عصری سیاست،خودغرضی اورمفادپرستی کانام ہے۔بے اصولی،سیاست کاہنرہے۔اصول کے ساتھ سیاست نہیں ہوسکتی۔جوجتنابڑاخودغرض اورمفادپرست ہوگا،اتناماہرسیاست داں سمجھاجائے گا۔ دن گئے کہ لوگ سیاسی نظریات کی بنیادپرکسی پارٹی سے وابستہ ہوتے تھے،اب کوئی لیڈرکانگریس میں ہے توضروری نہیں کہ وہ ’کانگریسی‘ہو،کشتی ڈوبتی دیکھ کر’ملاح‘سفینہ بدل لیتے ہیں۔بات مسلم نمائندگی کی ہویاسیکولرزم کی سیاست کی تواس حمام میں سب یکساں ہیں۔کانگریس کی صف اول میں غلام نبی آزاد،احمدپٹیل،کے رحمن خان،سلمان خورشید اور طارق انورنظرآتے ہیں لیکن دوسری ،تیسری صف مسلم لیڈرشپ سے خالی ہے۔ کانگریس ہندونازبرداری کی سیاست پرگامزن ہے۔سخت گیرہندوتواکامقابلہ نرم ہندوتواسے نہیں کیاجاسکتا۔ملک کی سیاست اسی سمت چل پڑی ہے جدھرکی ہواہے۔ مسلم قیادت کسی پارٹی میں ہوتی ہے تو’سیکولر‘ہوتی ہے اورذرابے اعتنائی ہوئی،’مسلمان‘ہوجاتی ہے(یہی سب کچھ غلام نبی آزادکے معاملے میں دیکھنے میں آیا)جس طرح سیکولرپارٹیاں مفادات پرضرب لگتی دیکھ کرسیکولرزم کاراگ الاپناشروع کردیتی ہیں ۔مظفرنگرفسادات میں ایس پی حکومت کاکرداردیکھ لیجیے اوراب اس کاراگ سن لیجیے۔
بہارکاسیاسی منظرنامہ ہردن بدل رہاہے۔وفاداریاں اوربے وفائیاں انتخابی موسم کی روایتی چیزیں ہیں۔کوئی فرق نہیں پڑتاکہ کون کس طرف جارہاہے۔کشواہامودی سرکارمیں وزیررہے ہیں،لوک سبھاالیکشن میں ’سیکولر‘ہوگئے،اب وہ بیچ بیچ میں ہیں۔لوجپاکو’مودی سے بیرنہیں‘۔جیتن رام مانجھی ’اپمان ‘سہنے کے بعد پھرمحسن کی گودمیں بیٹھ گئے۔نتیش کمارنے مودی کی وزیراعظم کے طورپرنامزدگی کی مخالفت میں این ڈی اے کوچھوڑا،اب وہی ساتھ مل کر’وکاس ‘کی گنگابہانے کوتیارہیں۔اندازہ درست ہے کہ نتیش کمارکوکمزورکرنے کے لیے لوجپاکومیدان میں اتاراگیاہے۔لوک سبھاالیکشن میں بی جے پی کی بہترین کارکردگی(گرچہ وہ تیجسوی یادوکی حماقت سے کیوں نہ ہو)کے بعدریاستی اکائی کی طرف سے بی جے پی کو’آتم نربھر‘بنانے کی آوازاٹھنے لگی ۔لیکن فی الحال نتیش کے ساتھ الیکشن لڑنابی جے پی کی مجبوری ہے ۔چنانچہ برابرسیٹوں پراتفاق ہواکہ بی جے پی اپنے کوٹے سے لوجپاکونشست دے گی،اورجدیو،مانجھی کی ’ہم‘ کوسیٹ دے گی۔مانجھی چھے سات پرمان جاتے(جیساکہ ہوا،گرچہ چاران کے پریوارکے امیدوار ہیں،لیکن نتیش کمار’پریوارواد‘سے لڑرہے ہیں؟)اورپچیس تیس سیٹیں لوجپاکودینے کی صورت میں بی جے پی کے پاس نشستیں،جدیوسے کافی کم ہوجاتیں۔یہ صورت حال بی جے پی کے لیے ناقابل برداشت تھی ۔ لوجپاکوپہلے باہرکیاگیاتاکہ زیادہ سیٹیں نہ دینی پڑیں اورسہنی کواندرلیاگیاتاکہ کم سیٹ پرکام چل جائے اورجدیوکے ساتھ نشستوں اورووٹ بینک کاتوازن ٹھیک ٹھاک رہے۔پھرجدیوکے ووٹ میں سیندھ لگانے کے لیے لوجپاکواتاردیاگیا۔بی جے پی دونوں ہاتھوں میں لڈورکھناچاہتی ہے۔یعنی اگربی جے پی کی سیٹیں جدیوسے زیادہ آئیں تووہ اپنے وزیراعلیٰ کی دعوے داری ٹھوکے گی اور لوجپااورچھوٹی چھوٹی پارٹیوں اورآزادامیدواروں کی مددسے سرکاربناسکتی ہے۔آخرچراغ پاسوان کی امت شاہ اورجے پی نڈاکے ساتھ کئی میٹنگوں میں اورکیابات ہوئی ہوگی؟
’انترآتما‘کاحال تونہیں معلوم ،لیکن نتیش کمارکے لیے یہ صورت حال انتہائی شرمناک تھی،ان کی مجبوری ہے کہ مزدروں کی بے بسی،لاک ڈائون کی تباہ کاری،بے روزگاری اورسیلاب پرجدیوکے پاس جواب نہیں ہے چنانچہ پناہ لیناضروری ہے۔انتخابی ہنگاموں میں ’وکاس‘اورخصوصی ریاست کامدعانہیں رہے گا،البتہ رام مندر،دفعہ۳۷۰،سی اے اے کی آڑمیں چھپنے کاموقعہ مل جائے گا۔زمین کھسکتی دیکھ کرنتیش کمارنے بی جے پی کوآنکھ دکھائی۔خبرگرم ہے کہ وہ این ڈی اے کی پریس کانفرنس میں آنے کوتیارنہیں تھے ،بی جے پی کوصفائی دینی پڑی کہ’کرسی‘،کمارکے پاس رہے گی لیکن جنھیں ۲۱دن میں کوروناختم ہونے،جی ایس ٹی سے صر ف ایک ٹیکس لگنے اورنوٹ بندی سے کالادھن آنے پریقین نہیں ہے،انھیں اس وعدے پراعتمادنہیں ہے۔خودنتیش کمارکوبھی نہیں۔آخرابھی تک کھل کراعلان کیوںنہیں کیاگیاہے کہ لوجپاکواین ڈی اے سے باہرکردیاگیا؟اب لوجپاکے سیمبل پرآرایس ایس کے پرچارک سمیت بی جے پی کے متعددلیڈران اتارے گئے ہیں،بہانہ ٹکٹ نہ ملنے کاہے۔کہاجاسکتاہے کہ جدیوکی اصل حریف ، خودبی جے پی ہے۔نتیش کماریقیناََ اس کھیل کوسمجھ رہے ہیں۔ان کے ذہن میں’مہاراشٹر‘ ماڈل ہوگا۔وہ آسانی سے ’کرسی‘ نہیں چھوڑسکتے۔ویسے بھی کانگریس کے تئیں ان کارویہ نرم رہاہے اورراہل گاندھی کولالویادوکے مقابلے،نتیش کمارپسندہیں۔’سیکولر‘ثابت کرکے لیے کہاجارہاہے کہ بی جے پی ،نتیش کمارسے اپنے ایجنڈے پرکام نہیں کراپارہی ہے،اس لیے وہ انھیں ہٹاناچاہتی ہے۔ایسانہیں ہے، نتیش کمارنے کب بی جے پی کے ایجنڈے میں مددنہیں کی ہے؟اردوپربہارسرکارنے بڑاحملہ کیا،سی اے اے پرجدیونے ووٹ دیا،ماب لنچنگ ہوتی رہی،فرقہ ورانہ تشددسے کون واقف نہیں ہے؟بی جے پی کامقصداپناوزیراعلیٰ بناکرخودکفیل ہوناہے ۔اسے طنزسنناپڑتاہے کہ بہارمیں بی جے پی ’آتم نربھر‘نہیں ہے۔
تجزیہ کریں تولوجپاکے الگ ہونے سے پہلے این ڈی اے کی پوزیشن مضبوط تھی۔اب این ڈی اے میں بی جے پی مضبوط ہے،جدیوکمزورہوئی ہے۔ کمزوری کافائدہ اٹھاکرنتیش کمارکووزیراعلیٰ بننے سے روکاجائے گاتوجدیوکے جومسلم لیڈران نتیش کمارکے مبینہ’سیکولرچہرے‘پرووٹ مانگ رہے تھے،انھیں سوچناچاہیے۔این ڈی اے میں وزیراعلیٰ کاچہرہ اب غیرواضح ہے۔اسی لیے مسلمانوں کوجھانسے میں نہیں آناہے۔انھیں اپناایشونہیں چھوڑناہوگا،اردوپربہارسرکارکے حملے کویادرکھناہوگا،سی اے اے پرجدیوکی ووٹنگ نہیں بھولنی ہے۔کیوں کہ اگرجدیوکوووٹ دیاتوپیغام جائے گاکہ مسلمانوں کے ساتھ کچھ بھی کرلو،یہ قوم بھول جاتی ہے۔اس سے فرقہ پرستوں کوحوصلہ ملے گا۔بھول جانے کی یہی روایت بڑی بھول رہی ہے۔سوال معقول ہے کہ پھرکسے ووٹ دیاجائے؟متبادل کون ہے ؟(یہ سوال لوک سبھاالیکشن میں بھی پھیلایاجاتاہے کہ مودی نہیں توکون؟) سوال کاجواب اس وقت آسان ہوگاجب پہلے یہ طے کرلیں کہ کسے ووٹ نہیں دیناہے۔ حکمت عملی ہونی چاہیے کہ این ڈی اے کاکوئی امیدوارہو،ہرگزایک ووٹ نہ جائے(کچھ لوگ کہیں گے کہ جدیوکے مسلم امیدواروں کوجتایے،ان سے سوال ہے کہ مسلم ایم ایل اے نے اردوکی لازمیت ختم کرنے،سی اے اے پرووٹنگ،فرقہ ورانہ تشددپرکیااقدام کیا؟)اسی طرح چھوٹے چھوٹے ’موسمی گٹھ بندھن‘ بنے ہیں،ان کے چکرمیں ووٹ نہیں بربادکرنے چاہئیں۔مان کرچلیے،مقابلہ این ڈی اے بنام یوپی اے ہے،مہاگٹھ بندھن کمزورتھا،اوراین ڈی اے مضبوط تھا،اب این ڈی اے جزوی طورپر کمزورہواہے اورمہاگٹھ بندھن میں لیفٹ پارٹیوں کی انٹری کے بعدمضبوطی آئی ہے۔ہرسیٹ پرکچھ نہ کچھ ووٹ لیفٹ کاہے۔رہی بات کشواہا،مانجھی اورسہنی کے جانے کی تویہ لوگ گزشتہ الیکشن میں بھی یوپی اے میں نہیں تھے(بلکہ دواین ڈی اے میں تھے)لوک سبھاالیکشن میں سہنی خودنہیں جیت پائے۔پیروپیگنڈہ پھیلاجارہاہے کہ اپوزیشن کمزورہے۔یہ خاص انتخابی پلاننگ ہوتی ہے جیساکہ نیوزچینلزاوپنین پول کے ذریعے ماحول بناتے ہیں۔
اویسی،کشواہا،دیویندریادواورمایاوتی کاالائنس سامنے آیاہے۔مایاوتی جنھیں ہرذی شعوربی جے پی سے قریب پاتاہے،سے اویسی کااتحادکئی سوال کھڑے کررہاہے۔لکھ کررکھ لیجیے کہ مجلس کوکشواہابرادری،یادواوردلت کاووٹ نہیں ملے گا۔بہارمیں ذات پات پرووٹنگ ہوتی ہے لیکن مسلمان اورخاص کرمسلم پارٹی کے تئیں وہ ’ہندو‘ہوجائیں گے۔مسلمان ہرگزیہ غلطی نہ کریں کہ اس الائنس کی وجہ سے جوش میں اپنے ووٹ رالوسپا(کشواہا)یابی ایس پی کودے دیں۔ اتحادسے بی ایس پی ،رالوسپاکافائدہ توہے،مجلس کاکوئی فائدہ نہیں ہے۔ضرورت پڑی توکشواہاآسانی سے این ڈی اے میں چلے جائیں گے(جیساکہ گٹھ بندھن سے نکلنے کے بعدجانے کوبے تاب تھے)مایاوتی راجستھان کابدلہ لینے کے لیے پریشان ہیں۔اس الائنس سے متعلق منصوبہ ہوناچاہیے کہ جہاں رالوسپا،بی ایس پی کے امیدوارہوں گے وہاں انھیں ووٹ نہیں کریں گے اورجہاں مجلس کے امیدوارہوں گے وہاں جیتنے والے مجلس کے امیدوارکوجتائیں گے۔دوسری بات کہ مجلس اگرزیادہ سیٹوں پرلڑتی ہے تومزیدتجربہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے،اس سے بی جے پی کوفائدہ ہوگا،ہاں دس سیٹیں منتخب کرلی جائیں،ان منتخب سیٹوں پرمجلس کوووٹ دیاجائے،مثلاََاخترالایمان،قمرالہدیٰ کی نشستیں۔مجلس اگرپانچ سات سیٹیں بھی لاتی ہے توبڑی کامیابی ہوگی،تیجسوی کی ایٹھن ٹھیک کرنے کے لیے مجلس کاکچھ سیٹوں پرجیتناضروری ہے۔سچ ہے کہ راجدکی پالیسی سطحی رہی ہے۔وہ یادوکی نازبرداری کرتی رہی ، چاہے ٹکٹ کی تقسیم ہویاوزارت میں نمائندگی دینی ہو۔بہار میں یادوآبادی ،مسلمانوں کے قریب قریب ہے(یادرہے کہ لوک سبھاالیکشن میں یادو نے راجدکودھوکہ دیا)جب ٹکٹ نہیں دیں گے توکہاں سے مسلم نمائندگی ہوگی۔ ۲۰۰۰ میں یادوممبران اسمبلی کی تعداد۶۴تھی اور۲۰مسلمان کامیاب ہوئے،۲۰۰۵ میں۵۴ یادوممبران ،اسمبلی پہونچے جب کہ صرف ۱۶مسلمان جیتے اور پھر۲۰۱۰ میں لالوکی برادری کی تعداد۳۹ ہوگئی،اس الیکشن میں صرف ۱۹مسلم ممبران اسمبلی کامیاب ہوئے پھر۲۰۱۵میں یادوئوں کی تعداد بڑھ کر۶۱ ہوگئی۔جب کہ ۲۴مسلمان کامیاب ہوئے،جن میں ۱۲آرجے ڈی،۶کانگریس،۵جے ڈی یواورایک سی پی آئی سے تھے۔۲۰۱۵ کے اسمبلی الیکشن میں آرجے ڈی نے ۱۰۱ سیٹوں میں ۴۸ نشستوں پر یادوؤں کو ٹکٹ دیاتھا۔ان میں سے ۴۲ فاتح ہوئے۔ابھی بھی تیجسوی یہی کررہے ہیں۔جدیو نے بھی ایک سوپندرہ میں صرف گیارہ مسلم امیدوار اتارے ہیں-ہوسکتاہے کہ یادوئوں کوزیادہ ٹکٹ دینابہارکے تناظرمیں ہرپارٹی کی مجبوری رہی ہو،لیکن جس طرح اتنے کم مسلم امیدواراتارے جاتے ہیں،اس سے سیکولرپارٹیوں پرسوال بجاہے۔سچ ہے کہ لالویادونے بھی ہمیشہ مسلم سیاسی لیڈرشپ کودبایاہے۔اس لیے احتساب ہوتے رہناچاہیے،کمی یہ رہی کہ ہم نے سوال نہیں پوچھا،ان کااحتساب نہیں کیا۔ووٹ دیں،احتساب بھی کریں،بھارت کی سیاست میں ریاستی سطح پرپریشرگروپ، مسلم پارٹی سے زیادہ اہم ہیں۔فی الحال فرقہ پرستوں کواقتدارسے روکنے کے لیے ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔ہوسکتاہے کہ آپ کے علاقے میں گٹھ بندھن نے جسے ٹکٹ دیاہو،اس کے مقابلے جدیوکاامیدواراچھاہو،لیکن اپنے علاقوں اورذاتی تعلقات کی بجائے پوری ریاست اورملک کی صورت حال کودیکھناچاہیے۔اگرہرعلاقہ کے لوگ یہی دیکھتے رہے توسوچیے، نتائج کیاہوں گے ۔
خلاصہ یہ کہ پہلے طے کرلیں کہ ووٹ کسے نہیں دیناہے ،پھریہ سمجھناآسان ہوگاکہ کسے دیناہے ۔علاقائی پارٹیوں(جیسے رالوسپا،لوجپا،چندرشیکھرکی آزادسماج پارٹی،پرکاش امبیڈکرکی وی بی اے ،پپویادوکی جن ادھیکارپارٹی،بی ایس پی)کے چکرمیں ہرگزنہ پڑیں،چاہے جتنااچھاامیدواریاشیریں زبان لیڈرہو۔ورنہ ووٹ تقسیم ہوگا،اگراس حکمت عملی پرچلاجائے تومقابلہ آمنے سامنے کاہوگا۔جہاں سہ رخی مقابلہ ہوا،این ڈی اے بازی لے جائے گا،مقابلہ سہ رخی ہونے نہیں دیناہے،بی جے پی کی بھرپورکوشش یہی ہے۔اس کے بعداین ڈی اے امیدوارکوہرانے والے امیدوارپرتوجہ دی جائے۔کانگریس،راجدیالیفٹ پارٹیوں کاکوئی امیدوارہو،اسے ووٹ دیں،علاقے کے پسندکے امیدواریاذاتی تعلقات کودیکھیں گے توتقسیم کااندیشہ ہے،ملک اورریاست کی سمت اورسیاست کودیکھیں۔ہاں اپنی موجودگی اورسیکولرپارٹیوں کواحساس دلانا ضروری ہے ،اس لیے مجلس کی صرف دس سیٹوں کاانتخاب کرلیں۔اس سے زیادہ پرتجربہ مضرہوگا۔ویسے بھی اپنے گھراورگڑھ تلنگانہ میں وہ سات آٹھ سیٹوں پرلڑتی ہے۔عوام کو اورخودمجلس کوبھی تلنگانہ ماڈل اپناناچاہیے۔جوش میں ہوش نہیں کھوناہے بلکہ تقسیم سے بچتے ہوئے بیچ کی راہ نکالنی ہے۔بہارنے ہمیشہ ہوش کوسنبھالے رکھاہے،یہ مٹی سیاسی سوجھ بوجھ کے لیے اپنی پہچان رکھتی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)