اترپردیش کے مردم ساز شہر دیوبند کا نام آتے ہی دارالعلوم دیوبند کے گراں قدر کارناموں کا درخشاں باب وا ہو جاتا ہے ۔ جس میں قرآن و حدیث، فقہ و تفسیر کی تعلیم و ترویج، اشاعت و احیاء کے ساتھ فلسفہ و منطق، تاریخ، زبان و ادب اور صحافت کے فروغ و استحکام کی مضبوط تحریک دکھائی دیتی ہے ۔ جس کا زریں سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ اس میں شعر و شاعری، انشا پردازی، نثر نگاری، تحقیق و تنقيد، تبصرہ، ترجمہ و تعریب اور اخبار و رسائل کی اشاعت شامل ہے ۔ گو کہ دارالعلوم کے بنیادی مقاصد میں علوم دینیہ کے علاوہ اور کچھ بھی شامل نہیں لیکن پھر بھی اردو زبان و ادب، صحافت اور دینی صحافت کی تاریخ دارالعلوم اور افراد دارالعلوم کے بغیر نامکمل ہے ۔ یہی وہ پہلو ہے جس نے دیوبند کی صحافتی خدمات کا جائزہ لینے کی طرف متوجہ کیا ۔
دیوبند سے شائع ہونے والا پہلا پرچہ ماہنامہ "القاسم” تھا، جو مولانا قاسم نانوتوی کی یاد میں دارالعلوم سے نکالا گیا تھا ۔ القاسم کا پہلا شماره نمونہ کے طور پر اپریل 1910 کو مولانا حبیب الرحمن عثمانی کی ادارات میں شائع ہوا، لیکن اس کی باقاعدہ اشاعت اگست 1910 سے ہو سکی ۔ نائب مدیر مولانا سید اصغرحسین، جب کہ سرپرست حضرت حکیم الامت اور حضرت شیخ الہند تھے ۔ بعد میں مولانا مفتی احمد حسن امروہوی، مولانا خلیل احمد انبیہٹوی اور مولانا حافظ احمد نے بھی اس کی سرپرستی فرمائی، اجراے رسالہ کے تین سال بعد نائب مدیر مولانا سراج احمد رشیدی بنائے گئے ۔ مولانا اصغر حسین اپنے تدریسی مشاغل کی بنا پر سبک دوش ہو گئے تھے ۔ درمیان میں دوسال 16-1917 مولانا مناظر احسن گیلانی بھی "القاسم” کے معاون مدیر رہے ۔ "القاسم”کے ٹائٹل پر علمی، مذہبی، اخلاقی، ادبی، تمدنی، تاریخی ماہوار رسالہ لکھا ہوتا تھا ۔
القاسم کے مقاصد اجراء کی وضاحت کرتے ہوئے مدیر محترم مولانا حبیب الرحمن عثمانی نے لکھا؛
"اس رسالہ کا اصل مقصد مسلمانوں کے لئے مذہبی، علمی اور تاریخی معلومات کا صحیح، محققانہ ذخیرہ بہم پہنچانا اور نرم و متانت کے لہجے میں غلط خیالات کو مٹانا ہے”۔ (شماره 1 ص 51)
القاسم خالص علمی نوعیت کا رسالہ تھا ۔ مسلمانوں میں معدود چند ہی اس سے استفادہ کرسکتے تھے ۔ متوسط اور کم اہلیت رکھنے والوں کے لئے مولانا رشید احمد گنگوہی کی نسبت سے مئی 1914 میں دارالعلوم نے ماہنامہ”الرشید” مولانا حبیب الرحمن عثمانی صاحب کی ہی ادارت میں جاری کیا ۔ اس کا نائب مدیر مولانا سراج احمد رشیدی کو بنایا گیا ۔ دو سال16-1917 مولانا مناظر احسن گیلانی بھی معاون مدیر رہے ۔ القاسم کے شماره 9 ج 4 ص 3 – 4 پر الرشید کے اجراء کا اعلان کرتے ہوئے مدیر اعلیٰ نے اس کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا؛
"القاسم” کے تمام مقاصد و مضامین "الرشید” میں ملحوظ رہیں گے ۔ البتہ زبان نسبتاً عام فہم اور سلیس ہوگی، افادہ عام کے لئے مسائل فقہیہ کار آمد روزمرہ و فتاواے ضرویہ شائع ہوں گے ۔
طریقت و تہذیب اخلاق کا سلسلہ خصوصیت کے ساتھ جاری رہے گا، حالات بزرگان دین شائع کیے جائیں گے ۔
مسائل مختلفہ کی تحقیق منصفانہ ہوگی، اسلام پر حملہ کرنے والوں اور اس کو ضعف پہنچانے والوں کو تہذیب و متانت سے جواب دیے جائیں گے”۔
مدیر اور نائب مدیر رسائل کی ترتیب، اس کی طباعت، ترسیل واشاعت کے ساتھ اہتمام اور تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے تھے ۔ اس کا باضابطہ عملہ نہیں تھا اس لئے رسائل کی اشاعت میں ایک ایک ماہ کی تاخیر ہو جاتی تھی ۔ بالآخر القاسم گیارہ اور الرشید کی قریب چھ سال بعد اشاعت تھم گئی ۔ مارچ 1920 کا شماره آخری ثابت ہوا ۔ چار سال بعد 1925 میں القاسم کی تو نشاة ثانیہ ہوئی لیکن الرشید مرحوم ہوگیا ۔ دور ثانی میں بھی القاسم کے مدیر مولانا حبیب الرحمن عثمانی صاحب ہی رہے ۔ نائب مدیر مولانا عتیق احمد صدیقی اور معاون مدیر کی ذمہ داری قاری محمد طاہر صاحب کے سپرد کی گئی ۔ دور ثانی کی مدت بھی چار سال ہی رہی 1928 میں "القاسم” ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ۔
مہتمم دارالعلوم مولانا قاری محمد طیب صاحب کی نگرانی اور مولانا عبدالوحید صدیقی غازی پوری کی زیر ادارت مئی جون 1941 میں ماہنامہ "دارالعلوم” منظر عام پر آیا ۔ مدیر محترم نے رسالہ کے مقاصد بیان کرتے ہوئے لکھا؛
"رسالہ دارالعلوم چوں کہ ہر طبقہ تک علم اور دین کی صحیح روشنی پہنچانا چاہتا ہے ۔ اس لئے وہ اس مصطلحہ علمی معیار کی پابندی اپنے لئے غیر مفید اور غیر ضروری خیال کرتا ہے ۔ "دارالعلوم” اگر ایک طرف اہل علم کے بلند علمی ذوق کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا تو دوسری طرف عام مسلمانوں کی علمی صلاحیت کی بھی رعایت رکھے گا اور علمی مسائل کو سہل سے سہل انداز میں پیش کرنے کی سعی کرے گا ۔۔۔۔ ہم رسالہ "دارالعلوم” کے معیاری ہونے کی سند حاصل کرنے سے زیادہ اس کے افادہ کو عام کرنا ضروری سمجھتے ہیں، یہی اس کے اجراء کی اصل غرض و غایت ہے”۔ (دارالعلوم دیوبند کا صحافتی منظر نامہ ص 115)
دیوبند سے مولانا امین الرحمٰن عرف عامر عثمانی کی ادارت میں نکلنے والا ماہنامہ "تجلی” اپنی نوعیت کا منفرد رسالہ تھا ۔ اس نے اردو میں ادبی و مذہبی اقدار کو آگے بڑھایا ۔ ” تجلی” کا اجراء 1949 میں دیوبند سے ہوا تھا ۔ اس نے چوتھائی صدی تک اہل ذوق سے خراج تحسین وصول کیا ۔ یہ علمی حلقوں میں بہت مقبول تھا ۔ اس کے مستقل کالم رسالہ کی جان اور قارئین کی دلچسپی کا باعث تھے ۔ ” تجلی کی ڈاک” کالم کے تحت قارئین کے سوالات کے جواب دیئے جاتے تھے ۔ "کھرے کھوٹے” کالم میں کتابوں پر تبصرے ہوتے تھے ۔ تجلی کے تبصروں کو علمی حلقوں میں بڑی پزیرائی حاصل تھی ۔ شاعری اور ادبی تحریروں پر تجلی کی تنقید کو سند کا درجہ حاصل تھا ۔ کیوں کہ عامر عثمانی انتہائی بے باک، امانت و دیانت اور غیر جانبداری کے ساتھ تبصرہ کرتے تھے ۔ اس کا کالم "مسجد سے میخانے تک ” بہت مقبول تھا ۔ مولانا اس کالم کو ملا ابن العربی مکی کے فرضی نام سے لکھتے تھے ۔ اس میں توہم پرستی، غلط رسم و رواج، بدعت اور خرافات پر انتہائی پرلطف، دلکش و دلفریب انداز میں غضب کا طنز ہوتا تھا ۔ جس میں زبان کی سلاست، بلاغت اور فصاحت کے جوہر نظر آتے ہیں ۔ نومبر 1949 سے مئی 1975 تک مولانا عامر عثمانی نے اور بعد میں مولانا کے داماد مولانا حسن احمد صدیقی نے 1980 تک تجلی کی ادارت کی ۔ تجلی کے بند ہونے کے بعد مولانا حسن الہاشمی کے نام سے ماہنامہ طلسماتی دنیا نکالا جو ان کے انتقال 4 نومبر 2020 تک جاری رہا ۔ تجلی کے خصوصی شماروں میں ایمان نمبر، خلافت نمبر، خلافت و ملوکیت نمبر، طلاق نمبر، مسلم پرسنل لا نمبر، تنقید نمبر، حاصل مطالعہ نمبر خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
اردو زبان وادب اور صحافت کا دیوبند کے حوالے سے جب بھی ذکر کیا جائے گا اس جداری (دیواری) پرچوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ کیوں کہ انہیں پرچوں نے اردو زبان وادب اور صحافت کو بے شمار درخشان ستارے مہیا کئے ہیں ۔ ان میں مولانا سید ممتاز علی دیوبندی، سید فضل الرحمن قاسمی، مولانا عامر عثمانی، سعید احمد اکبر آبادی، مولانا منظور نعمانی، اخلاق حسین قاسمی، مفتی ظفیر الدین مفتاحی، سید انظرشاہ کشمیری وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ ہندی روزنامہ بھاسکر کی رپورٹ کے مطابق مولانا وحیدالزماں کیرانوی نے اپنی تقرری کے بعد سے 1960 تک طلبہ کو زبان وادب اور صحافت کی طرف متوجہ کیا ۔ انہوں نے طلبہ کو کسی مسئلہ کی جڑ تک پہنچنے کے لئے تحقیق کرنا اور لکھنا سکھایا ۔ دیواری پرچہ کا آغاز 1926 میں مولانا حامد الانصاری غازی نے کیا ۔ انہوں نے پہلا پرچہ گل باغ کے نام سے نکالا تھا ۔ جس کا بعد میں نام بدل کر بہار باغ کر دیا تھا ۔ یہ پرچے ہفتہ روزہ تھے ۔ انہوں نے شیخ الہند کی یاد گار کے طور پر ہفتہ روزہ رسالہ المحمود جاری کیا ۔ 1927 میں فراغت کے بعد ہفتہ وار رسالہ مہاجر نکالا جو کئی رنگوں میں چھپتا تھا ۔ دیواری پرچے مولسری سے لے کر صدر دروازہ تک آج بھی چپکائے جاتے ہیں ۔ یہ رنگارنگ اخبار طلبہ خود تیار کرکے انتہائی خوبصورت فریموں میں لگاتے ہیں ۔ ان اخباروں میں قومی سطح کے اہم مسائل سے لے کر سلگتے ہوئے مسائل تک کو شامل کیا جاتا ہے ۔ خبروں کے علاوہ مضامین، تبصرے، غزل، نظم اور ادبی سہ پارے قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔
فارغین دیوبند آج بھی زبان وادب، صحافت اور سوشل میڈیا میں گراں قدر خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ مولانا حامد الانصاری غازی مشہور زمانہ اخبارات الجمعیت، مدینہ بجنور اور روزنامہ جمہوریت کے مدیر رہے ۔ مولانا منظور نعمانی نے الفرقان جاری کیا، مولانا اعجاز احمد قاسمی دیوبند ٹائمز کے مدیر رہے ۔ مولانا مطہرالدین شیرکوٹی مدینہ بجنور سے وابستہ ہوئے بعد میں مولانا آزاد نے انہیں البلاغ کے حلقہ ادارت میں شامل کیا ۔ مولانا جمیل مہدی نے سیماب اکبر آبادی کے شہرہُ آفاق ادبی رسالہ شاعر میں ادبی و صحافتی خدمات انجام دیں ۔ روزنامہ خلافت اور ہندوستان کو بھی ان کے قلم کا فیض حاصل تھا ۔فارغین دیوبند نے ہر دور میں زبان وادب اور صحافت میں اپنا لوہا منوایا ہے ۔ آج بھی صحافت سے وابستہ افراد کی ایک طویل فہرست مرتب کی جا سکتی ہے ۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں نمایاں کام کرنے والوں میں حقانی القاسمی، ڈاکٹر منور حسن کمال، عبدالقادر شمس مرحوم، عابد انور، منظر امام قاسمی، شمس تبریز قاسمی، عبدالوحد رحمانی، وارث مظہری، برہان الدین قاسمی، ابرار احمد اجراروی، فاروق اعظم قاسمی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ اردو صحافت کی دو سو سالہ تاریخ دیوبند اور رفقائے دیوبند کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ۔
دارالعلوم دیوبند
تذکرہ شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ (1918ء – 2010ء)-محمد روح الامین میُوربھنجی
دار العلوم دیوبند کے مایۂ ناز استاذ الاساتذہ، فن ہیئت و فلکیات کے ماہر، جامع المعقول والمنقول، دار العلوم دیوبند میں تقریباً پینسٹھ سال تدریسی خدمات انجام دینے والے عالم دین سابق شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ کی حیات و خدمات آج میرا موضوع تحریر ہے، ان کے بارے میں مندرجۂ ذیل کتابوں میں مواد موجود ہیں: (1) مجلہ الداعی؛ 2010ء کے مختلف شمارے، (2) ماہنامہ دار العلوم؛ 2010 – 11ء کے مختلف شمارے، (3) ”نقوش حیات“ و ”قافلۂ علم و کمال“ از مولانا خلیل الرحمن قاسمی برنی، (4) ”خدا رحمت کند“ و ”بے مثال شخصیت باکمال استاذ“ از مولانا ندیم الواجدی، (5) ”تاریخ دار العلوم“ جلد دوم از مولانا سید محبوب رضویؒ، (6) ”دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ“ از مولانا محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی، (7) ”وہ کوہ کَن کی بات“ از مولانا نور عالم خلیل امینیؒ، (8) ”ذکر رفتگاں“ جلد دوم از مفتی محمد سلمان منصورپوری۔ راقم تحریر نے اس مضمون میں مولانا ندیم الواجدی کی تحریر سے، مولانا خلیل الرحمن برنی قاسمی برنی کی کتاب نقوشِ حیات سے اور مولانا محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی کی دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ سے بہت استفادہ کیا ہے اور بعض باتوں کی تحقیق ان کی اولاد سے بھی کی ہے۔
ولادت و خاندان
شیخ نصیر احمد خاں 21 ربیع الاول 1337ھ بہ مطابق 23 دسمبر 1918ء کو بَسِی، ضلع بلند شہر، صوبجات متحدہ آگرہ و اودھ (موجودہ اترپردیش)، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے تھے (نقوش حیات میں شامل قاری شفیق الرحمن قاسمی و مولانا عبد الرؤوف غزنوی کی تحریروں سے پتہ چلا کہ شیخ کی سن ولادت دراصل 1335ھ بہ مطابق 1916ء ہے، جو بعض دفعہ ان حضرات نے شیخ سے بھی سنا تھا؛ دار العلوم دیوبند کے داخلہ فارم اور سرکاری دستاویزات کے مطابق وہی مشہور سن ہے)۔ ان کا خاندانی تعلق افغانستان کے بازیدخیل داؤد زئی قبیلہ سے تھا، ان کے اجداد میں سے شہباز خان وہ مورث اعلیٰ تھے، جو سب سے پہلے افغانستان سے ہندوستان آکر موضع بَسِی (ضلع بلند شہر، اترپردیش) میں آباد ہوئے۔ بلند شہر سے شمالی جانب تقریبا 45 کلومیٹر کی دوری پر پٹھان برادریوں پر مشتمل پر چند آبادیاں ”بارہ بستی“ کے نام سے موسوم ہیں، ”بَسِی“ انھیں میں سے ایک ہے، جس کے آباد کرنے والوں میں شیخ کے اجداد میں سے شہباز خان کا نام بھی آتا ہے۔ ان کے والد ماجد عبد الشکور خان انگریزی دور میں اعلیٰ سرکاری ملازم تھے؛ مگر دیندار اور علماء کے قدردان تھے، مولانا خلیل احمد انبیٹھویؒ کے مرید تھے۔ انھوں نے جب سنا کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے ”تحریک ترکِ موالات“ شروع کی ہے تو انگریزی ملازمت سے مستعفی ہو کر کاشتکاری کے ذریعے روزگاری میں مشغول ہوگئے۔
تعلیم و تربیت
شیخ نصیر احمد ابھی چار پانچ سال ہی کے تھے کہ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور شیخ اپنے بڑے بھائی مولانا بشیر احمد خان بلند شہریؒ کے زیر کفالت و تربیت آ گئے۔ مولانا بشیر احمد خاں ان دنوں مدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی، ضلع بلند شہر میں مدرس تھے تو اپنے چھوٹے بھائی کو بھی وہیں داخل کروادیا اور اس طرح شیخ نصیر احمد خاں نے وہیں رہ کر میزان سے بخاری تک کی کتابیں پڑھیں۔ 1362ھ بہ مطابق 1942ء میں جب مولانا بشیر احمد خاں دار العلوم میں بحیثیت مدرس تشریف لائے تو ساتھ میں شیخ نصیر احمد بھی دیوبند تشریف لائے اور دورۂ حدیث میں داخلہ لے کر دوبارہ دار العلوم سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی، اس وقت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی چوں کہ نینی الہ آباد کے جیل میں نظر بند تھے تو شیخ نے جامع ترمذی و صحیح بخاری شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی امروہویؒ سے پڑھی۔ 1363ھ بہ مطابق 1943ء میں جب شیخ الاسلام جیل سے رہا ہوکر تشریف لائے تو شیخ نصیر احمد خاں سہ بارہ شیخ الاسلام کے صحیح بخاری و جامع ترمذی کے اسباق میں شریک ہوئے، دیگر کتابوں کے اسباق میں بھی شرکت کی، اگلے دو سال بھی دار العلوم دیوبند میں رہ کر تجوید و قرات کی بہت سی کتابیں پڑھیں (جن میں سبعہ و عشرہ کی بھی کئی کتابیں شامل تھیں)، طب اور معقولات کی کئی کتابوں کے دروس میں بھی حاضر رہے اور ہدایہ آخرین، سراجی، تفسیر بیضاوی، دیوان متنبی، توضیح تلویح، مسلم الثبوت سمیت دیگر کئی کتابوں کے اسباق میں بھی شریک رہے۔
دار العلوم دیوبند میں شیخ کے اساتذہ
شیخ کے اساتذۂ دار العلوم میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی امروہویؒ، مولانا بشیر احمد خان بلند شہریؒ، مولانا عبد الخالق ملتانیؒ، مولانا عبد الحق اکوڑویؒ، قاری محمد طیب قاسمیؒ، قاضی شمس الدین گجرانوالہؒ، مولانا حافظ عبد الرحمن امروہویؒ، قاری حفظ الرحمن پرتاب گڑھیؒ اور حکیم محمد عمر دیوبندیؒ قابل ذکر ہیں۔
تدریس و دیگر خدمات
فراغت کے بعد ملتان کے ایک بڑے مدرسے میں صدر القراء کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا؛ مگر بڑے بھائی نے اتنے دور بھیجنا گوارہ نہ کیا، پھر 1365ھ بہ مطابق 1946ء میں بحیثیت اعزای مدرس دار العلوم دیوبند میں شیخ کا تقرر ہوا، اولا دو سال عارضی پھر 28 صفر 1367ھ کو مستقل استاذ مقرر ہوئے۔ شیخ نصیر احمد خاں نے 1365ھ بہ مطابق 1946ء سے 1429ھ بہ مطابق 2008ء تک قمری سال کے لحاظ سے تقریباً پینسٹھ سال اور شمسی سال کے اعتبار سے تقریباً تریسٹھ سال دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دیں، میزان سے بخاری تک کی کتابیں پڑھانے کا شرف شیخ کو حاصل ہوا۔ 1391ھ بہ مطابق 1971ء سے 1397ھ بہ مطابق 1977ء کے درمیان حدیث کی تین کتابیں: شرح معانی الآثار (طحاوی شریف)، مسلم شریف جلد ثانی اور مؤطا امام مالک شیخ سے متعلق رہیں۔ 1397ھ بہ مطابق 1977ء میں دار العلوم میں مدرس بننے کے تقریباً بتیس سال بعد دار العلوم دیوبند کے اس وقت کے شیخ الحدیث مولانا شریف حسن دیوبندیؒ کی وفات کے بعد صحیح بخاری کا درس شیخ نصیر احمد خاں سے متعلق ہوا، ایک سال مکمل بخاری شریف کا درس دیا، پھر اخیر تک جلد اول ہی کا درس شیخ سے متعلق رہا۔ 1429ھ بہ مطابق 2008ء تک تقریباً بتیس سال شیخ نے بخاری کا درس دیا اور ان کا درس بخاری بے حد مقبول تھا، ان سے صرف صحیح بخاری پڑھنے والے طلبہ کی تعداد کم و بیش پچیس ہزار لکھی ہوئی ہے۔ 1391ھ بہ مطابق 1971ء سے 1414ھ بہ مطابق 1994ء تک تقریباً تئیس سال شیخ نے دار العلوم دیوبند کی نیابت اہتمام کے فرائض بھی انجام دیے۔ نیز 1412ھ بہ مطابق 1991ء سے 1429ھ بہ مطابق 2008ء تک تقریباً اٹھارہ سال شیخ؛ دار العلوم دیوبند کی صدارت تدریس کے منصب پر فائز رہے۔ 1429ھ بہ مطابق 2008ء میں شیخ نے پیرانہ سالی اور مختلف جسمانی عوارض کی وجہ سے دار العلوم دیوبند کی ذمہ داریوں سے معذرت کی تحریر پیش کی، مجلس تعلیمی (منعقدہ: ربیع الاول 1429ھ) میں شیخ کی تحریر پیش کی گئی، مجلس شوریٰ نے شیخ کی معذرت قبول کرتے ہوئے مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کو شیخ کی جگہ پر ترقی دیتے ہوئے انھیں شیخ الحدیث مقرر کیا، پھر مجلس عاملہ (منعقدہ: یکم جمادی الثانی 1429ھ) نے شیخ کی طویل تدریسی و انتظامی خدمات کے اعتراف میں ان کے لیے پندرہ ہزار ماہانہ وظیفہ جاری کرتے ہوئے مفوضہ ذمہ داریوں سے انھیں سبکدوش کر دیا۔
تلامذہ
شیخ نصیر احمد خاںؒ کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے، دار العلوم دیوبند میں اکثر اساتذہ ان کے شاگرد ہیں، ان کے مشہور تلامذہ میں مولانا وحید الزماں کیرانویؒ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی دربھنگویؒ، مولانا خورشید عالم دیوبندیؒ، مفتی سعید احمد پالن پوریؒ، مولانا سید ارشد مدنی، مفتی ابو القاسم نعمانی، قاری محمد عثمان منصورپوریؒ، مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ، مولانا عبد الخالق مدراسی، مولانا عبد الخالق سنبھلیؒ، علامہ قمر الدین گورکھپوری، مولانا نور عالم خلیل امینیؒ، مفتی محمد امین پالن پوری اور مولانا مجیب اللّٰہ گونڈوی، مولانا عبد العلی فاروقی، مفتی عبد الرزاق بھوپالیؒ، مفتی محمد سلمان منصورپوری، مولانا واجد حسین دیوبندیؒ، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر، مولانا واصف حسین ندیم الواجدی، مولانا عبد الرؤوف خان غزنوی، مفتی یاسر ندیم الواجدی وغیرہم بھی شامل ہیں، ان کے علاوہ ملک و بیرون ملک کے بہت سے نامور علماء بھی ان کے تلامذہ کے زمرہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔
فن ہیئت و فلکیات
فن ہیئت کے وہ ماہر تھے اور من جانب اللّٰہ انھیں اس فن میں بھی خصوصی درک و گیرائی حاصل تھی، جس کا اعتراف ان کے معاصرین کو بھی تھا، دار العلوم میں اس فن کی مشہور کتاب ”التصریح“ سالہا سال ان کے زیر درس رہی، اس فن میں انھوں نے ایک رسالہ بھی لکھا تھا، نیز ایک معروف کتاب ”فتحیہ“ پر شیخ نے حواشی بھی لکھے تھے، جو مکتبہ دار العلوم سے چھپا تھی۔ اس فن میں ان سے استفادہ کرنے والے تلامذہ بھی ملک و بیرون ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، جن میں ایک نام مولانا ثمیر الدین قاسمی مقیم حال مانچسٹر، انگلینڈ بھی ہیں، جو اس وقت فن ہیئت و فلکیات کے ماہر عالم دین شمار کیے جاتے ہیں اور خصوصیت سے رؤیت ہلال کے سلسلے میں ان سے رائے لی جاتی ہے، ان کی اس فن میں لکھی ہوئی کتابوں میں ”ثمرۃ الفلکیات“، ”رویت ہلال علم فلکیات کی روشنی میں“ اور ”ثمیری کیلنڈر“ بھی شامل ہیں۔
بیعت و خلافت
شیخ نصیر احمد خاں کا اصلاحی تعلق شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے رہا، پھر اکثر تحریروں کے مطابق شیخ کا تعلق حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمیؒ سے قائم ہوا اور ان کی طرف سے خلافت سے بھی نوازے گئے اور بندہ کی تحقیق کے مطابق شیخ الاسلام نے شیخ کو اپنے خلیفہ قاری اصغر علی سہسپوریؒ سے منسلک کر دیا تھا، شیخ نصیر احمد کو؛ قاری اصغر علی صاحب نے خلافت سے بھی نوازا تھا؛ مگر بہر دو صورت شیخ انتہائی تواضع کی بنا پر اس تعلق کو لوگوں سے مخفی رکھتے تھے اور بیعت وغیرہ نہیں کیا کرتے تھے۔
خدمت و تفسیر قرآن
شیخ نے 1350ھ سے 1414ھ تک تقریباً پینسٹھ سال تراویح میں قرآن سنایا۔ تمل ناڈو کے کوئمبتور شہر کی مختلف مساجد میں شیخ نے تقریباً 27 سال تک تروایح میں قرآن سنایا اور وہاں شیخ تفسیر قرآن بھی کیا کرتے تھے اور مختلف جگہوں پر شیخ کے اصلاحی مواعظ بھی ہوا کرتے تھے، جس سے اس علاقے کے لوگوں میں عقائد و اعمال میں خاصا سدھار آیا اور خاصے لوگوں نے اپنے بچوں کو دینی تعلیم دے کر انھیں عالم دیں بنایا؛ یہاں تک کہ انھیں طلبہ میں سے ایک مولانا محمد الیاس قاسمی نے کوئمبتور میں شیخ کی یاد میں ”دار العلوم نصیریہ“ کے نام سے ایک مدرسہ بھی قائم کیا ہے، جہاں ناظرہ و حفظ، دینیات اور ابتدائی عربی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
اوصاف و کمالات
شیخ نیک صالح، حلیم و بردبار، نرم خو و خوش اخلاق انسان تھے، نماز باجماعت کے پابند تھے، بزرگوں اور اسلاف کی یادگار تھے، انتہائی متواضع اور منکسر المزاج تھے، بشاشت وخندہ پیشانی سے ملنے والوں کا استقبال کیا کرتے تھے، بڑوں کے ساتھ چھوٹوں کا بھی احترام کیا کرتے تھے، بلا امتیازِ عمر اہل علم کے نہایت قدرداں تھے، اعلیٰ ظرف و کریم النفس شخصیت کے حامل تھے اور طلبہ میں بھی بے حد محبوب و مقبول تھے۔
پسماندگان
شیخ کی وفات کے وقت ان کے بقید حیات پسماندگان میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں میں ضمیر احمد خان، رفیع احمد خان، عزيز احمد خان، شكيل احمد خان، عقيل احمد خان شامل ہیں اور ماشاء اللّٰہ سبھی حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہیں، جن میں سے اب تک حافظ عزیز احمد خاں اللّٰہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔
وفات
شیخ نصیر احمد خاںؒ کا انتقال 19 صفر 1431ھ بہ مطابق 4 فروری 2010ء کو جمعرات کی شب میں؛ مشہور قول کے مطابق ہجری تقویم کے لحاظ سے تقریباً 95 اور شمسی تقویم کے اعتبار سے تقریباً 92 سال کی عمر میں شہر دیوبند میں ہوا۔ نماز جنازہ احاطۂ مولسری دار العلوم دیوبند میں ہزاروں کے مجمع نے قاری محمد عثمان منصورپوریؒ کی اقتدا میں ادا کی اور قاسمی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
دارالعلوم دیوبند کی طرف سے شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کی شدید مذمت، حکومت سے ملزمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
دیوبند: عالمی شہرت یافتہ اسلامی تعلیمی ادارہ دارالعلوم دیوبند نے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی کی شدید مذمت کرتے ہوئے توہین رسالت کے قانون کو سخت بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بی جے پی کے ترجمان نوپور شرما اور نوین جندل کی جانب سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کے بعد ملک کے مسلمانوں اور مسلم ممالک میں ہونے والے مظاہروں کے درمیان دنیا کے مشہور اسلامی تعلیمی ادارہ دارالعلوم دیوبند نے بھی منگل کو اپنا ردعمل ظاہر کیا اور سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ توہین رسالت کے قانون کو مزید سخت بنایا جائے تاکہ آزادی اظہار کے نام پر کسی مذہب یا مذہبی شخصیت کی توہین اور مخالفت نہ کی جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک ایک سیکولر ملک ہے جو تمام مذاہب کو تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن گزشتہ چند سالوں میں فرقہ پرست اور انتہا پسند عناصر کی جانب سے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا معمول بن گیا ہے۔ یہی نہیں مذہبی شخصیات اور مذہبی کتابوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں فرقہ واریت بڑھ رہی ہے جس سے عالمی سطح پر ہمارے ملک کے سیکولر اور انصاف پسند امیج کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ بات دارالعلوم دیوبند کے لیے بھی تشویشناک ہے کیونکہ آزاد ہندوستان اور اس کے سیکولر کردار میں ہمارے علمائے کرام کی عظیم قربانیاں شامل ہیں، دارالعلوم نے اس ملک کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔
مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ ملک کے مسلمان آج بھی ملک کی سلامتی اور امن کے لیے بہت زیادہ مصائب جھیل رہے ہیں لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی قطعاً ناقابل برداشت ہے، جس پر خاموشی اختیار کی جائے۔ ناممکن ہے
انہوں نے کہا کہ ملک میں حالیہ گستاخ رسول حضرت محمد ص کی شان میں گستاخی کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے اور توھین رسالت قانون کو مزید سخت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس پر ٹھوس اور ضروری اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ دنیا میں ہمارے ملک کا سرکلر کردار اور عزت برقرار رہے اور کوئی مذہبی شخصیات کے احترام کو مجروح کرکے ماحول کو خراب نہ کر سکے۔
خدا یاد آئے جنھیں دیکھ کر: حضرت استاد محترم مولانا عبد الخالق سنبھلی ـ محمد ابو طلحہ داری کریم نگری
دار العلوم دیوبند میں اس وقت کے صف اول کے کئی اساتذہ دو سال کے مختصر سے وقفے میں داغ مفارقت دے گئے، جس کی وجہ سے دل کی دنیا سونی سونی ہوگئی ہے۔
حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی کی وفات کا غم ابھی ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک اور بڑی شخصیت حضرت استاد محترم مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کا وقت موعود آپہنچا۔ وہم و گمان میں بھی اس بات کا دور دور تک کوئی تصور نہیں تھا کہ اتنی جلدی آپ کا سایہ شفقت بھی ہم طلبہ کے سروں سے اٹھ جائے گا۔ پوری امت مسلمہ کے لیے اور خاص طور پر حلقہ دار العلوم دیوبند کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔
حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کی شخصیت بہت ہی نرم مزاج، وشیریں زبان، آپ کی زبان سے نکلنے والا لفظ لفظ بھی شیرینی کی مٹھاس لیے ہویے ہوتا تھا۔
دار العلوم دیوبند میں آپ مختلف اوقات میں مختلف کتابوں کا درس دیتے رہیے، جو تمام ہی طلبہ میں مقبول تھا، جس وقت ہم دار العلوم میں داخلے کے لیے گیے، تو آپ کے درس متنبی کی شہرت کا بہت چرچاسنا، اس لیے کہ آپ بیک وقت اردو، عربی دونوں زبانوں پر ہر اعتبار سے مکمل دست رست رکھنے والے تھے۔ جوں ہی ذیقعدہ کے مہینہ میں تعلیمی سلسلہ کا آغاز ہوا تو عشاء بعد ابن ماجہ شریف کا درس آپ سے متعلق تھا۔
وقت کی پابندی کے ساتھ درسگاہ میں تشریف لاتے اور ابن ماجہ شریف کا درس دیتے۔ زبان کی مٹھاس کا منظر یہاں پر بھی دیدنی ہوتا ۔ اور ایک البیلے انداز میں آپ کا درس ہوتا، ایسا نہیں تھا کہ آپ ایک خشک مدرس تھے، بلکہ وقفے وقفے سے سبق میں ظرافت بھرے جملے استعمال کرتے اور ظرافت سے بھر پور واقعات سناتے جو آج بھی بار بار یاد آتے رہتے ہیں۔
حضرت جب مناقب صحابہ کا آغاز فرمایا تو بار بار اس شعر کا ورد اپنے مخصوص لب ولہجہ میں کرتے جو لہجہ پھر کبھی دار العلوم کی دور حدیث میں نہیں سنا جاسکتا۔
چراغ مسجد ، محراب و منبر
ابو بکرو فاروق و عثمان وحیدر
اسی طرح آپ ہی نے ایک مرتبہ دوران درس شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رح کی وہ بات بھی سنائی کہ جب شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رح، ہندوستان تشریف لایے، پھر دار العلوم دیوبند آیے تو آپ نے دار العلوم دیوبند کو دیکھا تو علامہ اقبال رح کے یہ اشعار کا عربی میں ترجمہ کیا:
رہ گئی رسم اذان، روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
اور شیخ نے فرمایا کہ علامہ اقبال اگر دار العلوم دیوبند کو دیکھتے تو اپنے اس شعر سے رجوع کرتے۔ اس لیے کہ دار العلوم دیوبند میں روح بلالی بھی ہے، تلقین غزالی بھی ہے۔ حضرت استاد محترم نے ایک مرتبہ یہ بات بھی ارشاد فرمائی کہ حدیث کی عبارت میں غلطی کرنا، محدثین نے اس کو بھی ذات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کذب منسوب کرنے میں شمار کیا ہے، اس لیے عبارت کو صحیح صحیح پڑھنا چاہیے۔
حضرت استاد محترم کبھی درس میں طلبہ پر ناراض نہیں ہوتے۔
اور منکرین حدیث، پر جم کر برستے وہاں پر آپ کی صفت جلالی کا مظاہرہ ہوتا۔ اسی طرح گستاخ صحابہ کی بھی خبر لیتے اور اپنے ہی نرالے انداز میں ان کی دھلائی کرتے۔
حضرت استاد محترم کی بے شمار خوبیاں ہیں، جن پر ان شاءاللہ آپ کے بے شمار فیض یافتہ شاگرد روشنی ڈالیں گے۔
جس وقت آپ کا نصاب مکمل ہونے والا تھا، طلبہ نے آپ سے عربی میں ایک درس کی فرمائش کی تو آپ نے اسی اپنے مخصوص انداز میں برجستہ عربی میں درس دیا، اللہ اللہ کیسی کیسی شخصیات کا سایہ ہمارے سروں سے اٹھتا جارہا ہے۔
ارادہ تو تھا کہ پھر جب دار العلوم دیوبند جانا ہوگا، تو آپ کے درس میں بیٹھ کر انمول موتی پھر ایک بار چننے کا موقع ملتا، لیکن قبل اس سے کہ ہم دار العلوم دیوبند پہنچے، آپ سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔
اللہ رب العزت والجلال سے دعا ہے کہ اللہ دار العلوم دیوبند میں موجود حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ، بحر العلوم حضرت مولانا نعمت الله صاحب اعظمی مدظلہ،حضرت مفتی ابوالقاسم صاحب مدظلہ، حضرت مولانا عبد الخالق صاحب مدراسی مدظلہ اور تمام ہی اساتذہ کے عمروں کو صحت و سلامتی کے ساتھ دراز کرے، اور ہم سب کو اکابر سے استفادہ کی توفیق عطاء فرمائے اور اللہ حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کی بال بال مغفرت فرمائے، قبر کو نور سے بھر دے، تمام متعلقین، پس ماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے آمین
استاذ دارالعلوم دیوبند
آج 21مئی 2021 نماز جمعہ کے معا بعد اس خبر صاعقہ اثر نے انتہائی مضمحل کردیا کہ ہمارے ایک اور بزرگ استاذ،دارالعلوم دیوبند کے معاون مہتمم امیر الہندحضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری رح بھی طویل علالت کے بعد رفیق اعلیٰ سے جاملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ان للہ مااخذ ولہ ما أعطی۔
وبا کے ان ایام میں جب کہ دار العلوم دیوبند اپنے کئی قابل قدر اساتذہ کی خدمات سے محروم ہوچکا ہے، اس حادثہ فاجعہ سے اس کو اور پوری ملت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ان پے درپے حادثات کی وجہ سے دار العلوم کے طلبہ اور وابستگان جس کربناک کیفیت سے گزر رہے ہیں،اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت قاری صاحب اسلامیان ہند کا قیمتی سرمایہ اور کاروان ملت اسلامیہ کے قافلہ سالاروں میں تھے۔جمعیۃ علماء ہند کے صدر عالی قدر اور دارالعلوم دیوبند کے کئی شعبوں کے روحِ رواں تھے۔وہ خانوادہ نبوت سے تعلق رکھنے والے ایک خوش اخلاق ،اعلی اقدار کے حامل باکردار انسان تھے۔ ان کے ایک ایک عمل،ظاہری رکھ رکھاؤ اور چہرے بشرے سے شرافت ونجابت عیاں تھی۔ وہ ایک اصول پسند مہتمم،طلبہ سے بے انتہا محبت کرنے والے اور ان کی بہتری وراحت کے لیے اپنے آرام کو تج دینے والے مشفق استاذ،ماتحتوں کا خوب خیال رکھنے والے منتظم ،ملت کی زبوں حالی اور معاشرے کے بگاڑ پر تڑپنے اور اس کی بہبود کے لیے ہمہ وقت منصوبہ بندی کرنے والے مدبرومفکراور بالغ نظر وبابصیرت عالم دین تھے،آپ کی رحلت سے دارالعلوم دیوبند اور اس کے مختلف شعبوں کا جتنا بڑا نقصان ہوا ہے،شاید ہی کسی اور شخصیت کے جانے سے اتنا زیادہ نقصان ہوا ہو۔ حضرت قاری صاحب سے1999ء میں ہمیں موطا امام مالک پڑھنے کا موقع ملا،اس وقت آپ استاذ حدیث ہونے کے ساتھ دار العلوم کے نائب مہتمم بھی تھے، ہمارےرفقاء درس میں آپ کے فرزند گرامی جناب مفتی عفان صاحب بھی تھے۔
طلبہ کے لیے آپ کی شفقت مثالی تھی۔معمولی طالب علم بھی اپنا دکھڑا لے کر حاضر ہوتا تو اس کی بات بھی بڑی توجہ سے سنتے جس سے اس کا دل بڑا ہوجاتا تھا۔طلبہ کی تقریری وتحریری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے،چنانچہ طلبہ دار العلوم کی دو مرکزی انجمنوں النادی العربی اور مدنی دارالمطالعہ کے تا دمِ آخر نگراں وسرپرست رہے،اور آپ کے یہاں اعزازی یا رسمی نگرانی یا کسی مقالے اور کتاب پر سرسری نظر ثانی کا کوئی خانہ نہیں تھا،بلکہ نظر ثانی اور نگرانی کا حق ادا کردیا کرتے تھے، انجمنوں کے پروگراموں کی جزئیات تک پر آپ کی گہری نظر تھی، دار الحدیث میں پیرانہ سالی ، ضعف اور مشغولیت کے باوجود دو دو بجے رات تک پروگرام سماعت فرماتے اور کسی بھی طرح کی اصلاح وتربیت سے دریغ نہیں کرتے۔ عربی سے آپ کو خاص شغف تھا،النھضۃ الادبیۃ آپ ہی کی تحریک پر شائع ہورہاہے،النادی کے پروگرام میں عربی میں آپ کا کلیدی خطاب ضرور ہوا کرتا تھا۔ میرے مشاہدے کے مطابق اتنے بڑے استاذ اور اتنے بڑے عہدے دار کی حیثیت سے طلبہ کی تربیت وتشجیع کے لیے سب سے زیادہ آپ ہی وقت فارغ کرتے تھے۔اس لیے اس حوالے سے طلبہ میں آپ کو غیر معمولی عظمت و جلالت حاصل تھی۔ دوسرے طلبہ کے لیے غیر معمولی اخلاص کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو صاحبزگان عطا کیے،علم وعمل اور صلاح و قابلیت کے اعتبار سے انھیں خاص امتیاز عطا کیا۔ لاک ڈاؤن کے سبب طویل تعلیمی تعطل کے دوران معزز اراکین مجلس شوریٰ نے جب آپ کے کاندھوں پر مساعدت اہتمام کی ذمہ داری ڈال دی تو آپ نے بڑی مستعدی اور تن دہی کے ساتھ اس خدمت گرامی کو انجام دیا،قبلہ حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے لیے بڑا سہارا ثابت ہوءے،حضرت کے مشورے سے آپ نے سارے انتظامی شعبوں کو انتہائی متحرک وفعال بنادیا،تعلیمی تعطل کے ایام کو کارآمد بنانے کے لیے تحقیق وتصنیف اور اصلاح معاشرہ کی کمیٹیاں تشکیل دیں اور سارے اساتذہ کو کام میں لگادیا اور روزانہ کی بنیاد پر کارکردگی کا جائزہ لیتے رہے جس سے دار العلوم کے اساتذہ اور عامۃ المسلمین کو خاطر خواہ فائدہ پہنچا،مستقبل میں بھی دارالعلوم کو آپ سے بڑی توقعات وابستہ تھیں لیکن تقدیر ہر تدبیر اور تمنا پر غالب رہتی ہے۔
آخری بار آپ سے ملاقات ماہ شعبان کے اواخر میں دیوبند کی سب سے بڑی تقریب گاہ فردوس گارڈن میں ہوئی،جہاں آپ نے انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ اپنے پوتے حافظ محمد ہشام سلمہ بن جناب مفتی محمد عفان صاحب کے تکمیل حفظ کا پروگرام رکھا تھا اور شاندار پر تکلف عشائیہ کا بھی نظم تھا،اس مختصر اور باوقار پروگرام میں مخدوم گرامی حضرت مولانا سید ارشد مدنی حفظہ اللہ سمیت علم و عمل کی پوری ایک کہکشاں موجود تھی،میں نے اپنی زندگی میں تکمیل حفظ پر حضرت قاری صاحب رح کی طرح کسی اور کو اس قدر اہتمام اور دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ واقعی حضرت قاری صاحب رح کو قرآن مقدس سے خاص لگاؤ تھا،آپ خود بھی اچھا قرآن پڑھتے تھے اور دونوں فرزندانِ گرامی اور پوتوں کی ایسی تربیت کی ہے کہ ان کی تلاوت سن کر سامعین کی روح سرشار ہوجاتی ہے۔ اس پروگرام کے بعد مجھے ایک سفر میں جانا تھا،میں نے ملاقات کی اور سفر کی بابت عرض کیا تو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ دعائوں سے نوازا،لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ آخرت اور رب کریم سے ملاقات کے سفر پر تو در اصل آپ روانہ ہونے والے ہیں۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی وسیع رحمتوں سے ڈھانپ لیں،حسنات کو قبول فرمائیں،صاحبزادگان سمیت جملہ لواحقین اور تلامذہ ومتعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائیں مختصر سوانحی خاکہ:
اپنے وطن مالوف منصور پور ضلع مظفر نگر میں 12اگست 1944ء کو سادات کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم وطن ہی میں حاصل کی ، والد محترم جناب سید عیسیٰ صاحب رح نے آپ کی تعلیم و تربیت کی غرض سے دیوبند میں ہی سکونت اختیار کر لی تھی،اس لیے فارسی اور عربی کی مکمل تعلیم دارالعلوم دیوبند سے ہی ہوءی، 1965 میں دورہ حدیث شریف سے فرسٹ پوزیشن سے فراغت حاصل کی اس کے بعد دیگر فنون کی تکمیل کے ساتھ حضرت قاری حفظ الرحمن صاحب رح سےتجوید و قرات میں اور حضرت مولانا وحید الزمان کیرانوی رح سےادب عربی میں مہارت حاصل کی، اولا جامعہ قاسمیہ گیا میں پانچ سال تک تدریسی خدمات انجام دیں، پھر جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں گیارہ سال تک مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھائیں ـ
1982ء میں دار العلوم دیوبند میں مدرس مقرر ہوئے، درس و تدریس کے ساتھ مختلف انتظامی ذمہ داریاں بھی آپ سے متعلق رہیں، 1986 میں عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت کے موقع پر آپ کو کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کا ناظم مقرر کیا گیا ،1999ءمیں تدریس کے ساتھ نائب مہتمم مقرر ہوئے ،اور نو سال تک اس اہم عہدہ پر فائز رہے،٢٠٨ءمیں جمعیت علماء ہند( میم ) کے قومی صدر منتخب کیے گئے ۔دارالعلوم کی مجلس شوریٰ منعقدہ صفر 1442ھ اکتوبر 2020ء نے آپ کو دارالعلوم دیوبند کا معاون مہتمم منتخب کیا۔ 8شوال المکرم 1442ھ 21مءی 2021ء عین جمعہ کی نماز کے وقت سوا بجے 76سال کی عمر میں آخری سانس لی۔ پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو فرزندانِ گرامی مفتی سلمان ومفتی عفان صاحبان اور ایک صاحب زادی ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے معاون مہتمم، استاذِ حدیث و جمعیت علماے ہندکے صدر قاری عثمان منصور پوری کا انتقال
دیوبند: دارالعلوم دیوبند کے،استاذِ حدیث، معاون مہتمم اور جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری کا انتقال ہوگیا ہے، گذشتہ 6 مئی کو قاری محمد عثمان منصورپوری کی کورونا رپورٹ پازیٹو آئی تھی جس کے بعد سے وہ دیوبند میں واقع اپنی رہائش گاہ پر قرنطینہ میں تھے اور گھر پر ہی ان کا علاج چل رہا تھا۔ لیکن طبیعت زیادہ بگڑجانے کی وجہ سے انہیں علاج کی غرض سے گڑگاﺅں کے میدانتا میڈیسٹی ہاسپٹل میں داخل کرایا گیا تھا، مگر آج صبح انھیں وہاں سے ڈسچارج کردیا گیا تھا، جس کے بعد انھیں دیوبند لے جایا گیا جہاں ان کا انتقال ہوگیاـ
قاری صاحب کا تعلق شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے خانوادے سے تھا،وہ مولانا مدنی کے داماد تھے اور معروف علما و اساتذۂ حدیث مفتی سلمان منصور پوری اور قاری عفان منصورپوری ان کے صاحبزادے ہیں۔ قاری صاحب کی پیدایش منصور پور ضلع مظفر نگر میں ۱۹۴۴ کو ہوئی،فارسی و عربی کی مکمل تعلیم دارالعلوم دیوبند سے حاصل کی،۱۹۶۵ میں فضیلت کی تکمیل کرنے کے بعد ۱۹۶۶ میں تکمیل فنون،تجوید و قرائت اور عربی ادب کا کورس کیا۔ عملی زندگی کا آغاز جامعہ قاسمیہ،گیا(بہار)سے کیا اور وہاں پانچ سال مدرس رہے،گیارہ سال جامعہ اسلامیہ ،جامع مسجد امروہہ میں تدریسی خدمت انجام دی اور انقلاب کے بعد ۱۹۸۲ میں دارالعلوم دیوبند میں استاذ مقرر ہوئے،یہاں مشکوۃ شریف،موطا امام مالک اور اسالیب الانشا وغیرہ ان کے زیرِ درس رہیں،۱۹۹۹ میں انھیں نائب مہتمم بنایا گیا اور ۲۰۰۸ میں جمعیت کے اختلاف اور ایک گروپ کے صدر بنائے جانے تک وہ اس عہدے پر برقرار رہے۔ ابھی ۲۰۲۰ میں انھیں دوبارہ معاون مہتمم بنایا گیا تھا۔ ان کی تنظیمی صلاحیت معروف و متعارف تھی اور اپنی نیابت اہتمام کے دور میں انھوں نے دارالعلوم کے نظم و نسق کو بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح ان کی تربیتی ہنر مندی بھی مثالی تھی،انھوں نے اپنے دونوں صاحبزادوں سمیت خاندان کے تمام بچوں اور بہت سے شاگردوں کی مثالی تربیت کی۔
اس موقعے پر قاری عثمان منصورپوری کے دونوں بیٹوں مفتی سلمان منصورپوری اور قاری عفان منصورپوری نے سبھی لوگوں سے قاری صاحب کے لیے دعائے مغفرت کی اپیل کی ہے۔
نئی دہلی: (قندیل ڈیسک) دارالعلوم دیوبند کے ممتاز استاذ،علم حدیث و فن اسماء الرجال میں دست گاہ رکھنے والے عالم مولانا حبیب الرحمن اعظمی بھی رحلت فرماگئےـ
سنن ابو داؤد کے سبق کے دوران مولانا علم حدیث کے ممتاز استاذ اور کئی اہم کتابوں کے مصنف تھے ـ آپ نے علمِ حدیث کے متعلقات پر کئی اہم کتابیں لکھیں، امام ابوداؤد کے اساتذہ پر عربی تصنیف، علم حدیث کی حجیت پر ایک رسالہ، لگ بھگ تین عشروں تک ماہنامہ "دارالعلوم ” کی ادارت کی، اس میں شائع ہونے والے علمی، تاریخی و سوانحی مضامین مقالاتِ حبیب کے نام سے تین جلدوں میں شائع ہوئےـ پہلی جلد میں ہندوستان میں احیاے علم و فکر، صحابۂ کرام کی عظمت اور فرقِ باطلہ کے تعاقب پر مشتمل مضامین شامل ہیں، دوسری جلد میں مختلف عبادتوں اور سماجی زندگی سے متعلق مسائل پر دقیق بحثیں کی ہیں، تیسری جلد میں سیرت پاک، ازواج مطہرات، تعدد ازدواج، اجودھیا کی تاریخی حیثیت، امام ابو حنیفہ، اجودھیا کے مشاہیر علما و مشائخ اور دیگر ارباب فضل و کمال کا تذکرہ ہےـ ان کے علاوہ بھی مولانا نے کئی اہم علمی و فکری کتابیں تصنیف کیں ـ ان کا درسِ حدیث اپنے خاص رنگ و آہنگ کی وجہ سے طلبہ و علما میں بے پناہ مقبول تھاـ جب وہ مسندِ تدریس پر بیٹھے ہوتے اور بولنا شروع کرتے تو معلومات کا آبشار بہتا اور فن حدیث کی باریکیوں اور لطائف و نکات پر دلچسپ و معلومات افزا گفتگو کرتےـ مولانا اپنے وطن اعظم گڑھ میں تھے، وہیں طبیعت خراب ہوئی جس کے بعد انھیں داخل ہسپتال کیا گیا تھا مگر مولانا جاں بر نہ ہو سکے اور آج ان کا انتقال ہوگیاـ مولانا کا تعلق جگدیش پور اعظم گڑھ سے تھا، 1945میں پیدایش ہوئی، مطلع العلوم بنارس اور دارالعلوم مئو میں ابتدائی و ثانوی عربی تعلیم حاصل کی اور 1962میں دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی تکمیل کی ـ 1965میں جامعہ اسلامیہ بنارس میں استاذ بنائے گئےـ 1982میں دارالعلوم دیوبند میں انتظامیہ کی تبدیلی اور انقلاب کے بعد، دارالعلوم نے ان کی خدمات حاصل کیں ـ یہاں مشکوة المصابیح اور سنن ابوداؤ جیسی اہم کتابیں ان کے زیر تدریس رہیں ـ وہ لگ بھگ پینتیس سال دارالعلوم کے رسالہ "دارالعلوم ” کے مدیر بھی رہےـ
استاذِ محترم مولانا نورعالم خلیل امینی کی یاد
(پہلی قسط )
مشہور صحافی اور دارالعلوم دیوبند کے سابق ترجمان عادل صدیقی کا انتقال،قاسمی قبرستان میں سپردِ خاک
دیوبند:(سمیر چودھری)دارالعلوم دیوبند کے میڈیا ترجمان و شعبہ محاسبی کے سابق ناظم اور مسلم فنڈ ٹرسٹ دیوبند کی منتظمہ کمیٹی کے رکن ،صحافی اور ادیب عادل صدیقی کا طویل علالت کے بعدآج اپنی رہائش گاہ محلہ خواجہ بخش میں تقریباً 91سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ۔ان کے انتقال کی خبر پر دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داران شہر کے سرکردہ افراد نے رہائش گاہ پر پہنچ کر اہل خانہ کو تعزیت مسنونہ پیش کی ۔مرحوم کافی دنوں سے صاحب فراش تھے ۔عادل صدیقی نے اعلیٰ تعلیم مکمل ہونے کے بعد سہارنپور ،مظفر نگر اور سیوہارا میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔بعد ازاں وہ حکومت ہند کے اطلاعات و نشریات کے محکمہ سے بطور اسٹنٹ انفارمیشن آفیسر منسلک رہے ۔ 1981میں اپنے ریٹائرڈمنٹ کے بعد قومی آواز،الجمعیۃ اور آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ رہے ، اسی کے ساتھ ساتھ ماہنامہ یوجنا اور آج کل کے نائب مدیر اعلیٰ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں ۔عادل صدیقی اردو اور انگریزی زبانوں کے ماہر تھے ملک میں مختلف رسائل ،میگزین اور اخبارات میں ان کے مضامین اور تجزیے تسلسل کے ساتھ شائع ہوتے رہتے تھے ۔انہوںنے انگریزی زبان کی متعدد کتب کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ۔ریٹائر منٹ کے بعد عادل صدیقی دیوبند واپس آ گئے اور دارالعلوم دیوبند کے دفتر محاسبی کے ناظم اور ادارہ کے ترجمان کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ۔اس دوران وہ آل انڈیا ریڈیو کے مخصوص پروگرام ’’اردو سروس‘‘کے مختلف پروگراموں میں عرصہ دراز تک شرکت کرتے رہے ۔عادل صدیقی کی وفات پردارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کے لیے دعاء مغفرت کی۔مسلم فنڈ ٹرسٹ دیوبند کے منیجر سہیل صدیقی ،سابق چیئر مین انعام قریشی اور یوپی رابطہ کمیٹی کے سکریٹری ڈاکٹر عبید اقبال عاصم نے اپنے تعزیتی پیغامات میں عادل صدیقی کی وفات کو اردو صحافت کا بڑا حادثہ قرار دیا۔انہوںنے کہا کہ عادل صدیقی نے صاف ستھری صحافت کے جو نقوش ثبت کئے ہیں ہو نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ان کا انتقال دنیائے اردو صحافت کا عظیم نقصان ہے ۔انہوںنے کہا کہ مرحوم کی خوش اخلاقی و خوش مزاجی ضرب المثل تھی ۔ملک کے صحافیوں میں بلند قامتی کے باوجود ان کی عاجزی و انکساری قابل دید و لائق تقلید تھی ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔ دیوبند کے تمام صحافیوں اور سینئر صحافی اشرف عثمانی نے بھی عادل صدیقی کی وفات کو صحافت کا خسارہ عظیم قرار دیا ۔نماز جنازہ بعد نماز عصر احاطہ مولسری میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے ادا کرائی ،بعد ازاں قاسمی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔
سیکولر پولیٹکس یا آئیڈینٹیکل پولیٹکس؟ کشمکش کا شکار ہندوستانی مسلمان ـ مسعود جاوید
میرے خیال میں اس بار ملی قیادت نے الیکشن کے تناظر میں سردمہری سے کام لیا اسے بہت زیادہ خوش آئند تو نہیں تجرباتی طور پر مناسب اقدام کہا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی راۓ دہندگی ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور کسی جمعیت کے صدر یا سکریٹری ،جماعت کے امیر یا منتظم ، شاہی مسجد کے امام یا متولی ، خانقاہ کے پیر اور مزارات کے سجادہ نشین کا فرد کی آزادی میں دخل انداز ہوکر اپنے فرمان کے ذریعے راۓ دہندہ کو متاثر کرنا اس کے حق رائے دہی اور خود مختاری کو سلب کرنے کے مترادف ہے اور وہ اتنا ہی غلط ہے جتنا کسی راۓ دہندہ کو مال و زر یا اسباب cash or kind کے عوض ووٹ خریدنا۔ دارالعلوم دیوبند نے اپنے ایک فتویٰ میں کسی امیدوار سے مالی وغیر مالی منفعت کے عوض ووٹ حاصل کرنے کو رشوت لینے اور دینے کے زمرے میں رکھتے ہوئے ناجائز کہا ہے۔ الراشی والمرتشی کلاھما فی النار۔
تاہم ملک و ملت کے اعلیٰ مفادات میں عوام کو ووٹنگ پیٹرن بتانا، توقعات و خدشات کے بارے میں باخبر کرنا سول سوسائٹی اور ملت کے اس فیلڈ کے ماہرین( علماء و دانشور) کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
ملت کے ان دو گروہوں ؛ ( دینی درسگاہوں سے نکلے ہوئے باخبر علماء اور عصری دانشگاہوں سے نکلے ہوئے سیاسی و سماجی طور پر متحرک دانشوران )
کے درمیان جو خلیج ہے اسے پاٹنے کی سخت ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کا نقصان، ملت کے سیاسی اور سماجی امور سے وابستہ ہر معاملے میں جہاں اجتماعیت کی ضرورت ہوتی ہے، نظر آتا ہے۔ حالیہ بہار الیکشن کی انتخابی مہم سے پہلے اور دوران , ملت کے افراد کی ذہن سازی کرنے کی ضرورت تھی کہ کس کس پارٹی کو کن وجوہات کی بنا پر ووٹ کرنا بہتر ہوگا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں کس طرح کے خدشات ہیں۔ ظاہر وہ کسی مخصوص پارٹی کے حق میں نہیں بلکہ ایک کامن گائیڈ لائن ہوتی تاکہ ووٹرز اپنی پسند کی پارٹیوں کا تعین کر سکیں اور انتخابی سیاست میں ملت کے سرگرم افراد ملی مسائل کو ان پارٹیوں کے انتخابی منشور میں شامل کرا سکیں۔ یہ جب ہی ممکن ہوگا جب ملت کے دونوں گروہ علماء و دانشور ایک دوسرے کی اہمیت کا احساس کریں اور اپنے اقوال وافعال سے آپس میں اعتماد بحال کریں۔ المیہ یہ ہے کہ بہت سے دانشور حضرات خود کچھ کرتے نہیں مگر جو لوگ کرتے ہیں ان پر بسا اوقات بے جا تنقیص اور بعض اوقات بجا تنقید کرتے ہیں۔ تنقید اور تنقیص سے اوپر اٹھ کر ایک دوسرے کے لئے مکتمل بننے کی ضرورت ہے۔
یہ ضرورت بہار الیکشن سے قبل کی نہیں تھی اور نہ بعد میں بنگال اور اپر پردیش کے لئے ہے۔ بلکہ ایک دائمی ضرورت ہے۔ پچھلے چند سالوں میں سیاست بالخصوص انتخابی سیاست میں مسلمانوں کو بے وقعت بنانے کی روش شروع ہوئی ہے اس کے پیش نظر ایک مکمل لائحہ عمل تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ عمومی طور پر مسلمانوں کا ذہن ہر طرح کے کنفیوژن سے پاک رہے۔ مثال کے طور پر دستور میں دیۓ گۓ حقوق کے تحت جب کسی پارٹی کی تشکیل ہوئی اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اس سیاسی پارٹی کو تسلیم کیا اور الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیتے ہوئے سمبل دیا تو اس پارٹی کے خلاف ہفوات بکنا اسے فرقہ پرست کہ کر مطعون کرنا اور الیکشن لڑنے سے روکنے کی کوشش کرنا قانوناً درست نہیں ہے۔ ہاں ووٹرز کو اگر کسی مخصوص پارٹی میں خامیاں نظر آۓ تو ووٹرز آزاد ہیں ایسی پارٹی کو ووٹ دے یا نہ دے۔
اس لئے ضروری ہے کہ علماء و دانشور طبقے کے ارباب حل و عقد دیانت داری سے اپنی رائے دیں کہ اگر کسی مخصوص پارٹی کو ووٹ کرنے سے غیر مسلم طبقے کی صف بندی ہو سکتی ہے تو مسلمانوں کا یہ تھینک ٹینک اور مسلم لیڈرز نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے ساتھ تصادم کی بجائے الائنس کے لئے راضی کرائےـ
در اصل پچھلے چند سالوں سے ہندوستانی مسلمان دوراہے پر کھڑا ہے یا حالات نے لاکھڑا کیا ہے۔
جب ملک کی سب سے زیادہ طاقتور پارٹی مسلمانوں کو انتخابی سیاست میں عملا بے وقعت بنانے کی راہ پر چلی تو چونکہ انتخابی سیاست میں سر گنے جاتے ہیں۔اصول کی بہ نسبت تعداد کی زیادہ اہمیت ہوتی اس لئے دوسری نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کو امیدوار بنانے اور ٹکٹ دینے میں معقول اور غیر معقول عذر کا سہارا لیا۔ ایک عذر ہے عدم قبولیت non acceptability یہ عذر اس وجہ سے معقول ہے کہ اب پارٹی کے نام پر کم اور امیدوار کی ذات اور مذہب کے نام پر زیادہ ووٹ کۓ جاتے ہیں۔ یہ کئ انتخابات کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ راجد کے ریاستی یا ضلعی صدر یا سکریٹری اگر مسلم امیدوار ہے تو یادو کا ووٹ مسلم امیدوار کی بجائے کسی بھی پارٹی عموماً بی جے پی کی طرف شفٹ ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے مسلمان کا صرف مسلمانوں کے ووٹ سے جیت حاصل کرنا ممکن نہیں ہے اور غیر مسلموں کے ووٹ ملنا اصولاً ممکن ہوتا ہے عملاً نہیں۔ اسی پر دوسرا عذر مرتب ہوتا ہے مسلم امیدوار کی جیت کے عدم امکان یعنی non winnablity .. اس لئے سیکولر پارٹیوں کے مطمح نظر جب کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنا ہو تو مسلم امیدوار کو ٹکٹ دے کر رسک کیوں لے !
لیکن اگر یہ سیکولر پارٹیاں مسلم نمائندگی کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہوتیں تو اپنے کیڈر کو تاکید کرتیں کہ پارٹی کا امیدوار پارٹی کا امیدوار ہے خواہ اس کی ذات برادری اور مذہب کچھ بھی ہو۔
ان حالات میں مسلمان اس کشمکش کا شکار ہے:
١- بہتر نمائندگی کے لئے اگر اپنی الگ پارٹی یا آئیڈنٹیکل پولیٹیکس کرتے ہیں تو غیر مسلم تو غیرمسلم خود مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اس پارٹی کو دوسری مسلم لیگ کا نام دے کر شدید مخالفت کرتے ہیں۔
٢- اگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی حسب معمول تائید کرتے رہے تو نہ صرف ایوانوں میں نمائندگی میں کمی ہو رہی ہے بلکہ مسلم ایشوز پر نام نہاد سیکولر پارٹیاں منہ کھولنے سے بھی کتراتی ہیں مبادا ان پر مسلم منہ بھرائی کا الزام نہ لگ جائے۔
کیا مسلمانوں کا کوئی تھینک ٹینک ہے اگر ہے تو وہ اس کشمکش سے باہر نکلنے کا راستہ دیکھا سکتا ہے۔۔۔ کوئ بیچ کا ایسا راستہ جس سے ہماری سیاسی نمائندگی بھی ہو اور فرقہ پرستی کا الزام بھی نہ لگے۔
ممکن تو ہے مگر افسوس پولیٹیکل سائنس کے ماہرین، پروفیسر حضرات ، سیاسی تجزیہ نگار، صحافی اور سابق جسٹس صاحبان اور نامور وکلاء یا تو خاموش رہتے ہیں یا اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر دوسروں میں عیب نکال کر ان پر تنقید کرتے ہیں ۔ مثبت تنقید کا استقبال ہونا چاہئے لیکن عیب جو دانشوران کام کو صحیح سمت دینے میں اپنا بھی یوگدان دیں۔ ملی کام کسی کی جاگیر نہیں ہے اور نہ کسی ذات برادری طبقے کا اس پر مونوپولی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
دارالعلوم دیوبند میں مجلس شوریٰ کی میٹنگ اختتام پذیر،مولانا ابوالقاسم نعمانی شیخ الحدیث ، مولانا ارشد مدنی صدر المدرسین اور قاری محمد عثمان کارگزار مہتمم منتخب کیے گئے
سالانہ بجٹ میں 6؍ کروڑ روپے کی تخفیف،ابھی بحال نہیں ہوگا تعلیمی سلسلہ،مولانا محمد عاقل نئے رکن شوریٰ منتخب
دیوبند:(سمیر چودھری)عالم اسلام کی ممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کی ہیٔت حاکمہ مجلس شوریٰ نے آج اجلاس کے تیسرے روز آخری نشست میں کئی بڑے فیصلے لیے ہیں،جن کے مطابق اب جمعیۃ علماء ہند کے دونوں صدور بحیثیت عہدیدار دارالعلوم دیوبند میں بھی خدمات انجام دیں گے، وہیں مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی عہدۂ اہتمام کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث کے فرائض بھی انجام دیں گے، حالانکہ کورونا کے سبب ادارہ کے بند پڑے تعلیمی نظام کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں لیا گیاہے، اس سال کے بجٹ میں بھی چھ کروڑ کی تخفیف کی گئی ہے، شوریٰ میں ایک نئے ممبرکا اضافہ ہوا ہے ،ساتھ ہی جمعیۃ علماء ہند کے دونوں گروپوں میں مفاہمت کے لئے ایک سہ رکنی کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔ موصولہ تفصیلات کے مطابق گزشتہ تین روز سے جاری مجلس شوریٰ کے اجلاس میں جہاں اراکین شوریٰ نے ادارہ کی تعمیر و ترقی کے متعلق کئی اہم تجاویز پاس کیں وہیں متعدد شعبہ جات کے نظما نے اپنے اپنے شعبوں کی رپورٹس پیش کی ہیں۔ شوریٰ کے اجلاس پر پوری ملت کی نظریں لگی تھی اور حسب توقع صدر مدرس اور شیخ الحدیث کے انتخاب کے ساتھ ساتھ کارگزار مہتمم کا انتخاب بھی آج عمل میں آیاہے۔ شوریٰ نے اتفاق رائے سے جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی کو صدر المدرسین کے عہدہ پر منتخب کیا ہے، جبکہ مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی عہدہ اہتمام کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث کے فرائض بھی انجام دیں گے، وہیں جمعیۃ علاء ہند کے صدر قاری سید محمد عثمان منصورپوری کو کارگزار مہتمم منتخب کیاگیاہے۔ شوریٰ نے جمعیۃ علماء ہند کے دونوںگروپوں میں مفاہمت کے لئے ایک سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے،جس میں حکیم کلیم اللہ علی گڑھی،مولانا حبیب باندوی اور جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد عاقل سہارنپور ی کو شامل کیاگیاہے۔ دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے ممبر کے طور پر جامعہ بدرالعلوم گڑھی دولت(کاندھلہ) کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانامحمد عاقل قاسمی کا انتخاب بھی عمل میں آیاہے۔ حالانکہ عالمی وباء کووڈ19؍ کے سبب گزشتہ سات ماہ سے زائد وقت سے بند ادارہ میں تعلیمی سلسلہ بحال کرنے کے لئے فی الحال کوئی بھی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے،اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے واضح گائڈلائن آنے کے بعد اہتمام اور مجلس تعلیمی کے ذریعہ فیصلہ لیا جائیگااور اس کے بعد ہی طلبہ کے لئے باضابطہ طورپر اعلان جاری کیاجائیگا۔ آٹھ ماہ سے بند ادارہ کے اخراجات اور چندہ کی کم فراہمی کے سبب ادارہ کے بجٹ میں 6؍کروڑ روپیہ کی کٹوتی کی گئی اور اب ادارہ کا بجٹ تقریباً30؍کروڑہ رہے گا اور اس سال تنخواہوں میں بھی اضافہ نہیں کیاگیاہے۔
اس میٹنگ میں سابق شیخ الحدیث و صدر المدرسین مفتی سعید پالنپوری، مجلس شوریٰ کے سابق رکن مفتی منظور احمد کانپوری اورمظاہر علوم سہارنپور کے کے ناظم مولانا سیدمحمد سلمان مظاہری سمیت مختلف علماء کی وفات پر تعزیتی تجویز بھی پیش کی گئی۔ مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے بتایاکہ مجلس شوریٰ نے ادارہ کے اہم امور پر تبادلہ خیال کرکے ادارہ کی ترقی کے متعلق اہم تجاویز کو منظوری دی ہے، شوریٰ نے اتفاق رائے سے صدر المدرسین، شیخ الحدیث اور کارگزار مہتمم کا انتخاب کیا ہے،شوریٰ میں ایک نئے ممبر کو شامل کیاگیااوربجٹ میںچھ کروڑ روپیہ کی تخفیف کی گئی ۔انہوں نے بتایا کہ ادارہ میں تعلیمی سلسلہ بحال کرنے کے متعلق فی الحال کوئی فیصلہ نہیں لیاگیاہے،حکومت کی واضح گائیڈ لائن آنے کے بعد اس سلسلے میں اعلان جاری کیاجائے گا،انہوںنے کہاکہ دارالعلوم دیوبند کی تیاریاں مکمل ہیں حکومت کی جانب سے اقامتی درسگاہوں کے متعلق گائڈ لائن ملنے کے بعد تعلیمی سلسلہ شروع کردیاجائیگا۔ اس اجلاس میں رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل،مولانا ملک ابراہیم،مولانا انوارالرحمن بجنوری،مولانا رحمت اللہ کشمیری،مولانا عبدالعلیم فاروقی،مولانامحمود راجستھانی،مولانا غلام محمد وستانوی،مولانا محمد عاقل سہارنپوری،مولانا حبیب باندوی،سید انظر حسین میاں دیوبندی،مولانا اسماعیل مالیگاؤں،حکیم کلیم اللہ علی گڑھی،مولانا نظام الدین خاموش اور مفتی ابوالقاسم نعمانی شریک رہے۔صدارت مولانا غلام محمدو ستانوی نے کی جبکہ حکیم کلیم اللہ کی دعاپر اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
عالمِ جلیل و قاضی و فقیہ مولانا محمد قاسم مظفرپوریؒ- مولانا نورعالم خلیل امینی
رئیس التحریرماہنامہ’’الداعی‘‘ عربی
و استاذ ادبِ عربی دارالعلوم دیوبند
زندگی ایک کہانی کے سوا کچھ بھی نہیں
لوگ کردار نبھاتے ہوے مرجاتے ہیں
(ملک زادہ جاوید)
مولانا محمد قاسم مظفرپوری (۱۳۵۶ھ/۱۹۳۷ء – –۱۴۴۲ھ /۲۰۲۰ء)کا نام تو راقم نے اُس وقت سنا تھا جب وہ اپنے گاؤں (ددھیال) راے پور ضلع سیتامڑھی سابق ضلع مظفرپور میں طفلِ مکتب تھا۔ وہ ہمارے گاؤں میں، مولانا محمد اسماعیل (تلمیذ شیخ الہندؒ) کی کھلیان کے میدان میں منعقدہ جلسے کو خطاب کرنے کے لیے تشریف لائے تھے، جو ۱۳۷۸ھ؍ ۱۹۵۸ء کی کسی شب میں اُ ن کے ہم عصر اور دوست مولانا محمد اویس القاسمی راے پوریؒ (۱۳۵۲ھ؍ ۱۹۳۳ء –۱۴۱۹ھ؍ ۱۹۹۸ء) کی دارالعلوم دیوبند سے فراغت کی خوشی میں اہلِ راے پور نے منعقد کیا تھا اور جس کو اُن کے ہم عصر و ہم علاقہ مشہور و معروف و مقبول عالم دین قاضی مجاہد الاسلام قاسمی جالوی دربھنگویؒ بانیِ اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا (۱۳۵۵ھ؍ ۱۹۳۶ء –۱۴۲۳ھ؍ ۲۰۰۲ء) اور اُن کے دوسرے ہم عصر وہم علاقہ مولانا عبدالحنان قاسمی بالا ساتھویؒ (۱۳۵۲ھ؍ ۱۹۳۴ء –۱۴۳۰ھ؍ ۲۰۰۹ء)بانیِ جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالا ساتھ نے بھی خطاب کیا تھا۔
مولانا محمد قاسم کی اُس وقت کی کوئی شبیہ، راقم کے خانۂ خیال میں محفوظ نہیں، مکتب کے مرحلے کے بعد، راقم اور اُس کے ہم قریہ وہم عمروں نے ایک سال گاؤں کے جنوب میں واقع گاؤں پوکھریرا کے مدرسہ نورالہدیٰ میں ابتدائی فارسی پڑھی اور دوسرے سال ہم لوگوں نے مدرسہ امدادیہ دربھنگہ (تاسیس ۱۳۱۱ھ؍ ۱۸۹۳ء) میں داخلہ لیا، وہاں مولانا کے نام، کام اور علم و فضل کا شہرہ راقم کے کانوں میں اِتنا گونجا کہ ایسا لگا کہ وہ اُن کے ساتھ اور اُن کے پاس رہتا ہے اور اُنھیں قریب سے اِتنا جانتا ہے جتنا اُن کے ہم صحبت قریبی رشتہ دار اور افراد خانہ۔ وہ اُس وقت سوپول ضلع دربھنگہ کے مدرسہ رحمانیہ کے ایسے استاذ تھے جس پر مدرسے کی شہرت و عظمت کا مدار تھا۔ یہ مدرسہ حال آں کہ بہار کے بہت سے مدرسوں کی طرح مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ سے ہم رشتہ تھا اور اُس سے مُلْحَقَہ مدارس اِس حوالے سے بُری طرح بدنام ہیں کہ تعلیم و تعلم نام کی کوئی چیز وہاں نہیں ہوتی، اور یہ زبان زدِ خاص و عام ہے کہ جن نوجوانوں کو علمی استعداد کے حوالے سے مکمل طور پر برباد کرنا ہو، اُنھیں اُنھی مدرسوں میں سے کسی میں داخل ہوجانے کی ترغیب دینی چاہئے؛ لیکن مولانا محمد قاسمؒ کے وجود مسعود کی وجہ سے مدرسہ رحمانیہ سوپول شاید تنہا ایسا مدرسہ تھا جس کی تعلیم و تربیت مثالی تھی اور دور دور تک اُس کی نیک نامی کا باعث تھی۔ وہ وہاں مسلسل ۴۶ سال تک محوِ تدریس و تربیت رہے اور اِس پورے دورانیے میں وہاں علم وفضل کی ایسی بادِ بہاری چلتی رہی، جس کے جاں فزاو عطر بیز جھونکے دور دراز کے تعلیم کدوں تک پہنچتے اور اُن کے لیے باعثِ رشک اور مولانا ؒ کے لیے وجہِ ستایش اور ذریعۂ ذکرِ جمیل و دعاے جزیل بنتے رہے۔
مولانا مرحوم ہمارے علاقے کے مذکور الصدر تین عالموں: (مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ و مولانا محمد اویس القاسمیؒ و مولانا محمد قاسم مظفرپوریؒ) میں تیسرے تھے، جن کی علمی پختگی کی ایسی دھاک بیٹھی کہ بعد میں ہمارے وسیع تر خِطّے کے علما و فضلاے مدارس سے پُرْ ہوجانے کے باوجود اُس میں ذراسی کمی نہیں آئی؛ بل کہ تینوں حضرات کی علمی یکتائی اور دینی و دعوتی و خطابتی و تالیفی و اجتماعی و اِصلاحی کارناموں کی انفرادی شناخت نہ صرف علی حالہ قائم رہی؛ بل کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا رنگ مزید شوخ اور اُس کی نکہت اور روح پرور ہوتی رہی۔
حال آں کہ حالات کی سازگاری و ناسازگاری،ـ وسائل کی فراہمی و عدم فراہمی، افتادِ طبع کے اختلاف، مواقع کی موزونیت و ناموزونیت، صلاحیتوں کی نوعیت اور رجحانِ فکر و نظر کی سَمْت کے اعتبار سے اِن تینوںحضرات کی ادایگیِ کار، فیض بخشیوں اور اکتسابات میں تفاضل رہا؛ لیکن مجموعی طور پر اُن کا علمی مقام و مرتبہ، خواص و عوام دونوں کے نزدیک ہمیشہ مُحْترَم و مُسَلَّم رہا۔
مولانا محمد قاسم مظفرپوری حد درجہ سادہ مزاج تھے، اُن کے وجود پر غیر معمولی معصومیت چھائی رہتی، اُن کے ہونٹوں کی تبسم ریزی ہر حال میں قائم رہتی، اُن سے پہلی بار بھی ملنے والوں کو ایسا لگتا کہ اُن سے برسوں کی دید و شنید بل کہ قرابت و رفاقت ہے، اُن میں ہر ایک کے لیے ایسی اپنائیّت تھی جو اکثر اپنوں میں بھی نہیں ہوتی۔ یہ اُن کے اعلی و ارفع انسان ہونے کی محکم دلیل تھی۔ بعض دفعہ انسان بڑا عالم و فاضل تو ہوتا ہے؛ لیکن اِنسانیت کے صحیح معیار پر اُترنے والا انسان نہیں ہوتا، یہ اِس لیے کہ اعلی سے اعلی تعلیم یافتہ ہونا قدرے آسان ہے؛ لیکن اعلی اِنسان بننا دنیا کا سب سے زیادہ مشکل کام ہے، جو خداے پاک کی توفیقِ خاص سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ اِس راقم کی اُن سے سب سے پہلی ملاقات، اِس دنیوی زندگی کے ایک بے حد مبارک، یادگار اور تاریخی سفر کے دوران اچانک طور پر ہوئی اور اُن سے محبت اور اُن کی عقیدت آن کی آن میں دلوں میں اتر کر ہمیشہ کے لیے پیوست ہوگئی۔
مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند کے مشہور عالَم و بے نظیر اِجلاسِ صدسالہ منعقدہ جمعہ –اتوار: ۳–۵؍ جمادی الاولی ۱۴۰۰ھ مطابق ۲۱ –۲۳؍ مارچ ۱۹۸۰ء، میں شرکت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے، بہار کے اپنے علاقے بالخصوص اپنے گاؤں اور اپنے خطے کے سیکڑوں علما و فضلا وذمے دارانِ مدارس اور علما صورتوں کے عوام کے ساتھ، یہ راقم جینتی جنتا اکسپریس ٹرین سے (جو اب ویشالی سوپر فاسٹ کے نام سے جانی جاتی ہے) سہ شنبہ (منگل) : ۳۰؍ ربیع الآخر ۱۴۰۰ھ مطابق ۱۸؍ مارچ ۱۹۸۰ء کو ۲ بجے سہ پہر کو مظفرپور اسٹیشن سے روانہ ہوا ۔ راقمِ سطور اور اُس کے ہم قریہ علما عصر کی نماز کے وضو کے لیے اپنے ڈبے کے دونوں کناروں کا جن میں غسل خانے وغیرہ بنے ہوتے ہیں، جائزہ لینے کو نکلے تو نہ صرف ہمارا ڈبّہ؛ بل کہ سارے ڈبے علما یا علما صورت مسلمانوں سے پر نظر آئے، ایسا منظر شاید اِس ملک نے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ اسی بھیڑ میں ہم نے دیکھا کہ ایک سیدھے سادے عالم، جو وضع قَطع سے دیہات کے مکتب کے پرانی طرز کے مُلاَّ لگ رہے تھے، چند نوجوان علما کے جلو میں دو ڈبوں کے بیچ کی جگہ جہاں دونوں ڈبے آ ہنی پلیٹوں سے ایک دوسرے سے جڑ کر مسافروں کی آمد و رفت کے لیے راہ تشکیل دیتے ہیں، وضو کر رہے تھے اورایک نوجوان عالم لوٹے سے موزوں مقدار میں پانی انڈیل رہا تھا؛ تاکہ ٹرین کی تیز رفتاری کی وجہ سے پیدا شدہ جنبش کی وجہ سے وضو کرنے میں زیادہ پریشانی نہ ہو۔ ہم نے اُن نوجوانوں سے جو اُن کے ارد گرد تھے سرگوشی کے ذریعے معلوم کیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ اُنھوں نے بتایا کہ یہ مولانا محمد قاسم مظفرپوری ہیں اور اِسی ڈبے میں اِس کیبن میں جو راستے سے ملی ہوئی ہے اُن کی اور ہم لوگوں کی برتھ ہے۔ مولاناؒ نے جب وضو کرلیا تو ہم لوگ اُن سے مُتَعَارف ہوے، راقم نے اپنا نام بتایا تو اُنھوں نے فوراً فرمایا کہ آپ کا نام سنتا رہتا ہوں؛ لیکن ملاقات اب ہو رہی ہے اور بڑے مسعود و مبارک سفر میں ہورہی ہے۔ پھر دہلی تک موقع بہ موقع ملاقات ہوتی رہی اور علمی استفادے کا موقع بھی ملتا رہا۔ دہلی میں اترتے وقت کی ہمہ ہمی کی وجہ سے مولانا کا ساتھ جو چھوٹا تو دیوبند کے انسانی سیلاب کی وجہ سے، چہار روزہ قیام کے دوران، پھر ملاقات نہ ہوسکی۔ ایسا سیلاب مسلمانوں نے برصغیر میں شاید کہیں دیکھا ہوگا؛ اِسی لیے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ (۱۳۳۳ھ؍ ۱۹۱۴ء –۱۴۲۰ھ؍ ۱۹۹۹ء)نے اِس اجلاس صد سالہ کی افتتاحی نشست میں فرمایا تھا کہ میں نے دنیا کے کونے کونے کو دیکھا ہے؛ لیکن میں کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں کا اتنا بڑا اور ایسا بابرکت مجمع میدانِ عرفات کے بعد دنیا میں کہیں نہیں دیکھا۔ مولاناؒ سے اِس پہلی ملاقات میں، راقم جس بات سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوا وہ اُن کی بے نفسی اور اپناپن تھا، پہلی ملاقات میں اِتنی اُنسیت اِس راقم کو شاید چند ہی علما سے مل کر محسوس ہوئی ہوگی۔ راقم کا یہ سفر جو پہلے سے ہی بہت مزے دار تھا مولاناؒ کی رفاقت کی وجہ سے اور خوش گوار، دل پسند اور لذّت ریز بنا رہا۔
بعض دفعہ اِنسان بعض بے بہا نعمتوں کے حوالے سے (جو اُس کو آسانی سے مُیَسَّر آجاتی ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ جب چاہے گا اُس سے فائدہ اٹھالے گا؛ کیوں کہ وہ اُس کے گھر کی نعمت ہے) وہ لاشعوری طور پر ناقدری کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ مولانا محمد قاسم مظفرپوریؒ کے تعلق سے اُس کی طرف سے یہی کچھ ہوا کہ وہ سمجھتا رہا کہ وہ حاصل شدہ نعمت ہیں، جب جی میں آئے گا اُس سے مُتَمَتِّع ہوجائے گا؛ چناں چہ صد سالہ اِجلاس میں شرکت کے لیے سفر کے دوران مولانا مرحوم سے جو شرفِ ملاقات و تعارف حاصل ہوا تو اس کے بعد ۲۸ سال تک وہ اس سعادت سے محروم رہا، تا آں کہ اِمارتِ شرعیہ نے پھلواری شریف میں اپنے ماتحت سرگرم عمل مدارس اسلامیہ کی تنظیم سے وابستہ مدرسین کی تدریب کے لیے، ایک سہ روزہ پروگرام منعقد کیا جو سوموار –بدھ: ۱۰ –۱۲؍ صفر ۱۴۲۹ھ مطابق ۱۸ — ۲۰؍ فروری ۲۰۰۸ء کے عرصے میں المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء کی عمارت میں جاری رہا۔ اس موقع سے عربی زبان کی تدریس کے صحیح اور عملی منہج کے موضوع پر محاضرات کے لیے اِس راقم کو مدعو کیا گیا۔ اس پروگرام کی اکثر نشستوں میں حضرت مولانا محمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ امارت کے ایک اہم ذمے دار اور علمی سرپرست کی حیثیت سے شریک رہے۔ محاضروں کے بعد اکثر راقم کی اُن سے نیاز مندانہ ملاقات ہوتی اور وہ عربی زبان کی تدریس کے منہجِ کار پر اُس کے خیالات اور مشوروں کی سراہنا کرکے اُس کا حوصلہ بڑھاتے۔ اس موقع سے اُن کی شفقتوں بھری صحبتوں سے مستفید ہونے کا قدرے دراز اور پرسکون موقع ملا۔
افسوس ہے کہ اپنے مشاغل کے تسلسل اور بیماریوں کے ہجوم، اسفار سے بڑی حد تک (لکھنے پڑھنے کے کاموں کے پابند سلاسل بنائے رکھنے کی وجہ سے ) پرہیز کے سبب اپنے وطن آمد سے بھی دراز نفس محرومی رہی، نتیجتاً حضرت مولانا محمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ اور اُن جیسے دیگر علماے صالحین و متقنین کی زیارت اور ان سے برکت اندوزی و علم وفکر آموزی سے بھی محرومی رہی، جس کا تاحیات قلق رہے گا۔
مولانا محمد قاسم رحمۃ اللہ کو ویسے تو اکثر علومِ شریعت میں مہارتِ تامہ حاصل تھی؛ لیکن عملی اور تدریسی طور پر فقہ و اصول فقہ سے زیادہ اشتغال رہا، تفسیر و حدیث میں بھی بصیرت مندانہ گہرائی و گیرائی تھی، قضا و افتا کے کاموں میں تاحیات منہمک رہے؛ اِس لیے فقہی جزئیات، اشباہ ونظائر اور اُصول و علل پر گہری نظر تھی؛ اِسی لیے وہ نئے نئے پیش آمدہ مسائل کے حوالے سے فرعی اجتہاد و استنباط میں گنے چنے علماے ماہرین میں سے ایک تھے۔ قاضی مجاہدالاسلام قاسمی نوراللہ مرقدہ کی وفات سے فقہ و فتاویٰ و قضا کے سلسلے میں جو زبردست خلا پیدا ہوگیا تھا امارت شرعیہ کی سطح پر اُنھوں نے بڑی حد تک اپنے علمی وجود سے اُس کو پر کیے رکھا۔ اب اُن کے بعد امارت شرعیہ کی دنیا میں خصوصاً اور فقہ اکیڈمی وغیرہ میں عموماً، بڑی کمی محسوس کی جائے گی۔ خداے کریم اِن علمی، فقہی، شرعی، قضائی اور ہمہ گیر اسلامی اِداروں کی اپنے فضل و کرم سے دست گیری فرمائے اور اُن کے لیے مطلوبہ رجال علم و رجال کار فراہم کرتا رہے۔
اُن کی سطح کے خطّۂ بہار کے علماے کاملین نے بالعموم اپنے خطے کو چھوڑ کر ہندوستان کے دیگر علاقوں میں جاکر اپنے علم و کمال کو جلا بخشنے کو زیادہ بہتر سمجھا کہ اس سے اُن کی علمی وجاہت، ذاتی شہرت میں اضافے کے ساتھ ساتھ مادی اکتسابات اور تحریری وتقریری سرگرمیوں کے ذریعے اُنھیں اپنی عظمت کی دھاک بٹھانے کا سنہرا موقع ملا؛ کیوں کہ بہت سے پڑھے لکھوں کا اعتقاد ہے کہ عصر حاضر میں بہار کا علاقہ مردم خور ہے، کہ بے شمار اہل اِستعداد علما جنھوں نے حصول علم و فضل کے بعد اپنے وطن بہار ہی کو اپنی علمی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، اُنھیں یہ سرزمین اِس طرح کھا گئی کہ وہ حینِ حیات ہی بے نام و نشان بن گئے اور اُن کی علمی صلاحیت گھن رسیدہ ہوکر اپنا کوئی جوہر نہ دکھا سکی، اس کے برعکس اُن سے نسبتاً کم صلاحیت کے لکھے پڑھے لوگوں نے، بیرونِ بہار جاکر علمی و فکری سطح پر ایسے کارنامے انجام دیے کہ جبینِ کائنات پراُن کا نقشِ دوام ثبت ہوگیا۔
لیکن مولانا محمد قاسم مظفرپوری رحمۃ اللہ علیہ نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اپنی پوری زندگی میں شمالی بہار کے اُسی علاقے میں سرگرمِ خدمت رہنے کو ترجیح دی، جس کی خاک سے وہ اُٹھے تھے، وہیں تدریسی سرگرمی انجام دی، وہیں رہ کر علمی و تالیفی کارناموں کی طرح ڈالی، ادارے قائم کیے، علم و فضل کے قافلوں کی راہ نمائی کی اور اُنھیں سرگرم سفر کیا، مردم سازی و رجال گری کا فریضہ ادا کیا، مُتَعَدِّد اِداروں کی سرپرستی کی اور کئی مہتم بالشان اِداروں کی علمی عظمت کے بھرم کے باقی رہنے کا ذریعہ بنے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنی سادہ پُرکار زندگی کے ذریعے نسلِ نو کے تازہ دم و پُر حوصلہ علما کے لیے نمونۂ عمل اور نقشِ راہ بن کر اُن کی زندگی کی راہوں میں دور دور تک اپنے کردار کی صاف شفاف و تیز روشنی بچھادی، جس کی وجہ سے اُن کے راہ سے بھٹکنے کا کوئی خدشہ باقی نہ رہا۔
مولانا محمد قاسمؒ نے اپنے جیسے مخلص وسادہ مزاج وصالح علما کی طرح صرف کام کو مَطْمَحِ نظر بنایا، نام آوری اور مال و منال کے حصول کی خواہش سے، اُن کی فطرت بالکل ناآشنا رہی۔ وہ بے نفسی و خلوص اور اللہ کی رضا جوئی کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتے تھے؛ کیوں کہ اِنھی عناصر سے اُن کا خمیر اُٹھا تھا، اِسی لیے جہاں کام کی ضرورت محسوس ہوئی، وہیں مصروف کار رہے اور قناعت، صاف دلی، زیبایش و آرایش سے یکسر خالی، ہلکی پھلکی زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور پہنچ گئے؛ تاکہ حساب و کتاب کے دفتر طولانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ غیب کا علم تو صرف خداے علام الغیوب والمقادیر کو ہے؛ لیکن مولانا مرحوم کے متعلق یہ راقم یہ بات پوری قوت سے کہہ سکتا ہے کہ حدیث نبوی میں جَنَّتِی مومن کی جو نشانیاں بتائی گئی ہیں، اُن میں سے بہت سی اُس کو اُن میں نظر آئیں۔ اللہ تعالیٰ اُنھیں مرحوم و مغفور کرے اور اپنی اعلی جنت کا باسی بنائے۔
مختصر سوانحی نقوش
نام: محمد قاسم
والدماجد کا نام: معین الحق بن محمد ابراہیم بن فخر الدین بن لعل محمد۔
جاے ولادت: مادھوپور، ڈاک خانہ: انگواں، وایا: ججوارا، ضلع مظفرپور، صوبہ بہار۔
تاریخ ولادت: ۱۳۵۶ھ؍ ۱۹۳۷ء۔
تعلیم: ابتدائی تعلیم یعنی قرآن پاک ناظرہ واردو فارسی ابتدائی اپنے گاؤں مادھوپور اور اس سے جڑے ہوے گاؤں انگواں کے مدرسہ تعلیم القرآن میں حاصل کی۔ یہاں آپ کے اساتذہ: مولانا محمد وارثؒاور مولانا محمدایوبؒ رہے۔ اُس سے آگے کی تعلیم یعنی فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم ایک سال مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ دربھنگہ میں حاصل کی، اس مدرسےمیں آپ کے اساتذہ میں مولانا عبدالجبار مونگیری اور مولانا مقبول احمد خاں تھے۔ اس کے بعد آپ نے ۱۳۷۰ھ؍ ۱۹۵۱ء میں لہریا سرائے دربھنگہ کے مدرسہ امدادیہ میں داخلہ لیا اور ۱۳۷۳ھ؍ ۱۹۵۳ء تک یہاں عربی دوم تا عربی چہارمتک کا مرحلہ طے کیا۔ یہاں آپ کے اساتذہ میں مولانا عبدالرحیم دربھنگوی (تلمیذ شیخ الہندؒ) اور مولانا محی الدین اورمفتی عبدالحفیظ وغیرہ تھے۔درجہ پنجم عربی میں ۱۹۷۳ھ؍ ۱۹۵۴ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوے اور دورۂ حدیث تک یہیں محوِ تعلیم رہے اور یہیں سے ۱۳۷۷ھ؍ ۱۹۵۸ء میں فارغ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہاں آپ نے بخاری شریف کے ۶۴ اسباق حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نور اللہ مرقدہ (۱۲۹۵ھ؍ ۱۸۷۹ء –۱۳۷۷ھ؍ ۱۹۵۷ء) سے پڑھے، اورآپ کی وفات حسرت آیات کے بعد باقی اسباق حضرت مولانا سید فخرالدین احمد ہاپوڑی ثم المرادآبادی قدس سرہ (۱۳۰۷ھ؍ ۱۸۸۹ء –۱۳۹۲ھ؍ ۱۹۷۲ء) سے پڑھی۔ ترمذی شریف حضرت شیخ الادب مولانا محمد اعزاز علی رحمہ اللہ (۱۳۰۰ھ؍ ۱۸۸۲ء –۱۳۷۴ھ؍ ۱۹۵۴ء) سے اور مسلم شریف حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ (۱۳۰۴ھ؍ ۱۸۸۶ء –۱۳۸۲ھ؍ ۱۹۶۷ء)سے، دیگر کتب حدیث اس وقت کے نام ور علماے گرامی سے پڑھیں ، جن میں سرفہرست دار العلوم کے سابق مہتمم حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۱۵ھ؍۱۸۹۷ء–۱۴۰۳ھ؍ ۱۹۸۳ء) ہیں۔
مولانا محمد قاسمؒ کی علمی عظمت ولیاقت کے لیے، یہ بات کافی ہے کہ اُس وقت دارالعلوم میں مُمْتَحَنَہ کتابوں میں اعلیٰ نمبر ۵۰ تھا؛ لیکن اساتذۂ کرام نے اُن کے جوابات کی صحت، ترتیب، خوش خطی وغیرہ سے خوش ہوکر مَتَعدِّد کتابوںمیں ۵۱، ۵۲ اور ۵۳ نمبر دیے۔ انھوں نے دارالعلوم میں دورۂ حدیث میں فرسٹ پوزیشن اور فرسٹ ڈویـژن حاصل کیا، جو ایک غیر معمولی بات ہے اور اُن کے مثالی طالبِ علم ہونے کا بیّن ثبوت ہے۔
عملی زندگی دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ۱۳۷۷ھ؍ ۱۹۵۸ء سے ۱۳۷۸ھ؍ ۱۹۵۹ء تک مادرِ علمی مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں اعزازی طور پر ایک سال تدریسی خدمت انجام دی، ۱۳۷۸ھ؍ ۱۹۵۹ء سے مارچ ۲۰۰۴ء (محرم ۱۴۲۵ھ) تک مسلسل ۴۶ سال تک مدرسہ رحمانیہ سوپول ضلع دربھنگہ میں مصروفِ تعلیم و تربیت رہے۔ یہاں کی تدریسی خدمت مولانا محمد قاسمؒ نے امیر شریعت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی ؒ (۱۳۳۲ھ؍ ۱۹۱۳ء –۱۴۱۱ھ؍ ۱۹۹۱ء) اور مدرسے کے مہتمم و ذمے دار اعلی مولانا محمد عثمان متوفی فروری ۱۹۷۷ء (صفر ۱۳۹۷ھ) کے اصرار پر قبول فرمائی، مولانا محمد قاسمؒ نے وہاں تعلیم و تربیت کی ایسی جو ت جگائی کہ مدرسے کے وقار و اعتبار میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور وہ دربھنگہ کے علاقے کا قابل تقلید مدرسہ بن گیا۔ مولاناؒ کو بھی وہاں کی آب و ہوا راس آئی، ذمے داروں نے قدر شناسی کی اور مولاناؒ کو اپنی تعلیمی جدوجہد کے بار آور ہونے کا خوش گوار احساس ہوا؛ اِس لیے زندگی کا جوشِ عمل وقوت کار کا اصل دورانیہ آپ نے یہیں گزار دیا اور علما کی ایک بڑی کھیپ تیار کردی جو تاحیات آپ کی منت شناس اور آپ کے لیے دعا گو رہے گی۔ تدریس و تربیت کے ساتھ آپ نے وہاں کارقضا کی ذمے داری بھی انجام دی۔ امارت شرعیہ نے پھلواری شریف کے مرکزی دارالقضا کے علاوہ جب مدرسہ رحمانیہ سوپول میں اپنا پہلا ذیلی دارالقضا قائم کیا، تو روز اول سے آپ اس کی ذمے داری سے وابستہ کردیے گئے۔ مولانا محمد عثمان کی زندگی میں نائب قاضی اور اُن کی وفات کے بعد مستقل قاضی کی حیثیت سے قضا کی ذمے داری انجام دی۔ مدرسے سے بہ حیثیت استاذ سبک دوش ہوجانے کے بعد بھی ۴؍ فروری ۲۰۱۰ء (۱۹؍ صفر ۱۴۳۱ھ) تک، یعنی ۵۲ سال تک اس خدمت کو انجام دیتے رہے۔ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی وفات کے بعد امارت شرعیہ کے ذمے داروں نے مرکزی دارالقضا کے قاضی کی حیثیت سے پھلواری شریف تشریف لے آنے کی آپ سے درخواست کی؛ لیکن پیرانہ سالی، کم زوری اور دیگرنا گزیر التزامات و مشاغل کی وجہ سے، وہاں مستقلاً قیام سے معذرت کرلی، البتہ بہ وقتِ ضرورت مقدمات کی سماعت کی خدمت قبول فرمالی، جس سے تاحیات عہدہ برآہوتے رہے۔اِسی کے ساتھ دربھنگہ شہر کے قلعہ گھاٹ کے غرب میں واقع مہدولی گاؤں میں امارت شرعیہ نے جب دارالقضا قائم کیا تو وہاں بھی انھیں ہی قاضی کی ذمے داری سپرد کی گئی۔ نیز مرکزی دارالقضا نے وقتاً فوقتاً فضلاے مدارس کی تدریب کے لیے متعدد جگہوں میں قضائی کیمپ قائم کیے، جہاں کارہاے قضا کی تدریب کے لیے اُنھیں ہی زحمت دی گئی اور آپ نے وہاں تدریب کا فریضہ انجام دیا۔ اِس سلسلے میں کرناٹک، مالیگاؤں، تمل ناڈو، دارالعلوم بدرپور آسام، المعہد العالی الاسلامی شاہین نگر حیدرآباد اور دیگر مقامات کا متعدد مرتبہ سفر کیا۔ نیز اپنے گاؤں: انگواں مادھوپور میں مدرسہ طیبہ قائم کیا اور تاحیات اس کے ناظم رہے، نیز وہیںبچیوں کے لیے معہد الطیبات کی تاسیس کی اور اس کے بھی ناظم و ذمے دار رہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اساسی کی ذمے داری بھی انجام دی، امارت شرعیہ کی مجلس عاملہ کے بھی تاحیات رکن رہے۔ نیز اسلامک فقہ اکیڈمی کے رکن تاسیسی کی خدمت بھی آپ کے سپرد رہی۔ اتحاد علماء المسلمین قطر کی رکنیت پر بھی فائز رہے۔ مدرسہ اسلامیہ شکر پور کے صدر و سرپرست، مدرسہ قاسم العلوم بردی پور دربھنگہ، مدرسہ اصلاحیہ پاک ٹولہ سیتامڑھی، معہد الطیبات کرم گنج دربھنگہ، مدرسہ سبیل الشریعہ آوا پور سیتامڑھی، ابوالحسن علی ندوی ایجوکیشنل ویلفیئر ٹرسٹ وغیرہ کی بھی دمِ آخر تک سرپرستی کی۔
تحریری کاوشیں: رشتہ داروں کا احترام اور یتیموں کا اکرام کیجیے ، بینک سے متعلق چند مسائل اور بینک انٹرسٹ کا مصرف،مسجد کے آداب و احکام، مکاتیبِ رحمانی (حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی کے اہم خطوط کا مجموعہ)،کیا کثرتِ عبادت بدعت ہے؟،رہ نماے قاضی ،معلم و مربی: خصوصیات و امتیازات، الأدلۃ الحنفیۃ من الأحادیث النبویۃ علی المسائل الفقہیّۃ (اس کتاب میں فقہ حنفی کے مسائل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں مُدَلَّل کیا گیا ہے۔ اِس کتاب کی پہلی جلد جو عبادات پر مشتمل ہے محدث کبیر محمد بن عبداللہ بن مسلم بہلوی کی تالیف ہے، مولانا محمد قاسم مظفرپوریؒ نے اِس کتاب کا تکملہ دو جلدوں میں تالیف فرمایاجو معاملات پر مشتمل ہے، اِس طرح یہ کتاب تین جلدوں میں دارالقلم دمشق سے شائع ہوئی اور اہل علم و تحقیق کے لیے بے پناہ فائدے کا ذریعہ بنی)۔
کچھ کتابیں منتظرِ طباعت ہیں، جیسے: رہنماے مفتی ، قرآن کریم کی سورتوں کے مضامین کا تعارف،مجموعۂ مقالات، زندگی کا سفر، مشائخ، معاصرین اور شاگردوں کے چند خطوط وغیرہ۔
اسفار حج و عمرہ: مولانانے کئی بار حج و عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ پہلا حج ۱۴۱۷ھ ؍ ۱۹۹۷ء میں کیا۔ دوسرا حج ۱۴۲۹ھ؍ ۲۰۰۹ء میں، جب کہ تیسرا حج رابطۂ عالم اسلامی مکۂ مکرمہ کی دعوت پر ۱۴۳۴ھ؍ ۲۰۱۳ء میں کیا۔ دو بار آپ نے عمرے کی سعادت حاصل کی۔
پس ماندگان: مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک صاحب زادہ مولانا عبداللہ مبارک ندوی اور دو صاحب زادیاں اور ان کے خاوند مولانا عبیدالرحمن و جناب محمد اشرف علی اور برادر حافظ محمد ناظم رحمانی اور ان کی اولادیں ہیں۔
وفات: کئی ماہ سے علیل اور زیرِ علاج رہے، بالآخر سوموار –منگل: ۱۱–۱۲؍ محرم ۱۴۴۲ھ مطابق ۳۱؍ اگست –۱؍ ستمبر ۲۰۲۰ء کی درمیانی شب میں بہ وقت تہجد پونے ۳ بجے آخری سانس لی۔ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَجَعَلَ جَنَّۃَ الفِرْدَوْسِ مَثْوَاہُ۔ منگل: ۱۲؍ محرم=یکم ستمبر کو ظہر کی نماز کے بعد نماز جنازہ زکریا کالونی میں ادا کی گئی، جس کی امامت جامع العلوم مظفرپور کے سرپرست اور دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ کے رکن مولانا اشتیاق احمد مدظلہ نے کی اور زکریا کالونی شہر مظفرپور کے قبرستان میں آسودۂ خواب ہوے۔
مولانا محمد قاسم مظفرپوریؒ ایسے عالم باعمل دنیا سے جانے کے بعد بھی جاوداں رہتے ہیں اور دلوں کی گہرائیوں میں ، زبانوں کی سطحوں پر، ہونٹوں کی جنبشوں میں اور روحوں کی تہ داریوں میں ہمیشہ موجود و مذکور رہتے ہیں اور کسی اسماعیل میرٹھی کو اِس حسرت کے اِظہار کی کبھی ضرورت نہیں ہوتی:
تا سحر وہ بھی نہ چھوڑی تونے اے بادِ صبا
یادگارِ رونقِ محفل تھی پروانے کی خاک
(مولانا محمد اسماعیل میرٹھیؒ: ۱۸۴۴ –۱۹۱۷ء)
کیوں کہ مولاناؒ کے ایسے علم وفضل کے پروانے کے سلسلے میں خاک ہوجانے کے بعد بھی، کسی بادِ صبا کے اسے اڑالے جانے کا اندیشہ نہیں ہوتا؛ کیوں کہ وہ خاکی طورپر معدوم ہوجانے کے بعد بھی زندوں کے خانہ ہاے خیال میں متحرک اور اُن کے ہونٹوں پہ نغمۂ شیریں بن کر مچلتے رہتے ہیں اور اُن کے ساز ہستی کی خاموشی، نغمۂ جاوید کی شکل اختیار کرلیتی اور ہر دلِ شُنْوَا کے لیے ہمہ وقت مسموع رہتی ہے:
جو گوشِ دلِ شُنْوَا ہو، تو بزمِ ہستی میں
سکوتِ ساز بھی، اِک نغمۂ مُجَسَّم ہے
مولاناؒ کی فرقت کا غم ایک طبعی بات ہے؛ لیکن موت ایسی سچائی ہے، جو اپنے وقت پر برپا ہوکے رہتی ہے۔ اس نے انبیا واولیا کو نہیں چھوڑا تو کسی بڑے سے بڑے ذی علم وفضل و صلاح کو کب چھوڑنے والی ہے:
لاَ یَرْحَمْ المَوْتُ ذَا جَاہٍ لِعِزَّتِہٖ
وَلَا الَّذِیْ کَانَ مِنْہُ العِلْمُ یُقْتَبَسَ
رابطۂ مدارس دہلی کی میٹنگ،مدارسِ اسلامیہ کو مالی بحران سے نکالنے پر غور و خوض
نئی دہلی:(پریس ریلیز)رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند صوبہ دہلی کی ایک اہم میٹنگ صوبائی دفتر مدرسہ باب العلوم جعفرآباد دہلی میں ہوئی جس کی صدارت مولانا محمد داؤد امینی صدر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند صوبہ دہلی نے کی جبکہ نظامت مولانا محمد جاوید صدیقی قاسمی نے کی۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے مفتی ذکاوت قاسمی شیخ الحدیث مدرسہ امینیہ کشمیری گیٹ دہلی،مولانا محمد غیور قاسمی،قاری عبد السمیع شاہی موجود رہے۔باضابطہ مجلس تعلیمی و عمومی رابطہ مدارس دہلی کا آغاز قاری محمد سہراب کی تلاوت قرآن مجید و نعت پاک سے ہوا۔میٹنگ میں مدارس اسلامیہ کو مالی بحران سے نکالنے پر غور و خوض،مدارس میں تعلیمی سلسلے و نظام کو شروع کرنے و بحال کرنے کے لئے افسران سے ملاقات، طلبہ مدارس کے لیے آن لائن تعلیمی افادیت یا مضر اثرات پر مذاکرہ،دہلی کے مدارس کو رابطہ سے از سر نو مربوط کرنے پر غور، بیرونی چندے و آمد کی حصولیابی کے لئے قانونی پابندیوں و حکومتی گائڈ لائن کے مطابق مستقبل کے لیے لائحہ عمل طے کرنا جیسے ایجنڈوں پر غور خوض کیا گیا۔مزید اس موقع پر کئی اہم شعبوں و پہلوؤں کو ملحوظ رکھ کر ضروری سمجھتے ہوئے چند کمیٹیاں تشکیل دی گئیں تاکہ مستقبل کے بدلتے حالات و تقاضے کے مطابق رابطہ کو فعال و متحرک بنانے کے ساتھ مدارس و اہل مدارس کے لیے بر وقت بر موقع خدمات پیش کر سکیں۔سرپرست مولانا محمد داؤد امینی جبکہ کنوینر قاری شاہد بدری صدر شمالی دہلی بنائے گئے۔مدارس سے متعلق کسی طرح کے در پیش مسائل کے حل کے لیے گورمنٹ و سرکاری افسران سے ضروری ملاقات کے لیے کمیٹی بنائی گئی جس کے کنوینر مولانا محمد جاوید صدیقی قاسمی ہوں گے۔دہلی مدارس کو رابطہ مدارس عربیہ دارالعلوم دیوبند سے از سر نو مربوط کرانے کی قائدانہ ذمہ داری و سرپرستی مفتی محمد ذکاوت قاسمی شیخ الحدیث مدرسہ امینیہ کے سپرد کی گئی۔وہیں دہلی رابطہ مدارس کو فنڈ کے اعتبار سے مضبوط کرنے و سالانہ طے شدہ رابطہ کی آمدنی کی وصولیابی کی نگرانی و سرپرستی قاری محمد ارشاد کے حوالے کی گئی۔مولانا محمد داؤد امینی صدر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ صوبہ دہلی نے خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے مفتی ابو القاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند و صدر کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے ذریعہ جاری کردہ مدرسے کے مہتمم کے نام خط پڑھ کر بتاتے ہوئے کہافی الحال مدارس اسکول کالج بند ہیںایسے موقع پر اہل مدارس خصوصی طور پر اپنے اسٹاف و اساتذہ کا ضرور خیال رکھیں انکی ضروریات کی تکمیل ممکن با سہولت جہاں تک ہو ضرور کریں۔مولانا مفتی ذکاوت قاسمی نے کہا کہ حالیہ جاری کردہ گورمنٹ کے ذریعہ ۲۰۲۰ کے تعلیمی نظام کو سمجھیں اپنی تاریخ و تہذیب مسخ نہ ہوجائے اس پر گہری نظر ہونی چاہئے ۔مولانا محمد غیور احمد قاسمی نے کہا کہ مدارس کے ذمہ داران کو حوصلے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں اور سلسلہ تعلیم کو منظم کرنے کے ضوابط اور خاکہ ابھی سے تیار کریں وقت کو کامیاب کرنے کی کوشش کریں مایوسی نہ آنے پائے۔اہم شرکا میں قاری عبد السمیع،قاری احرار الحق جوہر قاسمی،قاری محمد ارشاد ،مفتی اسحاق حقی ،مولانا احسان اللہ قاسمی ،مفتی گلزار، قاری فاروق جامعی منڈولی، قاری افتخار نعمانی، قاری عاقل، مفتی فاروق قاسمی گنگوہی، قاری محمد ولی اللہ، حافظ محمد خلیل، قاری تصور علی، قاری ارشاد، مفتی کفیل الرحمن، مولانا نور محمد رحیمی، قاری ممتاز احمد کاشفی، مولانا خورشید احمد، قاری فخر الدین اشرف، مفتی نثار سنگم وہار، قاری شمعون وغیرہ کے اسما قابل ذکر ہیں۔
بانی جامعہ فلاح دارین الاسلامیہ، بلاسپور، ضلع مظفرنگر
مورخہ ۲۳/۰۹/۲۰۲۰ کے اخبار میں حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند نے ایک بیان میں آن لائن تعلیم میں فوائد سے زیادہ نقصانات بتائے اور طلبا کے موبائل رکھنے اور اس کے غلط استعمال و مضر اثرات کا ذکر فرمایا۔
میں اس بنیادی نکتہ سے پوری طرح متفق ہوں کہ طلبا کیلئے بڑے موبائل رکھنا عموما مضر ہوتا ہے اس لئے بہت سے اداروں کی چہاردیواری میں اس کا رکھنا ممنوع ہے لیکن یہاں مسئلہ نا چہار دیواری کا ہے اور نا صرف موبائل کے صحیح یا غلط استعمال کا، یہ تو اپنی اپنی ذہنیت و تربیت پر منحصر ہے بات یہ ہیکہ لاک ڈاؤن کے اس دورانیہ میں جب کہ طلباء دارالاقاموں میں ہیں ہی نہیں اور گھروں پر ان کے موبائل رکھنے پر پابندی لگانا عملا ممکن نہیں، وہ منع کرنے کے باوجود اور آن لائن تعلیم نہ ہونے کے باوجود موبائل رکھنا چاہیں تو رکھ لیں گے۔ تمام تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں، طلباء کے تعلیمی سال کا بڑا حصہ ضائع ہو گیا اور مستقبل قریب میں بھی کوئی قطعی تاریخ مدارس کھلنے کی مقرر نہیں، ایسے میں طلباء کیا کریں جن کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے، اساتذہ کیا کریں جو یا تو گھروں پر بیکار بیٹھے ہیں یا ویران مدرسوں کی چہار دیواری میں بیٹھے گھٹن اور بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔ طلباء سے رابطہ کا کوئی طریقہ کوئی ذریعہ ان کے پاس نہیں سوائے آن لائن تدریس کے۔ ایسے میں اگر آن لائن تعلیم پر بھی پابندی لگا دی جائے تو براہ کرم بتائیں اساتذہ کرام اور طلباء کے درمیان رابطہ کا کیا ذریعہ ہوگا؟ کیسے وہ اپنی تعلیمی و تدریسی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں گے؟
یہ درست ہے کہ آن لائن تعلیم درسگاہ کی باقاعدہ تعلیم کی جگہ نہیں لے سکتی یعنی اس کا اتنا فائدہ نہیں ہو سکتا لیکن مکمل انقطاع اور خالی رہ کر خرافات میں پڑ کر ضائع ہونے سے تو بہتر ہے کہ آن لائن تعلیم کے ذریعہ ان اوقات کو حتی الامکان کامیاب بنا لیا جائے۔ یہ بھی تسلیم کہ سب طلباء یا مان لیجئے اکثر طلباء آن لائن تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے اور موبائل کو دیگر مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں لیکن آن لائن تدریس ہوگی تو کچھ فیصد طلباء تو یقیناً ایسے ہوں گے جو اس میں دلچسپی لے کر اپنے وقت کا، اپنے موبائل کا صحیح استعمال کریں گے، اگر ہم نے یہ بھی بند کر دیا تو ان سنجیدہ طلباء کا وقت بھی ضائع ہوگا۔ کوئی قابل عمل مفید متبادل بتائے بغیر پابندی لگانے میں تو سراسر نقصان ہی ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کیا آن لائن تدریس نہ ہونے سے طلباء اپنے گھروں پر موبائل رکھنا بند کر دیں گے؟ کہا جا سکتا ہے کہ مدارس کی آن لائن تعلیم سے موبائل رکھنے کیلئے ایک جواز پیدا کر سکتے ہیں جس سے طلباء کے موبائل رکھنے سے متعلق حوصلہ افزائی ہوگی، ان کو آزادی ملے گی وغیرہ۔ تو پھر ہم (علماء کا ایک بہت بڑا طبقہ) موبائل پر آڈیو ویڈیو اور تحریری پیغامات کیوں بھیجتے ہیں؟ جن میں سے بہت سے صرف طلباء کیلئے ہوتے ہیں۔ ہمارے قول و عمل میں یہ تضاد کیوں ہے؟ کیا اس متضاد تصویر کا طلباء پر اور معاشرہ پر اچھا اثر پڑتا ہے یا موبائل پر صرف تدریس غلط ہے اور دیگر ویڈیو وغیرہ بھیجنا سب درست؟
جہاں تک طلباء کو مدرسہ کے اندر موبائل رکھنے سے روکنے کا معاملہ ہے تو اس کا جواز یقیناً ہے اور یہ ممکن اور قابل عمل بھی ہے، ادارے کھلنے پر یہ کیا بھی جا سکتا ہے لیکن طویل جبری تعطیلات میں نہ ہم کسی پر پابندی لگا سکتے ہیں اور نا یہ قابل عمل ہے۔ ہاں اس کو بنیاد بنا کر آن لائن تعلیم کو روکنا طلباء اور اساتذہ کے ساتھ زیادتی ضرور ہے۔ انتظامیہ کو سنجیدگی اور ہمدردی سے نظر ثانی کرنی چاہئے۔
صحیح بات یہ ہیکہ یہ ایک موقع ہے اپنے طلباء کو انٹرنیٹ کو تعمیری تعلیمی اور مثبت کاموں میں استعمال کرنے کی ترغیب دینے کا۔ اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم کتنے موثر انداز میں طلباء کو قائل کر پاتے ہیں اور اس سے تعلیمی فوائد اٹھانے کا ماحول بنانے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں۔
جو ادارے یا افراد آن لائن تعلیم کا کام کر رہے ہیں حقیقت میں وہ قابل تحسین، بڑا تعمیری اور مفید کام کر رہے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کو بے دلی سے معذرت خواہانہ انداز میں نہیں بلکہ وسیع النظری اور اعتماد کے ساتھ ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
دوسروں کی سوانح لکھنایا دوسروں کے احوال و کوائف قلم بند کرنا بہت آسان کام ہے۔اس کے برعکس اپنی خود نوشت مرتب کرنا اور اپنی کتاب زندگی کو بے کم و کاست تحریر کے قالب میں ڈھالناپل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ سوانح نگاری خارجی زندگی کی تصویر کشی ہے، تو خود نوشت نگاری باطن کے اسرار رو رموز کو کاغذ کے سینے پر کندہ کرنے کی جاں کاہی۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ خود ستائی کی بے لگام خواہش سے مجبور ہوکر اپنی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور اپنے عیوب پریا تو ملمع سازی کرتا ہے یا دانستہ اس سے چشم پوشی کرلیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ داستان خود بقلم خود سے عبارت، خود نوشت نگاری تمام ادبی اصناف میں مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔ مشکل اس لیے کہ اس میں حقیقت بیانی اور صدق مقالی سے کام لینے پر اپنی زندگی کی پرتوں کو اس طرح کھولنا پڑتا ہے کہ بسا اوقات دھرم سنکٹ والا معاملہ پیش آجاتا ہے۔اور یہیں نفسانی خواہشات سے مغلوب ہوکر مصنف کا قلم شکست کھاجاتا ہے۔ اور آسان اس لیے کہ اگرچہ اپنا اعمال نامہ زیادہ’ طویل‘ ہو ، اس پر ادبی لفاظی، عبارت آرائی اور خوش نما ترکیبوں کی قلعی کرتے جائیے اور اپنی خامیوں کو بھی خوبی کے لباس میں پیش کرتے جائیے۔ خود نوشت نگاری کوئی تحقیق یا تنقید کا میدان نہیں کہ اس میں مراجع اور مآخذ کی طرف جھانکنے کی نوبت آئے ۔ بس حقیقت کی بینائی کھولے رکھیے اور اپنے ظاہر و باطن کے احوال کو قلم و قرطاس کے حوالے کرتے جائیے۔تا ہم خود نوشت کے لیے اصلیت و واقعیت اور انکشاف ذات خشت بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خود نوشت کا محور چوں کہ مصنف کی شخصیت ہوتی ہے، اس لیے اس میں اپنی ذات سے محبت کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے اور قاری کے محاسبے کا خوف بھی دامن گیر رہتا ہے۔سوانح عمری اور خود نوشت کے تقاضوں کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں:
’’ایک لحاظ سے آپ بیتی یا خود نوشت سوانح عمری کی صنف دوسروں کی لکھی ہوئی سوانح عمریوں کے مقابلے میں خاصی نارسا اور ناقص چیز ہوتی ہے۔ اس کے راستے میں دوبڑی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ دوسرں کا خوف اور اپنے آپ سے محبت۔ ایک اچھا سوانح نگار، اپنے فن کی لاج رکھنے کے لیے بہت سی ایسی باتیں بھی بیان کردیتا ہے جو خود نوشت نویس کے لیے ممکن نہیں ہوتیں۔ سوانح نگار اپنے ہیرو کے کرداد کا جج بن سکتا ہے۔ اس کی کمزوریوں کا شمار کرسکتا ہے لیکن آپ بیتی میں اپنی محبت اور دوسروں کاخوف ہر وقت دامن گیر رہتا ہے۔ وہ نہ اپنے گناہوں کی صحیح فہرست پیش کرسکتا ہے، نہ اپنا صحیح جج بن سکتا ہے۔( میر امن سے عبد الحق تک،ڈاکٹر سید عبد اللہ، ص:۴۰۰چمن بک ڈپو، دہلی، ۱۹۶۵ء)
خود نوشت نگاری کے بنیادی لوازم کیا ہیں، ڈاکٹر عمر رضا لکھتے ہیں:
’’خود نوشت سوانح عمری کی تعمیر اگرچہ خود مصنف اپنی یاد داشت کی بنیاد پر کرتا ہے، لیکن محض یاد داشت کی بنیاد پر خود نوشت سوانح مرتب کرنا درست نہیں، بلکہ مصنف کو اپنے حالات و واقعات کی صحت مندی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تاکہ اپنے متعلق کوئی بھی غلط بات یا غلط حقائق قارئین کی نذر نہ کردے۔‘‘(اردو میں سوانحی داب: فن اور روایت، ص:۲۲، کتابی دنیا نئی دہلی، ۲۰۱۱ء)
ڈاکٹر سید طفیل احمد خود نوشت سوانح کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’آپ بیتی کسی انسان کی زندگی کے تجربات، مشاہدات، محسوسات و نظریات کی مربوط داستان ہوتی ہے، جو اس نے سچائی کے ساتھ بے کم و کاست قلم بند کردی ہو، جس کو پڑھ کر اس کی زندگی کے نشیب و فراز معلوم ہوں۔ اس کے نہاں خانوں کے پردے اٹھ جائیں اور ہم اس کی خارجی زندگی کی روشنی میں پرکھ سکیں۔‘‘(اردو میں سوانحی ادب، فن اور روایت، ص:۱۲۱)
خود نوشت سوانح کے مدکورہ لوازمات اور فنی تعریف کے علاوہ اگر ماہرین فن کے ذریعے مرتب کردہ اس کے عناصر ترکیبی پر غور کیجیے تو یہ صنف تمام نثری اصناف میں مشکل ترین نظر آتی ہے اور اس دشت کی سیاحی کے لیے قدم قدم پر بڑی جان کاہی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ مشہور مزاح نگار مشتاق یوسفی اسی مشکل کو بیان کرتے ہوئے، اپنی مزاحیہ خود نوشت زرگزشت کے مقدمے میںلکھتے ہیں:
’’آپ بیتی میں ایک مصیبت یہ ہے کہ اپنی بڑائی آپ کرے تو خود ستائی کہلائے اور از راہ کسر نفسی یا جھوٹ موٹ اپنی برائی خود کرنے بیٹھ جائے تو یہ احتمال کہ لوگ جھٹ یقین کرلیں گے۔‘‘
شورش کاشمیری بھی خود نوشت نگاری کو نقصان کا سودا ہی بتاتے ہیں، اور اس کو ناقابل اعتبار قرار دیتے ہیں، لکھتے ہیں:
’’لیکن چوں کہ انسان یہ سمجھ کر اپنے حالات حوالۂ قلم کرتا ہے کہ ایک دن یہ مجموعہ لوگوں کے ہاتھ میں جائے گا، اس لیے اس تصویر میں جہاں عیب ہیں وہ ان پر سیاہی پھیرتا جاتا ہے اور اس بناء پر یہ مرقع بھی اس کی سچی شبیہ نہیں ہوتی۔‘‘(قلم کے چراغ، مرتب:پروفیسر محمد اقبال، ص:۴۶۲، دارالکتاب لاہور، ۲۰۰۹ء)
لیکن مشتاق یوسفی کے احتمال وایقان یا شورش کاشمیری کے غیر معتبریت کا مسئلہ ان لوگوں کے ساتھ گمبھیر روپ اختیار کرلیتا ہے جو واقعی اپنی زندگی میں بڑے حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں۔ ورنہ جن لوگوں کی کتاب زندگی میں حقیقت وصداقت اور اعتبار و استناد کا کوئی باب اور فصل ہی نہ ہو ان کے لیے یہ یقین یا شک کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان کے لیے صحیح اور غلط سچ اور جھوٹ دونوں یکساں ہیں۔ اکثرخود نوشت نگار اپنی زندگی کے دروں میں جھانکتے ہوئے سچائی اور صداقت پر مبنی ان تمام اصول کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور بس بزبان حال ان کا یہی دعوی ہوتا ہے کہ میں بھی غالب کی طرح عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں۔
خود نوشت نگاری کے مرض میں ہمارے عہد کے قلم کار اس بری طرح مبتلا ہیں، یا شہرت طلبی کے بے لگام شوق اور سیم و زر کی بہتات نے انھیں اس مرض میں مبتلا کردیا ہے کہ کسی لائبریری کے کیٹلاگ میں جاکر خود نوشت والا حصہ کھنگالیے تو سب سے پھیلا ہوا اور وسیع و عریض یہی رقبۂ ادب ہوگا۔ہماری نومولود اردو زبان میں خاص طور سے خود نوشت نگاری کا سیلاب آیا ہوا ہے۔افسانہ نگاری اور عزل گوئی کے بعد اس بیچاری زبان کے اسی نثری حصے کوسب سے زیادہ مشق ستم بنایا جارہا ہے۔ اب تو اردو کے نام سے قائم اکیڈمیاں خود نوشت نگاری کے لیے ادیبوں اور ریٹائرڈ پروفیسرز کو خطیر رقم پر مبنی فیلوشپ بھی دینی لگی ہیں تا کہ اس سیلاب بلا خیز پر کوئی بھی بند نہ باندھ سکے۔اسی قسم کی بے سر و پا باتوں پر مبنی، اردو کی خود نوشت سوانح عمریوں کا ماتم کرتے ہوئے شورش کاشمیری نے لکھا تھا:
’’بین الاقوامی ادب سے قطع نظر اردو میں جس قدر خود نوشت سوانح عمریاں ہیں، ان میں شاعری زیادہ اور اصلیت کم ہے۔‘‘(قلم کے چراغ، ص:۴۶۲)
جملۂ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ ناچیز راقم الحروف کو خود نوشت نگاری کیا ، کسی بھی نثری یا شعری صنف سے کوئی بیر نہیں ہے، میرا یقین ہے کہ تاریخی کتابوں کی طرح یہ بھی معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ لیکن جب خود نوشت کی تعیین قدر کے معاملے میں بھی ہمارے اردو کے سماجیاتی ماہرین ڈنڈی مارنے لگیں، تو واقعی بڑا دکھ ہوتا ہے۔ خود نوشت نگاری کی صنف میں بے شمار لوگوں کا نام آتا ہے۔ سر رضا علی،جوش ملیح آبادی،رشید احمد صدیقی، عصمت چغتائی، ، آل احمد سرور، کلیم ا لدین احمد، انیس قدوائی ، ادا جعفری، شکیل الرحمن، وہاب اشرفی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس طویل فہرست میں کسی ایسے آدمی کا نام نہیں جو یونیورسٹی یا ادبی پارٹی اورسکہ بند نظریاتی ادبی گروہ سے الگ رہ کراردو زبان کی زلف پریشاں کی مشاطگی میں مصروف ہو۔آخر کیا وجہ ہے کہ اس فہرست میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا اور شیح الاسلام مولانا حسین احمدمدنی کا نام نہیں آتا۔ بعض شدت پسند حضرات تو مولانا عبدا الماجد دریابادی کی خود نوشت کو بھی ہضم کرجاتے ہیں۔ تجدد پسند ادبا اس فہرست میں زیادہ سے زیادہ مولانا جعفر تھانیسری کا نام لیتے ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ دستیاب تاریخی دستاویزات کے مطابق ان کی خود نوشت تواریخ عجیب(کالاپانی) کو ارود میں پہلی خود نوشت ہونے کا شرف حاصل ہے۔مصیبت یہ ہے کہ اگر کالاپانی کو پہلی خود نوشت تسلیم نہیں کیا جائے گا تواردو میں خود نوشت نگاری کی تاریخ کو اپنے آغاز کے لیے کئی سال مزید انتظار کرنا پڑے گا۔کیا یہ پلے درجے کی علمی اور ادبی بد دیانتی نہیں؟جب کہ مدارس کی چہار دیوار میں پرورش پانے والے ان بوریہ نشیں علماء کی خود نوشتوں کو پڑھیے تو وہ معلومات کا جام جہاں نما معلوم ہوتی ہیں۔ ان کی زبان میں سادگی بھی ہے اور سلاست بھی۔اختصار بھی ہے اور جامعیت بھی۔ واقعات اور قصوں میں صداقت بھی ہے اور بیانیہ کی چاشنی بھی۔ان کے مشمولات جگ بیتی بھی ہیں اور آپ بیتی بھی۔ ہاں آج کل کی سطحی رومانیت اور عشق و عاشقی کے جھوٹے اور فرضی لطیفوں سے ان کی تحریریں خالی ہوتی ہیں، معاشقہ بازی کے معاملات اور رو مانٹک قصوںسے وہ کیوں سرو کار رکھیں کہ یہ عشق مجازی کا بھی ادنی ترین درجہ ہے، لیکن ان کی تحریروں میں عشق حقیقی کے نمونے وافر مقدار میں ملتے ہیں۔اور یہی درجہ کسی بھی سچے عاشق کا منزل مقصود ہوتا ہے۔اور یہ بھی کہ خود نوشت نگاری اپنی خودی سے آشنائی کا مضبوط دریعہ ہے، جس کی وساطت سے نفس شناسی ہی نہیں، خدا شناسی کی راہ بھی آسان ہوتی ہے۔ عربی کا مقولہ ہے من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ( جو اپنے آپ سے آشنا اور خود آگاہ ہوگیا، اس کو معرفت خداوندی حاصل ہوجائے گی۔)اور اردو شاعری کے مطابق اگر خدا کو اپنا جلوۂ جہاں آرا دیکھنا منظور نہ ہوتا تو شاید یہ دنیا بھی عدم سے وجود میں نہ آتی۔اسی لیے غالب نے کہا ہے:
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے ، اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
شیخ العرب و العجم، اسیر مالٹا اور عظیم مجاہد آزادی مولانا حسین احمد مدنی کی خود نوشت ’نقش حیات‘کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی متعصبانہ اور جانب دارانہ معاملہ روا رکھاگیا ہے۔ ان کی خود نوشت جو آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں کا حسین سنگم ہے، ہماری ادبی بے حسی کی وجہ سے ادبی تحقیقات کا مرکز بننے سے محروم رہی ہے۔ خود نوشت نگاری کی تاریخ اور تنقید پراردو میں حالیہ برسوں میں جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں بہت کم ان کی کتاب کا ذکر کیاگیا ہے اور جن ایک آدھ لوگوں نے تحقیق کے مرغے کو حلال کرنے کے لیے اپنی کتاب کے کسی کونے میں اس کادکر کیا ہے تو انھوں نے بھی ادبی معیار بندی کا خون کردیا ہے۔ ان کی خود نوشت کا قدسیہ زیدی، صبیحہ انور اور صدف فاطمہ نے دکر کیا، وہاج الدین علوی اورسید عبد اللہ نے نام لیا او ر وہیں سے ممتاز فاخرہ نے بھی اخذ کیا ، لیکن بس اس حد تک کہ نام شماری کے فرض کفایہ کی ادائیگی میں کمی نہ رہ جائے۔ صدف فاطمہ کو چھوڑ کرکسی محقق یا ریسرچ اسکالرنے اس کی ادبی ، نیم ادبی، مذہبی یا تاریخی قدر و قیمت پر تفصیل سے بحث نہیں کی۔ ڈاکٹر عبد اللہ نے جو اس سلسلے میں سرخیل کی حیثیت رکھتے ہیںبس اتنا لکھا کہ:
’’مولانا حسین احمد مدنی نے کوئی بڑا دعوی نہیں کیا۔ محاسبۂ نفس کے فرض سے پوری طرح باخبر رہنے کے باوجود اپنی سوانح عمری تدین،اخلاق آموزی اور واقعات سیاسی کی خارجی تفصیل کے مقصد سے مرتب کی ہے۔‘‘(میر امن سے عبد الحق تک، ص:۴۱۲)
اور وہاج الدین علوی صاحب نے اپنی کتاب کا ماحصل لکھتے ہوئے بس یہ دو جملے لکھے کہ:
’’نقش حیات مولانا حسین احمد مدنی کی خود نوشت ہے۔ اس خود نوشت میں مولانا نے سیاسی حالات اور علمائے دیوبند کے کارناموں کا دکر کیا ہے۔‘‘اردوخود نوشت، فن اور تجزیہ، ص:۴۱۹، شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی، ۱۹۸۹ء)
مجھے گلے شکوے نہیں کرنا ہے۔ یہ تو معزَّز کو معزِز اور مؤثِر کو مؤثَّر بولنے والے اہل ادب اور اردواکادمیوں کے ذمے داران کا محبوب مشغلہ ہے۔ مجھے تو نقش حیات کوخود نوشت نگاری کے لیے مقررہ پیمانے پر ادبی زاویۂ نظر سے دیکھنا ہے اور اس کو تقابل و تجزیے کی اس میزان پر تولنا ہے، جس پر عموما خود نوشت سوانح عمریوں کو ہمارے نقاد تولا کرتے ہیں۔آخر وہ کون سا پیمانہ ہے جس کے دریعے ادب اور غیر ادب کے مابین خط کھینچاجاتا ہے۔کیا صرف زبان و ادب اور ادبی تحریکات کی بحث پر مبنی خود نوشت ہی ادب کے زمرے میں آتی ہے؟ کیا صرف مشاعروں، ادبی مداکروں اور جام و ساغر کی محفلوں کے دکر سے پر خود نوشتوں کے سر پر ہی ادب کا تاج زرنگار کھا جاسکتا ہے؟بادۂ و ساغر کے بغیر بھی تو مشاہدۂ حق کی گفتگو ہوسکتی ہے۔کیا یہ پیمانہ عدل و انصاف سے میل کھاتا ہے، یا پھر یہ اپنی ذہنی عیاشی ہے کہ کس کو ادب کے نگار خانے میں سجانا ہے اور کس کوادب کے دائرے سے دودھ سے مکھی کی طرح باہر نکال کر پھینک دینا ہے۔ کسی معیار بندی کا یہ پیمانہ تو صحیح ہو نہیں سکتا۔ ادب تو قاری اور ادیب کے مابین کا مقدس رشتہ ہے۔ کوئی تحریر قاری کے باطن کو اپیل کرتی ہے اور اس کو کتھارسس کے مراحل سے گزارنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کو ادب کے نگار خانے میں جگہ دی جاسکتی ہے۔ اردو زبان کے اسرارو رموز سے ناواقفیت کا الزام تو اردو کے سب سے بڑے شاعر علامہ اقبال اور ترقی پسندوں کے میر فیض احمد فیض پر بھی لگایا گیا ہے، لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ علامہ اقبال اور فیض کاکیا مقام ہے اور لاکھوں کی تعداد میں موجود دوسرے شاعراور ادیب ان کے سامنے کہاں کھڑے نظر آتے ہیں۔ مدح و ذم یاتحسین و تنقیص سے کسی شخص یا فن کی معیار بندی ممکن نہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد کے ا ستاد ذوق کو بڑھا چڑھا کر پیش کردینے اورپہلے ایڈیشن میں مومن کو نظر انداز کردینے اور مرزا عالب کا یوں ہی سر سری ذکر کردینے کی وجہ سے ذوق غالب اور مومن سے بڑے نہیں ہوگئے۔ وقت سب سے بڑا منصف ہے۔مولانا محمد حسین آزاد کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے بعد کوئی عبد الرحمن بجنوری، کوئی مالک رام، کوئی احتشام حسین، کوئی شمس الرحمن فاروقی بھی پیدا ہوگا جو تعیین قدر کا ایسا پیمانہ متعین کرے گا جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔آنے والے وقت نے ثابت کردیا کہ کہاں غالب ومومن اور کہاں ذوق۔ صرف شہ کا مصاحب بن کر ادبی محفلوں کی صدارت کرنے سے کوئی بڑا نہیں ہوجاتا۔
مولانا حسین احمد مدنی نے نقش حیات کسی ادبی قلابازی یاکسی ایوارڈ کے حصول یا محض اپنے باطن کی اپیل پر نہیں لکھی تھی، جس میں خود ستائی یا نمود و نمائش کا عنصر موجود ہوبلکہ دوستوں اور بے تکلف احباب کے اصرار نے انھیں قلم اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔جب آپ نینی جیل میں قید وبند کی زندگی گزار رہے تھے تو بعض مخلص خدام نے تیری زبان، تیری کہانی ،تیرا قلم کے استدلال کے ساتھ، یہ درخواست رکھی کہ نہ صرف اپنی داتی اور خاندانی زندگی کے نشیب و فراز کی مفصل روداد مرتب کردی جائے، بلکہ جنگ آزادی کی مختلف تحریکوں کے دوران اپنے عینی مشاہدات اور تاریخی واقعات کو بھی قلم بند کردیا جائے۔ تا کہ علم و معرفت کا یہ کشکول آنے والے مؤرخین کے لیے مشعل کا کام دے سکے۔ اور بہت سے ان واقعات سے پردہ اٹھ سکے جو کسی وجہ سے اب تک ہماری نظروں سے اوجھل ہیں اور جن کی روشنی میں ہندستان کے باشندگان اور خاص طور سے مسلمان اپنے مستقبل کی تعمیر کا نقشہ مرتب کرسکتے ہیں۔یہ کتاب کوئی یک شبینہ نہیں، بلکہ نو سالہ کدو کاوش اور ذہنی ریاضت کا نتیجہ ہے۔ ۱۹۴۴ء میں اس کا آغاز ہوا اور اس کا اختتام ۱۹۵۳ء میں ہوا۔شاہ پار ے اتنی طویل ریاضت کے بعد ہی وجود میں آتے ہیں۔ حروف کی نقش گری اتنا آسان کام نہیں اور پھر یہ بھی کہ انھوں نے دوسری مصروفیات سے بھی ہاتھ نہیں کھینچا تھا، بلکہ انھیں قال اللہ اور قال الرسول کی محفل علم و معرفت سجانے اور تصوف و سلوک کی راہ پر چلنے والے ارادت مندوںکی دست گیری کے ساتھ سیاست کی زلف پریشاں کو بھی سنوارنا تھا کہ
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔پہلا حصہ۴۴۸ صفحات تک ہھیلا ہوا ہے۔ شروع کے ۱۸۰ ؍صفحوں میں خاندانی اور شخصی کوائف درج ہیں۔ اس کے بعد اپنے استاد گرامی شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کا مختصر تذکرہ کر کے اس وقت کی مروجہ ہندستانی سیاست کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں انگریزوں کی ظلم پیشہ طبیعت کا بیان بھی ہے اور ہندستانیوں خصوصا مسلمانوں کی مظلومیت کی دل خراش داستان بھی۔ دوسرا حصہ ۳۵۲؍ صفحات کو محیط ہے۔ جس میں اسلامی ریاستوں پر یورپی ممالک کی یورش اور استخلاص وطن کے لیے شاہ عبد العزیز، سید احمد شہید اور حضرت شیخ الہند کی انقلابی تحریکوں کا تفصیلی جائزہ شامل ہے۔
نقش حیات مولانا مدنی کی تعلیمی، تدریسی اور سیاسی زندگی کا بیان ہی نہیں، بلکہ ملکی اور بیرونی حالات و کوائف کا بھی حسین مرقع ہے۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کتاب پر تعارفی کلمات میں لکھتے ہیں:
’’یہ کتاب صرف حضرت مد ظلہ العالی کی سوانح حیات ہی نہیں رہی، بلکہ ہندستان میں انگریزوں کی آمد سے لے کر ان کے اقتدار کے خاتمے تک تمام نمایاں واقعات کا مجموعہ، برطانوی حکومت کی تباہ کن ڈپلومیسیوں اور سیاسی مکر و فریب کا انسائیکلوپیڈیا، حضرت شیخ الہند کی تحریک حریت اور اس عرصے کے سیاسی رجحانات اور انقلابی تحریکات کا وہ مستند اور جامع تذکرہ ہے ، جس کا مطالعہ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے، جو ماضی سے سبق لے کر مستقبل کی فکر کرنا چاہتا ہے۔ اور ہند یونین میں ملت اسلامیہ کی عزت و عظمت کا آرزومند ہے۔‘‘(نقش حیات، ص:۱۴)
نقش حیات کے مضامین اور اس کی زبان و بیان اور طرز ادا کیسی ہے۔ میری ناقص معلومات کے مطابق، اس پر آج تک کسی ادیب یا اردو کے ریسرچ اسکالر نے تفصیلی بحث نہیں کی۔میں مانتاہوں کہ مولانا مدنی کوئی صاحب طرز ادیب یا انشاء پرداز نہیں تھے۔ وہ شاعر تھے، نہ ’نثر نگار‘وہ تو ایک صوفی منش آدمی تھے، جن کے اعصاب پر بس ایک ہی فکر سوار رہتی تھی اور وہ تھی ملک و قوم کی انگریزوں کے چنگل سے آزادی۔ ایسی صورت میں لفظوں کی مینا کاری کے ذریعے، کوئی اپنی زبان دانی کا کیسے ثبوت دے سکتا تھا۔مصلح قوم سر سید بھی بس قلم برداشتہ لکھا کرتے تھے، نہ کوئی اہتمام اور نہ التزام، نہ تکلف اور نہ تصنع، ان کے ہاں آمد ہی آمد تھی، آورد کا کوئی دخل نہ تھا ، قوم مسلم کو جگانے کے لیے وہ ادبی ملمع سازی سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے۔ ان کا زور بس ادائے مطلب اور مدعا نگاری پر تھا۔ مولانا مدنی نے بھی انھی نکات پر اپنی خود نوشت یا دوسری تحریریں سپرد قلم کی ہیں۔مولانا مدنی کی حالت تو حالی کے الفاظ میں اس شخص کی سی تھی جس کے گھر میں آگ لگی ہو اور وہ پاس پڑوس کے لوگوں کو مدد کے لیے پکارے، ایسی صورت میں اس کے پاس عبارت آرائی اور لفاظی کے لیے گنجائش کہاں نکلے گی۔ وہ تو بس ادائے مطلب اور مدعا نگاری پر زور دے گا۔
لیکن حقیقت کی نظروں سے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ مولانا نے اس عجلت اور مدعا نگاری میں بھی زبان و بیان کی حد بندیوں کا خیال رکھا ہے۔ ان کی تحریر کو پرھتے ہوئے خشکی اور حد سے زیادہ سنجیدگی کا احساس تو ہوتا ہے کہ انھوں نے ٹھوس علمی اور تحقیقی زبان لکھی ہے اور انھوں نے آپ بیتی سے زیادہ جگ بیتی کا خیال رکھا ہے اور پاپ بیتی کی طرف تو نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔کیوں کہ ایجاد معانی تو خداداد ہوتی ہے۔ اس کے لیے جوش ملیح آبادی کی طرح فرصی عشقیہ داستانوں کا پیوند لگانے کی ضرورت نہیں۔ مولانا حقیقت و صداقت کا تھامے رہنے کے باوجود زبان و بیان کی حد بندیوں کا پورا خیال رکھتے تھے۔
مجھے ذیل کی سطروں میں نقش حیات کے مضامین اور اس کی تاریخی یا سیاسی حیثیت سے بحث نہیں کرنی ہے کہ اگرادبی معیاربندی کا یہ اصول قرار پاجائے تو پھر ہمیں بہت سے ادبی مسلمات اور تاریخی حقیقتوں پر خط تنسیخ کھنچنا پڑے گا۔ واقعات اور مواد اور تاریخ نگاری کے حوالے سے کسی دوسری خود نوشت تحریر سے نقش حیات کا کوئی علاقہ نہیں۔ شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔مجھے صرف زبان و بیان اور خود نوشت کے نام نہاد اصول کی عینک سے اس کو دیکھنا ہے اور شکستہ آڑی ترچھی لکیروں کے ذریعے نقش حیات کی وہ تصویر ابھارنی ہے جو ہمارے ذہنی اور ادبی جمود پر ہلکی سی ضرب لگا سکے۔
جو کچھ لکھا جائے بے تکلف اور قلم برداشتہ لکھا جائے۔ یہی طرز تحریر نثر میں محبوب اور مروج ہے۔ نہ جانے کیوں مولانا حالی نے شاعری میں ستر کنویں جھانک کر الفاظ کے تفحص کی ستائش کی ہے۔ خیر شاعری میں تو یہ قدم محبوب اور قابل تقلید ہو سکتا ہے، لیکن نثر خاص طور سے خود نوشت میں تو یہ طرز تحریر کسی بھی طرح مناسب نہیں ہوسکتا۔مولانا مدنی کے موئے قلم سے ایسے بے تکلف اور پر معنی جملے ادا ہوئے ہیں جن پر مقفی اور مسجع تحریروں کا انبوہ قربان کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے طویل جملے نہیں لکھے ہیں کہ اس قسم کے جملوں سے جو دارز نفسی پیدا ہوتی ہے، قاری اس کی مشقت کا بار اٹھانے کے قابل نہیں رہتا اور وہ اکتاہٹ کی گرفت میں کتاب کو ایک طرف ڈالنے پر اپنے کو مجبور پاتا ہے۔ نقش حیات میں اکثر یک سطری جملے استعمال کیے گئے ہیں۔ اور بہت سے تفریعی جملوں کا اختتام ایک ہی حرف پر ہونے کی وجہ سے موسیقیت کی چاشنی بھی پیدا ہوتی ہے۔جملے اتنے چھوٹے اور پر زور ہیں کہ ان میں ڈرامائی مکالموں کی شان پیدا ہوگئی ہے۔مولانانے حسب و نسب سے جنم لینے والے امتیازات کو ایک غیر اسلامی تصور قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
’’اور روح نکلنے کے بعد تو جسم انسانی خواہ شریف کا ہو یا رذیل کا، بادشاہ کا ہو یا فقیر کا، قوی کا ہو یا ضعیف کاجس حالت پر پہنچ جاتا ہے سب کو معلوم ہے۔ جماد محض ہوکر پھولتا پھٹتا ہے، سڑتا گلتا ہے، کیڑے پڑتے ہیں، بدبو سخت پیدا ہوتی ہے، پیپ اور لہو بہتا ہے اور زمین میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ یہاں نہ شرافت نسبی کچھ فرق کرتی ہے ، نہ دولت و ثروت، نہ حکومت و قوت‘‘(ص:۳۲-۳۳)
مولانا حسین احمد مدنی کو شاعری سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی فارسی اور عربی کے بہت سے اشعار انھیں ازبر تھے، جن سے وہ اپنی تحریروں میں موقع بموقع استدلال کرتے ہیں۔ ان اشعار کی تعداد غبار خاطر کی طرح اتنی تو نہیں ہے کہ اس کے لیے محققین الگ سے اشاریہ ترتیب دیں لیکن فارسی کے جتنے اشعار کے بھی ان کے قلم سے نکلے ہیں وہ بے وقت کی راگنی معلوم نہیں ہوتے، ان اشعار کا مفہوم مضمون اور مخاطب کے حسب حال ہے۔ ایک جگہ اپنے اوپر اور اپنے خاندان پر خدائی انعامات و اکرامات پر شکریہ سے قاصر رہنے پر استدلال کرتے ہوئے فارسی کے یہ اشعارلکھتے ہیں:
اگر بروید از ہر مو زبانم
ادادئے شکر لطفش کے توانم
من آں خاکم کہ ابر نوبہاری
کند از لطف بر من قطرہ بازی
برطانوی سامراج نے جس طرح مکر و فریب سے کام لے کراپنے ارد گرد بد اطواروں، بد قماشوں اور جرائم پیشہ افراد کا گروہ اکٹھا کرلیا تھا اس پر طنز کرتے ہوئے یہ شعر رقم کرتے ہیں:
کند جنس باہم جنس پرواز
کبوتر باکبوتر باز باباز
مولانا اردو کے قدیم دواوین پر بھی نظر رکھتے تھے اساتذہ کے سینکڑوں اشعار ان کے حافظے میں موجود تھے۔ فارسی کی طرح ہی کہیں کہیں اردو کے اشعار سے بھی انھوں اپنی بات کو مزین کیا ہے۔ اپنے والد کے حب نبوی اور مدینہ منورہ سے عشق و محبت کو ان اشعار کی آنچ دی ہے کہ:
مریض عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
علمائے اہل سنت اور علمائے دیوبند کے سر پر جس طرح حسام الحرمین میںبے سروپا الزامات کا ٹھیکر ا پھوڑنے کی کوشش کی گئی تھی، اس کا دنداں شکن جواب دیتے ہوئے یہ شعر لکھا کہ
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
جب اپنے استاد اور روحانی پیشوا حضرت شیخ الہند کی تجہیز و تکفین میں شرکت سے محروم رہ گئے تو اپنی حسرت کا اظہار اس شعر سے کیا کہ
قسمت کی بد نصیبی کو صیاد کیا کرے
سر پر گرے پہاڑ تو فرہاد کیا کرے
تشبیہات و استعارات کے مرقعے بھی تحریروں کا حسن دوبالا کرتے ہیں۔ کسی روکھی پھیکی تحریر میں بھی تشبیہ اور استعارے کی پیوند کاری سے ان کے تن مردہ میں جان آجاتی ہے۔ لیکن وہی تشبیہ اور استعارہ چمن تحریر کی حنا بندی کرسکتا ہے جس میں بر جستگی اور شفگتگی ہو۔ بہ تکلف ڈھونڈ ی جانے والی تشبیہیں کہاں کی اینٹ، کہاں کا روڑا ثابت ہوتی ہیں۔ مولانا حسین احمد مدنی نے بھی اپنی تحریر کی جڑوں میں تشبیہ کا آب حیات دیا ہے۔ اور یقین کرنا پڑتا ہے کہ تمام تر علمی اور سیاسی مصروفیت کے باوجود وہ اس ہنر سے عاری یا غافل نہیں تھے۔ جب مولانا اور ان کے گھر کے دوسرے افراد نے مل کر ان کے والد محترم کو مدینہ منورہ کو اپنا مسکن بنالینے کی ترغیب دی، تو اس مطالبے کو اس طرح تشبیہ دی ہے:
’’یہ کلمات ایسے مؤثر واقع ہوئے جیسے کہ اسپرٹ میں دیا سلائی ہوتی ہے۔‘‘(ص:۴۷)
اسی طرح جب مولانا کی اہلیہ کے ماموں نے مولانا کے والد محترم سے اپنی یہ خواہش ظاہرکی کہ میں اس کو لکھنؤ میں رکھ کر طب پڑھاؤں گاتو والد کے انکار اور دینی اور عصری تعلیم کے مابین فرق کو کتنی خوب صورت تشبیہ دی ہے:
’’والد صاحب نے جواب دیا کہ کیا حسین احمد مدنی کو گھوڑے پر سوار کرنے کے بعد میں گدھے پر سوار کروں گا۔ (ص:۴۸)
اسی طرح ہندستان کی دولت و ثروت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’۱۷۷۲ء میں صرافوں کی دکانوں پر شہروں میں اشرفیوں اور روپیوں کے ڈھیر ایسے لگے ہوئے تھے جیسے منڈیوں میں اناج کے ڈھیر ہوتے ہیں۔‘‘(ص:۲۳۰)
مولانا نے کسی بھی چیز کا ذکر کرتے وقت اس کی تمام جزئیات اور مالہ و ماعلیہ کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ مدینہ منورہ میں پانی لانے کے لیے سقے متعین ہوتے تھے، جو نہر زرقاء سے پانی لانے کا کام کرتے تھے۔ نہر زرقاء کا دکر کرتے ہوئے مولانا نے اس کے جائے وقوع، اس کے اجمالی پس منظرکے عنوان سے دو صفحے کا طویل مصمون لکھا ہے، جس میں اس کے ابتدائی عہد سے لے کر اس کی موجودہ حیثیت تک کا تفصیل سے ذکر کیا گیاہے۔ اس حصے کو پڑھتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد کے چڑیا چڑے اور چائے والے خطوط کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جس میں انھوں نے اپنی انشاء پردازی کا ثبوت دیا ہے۔مولانا نے اس نہر کے کسی بھی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ ایک جگہ ہندستان کی خوبیوں اور اس کی مابہ الامتیاز حصوصیات کا شمار کرتے ہوئے کچھ یوں لکھا ہے:
’’اس زمانے میں عام طور سے ہندستانیوں میں مہمان نوازی، انسانی ہمدردی، غرباء اور مصیبت زدوں پر شفقت اور رحم، عہد و پیمان کا تحفظ اور پابندی، خدا ترسی اور سچائی، امانت داری اور سخاوت، وفا داری اور صداقت، دیانت داری اور عدالت، بلند حوصلگی اور شرافت، بیدار مغزی اور جفا کشی، چستی اور بیداری، شجاعت اور مردانگی وغیرہ اوصاف جمیلہ بڑے پیمانے پر پائے جاتے تھے۔‘‘(ص:۱۹۴)
الفاظ کی تکرار سے غنائیت پیدا ہوتی ہے۔ قدیم شعراء کے دواوین لفظوں کی تکرار والی صنعت سے لبریز ہیں۔ مولانا بھی اس ہنر سے عاری نہیں ہیں۔ شاہان ہند کی رواداری اور ان کے مساویانہ او ر عدل پرور نظام حکومت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہی نہیں، بلکہ اپنی بے مثل ثروت، بے مثل تجارت، بے مثل دست کاری، بے مثل تمدن اور بے مثل طاقت کی بنیاد پر اقوام عالم میں برتری اور سب سے فوقیت کا درجہ رکھتے تھے۔‘‘(ص:۱۸۵-۸۶)
اسی طرح ایک ہی وزن کے متضاد الفاظ کے ذریعے بھی غنائیت اور موسیقیت پیدا ہوتی ہے۔ تنافس و تنافر، اعمال و اخلاق، ذکر و فکر، خلافت اور اجازت، معماروں اور مزدوروں، اخلاق عالیہ اور اعمال صالحہ، سلام و پیام وغیرہ مرکبات مختلف مواقع پر قاری کی موسیقیت پسندی کے ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں۔
صنعت تضاد سے بھی تحریر میں تنوع پیدا ہوتا ہے۔ اس سے جہاں قاری کی ذہنی ورزش ہوتی ہے وہیں وہ دو مختلف تصورات سے بھی آگا ہ ہوتا ہے۔ اس سے اشیاء کے حسن و قبح کا پہلو بھی نکھر کر سامنے آتا ہے۔ عربی کا مقولہ ہے۔ الاشیاء تتبین باضدادہا۔مولانا گرچہ شاعر نہ تھے، مگر اس ادبی خصوصیت سے نا واقف نہ تھے۔لکھتے ہیں:
’’رحمت اور انعام خداوندی کی بے نیازی اور وسعت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ دم کی دم میں ذرہ کو پہاڑ اور قطرے کو سمندر بنادے تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔عامی مسلمان کو قطب الاقطاب بنادے۔ جاہل کو عالم اور دیوانہ کو افلاطون کردے تو کچھ مستبعد نہیں۔‘‘(ص:۳۳)
مولانا کی نظراردو کے محاوروں، ضرب الامثال اور روزمرہ پر بھی بڑی گہری تھی۔ دیکھیے نقش حیات میں استعمال ہونے والے چند محاوروں، ضرب الامثال اور روزمروں کی جھلک۔مجھ پر نزلہ زیادہ گرتا تھا، وہ ہمیشہ کاٹ کرتے تھے، میری اولاد پھلے پھولے گی، خاندان کے بڑھنے کی امیدیں خاک میں مل گئیں، کس کے پلے پڑجائیں، اپنا الو سیدھا کرنا، مگر خدا جانے اس بے شمار دولت اور بے نظیر سرمایہ کو زمین کھاگئی یا آسمان اچک لے گیا،فورٹ ولیم میں سونے کا مینہ برسنے لگا، ایڑی چوٹی تک زور لگادیا، کامیابی کے ڈنکے بھی بجائے، تنگ آمدبجنگ آمد، پانی سر سے اوپر گزر چکا تھا وغیرہ۔
مولانا کی تعلیم عربی اور فارسی میں ہوئی اور مسجد نبوی میں تعلیم و تدریس کے طویل تجربے نے انھیں عربی کا مرد میدا ن بنادیا تھا، اسی لیے ان کی تحریروں پر عربی اور فارسی کا گہرا نقش ملتا ہے، لیکن مولانا بلاغت کے اصول سے نا واقف نہیں تھے۔ وہ خود نوشت اردو میں لکھ رہے تھے اور انھیں اپنے مخاطب کی علمی قابلیت اور ذہنی رسائی کا بھی خوب اندازہ تھا۔ اسی احساس کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے مقامی زبان کے عام فہم ہندی الفاظ کو بھی جملوں میں برتا ہے، جس کی وکالت مولانا سید سلیمان ندوی بھی کیا کرتے تھے۔نقش حیات میں چھپ لک کر، اپر تلی، ٹٹپونجیوں، استری اور کلف، ہنڈی، ٹاٹ، ڈنٹھڑ، ڈھلوان، ڈھارس، گارا ڈھونا، اینٹیں پاتھنا وغیرہ خالص مقامی الفاظ ملتے ہیں۔
آج سے پچاس ساٹھ سال قبل اختصاو و ایجاز کو تحریر کی معراج تصور کیا جاتا تھا۔ مولانا نے اس عام روش کو اس طرح تو نہیں اپنایا کہ اختصار کے گرداب میں اس طرح الجھ جائیں کہ تحریر ایک معمہ بن جائے، بلکہ انھوں نے اپنے مخاطب اور مضمون کا لحاظ کرتے ہوئے اختصار و ایجاز سے کام لیا ہے۔ جملے نہ مختصر ہیں اور نہ طویل۔ان کی تحریروں میں نہ ایجاز مخل ہے اور نہ اکتادینے والی طوالت۔ بلکہ درمیانی راہ اختیار کی ہے۔ محشر اعظمی نے مولانا کی قلمی خصوصیات کو شمار کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’آپ کا قلم بس وہیں تک چلتا ہے جتنا اسے چلنا چاہیے۔ نہ اتنی تفصیلات اور جزئیات ہوتی ہیں کہ پڑھتے پڑھتے قاری اکتا جائے اور نہ اتنا اختصار کہ مطلب ہی خبط ہوجائے۔ جس بات کی تفصیل صروری ہوتی ہے اسے پھیلا کر لکھتے ہیں اور جس بات میں اختصار ہونا چاہیے اسے مختصر ہی لکھتے ہیں‘‘(روزنامہ الجمعیۃ، شیخ الاسلام نمبر، ص:۱۷۳)
نقش حیات میں ا ختصار و جامعیت سے عبارت اس طرز تحریر کا انھوں نے بھرپور لحاظ رکھا ہے۔ چناں چہ اپنے ذاتی احوال تو اختصار کے ساتھ قلم بند کیے ہیں، لیکن دوسرے حصے میں قومی اور بین الاقوامی حالات پر تفصیل اور طویل حوالوں کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔
خلاصہ یہ کہ نقش حیات میں معانی کا دریا بھی رواں ہے اور زبان و بیان کی نہر بھی بہ رہی ہے۔ یہ صرف معلومات کا خزینہ ہی نہیں، ادبی لطافت کا مرقع بھی ہے۔ نثر کے لیے سادگی، سلاست، اختصار وجامعیت، قطعیت، صراحت اور وضاحت کی جتنی شرطیں درکار ہیں، ان پر نقش حیات سو فی صد نہیں تو ننانوے فی صد ضرور اترتی ہے۔ مشکل سے مشکل مضمون کو انھوں نے آسان جملوں میں قلم و قرطاس کے حوالے کردیا ہے۔ جو زبان و بیان پر ان کی مہارت کی دلیل ہے۔ انگریزوں کے دجل و فریب اور ان کی ظالمانہ پالیسیوں کے حوالے سے کوئی بات بے دلیل نہیں ہے۔ انگریزی اور اردو کے سینکڑوں حوالے قاری کو ایقان کی منزل تک پہنچاتے ہیں۔ہر بات قاری کو یقین وعمل اور محبت و معرفت کی لذت سے شرسار کرتی ہے۔ اور دل پر اپنا اثر مرتب کرتی ہے۔ یادوں کی بارات کی طرح خالی خولی بے لطف الفاظ کا مجموعہ نہیں، نہ عشق و عاشقی کے فرضی واقعات سے آلودہ ہے، لیکن پھر بھی خدا معلوم کیوں ہمارے ناقدین اورخود نوشت نگاری پر ریسرچ کرنے والوں نے اس پر مطلوبہ توجہ نہیں دی ہے۔ نا مکمل خود نوشتوں پر بحث کی گئی ہے، مگر ایک مکمل خود نوشت کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔نقش حیات صرف اپنے مصامین و مشمولات کے اعتبار سے ہی نہیں، زبان و بیان کے اعتبار سے بھی تحقیق کا موضوع بن سکتی ہے۔ نقش حیات کوئی ناول اور افسانہ تو نہیں لیکن تاریخی و سیاسی حقائق کا نگار خانہ ضرور ہے۔اس میں نام نہاد فنی جمالیات تو نہیں، لیکن خود نوشت کی دوسری صفات خود اظہاریت اور تاریخی صداقت کا سنگم ضرور ہے۔یہ قلب میں سوز اور روح میں احساس کے ساتھ تحریر کی گئی ہے، ایسا قلب جو لا الہ کی صدائے الوہی سے سرشار تھا۔اور ایسے صاحب دل بزرگ کے قلم کا نتیجہ ہے جو شب زندہ دار ہونے کے ساتھ رسم شاہبازی ادا کرنے کے لیے میدان جنگ میںبھی شہ سواری کا فرض انجام دیتا تھا۔یہ ایسے مرد مجاہد کی داستا ن حیات ہے جس کے رگ و پے میں مستی کردار کا لہو گردش کرتا تھا۔یہ ایسے شخص کی روداد زندگی ہے جو قوم کی حالت اور قوم کی امامت دونوں ہنر سے آشنا تھا۔ ا س کی زندگانی صداقت، عدالت اور شجاعت کے خمیر سے تیار ہوئی تھی۔ اس کے اندر کسی قسم کی تعلی یا نفس پروری نہیں تھی اور حالی نے جوخود نوشت کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ اس میں تعلی اور خود ستائی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور خودد نوشت تمام کاموں سے سبک دوشی حاصل کرنے کے بعد لکھی جائے، ان دونوں شرطوں پر یہ خود نوشت مکمل اترتی ہے۔ اسی لیے ضرورت ہے کہ ہماری ادبی حس بیدار ہو اور ساٹھ سال بعد ہی سہی اس کی ادبی قدر و قیمت کا جائزہ ضرور لیا جائے،کیوں کہ یہ محض کتاب ہی نہیں، علم و معانی کا بحر بے کراں ہے، جس سے ہر دور میں مستقبل کی تعمیر کا نقشہ مرتب کیا جاسکتا ہے۔ دور حاضر کے مشہور تخلیقی ناقد حقانی القاسمی نے اسی شکوہ کا اظہار کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’ادبی اور علمی دونوں اعتبار سے اس(نقش حیات) کا شمار اہم خود نوشتوں میں ہوتا ہے۔ گوکہ تنگ نظر ناقدین اس کے دکر سے اعراض کرتے ہیں، مگر حقیقت میں دیکھا جائے تو خود نوشت کے فنی تقاضوں پر یہ کتاب پوری اترتی ہے۔ جس میں مولانا موصوف نے نہ صرف اس عہد کو زندہ کردیا ہے، بلکہ اس عہد کی پوری سیاسی اور سماجی تاریخ بھی اس کتاب میں سماگئی ہے۔ اس لحاظ سے نقش حیات ایک مقصدی خود نوشت ہے نہ کہ نرگسیت کی شکارخود ستائی یا خود بینی کی مظہر‘‘(دارالعلوم دیوبند، ادبی شناخت نامہ، ص:۷۰)
نقش حیات تو ہمارا مشترکہ علمی، تاریخی اور ادبی سرمایہ اور مشرقی اقدار حیات کا خزانہ ہے۔ یہ اہل علم و ادب کی وہ متاع فراموش کردہ ہے، جس کی تحقیقی بازیافت اور اس کی تعیین قدر کرکے ہم اپنے مستقبل کی تعمیر و ترقی کا نقشہ تیار کرسکتے ہیں۔ ارود کے ریسرچ اسکالرز کو عموما اور سوانحی ادب پر کام کرنے والوں کو عموما اس کی علمی اور ادبی بازیافت کے لیے اس مصرع کے ساتھ آواز دی جاسکتی ہے کہ:
اے اہل ادب آؤ یہ جاگیر سنبھالو
ڈی ایم کی طرف سے دارالعلوم دیوبند میں بھی تعطیل کرانے کی کوشش
دیوبند (ایس۔چودھری) ملک بھر میں ہورہے احتجاجی مظاہروں کے سبب دیوبند میں ہائی الرٹ ہے اور یہاں بھاری پولیس فورس تعینات ہے مگر دیوبند کو احتجاجی مظاہرے سے بچانے کے لئے تعینات افسران کی سانسیں اس وقت اٹک گئیں جب دارالعلوم دیوبند کے احاطے کے اندر جمع ہوئے طلباء نے جامعہ ، اے ایم یو اور ندو ۃ العلماء کے طلبا کی حمایت میں نعرے بازی شروع کردی۔ پولیس اور پی اے سی اہلکاروں کو آناً فاناً میں موقع پر بلایا گیا۔ کیمپس کے باہر فورس کو دیکھ کر طلباء مزید مشتعل ہوگئے، جس کے بعد افسران و فورس کو گیٹ سے پیچھے ہٹنے کو مجبور ہونا پڑا۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شدید احتجاج کے بعد ضلع اعلیٰ افسران نے دیوبند کو اس نوعیت کے احتجاجی مظاہرہ سے بچانے کے لئے پیر کی صبح یہاں کیمپ لگالیا تھا اور سارا دن پولیس اور پی اے سی اہلکار تعینات رہے،فورس اور افسران دن بھر دارالعلوم دیوبند کے علاقہ میں گشت کرتے رہے۔اسی دوران خانقاہ پولیس چوکی پر موجوداعلیٰ افسران پل پل کی اپڈیٹ لیتے رہے، شام کے وقت دیوبند میں موجود ضلع کے تمام اعلی افسران کی سانسیں اس وقت اٹک گئیں جب دارالعلوم دیوبند میں عصر کی نماز کے بعد اعظمی منزل کے احاطہ میں جمع ہوکر طلباء نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور لکھنؤ کے ندو ۃ العلماء کے طلبہ کی حمایت میںنعرے بازی شروع کردی، اس دوران طلبہ نے دہلی ،علی گڑھ اور لکھنؤ میں طلباء اور پولیس کے مابین ہونے والی جھڑپوں پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے نعرے بازی کی۔ آناً فاناً پولیس اور پی اے سی کے جوانوں کو موقع پر بلایا گیا ، جس کے بعد طلباء مزید مشتعل ہوگئے، حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے گیٹ پر تعینات فورس کو افسران نے پیچھے ہٹنے کی ہدایت دی ۔ جس کے بعد دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ طلبہ کے درمیان پہنچے اور انہیں سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا ،جس کے بعد افسران نے بھی راحت کی سانس لی۔
مسعود جاوید
دارالعلوم کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے مالی وسائل کی فراہمی (چندہ) کے لئے منتظمین کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تھی کہ جہاں تک ہو سکے کسی ریاست، سلطنت، حکومت، جاگیردار، نواب، اور امیر و کبیر سے اخراجات پوری کرنے کی ضمانت نہ لی جائے۔ اس سے اعتماد علی اللہ میں کمی آئےگی۔ اخراجات کی فراہمی کے لئے مسلمانوں کے تعاون پر اکتفا کیا جائے بالخصوص علاقے کے عام لوگوں سے چندے ؛ روپے پیسے اور اجناس کی شکل میں تعاون لیا جائے اس کے کئی فوائد ہیں ان میں سب سے اہم دو فائدے یہ ہیں
١- وسائل کی کمی وجہ سے منتظمین کو عوام اور بالخصوص علاقے کے معاونین کے سامنے جوابدہی کا احساس رہے گا۔
٢- جبکہ ریاست،حکومت یا امیر و کبیر کی طرف سے اخراجات اٹھانے کی صورت میں مدرسے کے نصاب اور انتظامی امور میں بجا و بے جا مداخلت اور آزادانہ کام کرنے کی بجائے ان کے لحاظ میں یا رعب سے متاثر ہو کر لائحہ عمل طے کرنے کے امکانات ہیں اور سب سے اہم یہ کہ توکل علی اللہ میں کمی ہو جائے گی۔ امرا کی خوشنودی حاصل کرنا مطمح نظر ہوگا۔
انہی سنہرے اصول کا نتیجہ تھا کہ ہمارے اسلاف قلندر صفت اور قناعت سے بھرپور ہوتے تھے۔ جابر حکمران یا بگڑے نوابوں اور جاگیر داروں کے سامنے بھی کلمۂ حق بولنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ ہمارے مدارس مساجد اور ملی تنظیموں کے دفاتر کی عمارتیں مادی طور پر بہت عالیشان نہیں ہوا کرتی تھیں مگر ان عمارتوں کی روحانی شان و شوکت ایسی ہوتی تھی کہ بڑے بڑے عہدے والے بھی ان کچی عمارتوں میں بیٹھے بوریہ نشینوں سے ملنے کے لئے خود آتے تھے نا کہ اس کے برعکس۔
اس کے بعد دن بہ دن دنیا قریب سے قریب تر ہوتی گئی،بیرون ملک سفر کرنا آسان ہوتا گیا، پٹرو ڈالر کا دور آیا،ملازمت اور تجارت کے لئے ملک سے باہر مقیم دین،ملک اور ملت کے لئے فکر مند خیر خواہان این آر آئیز کا دور آیا،اندرون ملک بھی مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی ـ مختصر یہ کہ مدارس، مساجد اور ملی تنظیموں کے لئے بڑی بڑی رقومات کے راستے کھلے،جس کی وجہ سے کثرت سے مساجد اور مدارس پورے ملک میں تعمیر ہوئے اور ہو رہے ہیں،مگر افسوس رقومات کی ریل پیل نے ان کے منتظمین کے اندر سے وہ قلندرانہ صفت ختم کر دی اور قائدین کے ہاتھ کہیں نہ کہیں دبے ہیں،مال و دولت کا خبیث اور مضر پہلو مفید پہلو پر ایسا حاوی ہوا کہ حکومت وقت یا اصحاب اثر ورسوخ کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جرات سلب کر لی ۔ بعض قائدین،علما اور غیر علما نے اپنے اوپر مصلحت کی دبیز چادر ڈال کر ” بدون خوف لومة لائم” کو جزدان میں لپیٹ کر طاق پر رکھ دیا ہے۔
کاش روپے پیسے کی اتنی ریل پیل نہ ہوتی، کاش ہماری مسجدیں قیمتی پتھروں سے نہ بنائی جاتیں،کاش ہمارے مدارس اور ملی دفاتر کی اتنی عالیشان عمارتیں نہ بنائی جاتیں
کاش ہمارے قائدین تعمیراتی ترقی کے لئے حساب کتاب، آڈٹ ، فارن ایکسچینج ریگولیشن ، ٹی اے ڈی کے جھمیلوں میں نہ الجھتے اور نہ کسی محکمے سے خائف رہتے۔کاش ہمارے قائدین اسلاف کے نقش قدم پر چلتے اور اقتدار کےگلیاروں میں اپنی شناخت بنانے اور قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے اثر ورسوخ والوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے اللہ ربّ العزت پر مکمل اعتماد اور افراد سازی پر اپنی توانائی صرف کرتے اور اس پر آشوب وقت میں مختلف تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پر آتیں اور مشترکہ طور پر قوم کی رہنمائی کرتیں!
اسد رضا
ناقدانہ ادب کی عزت ، سیاہ و سفید زلفوں سے آراستہ سر، دمکتی ہوئی پیشانی، تنقیدی بصارت کی نشانی، محققانہ ادب کی توقیر میں اضافہ کرنے والی ناک، اردو کے شعر وادب کی طرح بھرے بھرے رخسار، جن پر شرعی ریش اور غیر شرعی مونچھوں کی بہار، جمالیات کی بارش کرنے والے بلند ادبی قدلیکن جسمانی طور پر بوٹا سا قد اور فطری شرافت وذہانت کاحامل کوئی دانشور اگر کسی سمینار یا ادبی جلسے میں ناقدانہ انفرادیت اور عبرانی آمیز اردو میں فصاحت کی فرات اور بلاغت کی دجلہ بہاتا ہوا نظر آئے تو تسلیم کرلیجئے کہ آپ اکیسویں صدی کے مفکر اردو، منفرد ناقد ومحقق صحافت وادب کے دلکش امتزاج اور ادیب ناطق حقانی القاسمی کی زیارت بابرکت سے مشرف بہ تنقید ہوگئے۔
جناب حقانی القاسمی نے 15جولائی1970کو بہار پربہار کے ضلع ارریا میں ایک علم پرور خاندان میں آنکھیں کھولیں اور دارالعلوم دیوبند میں دینی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دنیوی تعلیم حاصل کرکے بڑے دانشوران اردو کی آنکھیں کھول دیں اور ان کے ہوش اڑادیے۔ حقانی صاحب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی ادبیات میں ایم اے اورایم فل کیا اور عربی، فارسی، اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں پر دسترس حاصل کی اور پیشے کے طور پر انہوںنے اپنے لئے اردو صحافت کو منتخب کیا لیکن ان کارجحان ادب اور تنقید کی جانب زیادہ ہے لہٰذا اردو راشٹریہ سہارا سے حقانی القاسمی نے صحافتی سفر شروع کیا پھر وہ ہفتے وار ’اخبار نو ‘اورویکلی ’’نئی دنیا ‘‘ سے وابستہ رہے۔ عالمی شہرت یافتہ میگزین ’’استعارہ‘‘ کو بام مقبولیت تک پہنچانے میں صلاح الدین پرویز کے ساتھ ساتھ حقانی صاحب کا بھی اہم رول تھا۔ اس میگزین کو حقانی القاسمی نے اپنی تنقیدی بصارت اور تحقیقی بصیرت سے آگے بڑھایا۔ استعارہ کے بند ہوجانے کے بعد حقانی صاحب نے ماہ نامہ ’’بزم سہارا‘‘ اور عالمی سہارا میں اپنے قلمی اور علمی جوہر دکھلائے اور نہایت اہم ادبی مباحث شروع کئے۔ اردو میں طنزومزاح کو گیا گزرا اور دوسرے تیسرے درجے کاادب تصور کرنے والے قد آور ناقدین کرام اور دانشوران عظام کے قائم کردہ نظریاتی بتوں کو توڑنے کے لیے ہی حقانی صاحب نے ماہ نامہ’’بزم سہارا‘‘ میں اس سوال پر بحث کرائی تھی کہ کیا طنزومزاح دوسرے درجے کا ادب ہے۔اس چھوٹے قد کے بڑے ناقد نے تنقید کو ایک نیا علمی وجمالیاتی رخ عطاکیا اورمغرب ومشرق کے من گھڑت اصولوں اور نظریات کی جم کر پول کھولی۔ چونکہ موصوف عربی، فارسی، اردو ، انگریزی اور ہندی کی ادبیات بالخصوص کلاسیکی ادبیات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کی تنقید پر بڑے بڑے پروفیسر انگلی اٹھاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ مثال کے طور پر حقانی القاسمی اپنے ایک مضمون ’واقیموالوزن بالقسط‘ میں رقم طراز ہیں: تنقید، تجسس اور تفحص کا عمل ہے، تنقید تخلیق کا مکاشفہ بھی کرتی ہے اور محاسبہ بھی، تنقید دراصل ایک طرح سے تخلیق کی توسیع وتفریج ہے، تنقید کوئی سائنسی ، طبیعیاتی یا ریاضیاتی عمل نہیں ہے۔‘‘
حقانی القاسمی کی تنقیدی بصیرت اور نظریاتی بصارت کا پرتو ہمیں ان کی کتب میں نظر آتا ہے۔ فلسطین کے چار ممتاز شعرائ، طواف دشت جنوں، لاتخف، دارالعلوم دیوبند: ادبی شناخت نامہ، تکلف برطرف، رینو کے شہر میں، خوشبو روشنی اور رنگ، بدن کی جمالیات، تنقیدی اسمبلاژ، ادب کو لاژ، شکیل الرحمن کاجمالیاتی وجدان اور آنگلیات وغیرہ حقانی القاسمی کی قابل ذکر کتب ہیں جن کی اردو دنیامیں کافی پذیرائی ہوئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہماری اردو زبان کا ہر چھوٹا بڑا،اعلیٰ وادنیٰ اور اہم وغیراہم مصنف ،مولف اور مترجم اپنے اور اپنی کتاب کے بارے میں حقانی صاحب سے مضمون لکھوانا او را س طرح اپنی قدر ومنزلت میں اضافہ کرانا چاہتا ہے۔ اب یہ بات دیگرہے کہ اپنی نسبی نجابت اور ادبی شرافت کے باعث حقانی القاسمی کسی کو مایوس نہیں کرتے۔ لیکن یہاں یہ تذکرہ بھی برمحل ہوگا کہ اپنی شرافت اور انکساری کے باوصف وہ غیور ہیں اور کسی بڑے سے بڑے افسر یا دانشور کی غلط باتوں کو برداشت نہیں کرتے۔ اگرچہ انہوںنے ماہ نامہ ’’بزم سہارا‘‘ اور ویکلی ’’عالمی سہارا‘‘ کو شہرت ومقبولیت کی بلندیوں تک پہنچایا لیکن راشٹریہ سہارا اردو، ادارہ کے ایک گروپ ایڈیٹر نے جب حقانی صاحب کی اَنا کو ٹھیس پہنچائی تو انہوںنے اس بڑی کمپنی کی ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ حالانکہ گروپ ایڈیٹر کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا اور انہوںنے ادارہ کے کئی سینئر صحافیوں سے سفارش کرائی کہ حقانی صاحب سہارا میں دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں لیکن ہمارے اس غیر ت مند ادبی صحافی نے دوبارہ سہارا میں قدم نہیں رکھا۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ حقانی صاحب معاشی لحاظ سے ثروت مند نہیں ہیں البتہ ان کے پاس علم وادب کے بیش بہا خزانے ہیں جنہیں وہ اکثر اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے لٹاتے رہے ہیں۔ وہ اگرچہ خود حالات کی وجہ سے اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل نہیں کرسکے لیکن کئی ریسرچ اسکالروں کی تھیسس لکھنے میںعلمی وتحقیقی مدد کرکے انہیں ڈاکٹر آف فلاسفی بنواچکے ہیں۔ آج کل وہ یک موضوعاتی مجلہ ’انداز بیان‘ کی ادارت کررہے ہیں۔
حقانی القاسمی کی زبان قدرے مشکل ہوتی ہے۔ اس لیے مرحوم مظہر امام نے ایک مرتبہ ان کی اردو تحریروں اور فکر کی ستائش کرتے ہوئے فرمایاتھا: ’’ارے بھئی حقانی میاں اردو میں کب لکھو گے؟‘‘۔ یہ صحیح ہے کہ تنقید وتحقیق کی زبان عموماً مشکل ہوتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حقانی صاحب چونکہ عربی زبان کے بھی ماہر ہیں؛ لہٰذا ہمیں ان کے معنی عام اردو لغات میں نہیں ملتے ۔ دراصل اردو لغات میں عربی ،فارسی اور ہندی کے الفاظ کے معنی ومفہوم تو آسانی سے نظر آجاتے ہیں عربی ،عبرانی اور یونانی کے الفاظ واصطلاحات کے معنی تلاش وجستجو کے بعد بھی دکھائی نہیں دیتے۔ اسی لیے اردو کے بڑے بڑے پروفیسر اور دانشور حقانی القاسمی کی زبان وبیان کی روانی ،فکر کی جولانی اور بین السطور کی کہانی کو پڑھ کر انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں۔اس لیے ڈاکٹر ایم صلاح الدین نے حقانی کو ’طرحدار ناقد‘ قرار دیاہے۔
حقانی القاسمی ایک ماہر مترجم بھی ہیں۔ انہوںنے انگریزی اور ہندی زبانوں سے اردو میں تراجم بھی کئے ہیں۔ وہ کسی بھی کتاب کا ترجمہ اس کی روح اور مفہوم کی گہرائی تک اتر کر اور جسم الفاظ ومعنی کو چھوکر کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کے تراجم کی عموماً ستائش کی جاتی ہے۔ جس کازندہ جاوید ثبوت یہ ہے کہ انہوںنے گجراتی کے معروف ناول نگار جوزف میکوان کے مقبول ناول ’’انگلیات‘‘ کا اردو میں اتنا شاندار اور جاندار ترجمہ کیاتھا کہ اس پر حقانی القاسمی کو 2016میں پروقار ادارہ ساہتیہ اکادمی نے ایوارڈ برائے ترجمہ سے سرفراز کیاتھا۔ اگرچہ اردو دنیا اور ادبی حلقوں نے حقانی صاحب کی اتنی قدر نہیں کی جس کے وہ مستحق ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ انہیں بالکل نظر انداز کردیا گیا ہو لہٰذا دہلی اردو اکادمی نے انہیں تخلیقی نثر کا ایوارڈ دیاتو اترپردیش اردو اکادمی اور مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے بھی حقانی القاسمی کو ایوارڈ دے کر اپنی معتبریت اور توقیر میں اضافہ کیا۔ لیکن یہاں یہ تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حقانی صاحب اگرچہ متعدد اہم کتب کے مصنف ہیں لیکن وہ اپنی کتب مختلف اردو اکادمیوں کو برائے انعام نہیں بھجواتے۔ اس سلسلہ میں انہیں میں نے کئی بار سمجھایا بھی اور پیار سے ڈانٹا بھی لیکن اس بے لوث ادیب پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ دریں اثنا حقانی القاسمی کے حساس د ل پر ایک بہت بڑا غم کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔ ان کی ہونہار، قابل اور پیاری منجھلی بیٹی انیقہ اپنے اسکول میں ایک حادثہ میں گرکر فوت ہوگئیں۔ تاہم اس صابر وشاکر ادیب نے اس صدمۂ عظیم کو برداشت کیا اور وہ پھر اپنی علمی تنقیدی اور صحافتی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے لیکن اب بھی کبھی کبھی اپنی اس چہیتی بیٹی کو یادکرکے ان کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
تخلیقی نقاد حقانی القاسمی کی شہرت بین الاقوامی ہے۔ لہٰذا بڑی بڑی دانش گاہوں، ادبی اداروں اور اردو اکادمیوں میں انہیں سمیناروں، اردو میلوں اور جلسوں میں مقالات پیش کرنے اور ادبی موضوعات پر تقریریں کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ چونکہ حقانی صاحب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ادارتی شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور ایڈیٹوریل صلاح کار ذمے داری پوری کررہے ہیں لہٰذا وہ ہر دعوت کو مشکل ہی سے قبول کرپاتے ہیں۔ بہرحال اپنے اس شعر کے ساتھ میں حقانی القاسمی کایہ خاکہ تمام کرتا ہوں کہ:
یوں ہی چلتا رہے یارب قلم اس کا صدیوں
رنگ تنقید کو تخلیق دیا ہے جس نے
Asad Raza
97- F, Sector-7
Jasola Vihar
New Delhi – 110025
Mob.: 9873687378
ڈاکٹر ارشد صاحب قاسمی نے آج پاسبان کی عظیم شخصیت بے مثال شاعر فضیل احمد ناصری کے تازہ ترین سلسلہ کے 100 ویں قسط پوری ہونے پر دلچسپ اور معلوماتی انٹر ویو لیا ان کے ساتھ *ترجمان پاسبان مولانا خالد صاحب اعظمی*بھی شریک رہے
تو لیجیے پیش ہے مکمل انٹرویو
(مرتب: اظفر اعظمی )
محترم ممبران ۔۔۔
جیساکہ آپ حضرات واقف ہیں آج ہمارے گروپ کے انٹرویو سیشن میں ایک عظیم شخصیت مولانا فضیل احمد ناصری مہمان ہیں۔ مولانا ناصری آسمانِ علم و ادب کے درخشندہ ستارہ ہیں انکے علمی و تحقیقاتی مضامین ملکی سطح کے میگزین و اخبار میں شایع ہوکر قبولِ عام کی سند سے سرفراز کئے جاچکے ہیں کئ نیشنل لیول کے اخبارات کے وہ مستقل کالم نگار رہے ہیں ۔ شوشل میڈیا پر انکی تحریریں بے حد مقبول ہیں۔ انکا بے ساختہ دلوں کو چھو لینے والا ، بیباک اندازِ تحریر انھیں ملک کے صفِ اول کے قلمکاروں میں نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔انکی تحریریں اتنی مربوط ، تعبیرات پر گرفت اتنی زبردست ، الفاظ کا استعمال اس قدر برمحل ، اور جملے اس قدر سلاست سے آراستہ ہوتے ہیں کہ انکے طویل مضامین میں بھی اکتاہٹ کا شایبہ نہیں ہوتا۔ بلکہ آتشِ شوق اور تیز ہوجاتی ہے۔
فضیل احمد ناصری وقت کے حفیظ جالندھری ہیں جنکا قلم شاہنامہ کے طرز پر رواں دواں ہے انکے الفاظ قدیم شعراء کے دیوان میں تلاش کرنے کے بجائے مجدد زبان کا خطاب دیجئے ویسے بھی زبان ہمیشہ ارتقائ مرحلہ میں ہوتی ہے زبان میں تقلید وہی لوگ کرتے ہیں جنکا دامن ِ تخیل و لغت تنگ ہو۔ اور یہاں تو الفاظ دست بستہ رشک و حسرت سے پہلے مَیں کی صداء لگاتے ہیں۔
مولانا ناصری ایک علمی و روحانی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ وہ زبردست قادرالکلام شاعر ہیں انکے سلسلہ وار منظوم کلام کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالات پر انکی کتنی گہری نظر ہے نیز وہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے لئے کس قدر متفکر ہیں۔
دوستو۔ آیئے آج اسی عظیم شخصیت کی زندگی کے ان تمام پہلووں کا احاطہ انھیں کی زبان میں سنتے ہیں جنکے جاننے اور سننے کے لئے آپ بے انتہا مشتاق ہیں۔
محترم ناصری صاحب۔
سب سے پہلے میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنے مصروف ترین وقت میں سے کچھ وقت پاسبان کے انٹرویو کے لئے نکالا۔ آپ کی شخصیت کا تعارف یقینا نسلِ نو کے لئے مہمیز کا کام کرے گی۔
*ناصری صاحب*
ڈاکٹر صاحب! یہ آپ اور پاسبان کی کرم فرمائی ہے کہ اس حقیر پر نگاہِ التفات پڑی۔ میں آپ سب کا تہِ دل سے ممنون ہوں۔
*ڈاکٹر صاحب*
محترم ناصری صاحب۔ قبل اس کے کہ میں آپ کا علمی و خاندانی پس منظر پوچھوں۔ سب پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نام کا آخری جز جو آپ کی شخصیت کا تعارف بن گیا ہے۔ یعنی ” ناصری ” اسکی وجہِ لاحقہ قاریین کے گوش گزار کریں تاکہ آپ کو مخاطب کرنے میں سہولت ہو۔
*ناصری صاحب*
ڈاکٹر صاحب! میرے سترہویں دادا قطب الاقطاب، مخدوم شاہ "محمد ناصرالدین ناصرؒ” ہیں۔ انہیں کی طرف میرا خاندان منسوب ہو کر ناصری کہلاتا ہے۔
*ڈاکٹر صاحب*
ماشاءاللہ آپ کا نسب نامہ محفوظ ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کا خاندان علمی ہے۔
برائے کرم اپنے خاندانی احوال مختصرا بتاییں۔
اگر اس تعلق سے آپ کی کوئ تحریر ہو تو اسے پوسٹ کردیں تاکہ ہمارے قارییں آپ کی زندگی کی خوبصورت کتاب سے فیضیاب ہوسکیں۔
*ناصری صاحب*
جی! نسب نامہ محفوظ ہے۔ مخدوم شاہ بہار میں سیدوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ مخدوم شاہ محمد ناصر ابن حضرت شہاب الدین قتال بہار کے مشہور بزرگ تھے۔ یہ میرٹھ کے باشندہ تھے۔ وہاں سے منتقل ہو کر حضرت علاء الحق پنڈوی کے زمانے میں بنگال چلے گئے۔ پھر وہاں سے بہار شریف۔ اس کے بعد دربھنگہ کو مستقل مسکن بنایا۔ اب یہ خاندان دربھنگہ میں آباد ہے۔
ان کا سلسلہ نسب کئی واسطوں سے سلطان سید احمد صوفیؒ سے جا ملتا ہے۔ اس خاندان کے لوگ ایشیائے کوچک کے حکمراں رہے ہیں۔
*ڈاکٹرصاحب*
ماشاءاللہ۔
*ناصری صاحب*
سوال وقت طلب تھا۔ اختصار پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
*ڈاکٹرصاحب*
جیسا کہ مجھے معلوم ہوا حاجی امداداللہ صاحب رح سے بھی آپ کے داداکا تعلق تھا ؟
*ناصری صاحب*
جی۔ میرے والد کے پردادا حضرت مولانا شاہ منور علی دربھنگویؒ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے خلیفہ تھے۔ ان کے ساتھ اپنی زندگی کے چھ سال مکہ مکرمہ میں گزارے۔ پھر انہیں کے ایما پر اپنے گاؤں "رسول پور نستہ” میں مدرسہ امدادیہ قائم فرمایا، جو بہار میں علمی نشاۃ ثانیہ میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
*ترجمان صاحب*
ماشاءاللہ۔
بہت صوفیانہ اور حاکمانہ خاندان ھے آپ کا..
اب آپ اپنی ابتدائی تعلیم سے لیکر انتہا تک کے سفر پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالیں۔
*ناصری صاحب*
میری مکتبی تعلیم والد مرحوم مولانا جمیل احمد ناصری کے پاس ہوئی۔ حفظ وہیں شروع کیا۔ باقاعدہ حفظ مدرسہ حسینیہ پروہی مدھوبنی میں ہوا۔ دورہ حفظ مدرسہ دینیہ غازی پور میں ہوا۔ درجہ فارسی تا درجہ عربی چہارم مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ دربھنگہ میں پڑھا۔ 1996 میں دارالعلوم دیوبند پہونچا۔ ششم میں داخلہ لیا۔ تین سال پڑھ کر 1998 میں فراغت پائی۔
*ترجمان صاحب*
ماشاءاللہ انتہائی اختصار کے ساتھ اپنے تعلیمی سفر سے آپ نے ھمیں روشناس کرایا..
تعلیم سے فراغت کے بعد آپ کی کیا خواھش رھی مطلب آپ کیا کرنا چاھتے تھے.؟
*ناصری صاحب*
میرے خاندان میں علما کی کثرت تھی، پھر میرے دادا کے چھوٹے بھائی حضرت مفتی محمود احمد ناصریؒ علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے شاگرد تھے۔ ان کی تدریس خاندان میں معروف تھی۔ میری بھی خواہش تدریس کی ہوئی، جس میں الحمدللہ میں کامیاب رہا۔
*ترجمان صاحب*
تدریسی سفر کا آغاز آپ نے کہاں سے کیا اور فی الحال کہاں ہیں؟؟
*ناصری صاحب*
تدریس کا آغاز دارالعلوم عزیزیہ میراروڈ ممبئی سے کیا، وہاں پانچ برس گزارے، وہاں سے نکلا تو اجامعہ دارالقرآن احمد آباد اور وہاں سے نکلا تو جامعہ فیضان القرآن احمد آباد میں مدرسی کرتا رہا۔ اب 2008 سے جامعہ امام محمد انورشاہ دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دے رہا ہوں۔ ہمارا مدرسہ "معہدِ انور ” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جو اس کا سابق نام ہے۔
*ترجمان صاحب*
ماشاءاللہ..
آپ ایک کامیاب مدرس بہترین ادیب اور قلمکار ھیں جیسا کہ ھمارے اکسپرٹ نے بتایا.
شعر و شاعری کا ذوق آپ کے اندر کہاں سے اور کیسے پیدا ھوا.!
اس کا صنف پر طبع آزمائی کا محرک کیا ہے؟
*ناصری صاحب*
شاعری میرا خاندانی ورثہ ہے۔ میرے چچا پروفیسر متین احمد صبا مرحوم زبردست شاعر تھے۔ صدرجمہوریہ ایوارڈ یافتہ۔ میرے والدین بھی اچھے اشعار گنگنایا کرتے تھے۔ میرے چچا مولانا حسین احمد ناصری مدظلہ بھی بھی اشعار پڑھتے رہتے تھے۔ وہیں سے یہ ذوق مجھے ملا۔
*ڈاکٹر صاحب*
شعر گوئ کی ابتداکب سے ہوئ ؟
*ناصری صاحب*
عربی دوم کے زمانے سے ہی تک بندی شروع کردی تھی۔ باقاعدہ شاعری مفتئ اعظم مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کی وفات پر مرثیے سے کی۔ یہ دارالعلوم میں میرا پہلا سال تھا۔ مفتی صاحب کی مجلسوں سے بارہا باریاب ہو چکا تھا، اسی دردِ جدائی نے مرثیہ لکھوایا۔ 1996
*ڈاکٹرصاحب*
اردوشعراء میں آپ کن کن شعرا سے زیادہ متاثر ہیں
*ناصری صاحب*
غالب، میرتقی میر، بہادر شاہ ظفر، اقبال۔ ماضی قریب کے شعرا میں ڈاکٹر کلیم عاجز مرحوم اور احمد فراز۔ ڈاکٹر کلیم صاحب سے ایک نظم میں اصلاح بھی لی ہے۔
*ڈاکٹر صاحب*
ماشاءاللہ۔ اب شعر گوئ میں آپ کا استاذ کون ہے۔ یعنی آپ کس سے اصلاح لیتے ہیں ؟
*ناصری صاحب*
میں نے شاعری کسی سے نہیں سیکھی۔ البتہ ایک نظم بعنوان "ہو گیا اسلام ہندوستان میں زنار پوش” میں میں نے ڈاکٹر کلیم عاجز مرحوم سے اصلاح لی تھی۔
*ڈاکٹر صاحب*
محترم ناصری صاحب۔
آپ کو شعر کہنے کے لئے کسی خاص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے ؟
*ناصری صاحب*
ماحول خراب ہی چل رہا ہے۔ اسی رونے دھونے نے شاعری سکھادی ہے۔
*ڈاکٹرصاحب*
کوئ ایسا قافیہ۔ جس پر کوششِ بسیار کے بعد بھی آپ شعر نہ کہ سکے ہوں ؟
*ناصری صاحب*
نہیں، ایسا کوئی قافیہ نہیں۔ ہر قافیہ پر کوشش کی اور کامیاب رہا۔
*ڈاکٹر صاحب*
الحمد للہ۔
آپ کی تحریریں بھی انتہائ مقبول ہیں۔ اردو زبان کی کس کتاب نے آپ کو زیادہ متاثر کیا ؟
*ناصری صاحب*
مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا انظرشاہ کشمیری اور مولانا اعجاز احمد اعظمی رحمہم اللہ میرے پسندیدہ قلم کار ہیں۔ انہیں کی تقلید میں خامہ فرسائی شروع کی۔
*ڈاکٹرصاحب*
ناصری صاحب۔
آپ کے بعض مضامین میں تلخی ، طنز ، اور بسا اوقات چھینٹہ کشی کی بو آتی ہے۔ کیا آپ اپنی تحریر کے اس پہلو کو تبدیل نہیں کرنا چاہینگے ؟؟
*ناصری صاحب*
جی! میری تحریریں نہی عن المنکر کے جذبے کے تحت وجود پذیر ہوتی ہیں۔ نہی عن المنکر میں تلخی تو ہے ہی۔
*ڈاکٹرصاحب*
کوئ ایساموقف جس پر آپ مضبوطی سے جمے تھے۔ لیکن جب آپ کی فکر میں استحکام آیا تو وہ موقف تبدیل کرنا پڑا ؟
*ناصری صاحب*
الحمدللہ فراغت کے بعد سے ہی نہی عن المنکر کا جذبہ حاوی رہا۔ ایسی نوبت نہیں آئی کہ ایک موقف آیا اور پھر تبدیل ہو گیا۔
*ڈاکٹرصاحب*
آپ کا ایک مضمون کافی مشہور ہوا تھا جس میں آپ نے ” امبانی العلماء ” کی اصطلاح لکھی تھی۔ یہ اصطلاح ہم نے پہلی بار سنی یہ کہیں سے مستعار لی تھی یا آپ کے ذہن کی اپج تھی ؟؟
*ناصری صاحب*
جی! اس مضمون نے کافی دھماکہ کیا۔ خود امبانی العلما بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اسی مضمون کے بعد مدیر محترم مولانا عبداللہ خالد خیرآبادی کے گروپ "قاسمی احباب” میں میرے لیے "عامر عثمانی ایوارڈ” کا اعلان ہوا۔ یہ میرے ذہن کی پیداوار تھی۔
*ڈاکٹرصاحب*
آپ پر جذبہ نہی عن المنکر کا غلبہ ہے اس فکر کے ساتھ اداروں میں اپنی شناخت بنانا اور ترقیات کا سفر طے کرنا مشکل ہوتا ہے آپ کو کوئ دشواری نہیں ہوئ ؟
*ناصری صاحب*
بڑی دشواریاں آئیں۔ مگر یہ سب چلتا رہتا ہے۔ میرا نظریہ غالب کی زبان میں یہ ہے:
غالب! برا نہ مان! جو واعظ کہے برا
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
*ترجمان صاحب*
محترم ناصری صاحب..
آپ اس قدر تسلسل کے ساتھ بے تکان اتنی خوبصورت اور دلکش نظمیں اور غزلیں کیسے لکھتے ہیں اسکے لئے کونسا معجون کھاتے ہیں
ناصری صاحب
خمیرہ ابریشم عنبریں جواہر والا
*ترجمان صاحب*
تدریسی سفر بسا اوقات ایسے مراحل آتے ہیں جب تدریس سے دل اچاٹ ھوجاتا ھے کیا آپ کے سامنے ایسا کوئی مرحلہ آیا..؟
*ناصری صاحب*
سوال بڑا دل چسپ ہے۔ ایسے مراحل بارہا آئے کہ طبیعت نے لائن بدلنے پر آمادہ کیا، مگر الحمدللہ قدم ڈگمگا نہ سکا۔ اساتذہ کی چشمکیں کبھی کبھی انتہا سے زیادہ مہلک ہوتی ہیں۔ انہیں سے ڈر لگتا ہے۔
*ترجمان صاحب*
جی اساتذہ کے درمیان رقابت کے جراثیم بہت پائے جاتے ہیں میں بھی یہ جھیل چکا ھوں.
اس بچنے کا کوئی فارمولا بو تو روشنی دالیں.
*ناصری صاحب*
علمی صلاحیت کے ہوتے ہوئے رقابتوں سے بچنا ناممکن ہے۔ بس ایک ہی فارمولہ ہے مہتمم کے دیے ہوئے کام بہتر طریقے سے انجام دیے جائیں۔ پھر کسی کی رقابت اثرانداز نہیں ہوتی۔
*ترجمان صاحب*
بیشک. امید کہ آپ کی یہ تجویز دیگر اساتذہ مدارس کے لئے رھنما ثابت ہو گی.
*ترجمان صاحب*
اگر آپ کو کسی مدرسہ کا مہتمم بنادیا جائے تو اس وقت طلبہ اساتذہ اور مدرسہ کیلئے کیا لائحہ عمل ھوتا؟
*ناصری صاحب*
مجھ میں اہتمام کے جراثیم نہیں پائے جاتے۔ انتظامی امور میں بالکل کورا ہوں۔ دال چاول کا بھاؤ بھی بتا نہیں سکتا۔ مہتممین کو میرا مشورہ ہے کہ تعلیمی معیار اعلیٰ ترین کرنے کے ساتھ اعلیٰ ترین تربیت کا بھی انتظام کریں۔ اس کے لیے اعلیٰ صلاحیتیں درکار ہوں گی، جو ظاہر ہے کہ اعلیٰ ترین مشاہرے کے بغیر ممکن نہیں۔ آج مدارس کالج میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ تربیت ندارد ہے۔ درسگاہوں میں موبائل چل رہے ہیں۔ گیم چل رہا ہے۔ اساتذہ میں رقابتیں عروج پر ہیں۔ حضرات مہتممین کو اس جانب بطور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
*ترجمان صاحب*
بہت مفید اور کارآمد مشورہ ھے اس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے. اچھا. پاسبان علم و ادب کے ھی کے ذریعہ معلوم ھوا کہ آپ ایک سوشل چینل *اسلامک میڈیا سروس* کے صدر و سرپرست ھیں اور اس پر سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم پر کام شروع کرنے والے ھیں. وہ کام شروع ھوا یا نہیں اسکی ترتیب کیا ھوگی اس چینل کے اور کیا مقاصد ھیں.؟
*ناصری صاحب*
یہ یوٹیوب چینل ہے، جسے میرے عزیز مولانا وحیدالزماں صاحب نے شروع کیا ہے۔ اس کے ذریعے اسلامی مواد شائع کیے جاتے ہیں۔ میں نے سیرت النبیﷺ پر سلسلہ وار کام کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ ابھی تھوڑی مصروفیت ہے۔ جلد ہی آغاز کردوں گا۔ پاسبان کا ترانہ بھی اس چینل نے شائع کیا ہے۔
*ترجمان صاحب*
ماشاءاللہ اللہ قبول فرمائے اور آسان بنائے.
آپ نے شعر و سخن کے میدان میں سنچری لگاکر اور اختتام نعت اور حمد سے کرکے جو عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ہے.
شعر و شاعری کی دنیا میں ایک نئے باب کا آغاز ھے ھم اس پر آپ کو مبارک باد پیش کرتے.
ساتھ ھی آپ نے پاسبان علم و ادب کے لئے جو ترانہ بنایا ھے وہ ھمارے لئے نہایت اھم ھے آپ نے پاسبان علم و ادب کو لازوال بنادیا.
سوال یہ ہے کہ *ترانہ بنانے میں کو کوئی دقت تو نہیں پیش آئی*.
*ناصری صاحب*
میرا مسئلہ یہ ہے کہ فرمائشی نظمیں جلدی نہیں لکھ پاتا۔ بڑا ڈر لگتا ہے۔ ترانے کی فرمائش پر اولا جھجکا، پھر ہمت کی اور خدا خدا کرکے اسے تیار کیا۔ زحمت تو تھوڑی بہت ہوئی، مگر اسے تیار کر کے مجھے لگا کہ میں نے بہت کچھ پالیا ہے۔ *میں اس کی تخلیق اپنی زندگی کی اہم کامیابی سمجھتا ہوں*۔
*ترجمان پاسبان*
ماشاءاللہ. اللہ آپ کو جزائے خیر دے. اور تمام احباب سے درخواست ہے کہ اپنا وعدہ پورا فرمائیں.(یہ ایک وعدے کی یاد دہانی ہے جو احباب نے ترانے سے خوش ہوکر محترم ناصری صاحب سے کیا تھا )
*ترجمان صاحب*
واٹس ایپ کی دنیا میں بہت سارے گروپ ھیں آپ خود کئی گروپ چلاتے ہیں.
پاسبان علم و ادب آپ کو کیسا لگا. اس کے ممبران کے بارے میں کیا خیال ہے. ؟؟؟
کوئی پیغام کوئی دلی آواز ھو تو بے تکلف اظہار فرمائیں.
*ناصری صاحب*
پاسبانِ علم و ادب سے میری وابستگی منتظمِ اعلی محترم مولانا *شفیق صاحب* کی رہینِ منت ہے۔ وہ مجھے "قاسمی احباب” سے جانتے تھے۔ جب سے میں اس حلقے سے وابستہ ہوا ہوں، خود کو بامراد باور کرتا ہوں۔ تمام گروپوں میں اس کو بدرجہا امتیاز حاصل ہے۔ علم و ادب کے جیسے ستون یہاں بیک وقت موجود ہیں، واٹس ایپ کے حلقوں میں نہیں پائے جاتے۔ یہاں کے مباحثے لاجواب اور جان دار ہوتے ہیں۔ ترجمانِ پاسبان محترم مولانا خالد صاحب کی ترجمانی میرے لیے بطورِ خاص باعثِ کشش ہے۔ یہ حلقہ میرے *دل کی دھڑکن ہے*۔❤
*ترجمان صاحب*
شکرا جزاک اللہ فی الدارین خیرا
پاسبان علم و ادب کے تعلق سے آپ کا یہ گرانمایہ تاثر ھم پاسبانیوں کیلئے باعث صد افتخار ھے.
*ترجمان پاسبان علم وادب*
رات کافی ھوچکی اس لئے اسی پر اکتفا کرتے ھوئے آفیشل انٹرویو بند کیا جاتا ہے احباب میں سے جو حضرات ناصری صاحب سے کچھ پوچھنا چاھتے ھیں پوچھ سکتے ہیں ابھی انکی چھٹی نہیں ھوئی ھے.
سوال و جواب مکمل ھونے کے بعد آپ حضرات اپنا تاثر پیش کرنا نہ بھولیں.
آپ تمام حضرات کا بہت بہت شکریہ.
محترم ناصری صاحب سے گروپ ممبران نے بھی کئی دلچسپ سوالات کیے۔
???????
*مولانا وسیم صاحب* موجودہ قلمکاروں میں کس قلمکار کی تحریر آپ کو زیادہ متاثر کرتی ہے..
*ناصری صاحب*ہندوستان کے حلقہ علما میں حضرت مولانا نورعالم امینی، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر اور مولانا علاءالدین ندوی زیدمجدہم میرے پسندیدہ اہلِ قلم ہیں۔ مناظراتی تحریروں میں حضرت مولانا جمیل احمد نذیری دام ظلہ مجھے خاصے پسند ہیں۔
*مولانا عبیداللہ شمیم صاحب*
آپ کے کتنے شعری مجموعے اب تک منظر عام پر آچکے ہیں اور دیگر تصانیف؟؟
*ناصری صاحب*حدیثِ عنبر کے نام سے 256 صفحات کا مجموعہ کلام دو سال پیش تر آچکا ہے۔ میبذی کی اردو شرح تفہیم المیبذی اور حسامی کی اردو شرح تفہیمِ الہامی بھی آ چکی ہے۔ وحیدالدین خان کے رد میں 80 صفحات پر مشتمل ایک رسالہ بھی چھپ چکا ہے۔ مزید چند کتابیں اشاعت کے قریب ہیں۔ خاکہ نویسی مجھے بہت پسند ہے۔ ان شاءاللہ ان کا مجموعہ بھی بہت جلد آ جائے گا
*حافظ خطیب صاحب*
ناصری صاحب.باسبان ماشاءاللہ بہت خوبیوں کاحامل هےلیکن کیاآپکواس بات کااحساس هےکہ یہاں اکثر مباحث پایہء تکمیل تک نہیں پہونچ پاتے؟نیز پاسبان میں اپکےنزدیک کوئی ایسی کمی هےجسےختم هوناچاہئے؟؟
*ناصری صاحب*
واقعی یہ اس کی بڑی خامی ہے۔ انسان کا نظریہ تبدیل ہونا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ وہی یہاں بھی ہے۔ جو جس نظریے کو لے کر چل رہا ہے، ہزار دلائل کے باوجود اس سے ایک انچ ہٹنے کو تیار نہیں۔ بعض بحثیں خطرناک جھگڑوں پر منتج ہوتی ہیں۔ یہ پاسبان کے لیے اچھا نہیں ہے۔ صبروتحمل اور الفاظ کے انتخاب میں لچک پیدا کی جائے تو ہر بحث نتیجہ خیز ہوگی اور بمچک سے بچا جا سکے گا۔..
*مولانا عبیدالرحمن صاحب*
آپ کی ایک مشہور تصنیف *تفہیم المیبزی* ہے جو عربی مدارس کے تقریبا ہر اس طالب علم کے پاس موجود ہوتی ہے جو عربی پنجم تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم دیوبند میں داخلہ کا متمنی ہوتا ہے
تو سوال یہ ہے کسی کی فرمائش پر لکھے ہیں یا ازخود طلباء کی پریشانی کو مد نظر رکھتے ہوئے؟
*ناصری صاحب*
یہ کتاب جب مجھے پہلی بار ملی اور طلبہ نے سبق سنا تو انہیں اتنا پسند آیا کہ شرح کی ہی فرمائش کر ڈالی۔ یہی سببِ تالیف ہے۔
مولانا الیاس صاحب
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
?مولانا فضیل احمد ناصری صاحب?
ماشاء الله: آپ کے شعر و سخن کےخوبصورت”تازہ ترین سلسلہ” کی سویں قسط آج مکمل ہوگئی ہے? اس عظیم کارنامہ پر آپ کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی خوشی ہوئی?
خوشی کے اس موقع پر ہماری طرف ســے ڈھیــــــــــــــــــــــر ?ساری مبارک باد قبول فرمائیں ⚘?⚘
اب آپ سے ایک چھوٹا سا سوال ہے۔
وہ یہ کہ آپ کی کونسی تحریرسب سے زیادہ شرف قبولیت کو پہنچی اور بذات خود آپ کو اپنی کونسی تحریر سب سے زیادہ اچھی لگی!!
*ناصری صاحب*
میری ایک تحریر”قلتِ تنخواہ کا قہر اور مدارس سے بدکتے فضلا” بہت زیادہ پسند کی گئی۔ پڑوسی ملک میں اس کی گردش بہت زیادہ رہی۔
*ایڈمن اعلی مولانا شفیق صاحب*
پاسبانِ علم وادب ایک مشن ہے، کسی بھی کام یا مشن میں دو ہی امکانات ہیں
(1) کامیابی (2) ناکامی۔
پاسبانِ علم وادب کے لئے کوئی ایسی تجویز پیش فرمائیں جو کامیابی کی بلندی تک پہونچ کر گوہر مقصود حاصل کرلے ؟
*ناصری صاحب*
گروپ کی حد تک تو ہر طرح کے افراد چل سکتے ہیں، مگر زمینی سطح پر کام کرنے کے لیے مختلف الخیال اور متصادم الافکار احباب سے گریز ضروری ہے۔ پاسبان کا خلائی وجود ناکامی و کامیابی دونوں ذائقے چکھ سکتا ہے، مگر میرا یقین ہے کہ زمینی سطح پر اس کے اقدامات لازوال نقوش ثبت کریں گے۔ اس کے ممبران ہمہ پہلو اور کثیرالجہات ہیں۔
*مولانا عبیدالرحمن صاحب*
جزاک اللہ خیرا
ایک دوسرا اور آخری سوال کہ اپنے شعری سلسلے کی سنچری مکمل کرنے پر آپ کو کیسا محسوس ہورہا ہے
کیا آپ اس خوشی کے موقع پر اپنے لئے و اہل پاسبان کے لیے کوئی شعر کہنا پسند کرینگے؟
*ناصری صاحب*
بڑی مسرت محسوس ہو رہی ہے۔ یقیناً یہ پاسبان کا فیض ہے۔ یہاں سے حوصلہ ملتا رہا اور قلم گرمِ سفر رہا۔ اقبال کا یہ شعر پاسبان کی نذر ہے:
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا
*مولانا ذاکر ندوی صاحب*
مولانا ناصری صاحب آپ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشناس کرنے کے لئیے ہم ڈاکٹر ارشد صاحب اور مولانا خالد کےصاحب کے بیحد ممنون ہیں۔ ایک سوال آپ کی تدریسی زندگی میں مختلف مراکز کی سیر کے تعلق سے ہے۔ کسی ایک مدرسہ میں عدم استقرار کے کیا اسباب تھے؟
*ناصری صاحب*
مجالاتِ علمیہ کی تبدیلیوں کا اہم سبب اساتذہ سے بمچک رہی۔ میں بعض اساتذہ کی غیرشرعی حرکات پر ٹوکتا رہتا، یہی میری برطرفی کا سبب بنتا۔ اس کی تفصیل درد ناک ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کا اظہار ممکن نہیں۔
*مولانا الیاس صاحب*
آپکی کونسی تحریر بحیثیت مدرس دیوبند میں آنے کا سبب بنی
*ناصری صاحب*
"تجھ سا نہیں دیکھا” حضرت مولانا انظرشاہ کشمیریؒ کے انتقال پر اسی عنوان پر طویل مضمون لکھا تھا، وہی دیوبند آمد کی وجہ بن گیا۔
*مولانا وحید الزماں صاحب*
ایک سوال میری طرف سے بھی *آپکو اسلامک میڈیا* میں بطور صدر کیسا محسوس ہوتا ہے کیا آپکو اس چینل سے دشواری تو نہیں ہوتی؟؟
*ناصری صاحب*
یہ چینل اچھا چل رہا ہے۔ اچھی چیز ہر شخص کو پیاری ہوتی ہے۔ میرے لیے یہ چینل پیارا ہے
*مولانا الیاس صاحب*
تیسرا اور آخری سوال
تازہ ترین سلسلہ کی تحریک کا سبب کیا چیز بنی
*ناصری صاحب*یوپی میں حکومت کی تبدیلی اور پھر ملک و عالم میں مسلمانوں کی زبوں حالی۔ یہ سفر ایک سال پیش تر شروع ہوا۔
*ترجمان پاسبان مولانا خالد صاحب*
ماشاءاللہ. ساڑھے نو بجے سے شروع ھوکر تقریباً ڈھائی گھنٹے تک چلنے والا انٹرویو سوال و جواب اور تاثرات کا سلسلہ بارہ بجے تک چلا اب انڈیا میں ھم لوگوں کا بارہ بج گیا ہے.
ناصری صاحب کوچھٹی دیجئے.
اللہ حافظ شب بخیر.
*ناصری صاحب*
جی اب اجازت دیجیے۔ ان شاءاللہ پھر کسی موقعے پر۔ پاسبانِ علم و ادب کا بے پناہ شکریہ۔ پاسبان زندہ باد۔ علم و ادب پائندہ باد۔