عبدالباری قاسمی
ریسرچ اسکالر شعبۂ اردودہلی یونیورسٹی
مورخین اور اہل علم حضرات نے جغرافیائی اعتبار سے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کیاہے مشرق اورمغرب ،مغرب بول کر یورپ مرادلیا جاتا ہے اور مشرق سے ایشیا،دنیا کے اس خطے میں بہت سی زبانیں بولی جاتیں ہیں، مگر خاص علمی اور ادبی زبانوں میں عربی، فارسی ، سنسکرت ، چینی،جاپانی، ترکی اور اردو کو شامل کیا جاتا ہے، اردو تنقید کے حوالہ سے جب گفتگو ہوتی ہے تو عام طور پر سنسکرت ، عربی اور فارسی زبانوں کے پیش نظر ہوتی ہے،عربی اور فارسی تو اس لیے کہ اردو کے بہت سے اصنافِ سخن انہیں زبانوں سے منتقل ہو کر اردو میں آئے ہیں اور سنسکرت اس لیے کے پراکرت اور مقامی زبانوں کے زیر اثر ہی اردو پروان چڑھی ہے، مشرقی زبانوں کا جب ہم گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانہ سے یہاں کی زبانوں میں تنقید کا رواج رہا ہے اور خاص طور پر عربی، سنسکرت، چینی اور جاپانی زبانوں میں تنقید کا سلسلہ عہد قدیم میں ہی شروع ہو چکا تھا، مشرقی تنقید کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ’’ یہ شاعری کی ہیئت ، الفاظ کی چکا چوند اور شاعری کے فنی محاسن سے تعلق رکھتی ہے‘‘، پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے لکھا ہے کہ ’’مشرقی شعریات یا مشرقی تنقید وہ ہے جو اردو پر سنسکرت ،عربی اور فارسی کے اثرات سے برگ و بار لائی‘‘۔ مشرقی تنقید بنیادی طور پرکسی خاص زاویۂ نگاہ پر زورنہیں دیتی ، بلکہ اس میں جذبہ و احساس ، الفاظ کی قدرو قیمت روز مرہ، محاورہ ، تشبیہ، استعارہ ،اشارے ، کنایے اور تلمیحات کو پیش نظر رکھ کر فن پارہ کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ سنسکرت کے اہم تنقید نگاروں میں بھر ت منی، آنندور دھن اور ابھینو گیت وغیرہ ہیں، عربی میں محمد بن سلام الحجمی، قتیبہ، قدامہ بن جعفر، جاح، ابن رشیق، ابن المعتز اور ابن خلدون اہم ہیں ، فارسی میں امیر عنصر المعالی کیکاؤس، نظامی عروضی، رشید الدین و طواط اور شمس قیس رازی وغیرہ اہم ہیں جبکہ اردو تنقید نگاروں میں محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالیؔ ، شبلی نعمانی اور عبد الرحمن بجنوری وغیرہ اہم ہیں یہ حضرات مشرقی نقطۂ نظر سے ہی تنقید کرتے تھے، مشرقی تنقید اور خاص طور پر اردو کے متعلق یہ مشہور ہے کہ اردو تنقید کی ابتداء مغرب کے زیر اثر ہوئی، یہ بات یہاں تک تو درست ہے کہ مشرق میں پہلے باضابطہ تنقیدی نظام نہیں تھا، حالی نے مغرب کے باضابطہ تنقیدی نظام سے متا ثر ہوکر اردو میں با ضابطہ تنقیدی نظریات کی بنیاد رکھی، مگر یہ بات بھی مسلم ہے کہ حالیؔ نے مقد مہ شعر وشاعری کی بنیاد مشرقی تنقیدی نظریات پر رکھی ہے، البتہ انہوں نے بطور مثال مغربی علماء کا بھی نام پیش کیا ہے ہم اس مقالہ میں تفصیل سے مشرقی تنقیدکی بنیاد وں اور ان نظریات پیش کرنے والے علماء ،پر گفتگو کریں گے۔
چینی زبان میں تنقید: تنقیدی تصورات کے جو اہم گہوارے ہیں ان میں چین کو بھی اہم مقام حاصل ہے، اس سلسلہ میں محمد حسن نے لکھا ہے کہ تنقیدی تصورات کے تین اہم گہوارے ہیں (۱)چین(۲)ہندوستان اور(۳)مغربی ایشیاء‘‘ چینی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے، اس کا رسم الخط تصویری ہے یعنی ہر لفظ ، کسی واقعہ یا کسی کیفیت کی تصویر ہے یا اس کا علامتی اظہار ہے، چین میں چھٹی صدی قبل مسیح، ہی کلاسیکی ادب کی شروعات ہو چکی تھی اس کے اولین ادبیات تین حصوں پر منقسم ہیں (۱)شیہہ چنگ (گیت) (۲)شوچنگ (تاریخی تحریریں)(۳)اورائی چنگ(مذہبی ادب) چینی ادب میں لکھی جانے والی قدیم کتاب محققین کے مطابق’’ تاؤ تے چنگ اور کنفوشس‘‘ ہے جسے لاؤزے چنگ نے۵۵۱ تا ۴۷۹ق کے دوران لکھی، یہ مذہبیات پر مشتمل ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے چین میں ابتدائی دور میں ویسا ہی ادب لکھنے کا رواج تھا جو عام طور پر ایشیائی ممالک کا رجحان تھا۔
چینی ادب میں سب سے پہلی تنقیدی کتاب ’’ون ہیں ٹی آولنگ‘‘ (ادب کے دل میں اژدہا) ہے ۔ یہ کتا ب چھٹی صدی عیسویں میں لکھی گئی اس کتاب کے مصنف کے متعلق محمد حسن نے لکھا ہے کہ ’’ اس کتاب کا مصنف لی ین ہنگ وجدان پر زور دیتا ہے، جذبات کو اُچھالتا ہے‘‘(ص؛ ۹۳ ، مشرق و مغرب میں تنقیدی تصورات کی تاریخ)چینی زبان میں دوسری تنقیدی کتا ب ’’چوبنگ‘‘ ہے ، جسے لی لی ونگ نے تحریر کیا ۔ یہ کتاب تیرہویں صدی عیسویں میں لکھی گئی، اس میں گیت، پلاٹ ، کردا، ظرافت اور ڈرامے کے اجزاپر تنقیدیں ہیں، چینی ادب کو اجتماعی ادب سے تعبیر کیا جاتا ہے ، چینی تنقید کی بنیاد تین نظریات پر ہے، (۱) فوہ (بیان ) (۲ ) پائی ( استعارہ) (۳) ہنگ (تلمیح)۔
جاپانی زبان میں تنقید:جاپانی بھی قدیم زبانوں میں سے ہے اور چینی ادب کی طرح اس کے ادب کا بہت بڑا ذخیرہ اجتماعی ہے، جن کے مضمون اور تحقیق کا روں کے نام معلوم نہیں ہے، اس زبان میں مناظر فطرت اور قدرت کے حسین مناظر کی بہت اہمیت ہے ، جاپانی ادب کے تصور کو محمد حسن نے اس انداز سے بیان کیا ہے کہ ’’ جاپانی ادب کا مر کزی تصور ہے(۱) زندگی کی بے ثباتی اور (۲) اشیا کاا حساس ، ان تصورات کے پیچھے جاپانی ادب کا نظریہ ملتا ہے ، جاپانی ادب میں ڈرامہ میں’’نوہ ڈرامے‘‘ شاعری میں ’’ہائیکو‘‘ اور نثر میں ’’گنجی کی کہانی‘‘ کو بہت اہم مقام حاصل ہے، نوہ ڈرامہ کا تعلق نفسیاتی کیفییات سے ہے اور ہائیکو کا تصور سنسکرت کے دھونی کے نظریہ کی طرح ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مشرقی تنقید اور ادب کی آپس میں کس طرح کی فکری مناسبت ہے۔
سنسکرت میں تنقید: سنسکرت زبان عہد قدیم کی زبانوں میں سے ایک ہے بعض محققین کے مطابق جس زمانہ میں ارسطو نے ’’بوطیقا‘‘ لکھی اسی کے قریب یا اس سے کچھ پہلے سنسکرت زبان کے پہلے تنقید نگار بھرت منی نے اپنی معرکۃ الارا کتاب ’’ناٹیہ شاستر‘‘ میں رس کا نظریہ پیش کیا تھا، اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سنسکرت زبان میں تنقیدی نظام کس قدر قدیم ہے اور مشرقی تنقید کا سلسلہ کس قدر پہلے شروع ہوچکا تھا؟ جس طریقے سے عربی وغیرہ دنیا کی دیگر زبانوں میں لفظ ومعنی کی بحث ہوتی ہے اسی طرح سنسکرت میں شبد اور ارتھ سے، مگر ان کی بنیاد زبان کے مسائل کے متعلق ہے، اس دائرے میں ویاکرن (گرامر) منطق کے دبستان نیائے ، ویدانتی فکر’’ میما نسا‘‘اور النکارشاستر یعنی بدیعیات وغیرہ آتے ہیں ا ور جب شعریات کے متعلق گفتگو کرتے ہیں تب رس ، دھونی کے نظریہ اور النکار سے بحث ہوتی ہے، ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی نے اس کی وضاحت ان لفظوں میں کی ہے:۔
’’جہاں تک لسانی نزاکتوں سے الگ محض شعریات کا مسئلہ ہے تو اس کا ارتقاء تین نظریات کے حوالے سے زیادہ بہتر طریقے سے جامعیت کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے پہلا نقطۂ نظر رس کی جمالیات کا ہے، دوسرا دھونی کے نظریے کا اور تیسرا نظریہ النکار کاہے‘‘۔
پروفیسر نورالحسن نقوی نے رس کی تعریف اس طرح کی ہے؛۔
’’رس یعنی وہ شئی جو سامعین کے دلوں میں مختلف کیفیتیں پیدا کر کے انہیں متاثر کرتی ہے۔‘‘(ص؛۶۷، فن تنقید اور اردو تنقیدنگاری)
آچاریہ شنکک، آچاریہ بھٹنایک ا ور دیگر محققین نے بھی اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں، تمام نظریات کا خلاصہ یہی ہے کہ سنسکرت زبان میں (ا)بھاؤ (محرکات) (۲)انو بھاؤ (خارجی معاملات) اور (۳) بھیچاری بھاؤ (عارضی جذبات) تین چیزوں سے مل کر ایک استھائی بھاؤ(مستقل جذبہ) پیدا ہوتا ہے وہی مستقل جذبہ رس کی پیدائش کی وجہ بنتے ہیں وہ یہ ہیں (۱) رتی (محبت ، عشق) (۲) ہاس (ہنسی، مزاق) (۳) شوک (دکھ، غم) (۴)کرودھ(غصہ) (۵)اتساہ (جوش) (۶) بھیہ (ڈر، خوف) (۷)جگبسا(نفرت) (۸) وسمیہ (تحیر و استعجاب) ، انہیں استھائی بھاؤں پر بھرت منی نے رس کی آٹھ قسمیں بیان کیں، مگر بعد کے سنسکر ت علماء نے ایک اور اضافہ کرکے ۹ رس مقرر کر لیا۔وہ نو رس یہ ہیں (۱)شرنگار رس (عشق اور جنسی جذبہ)(۲)ہاسیہ رس(خامیوں ا ور خرابیوں پر طنز کرنے کے لیے)(۳)کرن رس (ہمدردی کے جذبات ظاہر کرنے کے لیے (۴)رودر رس (نفرت اور غصہ کے اظہار کے لیے)(۵)ویر رس (بہادری کے لیے) (۶) بھیانک رس (خوف و ہراس کے لیے)(۷)بپھتس رس (ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے) (۸)ادبھت رس (حیرت ظاہر کرنے کے لیے)(۹)شانت رس (سکون و اطمینان کے لیے)۔
دھونی: سنسکرت شعریات کا ایک اہم نظریہ دھونی ہے۔یہ نظریہ پنڈت آنندوردھن نے اپنی کتاب ’’دھونیا لوک‘‘ میں پیش کیا ،�آنندوردھن نے اس سے مرادشعری اشاریت ، شعری تاثیر اور جمالیاتی کیفیت لی ہے اور اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ یہ ویاکر نوں سے ماخوذ ہے، جس سے اصوات مراد لیے جاتے ہیں، ابو الکلام قاسمی صاحب نے اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے۔’’دھونی کا تعلق نہ صرف معنی سے ہے اور نہ صرف آوازوں سے، بلکہ اس سے مراد وہ جمالیاتی کیفیت ہے جو معنی اور صوت سے بلند اور زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے، دھونی خیال میں بھی ہوسکتی ہے اور جذبہ میں بھی‘‘ گوپی چند نارنگ نے دھونی کو جمالیاتی کیفیت سے تعبیرکرتے ہوئے اظہار کیا ہے کہ ’’ایک اچھے واکیہ یا شعر کی اصوات اور معنی سے ایک جمالیاتی کیفیت (دھونی) ابھرتی ہے‘‘(ص؛۳۲۵، ساختیات پس ساختیات)، دھونی کا نظریہ سامنے آنے کے بعد اس تصور کو بہت وسعت ملی اور ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنی مراد لیے جانے لگے۔
النکار: سنسکرت شعریات میں جن چیزوں سے بحث ہوتی ہے ان میں سے ایک النکار (بدیعیات) بھی ہے، اس میں لفظی صنعت گری ، لفظی و معنوی محاسن اور مجموعی حسن آفرینی سے بحث ہوتی ہے ، خواہ نحوی ساخت سے ہو یا پھر معنوی ساخت پیکر تراشی سے، یہ نظریہ سنسکرت کے ایک مشہور عا لم نے اپنی کتاب ’’النکار سوتر میں پیش کیا ہے، پنڈت جی ،بی موہن نے تین چیزوں کو سنسکرت تنقید کا محور بتایا ہے۔(۱) النکار (بیان و بدیع) (۲) شیلی (اسلوب ) (۳)وکر وکتی (بالواسطہ اظہار)۔ا گر ہم سنجیدگی سے مشرقی تنقیدکاجائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مشرق کی تمام اہم زبانوں میں مشترکہ طورپر یہی چیزیں بنیاد ہیں ، سنسکرت تنقید سے ہم بحت اس لیے کرتے ہیں کہ اس نے پراکرت اور اپ بھرنشوں کے اثرات قبول کیے ہیں۔ مگر زبان و بیان ، شعریات اور رسم الخط کا تعلق عربی وفارسی سے ہی ہے نہ کہ سنسکرت سے۔
عربی زبان میں تنقید: عربی زبان میں بھی تنقید کی روایت بہت قدیم ہے، بعض حضرات تو عربی اور فارسی نقد کو ہی تنقید کا نام دیتے ہیں۔مشرقی تنقید اور خاص طور پر عربی تنقید میں شاعری کو علم معانی، علم بیان ، علم بدیع ، علم عروض اور علم قافیہ کی بنیاد پر جانچا اور پرکھا جاتا ہے، عربی تنقید کی روایت کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، پہلا دور ، عہد اسلام سے قبل کا زمانہ ہے، جسے زمانہ جاہلیت سے تعبیر کیا جاتا ہے، دوسرا دور عہد اسلام ہے، تیسرا دورعہد اموی اور چوتھا دور عہد عباسی ہے، مکہ سے کچھ دوری پر’عکاظ‘‘ باز ا لگتا تھا ہر سال شعرا اس بازار میں اپنے قصائد پیش کرتے تھے جنہیں ایک کمیٹی جانچ پرکھ کی عمل سے گذار کر ایک قصیدہ کو سب سے عمدہ قرار دیکر اسے کعبۃ اللہ پر آویزاں کیا جاتا تھا اور اس شاعرکو اشعرالشعرا کے خطاب سے نوازا جاتا تھا اور اسے عزت و افتخار کاسبب سمجھا جاتا تھا،اس میں با ضابطہ تنقیدی روایت تو نہیں ملتی، مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ حضرات صداقت، سادگی، سبق آموزی اور زبان کی دلکشی کو سامنے رکھ کر نقد و تنقید کا فریضہ ادا کرتے تھے، اسی دور میں مجنہ اور ذو المجاز میں بھی اس طرح کے میلے لگتے تھے امرأ القیس اسی دور کا شاعرہے، جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مشہور ہے’’اشعر الشعرأوقائد ھم اِلی النار‘‘ اس کے بعد عہد اسلام شروع ہوا،ا س دور میں ہر فن پارہ کو اسلامی اصول کے مطابق پر رکھا جانے لگا، شعر کی اہمیت پہلے کی طرح برقرار تھی، تنقیدی شعور اور شعر و ادب سے شغف کا اندازہ حضرت علیؓ کے اس قول سے لگایا جاسکتا ہے۔
’’ الشعر میزان القول ورواہ بعضم الشعر میزان القوم‘‘
ترجمہ: شاعری قول کا پیمانہ ہے یا بعض حضرات کے مطابق شاعری قوم کا پیمانہ ہے، تنقیدی شعور کا اندازہ حضرات عمر بن خطابؓ کے اس قول سے بھی ہو تا ہے جس میں انہوں نے زہیر کو سب سے بڑا شاعر قراردیا اور اس کی وجہ یہ بتلائی کہ اس کے کلام میں پیچیدگی نہیں ہوتی ، الفاظ نا مانوس نہیں ہوتے اور صداقت پر مبنی کلام ہوتا ہے،ا س کے بعد ۶۶۱ء تا ۷۵۰ء تا ۱۶۵۸ء عہد عباسی کا آغاز ہوا، اس دورمیں علوم و فنون اور ادب کی ترویج و اشاعت بڑے پیمانہ پر ہوئی اور بہت سے علوم یونانی زبان سے عربی میں منتقل کیے گئے اور ابو بشرمتی اور ابن رشد نے ارسطو کی’’بوطیقا‘‘ کو عربی میں ترجمہ کیا، جس سے بہت سے تنقیدی مسائل عربوں کے سامنے آئے، مگر ’’بوطیقا میں ڈرامہ کے سلسلہ میں تنقیدی نظریات ہیں اور عربوں کے یہاں قصیدہ کا رواج تھا، اس لیے یہ کتاب فن پر زیادہ اثر انداز نہ ہو سکی، مگر اس سے عربی’تنقیدکو نئی تقویت ملی اور عربی زبان میں بھی ’تنقید نگاروں کی ایک ٹیم تیار ہوگئی جن میں اہم نام محمد بن اسلام الحجمی ، ابن قتیبہ، عبداللہ بن معتنر، قدامہ بن جعفر، ابن رشیق، ابن خلدون ، جاحظ، ابو ہلال عسکری، عبدالقادر جر جانی اور ابوبکر یباقلانی وغیرہ ہیں ،ا س دور میں بٹرا ادبی انقلاب آیا اور نہ صرف یہ کہ باضابطہ تنقید کی مختلف کتابیں سامنے آئیں، بلکہ لفظ و معنی کی اصلیت اور تقدیم کے سلسلہ میں مباحثے بھی شروع ہوگئے اور سادگی کی جگہ تصنع کاغلبہ ہونے لگا اور اب قدامہ بن جعفر کے قول کے مطابق سب سے اچھا شعرا سے کہا جانے لگا جس میں مبالغہ اور جھوٹ زیادہ ہو ، چوں کہ اس دور میں باضابطہ تنقید کا آغاز ہوا اسی لیے محمد بن سلام الحجمی کو پہلا عربی تنقید نگار اور اس کی کتاب طبقات الشعراکو پہلی عربی میں تنقیدی کتاب کہا جاتا ہے، ابن قتیبہ نے اپنی کتا ب الشعروالشعرا میں متوازن نظریہ پیش کیا ہیا ور عمدہ شعر کے لیے لفظ اور معنیٰ دونوں کے عمدگی کی شرط لگائی ہے، قدامہ ابن جعفر نے نقد الشعرمیں طرز بیان ظاہری حسن اور جھوٹ کو اصل شاعر میں فوقیت دی ہے ،ابن رشیق نے اپنی کتاب ’’العمدہ‘‘ میں لفظ، وزن، اور قافیہ تمام کو شاعری کے لیے ضروری قرار دے کر متوازن تنقیدکی اورابن خلدون نے اپنی کتاب مقدمہ تاریخ ابن خلدون میں شعر و شاعری کے متعلق جو نظریات پیش کیے ہیں، اس میں لفظ کو معنی پر فوقیت دی اور لفظ کو پیالہ اور معنیٰ کو پانی سے تعبیر کیاا ور اس کی وضاحت کی کہ ایک ہی پانی اگر سونے کے پیالے میں رکھیں گے تو اس کی اہمیت کچھ اور ہوگی اور چاندی، خزف،اور شیشے کے پیالہ میں کچھ اور جاحظ نے اپنی کتاب ’’البیان و التبین ‘‘میں لفظ کو فوقیت دی ہے جبکہ علامہ جر جانی نے ’’اسرار البلاغتہ‘‘ اور ’’دلائل الاعجاز‘‘میں معنیٰ کو فوقیت دی ہے، ان نظریات اور کتابوں سے عربی تنقید کی روایت کو جانا اور سمجھا جاجا سکتا ہے۔
فارسی میں تنقید: فارسی اور ایرانی تنقید کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک دور ۶۳۰ء سے قبل کا اور دوسرا ۶۳۵ء میں عربوں کی فتح کے بعد کا ہے، البتہ پہلے دور میں تنقید کے سلسلہ میں کچھ مواد نہیں ملتا، ایران میں بھی اصل انقلاب عربوں کی فتح کے بعد آیا،یہی وجہ ہے کہ فارسی تنقید کی اکثرچیزیں عربی سے مترجم ہی نظر آتی ہیں، فارسی میں سب سے پہلی تنقیدی کتاب امیر عنصر المعالی کیکاؤس بن اسکندر کی ہے، جس کا نام ’قابوس نامہ‘‘ ہے، ان کے نزدیک سب سے اچھا شعر قابل فہم اور پیچیدگی سے پاک ہے، دوسرا اہم فارسی تنقید نگار نظامی عروضی سمر قندی ہے، جس نے’’ چہارمقار‘‘کے نام سے تنقیدی کتا ب ۱۱۰۰ء کے قریب لکھی، یہ الفاظ پر معنیٰ کو ترجیح دیتے ہیں، اس کے بعد تنقیدی کتابوں میں ’’حدایق السحرفی دقایق الشعر‘‘ہے،جسے رشید الدین و طواط نے تحریر کیا ہے انہوں نے صنائع کو بہت اہمیت دی ہے، شمس الدین محمد بن قیس الرازی نے بھی ’’ المعجم فی معایییر اشعار العجم‘‘ نام کتاب لکھ کر اپنے تنقیدی نظریات کو بیان کیا ہے، انہوں نے سہل پسندی، عروض اور قافیہ کی اہمیت پر کافی زور دیا ہے ان کے علاوہ محمد عوفی ، دولت شاہ سمر قندی اور فخری ابن امیری نے بھی تنقیدی نظریات کا اظہار کیا ہے، فارسی تنقید میں عام طور پر مضمون آفرینی ،جدت ادا،ر نگینئ کلام،تغزل اور بندش کی چستی وغیرہ سے بحث ہوتی ہے اور ان چیزوں سے بحث اردو میں بھی ہوتی ہے۔
اردو تنقید۔ آغاز و ارتقا: ویسے تو اردو میں باضابطہ تنقید نگاری کا آغاز حالیؔ کی معرکۃ الآراء کتاب ’’مقدمہ شعرو شاعری‘‘(۱۸۹۳ء) سے ہوتی ہے، مگر اس سے بھی پہلے بھی ہمیں تنقید کی روایت ملتی ہے یہ الگ بات ہے کہ مرتب نہیں ملتی، اگر ہم قدیم دکنی شعرا کے کلام کو پڑھتے ہیں تو بہت سے شعرا کے اشعار کے سلسلہ میں نظریات ملتے ہیں، اس کے علاوہ مشاعرے ، اساتذہ کی اصلاحیں، تقریظ،خطوط ، تذکروں میں بھی ہمیں بہت سے تنقیدی خیالات ملتے ہیں ہم اختصار سے ان چیزوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
شاعری میں تنقیدی نظریات: دکنی شعرا میں ملا اسدا للہ وجہیؔ نے باضابطہ ’’قطب مشتری‘‘ میں تنقید ی خیالات ظاہرکیے ہیں اور شاعری میں سادگی ، نزاکت ،معنی آفرینی ،جدت الفاظ، ربط، اور معنیٰ خیز الفاظ کے استعمال پر زور دیا ہے، بطور نمونہ ایک شعر
جو بے ربط بولے توں بتیاں پچیس
بھلا ہے جو یک بیت بولے سلیس
ولیؔ
ہے ولی جو کہ ہیں بلند خیال
شعر میرا پسند کرتے ہیں
اس کے علاوہ میرؔ ، سوداؔ ، مصحفیؔ ، انشاءؔ ، انیسؔ ، غالبؔ ، میرحسنؔ اور اقبالؔ کی شاعری میں بھی تنقیدی نظریات ملتے ہیں۔
مشاعرے: باضابطہ تنقید کے آغاز سے پہلے ہمیں مشاعرے میں بھی تنقیدی نظریات اور تنقید کی روایت ملتی ہے اور اس کی شکل یہ ہوتی تھی کہ رؤسا اور نواب حضرات مشاعرے منعقد کرواتے تھے اور جس میں شعرا اپنا کلام پیش کرتے تھے، اسی مجلس میں دوسرے شعرا زبان و بیان ، عروض اور علم قافیہ کی بنیاد پر تنقیدیں کرتے تھے اور اچھا پڑھنے والے کو ’’واہ واہ‘‘او ر’’سبحان اللہ‘‘کہہ کر داد بھی دتیے تھے، یہی تنقیدی روایت ہے۔
اساتذہ کی اصلاح: اردو تنقیدی کے ارتقاء میں اساتذہ شعرا کی اصلاحوں کا بھی بہت اہم کردار ہے، اساتذہ کو شعرا اپناکلام دکھلاتے تھے اور وہ قطع و برید کے ذریعہ تنقید کافریضہ ادا کرتے تھے، ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اصلاح کا مقصدبیان کیا ہے’’ان اصلاحوں کا مقصد شاگرد کی شاعرانہ تر بیت ہوتی تھی اور اس کی اصلاح سے اس کو فصاحت و بلاغت، زبان و بیان کے نشیب سے آگاہی ہوجاتی (ص:۱۲۱ اردو تنقید کا ارتقا) ، سودا ، حاتم، میرحسن ، مصحفی، انشا ء، غالب ، ذوق، آتش، ناسخ، انیس ، اور حالی وغیرہ نے اساتذہ سے اصلاحیں لی ہیں اوراساتذہ کی تنقید ی بصیرتوں سے استفادہ کیا ہے۔
تقریظ: اردو تنقید کے ارتقا میں تقریظ کی بھی بہت اہمیت رہی ہے، تقریظ سے مراد مدح یاتعریف لیا جاتا ہے، عربی میں تنقید کے معنیٰ میں ہی استعمال کیا جاتا ہے مگر اردومیں قدیم زمانے سے کتابوں پر تعریفی کلمات لکھنے کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی شروعات عکاظ کے بازار سے ہوتی ہے وہاں جو تنقیدیں ہوتی تھیں اسے تقریظ نام دیا جا تا تھا ۔ اردو میں بھی کچھ حضرات نے محاسن کے ساتھ ساتھ معایب کی بھی تقریظ میں نشاندہی کی ہے، جیسے غالبؔ نے سرسید کی مرتبہ کتاب ’’آئین اکبری‘‘ کے لیے جو تقریظ لکھی تھی اس میں برائیاں بھی تھیں ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے بھی اردو تنقید کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
خطوط: زمانۂ ماضی میں یہ بھی رواج رہا ہے کہ شعرا حضرات اپنے خطوط میں ضمنی طور پر یا کسی شاگرد کی فرمائش اور استفسار پر خطوط میں تنقیدی خیالات کا اظہار کرتے تھے،غالبؔ ، سرسیدؔ ، حالیؔ ، شبلیؔ ، امیر مینائیؔ ، اقبالؔ اور رشید احمد صدیقی کے خطوط میں یہ چیزیں ملتی ہیں۔
تذکرے: تذکروں نے اردو تنقید کے باضابطہ آغاز میں پل کا کردار ادا کیا ہے اٹھارہویں صدی کے وسط سے فارسی تذکروں کے زیر اثر اردو شعرا کے فارسی زبان اور پھر اردو میں تذکرہ لکھنے کا رواج شروع ہوا اور میرؔ تقی میر کے نکات الشعرا سے لے کر محمد حسین آزاد کے ’’آب حیات‘‘ تک درجنوں تذکرے لکھے گئے، جن میں بنیادی طور پر شاعر کے محتصر حالات ، اس کے کلام پر تبصرہ اور کلام کا انتخاب شامل کیا جاتا تھا، فارسی میں اس لیے لکھتے تھے کہ فارسی علمی اور ادبی زبان تھی اور دوسرے فارسی کا دائرہ بہت وسیع تھا ،اردو شعرا کابھی تعارف زیادہ دور تک اسکے ذریعہ سے ہو سکتا تھا، اردو زبان میں لکھا جانے والا پہلا تذکرہ گلشنِ ہند ہے جسے مرزا علی لطف نے ۱۸۰۱ء میں تحریر کیا اردو شعرا کے تذکروں میں اہم کتاب میر تقی میرؔ کی ’’نکات الشعرا‘‘ قائم چاندپوری کی ’’مخزن نکات‘‘ فتح علی حسینی کی تذکرہ ریختہ گویاں ‘‘ بچھمی نرائن شفیق کی ’’چمنستانِ شعرا‘‘ وجیہہ الدین عشقی کی ’’تذکرہ عشقی‘‘ غلام حسین شورش کی ’’تذکرۂ شورش ‘‘۔’’قدرت اللہ شوقؔ رامپوری کی ’’طبقات الشعرا‘‘ ابوالحسن امراللہ الہ بادی کی ’’تذکرہ مسرت افزا‘‘، مردان علی خاں کی’’گلشن سخن‘‘، ابراہیم خلیل کی ’’گلزار ابراہیم‘‘مصحفی ؔ کی ریاض الفصحا‘‘ تذکرۂ ہندی اور عقد ثریا، شیفتہؔ کی ’’گلشن بے خار‘‘ ناصرؔ کی ’’خوش معرکۂ’’زیبا‘‘اور محمد حسین آزاد کی ’’آب حیات‘ہیں۔آب حیات آخر ی تذکرہ ہے بعض حضرات اسے تاریخ میں شامل کرتے ہیں اس لیے کہ جن مورخین نے بھی اردو شعرا کی تاریخ مرتب کی ہے تو آب حیات سے ہی اصل اپناچلو بھرا ہے اس میں تاریخ کے ساتھ ساتھ تنقید بھی ہے۔ اس لیے اسے تذکرہ اور تنقید کے درمیان ایک کڑی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
محمد حسین آزاد (۱۸۲۹۔۱۹۱۰): محمد حسین آزاد ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے آب حیات لکھ کر باضابطہ اردو تنقید کی راہ ہموار کی، ان کا شماراردو کے عناصر خمسہ میں سے ہوتا ہے، ان کا بنیادی نظریہ ہے کہ شاعری وہبی چیز ہے، شاعری رحمت الٰہی کا فیضان ہے، شاعری میں اخلاقیات اور صالح اقدار اصل ہیں ، تاثراتی نقطۂ نظر کو اصل قرار دیتے ہیں، انداز بیان ، صفائی کلام، برجستگی ، فضاحت،بلاغت، اسلوب اور لفظی محاسن پر زور دیتے ہیں اور شاعری کو صنعت گری قرار دے کر معنی و مفہوم کو ہی اصل چیز قرار دیتے ہیں۔
حالی ؔ اور مقدمہ شعر و شاعری(۱۸۳۷ تا ۱۹۱۴): الطاف حسین حالیؔ ہی پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے مقدمہ شعر و شاعری (۱۸۹۳) کے ذریعہ باضابطہ اردو تنقید کی داغ بیل ڈالی، حالیؔ نے مشرقی ادب کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ تو کیا ہی تھا ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مغربی ادبیات اور ان کے تنقیدی نظام کا بھی بغور مطالعہ کیا اور اپنے جدید و قدیم غزل کے مجموعے پر مقدمہ لکھ کر تنقید نگاری کا آغاز کر دیا، اس کتاب کو حالیؔ نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے پہلے حصے میں شعری نظریات اور دوسرے حصہ میں عملی تنقید کو بیان کیا ہے، حالیؔ نے تنقید کی بنیاد مشرقی نظریات پررکھی ہے، یہ بھی شاعری کو عطیۂ الٰہی قرار دیتے ہوئے اس کے ذریعہ معاشرہ کی اصلاح کر نا چاہتے ہیں، انہوں نے شاعر کے لیے تین چیزوں کو ضروری قرار دیا ہے (ا)تخیل (۲) مطالعۂ کائنات اور (۳) تفحص الفاظ اور شعر کے لیے سادگی، اصلیت ،اور جوش کواصل قرار دیا ہے، انہوں نے بہت سے مغربی علما اور ناقدین کا حوالہ دیا ہے اور ان کے تصورات کو بھی پیش کیا ہے مگر اس کو بھی عربی اور فارسی تنقیدی کتابوں سے ہی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
شبلی نعمانی(۱۸۵۷۔ ۱۹۱۴ء): اردو اولین تنقید نگاروں میں اہم مقام اور مرتبہ پر فائز لوگوں میں شبلی بھی ہیں، ان کے فکر وفن اور نقطۂ نظر کا دائرہ عربی، فارسی اور ارسطو سے ملا ہوا ہے۔انہوں نے شعر العجم جیسی معرکۃ الآراکتاب لکھ کر اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار کیا ہے، یہ نظام بلاغت و فصاحت ، روز مرہ، محاورہ، تشبیہ،استعارہ، منظر نگاری ، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری کو بنیاد بنا کر تنقید کرتے ہیں اس کا اندازہ موازنۂ انیس و دبیر سے لگایا جا سکتا ہے، شبلی مصوری کو شعر کی اصل قرار دیتے ہوئے لفظ کو معنیٰ پر فوقیت دیتے ہیں۔ غرض اردو تنقید کے ارتقا کے باب میں شبلی کو نہیں بھلا یا جاسکتا۔
ان حضرات کے علاوہ اور بھی بہت سے تنقید نگار ہیں جن کا نقطۂ نظر مشرقی تنقید کی بنیاد پر ہے جن میں سر فہرست عبد الرحمن بجنوری بھی ہے، جنہوں نے محاسن کلام غالب کے ذریع اپنے تنقیدی نظریات کو عام کیا ، اس کے علاوہ کچھ مشرقی علماء ایسے بھی ہیں جواپنی تنقید کا محور مغرب کو قرار دیتے ہیں پھر بھی مشرقی تنقیدی نظام کا سہار ا بھی ضرور لیتے ہیں۔
حرف آخر: تنقید جا نچنے اور پرکھنے کے عمل کو کہا جاتا ہے ادبی تنقید سے مراد کسی نظریہ کے پیش نظرادبی شہہ پاروں اور شاعری کو جانچ کر اس کے محاسن ومعائب کی نشاندہی کی جائے ، مشرقی تنقید میں بہت سی زبانیں شامل ہیں ، مگر جب اردو کے حوالہ سے گفتگو ہوتی ہے تو عربی، فارسی اور سنسکرت کو سامنے رکھا جا تا ہے چینی اور جاپانی زبانوں میں بھی ہمیں قدیم تنقیدی رحجانات ملتے ہیں ، مشرقی تنقید کا بنیادی نظریہ ہے کہ الفاظ کی زیبائش شاعری کی ہیئت اور فنی محاسن سے بحث کی جائے، مشرقی شعریات میں علم بیان، معانی ، بدیع، عروض اور علم قافیہ کو اہم مقام حاصل ہے۔ ارسطو کے زمانہ سے قریب ہی ہندوستان میں بھرت منی نے ناٹیہ شاستر کے ذریعہ تنقیدی نظریہ کا اظہار کیا تھا ، اسی سے مشرقی تنقید کی قدامت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اردو تنقید کی باضابطہ آغاز سے پہلے شاعری، مشاعرے، خطوط، تقریظ اساتذہ کی اصلاح اور تذکروں میں بھی تنقیدی نظریات ملتے ہیں حالیؔ نے مقدمہ شعرو شاعری لکھ کر با ضابطہ اردو میں تنقیدکی بنیاد ڈالی، مشرقی تنقید نگاروں میں محمد حسین آزاد الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی اور عبد الرحمن بجنوری کا نام کافی اہمیت سے لیا جا تا ہے۔
ریسرچ اسکالر شعبۂ اردودہلی یونیورسٹی
مورخین اور اہل علم حضرات نے جغرافیائی اعتبار سے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کیاہے مشرق اورمغرب ،مغرب بول کر یورپ مرادلیا جاتا ہے اور مشرق سے ایشیا،دنیا کے اس خطے میں بہت سی زبانیں بولی جاتیں ہیں، مگر خاص علمی اور ادبی زبانوں میں عربی، فارسی ، سنسکرت ، چینی،جاپانی، ترکی اور اردو کو شامل کیا جاتا ہے، اردو تنقید کے حوالہ سے جب گفتگو ہوتی ہے تو عام طور پر سنسکرت ، عربی اور فارسی زبانوں کے پیش نظر ہوتی ہے،عربی اور فارسی تو اس لیے کہ اردو کے بہت سے اصنافِ سخن انہیں زبانوں سے منتقل ہو کر اردو میں آئے ہیں اور سنسکرت اس لیے کے پراکرت اور مقامی زبانوں کے زیر اثر ہی اردو پروان چڑھی ہے، مشرقی زبانوں کا جب ہم گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانہ سے یہاں کی زبانوں میں تنقید کا رواج رہا ہے اور خاص طور پر عربی، سنسکرت، چینی اور جاپانی زبانوں میں تنقید کا سلسلہ عہد قدیم میں ہی شروع ہو چکا تھا، مشرقی تنقید کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ’’ یہ شاعری کی ہیئت ، الفاظ کی چکا چوند اور شاعری کے فنی محاسن سے تعلق رکھتی ہے‘‘، پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے لکھا ہے کہ ’’مشرقی شعریات یا مشرقی تنقید وہ ہے جو اردو پر سنسکرت ،عربی اور فارسی کے اثرات سے برگ و بار لائی‘‘۔ مشرقی تنقید بنیادی طور پرکسی خاص زاویۂ نگاہ پر زورنہیں دیتی ، بلکہ اس میں جذبہ و احساس ، الفاظ کی قدرو قیمت روز مرہ، محاورہ ، تشبیہ، استعارہ ،اشارے ، کنایے اور تلمیحات کو پیش نظر رکھ کر فن پارہ کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ سنسکرت کے اہم تنقید نگاروں میں بھر ت منی، آنندور دھن اور ابھینو گیت وغیرہ ہیں، عربی میں محمد بن سلام الحجمی، قتیبہ، قدامہ بن جعفر، جاح، ابن رشیق، ابن المعتز اور ابن خلدون اہم ہیں ، فارسی میں امیر عنصر المعالی کیکاؤس، نظامی عروضی، رشید الدین و طواط اور شمس قیس رازی وغیرہ اہم ہیں جبکہ اردو تنقید نگاروں میں محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالیؔ ، شبلی نعمانی اور عبد الرحمن بجنوری وغیرہ اہم ہیں یہ حضرات مشرقی نقطۂ نظر سے ہی تنقید کرتے تھے، مشرقی تنقید اور خاص طور پر اردو کے متعلق یہ مشہور ہے کہ اردو تنقید کی ابتداء مغرب کے زیر اثر ہوئی، یہ بات یہاں تک تو درست ہے کہ مشرق میں پہلے باضابطہ تنقیدی نظام نہیں تھا، حالی نے مغرب کے باضابطہ تنقیدی نظام سے متا ثر ہوکر اردو میں با ضابطہ تنقیدی نظریات کی بنیاد رکھی، مگر یہ بات بھی مسلم ہے کہ حالیؔ نے مقد مہ شعر وشاعری کی بنیاد مشرقی تنقیدی نظریات پر رکھی ہے، البتہ انہوں نے بطور مثال مغربی علماء کا بھی نام پیش کیا ہے ہم اس مقالہ میں تفصیل سے مشرقی تنقیدکی بنیاد وں اور ان نظریات پیش کرنے والے علماء ،پر گفتگو کریں گے۔
چینی زبان میں تنقید: تنقیدی تصورات کے جو اہم گہوارے ہیں ان میں چین کو بھی اہم مقام حاصل ہے، اس سلسلہ میں محمد حسن نے لکھا ہے کہ تنقیدی تصورات کے تین اہم گہوارے ہیں (۱)چین(۲)ہندوستان اور(۳)مغربی ایشیاء‘‘ چینی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے، اس کا رسم الخط تصویری ہے یعنی ہر لفظ ، کسی واقعہ یا کسی کیفیت کی تصویر ہے یا اس کا علامتی اظہار ہے، چین میں چھٹی صدی قبل مسیح، ہی کلاسیکی ادب کی شروعات ہو چکی تھی اس کے اولین ادبیات تین حصوں پر منقسم ہیں (۱)شیہہ چنگ (گیت) (۲)شوچنگ (تاریخی تحریریں)(۳)اورائی چنگ(مذہبی ادب) چینی ادب میں لکھی جانے والی قدیم کتاب محققین کے مطابق’’ تاؤ تے چنگ اور کنفوشس‘‘ ہے جسے لاؤزے چنگ نے۵۵۱ تا ۴۷۹ق کے دوران لکھی، یہ مذہبیات پر مشتمل ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے چین میں ابتدائی دور میں ویسا ہی ادب لکھنے کا رواج تھا جو عام طور پر ایشیائی ممالک کا رجحان تھا۔
چینی ادب میں سب سے پہلی تنقیدی کتاب ’’ون ہیں ٹی آولنگ‘‘ (ادب کے دل میں اژدہا) ہے ۔ یہ کتا ب چھٹی صدی عیسویں میں لکھی گئی اس کتاب کے مصنف کے متعلق محمد حسن نے لکھا ہے کہ ’’ اس کتاب کا مصنف لی ین ہنگ وجدان پر زور دیتا ہے، جذبات کو اُچھالتا ہے‘‘(ص؛ ۹۳ ، مشرق و مغرب میں تنقیدی تصورات کی تاریخ)چینی زبان میں دوسری تنقیدی کتا ب ’’چوبنگ‘‘ ہے ، جسے لی لی ونگ نے تحریر کیا ۔ یہ کتاب تیرہویں صدی عیسویں میں لکھی گئی، اس میں گیت، پلاٹ ، کردا، ظرافت اور ڈرامے کے اجزاپر تنقیدیں ہیں، چینی ادب کو اجتماعی ادب سے تعبیر کیا جاتا ہے ، چینی تنقید کی بنیاد تین نظریات پر ہے، (۱) فوہ (بیان ) (۲ ) پائی ( استعارہ) (۳) ہنگ (تلمیح)۔
جاپانی زبان میں تنقید:جاپانی بھی قدیم زبانوں میں سے ہے اور چینی ادب کی طرح اس کے ادب کا بہت بڑا ذخیرہ اجتماعی ہے، جن کے مضمون اور تحقیق کا روں کے نام معلوم نہیں ہے، اس زبان میں مناظر فطرت اور قدرت کے حسین مناظر کی بہت اہمیت ہے ، جاپانی ادب کے تصور کو محمد حسن نے اس انداز سے بیان کیا ہے کہ ’’ جاپانی ادب کا مر کزی تصور ہے(۱) زندگی کی بے ثباتی اور (۲) اشیا کاا حساس ، ان تصورات کے پیچھے جاپانی ادب کا نظریہ ملتا ہے ، جاپانی ادب میں ڈرامہ میں’’نوہ ڈرامے‘‘ شاعری میں ’’ہائیکو‘‘ اور نثر میں ’’گنجی کی کہانی‘‘ کو بہت اہم مقام حاصل ہے، نوہ ڈرامہ کا تعلق نفسیاتی کیفییات سے ہے اور ہائیکو کا تصور سنسکرت کے دھونی کے نظریہ کی طرح ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مشرقی تنقید اور ادب کی آپس میں کس طرح کی فکری مناسبت ہے۔
سنسکرت میں تنقید: سنسکرت زبان عہد قدیم کی زبانوں میں سے ایک ہے بعض محققین کے مطابق جس زمانہ میں ارسطو نے ’’بوطیقا‘‘ لکھی اسی کے قریب یا اس سے کچھ پہلے سنسکرت زبان کے پہلے تنقید نگار بھرت منی نے اپنی معرکۃ الارا کتاب ’’ناٹیہ شاستر‘‘ میں رس کا نظریہ پیش کیا تھا، اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سنسکرت زبان میں تنقیدی نظام کس قدر قدیم ہے اور مشرقی تنقید کا سلسلہ کس قدر پہلے شروع ہوچکا تھا؟ جس طریقے سے عربی وغیرہ دنیا کی دیگر زبانوں میں لفظ ومعنی کی بحث ہوتی ہے اسی طرح سنسکرت میں شبد اور ارتھ سے، مگر ان کی بنیاد زبان کے مسائل کے متعلق ہے، اس دائرے میں ویاکرن (گرامر) منطق کے دبستان نیائے ، ویدانتی فکر’’ میما نسا‘‘اور النکارشاستر یعنی بدیعیات وغیرہ آتے ہیں ا ور جب شعریات کے متعلق گفتگو کرتے ہیں تب رس ، دھونی کے نظریہ اور النکار سے بحث ہوتی ہے، ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی نے اس کی وضاحت ان لفظوں میں کی ہے:۔
’’جہاں تک لسانی نزاکتوں سے الگ محض شعریات کا مسئلہ ہے تو اس کا ارتقاء تین نظریات کے حوالے سے زیادہ بہتر طریقے سے جامعیت کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے پہلا نقطۂ نظر رس کی جمالیات کا ہے، دوسرا دھونی کے نظریے کا اور تیسرا نظریہ النکار کاہے‘‘۔
پروفیسر نورالحسن نقوی نے رس کی تعریف اس طرح کی ہے؛۔
’’رس یعنی وہ شئی جو سامعین کے دلوں میں مختلف کیفیتیں پیدا کر کے انہیں متاثر کرتی ہے۔‘‘(ص؛۶۷، فن تنقید اور اردو تنقیدنگاری)
آچاریہ شنکک، آچاریہ بھٹنایک ا ور دیگر محققین نے بھی اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں، تمام نظریات کا خلاصہ یہی ہے کہ سنسکرت زبان میں (ا)بھاؤ (محرکات) (۲)انو بھاؤ (خارجی معاملات) اور (۳) بھیچاری بھاؤ (عارضی جذبات) تین چیزوں سے مل کر ایک استھائی بھاؤ(مستقل جذبہ) پیدا ہوتا ہے وہی مستقل جذبہ رس کی پیدائش کی وجہ بنتے ہیں وہ یہ ہیں (۱) رتی (محبت ، عشق) (۲) ہاس (ہنسی، مزاق) (۳) شوک (دکھ، غم) (۴)کرودھ(غصہ) (۵)اتساہ (جوش) (۶) بھیہ (ڈر، خوف) (۷)جگبسا(نفرت) (۸) وسمیہ (تحیر و استعجاب) ، انہیں استھائی بھاؤں پر بھرت منی نے رس کی آٹھ قسمیں بیان کیں، مگر بعد کے سنسکر ت علماء نے ایک اور اضافہ کرکے ۹ رس مقرر کر لیا۔وہ نو رس یہ ہیں (۱)شرنگار رس (عشق اور جنسی جذبہ)(۲)ہاسیہ رس(خامیوں ا ور خرابیوں پر طنز کرنے کے لیے)(۳)کرن رس (ہمدردی کے جذبات ظاہر کرنے کے لیے (۴)رودر رس (نفرت اور غصہ کے اظہار کے لیے)(۵)ویر رس (بہادری کے لیے) (۶) بھیانک رس (خوف و ہراس کے لیے)(۷)بپھتس رس (ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے) (۸)ادبھت رس (حیرت ظاہر کرنے کے لیے)(۹)شانت رس (سکون و اطمینان کے لیے)۔
دھونی: سنسکرت شعریات کا ایک اہم نظریہ دھونی ہے۔یہ نظریہ پنڈت آنندوردھن نے اپنی کتاب ’’دھونیا لوک‘‘ میں پیش کیا ،�آنندوردھن نے اس سے مرادشعری اشاریت ، شعری تاثیر اور جمالیاتی کیفیت لی ہے اور اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ یہ ویاکر نوں سے ماخوذ ہے، جس سے اصوات مراد لیے جاتے ہیں، ابو الکلام قاسمی صاحب نے اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے۔’’دھونی کا تعلق نہ صرف معنی سے ہے اور نہ صرف آوازوں سے، بلکہ اس سے مراد وہ جمالیاتی کیفیت ہے جو معنی اور صوت سے بلند اور زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے، دھونی خیال میں بھی ہوسکتی ہے اور جذبہ میں بھی‘‘ گوپی چند نارنگ نے دھونی کو جمالیاتی کیفیت سے تعبیرکرتے ہوئے اظہار کیا ہے کہ ’’ایک اچھے واکیہ یا شعر کی اصوات اور معنی سے ایک جمالیاتی کیفیت (دھونی) ابھرتی ہے‘‘(ص؛۳۲۵، ساختیات پس ساختیات)، دھونی کا نظریہ سامنے آنے کے بعد اس تصور کو بہت وسعت ملی اور ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنی مراد لیے جانے لگے۔
النکار: سنسکرت شعریات میں جن چیزوں سے بحث ہوتی ہے ان میں سے ایک النکار (بدیعیات) بھی ہے، اس میں لفظی صنعت گری ، لفظی و معنوی محاسن اور مجموعی حسن آفرینی سے بحث ہوتی ہے ، خواہ نحوی ساخت سے ہو یا پھر معنوی ساخت پیکر تراشی سے، یہ نظریہ سنسکرت کے ایک مشہور عا لم نے اپنی کتاب ’’النکار سوتر میں پیش کیا ہے، پنڈت جی ،بی موہن نے تین چیزوں کو سنسکرت تنقید کا محور بتایا ہے۔(۱) النکار (بیان و بدیع) (۲) شیلی (اسلوب ) (۳)وکر وکتی (بالواسطہ اظہار)۔ا گر ہم سنجیدگی سے مشرقی تنقیدکاجائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مشرق کی تمام اہم زبانوں میں مشترکہ طورپر یہی چیزیں بنیاد ہیں ، سنسکرت تنقید سے ہم بحت اس لیے کرتے ہیں کہ اس نے پراکرت اور اپ بھرنشوں کے اثرات قبول کیے ہیں۔ مگر زبان و بیان ، شعریات اور رسم الخط کا تعلق عربی وفارسی سے ہی ہے نہ کہ سنسکرت سے۔
عربی زبان میں تنقید: عربی زبان میں بھی تنقید کی روایت بہت قدیم ہے، بعض حضرات تو عربی اور فارسی نقد کو ہی تنقید کا نام دیتے ہیں۔مشرقی تنقید اور خاص طور پر عربی تنقید میں شاعری کو علم معانی، علم بیان ، علم بدیع ، علم عروض اور علم قافیہ کی بنیاد پر جانچا اور پرکھا جاتا ہے، عربی تنقید کی روایت کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، پہلا دور ، عہد اسلام سے قبل کا زمانہ ہے، جسے زمانہ جاہلیت سے تعبیر کیا جاتا ہے، دوسرا دور عہد اسلام ہے، تیسرا دورعہد اموی اور چوتھا دور عہد عباسی ہے، مکہ سے کچھ دوری پر’عکاظ‘‘ باز ا لگتا تھا ہر سال شعرا اس بازار میں اپنے قصائد پیش کرتے تھے جنہیں ایک کمیٹی جانچ پرکھ کی عمل سے گذار کر ایک قصیدہ کو سب سے عمدہ قرار دیکر اسے کعبۃ اللہ پر آویزاں کیا جاتا تھا اور اس شاعرکو اشعرالشعرا کے خطاب سے نوازا جاتا تھا اور اسے عزت و افتخار کاسبب سمجھا جاتا تھا،اس میں با ضابطہ تنقیدی روایت تو نہیں ملتی، مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ حضرات صداقت، سادگی، سبق آموزی اور زبان کی دلکشی کو سامنے رکھ کر نقد و تنقید کا فریضہ ادا کرتے تھے، اسی دور میں مجنہ اور ذو المجاز میں بھی اس طرح کے میلے لگتے تھے امرأ القیس اسی دور کا شاعرہے، جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مشہور ہے’’اشعر الشعرأوقائد ھم اِلی النار‘‘ اس کے بعد عہد اسلام شروع ہوا،ا س دور میں ہر فن پارہ کو اسلامی اصول کے مطابق پر رکھا جانے لگا، شعر کی اہمیت پہلے کی طرح برقرار تھی، تنقیدی شعور اور شعر و ادب سے شغف کا اندازہ حضرت علیؓ کے اس قول سے لگایا جاسکتا ہے۔
’’ الشعر میزان القول ورواہ بعضم الشعر میزان القوم‘‘
ترجمہ: شاعری قول کا پیمانہ ہے یا بعض حضرات کے مطابق شاعری قوم کا پیمانہ ہے، تنقیدی شعور کا اندازہ حضرات عمر بن خطابؓ کے اس قول سے بھی ہو تا ہے جس میں انہوں نے زہیر کو سب سے بڑا شاعر قراردیا اور اس کی وجہ یہ بتلائی کہ اس کے کلام میں پیچیدگی نہیں ہوتی ، الفاظ نا مانوس نہیں ہوتے اور صداقت پر مبنی کلام ہوتا ہے،ا س کے بعد ۶۶۱ء تا ۷۵۰ء تا ۱۶۵۸ء عہد عباسی کا آغاز ہوا، اس دورمیں علوم و فنون اور ادب کی ترویج و اشاعت بڑے پیمانہ پر ہوئی اور بہت سے علوم یونانی زبان سے عربی میں منتقل کیے گئے اور ابو بشرمتی اور ابن رشد نے ارسطو کی’’بوطیقا‘‘ کو عربی میں ترجمہ کیا، جس سے بہت سے تنقیدی مسائل عربوں کے سامنے آئے، مگر ’’بوطیقا میں ڈرامہ کے سلسلہ میں تنقیدی نظریات ہیں اور عربوں کے یہاں قصیدہ کا رواج تھا، اس لیے یہ کتاب فن پر زیادہ اثر انداز نہ ہو سکی، مگر اس سے عربی’تنقیدکو نئی تقویت ملی اور عربی زبان میں بھی ’تنقید نگاروں کی ایک ٹیم تیار ہوگئی جن میں اہم نام محمد بن اسلام الحجمی ، ابن قتیبہ، عبداللہ بن معتنر، قدامہ بن جعفر، ابن رشیق، ابن خلدون ، جاحظ، ابو ہلال عسکری، عبدالقادر جر جانی اور ابوبکر یباقلانی وغیرہ ہیں ،ا س دور میں بٹرا ادبی انقلاب آیا اور نہ صرف یہ کہ باضابطہ تنقید کی مختلف کتابیں سامنے آئیں، بلکہ لفظ و معنی کی اصلیت اور تقدیم کے سلسلہ میں مباحثے بھی شروع ہوگئے اور سادگی کی جگہ تصنع کاغلبہ ہونے لگا اور اب قدامہ بن جعفر کے قول کے مطابق سب سے اچھا شعرا سے کہا جانے لگا جس میں مبالغہ اور جھوٹ زیادہ ہو ، چوں کہ اس دور میں باضابطہ تنقید کا آغاز ہوا اسی لیے محمد بن سلام الحجمی کو پہلا عربی تنقید نگار اور اس کی کتاب طبقات الشعراکو پہلی عربی میں تنقیدی کتاب کہا جاتا ہے، ابن قتیبہ نے اپنی کتا ب الشعروالشعرا میں متوازن نظریہ پیش کیا ہیا ور عمدہ شعر کے لیے لفظ اور معنیٰ دونوں کے عمدگی کی شرط لگائی ہے، قدامہ ابن جعفر نے نقد الشعرمیں طرز بیان ظاہری حسن اور جھوٹ کو اصل شاعر میں فوقیت دی ہے ،ابن رشیق نے اپنی کتاب ’’العمدہ‘‘ میں لفظ، وزن، اور قافیہ تمام کو شاعری کے لیے ضروری قرار دے کر متوازن تنقیدکی اورابن خلدون نے اپنی کتاب مقدمہ تاریخ ابن خلدون میں شعر و شاعری کے متعلق جو نظریات پیش کیے ہیں، اس میں لفظ کو معنی پر فوقیت دی اور لفظ کو پیالہ اور معنیٰ کو پانی سے تعبیر کیاا ور اس کی وضاحت کی کہ ایک ہی پانی اگر سونے کے پیالے میں رکھیں گے تو اس کی اہمیت کچھ اور ہوگی اور چاندی، خزف،اور شیشے کے پیالہ میں کچھ اور جاحظ نے اپنی کتاب ’’البیان و التبین ‘‘میں لفظ کو فوقیت دی ہے جبکہ علامہ جر جانی نے ’’اسرار البلاغتہ‘‘ اور ’’دلائل الاعجاز‘‘میں معنیٰ کو فوقیت دی ہے، ان نظریات اور کتابوں سے عربی تنقید کی روایت کو جانا اور سمجھا جاجا سکتا ہے۔
فارسی میں تنقید: فارسی اور ایرانی تنقید کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک دور ۶۳۰ء سے قبل کا اور دوسرا ۶۳۵ء میں عربوں کی فتح کے بعد کا ہے، البتہ پہلے دور میں تنقید کے سلسلہ میں کچھ مواد نہیں ملتا، ایران میں بھی اصل انقلاب عربوں کی فتح کے بعد آیا،یہی وجہ ہے کہ فارسی تنقید کی اکثرچیزیں عربی سے مترجم ہی نظر آتی ہیں، فارسی میں سب سے پہلی تنقیدی کتاب امیر عنصر المعالی کیکاؤس بن اسکندر کی ہے، جس کا نام ’قابوس نامہ‘‘ ہے، ان کے نزدیک سب سے اچھا شعر قابل فہم اور پیچیدگی سے پاک ہے، دوسرا اہم فارسی تنقید نگار نظامی عروضی سمر قندی ہے، جس نے’’ چہارمقار‘‘کے نام سے تنقیدی کتا ب ۱۱۰۰ء کے قریب لکھی، یہ الفاظ پر معنیٰ کو ترجیح دیتے ہیں، اس کے بعد تنقیدی کتابوں میں ’’حدایق السحرفی دقایق الشعر‘‘ہے،جسے رشید الدین و طواط نے تحریر کیا ہے انہوں نے صنائع کو بہت اہمیت دی ہے، شمس الدین محمد بن قیس الرازی نے بھی ’’ المعجم فی معایییر اشعار العجم‘‘ نام کتاب لکھ کر اپنے تنقیدی نظریات کو بیان کیا ہے، انہوں نے سہل پسندی، عروض اور قافیہ کی اہمیت پر کافی زور دیا ہے ان کے علاوہ محمد عوفی ، دولت شاہ سمر قندی اور فخری ابن امیری نے بھی تنقیدی نظریات کا اظہار کیا ہے، فارسی تنقید میں عام طور پر مضمون آفرینی ،جدت ادا،ر نگینئ کلام،تغزل اور بندش کی چستی وغیرہ سے بحث ہوتی ہے اور ان چیزوں سے بحث اردو میں بھی ہوتی ہے۔
اردو تنقید۔ آغاز و ارتقا: ویسے تو اردو میں باضابطہ تنقید نگاری کا آغاز حالیؔ کی معرکۃ الآراء کتاب ’’مقدمہ شعرو شاعری‘‘(۱۸۹۳ء) سے ہوتی ہے، مگر اس سے بھی پہلے بھی ہمیں تنقید کی روایت ملتی ہے یہ الگ بات ہے کہ مرتب نہیں ملتی، اگر ہم قدیم دکنی شعرا کے کلام کو پڑھتے ہیں تو بہت سے شعرا کے اشعار کے سلسلہ میں نظریات ملتے ہیں، اس کے علاوہ مشاعرے ، اساتذہ کی اصلاحیں، تقریظ،خطوط ، تذکروں میں بھی ہمیں بہت سے تنقیدی خیالات ملتے ہیں ہم اختصار سے ان چیزوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
شاعری میں تنقیدی نظریات: دکنی شعرا میں ملا اسدا للہ وجہیؔ نے باضابطہ ’’قطب مشتری‘‘ میں تنقید ی خیالات ظاہرکیے ہیں اور شاعری میں سادگی ، نزاکت ،معنی آفرینی ،جدت الفاظ، ربط، اور معنیٰ خیز الفاظ کے استعمال پر زور دیا ہے، بطور نمونہ ایک شعر
جو بے ربط بولے توں بتیاں پچیس
بھلا ہے جو یک بیت بولے سلیس
ولیؔ
ہے ولی جو کہ ہیں بلند خیال
شعر میرا پسند کرتے ہیں
اس کے علاوہ میرؔ ، سوداؔ ، مصحفیؔ ، انشاءؔ ، انیسؔ ، غالبؔ ، میرحسنؔ اور اقبالؔ کی شاعری میں بھی تنقیدی نظریات ملتے ہیں۔
مشاعرے: باضابطہ تنقید کے آغاز سے پہلے ہمیں مشاعرے میں بھی تنقیدی نظریات اور تنقید کی روایت ملتی ہے اور اس کی شکل یہ ہوتی تھی کہ رؤسا اور نواب حضرات مشاعرے منعقد کرواتے تھے اور جس میں شعرا اپنا کلام پیش کرتے تھے، اسی مجلس میں دوسرے شعرا زبان و بیان ، عروض اور علم قافیہ کی بنیاد پر تنقیدیں کرتے تھے اور اچھا پڑھنے والے کو ’’واہ واہ‘‘او ر’’سبحان اللہ‘‘کہہ کر داد بھی دتیے تھے، یہی تنقیدی روایت ہے۔
اساتذہ کی اصلاح: اردو تنقیدی کے ارتقاء میں اساتذہ شعرا کی اصلاحوں کا بھی بہت اہم کردار ہے، اساتذہ کو شعرا اپناکلام دکھلاتے تھے اور وہ قطع و برید کے ذریعہ تنقید کافریضہ ادا کرتے تھے، ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اصلاح کا مقصدبیان کیا ہے’’ان اصلاحوں کا مقصد شاگرد کی شاعرانہ تر بیت ہوتی تھی اور اس کی اصلاح سے اس کو فصاحت و بلاغت، زبان و بیان کے نشیب سے آگاہی ہوجاتی (ص:۱۲۱ اردو تنقید کا ارتقا) ، سودا ، حاتم، میرحسن ، مصحفی، انشا ء، غالب ، ذوق، آتش، ناسخ، انیس ، اور حالی وغیرہ نے اساتذہ سے اصلاحیں لی ہیں اوراساتذہ کی تنقید ی بصیرتوں سے استفادہ کیا ہے۔
تقریظ: اردو تنقید کے ارتقا میں تقریظ کی بھی بہت اہمیت رہی ہے، تقریظ سے مراد مدح یاتعریف لیا جاتا ہے، عربی میں تنقید کے معنیٰ میں ہی استعمال کیا جاتا ہے مگر اردومیں قدیم زمانے سے کتابوں پر تعریفی کلمات لکھنے کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی شروعات عکاظ کے بازار سے ہوتی ہے وہاں جو تنقیدیں ہوتی تھیں اسے تقریظ نام دیا جا تا تھا ۔ اردو میں بھی کچھ حضرات نے محاسن کے ساتھ ساتھ معایب کی بھی تقریظ میں نشاندہی کی ہے، جیسے غالبؔ نے سرسید کی مرتبہ کتاب ’’آئین اکبری‘‘ کے لیے جو تقریظ لکھی تھی اس میں برائیاں بھی تھیں ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے بھی اردو تنقید کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
خطوط: زمانۂ ماضی میں یہ بھی رواج رہا ہے کہ شعرا حضرات اپنے خطوط میں ضمنی طور پر یا کسی شاگرد کی فرمائش اور استفسار پر خطوط میں تنقیدی خیالات کا اظہار کرتے تھے،غالبؔ ، سرسیدؔ ، حالیؔ ، شبلیؔ ، امیر مینائیؔ ، اقبالؔ اور رشید احمد صدیقی کے خطوط میں یہ چیزیں ملتی ہیں۔
تذکرے: تذکروں نے اردو تنقید کے باضابطہ آغاز میں پل کا کردار ادا کیا ہے اٹھارہویں صدی کے وسط سے فارسی تذکروں کے زیر اثر اردو شعرا کے فارسی زبان اور پھر اردو میں تذکرہ لکھنے کا رواج شروع ہوا اور میرؔ تقی میر کے نکات الشعرا سے لے کر محمد حسین آزاد کے ’’آب حیات‘‘ تک درجنوں تذکرے لکھے گئے، جن میں بنیادی طور پر شاعر کے محتصر حالات ، اس کے کلام پر تبصرہ اور کلام کا انتخاب شامل کیا جاتا تھا، فارسی میں اس لیے لکھتے تھے کہ فارسی علمی اور ادبی زبان تھی اور دوسرے فارسی کا دائرہ بہت وسیع تھا ،اردو شعرا کابھی تعارف زیادہ دور تک اسکے ذریعہ سے ہو سکتا تھا، اردو زبان میں لکھا جانے والا پہلا تذکرہ گلشنِ ہند ہے جسے مرزا علی لطف نے ۱۸۰۱ء میں تحریر کیا اردو شعرا کے تذکروں میں اہم کتاب میر تقی میرؔ کی ’’نکات الشعرا‘‘ قائم چاندپوری کی ’’مخزن نکات‘‘ فتح علی حسینی کی تذکرہ ریختہ گویاں ‘‘ بچھمی نرائن شفیق کی ’’چمنستانِ شعرا‘‘ وجیہہ الدین عشقی کی ’’تذکرہ عشقی‘‘ غلام حسین شورش کی ’’تذکرۂ شورش ‘‘۔’’قدرت اللہ شوقؔ رامپوری کی ’’طبقات الشعرا‘‘ ابوالحسن امراللہ الہ بادی کی ’’تذکرہ مسرت افزا‘‘، مردان علی خاں کی’’گلشن سخن‘‘، ابراہیم خلیل کی ’’گلزار ابراہیم‘‘مصحفی ؔ کی ریاض الفصحا‘‘ تذکرۂ ہندی اور عقد ثریا، شیفتہؔ کی ’’گلشن بے خار‘‘ ناصرؔ کی ’’خوش معرکۂ’’زیبا‘‘اور محمد حسین آزاد کی ’’آب حیات‘ہیں۔آب حیات آخر ی تذکرہ ہے بعض حضرات اسے تاریخ میں شامل کرتے ہیں اس لیے کہ جن مورخین نے بھی اردو شعرا کی تاریخ مرتب کی ہے تو آب حیات سے ہی اصل اپناچلو بھرا ہے اس میں تاریخ کے ساتھ ساتھ تنقید بھی ہے۔ اس لیے اسے تذکرہ اور تنقید کے درمیان ایک کڑی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
محمد حسین آزاد (۱۸۲۹۔۱۹۱۰): محمد حسین آزاد ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے آب حیات لکھ کر باضابطہ اردو تنقید کی راہ ہموار کی، ان کا شماراردو کے عناصر خمسہ میں سے ہوتا ہے، ان کا بنیادی نظریہ ہے کہ شاعری وہبی چیز ہے، شاعری رحمت الٰہی کا فیضان ہے، شاعری میں اخلاقیات اور صالح اقدار اصل ہیں ، تاثراتی نقطۂ نظر کو اصل قرار دیتے ہیں، انداز بیان ، صفائی کلام، برجستگی ، فضاحت،بلاغت، اسلوب اور لفظی محاسن پر زور دیتے ہیں اور شاعری کو صنعت گری قرار دے کر معنی و مفہوم کو ہی اصل چیز قرار دیتے ہیں۔
حالی ؔ اور مقدمہ شعر و شاعری(۱۸۳۷ تا ۱۹۱۴): الطاف حسین حالیؔ ہی پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے مقدمہ شعر و شاعری (۱۸۹۳) کے ذریعہ باضابطہ اردو تنقید کی داغ بیل ڈالی، حالیؔ نے مشرقی ادب کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ تو کیا ہی تھا ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مغربی ادبیات اور ان کے تنقیدی نظام کا بھی بغور مطالعہ کیا اور اپنے جدید و قدیم غزل کے مجموعے پر مقدمہ لکھ کر تنقید نگاری کا آغاز کر دیا، اس کتاب کو حالیؔ نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے پہلے حصے میں شعری نظریات اور دوسرے حصہ میں عملی تنقید کو بیان کیا ہے، حالیؔ نے تنقید کی بنیاد مشرقی نظریات پررکھی ہے، یہ بھی شاعری کو عطیۂ الٰہی قرار دیتے ہوئے اس کے ذریعہ معاشرہ کی اصلاح کر نا چاہتے ہیں، انہوں نے شاعر کے لیے تین چیزوں کو ضروری قرار دیا ہے (ا)تخیل (۲) مطالعۂ کائنات اور (۳) تفحص الفاظ اور شعر کے لیے سادگی، اصلیت ،اور جوش کواصل قرار دیا ہے، انہوں نے بہت سے مغربی علما اور ناقدین کا حوالہ دیا ہے اور ان کے تصورات کو بھی پیش کیا ہے مگر اس کو بھی عربی اور فارسی تنقیدی کتابوں سے ہی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
شبلی نعمانی(۱۸۵۷۔ ۱۹۱۴ء): اردو اولین تنقید نگاروں میں اہم مقام اور مرتبہ پر فائز لوگوں میں شبلی بھی ہیں، ان کے فکر وفن اور نقطۂ نظر کا دائرہ عربی، فارسی اور ارسطو سے ملا ہوا ہے۔انہوں نے شعر العجم جیسی معرکۃ الآراکتاب لکھ کر اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار کیا ہے، یہ نظام بلاغت و فصاحت ، روز مرہ، محاورہ، تشبیہ،استعارہ، منظر نگاری ، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری کو بنیاد بنا کر تنقید کرتے ہیں اس کا اندازہ موازنۂ انیس و دبیر سے لگایا جا سکتا ہے، شبلی مصوری کو شعر کی اصل قرار دیتے ہوئے لفظ کو معنیٰ پر فوقیت دیتے ہیں۔ غرض اردو تنقید کے ارتقا کے باب میں شبلی کو نہیں بھلا یا جاسکتا۔
ان حضرات کے علاوہ اور بھی بہت سے تنقید نگار ہیں جن کا نقطۂ نظر مشرقی تنقید کی بنیاد پر ہے جن میں سر فہرست عبد الرحمن بجنوری بھی ہے، جنہوں نے محاسن کلام غالب کے ذریع اپنے تنقیدی نظریات کو عام کیا ، اس کے علاوہ کچھ مشرقی علماء ایسے بھی ہیں جواپنی تنقید کا محور مغرب کو قرار دیتے ہیں پھر بھی مشرقی تنقیدی نظام کا سہار ا بھی ضرور لیتے ہیں۔
حرف آخر: تنقید جا نچنے اور پرکھنے کے عمل کو کہا جاتا ہے ادبی تنقید سے مراد کسی نظریہ کے پیش نظرادبی شہہ پاروں اور شاعری کو جانچ کر اس کے محاسن ومعائب کی نشاندہی کی جائے ، مشرقی تنقید میں بہت سی زبانیں شامل ہیں ، مگر جب اردو کے حوالہ سے گفتگو ہوتی ہے تو عربی، فارسی اور سنسکرت کو سامنے رکھا جا تا ہے چینی اور جاپانی زبانوں میں بھی ہمیں قدیم تنقیدی رحجانات ملتے ہیں ، مشرقی تنقید کا بنیادی نظریہ ہے کہ الفاظ کی زیبائش شاعری کی ہیئت اور فنی محاسن سے بحث کی جائے، مشرقی شعریات میں علم بیان، معانی ، بدیع، عروض اور علم قافیہ کو اہم مقام حاصل ہے۔ ارسطو کے زمانہ سے قریب ہی ہندوستان میں بھرت منی نے ناٹیہ شاستر کے ذریعہ تنقیدی نظریہ کا اظہار کیا تھا ، اسی سے مشرقی تنقید کی قدامت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اردو تنقید کی باضابطہ آغاز سے پہلے شاعری، مشاعرے، خطوط، تقریظ اساتذہ کی اصلاح اور تذکروں میں بھی تنقیدی نظریات ملتے ہیں حالیؔ نے مقدمہ شعرو شاعری لکھ کر با ضابطہ اردو میں تنقیدکی بنیاد ڈالی، مشرقی تنقید نگاروں میں محمد حسین آزاد الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی اور عبد الرحمن بجنوری کا نام کافی اہمیت سے لیا جا تا ہے۔
9871523432
[email protected]