ڈاکٹر محمد شاہد اعظمی
یوں تو بچپن سے ان گنت جنازے میں شرکت ہوئی ہے مگر استاذ محترم پروفیسر فیضان اللہ فاروقی رحمہ اللہ کے جنازے میں شرکت کچھ مختلف اور خاص رہی۔ احتیاط اور خدشات، حالات اور ان سے تعلقات کی بنا پر انتقال کی خبر سن کر جنازے میں شرکت کو لے کر کشمکش میں تھا۔ دوستوں کو فون کیا کہ شاید وہ شرکت کریں تو میری بھی ڈھارس بندھے، مگر ان کے مخلصانہ مشوروں سے خدشات میں اضافہ ہی ہوا۔ صرف دو دوستوں ڈاکٹر عزیز الرحمن اور ڈاکٹر محمد تابش خان کی رائے تھی کہ آپ دلی میں ہیں لہذا احتیاطی تدابیر کے ساتھ ضرور شرکت کریں۔ دو ماسک لے کر جائیےگا۔ گاہے بگاہے ہا تھ سینیٹائز کرتے رہیے گا اور تدفین سے فارغ ہو کر پہلا ماسک پھینک دیجئے گا اور دوسرا نیا پہن لیجئے گا۔ ان کی اتنی باتوں سے مجھے کافی تقویت ملی۔
تدفین کا وقت 3 بجے دوپہر میں طے تھا۔ دو بجکر بیس منٹ پر گھر سے نکلا اور دو بجکر پچپن منٹ پر آئی۔ ٹی۔ او قبرستان پہنچ گیا ۔آٹو سے اترا تو میرے پیچھے ایک اور آٹو آکے رکا جس میں سے دو بزرگ اترے ان کو سلام کیا اور پوچھا کہ پروفیسر فیضان اللہ فاروقی صاحب کے جنازے میں شرکت کے لئے آئے ہیں جواب ملا ہاں۔ پھر ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ اس طرح کے جنازے میں پہلی بار آئے ہیں؟ تو بولے نہیں یہ کورونا جنازے میں تیسری شرکت ہے۔ بزرگوں کے جواب، ان کی ہمت اور حوصلے سے مجھے تھوڑی اور تقویت ملی۔
جدید قبرستان سے ہوتے ہوئے کورونا قبرستان بھی پہنچ گئے۔ وہاں چند قریبی لوگ پہلے سے موجود تھے۔ عرفان وغیرہ کو نہ دیکھ کر ثانی کو فون کیا تو پتہ چلا کہ ایمبولینس اور وہ لوگ جام میں پھنسے ہوئے ہیں۔ قبر کے قریب ایک JCB کھڑی تھی پوچھنے پر پتہ چلا کہ کورونا قبر کی کھدائی اسی مشین سے ہوتی ہے۔ کورونا قبر قبر نہیں بلکہ چھ فٹ لمبا اور دس فٹ گہرا ایک گڑھا تھی۔ بالآخر سوا تین بجے ایمبولینس نمودار ہوئی اور نہ جانے کیوں دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ ایمبولینس کے پیچھے ایک اور کار تھی جس میں جیتر علماء ہند کے ایک ذمہ دار اور ان کے دو معاونین تھے جو اپنی نگرانی میں نماز جنازہ اور تدفین وغیرہ کا عمل انجام دیتے ہیں۔ ایمبولینس کی اگلی سیٹ سے ایک اور پیچھے سے دو لوگ اترے فورا کِٹ اتارا ایک مخصوص گڈھے میں اسے ڈالا پھر انہیں سو میٹر کی دوری پر سینیٹائز کیا گیا۔
جیتو علماء ہند کی یوتھ ونگ کے چار ممبران اور استاذ محترم کے دونوں بیٹوں نے PPE کِٹ پہنی اور میت کو ایمبولینس میں ہی رکھے رکھے نماز جنازہ ادا کی گئی۔ نماز جنازہ چھوٹے صاحبزادے ابو طلحہ فاروقی نے پڑھائی۔ اس کے بعد میت کو لکڑی کے ایک مخصوص تابوت میں پیک کرکے PPE کِٹ میں ملبوس لوگوں کی مدد سے قبر میں اتارا گیا۔ جنازے میں تقریبا 55 لوگوں نے شرکت کیا۔ جمعیت یوتھ ونگ کے ایک ممبر سب کو ایک ایک جوڑی پلاسٹک دستانہ تقسیم کر رہے تھے جسے پہن کر لوگ ایک ایک کر کے تین تین مٹھی مٹی ڈال رہے تھے۔ سب کے فارغ ہونے کے بعد JCB نے پانچ منٹ میں باقی کا کام مکمل کر دیا۔ سب سے اخیر میں دعا ہوئی۔ یعنی قبر سے پچاس میٹر دور کھڑے ہو کر لوگوں نے میت کے حق میں دعاء مغفرت کی۔ میں نے بھی چاروں قُل پڑھ کر استاذ محترم کے حق میں دعا کی۔ پھر اپنے دوست پروفیسر جمال موسی صاحب کی کار میں بیٹھ کر واپس آگیا۔ اور شہر کے کئی بھیڑ بھاڑ والے علاقوں سے گزرا مگر کہیں بھی سوشل ڈسٹینسنگ دیکھنے کو نہیں ملی۔
آخر میں ایک بات اور عرض کردوں کہ ہم لوگ جولائی کے چوتھے ہفتے میں داخل ہوگئے ہیں۔ اَن لاك کی پرکریا شروع ہوگئی ہے، مگر قضاء و قدر پہ ایمان رکھنے والوں کے دل میں دہشت ابھی بھی مارچ کے چوتھے ہفتے والی ہے۔ تجہیز و تکفین اور تدفین کا سارا عمل جمعیت علماء ہند کے ممبران انجام دیتے ہیں۔ پلاسٹک کا دستانہ پہن کر مٹی ڈالنے کا حوصلہ اور ہمت پیدا کریں۔ اس سے دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔ ایک بار کی شرکت سے دل سے خوف بھی جاتا رہے گا ان شاء اللہ۔