نئی دہلی:جواہرلال نہرویونیورسٹی(جے این یو)کے سابق طالب علم عمرخالدکو22اکتوبرتک عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا ہے۔ عمرخالدکودہلی پولیس کے خصوصی سیل نے یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا ہے۔انھیں 13 ستمبر کوگرفتارکیاگیاتھااور 24 ستمبر تک 10 دن کی پولیس تحویل میں بھیج دیا گیا تھا۔اس سے قبل عدالت نے عمر خالد کی وہ درخواست مسترد کردی تھی جس میں انہوں نے پولیس تحویل کے دوران اپنے اہل خانہ سے ملنے کی اجازت طلب کی تھی۔خالدکو انسداد دہشت گردی کے سخت قانون ، غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔عمرخالد نے عدالت سے رجوع کیا تھا جس میں درخواست کی تھی کہ وہ اپنے اہل خانہ سے دودن 30 منٹ کی مدت کے لیے ملاقات کی اجازت دے۔عدالت نے جیل لے جانے سے اہل خانہ سے ملنے کی اجازت دی ہے۔
جے این یو
سینٹرل یونیورسٹیز کی درجہ بندی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کوملا پہلا مقام،جے این یو تیسرے اور اے ایم یو چوتھے نمبر پر
نئی دہلی:مرکزی وزارت تعلیم نے سنٹرل یونیورسٹی کی درجہ بندی کی فہرست جاری کردی ہے۔ جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نے پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ جامعہ نے 90 فیصد اسکور کے ساتھ رینکنگ میں پہلا نمبر حاصل کیا ہے۔ جامعہ ملیہ نے اس معاملے میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جامعہ کے بعد اروناچل پردیش میں واقع راجیو گاندھی یونیورسٹی دوسرے نمبر پر ہے۔ راجیو گاندھی یونیورسٹی نے 83 فیصد اسکور حاصل کیا ہے۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی تیسرے نمبر پر آگئی ہے۔ جے این یو کو 82 فیصد اسکور ملا ہے۔ جبکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے 78 فیصد اسکور کے ساتھ چوتھی پوزیشن حاصل کی ہے۔ بتادیں کہ یونیورسٹیوں کی تشخیص 2019-20 میں طے شدہ ایم او یو کے مطابق کی گئی ہے۔ سنٹرل یونیورسٹی کی درجہ بندی میں تشخیص کئی پیرامیٹرز پر مبنی تھی۔ جس میں مختلف کورسز ،یو جی ، پی جی ، پی ایچ ڈی میں طلبا کی تعداد اور جنسی تناسب بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ کیمپس پلیسمنٹ بھی اس انتخاب کی بنیاد تھی۔ یہ رینکنگ ان طلبا کی بنیاد پر بھی تیار کی جاتی ہے جو نیٹ اور گیٹ امتحان میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ سنٹرل یونیورسٹیوں میں پہلا مقام حاصل کرنے پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر نے کہا کہ یہ کارنامہ بہت اہم ہے ، کیوں کہ حالیہ دنوں میں جامعہ ایک مشکل وقت سے گذرا ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی کے اعلی معیار کے تدریسی و تحقیقی ماحول کو اس کامیابی کی وجہ قرار دیاہے ۔
ترجمہ:نایاب حسن
مودی حکومت کے ذریعے لائے گئے نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاجات کی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں،جن سے مسلمانوں کے تئیں روایتی سوچ کا خاتمہ ہورہاہے۔اس بار علمااور مذہبی شخصیات قیادت نہیں کررہی ہیں؛بلکہ قیادت کرنے والے نوجوان اور گھریلوخواتین ہیں۔یہ احتجاج خالص مسلمانوں کابھی نہیں ہے،جیساکہ ماضی میں سلمان رشدی،تین طلاق یا تسلیمہ نسرین کے معاملوں میں دیکھاگیاتھا،اس کے برخلاف یہ ایک نئی ہمہ گیر تحریک ہے،جس میں جامع مسجد کی سیڑھیوں سے شاہی امام کی بجائے چندشیکھر آزاد خطاب کررہاہے۔تمام طبقات و مذاہب کے طلبہ ساتھ مل کر”آزادی“کا غیر فرقہ وارانہ نعرہ لگارہے ہیں۔تمام مظاہرین کی ایک اہم اور توانادلیل یہ ہے کہ جب دستور وآئین کے مطابق قانون کی نظر میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت حاصل ہے،توہندوستانی پارلیمنٹ اکیسویں صدی میں کوئی بھی قانون سازی کرکے اس دستور میں مذہبی تفریق کا عنصر داخل نہیں کرسکتی۔
ان مظاہرین کے پاس ایک مضبوط ہتھیارہے اوروہ ہے ہندوستانی آئین کا”دیباچہ“۔کپڑے اور طرزِپوشش کا اختلاف یہاں معنی نہیں رکھتا،جینز،جیکٹ اور حجاب سب ساتھ ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی خواتین یا بنگلور کی سافٹ ویئر پروفیشنلزیا جامعہ کے طلبہ و طالبات کاپرانے مظلومیت و متاثرہونے کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی بجائے ان محب وطن ہندوستانیوں کی جانب سے پوری توانائی اور طاقت کے ساتھ برابری کے حقِ شہریت کا اظہار کیاجارہاہے۔
مظاہروں کے مقامات پر آپ کو ایسے بچے اور جوان نظر آئیں گے، جنھوں نے اپنے چہروں پرہندوستانی ترنگانقش کروا رکھاہے،ایسے مناظر عموماً ہندوستان کے کرکٹ میچوں یا یومِ آزادی کے موقعے پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔شاہین باغ میں ایک انڈیاگیٹ اور ہندوستان کا ایک عظیم الشان نقشہ بنایاگیاہے۔آزادی کے ہیروگاندھی،بھگت سنگھ،امبیڈکر اور مولانا آزاد کی تصویریں ایک قطار میں لگائی گئی ہیں۔ان سب کو ایک ساتھ دکھانے کا آئیڈیا(جوکہ روایتی سیاست دان نہیں کرتے)ہی اس احتجاج کو نظریاتی طورپر منفرد بناتاہے۔
حیدرآبادمیں اسداالدین اویسی ترنگا ریلی نکال رہے ہیں اور یوم جمہوریہ کے موقعے پر چار مینارکوترنگاسے روشن کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ممبئی میں دھاراوی کی جگی جھونپڑیوں میں رہنے والے مسلمان اپنے مراٹھی پڑوسیوں کے ساتھ مل کر قومی گیت گارہے ہیں۔مجلس کے لیڈر وارث پٹھان نے پوری قوت کے ساتھ کہاکہ دوسرے لوگ بھلے ہی آسٹریلیا،امریکہ ہجرت کرجائیں مگر اس ملک کے مسلمان اپنے پیارے وطن ہندوستان کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے۔
ایک سوال ہوسکتا ہے کہ کیامسلمان ڈرکے مارے اپنی حب الوطنی کا اظہار کررہے ہیں؟بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ وطن سے محبت ووفاداری کا اظہار واعلان یقینی طورپر وہی چیز ہے، جس کا بی جے پی شروع سے مطالبہ کرتی رہی ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے،وہ کھل کر اپنے خلاف ہونے والے تعصب کو چیلنج کررہے ہیں؛بلکہ وہ کسی بھی دقیانوسیت اور بھدی تصویر کشی کو صریحاً مسترد کررہے ہیں۔ساتھ ہی دیگر محب وطن افراد کے ساتھ صف بستہ ہونے کے لیے لوگوں میں بین المذاہب بھائی چارے اور یکجہتی کا شوقِ فراواں پیدا ہورہاہے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص کاکہناہے”اب بہت ہوچکا ہے۔کیاہم ایودھیا فیصلے پر خاموش نہیں تھے؟کیاہم اس وقت بھی خاموش نہیں تھے، جب مویشیوں کی تجارت کے نئے قانون کے ذریعے ہمارے کاروبارکو نقصان پہنچایاگیا؟کیاہم اس وقت بھی چپ نہیں تھے، جب ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو وفاقی خطے(یونین ٹیریٹری) میں بدل دیاگیا؟کیاہم نے اپنی مسلسل ہتک کے باوجود امن وامان کی باتیں نہیں کیں؟مگراب جبکہ ہماری شہریت کو چیلنج کیاگیاہے،تو ہمیں اپنی مادرِ وطن سے مضبوط انتساب کے اظہاراورحکومت کے تئیں شدید ناراضگی جتانے میں کوئی جھجھک نہیں ہے“۔
یہ آواز صرف اکثریت پسندی کے خلاف نہیں ہے؛بلکہ ساتھ ہی یہ خود مسلمانوں کے ان دانشوروں (مثلاً ماضی قریب میں سید شہاب الدین)کے بھی خلاف ہے،جو ہندوستانیت کی بجاے مسلم شناخت پر زوردینے کی کوشش کرتے ہیں؛چنانچہ شاہین باغ کے احتجاج میں ”ہندوستان کے چارسپاہی- ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی“جیسے نعرے تواتر کے ساتھ لگ رہے ہیں، جس سے یہ تیقن حاصل ہوتاہے کہ بین المذاہب اشتراک و اتحادکے ذریعےہی ایک حقیقی طورپر آزادہندوستان کی تعمیر و تشکیل ہوسکتی ہے۔
یوپی،مغربی بنگال اور منگلورومیں تشدد کے واقعات اور انتہاپسندانہ سیاست کی وجہ سے اس تحریک کے اخلاقی وقار کوکچھ ٹھیس پہنچی تھی ،مگر زیادہ تر احتجاجات تاحال پرامن ہیں اور ممکن ہے ان سے مخلصانہ وپرامن سول تحریک کے تئیں ایک بار پھر سے لوگوں کااعتمادویقین لوٹ آئے۔اب ذمے داری اکثریتی طبقے کی ہے،کیاسبھی ہندواس دستوری لڑائی میں شامل ہوں گے اور سیاست دانوں کے ذریعے کیے گئے اس دقیانوسی پروپیگنڈے کو ناکام ثابت کریں گے کہ ”مظاہرین اپنے کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں“؟
بی جے پی نے برطانوی استعمار کا لغت اپنالیاہے۔ایک تحقیقی کتاب‘Beyond Turk and Hindu’میں یہ بتایاگیاہے کہ کس طرح استعماری دورِ حکومت میں محکمۂ شماریات کے افسران نے ہندوستانیوں کوواضح طورپر”مسلم“اور ”ہندو“کے طبقوں میں تقسیم کیا۔اس سے پہلے برصغیر “Islamicate” اور“Indic”لوگوں کی آمدورفت کے لیے یکساں وسعت رکھتا تھا۔ان مظاہروں نے ان پرانے اشتراک و تعلقات کو زندہ کردیاہے اور مسلمانوں کے اس دعوے کو مضبوط کردیاہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ان کی حصے داری نہایت پرانی ہے۔
ان احتجاجات کومسلم ایشوکے طورپر دیکھنا غلط ہے،اسی طرح مظاہرین کے لیے بھی غلط ہوگاکہ وہ ”شناخت کی سیاست“کے تنگنائے میں منحصر ہوکررہ جائیں۔یہ وقت نئے دستوری اقدارکی بازیابی کے لیے جدوجہد اور دوقومی نظریے کوپوری قوت سے مسترد کرنے کاہے۔فی الحقیقت یہ مظاہرے اکثریت -اقلیت کی تقسیم سے ماورا ایک نئی سرگرم مسلم سٹیزن شپ کے ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں؛کیوں کہ اس تحریک کے ذریعے طاقت ورانداز میں یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کسی بھی اعتبار سے اس ”دیش بھگتی“سے کم نہیں ہے،جس کا ہندووں کودعویٰ ہے۔ان احتجاجات میں پوری قوت سے یہ احساس ابھر کرسامنے آرہاہے کہ:فخرسے کہو،ہم ہندوستانی مسلم ہیں!
(بہ شکریہ روزنامہ ٹائمس آف انڈیا)
تجمل حسین راحت
ریسرچ اسکالر جے این یو
ملک کی کئی یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ دیش کی دو سب سے بڑی اور مشہور یونیورسیٹیزجے این یو اور ڈی یو اپنے اپنے مطالبات کیلیے اسٹرایک پر ہیں، جے این یو کے طلبہ فیس میں بے پناہ اضافہ کے خلاف ایک مہینے سے زاید عرصے سے احتجاج کر رہے ہیں ـ اب تو انہوں نے سمیسٹر اگزام کا متفقہ طور پر بائکاٹ بھی کر دیا ہے، یعنی سر کار جے این یو کے طلبہ کے مسائل کو ابتک حل کرنے میں ناکام رہی ہے، معاملہ صرف طالب علم کا ہی نہیں ہے سرکار کی پالیسی سے اساتذہ بھی خوش نہیں ہیں، دہلی یونیورسٹی میں تقریباً ساڑھے چار ہزار ایڈہاک ٹیچر ہیں جنکی مستقل ملازمت تو نہیں ہے مگر ایڈہاک ہونے کی وجہ سے تنخواہ ٹھیک ٹھاک مل جاتی تھی اب ایک سرکلر جاری کرکے بتایا گیا ہے کہ اب ایڈہاک ٹیچروں کی تقرری نہیں ہوگی بلکہ وہ گیسٹ فیکلٹی رہ کر خدمات انجام دیں گے یعنی وہ کالج میں مہمان ٹیچر کی حیثیت سے آئیں گے پڑھائیں گے اور جتنی کلاس لینگے اس کے مطابق پیسے ملیں گے، یعنی پھر سے گرو دیو کا مستقبل غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہوگا ـ گیسٹ فیکلٹی ہونے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ کالج کے پرنسپل اور شعبہ کے صدر کی جی حضوری میں ذرا سی کمی آنے پر گھر کا راستہ بھی دکھا یا جا سکتا ہے، اب ٹیچروں کی اتنی بڑی تعداد کے مستقبل کو خطرے میں دیکھ کر دہلی یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن نے جم کر احتجاج کیا وائس چانسلر کےآفس کا گھراؤ کیا اور پوری رات آفس کے باہر دھرنے پر بیٹھے رہے صبح جب وائس چانسلر سے کسی طرح ملاقات ہوئی تو انہوں نے انکے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا جس پر اساتذہ کا اسٹرائک اب تک جاری ہے انہوں نے اگزام کی نگرانی، اور کا پی چیک کرنے سے بھی منع کر دیا ہے یعنی جے این میں طلبہ نے اگزام کا بائکاٹ کیا اور ڈی یو میں اساتذہ نے.، پڑھنے پڑھانے کا پورا سسٹم تھپ پڑا ہے مگر سرکار اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے اور یہ سارا بحران پیسے کی وجہ سے ہو رہا ہےـ جے این یو میں بھی جم کر فیس بڑھائی گئ تاکہ طلبہ کے پیسے سے خزانہ بھرے اور ڈی یو میں بھی ایڈہولاک کو گیسٹ بنایا جا رہا ہے تاکہ کم پیسے میں نپٹا دیا جائے، بظاہر تو لگ رہا ہے کہ ملک شدید مالی بحران کا شکار ہے جسکی وجہ سے سرکار طلبہ و اساتذہ کے مستقبل سے کھلواڑ کرکے بھی ملک کے وجود کو بچانا چاہ رہی ہے مگر جیسے ہی NRC اور CAB کا معاملہ سامنے آتا ہے تو اس کی نیت اور اور اس سے زیادہ اسکی عقل پر ماتم کرنے کا دل کرتا ہے، ایک ایسا معاملہ جو آئین کے سراسر خلاف ہے یعنی مذہبی بنیاد پر کسی کو شہریت دینا اور مذہبی بنیاد پر کسی کو غیر ملکی قرار دےکر ڈیٹینشن سینٹر میں قید کر دینا، وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں ایک بڑی تعدادغریب، مزدور اور جاہل عوام کی ہے جنہیں کھانے کو کھانا نہیں تن ڈھکنے کو کپڑے نہیں اور جہاں ہر سال آنے والے سیلاب میں ہزاروں لوگ اپنی جان گنوا دیتے ہیں، ایسے ناقص سسٹم میں رہنے والے افراد سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے باپ دادوں کے دستاویزات دکھا کر اپنی شہریت ثابت کرو اور اس شہریت ثابت کرنے کے کھیل میں سرکار تقریباً80 ہزار کروڑ روپیہ خرچ کرنے کی حماقت کا ارادہ رکھتی ہے، یہ بل آئین مخالف اور ملک مخالف ہے اسلئے تمام لوگوں کو اسکا بائکاٹ کرنا چاہیےـ
حیدر آباد سے آئی انکاونٹر کی خبر اور اس پر جذباتی و سطحی فہم والے ہندوستانی عوام کی خوشی اور رد عمل پر بھی ماتم ہی کیا جا سکتا ہےـ ایک جمہوری ملک میں قانون کے سارے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر ملزم کو گولی مار دی جاتی ہے اور عوام بغلیں بجاتے ہیں کہ واہ واہ پولس بہادر ہے، بہادری تو اس وقت ہوتی کہ قانون کی بالا دستی ہوتی، سسٹم سخت ہوتا کہ ایسا حادثہ ہی پیش نہ آتا، فریب خوردہ جذباتی ہندوستانی عوام کو پتہ ہی نہیں کہ ایک جمہوری ملک کے کیا تقاضے ہوتے ہیں ـ