نئی دہلی:دہلی ہائی کورٹ نے وہاٹس ایپ کی نئی رازداری کی پالیسی کی تحقیقات کے سلسلے میں فیس بک اور میسجنگ ایپ سے کچھ معلومات حاصل کرنے کے مسابقتی کمیشن آف انڈیا (سی سی آئی) کے نوٹسز پر روکنے سے انکار کردیا ہے۔جسٹس انوپ جے رام بھمبھانی اور جسٹس جسسمیت سنگھ کی بنچ نے کہاہے کہ تحقیقات میں مزید اقدامات اٹھانے کے لیے رکنے کی درخواست ایک درخواست پہلے ہی دائر کی جاچکی ہے جس میں سی سی آئی کے ڈائریکٹر جنرل کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ بنچ نے 6 مئی کو اس پر کوئی عبوری ریلیف نہیں دیاتھا۔ یہ معاملہ 9 جولائی کو سماعت کے لیے درج ہے۔21 جون کو منظور کردہ آرڈر میں بنچ نے کہا ہے کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس سے پہلے والی درخواست اور موجودہ درخواست میں بھی ایسی ہی باتیں کہی گئی ہیں۔پہلے کی وجوہات کی بناء پر ہم اس وقت 8 جون کا نوٹس رکھنا مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔بنچ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ڈی جی کی جانب سے جون میں جو نوٹس دیا گیا تھا وہ 24 مارچ کے حکم نامے کے مطابق ازخود موٹو کیس میں شروع کی گئی تحقیقات کے ایک قدم آگے ہے جس کو موجودہ اپیلوں میں چیلنج کیا گیا ہے۔فیس بک اور واٹس ایپ نے ان درخواستوں میں سی سی آئی کے نوٹسز پر روک لگانے کی درخواست کی ہے۔ ان نوٹسز میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کے سلسلے میں کمیشن کو کچھ معلومات فراہم کریں۔ نوٹس بالترتیب 4 اور 8 جون کو واٹس ایپ اور فیس بک کو بھیجے گئے تھے۔
دہلی ہائی کورٹ
دہلی فسادات معاملے میں آصف اقبال تنہا و دیگر کو ضمانت ،ایس آئی او نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلہ کا استقبال کیا
نئی دہلی: (پریس ریلیز) دہلی ہائی کورٹ نے دہلی فسادات کے الزام میں گرفتار کیے گئے تین طلباء کارکنان آصف اقبال تنہا، دیوانگنا کالیتا اور نتاشا ناروال کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم سنایا ہے۔ ملک کی اہم طلباء تنظیم، اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن (ایس آئی او) نے اس فیصلے کا استقبال کیا اور اسے مثالی فیصلہ قرار دیا۔
دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ایس آئی او نے پریس بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ "آصف اقبال تنہا، دیوانگنا کالیتا اور نتاشا ناروال کو دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت ملنے کے فیصلہ کا ہم استقبال کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ سی اے اے مخالف تحریک کی نوجوان قیادت کمزور کرنے کے لئے ان تینوں سمیت کئی اور افراد کو دہلی فساد کے الزام میں تقریبا ایک سال پہلے جیل میں بند کردیا گیا تھا۔ یہ عمل سراسر ناانصافی اور ظلم پر مبنی تھا۔”
اس فیصلے پر ایس آئی او کے قومی صدر محمد سلمان احمد نے کہا کہ "ہمیں خوشی ہے کہ معزز کورٹ نے ان بے بنیاد الزامات کو خارج کردیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ معصوم نوجوانوں کو فرضی الزامات میں پھنسا کر ظلم زیادتی کا نشانہ بنانے کے خلاف ایک مثال ثابت ہوگا۔”
واضح رہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی کے طالب علم آصف اقبال تنہا اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی دو طالبات دیوانگنا کالیتا اور نتاشا ناروال کو دہلی پولیس نے پچھلے سال 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کی سازش رچنے کا الزام لگا کر یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا تھا۔
واٹس ایپ کی نیو پرائیویسی پالیسی پر ہنگامے اور دہلی ہائی کورٹ کا مشورہ-نایاب حسن
چند دنوں قبل برقی پیغام رسانی کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے موبائل ایپ واٹس ایپ نے اپنی پرائیوسی پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دیا اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کردیا کہ جو صارف بھی اس تبدیل شدہ پالیسی سے اختلاف کرے گا،اس کا اکاؤنٹ 8/فروری کو ڈیلیٹ کردیا جائے گا۔یہ اعلان دنیا بھر میں واٹس ایپ استعمال کرنے والے کرڑوں صارفین کوموصول ہوا۔رپورٹس کے مطابق پہلے مرحلے میں یہ پیغامات ہندوستانی صارفین کو موصول ہوئے، جن میں زیادہ تفصیل تو نہیں بتائی گئی، مگر جب صارف اس پر کلک کرتا تو اس کے سامنے واضح پیغام نمودار ہوتا۔واٹس ایپ کی جانب سے جاری ہونے والے پیغام میں بتایا گیا کہ کمپنی کس طرح آپ کی ذاتی معلومات حاصل کر کے انھیں فیس بک کے لیے استعمال یا اسے فراہم کرے گی۔ مزید بتایا گیا کہ واٹس ایپ سروس استعمال کرتے ہوئے آپ کسی دوسرے بزنس کے ساتھ رابطے میں آتے ہیں، تو اس کی تمام معلومات کمپنی کے پاس پہنچ جاتی ہیں،جن کو فیس بک کی زیرملکیت دیگر ایپلی کیشنز سے شیئر کیا جاسکتا ہے۔واٹس ایپ کی جانب سے جاری نئی پالیسی کے مطابق ادارے کو اپنی مارکیٹنگ، سپورٹ، تبدیلیاں اور سروسز کو بہتر بنانے کے لیے صارفین کی معلومات درکار ہیں، جو نئی پالیسی کو قبول کیے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتیں۔اس سلسلے میں کمپنی کے ترجمان کاکہنا تھا کہ ”واٹس ایپ اپنی سروسز کو بہتر کرنے کے لیے فیس بک اور دیگر تھرڈ پارٹی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے ہوئے ہے، واٹس ایپ صارفین کی معلومات ان سے شیئر کی جاتی ہیں، اس اقدام کا مقصد صارفین کے مسائل کو حل کرنا ہے“۔
مگر اس اعلان کے بعد فوراً پوری دنیا میں بالعموم اور ہندوستان میں بالخصوص واٹس ایپ کے خلاف شدید ناراضی و بے اعتمادی پھیل گئی اور لوگ تیزی سے واٹس ایپ کے متبادل کی تلاش میں نکل پڑے۔رائٹرزنے اس حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی کہ واٹس ایپ کو ابھی تک ہندوستان میں بڑے پیمانے پر اَن انسٹال نہیں کیا گیاہے؛ لیکن پرائیویسی کے بارے میں فکرمند صارفین حریف ایپس جیسے سگنل اور ٹیلی گرام کو تیزی سے ڈاؤن لوڈ کررہے ہیں۔ تحقیقاتی فرمز کا کہنا ہے کہ صارفین کی جانب سے ایسا کرنے سے ان ایپس کے ڈاؤن لوڈ چارٹس بڑھ رہے ہیں اور یہ ایپس بھارت میں پہلی مرتبہ ہر جگہ عام ہورہے ہیں۔ ہندوستان میں 40 کروڑ صارفین واٹس ایپ کا استعمال کرتے ہیں اور سب سے زیادہ شدید رد عمل یہیں دیکھا جارہا تھا،جس کی وجہ سے واٹس ایپ نے پچھلے ہفتے کم از کم 10 انگریزی اور ہندی اخبارات میں کروڑوں روپے لاگت کے اشتہاری پیغامات شائع کرائے اور اپنے صارفین کو یقین دہانی کروانے کی کوشش کی کہ ان کی ذاتی معلومات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ کمپنی کے اعلان کو غلط سمجھا گیا ہے۔واٹس ایپ نے ایک اخبار میں کیے گئے اعلان میں کہا کہ آپ کی پرائیویسی کا احترام ہمارے ڈی این اے میں شامل ہے۔میسجنگ ایپ نے کہا کہ اس کی پرائیویسی پالیسی اپ ڈیٹ کسی بھی طریقے سے آپ کے دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ آپ کے پیغامات کی پرائیویسی کو متاثر نہیں کرتی۔واٹس ایپ نے یہ بھی کہا کہ پرائیویسی پالیسی کی تبدیلیاں صرف صارفین کے کاروباری تعلقات سے متعلق ہیں۔ اتناہی نہیں،واٹس ایپ نے کم ازکم دودن تک سٹیٹس کے ذریعے بھی تمام صارفین کو مطمئن کرنے کی کوشش کی اور وضاحت کرتا رہا کہ واٹس ایپ آپ کی ذاتی معلومات کسی سے شیئر نہیں کرتا ہے۔
واٹس ایپ کی سکیورٹی کے حوالے سے نئے خدشات کے بعد روسی میسنجر ٹیلی گرام کی صارفین کے تعداد عروج پر پہنچ گئی، ٹیلی گرام کے بانی نے اسے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ڈیجیٹل ہجرت قرار دیا۔روسی میڈیا کے مطابق روسی میسنجر ٹیلی گرام نے امریکہ،ہندوستان اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے۔ٹیلی گرام کی جانب سے سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ اس عالمی رجحان کے بعد دو صدور نے اپنے ٹیلی گرام چینلز شروع کیے، جس میں برازیل کے صدر جیر بولسنارو اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان شامل ہیں۔بانی کا کہنا ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون اور یوکرین کے صدر ولادی میر زیلینسکی کے علاوہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سمیت متعدد دیگر عالمی رہنماؤں نے بھی ٹیلی گرام میسنجر میں اندراج کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ متعدد عوامی تنظیمیں غلط استعمال سے نمٹنے اور اپنے معاشروں میں اہم امور کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے ٹیلی گرام پر انحصار کر رہی ہیں۔ٹیلی گرام کے بانی نے زور دے کر کہا کہ میسنجر مبہم الگورتھم پر عمل نہیں کرتا جس سے یہ طے ہوتا ہے کہ صارف اپنی مرضی کا مواد ہی دیکھ سکیں گے۔اس سے قبل ڈوروف نے اعلان کیا تھا کہ ٹیلی گرام استعمال کرنے والوں کی تعداد 500 ملین سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ صرف 3 دنوں میں 25 ملین افراد ٹیلی گرام کا استعمال شروع کرچکے ہیں۔کچھ لوگوں نے ترکی الاصل میسیجنگ ایپ بی آئی پی(BIP)کی طرف بھی ہجرت کی،خاص کر بنگلہ دیش اور انڈونیشیا وغیرہ میں زیادہ لوگ اس کی طرف منتقل ہوئے۔بہر کیف چند دنوں کے مسلسل ہنگاموں اور واٹس ایپ کی وضاحتوں کے بعد اب معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوتا نظر آرہاہے،ویسے بات اگرواقعتاً پرائیویسی کے تحفظ کی کریں تو فی الحقیقت انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کسی بھی شخص کی اب کوئی پرائیویسی نہیں رہ گئی؛کیوں کہ آپ کوئی بھی ایپلی کیشن انسٹال کرتے ہیں تو وہاں آپ کو اپنی ذاتی معلومات،درست فون نمبر یا ای میل آئی ڈی ہی سہی،ہر حال میں دینا ہوتی ہیں،اس کے بغیر آپ اسے انسٹال نہیں کرسکتے،استعمال نہیں کر سکتے؛بلکہ نیااسمارٹ فون لیتے ہی اسے ایکٹیو کرنے کے لیے سب سے پہلے انٹرنیٹ کے سہارے اس پر اپنا اکاؤنٹ بنانا ہوتاہے،تبھی آپ کا فون چلے گا،اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتا اور ظاہر سی بات ہے کہ اکاؤنٹ بنانے کے لیے آپ کو ذاتی معلومات تو دینی ہی ہوں گی،پس اب پرائیویسی وغیرہ کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا۔انٹرنیٹ،اینڈرائڈموبائل اور آئی فون کے عہد میں اگر پرائیویسی پچانی ہے،تو سرے سے ان چیزوں سے کنارہ کش رہنا ہوگا،ورنہ تو قدم قدم پر آپ کے ذہن میں اندیشے پنپتے رہیں گے۔ایک بہتر قدم وہ بھی ہوسکتا ہے،جس کی طرف 18/جنوری کو دہلی ہائی کورٹ نے اس تعلق سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے رہنمائی کی ہے کہ اگر آپ کو واٹس ایپ کے تعلق سے اندیشے ہیں،تو اسے اپنے فون سے ڈیلیٹ کردیں؛ کیوں کہ اگر زیادہ گہرائی میں جائیں گے،تو کسی بھی سوشل پلیٹ فارم پر آپ کی پرائیویسی محفوظ نہیں ہے۔ پس کونسا ایپ استعمال کرنا ہے اور کونسانہیں،یہ آپ کی پسنداور متعلقہ ایپ کی خوبیوں،فیچرز پر منحصر ہے،اس کے لیے یہ دلیل غالباً بیکار ہی ہوگی کہ فلاں کمپنی ہماری ذاتی معلومات کی حفاظت کرے گی اور فلاں نہیں کرے گی۔
نئی دہلی :دہلی یونیورسٹی کے حالیہ منعقدہ آن لائن امتحانات کے نتائج پردہلی ہائی کورٹ نے ہدایت دی ہے کہ ڈی یواپنے تمام کالجوں کوایک خط لکھے اور ہدایت دے کہ جلد تمام جوابی شیٹوں کاجائزہ لیا جائے۔ فائنل ایئرکے طلباء کے نتائج اکتوبرکے پہلے ہفتے تک جاری کرنے کی کوشش کریں ، تاکہ طلباء کو داخلہ لینے میں تاخیر کاسامنا نہ کرناپڑے۔ہائی کورٹ نے پہلے بھی یوجی سی کوایک ایڈوائزری جاری کرنے اور یہ بیان جاری کرنے کا حکم دیا تھا کہ اس بار کوویڈ 19 انفیکشن کی وجہ سے امتحان میں تاخیرہو رہی ہے۔ لہٰذانئے سال اور نئی کلاس میں داخلے میں تاخیر ہوگی۔ کٹ آف لسٹ نکالنے میں بھی تاخیرہوگی۔ اس کی وجہ سے طلباکوعارضی نتائج اور دیگر چیزوں پراصرارنہیں کرناچاہیے۔10 اگست کودہلی یونیورسٹی (ڈی یو)نے پہلی بار آن لائن اوپن امتحان لیا۔ہائی کورٹ کی ہدایات کے بعدیہ امتحان آخری سال کے تمام طلبہ کا لیاگیاہے لیکن جیسے ہی امتحان شروع ہوا ، مختلف طلباء نے اپنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ تجربات بھی سوشل میڈیاپرشیئرکرناشروع کردیے۔عدالت کے حکم کے بعدطلبا کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جوابی شیٹ ای میل کے ذریعے جمع کرائیں۔ہائی کورٹ نے یہ بھی کہاہے کہ امتحانات ستمبر میں آن لائن موڈمیں ہو رہے ہیں۔ لہٰذانتیجہ بھی ستمبرکے آخر تک آناچاہیے۔ تاکہ طلباء کو وقت سے پہلے ہی مزیدتعلیم کے لیے داخلہ لینے میں دشواری نہ ہو۔ اس معاملے میں طلبا کی جانب سے پیش ہوئے کپل سبل نے عدالت میں آن لائن امتحان کے حوالے سے بہت سارے سوالات اٹھائے ۔ انہوں نے کہا کہ دوردرازعلاقوں میں آن لائن امتحانات کاانعقادکرناانتہائی مشکل ہوگاکیوں کہ حکومت کے الیکٹرانکس اورانفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت کے تحت 12000 کامن سینٹر کام نہیں کرتے ہیں۔