یوں تو ہندوستان بھر میں آئے دن زنا بالجبراورجنسی درندگی کے بیسیوں واقعات پیش آتے رہتے ہیں اوراپنے وقت کے اس جنت نشاں میں اب یہ کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے ۔ ہماراملک تاریخ کے تمام ادوار میں عظیم الشان تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے ، ہردور میں یہاں کی گنگا جمنی تہذیب اقوام عالم کے لیے دل چسپی اور کشش کا باعث رہی ہے؛ لیکن افسوس آج مغرب کی اندھی تقلید اور اباحیت پسندی کے سیل رواںنے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے تقدس کو پو ری طرح پامال کر دیا ہے ، جدیدیت اور فیشن کے نام پر فحاشیت فروغ پاتی جا رہی ہے ، زنا کا ری اور عصمت دری کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔ہندوستان میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اور جنسی آوار گی کے اس سیلاب بلاخیز پر قابو نہیں پا یا گیا تو یہاں کی تہذیب و ثقافت کا حال بھی یو نان و روم سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔
آج ایک طرف چیختی ،چلاتی عورتوں،سسکتی، بلکتی دوشیزاؤوں، معصوم ونابالغ بچیوں کے دامن عفت کو تار تار کردیاجاتاہے اوردوسری طرف رسمی تعزیتی الفاظ اور روایتی قانونی کارروائی کے علاوہ کوئی دادرسی کے لئے تیارنہیںہوتا۔انفرادی عصمت دری کے علاوہ اجتماعی آبروریزی کے لرزہ خیز واقعات نے تو دلوں کو دہلا کررکھ دیا ہے ،بالخصوص ابھی حال ہی میں پیش آمدہ ریاست و ملک کے متعددسانحات نے تو شرم وحیا کی ساری حدوں کو پارکردیاہے۔
تفصیلات کے مطابق اترپردیش ضلع ہاتھرس کے چندپا نامی دیہات میں رہنے والی انیس سالہ دلت لڑکی ۱۴؍ستمبر کو کسی کام سے جارہی تھی کہ گائوں کے اعلیٰ ذات کے چار لڑکوں نے اس کا اغوا کرلیا اور پاس کے ایک کھیت میں لے جاکر اس کے ساتھ حیوانیت ودرندگی کامظاہرہ کیا۔ متاثرہ کے ساتھ درندوں نے کس طرح کا وحشیانہ سلوک کیا تھا،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے متاثرہ کو اغو اکرکے ایک کھیت میں لے جایا گیا جہاںاس کی اجتماعی آبروریزی ہوئی،اس کے بعددلت لڑکی کی زبان کاٹ دی گئی تاکہ وہ ملزمین کا نام اپنی زبان سے نہ لے سکے۔ بدمعاشوں نے صرف اتنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس مظلوم کی کمر کی ہڈی بھی توڑ دی تاکہ وہ خود اپنے قدموں سے چل کر اسپتال تک نہ پہنچ سکے۔ اس معاملے میں پولیس نے متاثر ہ کے گھر والوں کی شکایت پر پہلے صرف چھیڑ چھاڑ اور مار پیٹ کا معاملہ درج کرنے کے بعد اسے علی گڑھ کے جے این ہاسپٹل میں علاج کیلئے بھیج دیا۔ معاملے نے جب طول پکڑا اور عوام احتجاج کرنے لگے تو آٹھ روز بعد پولیس نے اپنی’لکھا پڑی‘ میں عصمت دری کا بھی اضافہ کردیا۔اجتماعی عصمت دری کا شکار ہونے والی متاثرہ نے پندرہ روز تک موت سے جنگ کے بعد منگل کو بالآخر دم توڑ دیا۔اس نے دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں آخری سانس لی۔ دو روز قبل ہی اسے علی گڑھ سے دہلی علاج کیلئے لایا گیا تھا۔اس موت پر پورا ملک غمزدہ ہے۔ دہلی سے لے کر یوپی تک لوگ سڑکوں پر اُتر آئے اور ملزمین کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس معاملے میں ہاتھرس پولیس نے چاروں نامزد ملزمین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم، پولیس کا رول اس معاملے میں مشکوک رہا ہے کیونکہ اس نے پہلے عصمت دری کی دفعہ کے تحت معاملہ درج ہی نہیں کیا تھا۔
یہ توملکی میڈیاکے ذریعہ منظر عام پر آنے والے افسوس ناک واقعے کی روداد غم تھی۔ ریاست تلنگانہ میں بھی عصمت دری کے واقعات میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہاہے۔ابھی چند ماہ قبل عصمت ریزی کیس کے ملزمین کا انکاونٹر کیا گیا تھا اس وقت سوائے چند گوشوں کے سارے ملک کے عوام نے خیر مقدم کیا تھا اور یہ رائے عام ہوگئی تھی کہ عصمت ریزی کے ملزمین کے ساتھ اسی طرح کی کارروائی ہونی چاہئے۔
ایسے معاملات میں ایک اور قابل فکر بات یہ دیکھی جا رہی ہے کہ کسی کسی کیس کو میڈیا میں پوری شدت کے ساتھ اچھالا جاتا ہے اور کسی معاملہ میں میڈیا کی جانب سے مکمل سردمہری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ معین آباد عصمت ریزی کیس میں بھی ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔جب تک عصمت ریزی اور قتل کے ملزمین کے ساتھ یکساں نوعیت سے کارروائی نہیں ہوگی اور ملزمین کو کیفر کردار نہیں پہونچایا جائے گا اس وقت تک ان سنگین واقعات پر قابو پانا مشکل ہے۔
ان واقعات کو پڑھ کر یا سن کرہم ہیں کہ صرف کڑھتے ہیں، کلبلاتے ہیں اور ٹھنڈی آہ بھر کے رہ جاتے ہیں؛جب کہ یہ ایک اجتماعی افتاد ہے جو اجتماعی کوششوں سے ہی ٹالی جا سکتی ہے ۔ درج ذیل تحریر اگرچہ حالیہ پیش آمدہ واقعات کے پس منظر میں لکھی گئی ہے؛ مگر ہمارے یہاں بھی ہر روز اسی طرح کے دلخراش اور دل سوز واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں،لہذا ہمیں ان جرائم کے اصل اسباب کو سمجھنا ہوگا اور ان کے سدباب کی کوشش کرنی ہوگی۔قبل اس کے کہ ان دل دوز سانحات کے اسباب و سد باب پر روشنی ڈالی جائے اس حوالے سے دنیابھر کے مختلف ممالک کے اعدادو شمار بھی ملاحظہ فرمائیں !
اعداد وشمار:
میرے پیش نظر آبروریزی اور جنسی تشدد کے حوالے سے ٹاپ 10 ملکوں کی ایک فہرست ہے ؛جس میں دسویں نمبر پر ملک ایتھوپیا ہے جہاں کی ساٹھ فیصد خواتین کو سیکسوئیل وائلنس کا سامنا کرنا پڑتاہے اور ہر سترہ میں سے ایک خاتون ریپ کا شکار ہوتی ہے۔عصمت دری کے حوالے سے نوواں بڑا ملک سری لنکا ہے جہاںزنی کے تعلق سے پیش آنے والے صرف چارفیصد معاملات کی شنوائی ہوتی ہے؛ جب کہ ۹۶ ؍فیصدمعاملات سردخانہ میں ڈال دیے جاتے ہیں۔خواتین سے بدسلوکی اور بے حرمتی کی فہرست میں آٹھواں بڑا ملک کینیڈا ہے جہاں 2,516,918 ریپ کیسز دو ہزار ایک سے اب تک رجسٹرڈ ہوئے ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہاں کے سرکاری محکموں کا یہ مانناہے کہ یہ رجسٹرڈ کیسز ٹوٹل کا چھ فیصد بھی نہیں ۔ساتواں نمبر فحاشی و زناکاری میں سرفہرست ملک فرانس کا ہے، معلوم ہوناچاہیے کہ 1980 سے پہلے تک تو یہاں ریپ کوئی جرم ہی نہیں سمجھا جاتا تھا ، اس کے سدباب کا کوئی قانون سرے سے موجودہی نہیں تھا، عورت پر جنسی اور جسمانی تشدد پہ قانون بنایا ہی 1992 کے بعد گیا،فرانس جیسے لبرل ملک میں سالانہ 75000 ریپ کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں۔چھٹے پر ٹیکنالوجی کے بادشاہ جرمنی کا نمبر آتا ہے جہاں اب تک 6505468 کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں یاد رہے ان میں سے 240000 سے زیادہ متاثرہ خواتین خودکشی و تشدد سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں ، ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کرتے اس ملک میں انسانیت اتنی ہی تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے ۔پانچواں نمبر انگلینڈ کا ہے جہاں 16 سال سے 56 سال کی عمر کی ہر پانچ میں سے ایک عورت کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس طرح سالانہ چار لاکھ خواتین انگلینڈ میں اپنا وقار کھو بیٹھتی ہیں ۔چوتھے نمبر پر ہندوستان آتا ہے , جہاں ہر بائیس منٹ بعد ریپ کا ایک کیس رجسٹرڈ کیا جاتا ہے، یاد رہے اعداد و شمار کے ماہرین کے نزدیک یہ تعداد اصل تعداد کا دس فیصد بھی نہیں؛ کیوں کہ پسماندگی کی وجہ سے نوے فیصد خواتین رپورٹ درج ہی نہیں کرواتیں ،تیسرے نمبر پہ سویڈن ہے جہاں ہر چار میں سے ایک عورت ریپ اور ہر دو میں سے ایک عورت جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہے ۔دوسرے نمبر پرساؤتھ افریقہ ہے جہاں بلحاظ آبادی سالانہ 65000 سے زائد کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں ۔ پہلے نمبر پر دنیاکا مہذب ترین ملک امریکہ ہے جہاں ہر چھ میں سے ایک عورت تو ریپ کا لازمی شکار ہوتی ہے پر ہر 33 میں سے ایک مرد بھی عورتوں کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہوتا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق عصمت دری کا شکار ہونے والی خواتین میں چھ سا ل کی بچی سے لے کر ساٹھ سال تک کی بزرگ خواتین بھی شامل ہیں،ان میں سب سے زیادہ تعداد ہمسایوں اور رشتہ داروں کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کی ہے ۔
نیشنل کرائم ریکارڈز بیوروکی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں خواتین کے خلاف جرائم کے مجموعی طور پر تین لاکھ ستائیس ہزار تین سو چورانوے معاملات درج کرائے گئے ؛جن میں عصمت دری کی کوشش کے چار ہزار چارسو سینتیس معاملات شامل تھے ۔رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم کی شرح کے لحاظ سے قومی دارالحکومت نئی دہلی سر فہرست رہا، جب کہ آسام دوسرے نمبر پر ہے۔
عمومی اسباب:
عام طور پر دین سے دوری اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت ایسے واقعات کے وجود میں آنے کا سبب ہوتی ہے ۔نگرانی اور تربیت کے حوالے سے والدین کی بے توجہی اور لاپرواہی بھی اس کی اہم ترین وجہ ہے،علاوہ ازیں نکاح جیسی آسان سنت کو ایک مشکل مسئلہ بنادینابھی اس کی بنیادی وجوہ میں سے ہے ۔جہیز اور گھوڑے جوڑے کے اخراجات سے گھبراکر والدین شادی میں تاخیر کرتے جاتے ہیں؛جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ نوجوان نسل ناجائزراستوں سے اپنی ضروریات کی تکمیل پر مجبورہوجاتی ہے، حالانکہ دین نے بچوں کی شادی کی جو عمر مقرر کی ہے اگر اسی عمر کو سامنے رکھ کر شادی کردی جائے تو بہت سے جنسی مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔
ان کے علاوہ زنا کا ری اور عصمت دری کے اسبا ب و محر کات کا اجمالی خاکہ بھی پیش کیاجاتاہے ۔چناں چہ فحش اور عریاں فلمیں، ٹی وی سیریل،گندی اور مخرب اخلا ق کتب اور رسائل،نائٹ کلبوں اور ہو ٹلوں میں نیم عریاں رقص، شہوت انگیز سنیما پوسٹراور تصاویر،جنسی اشتعال پیدا کر نے والے اشتہارات، جسم کی ساخت کو نما یاں اور عریاں کر نے والے مختصر اور تنگ زنانہ لباس، مخلوط تعلیم،بازاروں، کلبوں، کالجوں، اسکولوں اور تفریح گا ہوں میں مردوں اور عورتوں کا آزادانہ میل ملاپ، نیز شراب اور دیگر منشیات کا بے دریغ استعمال۔وغیرہ
عصمت دری اور زنا کاری کے بڑھتے واقعات پر قا بو پانے کے لیے ان امور پر کنٹرول کی سخت ضروت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم اور ضروری اقدام یہ بھی ہونا چاہیے کہ معاشرے میں نکاح کو آسان اور سہل بنا یا جا ئے ، تاکہ جنسی تسکین کا جائز ذریعہ مہیا ہو۔
عام طور پر زانی کے تعلق سے سزائے موت یا عمر قید کا پرزور مطالبہ کیاجاتاہے ؛مگرغورکرنے کا مقام ہے کہ اگر صرف سزائیں ہی مسئلہ کا حل ہوتیں تو مجرمین کو پھانسی چڑھانے کے بعدجرائم میں نمایاں کمی واقع ہوجانی چاہیے تھی؛ جبکہ جرائم کی رفتار میں بھیانک اضافہ ہورہا ہے ۔ اسی لئے اسلام نے سب سے پہلے معاشرہ کی تطہیر اور مناسب تعلیم پر زور دیا ہے تاکہ خواتین کو صرف جنسی تسکین کا ذریعہ نہ سمجھتے ہوئے انہیں ماں، بہن اور بیٹی کے روپ میں عزت دی جائے ،پھر جنسی جرائم کے تدارک کے لئے حجاب کو لازم قرار دیا ہے جو عورت کی عزت و حرمت کی بہترین علامت ہے ۔ ساتھ ہی اسلامی اصولوں کے مطابق جنسی جذبات کو برانگیختہ کرنے والا لٹریچر، فلمیں، وہ تمام پیشے اور ذرائع جن میں عورت کی بے حرمتی ہوتی ہے ممنوع ہیں۔ اس کے بعد آخری تدبیر کے طور پر سخت سزائوں کا مرحلہ آتا ہے تاکہ ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی جو لوگ جرم کے مرتکب ہوں انہیں سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ دیگر ساری احتیاطی تدبیروں کو بالائے طاق رکھ کر صرف سخت ترین سزا کا مطالبہ ایک واردات کے مجرم کو کیفرِ کردار تک تو پہونچا سکتا ہے ، مشتعل عوام کے جذبات کی تسکین بھی کر سکتا ہے لیکن اس نوعیت کے سنگین جرائم کے دوبارہ ارتکاب کو روک نہیں سکتا۔
سدباب:
آج کی اس بڑھتی ہوئی درندگی کے روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ اسلام کے دامن عفت میں پناہ لی جائے ؛کیوں کہ عورت کی عزت و عصمت کے تحفظ کے لیے دین اسلام نے جو نقطہ نظر پیش کیا ہے اور جو قوانین وضع کئے ہیں وہ ہرقوم و ملت کے لئے قابل دید اور لائق تقلید ہیں ۔چناں چہ خانہ نشینی سے لے کرپردہ وحجاب تک ،مردو زن کے مابین تقسیم کار سے لے کرادائے فرائض وواجبات تک سب میں خواتین کی عزت وآبرو کا تحفظ کیا گیا اور گام بہ گام انہیں پاکدامنی کی تعلیم دی گئی ؛ تاکہ صنف نازک کے شکاریوںکو شکار کا پتہ نہ چلے بلکہ اس کی بھنک بھی معلوم نہ ہو۔
اسے زیوروں کی جھنکار کے ساتھ سڑکوں پر چلنے سے منع کیاگیا، بے ضرورت باہر نکلنے اور کمانے کے لیے بازاروں کا رخ کرنے سے روک دیاگیاکہ کہیںکسب معاش کے پردے میں درندہ صفت انسان اس کی آبرو کا سودانہ کرلے ، بال بچوں کے اخراجات؛ بلکہ خود اپنی کفالت اور کسب معاش سے اسے آزاد رکھا گیا تاکہ باہر نکلنے کی ضرورت ہی نہ پڑے ،اگر کسی بھی اہم ضرورت کے پیش نظر نکلنے کی ضرورت ہی آپڑے تو اپنے چہرے کو ڈھانکنے کی تاکیدکی گئی تاکہ ’’چہرے کی رونق کا اظہار‘‘ اس کی اپنی زندگی کو ’’بے رونق‘‘ نہ بنادے ، اس کی ’’بے لباسی‘‘ اقربا ورشتہ داروں کو ’’ذلت کالباس‘‘ نہ پہنادے ، اگر اپنے سماج اور سوسائٹی سے باہر جانے کی ضرورت پیش آجائے تو اپنی عزت کا سب سے بڑا محافظ ، باپ ، بیٹا ، بھائی، شوہر اور محرم کو ساتھ رکھنے کا حکم فرمایاگیا۔ دوسری طرف مردوں کو بھی نظر یں جھکاکر چلنے کا حکم دیا گیا۔ اجنبیہ کو دیکھنے پر عذاب آخرت اور دہکتی ہوئی آگ سے ڈرایاگیا، انہیں نکاح کی طرف شوق ورغبت دلائی گئی، سن بلوغ کے فوراً بعد نکاح پر ابھارا گیا ، تاکہ پاکدامنی اس کا شیوہ رہے اورجنسی جذبات کووہ اپنے کنٹرول میں رکھ سکے ۔
مہر اور نفقہ کے علاوہ نکاح کو بھاری بھرکم اخراجات اور من مانی خواہشات کے ذریعہ بارگراں نہیں بنایاگیا، نہ تو لمبی چوڑی مجلس اوربڑے مجمع کی نکاح کے انعقاد میں شرط رکھی گئی، نہ ہی محفل عقدمیں قاضی اور جج کی حاضری کو ضروری قراردیاگیا؛بل کہ بہ شرط وسعت ایک بیوی سے اگر تسکین نہ ہوتو چارتک کی اجازت دی گئی، ناموافق حالات پیدا ہوں اور پہلی بیویوں کے ساتھ رہنا دوبھر ہوجائے اور مصالحت بھی رشتہ کو استوار نہ کرسکے تو مردوں کو طلاق اور عورتوں کو خلع کا اختیار دیاگیا۔
یہ اور ان کے علاوہ پچاسوں ایسے احکام ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر عصمت دری کے واقعات پر قابو پایاجاسکتا ہے ۔
عافیت چاہو تو آؤ دامن اسلام میں
یہ وہ دریا ہے کہ جس میں ڈوبتا کو ئی نہیں
خواتین
یوگی حکومت کانیا فیصلہ:خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کے شہر بھر میں پوسٹر لگیں گے
لکھنؤ:اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے ایک بڑا فیصلہ لیا ہے۔ یوپی میں اگر کوئی خواتین سے بدتمیزی کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو اس کے پوسٹر شہر بھر میں لگائے جائیں گے۔ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کے دوران بھی یوگی حکومت نے ایسے ہی اقدامات اٹھائے تھے۔ حکومت نے سڑکوں پر ایسے لوگوں کے پوسٹر لگائے تھے جن پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کاالزام تھا۔خواتین پولیس اہلکاروں کو یہ ذمہ داری دی جائے گی۔ خواتین پولیس شہر کے چوراہوں پر نظر رکھے گی۔ ریاست میں خواتین کے خلاف جرائم کے متعدد مقدمات کے بعد سی ایم یوگی نے یہ فیصلہ لیا ہے۔وزیراعلیٰ نے افسران کو ہدایت کی کہ وہ غلط حرکتوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ اس کے ساتھ ہی ، سی ایم یوگی نے عوامی مقامات پر ایسے مجرموں کے پوسٹر لگانے کی ہدایت کی ہے۔اگر کہیں بھی خواتین کے ساتھ کوئی مجرمانہ واقعہ ہوتا ہے تو متعلقہ بیٹ انچارج ، چوکی انچارج ، اسٹیشن انچارج اور سی او ذمہ دار ہوں گے۔سی ایم یوگی نے کہا کہجو لوگ خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتی،بدسلوکی،جنسی استحصال یا استحصال کرنے والے مجرموں اوربدانتظامیوں کے مددگارہیں۔ان کے نام بھی سامنے آنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے ان کے مددگاروں میں خوف پیدا ہوگا۔
ہم خواتین کو گھر کی چہار دیواری میں بند رکھنے پر چاہے جتنا اصرار کرلیں ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ تاریخ کے روشن دور میں انھوں نے اپنی اصل ذمے داری : بچوں کی پیدائش ، پرورش اور تعلیم و تربیت کو بہ خوبی انجام دینے کے ساتھ اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے گھر کے باہر کے بھی بہت سے کام خوش اسلوبی سے کیے ہیں _ خاص طور سے علوم کی نشر و اشاعت میں ان کی خدمات زرّیں حروف سے لکھے جانے کے لائق ہیں _ اسلامیات کا میدان بھی اس سے مستثنٰی نہیں ہے ـ انھوں نے تصنیف و تالیف کا کام کیا ہے ، درس و تدریس کی خدمت انجام دی ہے ، تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں اور ان کی سرپرستی کی ہے ، تعلیمی خدمات انجام دینے کے لیے لوگوں کو تیار کیا ہے اور ان پر اپنی دولت لُٹائی ہے ، غرض امت ان کے احسانات سے کبھی عہدہ برا نہیں ہوسکتی ـ
اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے عزیزہ ڈاکٹر ندیم سحر عنبرین کو کہ انھوں نے تفسیر و علوم قرآنی میں خواتین کی خدمات پر تحقیقی کام کیا ہے ـ ان کی کتاب ‘خواتین اور خدمتِ قرآن’ ہدایت پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوگئی ہے ـ اسی طرح اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے برادر محترم ڈاکٹر محمد اکرم ندوی (آکسفورڈ) کو ، جنھوں نے 45 جلدوں پر مشتمل اپنے عظیم الشان پروجکٹ کے تحت ساڑھے آٹھ ہزار ایسی خواتین کا تذکرہ جمع کردیا ہے جنھوں نے علم حدیث کی روایت ، تدریس اور تصنیف کی خدمت انجام دی ہے ـ ان کا یہ کام عربی زبان میں ہے ـ انگریزی زبان میں اس کا خلاصہ بہت پہلے Al_ Muhaddithat, Women Scholars in Islam کے نام سے طبع ہوچکا ہے ـ اس موضوع پر اور بھی کتابیں لکھی گئی ہیں ، جن میں عناية المرأة بالحديث النبوي (مشهور بن حسن آل سلمان) اور جهود المرأة في رواية الحديث (صالح يوسف معتوق) خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں ـ
حدیث کا میدان بہت وسیع ہے ـ احادیثِ رسول کو بہت سی کتابوں میں جمع کیا گیا ہے _ ان کی تدریس میں علماء نے اپنی عمریں کھپا دی ہیں ـ خوشی و مسرّت کا مقام ہے کہ اس میدان میں خواتین بھی پیش پیش رہی ہیں ـ چنانچہ انھوں نے بڑے بڑے محدثین سے کسبِ فیض کیا ہے اور خلقِ خدا کو خوب فیض بھی پہنچایا ہے ـ حدیث کی اہم ترین کتابوں میں صحیح بخاری ہے ـ بڑی تعداد میں خواتین نے اس سے بھی دل چسپی لی ہے اور اخذ و روایت میں شہرت پائی ہے ـ اس موضوع پر ڈاکٹر محمد بن عزوز کی ایک کتاب کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا ، جس کا نام ہے : صفحات مشرقة من عناية المرأة بصحيح الإمام البخاري (روايةً و تدريساً) ـ 387 صفحات پر مشتمل یہ کتاب دار ابن حزم ، بیروت ، لبنان سے 1423 ھ/ 2002ء میں شائع ہوئی ہے ـ اس کتاب کا خلاصہ درج ذیل نکات کی شکل میں بیان کیا جاسکتا ہے :
والدین اپنے لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو بھی محدثین کی مجالس میں بھیجتے تھے ، جہاں وہ احادیث کی سماعت و قراءت کرتی تھیں ـ
محدثین سے صحیح بخاری کی سماعت ، قراءت اور اجازت بہت سی خواتین کو حاصل ہےـ
خواتین سے استفادہ کرنے والوں میں صرف خواتین ہی نہیں ہوتی تھیں، بلکہ زیادہ تعداد مردوں کی ہوتی تھی ، چنانچہ صحیح بخاری کی قراءت ، سماعت اور اجازت بہت سے مردوں نے خواتین سے حاصل کی ـ
خواتین نے حدیث کی صرف روایت اور تدریس پر توجہ دی ہے ـ ان کا التفات تصنیف و تالیف کی طرف نہیں رہا ہے _ چنانچہ صحیح بخاری کی شرح کرنے والوں میں کسی خاتون کا نام نہیں ملتاـ
مشہور محدثات کو مسلم حکم راں اپنے ممالک میں بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ مدعو کرتے تھے ، تاکہ ان کی حکم رانی میں ان سے بڑے پیمانے پر استفادہ کیا جائے ـ
ڈاکٹر عزوز نے بہت سی دل چسپ مثالیں پیش کی ہیں کہ لوگ اپنی بیٹیوں ، پوتیوں ، نواسیوں ، بھتیجیوں ، بھانجیوں اور رشتے کی دیگر لڑکیوں کو حدیث کی تعلیم حاصل کرنے اور محدثین و محدثات سے استفادہ کے بھرپور مواقع فراہم کرتے تھے ، اسی طرح انھوں نے متعدد ایسے محدثین کا تذکرہ کیا ہے جن سے ان کی بیویوں نے حدیث کی روایت کی یا ان کی اجازت سے دوسرے بڑے محدثین سے استفادہ کیا _ اسی طرح متعدد ایسے محدثین کے نام درج کئے ہیں جنھوں نے خواتین کے سامنے زانوئے تلمّذ تہہ کیا ہے ـ
ڈاکٹر عزوز نے گیارہ(11) ایسی عظیم محدثات کا تذکرہ تفصیل سے کیا ہے جنھوں نے پوری زندگی صحیح بخاری کا درس دیتے ہوئے گزار دی اور ان سے بے شمار مردوں اور عورتوں نے اس کا درس لیا :
(1) کریمۃ المروزیۃ (م473ھ) سو برس کی عمر پائی ـ شادی نہیں کی تھی _ مکہ مکرمہ میں حدیث کا درس دیتی تھیں _ کئی مرتبہ صحیح بخاری ختم کی ـ ان کے درس میں بڑے بڑے علما حاضر ہوتے تھے _ خطیب بغدادی اور ابو المظفر سمعانی ان کے شاگردوں میں سے تھے _ بخاری کی کتابت بھی کرتی تھیں اور اس کے نسخوں کا مقابلہ کرتی تھیں ـ
(2) فاطمہ بنت محمد بن ابی سعد البغدادیۃ (م 539ھ) 94 برس کی عمر میں انتقال ہوا _ اصبہان میں بخاری کا درس دیتی تھیں _ ابن عساکر ان کے مشہور شاگرد ہیں ـ
(3) شھدۃ بنت أحمد البغدادیۃ (م 574ھ) سو برس کی عمر پائی _ عراق کی مشہور محدثہ ہیں _ فخر النساء لقب تھا _ شاگردوں کی بہت بڑی تعداد تھی _ علامہ ابن الجوزی ان کے مشہور شاگرد ہیں ـ
(4) کریمۃ بنت عبد الوهاب الزبیدیۃ الدمشقیۃ (م 641ھ) بنت الحبقبق کے لقب سے معروف تھیں _علمی خاندان سے تعلق تھا _ باپ ، چچا ، بھائی ، بہن سب محدث تھے _ کئی مرتبہ صحیح بخاری کی روایت کی _ شاگردوں کی بڑی تعداد تھی ـ
(5) فاطمۃ بنت جوھر المعروفۃ بالبطائحیۃ (م 711ھ) شوہر ، بیٹے ، پوتے ، سب محدث تھے _ انھوں نے دمشق اور مدینہ میں بہت سے محدثین سے سماعتِ حدیث کی ، پھر نصف صدی تک صحیح بخاری کے درس و روایت کا کام جاری رکھاـ
(6) ھدیۃ بنت عسکر الصالحیۃ (م 712ھ) صحیح بخاری کا درس دیتی تھیں ـ لوگوں نے بڑی تعداد میں ان سے فیض اٹھایا، جن میں مرد حضرات اور خواتین دونوں تھیں ـ
(7) ست الوزراء بنت عمر بن اسعد التنوخیۃ الدمشقیۃ (م 716ھ) آٹھویں صدی کی 3 سو محدثات میں سب سے زیادہ شہرت کی حامل تھیں ـ اوپر اور نیچے کی کئی نسلوں تک علمی خاندان تھاـ دادا اور باپ بھی محدث تھے _ دمشق سے مصر بلائی گئیں ، جب کہ اس زمانے میں مصر میں محدثین کی بڑی تعداد موجود تھی _ نیل کے کنارے واقع الجامع الناصری میں صحیح بخاری کا درس دیتی تھیں _ بڑے بڑے محدثین نے ان سے صحیح بخاری کی سماعت کی ـ 92 برس کی عمر میں انتقال ہوا ـ
(8) عائشۃ بنت محمد المقدسیۃ (ولادت 723 ھ) ان کے خاندان میں 4 صدیوں سے علم کا چرچا تھا _ بے شمار لوگوں نے ان سے حدیث کی روایت کی _ ان کے شاگردوں میں علامہ ابن حجر عسقلانی بھی ہیں ـ
(9) زینب بنت أحمد المقدسیۃ الصالحیۃ (ولادت 628 ھ) قدس ، دمشق ، قاھرہ اور مدینہ منورہ میں صحیح بخاری کا درس دیا ـ بے شمار لوگوں نے ان سے فیض اٹھایاـ
(10) جویریۃ بنت أحمد الھکاریۃ القاھریۃ (ولادت 704ھ) حافظ ابن حجر کے بیش تر معاصرین نے ان سے صحیح بخاری کا درس لیا ہے ـ
(11) فاطمۃ بنت أحمد العمریۃ الحرازیۃ (ولادت 710ھ) انھوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دونوں جگہ صحیح بخاری کا درس دیا ہے ـ اسی وجہ سے محدّثۃ الحرمین کے لقب سے مشہور ہوئیں ـ
یہ تو صرف صحیح بخاری کا درس دینے والی مشہور خواتین ہیں ، دوسری کتبِ حدیث کی روایت ، سماع ، قراءت اور اجازت دینے والی خواتین کی تعداد کا تو شمار نہیں _ یہ وہ روشن اور درخشاں دور تھا جب نہ عورت ہونا تحصیلِ علم میں مانع تھا اور نہ کسی خاتون کے سامنے زانوئے تلمّذ تہہ کرنا مردوں کے لیے باعثِ عار ہوتا تھا _ عورتیں پوری آزادی کے ساتھ مردوں سے استفادہ کرتی تھیں اور مرد شرعی حدود کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے خواتین سے علمی استفادہ کرتے تھے ـ لیکن پھر لڑکیوں اور عورتوں پر بے جا بندشیں عائد کی جانے لگیں ، ان کا کردار گھر کی چاردیواری تک محدود کردیا گیا ـ استفادہ و افادہ کے مواقع کم سے کم تر ہوتے گئے ، اس طرح عورتوں کا وجود تو روئے زمین پر باقی رہا ، لیکن ان کی علمی صلاحیتوں کو درگور کردیا گیا ـ اس مجرمانہ غفلت اور اعراض پر اب افسوس اور حسرت کے علاوہ اور کیا جاسکتا ہے؟؟!!
نیلم ملک
ہائی اسکول اور کالج کی سطح پر سائنس کی تعلیم دینا آسان ہے کیونکہ اس کا ایک مخصوص طریقہ ہے اور استاد کی اس سبجیکٹ پر کمانڈ ہونا کافی ہوتا ہے۔ لیکن یہ معلوم کرنا مشکل ہو سکتا ہے کہ ہیومینٹیز (آرٹ سبجیکٹس) کلاس میں کیا کرنا ہے۔
طلبا قدرتی طور پر مختلف سطح کی مہارتوں اور صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان میں ذہانت کا مقیاس بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔
بعض طلبا بظاہر بہت ہوشیار اور تیز طرار ہوتے ہیں لیکن پڑھائی کے معاملے میں ان کا تحرّک اس درجے کا نہیں ہوتا جیسا انہیں دیکھ کر متوقع ہوتا ہے۔
اسی طرح بعض طلبا خاموش طبع اور قدرے شرمیلے ہوتے ہیں جبکہ پڑھائی میں ہمیشہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
طلبہ کا بیک گراؤنڈ، ان کے گھر کا ماحول، ان کا رہن سہن اور گھر میں استعمال ہونے والی زبان سب چیزیں مل کر تقریباً ہر طالبِ علم کو دوسرے سے مختلف بناتی ہیں اور ان انفرادی اختلاف سے نمٹتے ہوئے طلبا کے تعلم اور اکتسابِ علم کے پراسس کو سب کے لیے سہل بنانا معلم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
خاص طور پر ہیومینیٹیز کے اساتذہ پر یہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبا کی تربیت بھی کرنا ہوتی ہے۔ اور ان مضامین کا براہِ راست تعلق طلبا کی ذاتی ، معاشرتی، خانگی اور مستقبل میں ان کی معاشی زندگی سے بھی جڑنا ہوتا ہے۔
اس لیے ان مضامین کے استاد کو اپنی ذمہ داریاں احسن طریق پر نبھانے کے لیے ضرور ہے کہ وہ نہ صرف انسانی نفسیات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو بلکہ مستحکم اور معتدل مزاج کا حامل اور پر اعتماد شخصیت کا مالک بھی ہو۔ اسے اپنے مضامین کی اہمیت کا مکمل طور پر ادراک ہو۔ اسے یہ معلوم ہو کہ یہی وہ مضامین ہیں جن پر طلبا کی شخصی اور اخلاقی تربیت کا انحصار ہے اور یہی طلبا کو معاشرے سے مطابقت پیدا کر کے خود کو نہ صرف اپنے لیے بلکہ معاشرے کے لیے بھی ایک مفید اور موافق شہری کے طور پر تیار کرنے والے ہیں۔
اس کے لیے سرکاری اور نجی ہر دو سطح پر اساتذہ کی تربیت کا اہتمام لازمی کیا جانا چاہیے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے تربیت کو صرف بچوں کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔ نہ والدین کے ساتھ تربیت جیسا لفظ استعمال کرنا ہمیں گوارا ہے اور نہ ہی اساتذہ کے لیے۔
ہمارے ہاں عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ معاشرتی مضامین پڑھانے والے اساتذہ اپنی ظاہری شخصیت پر بھی سائنس، کمپیوٹر یا انگریزی پڑھانے والے اساتذہ کے مقابلے میں کم توجہ دیتے ہیں۔ ان کی چال ڈھال سے لے کر نشست و برخاست تک اور اپنا لیکچر ڈیلیور کرنے سے لے کر طلبا کے سوالوں کا جواب دینے تک ہر معاملے میں ایک باقاعدہ محسوس کی جانے والی کم اعتمادی ، بیزاری، بد دلی اور اکتاہت دکھائی دیتی ہے۔
میرے خیال میں طلبا کی ان مضامین میں عدم دلچسپی کی نمایاں ترین وجوہات کی فہرست تیار کی جائے تو اساتذہ کا رویہ ان میں اہم ترین ہو گا۔
یہی وہ مضامین ہیں جن کے ذریعے ہم اپنا ثقافتی ورثہ اگلی نسلوں تک منتقل کرتے ہیں اور انہیں یہ سکھاتے ہیں کہ انہوں نے اس ثقافتی ورثہ سے استفادہ کیسے کرنا ہے، اس کی تشکیلِ نو کیسے کرنی ہے اور اس ورثے کی حفاظت دنیا میں ان کے انفراد کو برقرار اور قائم و دائم رکھنے کے لیے کس قدر ضروری ہے تاکہ جب وہ اپنا یہ ورثہ اپنی اگلی نسلوں کو منتقل کریں تو یہ ورثہ اس سے بہتر حالت میں ہو جس میں ان کو ملا تھا۔ نہ صرف بہتر حالت میں ہو بلکہ اس میں مطلوبہ اضافہ بھی کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں اپنے ورثہ پر فخر کر سکیں، نہ کہ اسے پسماندہ اور عیب دار سمجھ کر دوسروں سے چھپاتے پھریں۔
ایسی صورت میں جب استاد کی شخصیت سے ہی اپنے ورثے سے محبت کی جگہ اکتاہٹ اور بیزاری جھلکے گی تو طلبا کے دلوں اور ذہنوں میں اپنے اس ورثے کی اہمیت کیونکر اجاگر ہو سکے گی!!
اسد رضا
ناقدانہ ادب کی عزت ، سیاہ و سفید زلفوں سے آراستہ سر، دمکتی ہوئی پیشانی، تنقیدی بصارت کی نشانی، محققانہ ادب کی توقیر میں اضافہ کرنے والی ناک، اردو کے شعر وادب کی طرح بھرے بھرے رخسار، جن پر شرعی ریش اور غیر شرعی مونچھوں کی بہار، جمالیات کی بارش کرنے والے بلند ادبی قدلیکن جسمانی طور پر بوٹا سا قد اور فطری شرافت وذہانت کاحامل کوئی دانشور اگر کسی سمینار یا ادبی جلسے میں ناقدانہ انفرادیت اور عبرانی آمیز اردو میں فصاحت کی فرات اور بلاغت کی دجلہ بہاتا ہوا نظر آئے تو تسلیم کرلیجئے کہ آپ اکیسویں صدی کے مفکر اردو، منفرد ناقد ومحقق صحافت وادب کے دلکش امتزاج اور ادیب ناطق حقانی القاسمی کی زیارت بابرکت سے مشرف بہ تنقید ہوگئے۔
جناب حقانی القاسمی نے 15جولائی1970کو بہار پربہار کے ضلع ارریا میں ایک علم پرور خاندان میں آنکھیں کھولیں اور دارالعلوم دیوبند میں دینی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دنیوی تعلیم حاصل کرکے بڑے دانشوران اردو کی آنکھیں کھول دیں اور ان کے ہوش اڑادیے۔ حقانی صاحب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی ادبیات میں ایم اے اورایم فل کیا اور عربی، فارسی، اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں پر دسترس حاصل کی اور پیشے کے طور پر انہوںنے اپنے لئے اردو صحافت کو منتخب کیا لیکن ان کارجحان ادب اور تنقید کی جانب زیادہ ہے لہٰذا اردو راشٹریہ سہارا سے حقانی القاسمی نے صحافتی سفر شروع کیا پھر وہ ہفتے وار ’اخبار نو ‘اورویکلی ’’نئی دنیا ‘‘ سے وابستہ رہے۔ عالمی شہرت یافتہ میگزین ’’استعارہ‘‘ کو بام مقبولیت تک پہنچانے میں صلاح الدین پرویز کے ساتھ ساتھ حقانی صاحب کا بھی اہم رول تھا۔ اس میگزین کو حقانی القاسمی نے اپنی تنقیدی بصارت اور تحقیقی بصیرت سے آگے بڑھایا۔ استعارہ کے بند ہوجانے کے بعد حقانی صاحب نے ماہ نامہ ’’بزم سہارا‘‘ اور عالمی سہارا میں اپنے قلمی اور علمی جوہر دکھلائے اور نہایت اہم ادبی مباحث شروع کئے۔ اردو میں طنزومزاح کو گیا گزرا اور دوسرے تیسرے درجے کاادب تصور کرنے والے قد آور ناقدین کرام اور دانشوران عظام کے قائم کردہ نظریاتی بتوں کو توڑنے کے لیے ہی حقانی صاحب نے ماہ نامہ’’بزم سہارا‘‘ میں اس سوال پر بحث کرائی تھی کہ کیا طنزومزاح دوسرے درجے کا ادب ہے۔اس چھوٹے قد کے بڑے ناقد نے تنقید کو ایک نیا علمی وجمالیاتی رخ عطاکیا اورمغرب ومشرق کے من گھڑت اصولوں اور نظریات کی جم کر پول کھولی۔ چونکہ موصوف عربی، فارسی، اردو ، انگریزی اور ہندی کی ادبیات بالخصوص کلاسیکی ادبیات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کی تنقید پر بڑے بڑے پروفیسر انگلی اٹھاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ مثال کے طور پر حقانی القاسمی اپنے ایک مضمون ’واقیموالوزن بالقسط‘ میں رقم طراز ہیں: تنقید، تجسس اور تفحص کا عمل ہے، تنقید تخلیق کا مکاشفہ بھی کرتی ہے اور محاسبہ بھی، تنقید دراصل ایک طرح سے تخلیق کی توسیع وتفریج ہے، تنقید کوئی سائنسی ، طبیعیاتی یا ریاضیاتی عمل نہیں ہے۔‘‘
حقانی القاسمی کی تنقیدی بصیرت اور نظریاتی بصارت کا پرتو ہمیں ان کی کتب میں نظر آتا ہے۔ فلسطین کے چار ممتاز شعرائ، طواف دشت جنوں، لاتخف، دارالعلوم دیوبند: ادبی شناخت نامہ، تکلف برطرف، رینو کے شہر میں، خوشبو روشنی اور رنگ، بدن کی جمالیات، تنقیدی اسمبلاژ، ادب کو لاژ، شکیل الرحمن کاجمالیاتی وجدان اور آنگلیات وغیرہ حقانی القاسمی کی قابل ذکر کتب ہیں جن کی اردو دنیامیں کافی پذیرائی ہوئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہماری اردو زبان کا ہر چھوٹا بڑا،اعلیٰ وادنیٰ اور اہم وغیراہم مصنف ،مولف اور مترجم اپنے اور اپنی کتاب کے بارے میں حقانی صاحب سے مضمون لکھوانا او را س طرح اپنی قدر ومنزلت میں اضافہ کرانا چاہتا ہے۔ اب یہ بات دیگرہے کہ اپنی نسبی نجابت اور ادبی شرافت کے باعث حقانی القاسمی کسی کو مایوس نہیں کرتے۔ لیکن یہاں یہ تذکرہ بھی برمحل ہوگا کہ اپنی شرافت اور انکساری کے باوصف وہ غیور ہیں اور کسی بڑے سے بڑے افسر یا دانشور کی غلط باتوں کو برداشت نہیں کرتے۔ اگرچہ انہوںنے ماہ نامہ ’’بزم سہارا‘‘ اور ویکلی ’’عالمی سہارا‘‘ کو شہرت ومقبولیت کی بلندیوں تک پہنچایا لیکن راشٹریہ سہارا اردو، ادارہ کے ایک گروپ ایڈیٹر نے جب حقانی صاحب کی اَنا کو ٹھیس پہنچائی تو انہوںنے اس بڑی کمپنی کی ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ حالانکہ گروپ ایڈیٹر کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا اور انہوںنے ادارہ کے کئی سینئر صحافیوں سے سفارش کرائی کہ حقانی صاحب سہارا میں دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں لیکن ہمارے اس غیر ت مند ادبی صحافی نے دوبارہ سہارا میں قدم نہیں رکھا۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ حقانی صاحب معاشی لحاظ سے ثروت مند نہیں ہیں البتہ ان کے پاس علم وادب کے بیش بہا خزانے ہیں جنہیں وہ اکثر اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے لٹاتے رہے ہیں۔ وہ اگرچہ خود حالات کی وجہ سے اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل نہیں کرسکے لیکن کئی ریسرچ اسکالروں کی تھیسس لکھنے میںعلمی وتحقیقی مدد کرکے انہیں ڈاکٹر آف فلاسفی بنواچکے ہیں۔ آج کل وہ یک موضوعاتی مجلہ ’انداز بیان‘ کی ادارت کررہے ہیں۔
حقانی القاسمی کی زبان قدرے مشکل ہوتی ہے۔ اس لیے مرحوم مظہر امام نے ایک مرتبہ ان کی اردو تحریروں اور فکر کی ستائش کرتے ہوئے فرمایاتھا: ’’ارے بھئی حقانی میاں اردو میں کب لکھو گے؟‘‘۔ یہ صحیح ہے کہ تنقید وتحقیق کی زبان عموماً مشکل ہوتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حقانی صاحب چونکہ عربی زبان کے بھی ماہر ہیں؛ لہٰذا ہمیں ان کے معنی عام اردو لغات میں نہیں ملتے ۔ دراصل اردو لغات میں عربی ،فارسی اور ہندی کے الفاظ کے معنی ومفہوم تو آسانی سے نظر آجاتے ہیں عربی ،عبرانی اور یونانی کے الفاظ واصطلاحات کے معنی تلاش وجستجو کے بعد بھی دکھائی نہیں دیتے۔ اسی لیے اردو کے بڑے بڑے پروفیسر اور دانشور حقانی القاسمی کی زبان وبیان کی روانی ،فکر کی جولانی اور بین السطور کی کہانی کو پڑھ کر انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں۔اس لیے ڈاکٹر ایم صلاح الدین نے حقانی کو ’طرحدار ناقد‘ قرار دیاہے۔
حقانی القاسمی ایک ماہر مترجم بھی ہیں۔ انہوںنے انگریزی اور ہندی زبانوں سے اردو میں تراجم بھی کئے ہیں۔ وہ کسی بھی کتاب کا ترجمہ اس کی روح اور مفہوم کی گہرائی تک اتر کر اور جسم الفاظ ومعنی کو چھوکر کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کے تراجم کی عموماً ستائش کی جاتی ہے۔ جس کازندہ جاوید ثبوت یہ ہے کہ انہوںنے گجراتی کے معروف ناول نگار جوزف میکوان کے مقبول ناول ’’انگلیات‘‘ کا اردو میں اتنا شاندار اور جاندار ترجمہ کیاتھا کہ اس پر حقانی القاسمی کو 2016میں پروقار ادارہ ساہتیہ اکادمی نے ایوارڈ برائے ترجمہ سے سرفراز کیاتھا۔ اگرچہ اردو دنیا اور ادبی حلقوں نے حقانی صاحب کی اتنی قدر نہیں کی جس کے وہ مستحق ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ انہیں بالکل نظر انداز کردیا گیا ہو لہٰذا دہلی اردو اکادمی نے انہیں تخلیقی نثر کا ایوارڈ دیاتو اترپردیش اردو اکادمی اور مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے بھی حقانی القاسمی کو ایوارڈ دے کر اپنی معتبریت اور توقیر میں اضافہ کیا۔ لیکن یہاں یہ تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حقانی صاحب اگرچہ متعدد اہم کتب کے مصنف ہیں لیکن وہ اپنی کتب مختلف اردو اکادمیوں کو برائے انعام نہیں بھجواتے۔ اس سلسلہ میں انہیں میں نے کئی بار سمجھایا بھی اور پیار سے ڈانٹا بھی لیکن اس بے لوث ادیب پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ دریں اثنا حقانی القاسمی کے حساس د ل پر ایک بہت بڑا غم کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔ ان کی ہونہار، قابل اور پیاری منجھلی بیٹی انیقہ اپنے اسکول میں ایک حادثہ میں گرکر فوت ہوگئیں۔ تاہم اس صابر وشاکر ادیب نے اس صدمۂ عظیم کو برداشت کیا اور وہ پھر اپنی علمی تنقیدی اور صحافتی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے لیکن اب بھی کبھی کبھی اپنی اس چہیتی بیٹی کو یادکرکے ان کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
تخلیقی نقاد حقانی القاسمی کی شہرت بین الاقوامی ہے۔ لہٰذا بڑی بڑی دانش گاہوں، ادبی اداروں اور اردو اکادمیوں میں انہیں سمیناروں، اردو میلوں اور جلسوں میں مقالات پیش کرنے اور ادبی موضوعات پر تقریریں کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ چونکہ حقانی صاحب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ادارتی شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور ایڈیٹوریل صلاح کار ذمے داری پوری کررہے ہیں لہٰذا وہ ہر دعوت کو مشکل ہی سے قبول کرپاتے ہیں۔ بہرحال اپنے اس شعر کے ساتھ میں حقانی القاسمی کایہ خاکہ تمام کرتا ہوں کہ:
یوں ہی چلتا رہے یارب قلم اس کا صدیوں
رنگ تنقید کو تخلیق دیا ہے جس نے
Asad Raza
97- F, Sector-7
Jasola Vihar
New Delhi – 110025
Mob.: 9873687378
شمس تبریز قاسمی، موتیہاری
انسان جب زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتا ہے تو واقعی وہ انسان ہوتا ہے، ہر زمانے میں تعلیم یافتہ حضرات کی قدروقیمت رہی ہے؛ تعلیم کے بغیر ترقی و عروج کی خواہش، بے بنیاد خواہش ہے، انسان کی نافعیت کے لیے، دینی تعلیم، اسلامی تربیت، ایمانی شائستگی اور انسانی عادات وآداب کی اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی ضرورت مچھلی کے لیے پانی کی ہے، تعلیم وہ نسخہٴ کیمیا ہے، جس سے مُردوں کی مسیحائی عمل میں آسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ احادیت میں دینی تعلیم کے حصول کی افادیت واہمیت کی بہت تاکید کی گئی ہے۔
خداوند قدوس نے دنیا کو آباد رکھنے کے لیے حضرت آدم کے ساتھ حضرت حواء کو بھی پیدا فرمایا اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک تناسب سے مرد وخواتین کی تخلیق ہوتی رہی، مکلف بن جانے کے بعد دونوں کی ذمہ داریاں الگ الگ طے کردی گئیں، مردوں کو بطورِ خاص خارجی معاملات کا نگراں بنایاگیا؛ جب کہ عورتوں کو اندرونِ خانہ معاملات کا ذمہ دار بنایاگیا اور اسے تاکید کی گئی کہ اس کی عزت وآبرو اور اخروی فلاح وبہبود، چراغِ خانہ بنے رہنے میں مضمر ہے اور اس کا شمعِ محفل بننا اسلام کو پسند نہیں؛ اسی لیے خالقِ کائنات نے عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات ان سب کا مکلف جیسے مردوں کا بنایا ہے، ویسے ہی عورتوں کو بھی اس کا مخاطب بنایا ہے، اسی لیے علم کا حصول دونوں ہی صنفوں پر فرض قرار دیاگیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ علم کے جو ذرائع ہیں یعنی انسان کی ظاہری حواس، عقل وفہم اور دوسرے انسانوں سے استفادہ کی صلاحیت، مردوں میں بھی پائی جاتی ہیں اور عورتوں میں بھی۔
جہاں اس امر کا انکار اسلامی نقطئہ نظر سے ناممکنات میں سے ہے کہ مردوں کے لیے اتنا علم اور اتنی دینی تعلیمات بے حد ضروری ہے، جن سے وہ دین پر صحیح طور سے عمل پیرا ہوسکیں اور شریعت کے مطالبات کو روبہ عمل لاکر نگاہِ شریعت میں معتبر بن سکیں، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ عورتوں کے لیے دینی تعلیم وتربیت سے آگاہ ہونا اور دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا، آئندہ کی دائمی حیات کے لیے ناگزیر ہے، اور اسی دینی تعلیم وتربیت کو روبہ عمل لاکر کے ایک عام قومی بیداری اور اجتماعی شعور کو ترقی دینے کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوسکتا ہے اور چوں کہ عورت کے کئی رنگ ہیں، کبھی وہ رحمت کی شکل میں بیٹی کا روپ لیے ہوتی ہے، تو کبھی پیاری بہن، کبھی کسی کی شریک حیات ہوتی ہے، تو کبھی ماں کی شکل میں شجرسایہ دار؛ اس لیے اس کی ذمہ داری کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے اور اس کے لیے زیورِتعلیم کی قیمت، سونے چاندی سے بھی بڑھ جاتی ہے؛ چوں کہ اسلام سے قبل عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی جاتی تھی؛ اس لیے آپ نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی، آپ کا ارشاد ہے: جو شخص اپنی بیٹی کی خوب اچھی طرح تعلیم وتربیت کرے اور اس پر دل کھول کر خرچ کرے تو (بیٹی) اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہوگی (المعجم الکبیر للطبرانی ۱۰۴۴۷)، امام بخاری نے تعلیم نسواں کے سلسلے میں ایک پورا باب ہی قائم کیا ہے باب عظة الامام، النساء وتعلیمہنّ، حضور علیہ الصلاة والسلام جیسے صحابہٴ کرام کو پند ونصیحت کیا کرتے تھے ویسے ہی صحابیات کے درمیان بھی تبلیغ دین فرمایا کرتے تھے۔
ایک بیٹی، رحمت اسی وقت بن سکتی ہے، جب کہ اس کا قلب اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور ہو، وہ فاطمی کردار و گفتار کا پیکر ہو، ایک عورت، مرد کے لیے شریکِ حیات کی شکل میں، روحِ حیات اور تسکینِ خاطر کا سبب اسی وقت بن سکتی ہے، جب کہ اس کا دل سیرتِ خدیجہ سے سرشار ہو، وہ ایک مشفق اور ہر درد کادرماں، مصائب کی گرم ہواؤں میں، نسیم صبح کی صورت میں ”ماں“ اسی وقت ثابت ہوسکتی ہے؛ جب کہ اس کی گود بچے کے لیے پہلا اسلامی مکتب ثابت ہو، وہ بھائیوں کی محبتوں کا مرکز وملجا اسی وقت ہوسکتی ہے، جب کہ اس کے جذبات واحساسات، ویسے ہوجائیں، جیسے حضرت عائشہکے جذبات، اپنے بھائی حضرت عبدالرحمن کی وفات کے بعد امت کے سامنے آئے۔
اسلامی زندگی کے سفر میں نام نہاد مغربی تعلیم وتہذیب کے دھوکہ دینے والے چراغ کافی نہیں ہیں؛ بلکہ اس سفر کی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے اسلامی تعلیمیات کے روشن ستاروں سے نسبت رکھنا بے حد ضروری ہے، مغربی تہذیب کے چراغ کسی بھی وقت بجھ سکتے ہیں؛ لیکن اسلامی تعلیمات کے ستاروں کی ضیاپاشی اور تابندگی کی بقاءِ حیات ایک زندہ جاوید حقیقت ہے۔
عصر حاضر اور ہماری کوتاہیاں
لیکن آج تعلیم گاہوں اور دینی تعلیمات کے متعدد ذرائع کے موجود ہونے کے باوجود، دینی تعلیم سے بے رغبتی اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے، جس مذہب نے دینی تعلیم کو تمام مردوں عورتوں کے لیے فرض قرار دیا ہو اور جس مذہب میں علم وحکمت سے پُرقرآن جیسی عظیم کتاب ہو اور جس مذہب کی شروعات ہی ”اقرأ“ یعنی تعلیم سے ہوتی ہو، اسی مذہب کے ماننے والے دینی تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے ہیں اور اگر بات عورتوں کی مذہبی تعلیم کی، کی جائے (نہ کہ محض عصری ومغربی تعلیم کی) تو معاملہ حد سے تجاوز ہوتا ہوا نظر آتا ہے، کہتے ہیں کہ ماں کی گود بچوں کے لیے پہلا مکتب ہوتا ہے، اب اگر ماں ہی دینی تعلیم سے بیزار ہوتو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ بچے پر کیا اثرات پڑیں گے، آج خواتین کو قرآن وحدیث کے مطالعہ کی فرصت نہیں؛ نتیجتاً وہ اپنے بچوں کے لیے بھی اس حوالے سے متفکر نہیں ہوتیں، عورتوں کا بہت بڑا طبقہ ایسا ملے گا، جسے سیرتِ رسول … کی موٹی موٹی باتیں معلوم نہیں، طہارت وعبادت بالخصوص نماز کی بجا آوری تو دور کی بات، ان کے مسائل سے تشویش ناک حد تک ناواقفیت ہے، حقوقِ والدین، حقوقِ زوج اور دیگر چھوٹے بڑے افرادِ خانہ کے حقوق سے غفلت روز افزوں ہے، نوبت بایں جا رسید کہ ٹھوس اسلامی تعلیمات سے دوری نے مسلم خواتین کو یہ منفی سبق پڑھایا کہ پردہ، آزادیِ نسواں کے لیے سدِّ راہ ہے اور نام نہاد ترقی کا دشمن ہے اور اس کا چراغِ خانہ ہونا قدامت پسندی ہے، اسے جدیدیت کا لبادہ اوڑھ کر شمعِ محفل بن جانا چاہیے، مضبوط دینی تعلیمات سے لاعلمی نے ساس بہو کے جھگڑے پیدا کردیے، دینی تعلیمات سے اجتناب نے طلاق کی شرح میں اضافہ کردیا، دینی تعلیمات سے بے گانگی نے بڑے بوڑھوں کی خدمت کو کارِ ثواب کے بجائے کارِ زحمت بنادیا، بقدرِ ضرورت دینی تعلیمات سے بُعد اور مغربی تعلیمات سے قرب نے مسلمان خواتین کو امورِ خانہ داری انجام دینے کے بجائے، آفس، ہوٹلوں اور ہسپتالوں میں (Reception) رسپشن کی زینت بنادیا، دینی تعلیمات سے صرفِ نظری نے پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کے بدلے، لڑائی جھگڑے کے طور طریقے سکھلادیے۔ الغرض اسلامی زندگی کے جس موڑ پر آپ اسلامی روح کو تڑپتے ہوئے دیکھیں گے، اس کا نتیجہ دینی تعلیمات کا زندگی میں، نہ ہونا پائیں گے، علامہ اقبال نے کہا تھا ”وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ“ اس سے کیسا وجود مراد ہے، کیا اسلامی اور دینی تعلیمات کی روح سے یکسر خالی مغربی وجودِ زن؟ آج ہر طرف عصری اور مغربی علوم کا غلغلہ ہے، اسلام اس کی راہ میں حائل نہیں ہوتا؛ ہاں! مگر اتنی بات ضرور ہے کہ دینی تعلیم کو فراموش کرکے، عصری تعلیم میں بالکلیہ لگ جانا، اسلام کو پسند نہیں، اسلام اسے قابل اصلاح سمجھتا ہے۔
آج دینی تعلیم کی ضرورت جتنی مردوں کو ہے، اس سے کہیں زیادہ عورتوں کو ہے، عورت کا قلب اگر دینی تعلیمات سے منور ہو، تو اس چراغ سے کئی چراغ روشن ہوسکتے ہیں، وہ دیندار بیوی ثابت ہوسکتی ہے، وہ ہر دل عزیز بہو بن سکتی ہے اور نیک اور شفیق ساس ہوسکتی ہے، وہ اپنے بچوں کی معلم اوّل ہوسکتی ہے، وہ خاندانی نظام کو مربوط رکھ سکتی ہے، معاشی تنگی کو خوش حالی سے بدل کر معاشی نظام مضبوط کرسکتی ہے، وہ شوہر کے مرجھائے اور افسردہ چہرے پر گل افشانی کرسکتی ہے، میخانے کو مسجد اور بت خانے کو عبادت خانہ بناسکتی ہے، اولاد کو جذبہٴ جہاد سے سرشار کرسکتی ہے؛ الغرض دینی تعلیم یافتہ عورت وہ سب کچھ بہت آسانی سے کرسکتی ہے جو اسلام چاہتا ہے، اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوجائے تو منفی نتیجہ کیسا خوف ناک ہوگا، اندازہ کرنا مشکل نہیں اور دینی تعلیم سے بے انتہاء غفلت عورت کوشیطان بنادیتا ہے۔
لائق توجہ پہلو
ضرورت اور وقت دونوں اس امر کے متقاضی ہیں کہ تعلیم نسواں کے حوالے سے مزید بیداری پیدا کی جائے اور اس کی جانب سنجیدگی سے توجہ دی جائے؛ لیکن اس سلسلے میں یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں کو تعلیم کے لیے محفوظ مقامات اور تعلیم گاہیں ہوں، عورتوں کی تعلیم کے لیے سب سے محفوظ اور ہر طرح کی برائیوں سے پاک جگہ، خود اس کا گھر ہے، گھر میں ایسا انتظام اگر مشکل ہوتو غیراقامتی اسکول اور مدرسے ہیں، جہاں صرف لڑکیوں کو ہی تعلیم دی جاتی ہو اور تعلیم دینے والا تدریسی عملہ عورتوں پر ہی مشتمل ہو، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام کی معروف ہستی، اور متبحرعالم دین حضرت مولانا ومفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی کی کتاب ہمارا تعلیمی نظام سے ایک اقتباس نقل کرکے مضمون ختم کیا جائے، لکھتے ہیں:
”تعلیم نسواں ایک مستقل چیز ہے اور مخلوط تعلیم ایک جداگانہ چیز ہے، ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خلط وہی بے دین اور بے حمیت یورپ زدہ لوگ کرتے ہیں جو فروغ تعلیم نسواں کی آڑ میں مخلوط تعلیم کو فروغ دینا اور عام کرنا چاہتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات کی حدود میں رہ کر تعلیمِ نسواں کو زیادہ سے زیادہ عام کرنا چاہیے؛ تاکہ نئی نسل اعلیٰ اخلاق وکردار کی مالک بن سکے؛ مگر معاشی اعانت کے لیے عورتوں کی تعلیم کو ذریعہ بنانا غیرفطری بھی ہے اور غیراسلامی بھی؛ اس لیے کہ قرآن حکیم بیوی بچوں کی کفالت کا ذمہ دار مرد کو قرار دیتا ہے اور اسلامی تعلیمات کی رو سے عورت کی ذمہ داری شرعی فرائض ادا کرنے کے بعد تمام جائز اور مباح امور میں شوہر کی اطاعت کرنا، اس کی حوائج اور سامانِ راحت وآسائش کو مہیا کرنا ہے؛ تاکہ بچے اور شوہر تفریح کے لیے گھر سے باہر جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کریں۔
آگے لکھتے ہیں:
لڑکیوں کا نصابِ تعلیم، نظامِ تعلیم اور معیارِ تعلیم مذکورہ بالا مقاصد کے تحت مرتب ومدون اور مردوں سے بالکل الگ اور جداگانہ ہونا چاہیے․․․․ اگر تعلیم نسواں سے اس کے صحیح فوائد حاصل کرنے ہیں تو مخلوط تعلیم کو ختم کرنا قطعی لازم ہے؛ اس لیے کہ مخلوط تعلیم تو اسلامی روح کے بھی قطعی منافی ہے اور ذہنی وفکری آسودگی اور اخلاقی پاکیزگی کے لیے بھی سمِ قاتل ہے، اس کی اجازت کسی صورت میں بھی نہیں دی جاسکتی ہے۔“ (ہمارا تعلیمی نظام، ص:۳۲)
اللہ ہمیں دینی تعلیم کے حصول کی توفیق دے اور ہمیں یہ سمجھنے کی بھی توفیق دے کہ ہماری اخروی ودنیوی؛ بلکہ اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور تعلیمی فلاح وبہبود کا راز اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہی مضمر ہے، اس کے علاوہ سب نفس کا دھوکہ ہے، اس کا فائدہ عارضی اور وقتی ہے؛ ہم اسے سمجھیں، شریعت یہی چاہتی ہے، وقت یہی چاہتا ہے، سب سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول … یہی چاہتے ہیں۔
ریسرچ اسکالر شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم، دیوبند
+917669514995