نئی دہلی:کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی وڈرا نے جمعرات کے روز دعویٰ کیا ہے کہ ہاتھرس میں مبینہ اجتماعی عصمت دری اور قتل کے معاملے میں مقتولہ کے کردار کو داغدار کرنے اور اسے اس جرم کے ذمہ دار ٹھہرانے کی سازش کی جارہی ہے جوقابل نفرت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ دلت لڑکی انصاف کی مستحق ہے، بدنامی کی نہیں۔ پرینکا نے ٹویٹ کیاکہ ایک ایساماحول پیدا کرنا جس کا مقصد لڑکی کے کردار کو داغدار بنانا ہے اور کسی طرح اسے اپنے خلاف جرم کا ذمہ دار ٹھہرانا ہے ناگوار ہے۔ ہاتھرس میں ایک بہیمانہ جرم کیا گیا جس میں ایک انیس سالہ بچی کی موت ہوگئی۔ کنبہ کی رضامندی یا اس کی موجودگی کے بغیر اس کا جسم جلا دیا گیا۔ وہ بدنامی کی نہیں، انصاف کی مستحق ہے۔
حکومت
جے پور:راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے اتوار کے روز یوپی حکومت کی سخت تنقید کی ۔ انہوں نے ہا تھرس سانحہ پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ متأثرہ لڑکی کے رات کے 2 بجے آخری رسومات ادا کردی گئیں ۔ یہ لاپرواہی دل دہلا دینے والی ہے اور ہمیشہ کے لئے عوام کے دل و دماغ پر سانحہ کا کرب چھایا رہے گا ۔وزیر اعلیٰ گہلوت نے لکھا ہے کہ پولیس کی نگرانی میں رات کے دو بجے آپ نے آخری رسومات ادا کردی گئیں ، اور ماں اپنی بیٹی کے آخری درشن کے لئے بلکتی رہی ۔کرونا میں بھی آخری رسومات کی ادائیگی کیلئے 20 افراد کی اجازت دی گئی ہے ۔ بغیر کورونا میں بھی لاش پہلے کنبہ کے حوالے کی جاتی ہے ۔ سرحد پر بھی ہمارے نوجوان شہید ہوتے ہیں ، ان کی لاشیں پہلے گاؤں لائی جاتی ہیں ،ہیلی کاپٹر کے ذریعے ، ہوائی جہاز کے ذریعے ، اور بیرون ممالک سے بھی لاشیں لائی جاتی ہیں ، یہ داہ سنسکار کو اعزاز دینے کا مسئلہ ہمیشہ ہمارے اقدار ، ثقافت اور مذہبی عقائد پر مبنی رہا ہے۔ انہوں نے بی جے پی حکومت کی تنقید کرتے ہوئے کہ داہ سنسکار سے صر ف نظر بی جے پی کے اقتدار کے دوران ہوا ، پھر بی جے پی کس ہندو ثقافت کی بات کرتی ہے؟ ہاتھرس کی متاثرہ کے ساتھ بھاجپا حکومت کا رویہ دلدوز:اشوک گہلوت
جے پور ، راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے اتوار کے روز یوپی حکومت کی سخت تنقید کی ۔ انہوں نے ہا تھرس سانحہ پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ متأثرہ لڑکی کے رات کے 2 بجے آخری رسومات ادا کردی گئیں ۔ یہ لاپرواہی دل دہلا دینے والی ہے اور ہمیشہ کے لئے عوام کے دل و دماغ پر سانحہ کا کرب چھایا رہے گا ۔وزیر اعلیٰ گہلوت نے لکھا ہے کہ پولیس کی نگرانی میں رات کے دو بجے آپ نے آخری رسومات ادا کردی گئیں ، اور ماں اپنی بیٹی کے آخری درشن کے لئے بلکتی رہی ۔کرونا میں بھی آخری رسومات کی ادائیگی کیلئے 20 افراد کی اجازت دی گئی ہے ۔ بغیر کورونا میں بھی لاش پہلے کنبہ کے حوالے کی جاتی ہے ۔ سرحد پر بھی ہمارے نوجوان شہید ہوتے ہیں ، ان کی لاشیں پہلے گاؤں لائی جاتی ہیں ،ہیلی کاپٹر کے ذریعے ، ہوائی جہاز کے ذریعے ، اور بیرون ممالک سے بھی لاشیں لائی جاتی ہیں ، یہ داہ سنسکار کو اعزاز دینے کا مسئلہ ہمیشہ ہمارے اقدار ، ثقافت اور مذہبی عقائد پر مبنی رہا ہے۔ انہوں نے بی جے پی حکومت کی تنقید کرتے ہوئے کہ داہ سنسکار سے صر ف نظر بی جے پی کے اقتدار کے دوران ہوا ، پھر بی جے پی کس ہندو ثقافت کی بات کرتی ہے؟
سدرشن ٹی وی کے معاملہ میں اب لگتا ہے کہ مرکزی حکومت سپریم کورٹ کے تیور کو دیکھ کر گھبرا گئی ہے۔ آج اس سلسلہ میں پانچویں سماعت تھی۔۔ ایک خاص منصوبہ کے تحت اس مقدمہ میں مداخلت کاروں (فریقوں) کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔۔۔کافی مداخلت کاروں کو اجازت دیتے رہنے کے بعد آج سپریم کورٹ نے ایک اور فریق کی مداخلت کی درخواست پر ناگواری کا اظہار بھی کیا۔۔ ایشیا نیٹ ٹی وی کے بانی ششی کمار کی طرف سے کلی سوارم راج ایڈوکیٹ نے کہا کہ مجھے بھی Intervene کرنا ہے۔اس پر جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ کسی نہ کسی مرحلہ پر سماعت کو ختم ہونا ہے۔ ہر اچھی چیز کا ایک خاتمہ ہوتا ہے۔
آج کارروائی شروع ہوتے ہی مرکزی حکومت کے وکیل اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے سدرشن ٹی وی کو آج چار صفحات کا نوٹس جاری کیا ہے اور اس کا جواب 28 ستمبر کی شام پانچ بجے تک مانگا ہے۔اگر کوئی جواب موصول نہ ہوا تو یکطرفہ فیصلہ کردیا جائے گا۔یہ ایک تفصیلی شو کاز نوٹس ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کے مطابق پروگرام میں بیان کردہ حقائق بادی النظر میں پروگرام کوڈ کے مطابق نہیں ہیں۔۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ عدالت 28 ستمبر تک کارروائی کو موخر کردے۔
اس پر جسٹس چند رچوڑ نے کہا کہ اگر ہم نے اُس وقت کیس کو نہ سنا ہوتا تو اب تک تو تمام ایپی سوڈ دکھائے جاچکے ہوتے۔۔ اس پر تشار مہتا نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ عدالت کی مداخلت آخری راستہ ہونا چاہئے۔۔ اس پر خاتون ایڈوکیٹ شاہ رخ عالم نے کہا کہ اگر کیس نہ سناجائے تو کیا ایک آئینی عدالت‘ عدالتی صوابدید کیلئے سیلابی راستہ کھول سکتی ہے۔۔ اس پر تشار مہتا نے کہا کہ میں نے عدالتی صوابدید کی بات کی ہی نہیں۔۔ جسٹس چند ر چوڑ نے کہا کہ ایڈوکیٹ شاہ رخ اپنے حلف نامہ پر بات کر رہی ہیں۔شاہ رخ نے کہا کہ حکومت مسلسل بے عملی اور صوابدید کے مطابق کارروائی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔
بہر حال جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ میں اس سلسلہ میں اپنے ساتھی ججوں سے بات کرکے بتاتا ہوں۔کچھ وقفہ کے لئے بنچ کے مائک اور کیمرے خاموش کردئے گئے۔بنچ نے جب کارروائی شروع کی تو سابق سول سروینٹس کے گروپ کے وکیل انوپ جارج چودھری نے کہا کہ پٹیشنر کی حیثیت سے مجھے سماعت کو موخر کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ایڈوکیٹ گوتم بھاٹیا نے کہا کہ باوجود اس کے کہ اگر حکومت نے اس اشو کو حل کردیا تب بھی وسیع تناظر والے نکات تو قائم ہیں۔اس پر بنچ نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ اگر حکومت نے کوئی فیصلہ لے لیا تومعاملہ ختم ہوجائے گا۔
جسٹس چندر چوڑ نے پوچھا کہ کیا مرکزی وزارت اطلاعات ونشریات کے سامنے پٹیشنر اپنا موقف رکھیں گے؟ اس پر تشار مہتا نے کہا کہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ہم صرف سدرشن ٹی وی کو سنیں گے۔
اس پر جسٹس کے ایم جوزف نے قدرے شدت کے ساتھ کہا کہ اگر کوئی شکایت کی جائے تو آپ کو شکایت کنندہ کو سننا ہے۔ فطری انصاف کا اصول اس کا متقاضی ہے کہ آپ ان کو سنیں۔۔کیا پٹیشنر کی بات کو سننا غیر قانونی ہوگا؟ اس پر تشار مہتا نے کہا کہ اگر 10ہزار شکایتیں موصول ہوں تو ہم ان کو نہیں سن سکتے۔میں اس کو قبول کرنا نہیں چاہتا۔وزارت اطلاعات ونشریات کے فیصلہ لینے کے بعد آپ اس کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے نے ( حکومت کے وکیل سے) پوچھا کہ کیا آپ زکوۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا کو سننا پسند کریں گے کیونکہ اس اشو کے محور میں ہمارا نام آرہا ہے۔اس پر تشار مہتا نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے۔اس پر جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ کم سے کم پٹیشنرکو تو سنئے۔تشار مہتا نے کہا کہ مائی لارڈس ہم نہیں سن سکتے۔ایک بُری حقیقت نے عدالت کو متوجہ کیا لیکن اسے بُری نظیر نہیں بنایا جاسکتا۔جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ پٹیشنر وزارت اطلاعات ونشریات کے سامنے اپنا موقف رکھنا چاہتا ہے۔اس پر انوپ جارج چودھری نے کہا کہ ہم تو عدالت میں ہی استدلال کرنا چاہیں گے۔اور اگر حکومت کا فیصلہ ہمارے خلاف ہوا تو ہم اسے چیلنج بھی کریں گے۔
اس کے بعد جسٹس چندر چوڑ نے فیصلہ لکھوادیا۔انہوں نے کہا کہ چونکہ حکومت نے سدرشن ٹی وی کو نوٹس جاری کردیا ہے اور اس کا جواب 28 ستمبر تک مانگا ہے اس لئے سماعت موخر کی جارہی ہے۔نوٹس پر قانون کے مطابق عمل آوری ہونی چاہئے اور حکومت کے ذریعہ لئے گئے فیصلہ کی رپورٹ عدالت کے سامنے رکھی جانی چاہئے۔اگلی سماعت 5 اکتوبر کو ہوگی۔اور 15ستمبر کو پروگرام پر جو اسٹے دیا گیا تھا وہ جاری رہے گا۔
مدھو کشور کے وکیل روی شرما نے کہا کہ میری موکل کے ذریعہ سدرشن ٹی وی پر دئے گئے بیان کو نفرت آمیز بیان قرار دیا گیا ہے لہذا مجھے 15منٹ درکار ہیں۔اس پر جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ ہم مداخلت کاروں کو عدالت کے قیمتی 15منٹ نہیں دے سکتے۔آپ اپنی بات تحریری طورپر داخل کرا سکتے ہیں۔اس پر مدھو کشور کے وکیل نے کہا کہ ہمارے خلاف جو الزامات لگائے گئے ہیں مجھے ان کا جوب دینا ہے۔اس پر جسٹس چندر چوڑ نے توجہ نہ دیتے ہوئے اعلان کردیا کہ اب عدالت 5 اکتوبر کو دن میں دو بجے سماعت کرے گی۔
میرا تجزیہ:
جو حکومت سدرشن پر الزامات کے باوجود اور پروگرام کے ٹریلر میں شرانگیز منافرت کے باوجود اسے پروگرام دکھانے کی اجازت دے کر 28 اگست سے 21 ستمبر تک سپریم کورٹ میں اس کا دفاع کر رہی تھی آج پانچویں سماعت میں اسے اچانک کیا سوجھی کہ اس نے سدرشن کو بقول اس کے ایک سخت نوٹس جاری کردیا۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ حکومت ہر حال میں سدرشن کو بچانا چاہتی ہے اور اس کی آڑ میں ارنب گوسوامی اور امیش دیوگن جیسے زہریلے اینکروں اور ان کے چینلوں کی ناک میں ممکنہ طور پر نکیل ڈالے جانے پر پیشگی باندھ لگانا چاہتی ہے۔ عدالت اس وقت سدرشن کے علاوہ وسیع تر نکات سن رہی ہے اور تین میں سے دو سینئر جج اس معاملے میں سخت رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔۔۔ اسی لئے حکومت نے نوٹس کا ڈرامہ کیا ہے اور کوئی سخت فیصلہ لینے سے عدالت کو روکنے کی کوشش کی ہے۔
(واضح رہے کہ تیسری جج جسٹس اندو ملہوترا نے پانچ سماعتوں میں اب تک صرف ایک مرتبہ تبصرہ میں حصہ لیا ہے) اس پر بہر حال اس سے زیادہ نہ میں کوئی تبصرہ کروں گا اور نہ احباب کو کرنا چاہئے ۔
اب زکوٰۃ فاؤنڈیشن کا بدلا ہوا رویہ بھی ملاحظہ کیجئے۔ آج حکومت کے مذکورہ بالا اقدام پر اس نے ستائش کا پٹارا کھول کر رکھ دیا۔انگریزی میں ان کے وکیل نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا حکومت کے اس اقدام پر والہانہ شکریہ ادا کرتی ہے۔ حیرت ہے کہ زکوٰۃ فاؤنڈیشن کو دہلی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں حکومت کے اب تک کے رویہ اور پھر سدرشن کو اجازت دینے اور ابتدا کے چار ایپی سوڈ دکھادئے جانے کے بعد بھی حکومت پر اتنا پیار آرہا ہے کہ وہ ایک منصوبہ کے تحت چلی گئی ایک چال پر اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے زمین پر بچھے جارہے ہیں ۔۔ اسی منافقت نے ملت کو بے وقعت بناکر رکھ دیا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
اکھلیش یادو کابی جے پی حکومت سے مطالبہ:پی ایم کیئرز فنڈ کو عوام کیئرز فنڈ بنایا جائے
لکھنؤ:سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے صدر اکھلیش یادو نے مطالبہ کیا ہے کہ کورونا سے نمٹنے کے لئے بنائے گئے پی ایم کیئرز فنڈ کو عوام کیئرز فنڈ میں تبدیل کیا جائے۔ بدھ کے روز ایک ٹویٹ میں انہوںنے کہاکہ کیا بی جے پی جو انتخابی ریلی کے لئے لاکھوںایل ای ڈی ٹی وی پر اربوں روپئے خرچ کرتی ہے اس کے پاس اساتذہ اور طالب علموں کی آن لائن تعلیم کاانتظام کرنے کے لئے فنڈ نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت ایمانداری کے ساتھ پی ایم کیئرس فنڈ کو عوام کیئرس فنڈ بنائے اور ملک کے مستقبل کی فکر کرے ۔ اکھلیش نے ٹویٹ کے ساتھ اپنی حکومت کے دور میں طلباء میں مفت لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تصاویر بھی پوسٹ کیں۔ ایس پی صدر نے کورونا انفیکشن کی موجودہ صورتحال کے درمیان اسکول کھولنے کی بھی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ کورونا بحران میں تدریسی سیشن کو مستقل رکھنے کے لئے اسکولوں کا کھولنا کوئی محفوظ متبادل نہیں ہے۔ حکومت غریب خاندانوں میں فی طالب علم ایک سمارٹ فون، انٹرنیٹ نیٹ ورک اور بجلی فراہم کرے۔ نیز اساتذہ کو گھر پر ڈیجیٹل تعلیم کے لئے مفت ہارڈ ویئر دیں۔
انوار الحسن وسطوی، حاجی پور
رابطہ:9430649112
13جون 2020 (سوموار) روزنامہ قومی تنظیم کے”ادب نامہ“ میں محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کے ایک حکم نامہ کے حوالے سے جواں سال ادیب، شاعر اور صحافی جناب کامران غنی صبا کی تحریربعنوان ”اردو کے لیے کم سے کم اتنا تو کیجیے“ نظر نواز ہوئی۔ جس میں انہوں نے مذکورہ حکم نامہ کا حوالہ پیش کرتے ہوئے اس کی صراحت کی ہے۔ کابینہ سکریٹریٹ کا حکم نامہ یہ ہے کہ تمام سرکاری دفاتر کے اعلیٰ افسران کے ناموں کی تختی (Name Plate)، سرکاری منصوبوں کے بینر، سرکاری عمارات کا سنگِ افتتاح، ہورڈنگ، دعوت نامے وغیرہ ہندی کے ساتھ ساتھ ریاست کی دوسری سرکاری زبان اردو میں بھی آویزاں / شائع کیے جائیں۔ کامران غنی صباؔ نے اس حکم نامے کو مشتہر کرنے کے لیے باضابطہ ایک تحریر رقم کی اور اسے اخبار میں شائع بھی کرایا۔ بلاشبہ موصوف کی یہ کاوش ان کی اردو دوستی کی دلیل ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ گرچہ یہ ہدایت نامہ حکومتی احکام ہے لہٰذا متعلقہ افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ بہار کے ہر اضلاع میں اس سرکاری حکم نامے پر عمل درآمد ہوگا ہی۔ اس حکم نامے کے عمل درآمد کے لیے انھوں نے عوامی بیداری کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ موصوف کے اس خیال سے بھی عدم اتفاق کی کوئی گنجائش نہیں کہ ”ہم اردو والوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم آواز اُٹھانا اور دباؤ بنانا نہیں جانتے۔ ہم آواز وہاں اٹھاتے ہیں جہاں ہمارا ذاتی مفاد ہوتا ہے۔“ انھوں نے اس ضمن میں بہار اردو اکادمی کے کاموں کی مثال دیتے ہوئے صحیح تحریر فرمایا ہے کہ ”جب اکادمی فعال تھی تو لوگ اس کے کاموں پر تنقید کرتے تھے۔ آج جب اکادمی غیر متحرک ہے تو اس کے خلاف کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ اکادمی کی مخالفت کرنے والے لوگ چین کی نیند سو رہے ہیں۔“میں عزیز موصوف کو ان کے لڑکپن اور طالب علی کے زمانہ کی ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ ٹھیک یہی سلوک ماضی میں انجمن ترقی اردو کے ساتھ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پروفیسر عبدالمغنی کی قیادت میں انجمن جمہوری طریقے سے چل رہی تھی۔ صوبائی سطح پر مجلس عاملہ کی تشکیل ہوتی تھی۔ سال میں کم سے کم ایک دفعہ انجمن کی ریاستی مجلس عاملہ کی نشستیں منعقد ہوتی تھیں جن میں پورے بہار سے ممبران شریک ہوتے تھے۔ تجاویزمنظور کی جاتی تھیں۔ جن کی کاپی حکومت اور متعلقہ محکموں کو بھیجی جاتی تھیں۔ ضرورت پڑنے پر صدر انجمن وزیر اعظم ہند، گورنر، وزیر اعلیٰ اور وزراء کو مراسلے ارسال کرتے تھے۔ مشورہ پر حکومت حسبِ توفیق عمل بھی کرتی تھی۔ انجمن کے زیر اہتمام ایک رسالہ ”مریخ“ شائع ہوتا تھا جو انجمن کا ترجمان بھی تھا۔ اس رسالہ کو نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری اردو دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اتنے کاموں کے باوجود لوگ صدر انجمن (پروفیسر عبدالمغنی)کو ہدف تنقید بنایا کرتے تھے اور انجمن کو ’ٹو مین کمیٹی‘ کے لقب سے نوازتے تھے۔ ایسا کہنے والوں میں ابھی بھی کچھ لوگ زندہ ہیں بلکہ پورے ہوش و حواس میں ہیں۔ میں ان کا نام لے کر ان سے جھگڑا ول لینا نہیں چاہتا لیکن ان سے میرا یہ سوال ضرور ہے کہ انجمن میں اب کوئی خامی یا خرابی انھیں کیوں نظر نہیں آتی ہے؟ کیا اب انجمن ان لوگوں کی توقعا ت کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہی ہے؟ اگر نہیں تو مجھے معاف فرمائیں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ شال اور گلدستے کی چاہت نے لوگوں کی زبان کو گنگ کر رکھا ہے۔ لوگ اپنے مفاد کی خاطر ایمان کی بات بولنا نہیں چاہتے ہیں۔
کامران غنی صباؔ کی مذکورہ تحریر کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ”جس طرح دوسرے شعبہئ حیات میں نوجوان بڑھ چڑھ کر تحریک کا پرچم بلند کر رہے ہیں اسی طرح اردو تحریک کو بھی نوجوان اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔“ موصوف کی اس تجویز کو پڑھ کر مرزا غالبؔ کا یہ شعر بے ساختہ میرے ذہن میں آ گیا:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
واقعی کامران غنی صباؔ نے میرے دل کی بات کہہ دی ہے۔ میری بھی یہی تجویز ہے کہ بغیر وقت ضائع کیے اب نوجوان آگے بڑھ کر اردو تحریک کی کمان سنبھال لیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں بہار میں اردو تحریک کی کمان سید محمد ایوب ایڈوکیٹ، الحاج غلام سرور، پروفیسر عبدالمغنی، مولانا بیتاب صدیقی، شاہ مشتاق احمد، سید تقی رحیم، پروفیسر قمر اعظم ہاشمی جیسے مجاہدین اردو نے عالمِ ضعیفی میں نہیں بلکہ ایامِ جوانی میں ہی سنبھالی تھی اور لمبے عرصے تک اردو کی لڑائی لڑی تھی جس کے نتیجے میں بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوا تھا۔ میرا بھی یہ ماننا ہے کہ ریاست میں اردو کے عملی نفاذ کے سلسلہ میں اگر نئی نسل کے لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور تاریخ کو دہرائیں گے تو ان شاء اللہ ضرور کامیابی حاصل ہوگی اور اردو کے مسائل ضرور حل ہوں گے۔ میں کامران غنی صباؔ کے اس خیال کی سو فیصد تائید کرتا ہوں کہ ”آج جس طرح ملکی سطح پر نوجوانوں نے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی قیادت اور رہبری کا انتظار کیے بغیر تحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا ہے اسی طرح اردو تحریک کو بھی جواں اور گرم خون کی ضرورت ہے اور جس دن نوجوانوں نے اردو تحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں لے لیا اُس دن سے انقلاب کی ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا۔“ عزیزی کامران غنی صباؔ کا یہ جذبہ اور حوصلہ قابلِ قدر اور لائقِ تائید ہے۔
نئی دہلی:سپریم کورٹ کی پھٹکاراورایک ہفتے میں شہری آزادی بحال کرنے پرپیش رفت کاحکم دینے کے بعدسرکارڈیمج کنٹرو ل میں لگ گئی ہے۔ جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹانے کے بعد پہلی بار صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے مودی حکومت اپنے 36 وزراء کو اس ہفتے وادی بھیج رہی ہے۔وزراء کا ایک ہفتے کا دورہ 18 جنوری سے شروع ہو گا۔ وادی کشمیر میں صرف پانچ وزیرجی کشن ریڈی، روی شنکر پرساد، شری پد نائیک، نرنجن جیوتی اور رمیش پوکھریال لوگوں سے خطاب کریں گے، وہیں باقی وزیر جموں کے مختلف اضلاع کا دورہ کریں گے۔جموں و کشمیر کے چیف سکریٹری سبرامنیم نے 14 جنوری کو وزیر داخلہ جی کشن ریڈی کو خط میں کہاہے کہ امت شاہ جی کی خواہش ہے کہ مرکزی کابینہ کے تمام اراکین یہ سفرکریں گے۔اس دورے کا مقصد ریاست کے لوگوں کو آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے بعد مرکزی حکومت کی طرف سے شروع کیے گئے پروگراموں کے بارے میں بتاناہے۔ریڈی 22 جنوری کو گاندربل کا دورہ کریں گے اور اگلے دن مگم جائیں گے۔مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد 24 جنوری کو بارہمولہ جائیں گے۔پوکھریال، نائیک اور نرنجن جیوتی سرینگرمیں لوگوں سے بات چیت کریں گے۔خواتین اور اطفال کی بہبودکی وزیراسمرتی ایرانی 19 جنوری کو کٹرا اور ریاسی ضلع کے پتھل علاقے جائیں گی۔جنرل وی کے سنگھ 20 جنوری کو اودھم پور جائیں گے۔وزیر کھیل کرن رجیجو جموں کے سچیت گڑھ جائیں گے۔تمام وزراء کو میل کے ذریعے ترقی سے متعلق سرگرمیوں کے بارے میں بتایاگیا ہے اورانہیں ریاست کے چیف سکریٹری کو اپنے پروگرام کے بارے میں مطلع کرنے کے لیے کہاگیاہے۔ذرائع کے مطابق، وزراء کے 59 مقامات پر جانے کا پروگرام ہے جس میں جموں کے 51 مقامات اور باقی 8 مقامات کشمیر میں ہیں۔ذرائع نے کہاہے کہ یہ لوگوں سے براہ راست بات چیت کرنے کے لیے حکومت کے آؤٹ ریچ پروگرام کا حصہ ہے۔حکومت کے اس فیصلے کے بعد کانگریس نے الزام لگایا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو کشمیر جانے کی اجازت کیوں نہیں دیناچاہتی ہے۔ کانگریس لیڈر منیش تیواری نے ٹویٹ کیاہے کہ مودی حکومت اپنے طوفانی کاموں کو گنانے کے لیے 36 وزراء کو 18 سے 23 جنوری تک کشمیر بھیج رہی ہے۔
یوسف کرمانی
ایودھیاپر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے باوجود اس کے اردگرد بچھی سیاسی بساط سمٹنے کانام نہیں لے رہی ہے۔مسلم پرسنل لابورڈ اور جمعیت علماے ہند نے کہاہے کہ 99 فیصد مسلمان چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ میں ریویوپٹیشن دائر کی جائے۔دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مرکزی سرکار کو ایک ٹرسٹ بنانا تھا،جو ایودھیا میں رام مندرکی تعمیر کاکام سنبھالے گا۔25دن سے زیادہ ہوچکا ہے؛لیکن اب تک ٹرسٹ نہیں بنا۔اس ٹرسٹ میں جگہ پانے کے لیے تمام سادھو سنتوں کے اکھاڑے اور کئی خود ساختہ بابا الگ سیاسی بازی گری میں مشغول ہیں۔یہ بھی صحیح ہے کہ ایودھیا پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اس معاملے سے جڑے لوگوں کے گلے نہیں اترا اور اس کے اختلافی پہلووں پر بحث مباحثہ جاری ہے؛لیکن یہاں زیر بحث 99فیصدمسلمانوں کے نام پر اٹھایاجانے والا مقدمہہے،جوبابری مسجد کی شہادت پر27سال پورے ہونے سے ٹھیک پہلے دائر کیاگیا ہے۔
ملاقات کے بعد:
جمعیت خود کو مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم بتاتی ہے۔مسلم پرسنل لا بورڈ کے 101 اساسی ارکان ہیں،جن میں تمام فرقوں کے علما شامل ہیں۔فیصلہ آنے کے بعد بورڈ نے کچھ میٹنگیں کیں اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ملک کے ننانوے فیصد مسلمان ریویوپٹیشن دائرکیے جانے کے حق میں ہیں۔ان کی رائے کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہی اس نے اس سمت میں آگے بڑھنے کا فیصلہ لیاہے ۔بورڈ کے پاس معلوم نہیں کونسا اوزار ہے،جس کے ذریعے وہ اس نتیجے پر جاپہنچا کہ جو بورڈ چاہتاہے ،وہی ننانوے فیصد مسلمان بھی چاہتے ہیں۔بورڈ اگر اپنے ایک سو ایک ارکان کے درمیان ووٹنگ کروائے،تواس میں بھی ننانوے فیصد مسلمانوں کی رائے ریویوپٹیشن کے حق میں نہیں ملے گی۔بورڈ اگر اسے ننانوے فیصد مسلمانوں کی رائے نہ بتاکر خود تنظیم کی طرف سے پٹیشن دائر کرنے کی بات کہتا،تو کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔جس بورڈ کی تشکیل میں دس فیصد بھی عام مسلمان شامل نہیں ہیں،وہ ننانوے فیصد مسلمانوں کی آڑلے کر کیوں اپنی سیاست باقی مسلمانوں پر تھوپنا چاہتا ہے؟
جمعیت علماے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ایودھیا پر فیصلہ آنے سے پہلے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے دلی میں واقع آرایس ایس ہیڈ کوارٹر میں ملاقات کی تھی۔کہنے کو تو بھاگوت نے انھیں ایک پروگرام میں بلایاتھا؛لیکن مولانا مدنی اور بھاگوت ڈیڑھ گھنٹے تک بات چیت کرتے رہے۔یہ ملاقات رواداری میں کی گئی تھی یا اس کا سیاسی مقصد تھا،کوئی نہیں جانتا۔ایودھیا پر فیصلہ اس کے بعد آیا،پھر جمعیت اور مولانا مدنی کے بیانات اس فیصلے پر تلخ سے تلخ ہوتے گئے اور بورڈ سے بھی پہلے انھوں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کردی۔مدنی صاحب کوایودھیامعاملے کی تو فکر تھی؛لیکن شہریت ترمیمی بل اور این آرسی پر انھوں نے بھاگوت سے مسلمانوں کی فکرمندی شیئر نہیں کی اور ناہی ان سے ایسی کوئی یقین دہانی حاصل کرسکے کہ دونوں بلوں میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی عیاری نہیں کی جائے گی۔
ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ ریویوپٹیشن دائر کرنے سے پہلے جمعیت علمائے ہند یا مسلم پرسنل لابورڈ نے مسلمانوں کی رائے جاننے کے لیے ان کے بیچ خود یا کسی ایجنسی سے کوئی سروے کرایاہو۔ایودھیا پر فیصلہ آنے سے پہلے ملک کی تمام مسجدوں میں جمعے سے قبل علمااور ائمہ نے یہ اپیل ضرورکی تھی کہ امن و امان قائم رکھیں؛لیکن فیصلہ آنے کے بعد ملک کی کسی مسجد میں کسی جمعے میں کسی امام کو یہ کہتے نہیں سناگیاکہ اس علاقے کے مسلمان بابری مسجد معاملے میں ریویوپٹیشن دائر کرنے کی مانگ کرتے ہیں یا اس معاملے میں بورڈ یا جمعیت کی رائے کی تائید کرتے ہیں۔اگر اس طرح کی اپیل ایک بھی مسجد میں ہوئی ہوتی، تو میڈیاکا ایک حصہ،جو مسلمانوں کے تئیں متعصب ہے،وہ اس کے پرچار پرسار میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا۔خود بورڈیا جمعیت بھی اپنی پریس کانفرنس میں ایسے قدم کی جانکاری ضرور دیتی؛اس لیے بورڈیا جمعیت کا یہ کہنا گمراہ کن ہے کہ ننانوے فیصدمسلمانوں کی رائے ریویوپٹیشن کے حق میں ہے۔
مسلمانوں میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو لے کر رنج اور غصہ ضرور ہے؛لیکن غیر متفق ہوتے ہوئے بھی انھوں نے فیصلے کو قبول کرلیاہے۔6دسمبر1992 کے سانحے کوبھی انھوں نے لگ بھگ بھلادیاہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ملک کے کسی بھی شہر میں ایک بھی جلوس یا جلسہ اس فیصلے کے خلاف نہ ہونا یہی بتاتا ہے ۔کسی بھی مسلم تنظیم نے انفرادی طورپر بھی فیصلے کے خلاف کسی طرح کا پروگرام نہیں کیا۔کچھ مسلم سلیبریٹیز نے تو آگے جاکر یہاں تک کہاکہ تاریخ کاایک باب ختم ہوا،اس معاملے میں رویویوپٹیشن دائر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔البتہ لوگ پانچ ایکڑزمین سرکار سے لی جائے یانہ لی جائے، اس معاملے پر ضرورمنقسم نظر آئے۔
مضبوط تحریک کی ضرورت:
مسلم پرسنل لابورڈ اور جمعیت سمیت تمام مسلم تنظیموں نے زمین لینے یا نہ لینے کےایشوپر مسلمانوں کی رائے جاننے کے لیے ابھی تک کوئی پہل نہیں کی ہے۔ایودھیا پر فیصلے کے بعد ملک کے کئی شہروں میں بڑے بڑے جلسے اور عرس ہوئے ہیں؛لیکن وہاں آنے والے لاکھوں لوگوں سے بھی اس بارے میں کوئی رائے نہیں پوچھی گئی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو حساس ایشوزمیں نہ الجھاکران کی ترقی کے لیے ٹھوس تحریکیں چلائی جائیں۔ایودھیا سے بھی بڑاایشومسلمانوں کے لیے فی الحال شہریت ترمیمی بل اور این آرسی ہے،جن کے حوالے سے ان تنظیموں کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔
(اصل مضمون آج کے نوبھارت ٹائمس میں شائع ہواہے،مضمون میں ظاہر کردہ خیالات مضمون نگار کے ذاتی ہیں)
ہندوستانی اکیڈمی پریونس غازی کی تحقیقی کتاب کاجائزہ
حقانی القاسمی
افادیت ہی انفراد اور امتیاز کاتعین کرتی ہے ؛اسی لیے یہ کتاب منفرد ہے اور ممتاز بھی ۔
جہاں تک انفرادیت کی با ت ہے تو اس کی انفر ادیت یوں روشن ہے کہ ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد کے تعلق سے یہ پہلا باضابطہ تحقیقی کام ہے ۔اس سے قبل شاید ہی کسی نے اتنے مربوط اور منظم طور پر اسے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہو جبکہ اس کے متوازی دوسرے اداروں مثلا انجمن ترقی اردو ہند ‘دار المصنفین اعظم گڑھ اور دار الترجمہ حیدر آباد پر بہت سی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں ۔
ہندوستانی اکیڈمی کے تعلق سے ایک تحقیقی مطالعے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ دیگر اداروں کے مقابل ہندوستانی اکیڈمی کا دائرۂ کار نسبتا زیادہ وسیع و بسیط تھا ۔یہ اپنی نوعیت کی پہلی اکیڈمی تھی اور سچدانند سنہا کے مطابق ’’بر طانوی ہندوستان کے کسی صوبہ میں ہندوستانی اکیڈمی سے بالکل ملتا جلتا کوئی اور ادارہ نہیں ہے ‘‘۔ یہ ایسی اکیڈمی تھی جس کے مقاصد جلیل اور عزائم عظیم تھے ۔ اس کے قیام کے پس پشت وہ مثبت تعمیری ذہن تھا ،جو ہندوستانی ادب اور کلچر کو ایک وسیع تر کینوس اور تناظر عطا کرنا چاہتا تھا ۔ ایک آفاقی وژن تھا جو اس اکیڈمی کی تشکیل کا محرک بنا ۔سر تیج بہادر سپرو اس کے پہلے صدر اور ڈاکٹر تارا چند اس کے پہلے سکریٹری مقرر ہوئے ۔ رائے راجیشور بلی ‘ سر تیج بہادر سپرو ‘کملا کانت ورما ‘بال کرشن راو‘سریندر ناتھ دویدی ‘رام کمار ورما ‘جگدیش گپت ‘اے کاظمی ‘پنڈت سکھدیو بہاری مشر ‘دھریندر ورما‘ودیا بھاسکر ‘اوما شنکر شکلا کے علاوہ الہ آباد یونی ورسٹی ‘لکھنو یونی ورسٹی ‘ بنارس یونی ورسٹی ‘ آگرہ یونی ورسٹی ‘ علی گڑھ یونی ورسٹی جیسی مقتدر یونی ورسیٹیوں کی ممتاز شخصیتیں اس سے وابستہ رہی ہیں ۔
1927میں اس کی تاسیس اس غرض سے کی گئی تھی کہ اردو ہندی دونوں زبانوں کو فروغ حاصل ہو ۔مسٹرسچدانند سنہا بار ایٹ لا پٹنہ نے ہندوستانی اکیڈمی کی چوتھی ادبی کانفرنس میںاس کے مقصد قیام کی وضاحت یوں کی تھی کہ: ’’یہ اردو اور ہندی کے مصنفین کو ایک ہی نظام میں ملا کر اور ان زبانوں میں سادگی پیدا کرکے اس خلیج کو پر کرنا چاہتی ہے ،جس کا وجود ایک ادبی اور سماجی خطرے سے کم نہیں ‘‘ ۔ سر شاہ محمد سلیمان نے بھی اکیڈمی کے اسی مقصد کی طرف اشارے کئے تھے :
’’اکیڈمی کی منشا ایک مشترکہ زبان کی ترویج ہے، جو عام فہم الفاظ اختیار کرے ۔ مشکل اور غیر مانوس الفاظ کو خواہ سنسکرت ‘ عربی ‘ فارسی زبان کے ہوں ترک کر دے ۔ اس کی یہ بھی کوشش ہے کہ مشرقی درسیات کے متعلق وہ الفاظ ،جو روز مرہ کا کام نہیں دیتے ترک کرکے ان کی جگہ عام فہم الفاظ کو جو ہر شخص کی سمجھ میں آسانی سے آ جائیں رواج دے ‘‘۔
اس اکیڈمی کا خاکہ تیار کرنے والوں نے جن مقاصد کا تعین کیا تھا ‘ان میں یہ نکات بہت اہم ہیں :
(الف)صوبائی زبان ہندی ادب نیز ایسی دیگر صورتوں اور طرز انشا مثلا اردو ‘برج ‘اودھی بھوجپوری وغیرہ کی حفاظت کرنا اور ترقی دینا ہوگا، جن سے ہندی ترقی کر سکتی ہے ۔
(ب)مخصوص ہندی تخلیقات بالخصوص تخلیقی ادب کی حوصلہ افزائی اور اشاعت ۔
(ت)ہندوستانی اور غیر ملکی زبانوں کی تخلیقات خصوصا شاعری ‘ڈراما ‘افسانہ اور ادب لطیف کا ہندی میں ترجمہ کرانا ۔
(ج) صوبائی سرکار کی رضامندی سے ہندی میں حوالے کی کتابیں تیار کرنا اور شائع کرنا ۔
ہندوستانی اکیڈمی کا تاسیسی مقصد ہندوستانی ادب کو ایک شاہراہ پر لا نا تھا ۔ ہندی اور اردو دونوں میں تصنیف و تالیف کا معیار بلند کرنا تھا ۔ اکیڈمی کے بانیان نے اسے اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے کے لئے قائم کیا تھا۔ اکیڈمی کا افتتاح کرنے والے سر ولیم میرس سی آئی ای گورنر صوبہ متحدہ آگرہ و اودھ نے 29 مارچ 1927 کو اپنی افتتاحی تقریر میں واضح طور پر کہا تھا کہ: ’’گورنمنٹ رزولیوشن جس کے رو سے اکاڈیمی قائم کی گئی ہے، اردو ہندی کو ایک درجہ دیتا ہے اور دونوں کو اس صوبہ کی زبانیں تسلیم کرتا ہے اور دونوں کو ہندوستاتی کے لفظ سے خطاب کرتا ہے ۔ اگر مجھے اس کا گمان ہوتا کہ اس انجمن کے قیام سے اردو ہندی کا جھگڑا از سر نو پیدا ہو جائے گا، تو میں اپنے معز ز رفیق کار کی اس تجویز کی تائید نہ کرتا ۔مجھے یقین ہے کہ یہ جھگڑا اب نہ پیدا ہوگا ۔مجھے یاد ہے کہ موسیقی کے بارے میں آنریبل رائے راجیشور بلی نے کہا تھا کہ اس میں سارے اختلافات کی راگنیاں دب گئی ہیں؛ کیونکہ موسیقی کی دیوی دنیا میں امن اور اتفاق پیدا کرنے آئی تھی نہ کہ نا اتفاقی ۔ بالکل یہی ادب کے معاملہ میں ہونا چاہئے ۔ انسان کو زبان اس لئے عطا کی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے تبادلۂ خیالات کر سکیں، نہ اس لئے کہ وہ ایک دوسرے سے لڑائی مول لیں ‘‘۔
ایک انگریز کی اس مثبت سوچ پر عمل کیا جاتا اور زبان کو تفریق کے بجائے ترسیل کا آلہ بنایا جاتا ،تو آج ملکی ادب اور ہندوستانی کلچر کی شناخت عالمی سطح پر الگ ہوتی ۔ہندو یا مسلم تشخص کے بجائے اس کا ہندوستانی تشخص ہوتا تو پوری دنیا اس کی مثال ہی نہیں دیتی بلکہ اس کی تقلید بھی کرتی۔
ہندوستانی اکیڈمی نے لسانی اختلافات کے تما م پہلووں پر جس سنجیدگی سے غور کیا اور دونوں زبانوں کے درمیان نقطۂ اتصال تلاش کرنے کی جو کوشش کی وہ قابل تحسین ہے ۔اسے فعال اور متحرک رکھنے کی کوشش کی جاتی ،تو آج ہندوستان کا لسانی منظرنامہ بالکل مختلف ہوتا اور اس طرح کے لسانی تنازعات کا سد باب ہو جاتا ،جودو قوموں کے مابین منافرت اور جنگ و جدل کا سبب بن گئے ہیں۔ بقول سچدانند سنہا :’’ ہندوستان کا یہ لسانی اتحادملک کے انتظامی اتحاد کی طرح اہم تھا‘‘، مگر افسوس کہ پریاگ میں بھی دو زبانوں کے دھاروں کا سنگم نہ ہو سکا ۔ یونس غازی کی تحقیقی جستجو کے پیچھے یہی لسانی اتحاد کا مقصد مضمر ہے اور یہی اس کی افادیت کا تعین کرتا ہے ۔
اور یہ کتاب ممتاز اس طرح ہے کہ ہندوستان کے لسانی تنازعات کی شدت کے تناظر میں دیکھا جائے ،تو جس موضوع کا انتخاب یونس غازی نے کیا ہے ‘وہ عصری تناظر میں گہری معنویت کا حامل بن جاتاہے۔ یہ پرانی بحث کو از سر نو زندہ کر نے والی کتاب ہے ۔ ہندی اردو تنازعہ پر لکھی گئی امرت رائے کی ’’اے ہاوس ڈیوائڈیڈ ‘‘ کرسٹوفر آر کنگ کی ’’ون لنگویج ٹو اسکرپٹس‘‘ فرمان فتح پوری کی’’ ہندی اردو تنازعہ‘‘ اور گیان چند جین کی ’’ایک بھاشا دو لکھاوٹ‘‘ سے الگ نوعیت کی کتاب ہے ۔ اس میں مفروضات کو ذہنوں پر مسلط کرنے کی کو شش نہیں کی گئی ہے؛ بلکہ دونوں زبانوں کے دانشوروں کے افکار ٰ و خیالات کو من و عن پیش کر دیا گیا ہے ۔ یہ حقائق کی غیر جانبدارانہ تفہیم کی ایک کوشش ہے ۔ یونس غازی نے اپنے نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے بجائے دونوں زبانوں کے تعلق سے جو مباحث تھے ،وہ بلا کم و کاست پیش کر دیے ہیں ۔
یونس غازی کی کتاب کے معروضات پر سنجیدگی سے سوچا جائے، تو زبان کے تعلق سے بہت سی نئی باتوں کا انکشاف ہو تا ہے اور یہ شدت سے احساس ہو تا ہے کہ وحدتِ لسان کے تصور پر ہندوستان عمل پیرا ہوتا، تو بین قومی ‘نسلی کشمکش کا خاتمہ ہو جاتا ۔ یک لسانی تشخص پر اصرار نہ ہوتا، تو شاید دونوں زبانوں کو زیادہ زندہ رہنے کی تحریک ملتی اور یہ دونوں زیادہ تابندہ اور توانا ہوتیں ۔ دونوں زبانیں مل کر ایک نئی قوت میں تبدیل ہو جاتیں ۔ ایک نئی زبان تشکیل پاتی، جو ہندوستان کی داخلی وخارجی قوت کا مظہر بن جاتی ۔ قومی اتحاد کی راہیں بھی مضبوط و مستحکم ہوتیں ۔ یہ ہندوستان کی سماجیات اور معاشیات کے لئے بھی مفید عمل ہوتا،مگر زبان کی استعماری اور اقتداری سیاست نے ہندوستان کے سماجی اور سیاسی نظام کو مجروح اور مضمحل کر دیا۔المیہ یہ بھی ہوا کہ زبان کو ملک اور مٹی سے جوڑ کر دیکھنے کے بجائے مذہب سے جوڑ دیا گیا اور اس کی وجہ سے زبانوں کی داخلی منطق بھی بگڑی اور خارجی منطقے بھی تبدیل ہو گئے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ‘زبان کا عقیدے سے نہیں ،اظہار سے رشتہ ہوتا ہے ۔ زبان پرمذہب کی بنیاد ہوتی توزبانوں کی معدومی کے ساتھ مذاہب بھی مفقود ہو جاتے یا مذہب کے ختم ہوتے ہی زبانیں بھی اپنا وجود کھودیتیں ۔ تاریخ خود اس تصور کی تائید کر رہی ہے ۔ ڈاکٹر تارا چند نے اسی حقیقت کو یوں واضح کیا ہے :
’’زبان کے متعلق بہت سی بہکی باتیں ہو رہی ہیں ۔ کچھ نے تو یہ وچار کر لیا ہے کہ زبان کے ساتھ مذہب ایسا بندھا ہوا ہے کہ اگر زبان پر کوئی وار ہوا، جس سے اس میں کمزوری آئی تو مذہب بھی چل بسے گا ،یہ بڑی بھول ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں کروڑوں عیسائی ہیں ،ان میں سے سوائے انے گنے لوگوں کے کسی کو عیسائی دھرم کی اصلی بھاشا کا گیان نہیں ہے ۔ حضرت عیسی مسیح عبرانی بولتے تھے ،اس میں انجیل کی پرانی اور نئی کتابیں ہیں ،مگر انگلستان ‘فرانس اور جرمنی اِتیادی دیشوں کے عیسائیوں کو کبھی یہ گھبراہٹ نہیں ہوئی کہ بائبل کے عبرانی میں نہ ہونے کے کارن ان کے دھرم میں کوئی در بلتا آئی ہو ۔ چین میں کروڑوں بدھ اور مسلمان ہیں نہ بدھ پالی جانتے ہیں ،جو ان کے دھرم کی پستکوں کی بھاشا ہے نہ مسلمان عربی؛ لیکن دونوں اپنے اپنے مذہب میں پکے ہیں ۔ہندی میں اگر فارسی عربی کا پٹ دے دی جائے تو ہندو دھرم کی ہان نہیں ہو سکتی اور اردو اگر ہندی کے لفظ اختیار کرلے تو اسلام خطرے میں نہیں پڑ جا ئے گا ‘‘۔
کوئی بھی زبان مذہبی شناخت کی علامت یا مظہر نہیں ہوتی ۔ہندوستانی اکیڈمی نے اس حقیقت کو محسوس کر لیا تھا اسی لئے اس ہندی اور اردو کی مصنوعی تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کی اور اس سے وابستہ دانشوروں نے دونوں کے تال میل سے ہندوستانی کی وکالت کی اور واضح کیا کہ اپنی ساخت کے اعتبار سے دونوں زبانیں ایک ہیں ۔ صرف رسم الخط کا فرق ہے ۔یونس غا زی نے ان تمام مفکرین کے خیالات اپنی کتاب میں جمع کر دیے ہیں جو اردو اور ہندی کے مابین خلیج کو پاٹنا چاہتے تھے ۔ اور ایک مشترکہ بنیاد تلاش کرکے ہمیشہ کے لئے وجہ نزاع کو ختم کرنا چاہتے تھے ۔
یہ وہ دانشور تھے جو غیر معمولی بصیرت کے حامل تھے اور متحدہ ہندوستان کے خواب کی تعبیر مشترکہ زبان اور ادب میں تلاش کر رہے تھے ۔ انہیں یہ احساس تھا کہ اگر ہماری یہ مشترکہ میراث منتشر ہو گئی ،تو ہندوستانی زبان و تہذیب کا نا قابل تلافی نقصان ہو گا؛ اس لئے وہ اردو یا ہندی کے بجائے ہندوستانی اصطلاح پر زیادہ زور دے رہے تھے ۔انہیں تو لفظ اردو بحیثیت زبان پر بھی اعتراض تھا ۔ سید سلیمان ندوی نے تو پنے خطبۂ صدارت میں صاف طور پر یہ کہہ دیا تھا کہ :
’’لفظ اردو ہماری زبان کے نام کی حیثیت سے محض ایک غلط فہمی ہے ،جس کو نکال دینا چاہئے ، ہماری زبان کو آئندہ سے ہندوستانی کہنا چاہئے ،اسی اصول کی بنا پر جیسے انگلستان کی زبان انگریزی ‘فرانس کی فرانسیسی ‘اٹلی کی اٹلین وغیرہ کہلاتی ہے‘‘۔
اسی طرح شمس العلما سید علی محمد شاد نے تو اردو کے وجود سے ہی انکار کر دیا اور یہ واضح کیا کہ لفظ اردو بہت بعد کی ایجاد ہے :
’’کچھ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اس زبان کا نام اردو اس لئے پڑا کہ یہ مسلمانوں کے فاتح لشکروں میں پیدا ہوئی ۔ کیا یہ لوگ مجھے کوئی تاریخ کی کتاب ‘کوئی روز نامچہ یا تذکرہ چھٹی صدی سے لے کر تیرھویں صدی تک کا دکھا دیں گے جس میں یہ زبان اردو کے نام سے لکھی گئی ہو ؟ جہاں کہیں اس کا نام لیا گیا ہے اس کو ہندی یا ہندوستانی کہا گیا ہے ‘‘۔
ان روشن خیال مفکرین نے دونوں زبانوں کے درمیان مماثلت تلا ش کی اور یہ بتایا کہ دونوں کے مابین کچھ زیادہ فرق نہیں ہے ۔ اس تعلق سے ڈاکٹر تارا چند کا یہ خیال بہت معنویت کا حامل ہے کہ :
’’اردو ہندی کا فرق زبانوں کے ڈھانچے کا فرق تو ہے نہیں ، دونوں کے قواعد یا ویا کرن ایک ہے ۔دونوں ایک ہی بھاشا آرین کی شاخیں ہیں ۔ دونوں کا شبدوں کا بھنڈار بہت کچھ ملتا جلتا ہے ۔ فرق ہے تو کویتا میں چھندوں کا ‘ادب میں کچھ لفظوں کا اور ترکیبوں کا ۔چھند کا فرق تو پرانا ہے لیکن آج کل ہندی اور اردو دونوں میں نئی نئی بحریں چل رہی ہیں ،جو اس فرق کو دھیرے دھیرے مٹا رہی ہیں ۔ مشاعروں اور کوی سمیلنوں میں ایک سے راگ سنائی دیتے ہیں ۔ ترکیبوں کا فرق آسانی سے مٹ سکتا ہے ۔ لفظوں میں مشکل ہے خاص کر علم یا وگیان کی بھاشا میں؛ لیکن ابھی یہ فرق اتنا نہیں بڑھا ہے کہ رک نہ سکے ۔ سنسکرت اور عربی کے تتسم شبدوں سے پرہیز کرنے سے اور ہندوستانی میں تت بھو شبد گھڑنے کے لئے قاعدے بنانے سے یہ کٹھنائی دور ہو سکتی ہے ۔جو شبد ہمارے یہاں پیشہ وروں میں استعمال میں آتے ہیں، ان سے بہت سی اصطلاحیں مل سکتی ہیں ۔ مادہ یا مول شبد کہیں کا ہو ،اس پر ہندوستانی پرتبیہ سابقے اور لاحقے اتیادی لگا کر ہندوستانی بنایا جاسکتا ہے ۔اسی طرح سنکیا(اسم )سے کرم (فعل)اور فعل سے اسم بن سکتے ہیں اور اسی طرح اور شبد اور سماس یا مرکب ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہندی اور اردو کا اتہاس اس طرح کے عملوں پریوگوں سے بھرا ہے ۔ ہمارے ملک کا نام ہندوستان ہی اس کا ثبوت ہے ۔ یہ نام اس میل کی اور اشارہ کرتا ہے، جس کی چھاپ ہماری آبادی پر ہے، ہماری سبھیتا ‘کلا اور ادب پر ہے‘‘ ۔
در اصل زبانیں باہمی میل جول سے ہی اپنی فکر و فرہنگ میں اضافہ کرتی ہیں ۔ یہ عمل منقطع ہو جائے تو زبانیں سکڑنے لگتی ہیں ۔ سید سلیمان ندوی کے یہ خیالات اسی جہت کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
’ ہمارے ہندی کے دوستوں کو شکایت ہے کہ ہم ہندی کے لفظ قصدا چھوڑتے ہیں حالانکہ بات یہ نہیں ہے ۔زبان کا سارا دارومدار لفظوں کے چلن پر ہے ۔ہندو مسلمان آپس میں جتنا ملیں گے ،اتنے ہی فارسی اور ہندی کے لفظ گھلیں گے ؛چنانچہ جب ہمارے بزرگ آپس میں خوب گھلے ملے دیکھئے کہ سینکڑوں ہندی کے لفظ مسلمانوں کی زبان پر اور سینکڑوں عربی فارسی کے لفظ ہندو منشیوں کے قلم پر چڑھ گئے ۔ ولی کے زمانے کی زبان دیکھئے اس میں آج سے کتنے زیادہ ہندی لفظ ہماری زبان میں تھے ۔ آج تو ہندوستانی میں فارسی عربی لفظوں کی ملاوٹ کے گنہ گار مسلمان ہیں ،مگر ہندو مسلمان دونوں سے الگ سات سمندر پار کے ایک بے لاگ کی گواہی سنئے ۔ انسائکلو پیڈیا کے 1929 کے ایڈیشن میں ہے ’’اردو کا یوں شدید طور پر فارسیت آمیز ہو جانا ایرانی اثر سے زیادہ ہندی اــثر سے تھا، اگرچہ اپنی اصل کے اعتبار سے اسلامی تھا، تاہم اس میں فارسی عنصر کو کثرت سے داخل کر
نے والے ان ایرانیوں یا ایرانی نژاد لوگوں سے زیادہ وہ ہندو عمال تھے، جو حکومت مغلیہ میں ملازم اور فارسی داں تھے کیونکہ وہ (ایرانی اور مغل ) صدیوں سے اپنے علم و ادب کے لئے صرف اپنی ہی فارسی زبان استعمال کرتے آئے تھے؛ لیکن یہ بھی اس لئے ہوا کہ فارسی تعلیم یافتہ ہندو عمال بکثرت مسلمان افسروں سے ملتے جلتے تھے، تو ان کے لفظ ان کی زبانوں پر چڑھ جاتے تھے ۔ اسی طرح جو مسلمان صوفی ‘درویش اور عام لوگ بلکہ بادشاہ تک جو کثرت سے ہندووں سے ملتے تھے ان کی زبانوں پر ہندی الفاظ بڑی آسا نی سے چڑھ گئے تھے ۔ آئین اکبری اور فار سی مغل تاریخوں اور صوفیوں کے ابتدائی دکھنی اور گجراتی ہندوستانی کلام میں اس کی جھلک
معلوم ہوتی ہے ‘‘۔
یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ عربی اور فارسی کے الفاظ اردو میں مسلمانوں نے شامل نہیں کئے؛ بلکہ یہ پہلے سے ہندووں میں عام تھے ۔ سید سجاد حیدر یلدرم نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے ۔ اپنے خطبۂ صدارت میں انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ :
’’ایک پر از معلومات و پر از تحقیقات مقالے میں جو پنڈت برج موہن دتاتریہ نے علی گڑھ میں پڑھا تھا ‘یہ ثابت کیا تھا کہ فارسی کا پڑھنا ہندووں میں مسلمانوں کے یہاں آنے سے پہلے جاری تھا گو عام نہ ہو اور ہندوستان کے ہندو راجہ قبل اس کے کہ مسلمان یہاں حملہ آور ہوئے کابل اور وسط ایشیا کی اسلامی سلطنتوں سے فارسی زبان میں خط و کتابت کرتے تھے اور ہندو دربار کے ہندو منشی ان مراسلات کو فارسی میں لکھتے تھے ‘‘۔
سر عبد القادر بیرسٹر ایٹ لا کی رائے بھی اسی احساس کی عکاسی کر تی ہے :
’’ہندوستانی زبان گزشتہ زمانے میں ہندووں اور مسلمانوں کے میل جول کی بہترین یادگار اور ان کے بڑوں کا بہترین ترکہ ہے ۔ یہ زبان ہماری سب سے بڑی میراث ہے اور اس کا خزانۂ ادب ہماری مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے ۔اصل حالات سے ناواقفیت کے سبب اس میراث کے بعض حصہ دار اگر خزانے کے کسی صندوق پر لفظ ’ہندی‘لکھا ہوا دیکھتے، تو اسے ہاتھ نہیں لگاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ مال ہمارا نہیں ۔اور بعض لفظ ’اردو‘صندوق کے باہر دیکھ کر اس سے پرے بھاگتے تھے یہ سمجھ کر کہ یہ مال بدیسی ہے حالانکہ دونوں قسم کے صندوقوں میں ایک ہی ملک کا مال تھا ۔ ‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اردو اور ہندی ہی نہیں ملک کی بیشتر زبانیں ایک ہیں ۔ایک دوسرے کے الفاظ ‘استعارات اور علامات سے زبانوں نے اپنے دائرے کو وسیع کیا ہے ۔ پنڈت گنگا ناتھ جھا کی یہ رائے زبانوں کی داخلی منطق اور خارجی ہیئت کے اعتبار سے بہت فکر انگیز ہے کہ:
’روحانی نقطہ نظر سے صرف ہندی اور اردو ہی نہیں؛ بلکہ ملک کی تمام زبانیں ایک ہیں اور رہیں گی‘‘۔
ملکی مفاد کو مقدم رکھنے والے اور ملک کی ترقی کے لئے ملکی ادب کے احیا کو ضروری سمجھنے والے بیشتر ادیبوں ‘دانشوروں کی متفقہ رائے یہی تھی کہ ہندوستان کی قومی زبان وہی بن سکتی ہے، جس میں بھاری بھرکم عربی ‘فارسی اور سنسکرت کے الفاظ نہ ہوں ۔پریم چند کا صاف طور پر یہ کہنا تھا کہ:
’’نہ تو فارسی اور عربی کے نامانوس الفاظ سے بھری ہوئی اردو اور نہ سنسکرت کے بڑے بڑے لفظوں سے بھری ہوئی ہندی کبھی ہندوستان کی قومی زبان ہو سکتی ہے ۔ہماری قومی زبان وہی ہو سکتی ہے جو عام لوگوں کی مشترکہ زبان ہے ۔ میں کسی لفظ کو اس لئے نہیں نکال دوں گا کہ وہ عربی یا فارسی یا سنسکرت ہے ۔ میرا معیار تو صرف یہ ہے کہ آیا عام لوگ اس کو سمجھ سکتے ہیں یا نہیں‘‘۔
اردو اور ہندی کے درمیان وجہ نزاع رسم الخط بھی ہے ۔اردو کے خلاف hindu antagonism ا کی ایک وجہ فارسی رسم الخط بھی ہے ۔ ا س تعلق سے بھی دونوں زبانوں کے دانشوروں نے بہت مثبت انداز میں غور و فکر کیا ہے اور اعتدال کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مولوی عبد الحق بی اے نے بہت اچھے خیال کا اظہار کیا تھا کہ :
’’رسم خط کا مسئلہ آج کل بہت زیر بحث ہے اور خاصا بھڑوں کا چھتا بن گیا ہے ۔اس میں مشکل یہ آپڑی ہے کہ جیسا ہمارے یہاں عام دستور ہے رسم خط کو قومی تہذیب اور مذہب کا جز سمجھ لیا گیا ہے ۔اس لئے موجودہ حالات میں یہ توقع نہیں ہو سکتی کہ لوگ ٹھنڈے دل سے اس پر غور کریں گے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم اس پر بحث کرنا ترک کردیں ۔ غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس مسئلہ کو جذبات اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا بلکہ یہ اقتصادی مسئلہ ہے ۔ جس رسم خط میں صرف کم ہوگا ‘وقت کم لگے گا ‘جگہ کم گھرے گی اور جس کے پڑھنے میں آسانی ہوگی وہی مقبول ہوکے رہے گا ‘‘۔
سر شاہ محمد سلیمان نے تو رسم الخط کے مسئلہ کو ہی سیاسیات سے جوڑ دیا تھا ۔انہوں نے وسعت نظری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنا خیال یوں ظاہر کیا تھا : ’’رسم خط کا جھگڑا کہ یہ اردو ہو یا ناگری مقابلتا زبان سے زیادہ سیاسیات سے تعلق رکھتا ہے ۔شان خط کا معاملہ بہت زیادہ اہم نہیں بلکہ اس کا بہت زیادہ انحصار انفرادی طور پر رغبت طبع پر ہے ۔ اگرچہ بعض وقت اس کو سیاسی وجوہ پر بھی مبنی کرتے ہیں ۔ لیکن کسی خاص رسم خط کا انتخاب کر لینا بالکل اختیاری امر ہے ۔ خاص قسم کا خط ایجاد کیا جاسکتا ہے ۔ آزادانہ طور پر دوسری زبان سے اس کو مستعار لے سکتے ہیں ۔ اور فورا تبدیل کر سکتے ہیں یا عمدا ترک کر سکتے ہیں ۔ اس قسم کی تبدیلیاں دنیا کے ہر حصے میں ہو چکی ہیں‘‘ ۔
ہندوستانی اکیڈمی سے وابستہ علما ء اور دانشور اردو ہندی تنازعہ کا قابل قبول حل نکالنا چاہتے تھے ۔وہ ہندوستانی کو ہی قومی زبان بنانے کے حق میں تھے ۔ سر تیج بہادر سپرو اور سر شاہ سلیمان کی سوچ بھی یہی تھی ۔
’’ہندوستان کی حیثیت ایک کثیر الوسعت بر اعظم کی ہے جس کا رقبہ باستثنائے روس تمام یورپ کا مساوی ہے تو یہ امر عیاں ہو جاتا ہے کہ غالبا اس ملک میں تخالف زبان مقابلتا یورپ سے زیادہ نہیں لیکن اس کو ایک فوقیت یہ حاصل ہے کہ ہندوستان برطانیہ کے آتے ہی واحد اثر میں آگیا اور اس میں اتحاد زبان کا عمل جاری ہو گیا ۔ خاص ہندوستان کی عام زبان جو اب ہندوستانی کے نام سے موسوم ہے تمام ملک کی متفقہ زبان ہونے کا دعوی کر سکتی ہے ‘‘۔(ڈاکٹر سر شاہ محمد سلیمان چیف جسٹس ہائی کورٹ الہ آباد )
’’میرا ذاتی عقیدہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں قومی اتحاد کی بنیاد کوئی ہو سکتی ہے تو وہ مشترکہ ادب یا مشترکہ زبان ہے ۔ ہم میں اگر ایک دوسرے کے ادب و شعر اور تاریخ و فلسفہ کی قدر پیدا ہو جائے یا بہ الفاظ دیگر ہم ایک دوسرے کو سمجھنے لگیں تو بہت کچھ اختلافات اور غلط فہمیاں جو اس وقت ہمارے لئے باعث ننگ ہیں دور ہو سکتی ہیں ۔ اور اس طرح ایک متحدہ ہندوستان کے خواب کی تعبیر محسوس طور پر ہمارے سامنے آسکتی ہے ‘‘۔ (ڈاکٹر سر تیج بہادر سپرو )
بہت سی سطحوں پر زبانوں کے اختلاف کو دور کرنے کی کوشش کی گئی مگر یہ کشیدگی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ اس کا احساس سر ولیم میرس کو بھی تھا جنہوں نے اس لسانی کشیدگی کوادبی اور معاشرتی جرم سے تعبیر کیا ۔ انہوں نے مثبت اور تعمیری طرز فکر کا ثبوت دیتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا :
’’زبان کا اختلاف ہندو مسلمانوں کے تعلقات میں ایک حد تک کشیدگی پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے ۔ لیکن اگر اس کی کوشش کی گئی کہ یہ کشیدگی اور بڑھے تو میں اس کے لئے آمادہ ہوں کہ اسے غداری قرار دوں ۔ یہ معاملہ ایسا ہے جس کے لئے کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا ۔ بلکہ صرف لوگوں کے احساس سے ممکن ہے کہ اس کی اصلاح ہو سکے ۔ ہر ہندی لکھنے والے کے پیش نظر یہ مقصد ہونا چاہئے کہ وہ مسلمانوں کے پڑھنے کے لئے کتاب لکھ رہا ہے اور اسی طرح مسلمانوں کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ان کی لکھی ہوئی کتاب کو ہندو پڑھیں گے ۔ ممکن ہے یہ امید پوری نہ ہو لیکن میں امید کر سکتا ہوں کہ اکاڈیمی کے اراکین اس پر بالکل تیار رہیں گے کہ وہ کسی زبان میں فرقہ وارانہ شان نہ پیدا ہونے دیں گے اور زبانوں کو ایک مخصوص جماعت کی زبان نہ ہونے دیں گے ۔مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ اگر اردو لکھنے والے عربی کے جملے استعمال کریں جیسا کہ بعض پولیس کے روزنامچے لکھنے والے کچھ دن پہلے کیا کرتے تھے یا ہندو مصنفین سنسکرت کے الفاظ خواہ مخواہ اپنی عبارت میں بھریں تو یہ لوگ دوہری مصیبت لا رہے ہیں ۔ پہلا جرم ان کا یہ
ہے کہ وہ خود بھی دوسرے فریق سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اپنے ناظرین کو بھی ان سے دور کرتے ہیں اس طرح یہ ادبی جرم سے زیادہ معاشرتی جرم ہے ‘‘
ڈاکٹر یونس غازی نے خطبات صدارت کی شکل میں اردو ہندی کی عدالت میں سارے محضر نامے پیش کر دیے ہیں ۔ جن کے مطالعے سے اندازہ ہو تا ہے کہ اس لسانی تنازعہ کو آسانی سے حل کیا جاسکتا تھا ۔مگر مثبت سوچ پر منفی سیاست ہمیشہ حاوی ہو جاتی ہے ۔ وہ سیاست جس کا خمیازہ ملک ‘ مٹی اور مستقبل کو بھگتنا پڑتا ہے ۔
اور ہوا وہی جس کا خدشہ تھا کہ language parochialism (لسانی تنگ نظری اورمحدودیت ) نے وہ سارے خواب چکنا چور کر دیے جو صحت مند دماغ رکھنے والے ہندوستان کی عظیم دانش گاہوں اور اداروں سے وابستہ مفکرین نے دیکھے تھے ۔ ۔لسانی تکثیریت ‘ازدوا ج لسان ossia diglاور لسانی رواداری کے تصورات مسترد کر دے گئے ۔ ہندوستانی کے بجائے جمہوریہ ہند میں 1950 کو ہندی سرکاری زبان بنادی گئی اور سیکولر زبان اردو کو ایک اقلیتی زبان کی حیثیت دے دی گئی جبکہ یہی اردو 1837 کے غلام ہندوستان میں سرکاری اور عدالتی زبان تھی مگر حیف صد حیف آزاد ہندوستان میں اسے ایک منظم سازش کے تحت غلام بنا دیا گیا ۔اردو کے خلاف یہ سازش 1867 میں ہی شروع ہو گئی تھی ۔ مگر برطانوی ہندوستان میں اس سازش کا اتنا اثر نہیں ہوا جتنا کہ آزاد ہندوستان میں ہوا ۔ گا ندھی جی کی کو ششیں بھی نا کام ہو گئیں اور ہوا وہی جو ہندو احیاء پرست چاہتے تھے ۔
بنارس کے بابو شیو پرشاد ‘پنڈت مدن موہن مالویہ نے ناگری کو مسلط کرنے کے لئے جو تحریکیں چلائیں اور الگو رائے شاستری ‘آر وی دھولیکر ‘بال کرشن شرما ‘پر شوتم داس ٹنڈن ‘بابو ناتھ گپتا ‘روی شنکر شکلا ‘سیٹھ گوبند داس ‘سمپورنانند ‘کے ایم منشی نے جس طرح ہندی کو بطور قومی زبان آئینی حیثیت دلانے کے لئے جد و جہد کی اس سے ہندی کو فائدہ ضرور پہونچا مگر ہندوستان اور ہندوستانی ادب کو نقصان پہچا کہ جنوبی ہند اور شمال مشر قی ریاستوںکے لوگوں نے اسے ثقافتی تسلط اور لسانی جبر سے تعبیر کیا ۔ ان کی نظر میں ہندی سامراجیت کی علامت بن گئی ۔ اور ہندوستان ’ہندی انڈیا ‘ بن گیا ۔ایک جزو کے چکر میں کل کا یہ عظیم خسارہ تھا جسے آج محسوس کر سکتے ہیں کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہماری زبانوں اور ادبیات کی کیا وقعت رہ گئی ہے ۔
ہندوستانی اکیڈمی زبان اور کلچر کے بقائے باہم کے تصور پر عمل پیرا تھی ۔وہ زبانوں کی خود مختاری کی مخالف نہیں تھی ۔ اس کے طریق کار اور طرزفکر کو اختیار کیا جاتا تو ہندوستان کی لسانی پالیسی سبھی طبقات کے لئے قابل قبول ہوتی ۔ڈاکٹر سر شاہ سلیمان صاحب ایم اے ایل ایل ڈی چیف جسٹس ہائی کورٹ الہ آباد نے اکیڈمی کی دوسری ادبی کانفرنس منعقدہ 4;5اپریل 1931 میں بہت فکر انگیز بات کہی تھی کہ :
’’ہندوستانی زبانوں کے مختلف الانواع ہونے سے مایوس ہو نا فضول ہے اور نہ اس لئے شکستہ خاطر ہو نے کی ضرورت ہے کہ اس صوبے کی مروجہ زبانوں میں چند اختلافات ہیں اور نہ رسم خط کے مختلف ہو نے پر جس کو بعض طبقات نے اختیار کیا ہے بلا ضرورت زور دینا چاہیے ۔ ہماری تمام تر سعی ہندوستانی ادب کو بحالت مجموعی ما لا مال کرنے کی ہو نی چاہیے ۔‘‘
یونس غازی نے ہندوستانی اکیڈمی کے لسانی تصورات کی تفصیل کے ساتھ ساتھ مطبوعات میں بھی ان کے عکس کو اجاگر کیا ہے ۔انہوں نے یہ واضح کیا ہے کہ ہندوستانی اکیڈمی نے مطبوعات کی سطح پر موضوعات کے تنوع کا خیال رکھا ہے ۔ اور ہندی ادبیات کے شاہکاروں سے اردو داں طبقہ کو متعارف کرایا ہے ۔ تاریخ ‘تمدن ‘تجارت ‘سائنس اور مذہب وغیرہ کے متعلق گراں قدر کتابیں شائع کی ہیں ۔ ان مطبوعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنے ماہرین کی محنت اور مشورے سے کتابیں ترتیب دی گئی ہیں ۔ تاریخ ہند کے ازمنہ وسطی میں معاشرتی و اقتصادی حالات (علامہ عبد اللہ یوسف علی ) عرب و ہند کے تعلقات ( سید سلیمان ندوی ) ترقی زراعت (مولوی عبد القیوم )عالم حیوانی (برجیس بہادر ) علم باغبانی (وصی اللہ خاں ) دنیا کی موجودہ کساد بازاری کے اسباب (پروفیسر محمد حبیب الرحمن ) فلسفہ جمال ( ریاض الحسن ) انقلاب روس (کشن پرساد کول ) تاریخ فلسفہ سیاسیات ( محمد مجیب )انگریزی عہد میں ہندوستان کے تمدن کی تاریخ (علامہ عبد اللہ یو سف علی ) سلطان الہند محمد شاہ بن تغلق ( پروفیسر آغا مہدی حسین ) نفسیات فاسدہ ( پروفیسر میک ڈوگل کی انگریزی کتاب ابنارمل سائیکا لوجی کا ترجمہ )نظام شمسی (گورکھ پرشاد ) سلطان محمود غزنوی ( محمد حبیب ) معاشیات مقصد اور منہاج (ڈاکٹر ذاکر حسین ) افلاس ( ڈاکٹر انور اقبال قریشی ) ہندوستان کا قدیم تمدن ( ڈاکٹر بینی پر ساد ) ادھیاتم رامائن ( شری گوڑ نارائن )۔یہ ایسی کتابیں ہیں جو اس اعتراض کا مسکت جواب ہیں کہ اردو کا دائرہ صرف ادبیات تک محدود ہے اور سائنسی تکنیکی اور صنعتی علوم سے اس کا رشتہ نہیں ہوتا ۔ہندوستانی اکیڈمی نے جملہ علوم و فنون سے اپنا تعلق رکھا اورتراجم کی وساطت سے اردو کی علمی ثروت میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔
یونس غازی نے اس کتاب کے وسیلے سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ سنگم کی سرزمین الہ آباد میں واقع ہندوستانی اکیڈمی نے اردو ہندی دونوں زبانوں میں قربتوں کے لئے کیسی کیسی تدبیریں اختیار کیں ۔اس کی ایک شکل ذو لسانی رسالہ کی اشاعت بھی ہے ۔ہندوستانی اکیڈمی کا ایک بڑا کارنامہ اردو ہندی دونوں زبانوں میں تماہی رسالہ ’ہندوستانی ‘ ہے ۔جس کے پہلے ایڈیٹر مولوی اصغر حسین (اصغر گونڈوی ) تھے ۔ ان کے بعد مولوی سعید انصاری ‘ محمد رفیع ‘ محمد اجمل خاں ‘وہاج الدین خاں محزوں ‘پیر زادہ عبد الباسط اور محمد رفیع فاضلی جیسی شخصیتیں اس کی ادارت سے وابستہ رہیں ۔ اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں ڈاکٹر تارا چند ‘ڈاکٹر بینی پرشاد ایم اے پروفیسر سیاسیات الہ آباد یونی ورسٹی ‘مسٹر دھیریندر ورما صدر شعبہ ہندی الہ آباد یونی ورسٹی‘مسٹر محمد نعیم الرحمن لکچرر عربی و فارسی الہ آبادیونی ورسٹی ‘سید ضامن علی صدر شعبہ اردو الہ آباد یونی ورسٹی شامل تھے ۔ یہ رسالہ نہایت وقیع تھا اور اس میں لسانیات ‘تنقید ‘آثار قدیمہ ‘تاریخ ‘ادب و انشاء کے علاوہ دیگر موضوعات پر مضامین شائع ہوتے تھے ۔جنوری 1931 سے اس کی اشاعت کا آغاز ہوا ۔
یونس غازی نے ہندوستانی کے دستیاب شماروں کی فہرست دے کر ایک مفید کام کیا ہے ۔ مشمولات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے مضامین کتنی محنت سے لکھے جاتے تھے اور نئی جہتوں کی جستجو کی جاتی تھی ۔ان مضامین کا ایک انتخاب شائع ہو جائے تو یہ مفید علمی کام ہوگا ۔ کیونکہ ایسے مضامین اب نہیں لکھے جاسکیں گے ۔
آگرہ کی ہوائی رصد گاہ (کرشن چندر ) کیمیا گری اور علم کیمیا (رفعت حسین صدیقی ) اردو کا پہلا رسالہ ( محمد اظہار الحسن ) سید امیر علی میر ہتگامی (اقبال ورما سحر )صحرائے گوبی کے انکشافات (سعید انصاری)ہندوستان کے پرانے اخبار ۔فارسی اور اردو (عبد الستار صدیقی ) اردوشاعری میں ہندو کلچر اور ہندوستانی کے طبعی اور جغرافی اثرات (مولوی شاہ معین الدین احمد ندوی ) لارڈرتھر فورٹ (ڈاکٹر محمد ذکی الدین )اردو غزل اور اس کے چند نقائص (گنپت سہائے سریواستو )اگناتی کراچ کو فس کی (لطیف الدین احمد ) ہندی زبان اور مسلمانوں کا طبعی میلان (مولوی طاہر محسن علوی ) ضلع الہ آباد کے معماروں کی اصلاحیں (پروفیسر نعیم الرحمن) اس طرح کے اور بھی مضامین ہیں جو اس رسالے کی وقعت اور معنویت کا ثبوت ہیں ۔
تحقیق ایک نئی کھوج اور نئے انکشاف کا نام ہے ۔ اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو یونس غازی کے اس تحقیقی کام کی نوعیت انکشافی ہے ۔ انہوں نے ایک ایسے ادارہ کا انتخاب کیا جس سے زبانوں کی تقدیریں وابستہ تھیں بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ ملکی ادب کی تقدیر اس ادارہ سے جڑی ہوئی تھی ۔
یہ ادارہ متحرک ہوتا تو ہندی ہندو ہندوستان کا نعرہ بلند نہ ہوتا ۔ایک متحدہ ہندوستان ہوتا اور ایک مشترکہ زبان ہو تی ۔ ہندو احیاء پسند بات تو اکھنڈ بھارت کی کرتے رہے مگر ہندی زبان کی آڑ میں ہندوستان میں لسانی تقسیم کا بیج بوتے رہے ۔
یونس غازی نے بڑی محنت اورریاضت کے بعد ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد کے بارے میں جملہ تفصیلات حاصل کی ہیں ۔ یہ اگر اس طرف دھیان نہ دیتے تو بہت کچھ نذر طاق نسیاں ہو جاتااور لسانی تاریخ کا بہت نقصان ہوتا
ہندوستان کا لسانی تنازعہ ختم ہو نے والا نہیں ہے پھر بھی دونوں زبانوں کے سنجیدہ افراد کو مل جل کر بیٹھنا چاہیے اور اکیڈمی کے خطبہ ہائے صدارت کی روشنی میں نئی لسانی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے تاکہ مستقبل کی نسل تو لسانی کشیدگی سے کم از کم محفوظ رہ سکے ۔ عملی طور پر اب ایک بھاشا اورایک تمدن تو ممکن نہیں ہے مگر امید کی شمع جلائے رکھنے میں کو ئی قباحت نہیں کہ پتہ نہیں کب وقت کا رخ بدل جائے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ۔ شعوری طور پر نہ سہی ‘لا شعوری طریقے سے ہی کچھ ایسی تبدیلی ضرور آئے گی جو دونوں زبانوں کو بہت حد تک قریب کر دے گی ۔نئے ترسیلی ذرائع اس کی راہ ہموار کر رہے ہیں ۔ ہندی میں اردو لفظوں کا استعمال اور اردو میں ہندی شبدوں کا پریوگ اسی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ ڈاکٹر تا راچند نے بھی اسی تبدیلی کی طرف یوںاشارہ کیا تھا :’’اس وقت دیش پر چاہے ، جتنا گہرا اندھیرا چھایا ہو وہ سمے ضرور آئے گا جب اس کالی رات کی سیاہی دور ہو گی اور پریم و عقل کا سورج اودے ہو گا ‘‘۔
یو نس غازی کا مقا لہ اس کالی رات کا نوحہ بھی ہے اور سماجی لسانیات کی عدالت میں ’ہندوستانی ‘ کا استغاثہ بھی ہے ۔
یو نس غازی کا یہ تحقیقی مطالعہ قابل داد و تحسین ہے ۔ اس میں محنت کی خوشبو ہر وہ ہندوستانی محسوس کرے گا، جس کی قوتِ شامہ کسی طرح کی کثافت سے متاثر نہیں ہے ۔ہمارے عہد کو ایسی کتابوں کی ضرورت ہے، جو تاریک ذہنوں کو بھی روشن کر دے اوریہ کتاب یقینی طور پرایسی قوت سے معمور ہے ، اس میں روشنی کا بیش بہا خزانہ ہے۔
[email protected]
cell :9891726444