ترجمہ :عبدالباری قاسمی
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر بے قصور ہوگا تو اپنے آپ باہر آ جائے گا، ان کو میں کہہ دوں کہ کیوں نہ آپ کو سال بھر کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے؟ کیوں نہ ملک کے ہر شہری کو 18 سال کا ہوتے ہی ایک سال کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے؟ ہم سب بے قصور ہیں، باہر آ ہی جائیں گے۔
عمر خالد گرفتار ہو گیا، ٹویٹر پر پڑھاکہ دہشت گرد ہے، کچھ نے کہا دہشت گرد نہیں ہے تو رہا ہو جائے گا، اکثریت کو لگتا ہے کہ جہاں آگ ہوتی ہے دھواں وہیں سے اٹھتا ہے، کچھ سالوں قبل شاید یہ بات صحیح بھی تھی، اب اس سوشل میڈیا کے زمانے میں آگ بھی کمپیوٹر گرافکس سے بنائی جا سکتی ہے اور دھواں بھی۔ خیر سوال یہ ہے کہ عمر خالد دہشت گرد ہے یا نہیں؟ اور اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
میں آج تک نہ کسی دہشت گرد سے ملا ہوں اور نہ ہی کسی دہشت گرد کو جانتا ہوں۔ ہاں میں عمر سے کئی بار ملا ہوں اور سیکڑوں بار بات کر چکا ہوں؛ لیکن مجھے معلوم نہیں دہشت گرد کیا بات کرتے ہیں؟ ہو سکتا ہے عمر نے دہشت گردوں کی طرح مجھ سے کوئی بات کی ہو اور چوں کہ آپ سب لوگ ایسے کئی دہشت گردوں سے مل چکے ہوں گے، تو میں آپ کو اس کے ساتھ ہوئی کچھ باتیں بتاؤں گا۔
ہو سکتا ہے آپ لوگ اس کے اندر کا دہشت گرد پکڑ لیں، ابھی گرفتاری سے تین دن قبل بھی وہ جے پور میں تھا اور کورونا کی وجہ سے میں بھی ممبئی سے گزشتہ3-4 مہینے سے بھاگ کر جے پور میں چھپا ہوا ہوں، ہم تین چار دن روزانہ ملے، گھنٹوں گفتگو بھی ہوئی، میری اہلیہ بھی اس بار اس سے کافی دیر تک ملی، اس نے بھی مذاق میں مجھ سے کہا، کتنا شاندار اور مہذب لڑکا ہے، پڑھا لکھا بھی ہے، ایسے لڑکوں کو تو لڑکیوں کے والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے ڈھونڈتے ہیں، میں نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا ” بس دو مسئلے ہیں ایک تو پڑھا لکھا ہے، تو کچھ کماتا نہیں اور دوسرے مسلمان ہے تو دہشت گرد ہے‘‘۔ وہ ہنسی، میں نہیں ہنسا؛ کیوں کہ بولتے بولتے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ باتیں اب ہندوستان میں مذاق نہیں ہیں، سچ ہیں۔
ان دنوں ہمارے ملک میں پڑھے لکھے کچھ کماتے نہیں ہیں اور مسلمان تو دہشت گرد ہوتے ہی ہیں،ہارورڈ کو ہارڈ ورک (شدید محنت) نے ایسا دبوچا ہے کہ لوگوں نے کتابیں چھوڑ کر طمنچے اٹھا لیے ہیں؛ کیوں کہ ’’ گولی مارنی ہے نا۔۔۔۔۔۔ کو‘‘۔ میرا اور عمر کا کافی بے ادب سا رشتہ ہے۔ وہ اکثر اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر ایسے کھڑا ہوتا ہے جیسے اپنے ہی ہاتھ سے اپنی کمر کو دبا دبا کر سیدھی کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ جب آپ کی بات سن رہا ہوتا ہے، تو لگاتار ہم – ہم کرتا رہتا ہے، (غضب تھکاؤ) کئی بار اسے ٹوک چکا ہوں کہ ایک ’’ہم‘‘ سے دوسرے ’’ہم‘‘ کے درمیان وقفہ رکھا کرو؛ لیکن وہ عادی مجرم ہے، بے ساختہ اس کے منھ سے ’’ہم – ہم‘‘ نکلتا رہتا ہے، آنکھوں کے نیچے کالے گڈھے ہیں، وزن بس اتنا ہے کہ ابھی تھلچر ہے، دو کلو اور وزن کم ہوا تو پرندہ بن کر آسمان میں اڑ جائے گا۔ اگر فکر اتنی اچھی نہیں ہوتی تو خاصا زہر آدمی ہے۔ تو چلیے اب جلدی سے سنیے وہ باتیں جو میرے اور عمر کے درمیان ہوئی ہیں، پھر ہم مل کر عمر کے اندر کا دہشت گرد پکڑتے ہیں۔
تو سب سے پہلے ذکر کرتے ہیں اس بات کا جو سب سے زیادہ ہوئی، وہ تھی عمر خالد کی گرفتاری کی بات، سوال یہ نہیں تھا کہ وہ گرفتار ہوگا کہ نہیں، سوال یہ تھا کہ ایسا کب ہوگا اور اسے باہر آنے میں کتنا وقت لگے گا؟ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ کوئی نہ کوئی یہ کہہ دیتا تھا گرفتار ہوگا کیوں؟ کیا کیا ہے؟ اور یہ سن کر ہم ہنسنے لگتے تھے۔
آج بھی لوگوں کو ایسا لگتا ہے جیسے ملک میں قانون کام کر رہا ہے، کچھ اور وقت کی بات ہے، یہ غلط فہمی بھی دور ہو جائے گی، ڈاکٹر کفیل خان کو یوگی حکومت نے 8 مہینے جیل میں رکھا، ڈاکٹر کفیل خان کو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف اشتعال انگیز بیان دینے کے جرم میں 29 جنوری کو گرفتار کیا گیا تھا، ڈاکٹر کفیل خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 12 دسمبر 2019 کو ایک تقریر کی تھی، معلوم ہے ان پر کیا کیا دفعات لگائی گئیں؟ پہلے مذہبی جذبات بھڑکانے کے جرم میں 153A میں کیس درج کیا گیا تھا اور بعد میں 153 Bملکی سلامتی کے خلاف بیان بازی 109( اکسانے) اور 502 (2)(امن و شانتی کو بگاڑنے) جیسی دفعات میں کیس درج کیا گیا.
گرفتاری کے بعد 13 فروری کو ڈاکٹر کفیل خان پر راسوکا لگایا گیا۔ اب یہ راسوکا کیا ہے؟ قومی سلامتی قانون یعنی این ایس اے کے تحت ایسے کسی بھی انسان کو 12 مہینے تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے، جس سے قانونی نظام کو خطرہ لاحق ہو۔ حالاں کہ تین مہینے سے زیادہ تک کسی کو جیل میں رکھنے کے لیے صلاح کار بورڈ منظوری لینی پڑتی ہے۔ مطلب کسی بھی آدمی کو سال بھر کے لیے یوں ہی جیل میں سڑایا جا سکتا ہے۔
اب تک آپ کے گھر والے، اولاد سب بس سانس روکے ایک سال تک بیٹھے رہیں گے، جو لوگ یہ کہتے ہیں اگر بے قصور ہوگا تو اپنے آپ باہر آ جائے گا ان کو میں کہہ دوں کیوں نہ آپ کو ایک سال کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے؟
کیوں نہ ملک کے ہر ہر شہری کو 18 سال کا ہوتے ہی ایک سال کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے۔ ہم سب بے قصور ہیں، باہر آ ہی جائیں گے۔ خیر 8 مہینے کے بعد ہائی کورٹ نے اس معاملے میں ضلع انتظامیہ کی سرزنش کی۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ پوری تقریر کو سنے بغیر ہی راسوکا لگا دیا گیا، جب کہ ڈاکٹر کفیل خان کا بیان ملکی اتحاد کی ترجمانی کرتا ہے، میں دہراتا ہوں کہ ڈاکٹر کفیل خان کا بیان ملکی اتحاد کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہی عمر کے ساتھ بھی ہوگا، میں لکھ کر دے رہا ہوں، 3 مہینے بعد، 6 مہینے بعد، 9 مہینے بعد یا ایک سال بعد کورٹ کہے گا’’عمر کا بیان، اس کے کام ،اس کے نظریات قومی اتحاد کی عکاسی کرتے ہیں‘‘۔ مگر اس وقت تک کسی کی زندگی کا ایک سال جیل میں برباد ہو چکا ہوگا۔ جیسے ڈاکٹر کفیل خان کے 8 مہینے غارت ہو گئے۔ ہم نے ایمرجنسی کے بارے میں سنا تھا، جس میں ملک کے تمام حزبِ اختلاف کے نیتا ؤں کو جیل میں بند کر دیا گیا تھا، مگر اس وقت کم از کم اسے ایمرجنسی کا نام تو دیا گیا تھا۔ یہ ایک نئی طرح کی ایمرجنسی ہے جو کچھ آہستہ چل رہی ہے۔ ہر آواز جیل میں جائے گی، ایک ساتھ نہیں ایک ایک کرکے، یہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے، جس کو یہ غلط فہمی ہے کہ ملک میں اب بھی جمہوریت زندہ ہے، جلد ہی اس کی غلط فہمی دور کر دی جائے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ حق کی لڑائی کے لیے جیل جانا کوئی بری بات ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہر انقلابی کے لیے جیل جانا اشوک چکر کی طرح ہے۔
یہ وہ تمغہ ہے جو ہر انقلابی فخر سے اپنے سینے پر سجاتا ہے؛ لیکن ان لوگوں کی بھی بات کرنا ضروری ہے، جو بے گناہ لوگوں کو صرف اس لئے جیل میں ڈال رہے ہیں کہ انہیں آوازیں پسند نہیں ہیں، جنہیں یہ پسند نہیں کہ کوئی سر اٹھے، کسی کی بانہیں تنے، کسی کی گردن ان کے سامنے نہ جھکے، ان لوگوں کو آپ کیا کہیں گے، ارے میں بھول گیا، مجھے تو آپ کو وہ سب باتیں بتانی ہیں جو عمر کرتا ہے، ہمیں ان باتوں میں دہشت گرد ڈھونڈنا ہے، وہ اکثر مجھ سے کہتا ہے، میں مسلمانوں کے لیے لڑتا ہوں کیوں کہ ابھی ان پر ظلم ہو رہا ہے۔ اگر مسلمان ظلم کر رہے ہوتے، تو میں ان کے خلاف لڑ رہا ہوتا، میں ان سب کے لیے لڑوں گا، جو آج کمزور ہیں، چاہے وہ دلت ہوں یا کمزور، چاہے غریب مزدورہوں یا کاری گر۔ ” تمہیں شاید کرنے کی عادت ہے "جب میں اس سے کہتا ہوں تو وہ جواب دیتا ہے، جب تک انہیں ظلم کرنے کی عادت ہے، مجھے لڑنے کی عادت ہے، وہ ظلم کرنا چھوڑ دیں، میں لڑنا چھوڑ دوں گا اور پھر میں چپ ہو جاتا ہوں۔ میں نے کہا نا آدمی زہر ہے؛ لیکن سوچتا بہت اچھا ہے۔ ایک دن میل کی بتی پر بات ہوئی، پہلے سمجھا دوں کہ "میل کی بتی” کیا بلا ہے۔ جب آپ اپنے سینے پر اپنی انگلی رگڑتے ہیں، تو ان انگلیوں کے نیچے کالی – کالی میل کی لکیریں بن آتی ہیں، انہیں ہی
میل کی بتی کہتے ہیں۔ اس کے لیے دو تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے، پہلے تو کھال پر پسینے کی ایک پتلی پرت کا ہونا، پھر غسل اور اس عمل کے دوران کم از کم ایک گھنٹہ کا وقفہ ہونا۔ تو اب جب آپ کو میل کی بتیاں سمجھ میں آ گئی ہیں، آپ سوچ رہے ہوں گے ہماری اس سے متعلق کیا باتیں ہوئی ہوں گی۔ عمر کا خیال ہے میل کی بتی اور بھارت کا بہت گہرا تعلق ہے، بھارت کو صرف وہ سمجھتا ہے جس نے میل کی بتیاں جی ہیں، میل کی بتیاں ایک دماغی حالت ہے، اس ملک کے ہر محنتی انسان کو معلوم ہے کہ وہ ہر وقت میل کی بتیوں سے ڈھکا ہے وہ کبھی بھی ویسے صاف نہیں ہوگا یا ہوگی جیسے لوگ ٹی وی پر دیکھتے ہیں؛ لیکن یہ میل کی بتیاں اس کا ڈھال ہیں اور یہی اس کا سچ ہیں۔ میل کی بتیوں سے کروڑوں لوگ اپنے گھر والوں کی پرورش کر رہے ہیں، باورچی خانوں میں کھانے پکا رہے ہیں، سڑکوں پہ آواز لگا رہے ہیں، یہ میل کی بتیاں اس ملک کی روح ہے، یہ پسینے میں لپٹی میل کی بتیاں ہماری طاقت ہےاور آخرمیں وہ سوال پوچھتا ہے، یار یہ جو 24 گھنٹے اے سی میں رہتے ہیں، کیا ان کے میل کی بتیاں آتی ہیں، مجھے اس کا جواب نہیں معلوم شاید آپ جانتے ہوں۔ ہمارے درمیان اکثر ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں، اس کا خیال ہے کسی کو کسی کی جان لینے کا حق نہیں ہے؛ لیکن سب کی جان بچانا سب کا فرض ہے، اس کا سوال ہے کہ کتنا امیر ہونا کافی ہے؟ کیا امیری کی کوئی حد ہے؟ جب ملک میں 20 کروڑ لوگ بھوکے سوتے ہیں تو کیا امیری کی کوئی حد نہیں ہونی چاہیے؟ وہ اس بات سے پریشان ہے کہ کہ وہ پڑھا لکھا ہے، لیکن وہ لڑکے لڑکیاں جو بچپن میں اس کے ساتھ محلے میں کھیل کود رہے تھے جن میں سے کچھ تو اس سے کہیں زیادہ سمجھ دار تھے، آج وہ لوگ ان ہزاروں محلوں میں کیوں پگھل رہے ہیں؟ وہ بہت بولتا ہے، جب ایک بار شروع ہوتا ہے تو بولتا ہی رہتا ہے؛ لیکن اس کی آنکھوں میں غم اور اس کی آواز سے رنج ٹپکتا رہتا ہے،وہ جب ہنس رہا ہوتا ہے تواپنی ہنسی سے پریشان ہوتا ہے اور جب خوش ہوتا ہے تو اپنی خوشی سے ناراض۔ جیل جانے سے پہلے ہی اسے معلوم تھا کہ وہ جیل جائے گا، اس نے یہ بھی ارادہ کر لیا تھا کہ اس بار وہ سگریٹ چھوڑنے کی پوری کوشش کرے گا، اس نے وہاں جیل میں پڑھنے کے لیے کتابوں کی ایک فہرست بھی بنا رکھی تھی، وہ خبر دار تھا، وہ تیار بھی تھا؛ لیکن یہ کیسا نظام ہے میرے ہم وطنو؟ ہم سب کو معلوم ہے کہ نا انصافی ہوگی اور ہمیں برداشت بھی کرنا پڑے گا، نہ کوئی دوا ہے نہ علاج۔ اس ظلم کو برداشت کرنے کی اب عادت سی بن گئی ہے۔
خیر مجھے امید ہے کہ ان باتوں میں آپ نے عمر کے اندر کا دہشت گرد تلاش کرلیا ہوگا اور اگر نہ ملا تو اس کے نام میں مل ہی گیا ہوگا۔ آخر اس کا نام عمر خالد ہے، ستیہ میو جیتے ہندوستان کا قومی آئیڈیل جملہ ہے، جس کا مطلب ہے سچ ہی فتح یاب ہوتا ہے، سچ کی ہی جیت ہوتی ہے۔ شاید ہندوستان کا مقصد بھی سچ کی تلاش ہے؛ لیکن آج ہم سچ نہیں ڈھونڈ رہے ہیں، آج ہم ناموں میں دہشت گرد ڈھونڈ رہے ہیں، ستیہ میو جیتے چاہے آج ہمارا قومی مثالی جملہ ہو، مگر جس رخ پر آج ہندوستان جا رہا ہے، دیر نہیں ہے کہ ہمارا قومی مثالی جملہ ہوگا "نفرتیو جیتے "کیوں کہ شاید اب یہاں نفرت ہی جیتے گی۔
(داراب فاروقی اسکرپٹ رائٹر ہیں اور فلم ڈیڑھ عشقیہ کی کہانی لکھ چکے ہیں)