ترجمہ:نایاب حسن
لکھنؤ میں سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے 28 سالہ بابری مسجد انہدام کیس کے تمام 32 ملزموں کو ثبوت کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے بری کردیا ہے۔ فیصلے کے مطابق عدالت کو یہ پتا چلا کہ مسجد کا انہدام پہلے سے منصوبہ بند نہیں تھا ، سی بی آئی کے ذریعے فراہم کردہ آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ کی صداقت ثابت نہیں ہوسکی اور فائنل تجزیے کے مطابق سماج دشمن عناصر نے اس ڈھانچے کو منہدم کیا اور نامزد ملزموں نے انہدامی عمل میں شرکت کی بجاے انھیں روکنے کی کوشش کی۔
اس کے ساتھ ہی ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی جیسے بی جے پی کے سینئر قائدین بری ہوگئے؛ لیکن اس فیصلے سے کچھ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ بابری مسجد کا انہدام ہندوستانی جمہوریت کے لئے ایک تاریک دن تھا اور یہ نیوز کیمروں کے سامنے ہواتھا۔ سپریم کورٹ نے اسے ایک ایسا جرم مانا، جس نے ہندوستانی سیکولرزم کو ہلاکر رکھ دیا تھا،مگر اب یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی جمہوریت ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتی نظام سفاک اکثریت پرستی کے سامنے ڈھیر ہوتے جارہے ہیں اور یہ ملک میں قانون کی حکمرانی نافذ کرنے کے قابل نہیں رہے۔ اگر مسجد کے انہدام اور اس کے بعد ہونے والے فسادات کو محض بڑے پیمانے پر جذبات کے اُبال کے نتیجے کے طورپر دیکھا جائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس طرح کے جذبات آیندہ نہیں بھڑکیں گے اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غیظ و غضب کی شکار کوئی دوسری اقلیت نہیں بنے گی؟ کیا پھر ہجوم کی حکمرانی ،انارکی اور تشدد ہی مستقبل میں ہندوستان کا مقدر ہوگا؟
یہ خاص طور پرقابلِ ذکر اس لیے ہے کہ ہندوستانی قانونی نظام ہجومی تشدد کے خلاف جامع و ہمہ گیر مقدمہ چلانے میں بارہا ناکام رہا ہے،جس کی وجہ سے سزا سے بچ نکلنے کا کلچر پیدا ہوا اور اسی کے نتیجے میں فسادات رونما ہوتے رہتے ہیں؛حالاں کہ بروقت پولیس مداخلت اور فسادیوں پر سخت قانونی کارروائی کے ذریعے اس طرح کے تشدد کو آسانی سے دبایا جاسکتا ہے۔ مگر سیاسی آقاؤں کے خوف سے سسٹم بھی کماحقہ کام نہیں کررہا اور حالات روز بروز ناگفتہ بہ ہوتے جاتے ہیں۔اب بابری مسجد انہدام پر تازہ فیصلے نے ایک بار پھر ہندوستان کے عدالتی-پولیس نظام کی خود احتسابی کی شدید ضرورت کو واضح کیا ہے،مگر کیا ایسا ہوگا؟