔
بے وقعت ہے جسم خاکی
ہے یہ اک تصویر فنا کی
ہوجائے گا یہ ناکارہ
کرلے گی جب روح کنارہ
کام نہ پھر کچھ بھی آئے گا
فرش زمیں پہ گر جائے گا
پھولوں کااستعارہ:
بھونرے پھول کا رس لیتے ہیں
رس لے لے کر چل دیتے ہیں
پھر بھی پھول کھلا رہتا ہے
دلکش رنگ بنا رہتا ہے
فرق نہیں خوشبو میں آتا
پھول نہیں اس سے مرجھاتا
مُنیوں کا بھی ڈھنگ یہی ہو
ان کی سیرت بھی ایسی ہے
قریہ قریہ جائیں خوشی سے
لاگ مگر رکھیں نہ کسی سے
تارک کامل۔
جمع کچھ اسباب کرتا ہی نہیں
دولت و زر پر جو مرتا ہی نہیں
آئینہ ہے جس پہ اسرار غذا
جس کو ہے معلوم مقدار غذا
آرزوئے ایں و آںجس میں نہیں
اک غرض کابھی نشاںجس میں نہیں
تارک کامل ہے جو آزاد کیش
مخلصی رہتی ہے جس کی پیش پیش
صورت مرغ فلک پرواز ہے
راز ہے اس کا چلن اک راز ہے
ہزار کابیان۔
جس نظم میں سپرد قلم ہوں ہزار شعر
ہر چند جان حسن رقم ہوں ہزار شعر
بے کار ہے جو کام کی بات اس میں کچھ نہ ہو
سرمایۂ مفید حیات اس میں کچھ نہ ہو
کافی ہے ایک شعر جو مطلب کی بات ہو
ہر لفظ جس کا باعث تسکین ذات ہو
اس اپدیش کو پڑھ کر ملا وجہی کا یہ شعر یاد آتا ہے:
جو بے ربط بیتاں تو بولے پچیس
بھلا ہے کہ یک بیت بولے سلیس
نفس پہ قابو:
جیتی ہزار بار لڑائی اگر تو کیا
لاکھوں پہ تو نے فتح بھی پائی اگر تو کیا
تو خود کو ایک بار بھی تسخیر اگر کرے
نفس دنی کو بستۂ زنجیر اگر کرے
یہ جیت واقعی ہو تری باوقار جیت
اس جیت کو کہوں گا میں اک شاندار جیت
بزرگوں کااحترام:
ہر ماہ سوبرس بھی اگر دان دے کوئی
خوش ہو ہَوَن سے، نام کرے یگیہ سے کوئی
اس کے مقابلے میں یہ بہتر ہزار ہے
اعمال انتخاب میں اس کا شمار ہے
عزت کرے بزرگ صفا کیش کی کوئی
پل بھر کے واسطے ہی بنے آدمی کوئی
سو سال کا وہ یگیہ ہَوَن وہ فضول ہے
اک لمحہ کی مگر یہ عبادت قبول ہے
ریاضت:
ہو پنّیہ کی غرض سے عبادت جو سال بھر
ہو یگّیہ کی ،ہوَن کی طریقت جو سال بھر
تعظیم نفس پاک کے آگے وہ گرد ہے
قائل جو اِس کا ہے وہی ممتاز مرد ہے
ہے پاک باطنوں کی سوا سب سے آبرو
بہتر ہزار درجہ ہے تکریم نیک خو
گناہ کا ذکر:
اچھے کام میں دیر ہی کیوں ہو
برپا یہ اندھیر ہی کیوں ہو
دیر جو اس میں ہوجاتی ہے
قسمت گویا سو جاتی ہے
دل بدعت ڈھانے لگتا ہے
سوئے بدی جانے لگتا ہے
سزا کا ذکر:
ہو کلام درشت سے پرہیز
تلخ گوئی سے واجبی ہے گریز
بولنے میں زبان سخت نہ ہو
لہجۂ گفتگو کرخت نہ ہو
بد زبانی خراب ہوتی ہے
اک گنہ، اک عذاب ہوتی ہے
نہ رہوگے جو اس عذاب سے دور
تم کو اس کی سزا ملے گی ضرور
آگ کی تمثیل:
دیکھو تو ذرا یہ جسم کیا ہے
آخر اس کا طلسم کیا ہے
اس میں لاکھوں اذیتیں ہیں
سب بربادی کی صورتیں ہیں
پھولا پھولا بدن یہ سارا
ہے اک امراض کا پٹارا
ہر وقت ہے زور خواہشوں کا
نرغہ ہے غموں، کاہشوں کا
اس کا نہیں اعتبار کوئی
صورت نہیں پائیدار کوئی
برہمن کے باب میں:
جٹائیں رکھ کے برہمن کوئی نہیں ہوتا
بزرگ اس سے کبھی آدمی نہیں ہوتا
نہ گوترسے ، نہ برہمن ہے جنم سے کوئی
فضول کیوں پھر اُسے برہمن کہے کوئی
جو راستی کا صداقت کا ہے علمبردار
نثار دھرم ہے جس پر، جو دھرم پر ہے نثار
شعار نیک ہو، محبوب ہو چلن جس کا
برنگ شعلۂ بے دودہو چلن جس کا
اسی کے وصف گنانے میں تر زباں رہیے
برہمن اصل میں ہے،برہمن اسے کہیے
نروان:
انساں دہر میں پیدا ہوکر
کرموں سے وابستا ہوکر
پاتے ہیں ہر کرم کا ثمرا
اس سے کوئی بچ نہیں سکتا
جو بے عقل بھٹک جاتے ہیں
پاپی بن کر نرک جاتے ہیں
اچھے کرم جنھیں بھاتے ہیں
سورگ میں خاص جگہ پاتے ہیں
بے لوثی میں ہیں جو کامل
کرتے ہیں نروان وہ حاصل
اپنی ذات :
آدمی اپنا آپ سالک ہے
آدمی اپنا آپ مالک ہے
وہ نہیں کسی غیر کا محتاج
ہو ہی سکتا ہے اس پہ کس کا راج
اس کا مالک نہیں خود اس سے جدا
اپنی تقدیر کا ہے خود ہی خدا
خود کو خود ہی جو زیر کرتا ہے
اپنے ہاتھوں سے خود سنورتا ہے
صاف کرتا ہے راستا اپنا
وہی بنتا ہے خود خدا اپنا
دنیا و عقبیٰ کے بارے میں:
جو بخیلی سے کام لیتا ہے
کوڑی کوڑی پہ جان دیتا ہے
کبھی جنت میں جا نہیں سکتا
زیست کا حظ اٹھا نہیں سکتا
جو تجمل شعار ہوتے ہیں
آدمی باوقار ہوتے ہیں
دان کرکے وہ سکھ اٹھاتے ہیں
زندگیٔ دوام پاتے ہیں
نئی دہلی :دہلی یونیورسٹی کے حالیہ منعقدہ آن لائن امتحانات کے نتائج پردہلی ہائی کورٹ نے ہدایت دی ہے کہ ڈی یواپنے تمام کالجوں کوایک خط لکھے اور ہدایت دے کہ جلد تمام جوابی شیٹوں کاجائزہ لیا جائے۔ فائنل ایئرکے طلباء کے نتائج اکتوبرکے پہلے ہفتے تک جاری کرنے کی کوشش کریں ، تاکہ طلباء کو داخلہ لینے میں تاخیر کاسامنا نہ کرناپڑے۔ہائی کورٹ نے پہلے بھی یوجی سی کوایک ایڈوائزری جاری کرنے اور یہ بیان جاری کرنے کا حکم دیا تھا کہ اس بار کوویڈ 19 انفیکشن کی وجہ سے امتحان میں تاخیرہو رہی ہے۔ لہٰذانئے سال اور نئی کلاس میں داخلے میں تاخیر ہوگی۔ کٹ آف لسٹ نکالنے میں بھی تاخیرہوگی۔ اس کی وجہ سے طلباکوعارضی نتائج اور دیگر چیزوں پراصرارنہیں کرناچاہیے۔10 اگست کودہلی یونیورسٹی (ڈی یو)نے پہلی بار آن لائن اوپن امتحان لیا۔ہائی کورٹ کی ہدایات کے بعدیہ امتحان آخری سال کے تمام طلبہ کا لیاگیاہے لیکن جیسے ہی امتحان شروع ہوا ، مختلف طلباء نے اپنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ تجربات بھی سوشل میڈیاپرشیئرکرناشروع کردیے۔عدالت کے حکم کے بعدطلبا کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جوابی شیٹ ای میل کے ذریعے جمع کرائیں۔ہائی کورٹ نے یہ بھی کہاہے کہ امتحانات ستمبر میں آن لائن موڈمیں ہو رہے ہیں۔ لہٰذانتیجہ بھی ستمبرکے آخر تک آناچاہیے۔ تاکہ طلباء کو وقت سے پہلے ہی مزیدتعلیم کے لیے داخلہ لینے میں دشواری نہ ہو۔ اس معاملے میں طلبا کی جانب سے پیش ہوئے کپل سبل نے عدالت میں آن لائن امتحان کے حوالے سے بہت سارے سوالات اٹھائے ۔ انہوں نے کہا کہ دوردرازعلاقوں میں آن لائن امتحانات کاانعقادکرناانتہائی مشکل ہوگاکیوں کہ حکومت کے الیکٹرانکس اورانفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت کے تحت 12000 کامن سینٹر کام نہیں کرتے ہیں۔
ہائی کورٹ کا حکم: ڈی یو ای میل اور پورٹل دونوں سے کرائے آخری سال کے آن لائن ایگزام
نئی دہلی:دہلی یونیورسٹی کے 2 لاکھ 70 ہزار فائنل ایئر کے طلباء ان آن لائن امتحانات کے منتظر ہیں۔ امتحانات 10 جولائی کو ہونے تھے، لیکن دہلی یونیورسٹی نے پورٹل میں کچھ تکنیکی خرابیوں اور دہلی ہائی کورٹ میں کچھ طلباء کی درخواست کے بعد امتحانات ملتوی کردیا تھا۔آج دہلی ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ سوالنا مہ طلبا کو پورٹل اور ای میل دونوں کے ذریعہ بھیجے جائیں، طلبا کو جوابی شیٹ اپ لوڈ کرنے کے لئے 1 گھنٹہ دیا جائے گا۔اگر طلباء کو آن لائن امتحان میں کوئی پریشانی ہوتی ہے تو وہ یونیورسٹی کو ای میل کے ذریعے آگاہ کرسکتے ہیں، اگر طلباء کا مسئلہ 48 گھنٹوں میں ختم نہیں ہوتا ہے توپھر گریونس کمیٹی طلبہ کے مسائل کو حل کرے ۔ گریونس کمیٹی کی صدرات دہلی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس پرتبھا رانی کریں گی۔اس کے علاوہ کامن سروس سنٹر انٹرنیٹ کی سہولیات اور اس کی تیاری کو برقرار رکھے گا۔ دہلی ہائی کورٹ میں اوپن بک ایگزام کو ہی طلباء کی طرف سے چیلنج کیا گیا تھا، لیکن ہائی کورٹ نے کہا کہ آن لائن امتحان سے متعلق معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، ایسی صورت میں دہلی یونیورسٹی کو آن لائن امتحان کرانا چاہیے یا نہیں، یہ فیصلہ سپریم کورٹ ہی کرے گا۔ عدالت نے کہا کہ 10 اگست سے شروع ہونے والے اوپن بک ایگزام کے بارے میں کس طرح کی تیاری کی جانی چاہئے اور طلبہ کو کونسی سہولت فراہم کی جانی چاہئے، ہم حکم جاری کررہے ہیں تاکہ طلباء کو پریشانی نہ ہو۔ 10 اگست سے شروع ہونے والے اوپن بک ایگزام کے لئے طلباء کو امتحان کے لئے مجموعی طور پر 4 گھنٹے دیئے گئے ہیں، جس میں سے جوابی شیٹ اپ لوڈ کرنے کے لئے 1 گھنٹہ دیا جارہا ہے۔
پروفیسرتوقیراحمدخاں
سابق صدرشعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی
یہ’بانگ درا‘ کی نظم ہے جو کتاب کے حصہ سوم میں شامل ہے۔ اس نظم میں حق اور باطل کے فرق کو واضح کیاگیاہے اور بتایاگیا ہے کہ حق،باطن اور پوشیدہ ہے ہمیشہ رہنے والا ہے جب کہ باطل ظاہر اورموجودتوہے مگر فناہونے والا ہے اس نظم میں پانچ تلمیحات ہیں۔
اوّل یہ کہ یہ شعر ایران کے شاعر رضی دانش مشہدی کے شعرپر تضمین ہے۔ یہ ایران کے شہرمشہد کا رہنے والاتھا۔
’عہد شاہجہانی میں اپنے باپ کے ساتھ ہندوستان آیا۔ بادشاہ کی خدمت میں ایک قصیدہ لکھ کر پیش کیا، جس کا مطلع تھا:
بخواں بلند کہ تفسیر آیۂ کرم است
خطے کہ از کفِ مبارکش پیداست
شاہجہاں نے خوش ہوکر دوہزار روپے کاانعام دیا۔ کچھ عرصہ بعد بادشاہ کو چھوڑ کر اس نے داراشکوہ کی ملازمت اختیارکرلی۔ اس عقل مند شہزادہ نے اس کوایک شعر پرایک لاکھ روپے انعام دیا:
تاک را سرسبز کن اے ابر نیساں در بہار
قطرئہ تامی تواند شد چرا گوہر شود ‘
(یوسف سلیم چشتی، شرح بانگ درا، ص635)
دوم:کلیم طور یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام انھوں نے کوہِ طور پرتجلی خداوندی کا نظارہ کیا تھا۔ وادیٔ سینا وہ پہاڑی خطہ ہے جہاں کوہِ طور واقع ہے۔ وادیٔ سینا کے اس پہاڑ کو طورِ سینا بھی کہتے ہیں۔
سوم:آتش نمرود، نمرود بادشاہ تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیاتھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلاکر ختم کردینے کے لیے بہت بڑا الاؤ لگایاتھا لیکن اللہ کے حکم سے آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کوجلانہ سکی اور ان کے لیے ٹھنڈی اورسلامتی والی ہوگئی۔
چہارم:ایمان خلیل، حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسا کامل یقین انھوں نے اللہ کی رضا کی خاطر گھربار چھوڑا۔ لخت جگر حضرت اسماعیل کو قربان کیا اور خود انھیں آگ میں ڈالا گیا۔ لیکن بحکم ایزد ان کوکسی قسم کا نقصان نہ پہنچا۔ یہ ایمان خلیل ہے۔
پانچویں: وادیٔ فاراں، یہ وہ وادیٔ بے آب و گیاہ ہے جہاں حضرت ابراہیم نے اپنے شیرخواربچے اوربیوی حضرت ہاجرہ کو تن تنہاچھوڑدیاتھا۔ وہ پانی کی تلاش میں صفا و مروہ پر دوڑتی تھیں آخرکار ایک دن ساراسامان خوردونوش ختم ہوگیا تو پیاس کی شدت سے بچہ حضرت اسماعیل نے تڑپ کر زمین پرایڑیاں رگڑدیں جن کی رگڑ سے اللہ تعالیٰ نے میٹھے پانی کاچشمہ جاری کردیا اس کو حضرت ہاجرہ نے انگلی سے گھیرابناکر روک دیا اور کہا زم زم تھم جا تھم جا وہ آب زم آج تک جاری وساری ہے۔
نظم کا مطلب یہ ہے کہ ایک دن اقبال نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ آتشِ کفریعنی نمرود کی آگ تو آج بھی ہرجگہ موجود ہے اورخوب تیزی سے بھڑک رہی ہے لیکن تونے جو تجلی خداوندی کی روشنی دیکھی تھی وہ نور اور اس کی جلن کیوں آنکھوں سے پنہاں ہوگئے۔ توحضرت موسیٰ نے جواب دیا کہ تو اگر مسلم ہے تو غائب کوچھوڑ کر ظاہر پرستی اور حاضرکاشیدائی نہ بن۔ اوراگر تجھ کو حاضر و موجودات کاذوق ہے توپھر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے حضرت ابراہیمؑ جیساایمان بھی پیدا کر۔ ورنہ حاضروموجود کی آگ تجھے جلاکر راکھ کردے گی۔ اوراگر توغائب کادیوانہ ہے تو شریعت کی پابندی کراور ظاہری شعلوں کی کچھ پرواہ نہ کر اوروادیٔ فاران میں حضرت ہاجرہ کی طرح خیمہ گاڑدے اور رحمت ِخداوندی کا انتظار کر۔ کیوں کہ ظاہرداری اورحاضر کی شان وشوکت عارضی ہے یہ اہل کفر کی علامات میں سے ہے وہی بت گرامی وبت پرستی کرتے ہیں، حاضر وموجود کی عبادت کرتے ہیں۔ اور غائب یعنی جو نگاہوں سے پوشیدہ ہے وہ ذات خداوندی ہے۔ حق و صداقت ہے وہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اور اس حقیقت کوراہِ محبت میں ایسا تعلق ہے جیسا جان اور تن کا ربط یعنی محبت سے یہ یقین اور کامل ہوجاتاہے کہ روح باقی رہنے والی شئے ہے نورانی وبراقی ہے اورجسم ختم ہونے والا ہے یعنی حاضر اورظاہر ہے مٹی کے اصنام کی طرح۔ تواے اقبال توظاہر وباطل کو چھوڑ کر باطن اور غائب پرایمان لا۔ شعلہ نمرود اگر دنیا میں بھڑک رہاہے تواس کی کچھ پروا نہ کر کیوں کہ وہ ایک دن خود بخود ٹھنڈا ہوجائے گا جس طرح شمع انجمن میں اپنے آپ کو جلاتی تو ہے لیکن رفتہ رفتہ اپنے وجود کوختم کردیتی ہے اس لیے ہمارانور چقماق پتھر کی طرح نظروں سے پوشیدہ ہی رہنے میںبہترہے۔ یعنی ایمان بالغیب ہی میں عافیت ہے وہی اصل شئے ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایاہے :’ہدی للمتقین الذین یومنون بالغیب ویقیمون الصَّلوٰۃ وممارزقنھم ینفقون۔‘گویا ہدایت ان کے لیے جو غائب پرایمان لاتے ہیںنماز ادا کرتے اور جو کچھ اللہ نے دیاہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
اقبال ایک ایساحیران کن شاعر ہے کہ شعرائے عالم کے برخلاف ان کے یہاں دو متضاد قوتیں یا دھاریں (Streams)ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ مثلاً خدا اور شیطان، حب الوطنی وقوم پرستی، فرداورملت، ذات اورجماعت، عمل اور سکون، خلوت اور جلوت، کفر اور ایمان، مومن وکافر، تقدیر اورتدبیر، جسم اور روح،ظاہر اورباطن وغیرہ کلام اقبال سے ان میں سے ایک ایک کا تجزیہ کرناچاہیں گے تومحسوس ہوگا کہ اقبال ہرایک کی تعریف میں ثنا خوں ہیں۔ بالکل اسی طرح اقبال جس طرح سے جسمانی طاقت، جہدوعمل اور ظاہری قوت کے طرف دارہیں اسی طرح وہ روحانی قدرت، باطنی خصوصیات اورکشف و کرامات کے بھی مبلغ ہیں۔ وہ بار بار یادلاتے ہیں کہ مسلمان کاجسم تو باقی ہے مگراس کی روح نکل چکی ہے۔ روحانی مراتب کے لیے ان کے یہاں تصوف کے مراتب کی طرح ولی، ابدال اور قطب وغیرہ کی مانند مسلمان کی ہیئت کے لیے مومن، مردمومن، فقیر اور درویش یا قلندر کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ مسلمان یعنی خدا کا نائب یافی الارض خلیفہ بننے کے لیے پہلا درجہ مومن کا ہے۔ مومن یا مسلمان کون ہے اس کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
پھربتاتے ہیں کہ مومن کون ہے اورکون شخص مومن کہلانے کا مستحق ہے:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
ہمسایۂ جبریل امیں بندئہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان
مومن کے معنی امن والا یا insuredکے ہیں وہ اللہ کے دین حق کی خدمت واشاعت کے لیے وقف ہے۔ وہ غارت گرباطل ہے اور تھا مگر اب وہ جذبہ ناپید ہے:
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ
وہ سجدہ روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
اس جذبہ قلندرانہ اورروحانی تعلق سے وہ آج عاری ہوچکاہے۔
محبت کا جنوں باقی نہیں ہے
مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے
صفیں کج دل پریشاں سجدہ بے ذوق
کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے
ایمان کی صفت اختیار کرنے کے بعد اگلاقدم فقر کاہے یعنی مومن فقیر کے مرتبہ کو پہنچتا ہے۔ فقرکیاہے اس کی تعریف کرتے ہوئے سمجھاتے ہیں:
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہاں گیری
اک فقرہ سے مٹی قوموں میں مسکینی و دل گیری
اک فقر سے مٹّی میں خاصیتِ اکسیری
اک فقر ہے شبّیری اس فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی سرمایۂ شبّیری
کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری
کمال ترک ہے تسخیر و نوری
میں اسے فقر سے اے اہل حلقہ باز آیا
تمہارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری
جب مومن فقر کی حقیقت سے آگاہ ہوجاتاہے تواس کی نگاہوں میں اسرار جہاں گیری یعنی پوشیدہ رازنمایاں ہوجاتے ہیںاور وہ اس فقر کی بدولت صفات جہاں گیری کا حامل ہوجاتاہے:
یہ فقر مرد مسلماں نے کھو دیا جب سے
رہی نہ دولت سلمانی و سلیمانی
نہ مومن ہے نہ مومن کی اسیری
رہا صوفی گئی روشن ضمیری
خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ
نہیں ممکن امیری بے فقیری
یہ ذکر نیم شبی یہ مراقبے یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
خرد نے کہہ بھی لاالٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
l اقبال کی شاعری میں شاہین کی علامت بہت زیادہ استعمال ہوئی ہے۔ علی گڑھ میں فلسفہ کے پروفیسر ظفراحمد صدیقی کے نام ایک خط میں انھوں نے بتایا کہ شاہین کااستعارہ محض شاعرانہ نہیں ہے بلکہ اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اوّل یہ کہ ’خودداراورغیرت مندہے اور ماراہواشکار نہیں کھاتا۔‘ مرد مومن بھی مالِ حرام کو نہیں چھوتا محنت سے کماتاہے اور پھرکھاتاہے۔
l دوم یہ کہ ’خلوت پسندہے۔‘ اللہ والے بھی تنہائی میں بیٹھ کر یادِالٰہی کاذکر کرتے ہیں۔
l سوم یہ کہ ’تیزنگاہ ہے‘ مردمومن کی نگاہ بھی تیزہوتی ہے بعیداز فہم چیزوں کو بھی دیکھ لیتا ہے۔
l چہارم یہ کہ ’بلندپرواز ہے‘ مردمومن کی پرواز بھی بلند ہے۔ اس کی فہم و فراست آسمانوں پر کمندڈالتی ہے۔ کائنات کاکوئی کونہ اس کی پہنچ سے باہرنہیں۔
l اورپانچویں یہ کہ ’وہ بے تعلق ہے آشیانہ نہیں بناتا‘ اس طرح مرد مومن بھی دنیا میں رہنے کے لیے نہیں آیا اس کا ٹھکانہ چرخ نیل فام سے بھی اوپرہے:
پرے ہے چرخ نیل فام سے منزل مسلماں کی
یہ صوفی یافقیر یہ درجہ دوم تھا۔ اس کے بعد مسلمانیت کی آخری منزل آتی ہے جس میں مومن کائنات میں نہیں بلکہ مومن میں کائنات نظرآتی ہے۔ جب بندہ دوعالم سے بے نیاز ہوجاتاہے تویہ دنیااس کی ٹھوکروں میں آن گرتی ہے:
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
جب مومن الٰہیانہ صفات کا حامل ہوجاتاہے تو کائنات اس کے اشارہ پرچلنے لگتی ہے۔ اقبال نے اسرارخودی میں بوعلی شاہ قلندر کے ایک مرید کا قصہ رقم کیا ہے کہ ان کاایک مرید دہلی گھومنے آیا اورنیچے سرجھکائے مراقبہ کے عالم میں چلاجارہاتھا یہاں بادشاہ کی سواری نکل رہی تھی۔ چوب دار نے آواز دی کہ راستہ چھوڑ دو سواری نکل رہی ہے۔ وہ نہ سمجھا کہ کیسی سواری ۔ اس پرچوب دار نے اس کے سر پر ڈنڈا ماراجس سے اس کا سر پھوٹ گیاخون بہہ نکلا وہ خون بہتاسرلے کر الٹے پاؤں اپنے پیر کے پاس پہنچا اور پھوٹا ہوا سر ان کی گود میں رکھ دیا۔ قلندر کوجلال آگیا اورکہا کہ بادشاہ کاتختہ پلٹ دیاجائے گا۔ یہ خبردہلی پہنچی تو بادشاہ اجلاس میں تھا۔ تھرتھر کانپنے لگا اور چہرہ زرد پڑگیا۔ پھر اُس نے قرآن پڑھنے کو کہا توقاری نے ألابذکراللّٰہ تطمئن القلوب پڑھی۔ اس بادشاہ کوذراہوش آیا تو انھوں نے امیر خسرو کومعافی نامہ لے کر پانی پت بھیجا اور اس طرح اس کی خطامعاف ہوئی۔
نہ تاج و تخت میں نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
جب مردمومن درویشی یا قلندری کے درجہ کوپہنچ جاتاہے تواس کی رضارضائے الٰہی میں شامل ہوجاتی ہے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ اپناسارا اثاثہ حضورِ رسالت مآبؐ میں لے آئے تو وحی نازل ہوئی کہ پوچھو ہمارابندہ کیاچاہتاہے۔ اقبال نے لکھاہے:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ وہ مقام اورمرتبہ ہے کہ مٹی کے بسترپرلیٹنے والاروزوشب کی گردش کوتبدیل کردیتا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ سے ٹیک لگاکر سوگئے عصر کا وقت تھا سورج غروب ہوگیا۔ حضرت علیؓ کے آنسو ٹپکے تورسول خدا نے پوچھا کیاہوا تو انھوں نے بتایا کہ عصر کی نماز نہیں پڑھی اور سورج غروب ہوگیاتو رسولِ خدا نے دعاکی کہ اے اللہ اس کی نماز اداہوجائے عصرکاوقت دوبارہ پیداکرتوسورج مغرب سے دوبارہ واپس آگیا اورعصرکا وقت ہوگیا پھرحضرت علیؓ نے نمازادا کی:
مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
علامہ اقبال کہتے ہیں:
یقیں پیدا کر اے غافل یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کو خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسماں کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
¡¡
جامعہ تحریک کے ۳۹؍ ویں دن بڑی تعداد میں طلبہ کا شاہین باغ تک مشعل جلوس،معزز شخصیات کا خطاب
نئی دہلی: (جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ)
کیا دن اور کیا رات ایسا لگتا ہے کہ اوکھلا والوں کےلیے دونوں برابر ہیں۔ آج جامعہ ملیہ اسلامیہ کے احتجاج کا ۳۹واں اور شاہین باغ کا ۳۷؍واں دن تھا۔ آج بھی مظاہرین کی کافی بھیڑ تھی، لوگوں کا جوش وخروش دیدنی تھا، آج دیر شام تک طلبہ کی مختلف ٹولیاں جامعہ ملیہ اسلامیہ ، بٹلہ ہاؤس ہوتے ہوئے شاہین باغ کے احتجاج میں مشعل لیے ہوئے شامل ہوئیں۔وہیں دن بھر مختلف قسم کے پروگرام جاری رہے، دیگر دنوں کے مقابلے آج بھیڑ کم تھی اس لیے کہ مظاہرین کی ایک بڑی تعداد ترکمان گیٹ، منڈی ہاؤس سے جنترمنتر، خوریجی، جعفرآباد، برجی پوری، اندرلوک میٹرو اسٹیشن وغیرہ کے احتجاج میں شرکت کےلیے گئے ہوئے تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں حسب معمول طلبہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آج ان کے بھوک ہڑتال کا بیسواں دن تھا۔ اسٹریٹ لائبریری سجی ہوئی تھی۔آج بھی بڑی تعداد میں طلبہ نے چیف جسٹس آف انڈیا کے نام پوسٹ کارڈ پر خطوط لکھے اور انہیں ارسال کیا۔ طلبہ و عوام نے سی اے اے کے خلاف زبردست نعرے بازی کی، مختلف پلے کارڈ اور سڑکوں پر پینٹگ کرکے سی اے اے کی قباحت اور این پی آر و این آر سی سے ملک کو ہونے والے نقصانات کو واضح کیا۔ شعرو شاعری کی محفل بھی سجی تھی جہاں علاقائی شعرا اپنا کلام پیش کررہے تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ وطالبات مختلف انداز میں سی اے اے اور این آر سی کے مہلک اثرات سے عوام کو متعارف کرارہے تھے۔ اور لوگوں کو بیداری مہم چلانے کےلیے بڑے پیمانے پر ابھار رہے تھے۔ جامعہ میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے سابق وائس چانسلر جامعہ نجیب جنگ نے کہاکہ حکومت کو شہریت ترمیمی قانون پر غور کرناچاہئے، انہیں یا تو مسلمانوں کو شامل کرناچاہئےیاسبھی مذاہب کو نکال دیناچاہئے اور صرف مظلومیت کی بنیاد پر شہریت دینی چاہئے۔ وزیر اعظم کو سبھی مظاہرین سے مل کر بات کرنی چاہئے پورا معاملہ پرامن طریقے سے حل ہوجائے گا۔انہوں نے کہاکہ بچوں کو یہ یہ تحریک جاری ہی رکھنی ہوگی؟ کیوں کہ مستقبل کا ہندوستان ان ہی بچوں سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ کب تک ہم لوگ اس طرح احتجاج کرتے رہیں گے، حل صرف بات چیت سے ہی نکل سکتا ہے۔ معیشت کی بری حالت ہے دکانیں بند ہیں، بسیں متاثر ہیں ملک کو بھاری نقصان ہورہا ہے۔ شاہین باغ کا احتجاج بھی پرامن طریقے سے جاری رہا۔ لوگوں میں اول دن والا جوش وجذبہ برقرار ہے، سکھ کمیونٹی کی جانب سے لنگر اور کھانے کا اہتمام کیاگیا ہے۔ اس سے قبل اتوار کی شام سینکڑوں افراد بشمول خواتین اور بچوں سمیت جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شاہین باغ تک سی اے اے کے خلاف ایک زبردست مارچ کیا۔طلبہ اور مقامی افراد مہاتما گاندھی اور بی آر امبیڈکر کے لباس پہنے ہوئے تھے ، جبکہ تین افراد نے شہید بھگت سنگھ ، راج گرو اور سکھدیو کی شباہت اختیار کی تھی ، ان میں سے ایک جیل کے لباس میں تھے اور زنجیروں میں قید تھے۔ اطلاع کے مطابق اتوار ہونے کی وجہ سے شاہین باغ احتجاج میں خواتین سے اظہار یگانگت کےلیے دہلی سمیت دیگر ریاستوں سے لاکھوں کی تعداد میں عوام وہاں پہنچے اور سیاہ قانون کی مخالفت میں نعرے بازی کی۔ اتوار کو صرف گھروں میں قید رہیں پردہ نشین خواتین ہی نہیں تھیں، راجدھانی کے پوش جنوبی علاقے کی امیر گھرانے کی عورتیں بھی ان کے ساتھ کھڑی تھیں۔ جنوبی دہلی کی خواتین ان خواتین کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی تھیں جنھیں کل تک غیر مرد کی موجودگی میں اپنے ہی گھر میں سامنے آنے کی اجازت نہیں تھی۔ اب یہ خواتین چوراہے پر کھڑی ہو کر مردوں کو راستہ بتا رہی ہیں، آئین کے معنی سمجھا رہی ہیں، مرکزی حکومت کی نیت کو بے پردہ کر رہی ہیں۔ چہرے پر ترنگے کی چھاپ اور پیشانی پر اشوک چکر باندھے یہ خواتین ان سبھی کو راستہ دکھا رہی ہیں جو اب تک خاموش تھے۔ ان خواتین نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اب اقتدار کے رحم و کرم پر جینے والی نہیں بلکہ اقتدار کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر ہاتھ میں آئین لیے اپنا حق چھیننے کے لیے پرعزم ہیں۔ واضح رہے کہ ملک میں جمہوریت کے ’تیرتھ استھل‘ کا قیام ہو چکا ہے اور اس کا نام ہے شاہین باغ۔ یہ سچ ہے کہ اس تیرتھ میں نہ کوئی بھگوان ہے، نہ کوئی دیوتا۔ یہ کسی عبادت گاہ یا پوجا کی جگہ سے زیادہ پاک ہے۔ سماج کا ہر طبقہ اس تیرتھ کی تعمیر میں برابر کا شریک ہے۔ پورے ملک میں شاہین باغ کے طرز پر مظاہرے ہورہے ہیں اور خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ شاہین باغ کی خواتین سے سبق لے رہی خواتین یہی نعرہ لبوں پر لیے ہوئے ہیں کہ ’میں انقلاب میں شاہین باغ ہونا چاہتی ہوں‘۔ رنجشوں کے اس وقت میں۔۔۔نفرتوں کی لاٹھیاں کھاکر۔۔۔اس ملک کو توڑنے کی کوششوں کے اوپر۔۔۔۔بس اتنی ہی تو خواہش ہے جاناں۔۔۔میں انقلاب میں شاہین باغ ہوناچاہتی ہوں!
ڈاکٹر جسیم الدین
پی ڈی ایف ،شعبۂ عربی ،دہلی یونیورسٹی دہلی
سید شاہ شفیع عالم مرحوم متولی گیا کربلا سے رابطہ وتعلق کی مدت بہت طویل نہیں لیکن چند برسوں کی شناسائی نے ہی ذہن ودماغ پر جو نقوش مرتسم کیے وہ میری زندگی کا گراں مایہ سرمایہ سے کم نہیں، ان سے میرا تعلق اس زمانہ میں قائم ہوا جب میں دہلی یونیورسٹی سے ایم اے کررہا تھا اور میری رہائش دہلی یونیورسٹی کے ڈی ایس کوٹھاری ہاسٹل میں تھی۔دہلی یونیورسٹی میں ہاسٹل کی قلت ہے ،یہاں ہاسٹل ملنا اپنے آپ میں ایک امتیاز ہے، ہاسٹل میں آتے ہی یہاں سب سے پہلے جن سے میری ملاقات ہوئی وہ سید شبیر عالم تھے۔جو،اب ڈاکٹر یٹ کی ڈگری سے سرفراز ہونے کے بعدشعبہ¿ اردو امبیڈکر کالج دہلی یونیورسٹی میں درس وتدریس سے وابستہ ہیں۔ہاسٹل میں قیام کے دوران میری ملاقات بات بکثرت ان سے ہی ہواکرتی تھی اور یہ صرف میرے لیے ہی نہیں مرجع نہیں تھے،بلکہ ہاسٹل میں مقیم سبھی طلبہ کے درمیان بے حد مقبول تھے ،وہ انسانیت نوزی ،بڑوں کا احترام اور اپنے جونیئروں کی قدم قدم پر رہنمائی کے لیے بطور خاص جانے جاتے تھے۔جب میری ان سے شناسائی ہوئی تو جیسے جیسے ہاسٹل کے ایام گزرتے گئے ویسے ویسے میری قربت بڑھتی گئی اور دوسال مکمل گزرنے سے قبل اسی دوران ڈاکٹر صاحب کے والد بزرگوار سید شاہ شفیع عالم کا بغرض علاج ومعالجہ دہلی میں نزول اجلال ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہاسٹل کے گیسٹ روم میں اپنے والد محترم کے قیام کا انتظام کرایا، یہاں باضابطہ میری ملاقات بات والد بزرگوار سے ہوئی اور ڈاکٹر صاحب کے اندر جوخوبیاں رگ وپے میں رچی بسی ہیں ،وہ انھیں جیسے نیک دل،پاک طینت اور خورد نوازی سے سرشار شخصیت کی تربیت کا ثمرہ ہے۔ایک ہفتہ کا قیام رہا ہوگا،لیکن ایک ہفتہ کے دوران ان کے خلوص ،ان کی پاکیزگی،طہارت قلب ودل اور جذبہ¿ مودت نے ایسے نقوش مرتسم کیے ۔وہ میری زندگی کے لیے انمول بن گئے۔ہارٹ کی سرجری کے لیے جب آل انڈیا نسٹی ٹیوٹ آف مڈیکل سائنیس(ایمس) میں اڈمیٹ کیے گئے تو اس دوران بھی میں مع وائف مزاج پرسی کے لیے حاضر ہوا ،یہاں ڈاکٹر سید شبیر عالم کے ساتھ ان کے دوسرے صاحبزادے شبر عالم سے بھی ملاقات ہوئی ، انھوں نے بھی پہلی ہی ملاقات میں نہ صرف مجھے بلکہ میری شریک حیات کو بھی اپنا گرویدہ بنالیا۔اولاد اگر اعلیٰ اخلاق وکردار سے مرصع ہو تو یقین مانیے کہ اس میں والدین کا ہی اہم کردار ہوتا ہے ۔سید شاہ شفیع عالم نے اپنی اولاد کی جس انداز میں تربیت کی وہ ان کا عظیم کارنامہ ہے۔ساتھ ہی گیا کربلا کے انتظام وانصرام میں اور علاقے کے عوام وخواص کے درمیان انھوں نے اپنا جو مقام بنایا وہ ان کی انفرادیت ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پر بلا تفریق مذہب وملت بڑی تعداد میں لوگ اشکبار تھے اور جب ان کا جنازہ تدفین کے لیے جارہاتھا تو عوام کا سیلاب تھا۔گیا کربلا کی احاطہ بندی، گیا کربلا کی تزئینکاری، گنبد کی تعمیروتزئین بطور خاص قابل ذکر ہے۔انھوں نے زندگی بھر ہندو مسلم اتحاد کا علم بلند کیااور اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔بارہ ربیع الاول یا پھر عشرہ محرم کی تقریبات میں ہندومسلم اتحاد کی تصویر بتاتی تھی کہ سید شفیع عالم اتحاد ملت کے لیے اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کس قدر سرگرم تھے۔اپنے اعلیٰ اخلاق وکردار کی بلندی کی وجہ سے نہ صرف گیا شہر کے عوام وخواص میں مقبول عام تھے ۔بلکہ پٹنہ ،جہان آباد، اورنگ آباد ،ساسارام اور نوادہ کے علاوہ بہار کے کئی اضلاع میںآپ کے مخلصین ومحبین کی بڑی تعداد موجودہے۔ آج ان کے چہلم پر میرے جو تاثرات ہیں وہ میں نے قلم بند کیے ہیں ۔ان کی خوردہ نوازی ، چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور بڑوں کا احترام ، اپنے معاصر کی عزت نے انھیں امتیازی شان عطا کی ۔یہی اوصاف ان کے دونوں صاحبزادوں ڈاکٹر سید شبیر عالم اور شبر عالم میں بھی پائے جاتے ہیں۔اللہ سید شفیع عالم کی مغفرت فرماکر ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے کیے ہوئے کام کو آگے بڑھانے کی ان کے صاحبزادوں کو توفیق دے۔
عبدالباری قاسمی
ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی
امراؤ جان ادا مرزا محمد ہادی رسوا کی معرکۃ الآرا تصنیف ہے ،اسے معاشرتی ،نفسیاتی اور تاریخی ناولوں میں اہم مقام حاصل ہے ،اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ ایک صدی گزرنے کے بعد بھی اس کی روح اور کشش میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ وہی لطف آج بھی موجود ہے ،اس ناول میں فیض آباد سے اغوا شدہ لڑکی امیرن کا قصہ بیان کیا گیا ہے ،جسے امراؤ جان ادا کے نام سے لکھنؤ میں ایک طائفہ کی زندگی بسر کرنا پڑی ،رسوا نے اس ناول میں لکھنؤ کی معاشرتی ،تہذیبی اور ادبی جھلکیوں کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی ،اس ناول پریہ اعتراض ممکن ہے کہ رسوا نے طوائف کے کوٹھے کا ہی کیوں انتخاب کیا ؟ اس کا عام فہم جواب یہی ہے کہ اس وقت طوائف کا کوٹھا ہی لکھنؤ میں تہذیبی اور ادبی مرکز تھا اور اس سے نواب ،روسا اور شرفا سے لے کر مولوی ،ڈاکو ،شاعرو شاعرات تک سبھی وابستہ تھے ،اس ناول میں کرداروں کی بڑی تعداد ہے ،اس کے علاوہ پلاٹ ،تکنیک اور تہذیبی منظر کشی بھی بہت عمدہ ہے ،رسوا نے کرداروں کو اس انداز سے سمویا ہے کہ قصہ کی اصلیت و واقعیت میں قاری کو ذرہ برابر بھی شبہ نہیں ہوتا اور شروع سے آخر تک تجسس و جستجو کی کیفیت برقرار رہتی ہے
،اس کا اسلوب سادہ ہے اور زبان بھی عام فہم ہے ،واحد متکلم اور بیانیہ کی تکنیک استعمال کرکے رسوا نے اس ناول کو آگے بڑھایا ہے ،جس طرح سونار سونے کے ہارمیں ہیرے جڑتے ہیں اسی طرح رسوا نے نثر کے درمیان شاعری کو شامل کیا ہے ،اس کی وجہ سے اس کی خوبصورتی مزید دوبالا ہو گئی ہے ۔
مرزا محمد ہادی رسوا :
مرزا محمد ہادی رسوالکھنؤ کے ایک محلہ کوچۂ آفریں خاں میں 1858ء میں پیدا ہوئے ،ان کے والد کا نام مرزا محمد تقی تھا جو آصف الدولہ کی فوج میں ملازم تھے ،رسوا ذہین انسان تھے ،انہوں نے عربی،فارسی،ریاضی،نجوم،منطق اور فلسفہ کا علم حاصل کیا اور 1885ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں بی اے کیا ،پھر موسیقی وغیرہ بھی سیکھی اور مختلف جگہ ملازمت وغیرہ کرنے کے بعد دارالترجمہ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد میں ملازم ہوئے اور وہیں 21اکتوبر 1931ء کو انتقال ہوا ،ان کے معاشرتی ناولوں میں افشائے راز ،شریف زادہ ،ذات شریف اور اختری بیگم اہم ناول ہیں ،اس کے علاوہ کچھ جاسوسی ناول بھی ہیں جس میں خونی جورو،خونی شہزادہ ،خونی مصور،بہرام کی رہائی ،خونی بھید اور خونی عاشق وغیرہ ہے،اس کے علاوہ مرزا رسوا ایک اچھے شاعر بھی تھے ان کی شاعری کا نمونہ امراؤ جان ادا اور دیگر ناولوں میں دیکھا جا سکتا ہے ،شاعری میں رسوا محمد جعفر اوج اور مرزا دبیر سے اصلاح لیتے تھے ۔
سن تصنیف :
شائع ہونے کی صحیح تاریخ کا علم تو کسی کو نہیں ؛البتہ امراؤ جان ادا پر جو انہوں نے دیباچہ
لکھا ہے اس میں 1899ء کی تاریخ درج ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسوا نے یہ معرکۃ الآرا ناول 1899ء میں لکھی ۔
موضوع : ناقدین اور محققین میں سے بعض حضرات نے اس کا موضوع طوائف کو قرار دیا ہے تو بعض نے لکھنؤ کے معاشرتی زوال کو ،مگر سنجیدگی سے اس کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنؤ کا معاشرہ ،زوال آمادہ تہذیب اور طوائف سب کچھ اس کا موضوع ہے ،رسواؔ کا بنیادی مقصد زوال آمادہ تہذیب اور اس میں رہنے والے لوگوں کی ذہنیت اور معیارات فخر کو سامنے لانا تھا ،اس زمانہ میں چوں کہ طوائف کے بالا خانوں سے ہر طرح کے لوگ وابستہ تھے ا س لیے انہوں نے اسے بنیاد بنا کر پوری تہذیب کی تاریخی اور نفسیاتی مرقع کشی بہت خوبصورتی سے کی ۔
مختصر قصہ : اس ناول کی سب سے اہم کردار اور ہیروئن امیرن فیض آباد کے ایک جمعدار کی لڑکی تھی ،ان کے پڑوس میں دلاور خان نامی ایک بدمعاش رہتا تھا ،گواہی کے سلسلہ میں اس سے اس کے والد کی نوک جھونک ہوئی ،امیرن کے گھر کے پاس املی کے پیڑکے نیچے بھائی کو کھلا رہی تھی کہ دلاور خان نے اسے اغوا کرلیا اور لکھنؤ لاکر ایک سرغنہ عورت خانم کے ہاتھوں فروخت کر دیا ،جس نے امیرن کو موسیقی ،شعرو شاعری اور دیگر چیزوں کی تعلیم دلا کر ’’ امراؤ جان ادا ‘‘ بنا دیا اور جلد ہی رؤسا ،نواب زادے اور دیگر عیش و عشرت کے دلدادہ حضرات اس کے کوٹھے پر آنے لگے اور امراؤ جان مجرے وغیرہ محفلوں کی بھی زینت بننے لگی ،اسی دور میں فیض علی نام کا ایک ڈاکوبھی وہاں آنے لگا اور اس قدر دولتیں لٹانی شروع کی کہ امراؤ جان اسے اپنا دلدادہ اور سچا
عاشق سمجھ کر اس کے ساتھ فرار ہو گئیں ،مگر راستہ میں جب فیض علی گرفتار ہوا تو پتہ چلا یہ تو ڈاکو ہے ،درمیان میں مختلف واقعات پیش آئے اور امیرن کانپور چلی گئیں ،جہاں سے بعد میں گوہر مرزا اور بواحسینی لکھنؤ لے آئے اور 1857ء کے غدر میں جب لکھنؤ لٹ گیا تو فیض آباد چلی گئی ،جہاں ایک مرتبہ ان کے اپنے آبائی گاؤں میں اسی املی کے درخت کے نیچے مجرے کی محفل میں شرکت کرنی پڑی ،جہاں وہ کھیلا کرتی تھی ،یہاں والدہ اور بھائی کی نظر پڑی جو قتل پر آمادہ ہوگیا ،اس کے بعد وہاں سے واپس چلی آئی اور قصہ کے آخر میں دلاور خان بھی جرم کے پاداش میں گرفتار ہوا ،یہ تو سرسری طور پر قصہ کو بیان کیا گیا ورنہ پچیس حصوں میں پورا قصہ ہے اور جگہ جگہ شاعری کی مجلسیں بھی خوب آراستہ ہوئی ہیں ۔
پلاٹ : واقعات کے پورے ایک ڈھانچہ کو پلاٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے ،امراؤ جان ادا ناول کا پلاٹ انتہائی مضبوط اور لاجواب ہے ،عام طور پر دوہرے پلاٹ والے ناولوں میں پلاٹ مربوط کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ،مگر مرزا ہادی رسوا کا کمال ہے کہ انہوں نے واقعات کے درمیان ایسا فطری اور منطقی ربط قائم رکھا کہ سارے واقعات ایک دوسرے سے جڑ گئے اور ایسی کشش پیدا ہو گئی کہ قارئین اس کی طرف خود بخود کھنچے چلے جاتے ہیں ،اسی سے مرزا ہادی رسوا کے مہارت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے پروفیسر اشرف رفیع نے اس کے پلاٹ کے متعلق اس انداز سے اظہار خیال کیا ہے کہ ’’ امراؤ جان ادا پلاٹ کے حساب سے ایک غیر معمولی ناول ہے ،اس کا پلاٹ نہ تو فسانہ آزاد کی طرح ڈھیلا ڈھالا ہے اور نہ نذیر احمد کی ناولوں کی طرح کسا بندھا ‘‘ یہ حقیقت ہے کہ اس ناول
کا پلاٹ معتدل ہے ،پورے ناول میں جتنے بھی واقعات ہیں سب امراؤ جان ادا کے ہی ارد گرد گھومتے ہیں خواہ اغوا کا واقعہ ہو یا ڈاکہ زنی کا امیروں کے کوٹھے پر آنے کا یا پھر شعر و شاعری اور مجرے کا ۔
تکنیک :
امراؤ جان ادا ناول میں مرزا رسوا نے واحد متکلم والی تکنیک استعمال کرکے مکالماتی انداز میں ناول کو آگے بڑھایا ہے یہ بڑا دلچسپ پہلو ہے اس سے نئی دلکشی پیدا ہو گئی ہے ،اس کے علاوہ بیانیہ تکنیک کا استعمال ہوا ہے ،رسوا کرید کرید کر امراؤ جان سے سوالات کرتے ہیں اور وہ جواب دیتی چلی جاتی ہے ،بسا اوقات ایسا موقع آتا ہے کہ اگر امراؤ جان بلا جھجک اپنی آپ بیتی بیان کردیں تو لوگ اسے بے حیا قرار دیں ،مگر کرید کرید کر رسوا امراؤ جان کے منھ سے بات نکلواتے ہیں اور بعض موقع پر وہ بہت کچھ کہنا چاہتی ہے ،مگر رسوا ’’ کہنے دیجیے ‘‘ کہ کرٹال دیتے ہیں ،اس کے علاوہ کبھی ایسی سنسنی خیز واقعات سامنے آتے ہیں کہ اچھے سے اچھے سخت دل آنکھوں سے بھی آنسو نکل پڑیں ،اس سے رسواکی مہارت کا اندازہ ہوتا ہے کہ نفسیاتی کیفیات اور جزئیات نگاری پر کتنا دسترس رکھتے تھے اور ایک شاندار اینکر کا رول ادا کرکے اپنی حیثیت سبھی سے منوا بھی لی ۔
کردار نگاری :
امراؤ جان ادا ایسا ناول ہے جس میں کرداروں کی بھرمار ہے ،قدم قدم پر نئے کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے مگر کمال ہے کہ کردار مضبوط بہت ہیں ،تمام کے تمام کردار فطری
معلوم ہوتے ہیں ،انہوں نے ہر کردار کو بہت ہی چابکدستی سے پیش کیا ہے اور خاص طور پر امراؤ جان ادا کو ہیروئن کے طور پر اس انداز سے پیش کیا ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی اس میں جہاں رؤ سا ،نواب اور امرانظر آتے ہیں تو وہیں چور ،ڈاکو اور لچے لپھنگے بھی ،مولوی بھی ہیں تو استاد شعرا اور موسیقی نگار بھی اور سب سے بڑھ کر قابلیت کرداروں کو پیش کرنے کا ہے رسوا نے کرداروں کو حقیقت کے سانچے میں ڈھال کر اس انداز سے پیش کیا ہے کہ آج بھی اس کے اصلیت و واقعیت کے سلسلہ میں شش و پنج برقرار ہے ،اس میں تین کیفیتیں ایسی سامنے آتی ہیں جو قاری کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے ،ایک وہ وقت جب دلاور خان امیرن کو اغوا کرتا ہے دوسرے جب فیض علی ڈاکو کے بہکاوے میں آکر امراؤ جان خانم کے گھر سے بھاگ جاتی ہے اور تیسرے وہ لمحہ جب وہ اپنے آبائی گاؤں بنگلہ فیض آباد مجرے کے لیے آتی ہے اور قدیم زمانہ گزر جانے کے باوجود گھر کے کچھ افراد پہچان لیتے ہیں ،اس کے علاوہ لکھنؤ کی زبان اور تہذیب نے اسے مزید نستعلیق بنا دیا ،امراؤ جان کی زبانی رسوا نے مظلومیت کا نقشہ اس انداز سے کھینچا ہے ’’ آپ مجھ سے کیا چھیڑ چھیڑ کر پوچھتے ہیں مجھ بد نصیب کی سرگزشت میں ایسا کیا مزہ ہے جس کے حالات سن کر مجھے ہر گز امید نہیں کہ آپ خوش ہوں گے ‘‘ (امراؤ جان ادا ص : 38) اس کے علاوہ دلاورخان ،خانم جان ،بسم اللہ جان ،خورشید جان،بوا حسینی ،رام دئی ،مولوی صاحب ،فیض علی ،نواب سلطان ،گوہر مرزا ،نواب راشد ،نواب جعفر ،نواب محمود علی خاں اور اکبر علی خاں وغیرہ خاصے اہم کردار ہیں اور سب سے بڑی بات منطقی ربط اور قصے کا فطری پن ہے ۔
اتنی بڑی تعداد میں کردار کسی اور ناول میں نظر نہیں آتے ،بعض حضرات گوہر مرزا کو اس ناول کا ہیرو قرار دیتے ہیں جس سے سب سے پہلے امراؤجان کی شناسائی ہوئی مگر رسوا کا مقصد ہیرو یا ہیروئن کو بیان کرنا نہیں بلکہ زوال آمادہ معاشرہ اور اس تہذیب کی عکاسی کرنی تھی اور اس میں رسوا کامیاب ہیں۔
مکالمہ نگاری :
اس ناول میں مکالمہ نگاری بھی بہت عمد ہ ہے،اس باب میں بھی رسوا نے اپنی مہارت کا ثبوت پیش کیا ہے ،ایک تو پورا ناول بیانیہ صنف میں ہے ،دوسرے ہر کردار کی زبان سے ویسے ہی الفاظ نکلتے ہیں جیسی اس کردار کی شخصیت ہوتی ہے ،ایک طائفہ اپنی زبان بولتی ہے ،خانم جیسی بردہ فروش عورت کی زبان سے ویسے ہی جملے نکلتے ہیں ،ڈاکو کی زبان وہی جملے ادا کرتی ہے جیسے عام طور پر ڈاکو بولتے ہیں اور مولوی حضرات مولویانہ جملے ہی ادا کرتے ہیں ،اس سے رسوا کی نفسیات پر قادر الکلامی کا اندازہ ہوتا ہے ۔
لکھنؤ کی معاشرت ا ور تہذیبی منظر کشی :
اس معرکۃ الآرا ناول میں رسوا نے لکھنؤ کی معاشرتی اور تہذیبی منظر کشی بہت ہی خوبصورتی سے کی ہے ،لکھنؤ کی عیش و عشرت کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ وہاں کے لوگوں کی حالت طوائف کے بغیر ماہئ بے آب کی سی ہے ،طوائف کے بالاخانوں پر جانا ان کے نزدیک تہذیب اور عزت کی چیز ہے ،ہر طبقہ کے لوگ طوائف کے پاس جانے کو باعث افتخار سمجھتے تھے ،نواب اور جاگیر داروں کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے ،اخلاقی پستی اور معاشرتی بیماری کے حد درجہ شکار تھے انہوں نے لکھنؤ کے رہن سہن اور بیگمات کا نقشہ بہت خوبصورتی سے کھینچا ہے ،حقہ بھی ہے ،گانے بجانے کی محفلیں بھی سج رہی ہیں اور بہت ہی خوبصورت پاندان بھی ہے ،غرض عیش و عشرت ہی ان کے نزدیک اصل زندگی ہے ،یہ حقیقت ہے کہ لکھنؤ کی معاشرتی زوال میں ش طوائفوں کا اہم کردار ہے ،مگر وقت کے گنڈوں اور اخلاق سوز لوگوں کا بھی کوئی کم کردار نہیں ہے ،رسوا نے اس ناول میں لکھنؤ کے محلوں ،میلوں ،گلیوں ،بازاروں اور مکانات کے محل وقوع کا نقشہ ایسا کھینچا ہے کہ اسے پڑھتے ہی لکھنؤ کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے،اسی طرح لکھنؤ میں آرائش و زیبائش کے طور طریقے ،عید بقرعید ،محرم ،عزاداری ،شادی بیاہ وغیرہ کے رسوم ،رقص و موسیقی اور کھیل کود کو بہت ہی نستعلیقی انداز سے پیش کیا ہے ،ا س کے علاوہ انہوں نے نشست و برخاست کے طور طریقے ،مشاعرہ کی محفل اور علمی و ادبی ذو ق کو بھی بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے ،نخاس کا بازار اور عیش باغ کے میلے کا تذکرہ جب کرتے ہیں تو پورے بازار کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ،لوگ مزار اور امام باڑے پر بھی چڑھاوا چڑھاتے ہیں اور منتیں مانگتے ہیں اور مولوی بھی عیاشی کرتے دکھائی دیتے ہیں ،غرض رسوا نے لکھنؤ کی زوال آمادہ معاشرہ کھوکھلی تہذیب اور انسانی رشتوں کی تضحیک و بے حرمتی کا نقشہ بہت کامیابی سے کھینچا ہے ۔
تجسس و جستجو :
امراؤ جان ادا ایسا ناول ہے جس میں شروع سے آخر تک تجسس و جستجو کی کیفیت برقرار رہتی ہے ،خواہ دلاور خان کے امیرن کو اغوا کرنے کا معاملہ ہو یا امراؤ جان کے خانم کے کوٹھے سے بھاگنے کا یا پھر فیض آباد میں بیگم صاحبہ کے مکان پر اچانک مسلح گنڈوں کے آدھمکنے کا ہو یا پھر نواب صاحب کے خاں صاحب کو گولی مارنے کا ،ہر جگہ ایک متجسسانہ کیفیت قارئین پر برقرار رہتی ہے ،اب کیا ہوگا؟ ہر جگہ نہ جانے کیا ہو کی سنسنی خیز گونج کانوں میں سنائی دیتی ہے ،بطور مثال ایک اقتباس ’’ جب فیض علی کی محبت اور اپنے وعدہ کا خیال آتا تھا تو دل کہتا تھا جانا چاہیے مگر جیسے کوئی منع کرتا تھا کہ نہ جاؤ خدا جانے کیا ہو ‘‘ ۔
واقعیت :
پورے ناول کو مرزا رسوا نے اس انداز سے پیش کیا ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ یہ واقعہ فرضی ہے ،یہی رسوا کا کمال فن ہے اگرچہ تمکین کاظمی نے لکھا ہے کہ انہوں نے مرزارسوا سے پوچھا کیا یہ سچا واقعہ ہے ؟ کیا کوئی امراؤ جان ادا تھی تو انہوں نے ہاں کہا ،مگر اس میں 1857ء اور اس کے قبل کے واقعات ہیں اور رسوا 1857ء میں پیدا ہوئے اس لیے حقیقی ہونامشکل امر ہے ،مگر اس انداز سے پیش کرنا کہ سچا واقعہ لگے اس میں مرزا کامیاب ہیں ۔
اسلوب :
اس ناول کی ایک اہم خصوصیت اس کے اسلوب کی سادگی ہے ،مرزا رسوا نے تصنع اور رنگینی کو اختیار نہیں کیا بلکہ نہایت سادگی ،بے تکلفی اور برجستگی کے ساتھ تمام مکالمات ادا کروائے ا ور بھی عام فہم ،سادہ اور عوامی زبان میں کہ اس کے فطری ہونے میں ذرہ برابر بھی شبہ نہ ہو چوں کہ مرزا کی زندگی لکھنؤ میں بسر ہوئی تھی ،وہاں کے محاورات ،ضرب الامثال ،بیگماتی زبان اور طوائفوں کے اشارات و کنایات کو بہت قریب سے جانتے تھے اس لیے بڑی مہارت اور چابکدستی سے ان چیزوں کو ناول کا حصہ بنایا ،اس ناول میں ہر چیز ممکن نظر آتی ہے ،داستانوں کی طرح مبالغہ آرائی اور تصنع کی کیفیت کہیں پیدا نہیں ہوتی ،جا بجا لکھنؤ کے شیریں اور شستہ زبان کے نمونے مل جاتے ہیں جو بہت ہی ظریفانہ انداز سے لکھنؤ کی تہذیبی ،نفسیاتی ،معاشیاتی ،اخلاقی اور ادبی منظر نامہ کی ترجمانی کرتے ہیں ۔
ناول سے پیغام :
ناول جہاں تفریح طبع کا ذریعہ ہوتے ہیں وہیں ان سے اخلاقی پیغامات بھی ملتے ہیں ،مرزا رسوا اخلاق سوز اور زوال آمادہ تہذیب کی منظر کشی کرکے قوم کو بیدار کرنا چاہتے ہیں کہ ایک غریب لڑکی کو نہ چاہتے ہوئے بھی طوائف کی صف میں شامل ہو کر ابتذال کے دلدل میں گھسیٹنا پڑتا ہے ،اس طرح کی بیہودہ لعنت سے بچا جائے اور ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کی جائے تاکہ کسی امیرن کو امراؤ جان نہ بننا پڑے ۔
جب کوئی دیکھوں اداکارہ یقیں ہوتا ہے
حسن سو بار لٹے پھر بھی حسیں ہوتا ہے
بک گئے حیف جو سب شہر کے بازاروں میں
پھول پھر آنہ سکے لوٹ کے گلزاروں میں
حرف آخر :
امراؤ جان ادا مرزا رسوا کے شاہکار ناولوں میں سے ہے ،اس میں اس لکھنؤ ی تہذیب کی منظر کشی بہت خوبصورتی سے کی گئی ہے ،جس میں طوائف کے بالاخانوں پر جانا تہذیب ،عزت اور افتخار کا سبب سمجھاجاتا تھا ،انہوں نے سادہ اور سلیس عوامی زبان اور برجستہ و بے تکلف مکالماتی اسلوب اپنا کر فنکاری کا عمدہ ثبوت پیش کیا ہے پلاٹ ،کردار ،مکالمے ،منظر کشی ،زبان و بیان ،واقعیت و اصلیت اور اسلوب ہر چیز میں لاجواب ہے اور ایک فرضی قصہ کو ایسے فطری انداز سے پیش کیا ہے کہ آ ج بھی دنیائے ادب حیران ہے ۔
عزہ معین ریسرچ اسکالردہلی یونیورسٹی
ہر گھر کی کہانی میں ایک دل دہلا دینے والی حقیقت ہوتی ہے ۔ اس حقیقت سے پیدا ہوتا ہے تحرک ۔ اس گھر اکے فراد کی زندگی میں حاصل ہونے والی کامیابیاں اور ناکامیاں سب اسی ناقابل برداشت یا پھر برداشت کر لینے کی حد تک سہہ جانے والی ان حقیقتوں کی مرہون منت ہوتی ہیں ۔و ہ ساری تکالیف ایک عورت بہت فخر کے ساتھ برداشت کر لیتی ہے ۔کیوں کہ اسے گھر کےبزرگوں سے ہمیشہ یہی تعلیم ملی تھی کہ عورت کے لئے اس کا شوہر مجازی خدا ہے ۔تو کیا اس کا مطلب ہے کہ خدا کی طرح وہ کسی بھی حالت میں رکھے اس کا ہمیشہ سجدے میں شکر ادا کرنا چاہئے شاید یہی معنی ہیں ۔
وہ خدا ہے تو بھلا اس سے شکایت کیسی
مقتدر ہے وہ ستم مجھ پہ جوڈھانا چاہے
ان مظالم کو دیکھنے والے گھر کے افراد اکثر ان معاملات میں اس قدر بے بس ہو جاتے ہیں کہکسی کونے میں بیٹھ کر خود کو زودکوب کرنے کے سوائے ان کے پاس کوئی طریقہ نہیں ہوتا کہ اس کراہیت سے نجات حاصل کرلیں ۔اسلامی تعلیمات انھیں کوئی بھی حتمی قدم اٹھانے سے روک دیتی ہیں ۔اگر ان سب واقعات کی ناظر” انسیہ ” جیسی لڑکیاں ہوتی ہیں بلکہ بیشتر وہی ہوتی ہیں تو ان کی فکر ان کے قدم خود بہ خود ایسے راستوں کی طرف بڑھنے لگتے ہیں جن پر ان کی مائیں کبھی جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتیں ۔ایسی لڑکیاں الجھے ہوئے رویہ اور ڈپریسڈ زندگی گزارتی ہیں ۔ان کے لئے روح فرسا مناظر کا بیان ہمیں کبھی کبھی کسی تخلیق کار کی تحریروں میں تو ضرور مل جاتا ہے اس کے علاوہ کہیں کچھ ایسی عورتوں کی زبانی سننے ملتا ہے جو معاشرے میں بے باکی اور بد اخلاق ہونے کا ٹیگ یا طعنہ سننے کا حوصلہ رکھتی ہیں ۔
اکثر دیکھا گیا ہےکہ زیادہ بولنے والے دوغلے ہوتےہیں ۔یہاں خیال رہے رائے کا اظہار کرنے کے لئے اکثریت کو مد نظر رکھا جاتا ہے ۔ یعنی جو کچھ وہ کہتے ہیں عملی طور پر اس سے بالکل مختلف ہوتے ہیں .جن سے بولنا آتا ہے یعنی اگر وہ بہت دیر تک بنا رکے بولنے کی طاقت و صلاحیت رکھتے ہیں وہ اپنی بات کو ثابت کرنے کا ہنر ….نہیں ہنر نہیں بلکہ دھاندلی کہئے بہت اچھے سے واقف ہوتے ہیں ایسی ہزار ہا مثالیں سامنے ہیں .کوئی فیمنزم پر بات کر رہا ہو آپ اس کے پس منظر میں ایسے مسائل واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں جس کا اس کے چیخنے چلانے سے کچھ نہیں بگڑتا .کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے سامنے اور گھر کے اندر کے رویہ میں تضاد اسے کیا ثابت کرے گا ۔کیوں کہ وہ زبان درازی کے ہنر میں ماہر ہیں پھر چیخ کر یا نرمی سے اپنی بات منوا لینا اان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ۔
عورت کی زندگی حکومت نے بہت آسان کردی ہے لیکن اسے مشکل بنانے والا ہمارا معاشرہ ہے کہیں ہمارا مذہبی نظریہ اسے مجبور و لاچار کردیتا ہے تو کہیں ہمارا معاشرہ طعن و تشنیع سے اس کا جینا دوبھر کردیتا ہے.مولوی طبقہ کا ذکر ہی یہاں فضول ہے وہاں پہنچ جانا کسی بھی نقطہ نظر کو محدود دائرہ میں ہی گھومتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔مثال کے طور پر جب ثانیہ مرزا ٹینس میں اول نمبر پر اپنی کامیابی درج کراکر ہندوستان واپس آئی تو مذہبی افراد نے اس کے خلاف فتوے جاری کر دئے .کیوں? کیوں کہ مولویوں کا کہنا تھا کہ ہمارا مذہب عورت کو بے پردگی کی اجازت نہیں دیتا .ثانیہ کے احباب ہی تھے جنھوں نے اس پر لے قین قائم رکھا پورے ملک سے اٹھنے وے تنازعات کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور حوصلہ دیا .لیکن پھر بھی ایک منٹ رک کر یہاں یہ سوچنے کی بات ہے کہ اس وقت اس لڑکی پر کیا گزر رہی ہو گی جو اپنی خوشی بھی صحیح سے سلیبریٹ نہیں کرپا ئی اور ایک طوفان اس کا منتظر ہے .دوسری طرف دیکھیں تو کسی بھی مولوی نے کچھ غلط نہیں کہا تھا .مذہبی رسوم اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتی کہ کسی عورت کا جلد کا رنگ تو کیا اس کا سراپا بھی کپڑوں میں سے جھلک جائے تو وہ گنہگار ہوگی .یعنی عورت کو اس طرح کا لباس زیب تن کرنا چاہئے جس سے اس کے خد و خال پر کسی نامحرم کی نظر نا پڑے.آج سعودی عرب میں عورتیں گاڑی ڈرائو کرنے حق مانگ رہی ہیں اس کے لئے کورٹ میں آواز اٹھا ئی جارہی ہے .وہاں کے قانون کے مطابق کوئی بھی عورت بنا محرم کے گھر سے باہر نہیں جاسکتی.اس کا مطلب ہوا کہ عورت کی اپنی کوئی پہچان نہیں بن سکتی.وہ کوئی بھی کام ایسا کرنے سے باز رہے جس سے اس کے وجود کااحساس ہو. کسی غیر شادی شدہ لڑکی یا شادی شدہ عورت کو اپنے محرم کے علاوہ کسی اور کو آواز سنانے کی ہمارا مذہب اجازت نہیں دیتا. جوعورتیں فیمنزم پر بات کرتی ہیں ان کے پیچھے بھی ان کا کرب ہی ہوتا ہے جسے وہ سلجھانے میں ناکام رہی ہوتی ہیں .ادیب انھیں مسائل کو سامنے لاتا ہے جو اس کی طبیعت پر گراں گزرتے ہیں اور ان کا حل اس کے پاس نہیں ہوتا .ہمارے حکومتی ادارے آج عورتوں کو اتنی سہولیات فراہم کر رہے ہیں کہ اگر صحیح طریقہ سے ان کا استعمال کیا جائے تو کہیں بھی عورت کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی .رات بے رات عورت کہیںسے کہیں تک کا بھی تنھا سفر کرے کوئی ڈر اس کے راستہ میں روڑا نہیں بن سکتا .پھر بھی عورت ان بولنے والے مردوں سے پریشان ہے .جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہی ہیں .مثلا ً ایک آدمی اپنی جاب چھوڑ کر گھر بیٹھ گیا اس نے اپنے کام نہ کرنے کی ہزاروں وجوہات پیش کردیں .وہ اپنا کام کرنا چاہتا ہے ,اس کے پاس پیسے ہوں تو وہ آدھی دنیا کو الٹنے کی طاقت اور عقل رکھتا ہے ,اس سے اپنے گھر کی عورت کی متعدد بار دیکھی ہوئی شکل برداشت نہیں ہوتی اس لئے وہ کام نہیں کرسکتا ,اس کے دل میں ایک شروعاتی دنوں کی بات گھر کر گئی ہے جس سے وہ پیچھا نہیں چھڑا پایا اب چاہے وہ بات خود کا بنایا ہوا میمورنڈم ہی کیوں نہ ہو اور صرف اسی ایک بات کے لئے اس نے اپنے اور اپنی شریک حیات کے پچیس سال غم میں گزار دئے ہوں ,اسے شادی کے دو تین سال گزر جانے کے بعد بیوی کے چہرے میں وہ کشش نظر نہیں آتی جس کا وہ شادی کے شروعاتی دنوں میں دیوانہ رہا تھا اور اسی بنا لر اب وہ بیوی کو بہانے بہانے سے باتوں کے تیر سے زخمی کرتا ہے اس کے علاوہ گھریلو ہنسا کے بنا چھوئے اور بہت سارے طریقہ ہیں جن سے عورت کی زندگی جہنم بنائی جا سکتی ہے .اگر شادی دونوں فریقین نے باہمی محبت سے کی ہو تو یی صورت حال مزید آسان ہو جاتی ہے کیوں کہ کچھ ہی عرصہ بعد عورت کا وہ دوشیزگی والا حسن ضائع ہو جاتا ہے اور اس کے طعنے عورت تک باآسانی پہنچانے کے طریقہ یا راستہ کھل جاتے ہیں مرد بہت ہی غیر محسوس انداز میں اس یہ باور کراتا ہے کہ ایک ےو شادی کے لئے تم سے میں نے نہیں کہا تھا دوسری بات تم نے اپنی بے ہودہ اداوں سے مجھے رجھا یا جس کا اثر ولی و مرشد نہیں زائل کر پائے میں بے چارہ معصوم کیا بچ پاتا .اگر تم مجھ سے بات کر سکتی تھیں تو پتہ نہیں کس کس سے بات کر تی ہوگی تمھاری پاکیزگی پر یقین کیسے کیا جاسکتا ہے .تم تو ہو ہی کریکٹر لیس لڑکی .میری قسمت خراب تھی جو میرے پلے پڑ گئیں .بہر حال یہ طعن و تشنیع تو بہت بعد کی باتیں ہیں سب سے پہلے تو خود اپنے گھر کو چھوڑنا کسی بھی لڑکی کے لئے بہت دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے .اس پر مستزاد یہ کہ اس کے ماں باپ اس لڑکی کی آئندہ زندگی کے تصور سے ہی اتنا دکھی اور رنجیدہ ہو جاتے ہیں کہ جو گزرے جس پر وہی جانے قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے .پھر معاشرتی سطح پر ملنے والے طعنے عورت کو جو پریشان کرتے ہیں اس کی تو بات کرنا بے سود ہے سوچنا تو یہ ہے کہ ماں باپ ان طعنو ں کو کیسے برداشت کرتے ہیں .اگر عورت کسی شعبہ سے منسلک ہے تو اسے اس کی قابلیت کے بعد بھی نظر انداز کیا جاتا ہے کیوں کہ کرسی پر بیٹھے ہوئے کو اپنی عزت پر آنچ آنے کا خطرہ ہوتا پے اگر وہ کسی لڑکی کو اسپیس دینے لگے تو لوگ اس کی غلط امیج اپنے ذہن میں بنا لیں گے لوگ سوچنے لگتے ہیں لڑکی سے رابطہ ہے ضرور اس لڑکی میں شموئل احمد کے افسانہ کا کردار "زرنگار ” والی خاصیت ہو گی .