نئی دہلی:ہاتھرس میں دلت بچی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے معاملے پر دہلی کے جنتر منتر پر احتجاج ہوا جہاں ہاتھرس کے واقعے کے خلاف سول سوسائٹی اور متعدد سیاست دانوں نے احتجاج کیا۔ دراصل اس سے قبل انڈیا گیٹ پر احتجاج ہونے والا تھا لیکن جمعرات کو دہلی پولیس کے ذریعہ کہا گیا کہ انڈیا گیٹ کے اطراف میںدفعہ 144 نافذہے۔ یہاں کسی بھی اجتماع کی اجازت نہیں ہے۔ چنانچہ ہاتھرس کیس پر احتجاج کرنے آئے لوگ شام 5 بجے سے جنتر منتر پر جمع ہوئے اور زوردار نعروں کے ساتھ ایک آواز میں لڑکی کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا۔دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کے قائد جنتر منتر پر مظاہرے میں پہنچے۔سی پی ایم کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری اور سی پی آئی کے رہنما ڈی راجہ نے عوام سے خطاب کیا۔ عام آدمی پارٹی کے رہنماؤں سوربھ بھاردواج، جیگنیش میوانی اور اداکارہ سوارا بھاسکر نے بھی شرکت کی۔ سوراج انڈیا پارٹی کے صدر اور کارکن یوگیندر یادو نے بھی مظاہرے میں حصہ لیا اور انہوں نے کہا کہ اتر پردیش میں روزانہ جرائم سامنے آرہے ہیں ۔اس لڑکی کے اجتماعی عصمت دری کی گئی اور لاش کو ہندو روایت کے خلاف جلایا گیا، ماں آخر تک اپنی بیٹی کا چہرہ نہیں دیکھ پائی، باپ کا جھوٹا بیان لکھوایا جاتا ہے، ڈی ایم نے گھر بیٹھ کر دھمکی دی، بھائی کو کہنا پڑا کہ ہمیں دھمکایا جارہا ہے ،میڈیا پر پابندی ہے۔ کیا مصیبت چل رہی ہے؟یادو کا کہنا ہے کہ اگر یہ لڑکی دلت نہ ہوتی تو یہ نہ ہوتا۔ اجتماعی عصمت دری یا قتل ہوسکتا ہے، لیکن اس کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف دلت کے ساتھ ہوسکتا ہے، لہٰذا وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوئے استعفی دینا چاہئے۔
دلت
بہار الیکشن سے عین قبل ریاست میں کئی مسائل بھڑک اٹھے ہیں،جنھیں حل کرنے یا یہ کہیں کہ سرد کرنے کی حکومتی تدبیریں بھی جاری ہیں۔کسی دلت کے قتل پر ایک وارث کو سرکاری نوکری،انٹر پاس غیر شادی شدہ لڑکیوں کواب دس کی بجاے پچیس ہزار اور گریجویشن پاس لڑکیوں کو پچیس کی جگہ پچاس ہزار روپے کا خصوصی اسکالرشپ ، حال ہی میں اسسٹنٹ پروفیسروں کی تقرری اور اردو مترجم و معاون مترجم کی تقرری کے لیے امتحانات کی ممکنہ تاریخ کے اعلانات کو اسی سلسلے کی کڑی قرار دیاجا سکتا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی بھی مختلف شعبوں میں کئی سو کروڑ کے منصوبوں کا افتتاح کر چکے ہیں،دربھنگہ ہوائی اڈے کی شروعات کی خبر ایک بار پھر انگڑائی لینے لگی ہے ۔انہی انتخابی مسائل و موضوعات میں ایک موضوع اردو کا بھی شامل ہوگیا ہے۔حالاں کہ اردو کے کچھ مسئلے مثلاً بہار اردو اکیڈمی ،اردو مشاورتی بورڈ وغیرہ جیسے سرکاری اداروں سے متعلق پہلے سے بھی موجود تھے ۔تازہ مسئلہ بھی مئی میں ہی پیدا ہوا تھااور وہ یہ تھا کہ ہائی اسکولوں میں اردو کو لازمی مضمون کی بجاے اختیاری مضمون قرار دے دیا گیا اور اب اساتذہ کی تقرری پانچ لازمی سبجیکٹ (ہندی،انگریزی، سماجیات، سائنس، ریاضی) اور ایک استاذ کی تقرری دوسری زبان کے لیے ہوگی جس میں سنسکرت، بنگلہ، میتھلی، بھوجپوری ،عربی و فارسی وغیرہ پہلے سے تھیں اور نئے یعنی پندرہ مئی دوہزار بیس کے محکمۂ تعلیم،بہار کے نوٹیفکیشن کے بعد اس ضمن میں اردو بھی شامل ہوگئی ہے،اس سے قبل مادری زبان اور دوسری راج بھاشا ہونے کی حیثیت سے اردو لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل نصاب رہی ہے۔ نتیش کمار نے پہلی بار ہی حکومت میں آنے کے بعد یہ اعلان کیاتھا کہ بہار کے تمام اسکولوں میں اردو کے اساتذہ تقرر کیے جائیں گے،ان کی حکومت میں اردو کے حق میں کئی قابل ستایش قدم اٹھائے بھی گئے،اردو کے کئی ادارے بہار میں سرکاری سرپرستی میں چل رہے ہیں ،یہ الگ بحث کا موضوع ہے کہ ان اداروں سے اردو کے فروغ کا کیا اور کتنا کام ہو رہا ہے اور بہار کے اسکولوں میں کتنے اساتذہ کی سیٹیں ہنوز خالی ہیں۔
مئی والے نوٹیفکیشن کا علم اردو والوں کو تقریباً دو ماہ تک نہیں ہوسکا تھا یا معلوم تھا مگر اس پر خاموشی تھی ،غالباً جولائی کے آغاز یا جون کے اواخر میں ایک ہندی اخبار نے اس تعلق سے ایک خبر شائع ،پھر ڈاکٹر مشتاق دربھنگوی، مفتی ثناء الہدی قاسمی،ڈاکٹر سید احمد وغیرہ کے تفصیلی مضامین اس حوالے سے شائع ہوئے،بہار سٹیٹ اردو ٹیچرز ایسو ایشن بھی جولائی کے وسط سے اس معاملے میں سرگرم ہے،اس کی طرف سے 11جولائی کو ہی وزیر اعلیٰ کو خط لکھ کر توجہ دلائی گئی تھی۔اردو اخباروں میں کئی لوگوں کے بیانات شائع ہوئے اور اگست کے وسط تک بہار کے تقریباً تمام اردو والوں کویہ بات پتا چل گئی کہ حکومت نے ہائی اسکول سطح کے نصابِ تعلیم سے اردو سبجیکٹ کی لازمی حیثیت کو ختم کردیا ہے؛ چنانچہ پٹنہ و آس پاس میں موجود اردو کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے وابستہ بعض سرگرم اشخاص سمیت عام اردو والے بھی بیدار ہوگئے،کچھ لوگوں نے وزیر تعلیم سے ملنے اور مسئلے کو حل کروانے کی کوشش کی،تو کچھ لوگوں نے احتجاج و مطالبۂ انصاف کا فریضہ ادا کیا۔ سوشل میڈیا اور اردو اخبارات میں بہار کے متعدد اضلاع سے ایسی تصویریں مسلسل نظر آرہی ہیں ،جن میں چند لوگ اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے بہار حکومت سے اردو کے ساتھ انصاف کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور جوں جوں الیکشن کے دن قریب آ رہے ہیں،یہ سلسلہ بھی تیز تر ہوتا جارہا ہے۔
اب ایک نیا نوٹیفکیشن محکمۂ تعلیم کا گشت کر رہا ہے،جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جس اسکول میں بھی اردو یا دیگر دوسری زبانوں میں سے کسی ایک کے پڑھنے والے طلبہ ہوں گے،وہاں اس زبان کے استاذ کی تقرری ہوگی،مئی والے اور تازہ نوٹیفکیشن میں فرق یہ ہے کہ پہلے والے میں چالیس طلبہ کی حد بندی تھی،اس میں اس تعداد کو مبہم رکھا گیاہے،مگر حیثیت اردو کی دوسری بھاشا کی پہلے والے میں بھی تھی اور اس میں بھی ہے۔ یہ دوسرا اعلامیہ ستائیس اگست کا جاری کردہ ہے اور مدرسہ بورڈ کے موجودہ چیئر مین و انجمن ترقی اردو کی بہار شاخ کے سکریٹری عبدالقیوم انصاری کا کہنا ہے کہ یہ دوسرا نوٹیفکیشن انجمن ترقی اردو بہار کی کوششوں سے ہی جاری ہوا ہے،یہ بات انھوں نے جہان آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہی ہے،ان کا ایک لمباسا بیان پچیس ستمبر کو بہار کے کئی اردو اخباروں میں شائع ہوا ہے۔اس سے قبل 11ستمبر کو انجمن ترقی اردو بہار کی جانب سے لگ بھگ آدھے پیج کا ایک اشتہار شائع کروایا گیا تھا،جس میں اردو اور اقلیتوں(مسلمانوں) کے حق میں نتیش حکومت کے فیصلوں،اقدامات اور منصوبوں کا گن گان کیا گیا تھا،اس کی ابتدائی سطروں میں مئی والے نو ٹیفکیشن اور اس کے بعد ستائیس اگست والے نوٹی فکیشن کا بھی ذکر تھا اور یہ لکھا گیا تھا کہ ’’انجمن ترقی اردو بہار کی کوششوں سے محکمۂ تعلیم نے 15-05-2020کو جاری کردہ اعلامیے میں ترمیم کرتے ہوئے 27-08-2020کو نیا اعلامیہ جاری کیا ہے،جس کے مطابق اگر سکینڈری و انٹر سطح کے اسکولوں میں اردو کا ایک طالب علم بھی ہوگا تو اس کے لیے استاذ کی تقرری کی جائے گی‘‘۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ انجمن ترقی اردو ہند کے صدر دفتر یعنی دہلی سے مختلف قسم کی آواز اٹھ رہی ہے اور اس کی بہار شاخ کا موقف کچھ اور ہے۔ چوبیس ستمبر کو اردو کے اخبارات میں انجمن ترقی اردو ہند کے ذریعے وزیر اعلی بہار کو انجمن کے قومی صدر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،رکن مجلس عاملہ پروفیسر اختر الواسع اور سکریٹری اطہر فاروقی کے ذریعے روانہ کردہ ایک خط کے حوالے سے خبر شائع ہوئی ہے،جس میں انھوں نے بہار حکومت کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کی سابقہ حیثیت کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسرے نوٹیفکیشن کے حوالے سے آج روزنامہ قومی تنظیم و دیگر اردو اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی ہے،جس کا عنوان ہے’’محکمۂ تعلیم کی وضاحت،اردو کی لازمیت بر قرار‘‘،مگر خبر جے ڈی یو کے نو منتخب رکن قانون ساز کونسل پروفیسر غلام غوث اور اردو کونسل کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر اسلم جاوداں کی وزیر اعلیٰ بہار کے پرنسپل سکریٹری، محکمۂ تعلیم کے پرنسپل سکریٹری اور بہار ایگزامنیشن بورڈ کے چیئر مین کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کے تعلق سے ہے، اس میں جو تفصیلات درج ہیں،ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان افسران نے بس زبانی یقین دہانی کی کوشش کی ہے۔غلام غوث صاحب کا کہنا ہے کہ’’ اردو والوں کے مطالبات کی تکمیل کی مہم جاری رکھیں گے‘‘،انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ہمیشہ کی طرح محبانِ اردو کا تعاون انھیں حاصل رہے گا۔
بہار اسٹیٹ اردو ٹیچرس ایسوسی ایشن کے چند عہدے داروں نے مل کر24ستمبر کو حزبِ اختلاف کے لیڈر تیجسوی یادو کومیمورنڈم دیا ہے،تیجسوی نے رسمی طورپر یقین دہانی کروائی ہے کہ ’’وہ اپنی سطح پر اس مسئلے کو بھر پور طریقے سے اٹھائیں گے اور حکومت سے مطالبہ کریں گے کہ اردو کے ساتھ نا انصافی بند کرے‘‘۔ یکم ستمبر کو آرجے ڈی لیڈر عبدالباری صدیقی کابیان بھی اس ضمن میں آچکا ہے، انھوں نے کہا تھا کہ ’’اردو ٹیچر کی بحالی کے لیے چالیس طلبہ کی قید بہار سے اردو کو ختم کرنے کی سازش ہے ‘‘۔آرجے ڈی کے ممبر اسمبلی فیصل رحمن نے بھی 21ستمبر کو اس تعلق سے وزیر اعلیٰ کو خط لکھاہے۔ اس کے علاوہ جمعیت علما ے بہار اور امارت شرعیہ بھی اس تعلق سے بیان کی حد تک اپنی ذمے داری سے فارغ ہو چکی ہیں۔
الغرض ہائی اسکولوں کے نصاب میں لازمی طورپر اردو کی بقا کے سلسلے میں ایک طرف حکومت صفائیاں پیش کر رہی ہیں ،بہار ایگزامنیشن بورڈ کا پچیس ستمبر کو وضاحتی اشتہار بھی شائع ہوا ہے،دوسری طرف حکومتی موقف کے خلاف آوازیں بھی بہت زور وشور سے اٹھ رہی ہیں،مگر خاص بات یہ ہے کہ ان آوازوں میں کسی قسم کا اتحاد نہیں ہے،سب کی اپنی اپنی ڈفلی،اپنا اپنا ڈھول ہے۔گورنمنٹ کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد کے دوڈھائی ماہ تک تو مکمل خاموشی رہی،گنے چنے دانشوران اور اہلِ قلم نے اس جانب توجہ دلائی ،تو بھی متعلقہ با اثر شخصیات یا ادارے سبک سری کا مظاہرہ کرتے رہے، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی الیکشن کے موسم کو غنیمت جانتے ہوئے ’’خادمِ اردو‘‘ اور’’قائدِ اردو‘‘ کا تمغہ اپنے نام کرنا چاہتاہے۔بہار میں اردو کے نام پر سیاست کی اپنی تاریخ ہے اور اسے اِس الیکشن میں بھی دہرانے کی کوششیں تیز ہو رہی ہیں۔اب تو ووٹنگ کی تاریخوں کےاعلان کے ساتھ انتخابی ضابطۂ اخلاق بھی نافذ ہوچکا ہے،تو شاید اس موضوع پر حکومت کی جانب سے کوئی نیا عملی اقدام یا وضاحت مشکل ہے ۔ سو دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت اردو والوں مطمئن کر نے میں کامیاب ثابت ہوگی؟کیا اس نئے مسئلے کی وجہ سے جدیو اور این ڈی اے کے ووٹوں پر کچھ منفی یا مثبت اثر پڑے گا؟ اور کیا کسی دوسری پارٹی کو بھی اس کا فائدہ ہو سکتا ہے؟