جی ، معروف فوٹوجرنلسٹ، پلترز ایوارڈ یافتہ، محنتی، جفاکش، سرگرم، فعال، مضبوط، اپنے کام سے جنون کی حد تک عشق کرنے والا، چاق وچوبند، نڈر، بے باک، بے خوف، سختی جھیلنے والا، اعلیٰ تعلیم یافتہ، فخر صحافت، اپنے کیمروں سے لی ہوئی تصاویر کو تاریخ کے صفحات میں محفوظ کرانے والا، دانش صدیقی ہوں ، میری پیدائش ۱۹۸۰ میں مہاراشٹر کی راجدھانی ممبئی میں والد اختر صدیقی کے ہاں ہوئی ، میرے والد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک شعبے کے سابق ڈین ہیں، میری ابتدائی تعلیم دہلی کے کیمبرج اسکول میں ہوئی، اس کے بعد شہر آرزو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد اپنی خواہش اور دیرینہ شوق صحافت سے منسلک ہوگیا۔اپنے کیرئر کی ابتدا ہندوستان ٹائمز کے نمائندے کی حیثیت سے کی پھر ٹی وی ٹوڈے نیٹ ورک سے منسلک رہا ۲۰۱۰ میں معروف برطانوی نیوز ایجنسی روئٹرز کے لیے بطور فوٹو جرنلسٹ کام کرنے لگا اور ہندوستان میں روئٹرز کی پکچر ٹیم کا ہیڈ بن گیا۔ میری شادی جرمنی کی رہنے والی ایک نیک سیرت خاتون سے ہوئی جس سے میری دو اولاد ہیں، ایک چھ سال کا لڑکا اور تین سال کی لڑکی ہے۔
ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے اپنے کیمرے سے دنیا کو سچ دکھایا، جہاں تک حکومت اور عوام کی نظریں نہیں پہنچیں، وہاں میں پہنچ کر دنیا کے سامنے سچ آشکار کیا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے ۲۰۱۵ میں نیپال میں آئے بھیانک زلزلے کی تصاویر کھینچی اور تباہی وبربادی کے مناظر کے عکس اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر کے دنیا کو متوجہ کیا، ہاں میں وہی ہوں جس نے مشرق وسطی میں جاری بھیانک خانہ جنگی کی تصاویر کھینچی، جس نے ہانگ کانگ سورش کو کوور کیا تھا۔ ہاں میں نے ہی۲۰۱۶۔۱۷ روہنگیا مسلمانوں کے مظالم کی تصاویر دنیا کے سامنے پیش کی، ساحل سمندر ، حالات سے مجبور روہنگیائیوں کی تصاویر جو ملتجی نگاہوں سے دنیا سے سوال کررہی تھیں کہ میرا جرم کیا ہے، میں کیوں بے گھرہوں ان لاچارو بے بس کی تصاویر کھینچی اور روہنگیائی مسلمانوں پر ہورہے ظلم کی انتہا کو اپنے کیمرے میں قید کیا اور جدید دنیا کے سامنے پیش کیا کہ لو یہ تمہارا مکروہ چہرہ ہے جہاں تم انسانیت کی باتیں کرتے ہو؛ لیکن انسانیت سے عاری ہو۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جسے روہنگیائی مسلمانوں پر ہورہے مظالم کی تصویر کشی کے لیے ۲۰۱۸ میں صحافت کے آسکر پلتزر ایوارڈ سے نوازاگیا تھا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے سی اے اے تحریک کے محرک شاہین باغ والوں کی تصاویر کھینچی اور سی اے اے کے مستقبل میں پڑنے والے خطرناک اثرات دنیا کے سامنے پیش کیا ، ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جس نے دہلی فسادات میں مارے جارہے مظلوموں کی داد رسی کی، اور ایسی جگہوں سے تصاویر کھینچی جسے بطور ثبوت پیش کیاگیا۔ آپ نے میرے کیمرے سے لی گئی وہ دو تصاویر ضرور دیکھی ہوں گی جس میں ایک انسان سفید کرتا پہنے امن کی دہائی دیتے ہوئے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑے دوزانوں ہوکر زمین پر اوندھا پڑا ہوا ہے اور بلوائیوں کا ہجوم لاٹھی ڈنڈوں سے جمہوریت کے خون کے چھینٹے اڑا اڑا کر اسے پیٹ پیٹ کر قتل کررہا ہے اور دوسری تصویر وہ جب جامعہ ملیہ میں ایک اندھ بھکت گولی چلارہا ہے اور پیچھے پولس والے حصار بنائے کھڑے ہیں ان کے علاوہ سینکڑوں ایسی تصاویر ہیں جنہیں میں نے کھینچی اور دنیا کے سامنے پیش کیاجسے اگر میں شاید نہ کلک کرتا تو شاید دنیا کو اس کا علم تک نہیں ہوپاتا ۔
ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جب ملک میں اچانک لاک ڈاؤن کا نفاذ کیاگیا تو مزدور طبقے پریشان ہو اٹھے ، میلوں کا سفر اپنے شیر خوار بچوں کو کاندھوں پر لیے کررہے تھےان کی تصاویر کھینچی اور ملک کے عوام کو ہورہی پریشانیوں سے دنیا کو آگاہ کیا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جب کورونا کی دوسری لہر آئی، ہر طرف موت رقصاں تھی، شمشان میں لاشوں کوجلانے کےلیے مردوں کو مرنے کے بعد بھی انتظار کرنا پڑرہا تھا، ان کی تصاویر کھینچی، گنگا کنارے مدفون کورونا مہلوکین کی تصاویر کھینچی اور حکومت کو آئینہ دکھایا۔ ہاں میں وہی دانش صدیقی ہوں جو اپنے کام میں مخلص اور اپنے جنون میں حد تک گزرجانے والا تھا، میں حال ہی میں افغانستان کی شورش کو کور کرنے گیا تھا وہاں طالبان اور افغانستان فورسیز کے مابین جھڑپوں کی تصویر کشی کررہا تھا ۱۵ جولائی کو قندھار کے اسپین بولدک میں حالات ناسازہوگئے اور میں ان جھڑپوں کی زد میں آگیا میرے سر میں گولی آلگی اور میں جاں بحق ہوگیا۔ میرے انتقال کی خبریں جیسی ہی عام ہوئی ایک کہرام برپا ہوگیا، ہر کوئی میرے تئیں ہمدرد تھا، میرے دشمن بھی میری تعریف کرنے کو مجبور تھے، یہاں تک کہ جن پر میرے قتل کا الزام عائد کیاگیا وہ بھی میرے قتل پر افسوس کا اظہار کررہے تھے۔دو دن بعد میری لاش طالبان نے ریڈ کراس کے حوالے کی اور جسد خاکی ایئر انڈیا کی فلائٹ سے ۱۸ جولائی ۲۰۲۱ کی شام دہلی پہنچا اور میری تدفین دیار شوق جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں عمل میں آئی۔ لوگوں نے میرے قتل ناگہاں کو صحافت کا عظیم نقصان قرار دیا، میرے چاہنے والے میرے کام کی ستائش کررہے ہیں اور خراج عقیدت پیش کررہے ہیں ، پوری دنیا میں میرے چاہنے والوں کی آنکھیں نمناک ہیں اور مجھے یاد کررہے ہیں اور ان شاء ا للہ رہتی دنیا تک جب جب میرے ذریعے کھینچی ہوئی تصاویر ان کے سامنے آئیں گی مجھے یاد رکھاجائے گا۔ اللہ میری مغفرت فرمائے اور میرےاہل خانہ سمیت مداحوں کو صبر سے نوازے، اور میری ہی طرح کوئی اور جرنلسٹ امت مرحوم کو نوازے جو حقائق کا علمبردار ہو اور سچائی دنیا کے سامنے پیش کرنا اپنا فریضہ سمجھے۔ آمین۔
جامعہ
اپنے بارے میں لکھنا میرے لیے ہمیشہ پہاڑ جیسا رہا ہے۔ مجھے اس سے نر گسیت اور بڑ بولے پن کی بو آتی ہے ۔ایسے بھی ہمارے معاشرے میں اسے اپنے منہ میاں مٹھو بننا کہتے ہیں۔ شریفوں کی محفل میں بھی اسے اچھا نہیں گردانا جاتا لیکن میں اپنے ان دوستوں کا کیا کروں جن کی محبتیں میرے قلم کو رواں کر دیتی ہیں اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی انکار نہیں کر پاتا ۔ میں نے اپنے کالموں کے اس مجموعہ کو اشاعت سے پہلے اپنے دوست اور جامعہ کے دنوں میں میرے قریبی رہے محمد علم اللہ، جو ان دنوں جامعہ میں ہی میڈیا مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، کو بغرض مشاورت دیا تو انھوں نے گذارش کی کہ میں ان یادوں کو بھی رقم کروں جو جامعہ کے شب و روز سے جڑی ہیں اور جہاں کے علمی و ادبی ماحول نے میرے قلم کو جلا بخشی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جامعہ اور دلی کی صحافت کی وادی میں گذارے ہوئے لمحات کو چند کالموں یا صفحات میں نہیں سمیٹا جا سکتا ، پھر بھی میں کوشش کرتا ہوں اس لئے کہ یہ ایک دوست کی فرمائش ٹھہری۔ ایسے بھی محمد علم اللہ سے کون ناراضگی مول لے سکتا ہے۔ جانے کب شورش کاشمیری کی طرح ان کا قلم بھڑک اٹھے اور وہ کوثر نیازی سمجھ کر میرے بخیے ادھیڑ دیں۔ ان کے بار بار اصرار پر مجھے یہ تحریر لکھنی پڑ رہی ہے ۔
اجنبی کیمپس:
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بطور طالب علم میں نے پانچ برس گزارے۔ پہلے ماس میڈیا میں آنرس کیا اور پھر ماس کمورنی کیشن میں ماسٹرز۔ لکھنے پڑھنے کی عادت کو اس عرصے میں خوب جلا ملی۔ شفیق اساتذہ اور باصلاحیت ساتھیوں کے ساتھ گزرا وہ دور میرا سرمایہ ہے۔ نیا نیا جامعہ میں داخل ہوا تو ایک جھجک تھی۔ قصبہ کے انٹر کالج سے نکل کر سیدھا یونیورسٹی کیمپس آیا تھا، اس لئے سب کچھ خواب سا لگتا تھا۔ یہاں سے وہاں تک پھیلا ہوا کیمپس اور اس میں پڑھنے والے ہزاروں نوجوانوں کی چہل پہل میرے لئے اجنبی دنیا تھی۔ شعبہ کے اساتذہ میں پروفیسر رحمان مصور صاحب بھی شامل تھے۔ جامعہ کے اجنبی ماحول میں وہ پہلی شخصیت تھی جس نے میرے اجنبیت کے احساس کو کم کیا۔ مصور صاحب نے جب ہماری کلاسیں لینا شروع کیں تو کریٹیو رائٹنگ (تخلیقی ادب) کے نئے دریچے کھلے۔ انہوں نے ایسے اسائنمنٹ دیئے جن میں واقعہ نگاری کے مختلف رنگوں سے آگاہی، مشاہدات کے بعد تحلیل و تجزیہ کا عمل اور الگ الگ میڈیم کے لئے لکھنے کا باریک فرق سمجھنے جیسے پہلو شامل ہوتے تھے۔ کچھ تو مصور صاحب کی شفقت اور کچھ میری جسارت کہئے کہ میں لیکچر کے علاوہ بھی ان کے چیمبر میں پہنچ جاتا۔ اس طرح ان کی علمی گفتگو سے زیادہ فیض اٹھانے کی راہ نکل آئی۔
کیمپس لائف کے بالکل شروع میں جو لوگ دوست بنے ان میں محمد علم اللہ بھی تھے۔ وہ مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ سے فضیلت کرنے کے بعد شعبۂ تاریخ میں گریجویشن میں داخل ہوئے تھے۔ میری طرح کیمپس ان کے لئے بھی اجنبی تھا، اس لئے جلد ہی میری ان سے گاڑھی چھننے لگی۔ یونیورسٹی لائف کا میرا مشاہدہ ہے کہ جب کوئی طالب علم اجنبی کیمپس میں پہلی بار داخل ہوتا ہے تو وہ بلا ضرورت بھی لائبریری میں پڑا رہتا ہے۔ وہاں آنے والے اخبارات، رسالے اور کتابیں اجنبیت کا احساس مٹاتی ہیں۔ علم اللہ اور میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ہم دونوں اجنبی ماحول سے مانوس ہونے کی تگ و دو میں لائبریری میں زیادہ رہا کرتے تھے۔ وہیں پر ایک صبح میری علم اللہ سے پہلی ملاقات ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک دبلا پتلا نوجوان کسی اخبار کے لئے مراسلہ تحریر کر رہا ہے۔ عنوان تھا ‘جامعہ پر الحاد کا سایہ’۔ میں نے انہیں مخاطب کرنے کے لئے سلام کیا اور بات چیت شروع ہوئی۔ تعارف کے بعد کھلا کہ یہ مراسلہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر مشیر الحسن کے خلاف ہے۔ اب یہ تو یاد نہیں کہ اس میں کیا شکایت درج تھی لیکن وہاں سے ہماری دوستی شروع ہو گئی۔
یہ زمانہ وہ تھا جس میں جامعہ میں علمی سرگرمیاں شباب پر تھیں۔ پروفیسر مشیر الحسن کی قیادت میں یونیورسٹی جدید رنگ روپ لے رہی تھی۔ پروفیسر مشیر الحسن نے تعلیمی میلے کو بڑھاوا دیا تاکہ طلبہ کی صلاحیتوں کا زیادہ سے زیادہ اظہار ہو سکے۔ یہ تین روزہ جشن یوم تاسیس کی مناسبت سے ہوتا تھا جس میں تعلیمی تقریبات، کتابوں کی نمائش، مشاعرے، بیت بازی، مباحثے غرض ہر طرح کے پروگرام ہوا کرتے تھے۔ کئی شعبوں کے طلبہ اس مناسبت سے ایک خبر نامہ بھی ترتیب دیا کرتے تھے۔ مشیر صاحب ایک ایک اسٹال پر خود جاکر طلبہ سے ملا کرتے تھے۔ ہر ایک شعبہ میں لیکچرس، سمپوزیئم، سمینار اور کانفرنسیں تواتر سے ہوا کرتی تھیں اور بڑی بڑی شخصیات آئے دن کیمپس میں مہمان ہوا کرتیں۔ اسی زمانے میں امرتیہ سین، دلائی لاما، کلدیپ نیر ، ارون دھتی رائے، سید حامد، اصغر علی انجینئر اور حامد انصاری جیسی عبقری شخصیتوں کو سننے اور دیکھنے کا موقع ملا۔
دو لکھاری:
علم اللہ اور مجھے دونوں کو ہی لکھنے کا شوق تھا اس لئے ہم کلاسوں سے فارغ ہوتے ہی لائبریری میں آ بیٹھتے اور گھنٹوں گفتگو کرتے۔ ہم اخبارات میں چھپنے والے مضامین پر تبادلۂ خیال کرتے، بین الاقوامی جریدوں کے مواد پر بات کرتے، لکھنے کے لئے موضوعات طے کرتے اور یہ بھی بات کیا کرتے کہ کیمپس میں کہاں کون سا سمینار یا مذاکرہ ہو رہا ہے؟۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کئی بار تو لائبریری میں سب سے پہلے پہنچنے کا ہم دونوں میں جیسے مقابلہ ہوتاتھا۔ ہم لائبریری پہنچتے ہی سب سے پہلے اخباروں پر قبضہ جماتے ۔ یہاں سے فارغ ہوتے تو کینٹین چلے جاتے یا پھر اپنی اپنی کلاسوں کا رخ کرتے۔
پڑھائی کے دوران ہی ہم دونوں نے دو اخبارات میں شوقیہ رپورٹنگ بھی شروع کر دی۔ دراصل کیمپس میں ہونے والی تقریبات میں تو ہم جاتے ہی تھے، بس اسی کی روداد لکھ کر اپنے اپنے اخبار کو بھجوا دیا کرتے تھے ، جسے وہ بائی لائن چھاپ دیتے تھے۔ اپنے اپنے شعبوں میں ہماری کچھ اہمیت اس لئے بھی بڑھ گئی کہ ہم ایکسٹینشن لیکچر جیسے معمول کے پروگرام کو بھی بنا سنوار کر کئی اخباروں میں رپورٹ کرا دیا کرتے تھے۔ کبھی کسی پروفیسر یا ذمہ دار کی کوئی بات بھلی نہ لگی تو انھیں ہمارے قلم کے عتاب کا شکار بھی ہونا پڑ جاتا۔ کیسی کیسی شرارتیں ہم کیا کرتے تھے ، اب ان ایام کو سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے ۔
یاد آتا ہے کہ ایک دفعہ شعبۂ اردو کی طرف سے انصاری آڈیٹوریم میں تقریری مقابلہ ہوا۔ پروفیسر شمس الحق عثمانی شعبہ کے صدر ہوا کرتے تھے۔ آخر میں انہوں نے صدارتی تقریر میں کہا کہ کچھ شرکا نے تقریر شروع کرنے سے پہلے سلام کیا جوکہ سیکولرزم اور ڈبیٹ کی اخلاقیات کے خلاف ہے۔ میں اور علم اللہ مجمع میں بیٹھے تھے۔ پروگرام ختم ہوتے ہی ہم نے اس بیان کو خبر بناکر اپنے اپنے اخباروں کو بھیج دیا۔ اس خبر کی سرخی تھی ‘سلام کرنا سیکولر اقدار کے خلاف’۔ اس خبر میں بگھار لگانے کی غرض سے ہم یہ وضاحت کرنا نہیں بھولے تھے کہ پروفیسر شمس الحق عثمانی دارالعلوم دیوبند سے سند یافتہ ہیں۔آج وہ بات سوچ کر ہنسی بھی آتی ہے اور حیرانی بھی ہوتی ہے کہ اس بات کو ہم نے خبر کیوں بنایا تھا؟ اب احساس ہوتا ہے کہ جس بات کو ہم نے اس وقت خبر سمجھا تھا اس میں کچھ بھی بتانے والا نہیں تھا۔
جامعہ میں تہذیب نامی اسٹوڈینٹ میگزین نکلا کرتی تھی جس میں طلبہ کی نگارشات شامل ہوتیں۔ یہ میگزین تین زبانوں میں ہوتی تھی۔ میں نے اس میگزین کے لئے ایک ہندی کہانی اور ایک بار ایک مضمون لکھا تھا۔ ہمارے شعبہ میں پروفیسر عبدل بسم اللہ اور پروفیسر اصغر وجاہت جیسی بین الاقوامی سطح کی شخصادت تھیں اس لئے علم و تخلیقیت کا چرچہ زوروں پر تھا۔
ایک بزرگ دو رویے:
گریجویشن کے زمانے میں ہماری فیکلٹی کے ڈین معروف مؤرخ پروفیسر عریز الدین حسین ہمدانی ہوا کرتے تھے۔ بظاہر بڑے چھریرے بدن کے ہلکے پھلکے انسان لیکن تاریخ و ثقافت پر بڑی بھاری دسترس تھی۔ تصوف ان کا محبوب موضوع تھا۔ 2010 کے جولائی میں لاہور میں شیخ علی ہجویری کے مزار ‘داتا دربار’ پر خودکش حملہ ہوا جس میں درجنوں لوگ مارے گئے۔ عزیز الدین صاحب پر اس واقعے سے جو گھاؤ لگا اس کا انہوں نے بڑا منفرد مرہم تلاش کیا۔ انہوں نے جامعہ کی طرف سے شیخ علی ہجویری کی حیات و خدمات پر بین الاقوامی سمینار کرایا۔ دنیا بھر سے مقالہ نگار آئے اور داتا صاحب کی زندگی اور خدمات پر بات ہوئی۔عزیز الدین صاحب نے مجھ سے ایک بار کہا تھا کہ وہ بین الاقوامی سمینار ہماری طرف سے یہ پیغام تھا کہ اگر اس عظیم بزرگ کے بارے میں سرحد کے اس طرف ایسا وحشیانہ رویہ ظاہر کیا گیا ہے تو بھارت اس بزرگ کی حیات و خدمات کے بارے میں دنیا کو بتائے گا۔
نوکر کا انتقام:
ماضی کے نگار خانے کی بات چل ہی پڑی ہے تو یاد آیا کہ غالب کے مجسمہ سے ذرا آگے ایک سینٹرل کینٹین ہوا کرتی تھی جہاں دن بھر طلبہ کا جمگھٹ رہتا تھا۔ کینٹین والے نے مزید کمائی کے لئے کینٹین کے باہری حصے میں ٹین کے سائبان تلے بھٹی لگوا دی اور امرتسری نان بیچنا شروع کر دیئے۔ ایک تو دہکتا ہوا تندور اس پر دوپہر کے سورج سے تپتے ٹین کے سائبان کی گرمی کی وجہ سے وہاں تعینات ملازم کی حالت تباہ ہو جاتی تھی۔
امرتسری نان خریدنے کے لئے اندر جاکر مالک سے کوپن لینا ہوتا تھا جسے دیکھ کر باہر تندور پر کھڑا ملازم نان تیار کرکے دیا کرتا تھا۔ وہ ملازم چند ہی دنوں میں نوکری چھوڑ گیا۔ اب کینٹین والے نے اندرونی حصے میں کام کرنے والے ایک لڑکے کو اس تندور پر لگا دیا۔ ظاہر ہے وہ بے چارہ انکار نہیں کر سکتا تھا لیکن اپنے مالک پر سخت غصہ ضرور تھا۔ اس کے دل کی آگ دوپہر کے سورج کی تپش اور بھٹی سے مزید بھڑک اٹھتی تھی۔ آخرکار اس نے اپنے مالک سے انتقام کی راہ نکال ہی لی۔ اب وہ یہ کرتا کہ ایک نان کی پرچی پر دو نان دینے لگا تاکہ مالک کا بھٹا بیٹھ جائے۔ ایک بار میں نے اسے پرچی دی تو اس نے مجھ سے پوچھا کتنے نان دے دوں؟۔ میں اس سوال پر حیران ہوا لیکن پھر پتہ چلا کہ اصل واقعہ کیا ہے۔
صحافتی محفلیں:
طالب علم ہونے کے وجہ سے اس وقت ہمارے وسائل محدود تھے اس لئے رپورٹ بھیجنے کے لئے انٹرنیٹ کیفے جانا پڑتا تھا کبھی کبھار لائبریری کے انٹرنیٹ سیکشن سے بھی خبریں روانہ کی جاتی تھیں۔ میں ‘ہندوستان ایکسپریس’ نامی اخبار میں رپورٹنگ کرتا تھا جبکہ علم اللہ کی خبریں ‘صحافت’ میں چھپا کرتی تھیں۔ ہندوستان ایکسپریس کے ایڈیٹر احمد جاوید صاحب ہوا کرتے تھے جو بعد میں روزنامہ انقلاب کے مدیر بن کر پٹنہ چلے گئے۔ احمد جاوید دلی کی اردو صحافت میں باصلاحیت مدیروں میں سے تھے۔ مقامی سے لے کر عالمی معاملات تک پر ان کی غیر معمولی دسترس تھی۔ اس پر ان کا انداز تحریر غضب تھا۔ اتوار کے اتوار ‘فکر فردا’ کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے۔ شاید ہی ان کا کوئی کالم ایسا رہا ہو جسے پڑھ کر دل خوش نہ ہو ا ہو۔ اب وہ اسی نام سے انقلاب میں ہر اتوار کو کالم لکھتے ہیں۔
میرے مضامین کو احمد جاوید صاحب بڑے اہتمام سے شائع کرتے۔ چونکہ میں ان کے اخبار کے لئے خبریں بھی بھیجتا تھا اس لئے ان سے مزید قربت رہی۔ احمد جاوید صاحب کے ساتھ بیٹھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ میں اور علم اللہ اکثر شام کو ان کے دفتر جایا کرتے تھے جہاں ان سے کافی گفتگو رہتی۔ دیر شام تک ہماری وہاں محفل جمتی اور ہم اس وقت اپنے اپنے گھروں کو واپس جاتے جب اخبار کے دفتر میں کام کا دباؤ بہت بڑھ جاتا اور ہم دیکھتے کہ ان کے ماتحتین ہدایات لینے کے لئے بار بار آ رہے ہیں۔ واپسی میں بھی ہم باتیں کرتے جاتے ،جن میں صحافت سے سیاست تک نہ جانے کتنے موضوعات زیر بحث آتے ۔
ہندوستان ایکسپریس سے کئی دلچسپ شخصیات وابستہ تھیں جن میں شاہد الاسلام صاحب بھی شامل تھے۔ دیکھنے میں سیدھا سادہ سا نوجوان، بظاہر سب سے بے پرواہ سا لیکن آپریٹر کو اس روانی سے کالم املا کرا رہا ہوتا تھا کہ حیرانی ہوتی۔ ان کے کالم کا نام بجا طور پر ‘برجستہ’ تھا۔
اخبار کے معاون مدیران میں ایک صاحب سعید اختر اعظمی بھی تھے۔ بڑی باغ و بہار شخصیت، لیکن خبروں کی ایڈیٹنگ کرتے وقت ایسا معلوم ہوتا جیسے عروض کے پیمانے پر لفظوں کی کاٹ چھانٹ کر رہے ہوں۔ کبھی کبھی تو دل کرتا کہ ان کی دراز میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ کہیں کمال احمد صدیقی کی ‘آہنگ اور عروض’ تو نہیں دھری؟
اس وقت دلی کے اردو اخباروں میں اپنی خبر اور اپنا مواد شائع کیا جائے اس پر بڑا زور ہوتا تھا۔ آج کی طرح کاپی پیسٹ یا ہندی انگریزی کا چربہ نہیں چلتا تھا۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے دلی کی اردو صحافت کو آخری سانس لیتے ہوئے دیکھنے والی آنکھیں ہمارا ہی مقدر بنی ہیں۔
ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر:
اخبار کی دنیا سے باہر پہلا قدم ریڈیو میں رکھا اور طالب علمی کے دوران ہی ریڈیو تہران کے لئے جز وقتی رپورٹنگ شروع کر دی، بعد میں ایران کے سحر ٹی وی چینل سے وابستگی ہوئی۔ گریجویشن پورا ہوا تو جامعہ کے ہی انور جمال قدوائی ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر میں اعلی تعلیم کے لئے داخل ہو گیا۔ یہ ریسرچ سینٹر اپنے ماحول اور وسائل کے اعتبار سے بین الاقوامی معیار کا ادارہ ہے۔ اس ادارہ سے مجھے جتنا کچھ سیکھنے کو ملا اس کے اظہار کے لئے صفحے کے صفحے درکار ہوں گے۔ یہ سینٹر فلم سازی اور ٹی وی پروڈکشن کی تربیت کے ممتاز ترین اداروں میں شامل ہے۔ بھارت میں پرائیویٹ ٹی وی نیوز چینل کے شعبہ میں آنے والی پہلی کھیپ ہی جامعہ کے اس مرکز کی تیار کردہ ہے۔ فلمی دنیا کے صف اول کے کئی ہدایت کار بھی یہیں سے نکلے۔ ان میں کبیر خان، کرن راؤ، حبیب فیصل اور نشٹھا جین شامل ہیں۔ میرے دور طالب علمی میں ان میں سے کچھ فارغین ایم سی آر سی آئے بھی اور ان سے تعلیم کے بعد کی منزل کو جاننے کا موقع بھی ملا۔
ایم سی آر سی میں پروفیسر جی آر سید ریڈیو کے شعبہ کے سربراہ تھے۔ چونکہ وہ خود معروف فکشن نگار ہیں جنہیں اردو دنیا غیاث الرحمان کے نام سے جانتی ہے ،اس لئے انہوں نے ریڈیو اسکرپٹنگ پر خصوصی توجہ دلائی، ریڈیو جامعہ میں مستقل پروگرام کرنے کی تحریک دی اور میری تحریروں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے۔ سید صاحب ان شفیق اساتذہ میں شامل ہیں جنہوں نے میری تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی مجھ پر وہی نظر عنایت رکھی۔
جامعہ کمیونٹی ریڈیو:
ریڈیو کی بات نکلی تو یاد آیا کہ جامعہ کمیونٹی ریڈیو ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر کے احاطے سے نشر ہوتا تھا۔ پروفیسر جی آر سید صاحب ہی اس کے سربراہ تھے۔ پروڈیوسر ڈاکٹر شکیل اختر صاحب اور ان کے دو معاونین ہمایوں حسان آروزو اور عبد الخالق صاحبان بڑی دلجمعی سے ریڈیو کی معیاری نشریات یقینی بناتے تھے۔ ریڈیو کی نشریات صبح دس بجے شروع ہوتیں جو شام پانچ بجے تک چلا کرتی تھیں۔ دوپہر دو بجے ایک گھنٹہ بزم غزل پروگرام کا ہوتا تھا جس میں علمی و ادبی میدان میں ہو رہی پیش رفت کی جانکاریاں اور یونیورسٹی کی سرگرمیاں وغیرہ زیر بحث رہتیں۔ زمانہ طالب علمی میں اکثر اس پروگرام کی میزبانی میں ہی کیا کرتا تھا۔ شریک میزبان کے طور پر علم اللہ یا کوئی اور ساتھی بھی موجود رہا کرتے تھے۔
ریڈیو جامعہ کو سننے والے باذوق سامعین براہ راست ٹیلی فون کرکے نشریات کا حصہ بنا کرتے تھے۔ ہماری نشریات کو کیسی کیسی شخصیات سنتی تھیں اس کا احساس دو مواقع پر ہوا۔ ایک بار میں نے بیکل اتساہی کے دوہوں پر گفتگو کی۔ اتساہی صاحب اس وقت بقید حیات تھے اور جامعہ کے پڑوس میں بسے اپنے بیٹے کے یہاں مقیم تھے۔ اتفاق دیکھیئے کہ وہ گفتگو انہوں نے سنی۔ ان کی تحریک پر پروگرام کے دوران ہی ان کے صاحبزادے نے ہمیں فون کیا اور پسندیدگی ظاہر کی۔
ایک بار کسی پروگرام کے دوران علم اللہ نے مجھے باتوں ہی باتوں میں کہا ‘آپ تو اردو کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہیں’۔ اتفاق سے وہ پروگرام پروفیسر صغری مہدی مرحومہ سن رہی تھیں۔ انہیں وہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے یونیورسٹی کے ایک اعلی اہکار کو فون کرکے شکوہ کیا کہ دیکھو یہ دو لڑکے کیا کہ رہے ہیں؟ اگر یہ انسائیکلو پیڈیا ہیں تو ہم کیا ہیں؟۔ اس اہلکار نے ہنس کر بات ٹال دی اور بعد میں ہمیں خبر دی کہ بھائی ذرا سنبھل کر بولا کرو لوگ لفظ پکڑ لیتے ہیں۔
بہتا دریا:
ایم سی آر سی سے مجھے حاصل ہونے والا ایک اور سرمایہ پروفیسر متین احمد صاحب ہیں۔ خالص تکنیکی مضمون ساؤنڈ کے استاد تھے لیکن صلاحیتیں ایسی ہمہ جہت کہ جس موضوع پر بولنا شروع کریں تو ایسا معلوم ہو جیسے دریا بہ رہا ہے۔ کلاس میں آکر پوچھتے ‘بتاؤ ہم کیا پڑھ رہے تھے؟’۔ ہم لوگ جو ٹاپک بتا دیتے اس پر ایسا عالمانہ لیکچر دیتے جیسے پہلے سے موضوع کا پتہ ہو اور گھنٹوں تیاری کرکے آئے ہوں۔ ان کا مضمون ساؤنڈ خالص فزکس سے متعلق تھا اور بہت سے طلبہ ایسے تھے جن کا سائنس بیک گراؤنڈ نہیں تھا لیکن ایسے عام فہم انداز میں پڑھاتے کہ سب کی سمجھ میں آ جاتا۔ ایک بار ایک لڑکی بولی بھی تھی کہ یہ بڑے پیار سے فزکس پڑھاتے ہیں۔
پروفیسر متین احمد صاحب نیشنل فلم ایوارڈ یافتہ ہونے کے باوجود منکسر المزاج شخصیت رکھتے تھے۔ طلبہ کو ان کی طرف سے یہ رعایت حاصل تھی کہ انہیں کہیں بھی روک کر کوئی بھی سوال کر سکتے تھے، بھلے ہی وہ سوال ان کے مضمون سے متعلق نہ ہو۔ پروفیسر متین احمد صاحب کی شخصیت کتنی ہمہ جہت ہے ، اس کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ انہوں نے فزکس میں اعلی تعلیم پائی۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا سے فلم سازی میں اختصاص کیا۔ بہترین ساؤنڈ ڈیزائنگ کے لئے صدر جمہوریہ کے ہاتھوں ایوارڈ پایا۔ اسکرپٹنگ، ڈائریکشن اور ساؤنڈ تینوں پر یکساں دسترس کے ساتھ لیکچر دیتے اور تاریخ سے متعلق کوئی بھی اہم کتاب بازار میں آتے ہی ان کے مطالعے کی میز پر ضرور آ جاتی۔ انہوں نے مجھے بطور طالب علم اور اس کے بعد بھی ہمیشہ بہتر کرنے کی تحریک دی۔ وہ حوصلہ افزائی کرکے نئی نسل کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دینے والوں میں سے ہیں۔
دھیرے دھیرے بول:
جامعہ کے اساتذہ میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ بہت سی باتوں کو ہنس کر ٹال دیتے تھے۔ پروفیسر والی انانیت یا سبق سکھانے کا جذبہ میں نے کم ہی پایا۔ ایک بار میرے فون میں کچھ ایسی خرابی ہوئی کہ اس میں صرف اسپیکر موڈ پر بات ہو پاتی تھی۔ جب کوئی فون آتا تو میں پہلے فون ریسیو کرتا پھر اسپیکر آن کرکے ہی بات کر پاتا تھا۔ ایک بار میں اپنے ایک استاد کے ساتھ ہائیجنک کیفے پر کھڑا تھا کہ ایک کلاس فیلو کا فون آ گیا۔ میں نے حسب روایت اسپیکر آن کرکے بات شروع کی۔ اس نے پوچھا ‘کہاں ہو؟۔ میں نے جواب دیا فلاں سر کے ساتھ ہوں۔ میرے ساتھی کو کیا خبر تھی کہ میرا فون مریض ہے، اس نے پلٹ کر ان استاد کو دو تین سخت القاب سے نوازتے ہوئے مجھ سے کہا کہ تم ہر وقت اس کے ساتھ رہتے ہو کیا؟۔ جب تک میں جلدی سے فون کاٹ پایا، استاد محترم اپنے لئے دی گئی صلواتیں سن چکے تھے۔ میرا شرمندگی سے برا حال تھا لیکن وہ ہنسنے لگے اور بات آئی گئی ہو گئی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس لڑکے کے خلاف انھوں نے کبھی جوابی کارروائی بھی نہیں کی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد پیشہ وارانہ زندگی باقاعدہ شروع ہوئی۔ سحر عالمی نیٹورک تو تھا ہی ایف ایم گیان وانی میں جز وقتی خدمات بھی شروع کر دیں۔ ریڈیو تہران کے لئے رپورٹنگ کا سلسلہ پہلے سے چلا ہی آ رہا تھا۔ماس کمیونی کیشن کے ایک انسٹی ٹیوٹ میں پڑھاتا بھی رہا۔ اتنی ساری مصروفیات کے ہوتے ہوئے بھی لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد دوردرشن نیوز کے شعبۂ ادارت سے منسلک ہو گیا۔ وہاں کام کی نوعیت اور دورانیہ ایسا تھا کہ جز وقتی مشغولیات ختم ہو گئیں۔ اب حال یوں ہے کہ ٹیلی ویژن نیوز کی دنیا میں مشغول ہوں لیکن کوشش رہتی ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز پر لکھنے کا سلسلہ جاری رہے۔ ارادہ کرکے اخبارات اور رسائل میں لکھنے کی فرصت بھی نکال لیتا ہوں۔
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
تحسین پوناوالا، ناصر حسین قریشی، پی وی سریندرناتھ اور مولانا یاسین اختر مصباح کا طلباسے اظہار یکجہتی
نئی دہلی: (جامعہ کیمپس سے محمد علم کی رپورٹ) مولانا محمد علی جوہر روڈ پر قدم رکھتے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ آپ ایک ایسی بستی میں داخل ہو گئے ہیں جہاں بے چینیوں کا راج اور اضطراب کا بسیر اہے ۔ رات کے سناٹے کے بعد سورج کی روشنی کے ساتھ ہی قومی نغمے کانوں میں گونجنے شروع ہو جاتے ہیں اور فجر کی اذان کے ساتھ ہی جن من گن اور سارے جہاں سے اچھا کی نوید سنائی دینے لگتی ہے ۔حب الوطنی میں ڈوبے گیت اور نغموں سے سر شار جامعہ کے طلبااور اوکھلا کے باسی جب اس آواز کو سنتے ہیں تو ان کے قدم خود ہی اس جانب کشاں کشاں کھنچے چلے آتے ہیں اور پھر شروع ہوجاتا ہےایک نیاجہان تعمیر کرنے کا عمل ، ایک نیا خواب بُننے اوراس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا جذبہ ، کسی کے ہاتھ میں ترنگا ہوتا ہے ، کسی کے ہاتھ میں پلے کارڈ تو کوئی اپنے ٹوٹے بستوں کے ساتھ ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ بابِ مولانا آزاد جو احتجاج کی نشانی بن چکا ہے پہنچنا شروع ہو جاتا ہے ۔ یہاں پر شیر خوار بچوں کے ساتھ اسی اور نوے سال کے بزرگ بھی دکھائی دیتے ہیں ، پیروں سے معذور افراد اور وہ بھی جو بول نہیں سکتے لیکن زبان حال اور قال سےگواہی دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے دستور کو بچانے نکلے ہیں اور آزاد ہندوستان کے یہ وہ سپاہی ہیں جو کل کی تاریخ رقم کر رہے ہیں ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس سے باہر سڑک کنارے سی اے اے (سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ )، این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر)اور این آرسی ( نیشنل رجسٹرآف سٹیزن ) کے خلاف تقریبا چالیس دن سے جاری احتجاج میں ہر دن ایک نیا انداز اور نیا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے ،جس میں طلبا اور آس پاس کے رہائشی حکومت کے خلاف اپنے اپنے انداز میں غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں ۔ شاعر اپنی شاعری کے ذریعے تو آرٹسٹ اپنے آرٹ کے ذریعے ۔ دیواریں اور سڑکیں مزاحمت کا نشان بن گئی ہیں جہاں تخلیقیت سے پُر نعرے اور کارٹون حکومت کو منہ چڑاتے نظر آتے ہیں ۔مقررین خطاب کرتے ہیں تو پڑھے لکھے افراد اس قبیح بل کے دور رس اثرات اور نقصانات سے لوگوں کو واقف کراتے ہیں ۔ چوبیس گھنٹے جاری رہنے والے اس احتجاج میں ، گذشتہ اکیس دن سے ستیہ گرہ پر بیٹھے بھوک اور پیاس سے نڈھال طلبا بھی نظر آتے ہیں لیکن ان کے چہرے پر نا امیدی یا مایوسی نظر نہیں آتی بلکہ عزم و ہمت کی ایک کرن دکھائی دیتی ہے ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباپر مشتمل رضاکار بلا تھکے انتہائی خلوص کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جس میں صفائی سے لیکر سیکیورٹی اور ٹریفک تک کی ذمہ داریاں طلباہی نبھاتے ہیں ۔ اسٹریٹ پر لائبریری بھی سجی نظر آتی ہے جس میں مختلف موضوعات پر کتابوں کا ڈھیر نظر آتا ہے جہاں پڑھنے والے طلبا مطالعہ میں غرق دکھائی دیتے ہیں ۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جامعہ سے چھیڑی گئی اس تحریک کو آج ۴۰ روز مکمل ہوگئے. آج کے احتجاج میں کئی سیاسی وسماجی شخصیات نے شرکت کی اور اس سیاہ قانون کی مخالفت جاری رکھنے کےلیے طلبا کے عزم وحوصلے کی داد دی اور طالبات کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے حتی المقدور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ دوردراز اور قرب وجوار سے آئی سماجی وسیاسی شخصیات میں خاص طور پر سماجی کارکن اور سیاسی تجزیہ کار تحسین پوناوالا، آج تک کے نیوز اینکر ناصر حسین قریشی، میرٹھ سے آئے وکیل عبدالواحد، اسلامک اسکالریاسین اخترمصباحی ، اکھل بھارتیہ وکیل سنگھ کے سکریٹری پی وی سریندرناتھ قابل ذکر ہیں۔سماجی کارکن وسیاسی تجزیہ کار تحسین پوناوالا نے مظاہرین کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مودی اور شاہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ سی اے اے اور این آر سی دو الگ الگ چیزیں ہیں مگر دونوں کانفاذ ہی حقیقت ہے۔ سرکار گاندھی جی کو مہرہ بنا کر استعمال کر رہی ہے اور گاندھی جی کے پرانے بیانات کو توڑ موڑ کر پیش کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں بھلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریت میں ہو مگر ان کی غیر آئینی پالیسیوں اور قوانین کو عوام تسلیم نہیں کریں گے ، جو لوگ تحریک چلا رہے ہیں ان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے بلکہ یہ لڑائی آئین کو بچانے کی ہے۔ ان کایقین ہے کہ عدالت عظمی اس سیاہ قانون کو ضرورغیر آئینی قرار دے گی۔آج تک کے نیوز اینکر ناصر حسین قریشی نے کہا کہ وزیراعظم کو یہاں مظاہرین سے مل کر چرچا کرنی چاہیے اور یقین دلانا چاہیے کی این پی آر اور این آر سی نافذنہیں ہوگا اور مجھے لگتا ہے کہ لوگ وزیراعظم کی بات پریقین بھی کریں گے۔ انہوں نے کہا ایک بہت بڑا گروہ بھرم اور دراڑ پھیلانے میں لگا ہے مگر ہم محبت پھیلائیں گے اورجیتیں گے ۔میرٹھ سے آئے وکیل عبدالواحد نےمظاہرین کوخطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بڑی بات ہے کہ ہم حکومت کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ہم ذاتی واداور یوگی والے بھگوا رویہ کے مخالف ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ ہم بھگت سنگھ کے رویے کو سلام کرتے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے طلبہ لیڈر اعجاز علی جعفری نے اپنے خطاب میں کہا کہ سرکار کہہ رہی ہے کہ یہ پورا معاملہ صرف مسلمانوں کا ہے مگر ان لوگوں نے پہلے بھی جھوٹے وعدے کیے ہیں، نوٹ بندی کے وقت وزیراعظم نے 50دن مانگے تھے کہ کالا دھن واپس لے آئیں گے لوگوں نے ان پریقین کیا مگر صرف دھوکہ ملا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ضابطہ بنالیا ہے کہ پارٹی میں ہونے کے لیے غنڈہ ہونا ضروری ہے، اور جوجتنا بڑا غنڈہ اتنا بڑا عہدہ۔ ان کے علاوہ دیگر مقررین میں پیس پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر محمد ایوب، سماجی کارکن ابھنو سنہا اورجامعہ کے طلبہ لیڈر عاقب رضوان، مبشر بدر وغیرہ نے بھی اپنی بات رکھی ۔ آج جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کی جانب سے ‘راشٹرویاپی سنیکت پردرشن کے اعلان ’ کے تیسرے دن دیش بھر کے مختلف مقامات پر ‘ایک روزہ بھوک ہڑتال’ کا بھی انعقاد عمل میں آیا ۔ ‘کال فار ریززٹینس’ عنوان کا یہ اعلان ایک ہفتہ تک ملک کے مختلف مقامات پرمختلف کاموں کے ذریعہ سے ہوگا۔جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی اور ایلومنائی ایسوسی ایشن کے ممبران کے مطابق جب تک یہ سیاہ قانون واپس نہیں لے لیا جاتا تب تک وہ مظاہرہ جاری رکھیں گےـ
فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’’ ہم دیکھیں گے‘‘جو سیاست کی بالادستی اور ناانصافیوں کے خلاف بغاوت کا اعلامیہ بن چکی ہے ،چونکہ اردو میں لکھی گئی ہے اور شاعر اپنے عقیدے کے اعتبار سے مسلمان ہے، اس کا مطالعہ مشرقی علوم اور مشرقی زبانوں کا بہت زیادہ ہے اس لیے لازمی طور پر ایسا ہے کہ نظم کی زمین مشرقی مہا بیانیوں کے علامتی لفظ وصوت اور تصوروخیال سے بھر گئی ہے۔ اور یہ بالکل فطری ہے ، کوئی بھی نظم جس زبان میں لکھی جاتی ہے اسی زبان کے مہاوروں، کہاوتوں،علامتوں ،استعاروں اور تشبیحات وتلمیحات بلکہ خود شاعر کے ایمان و مذہب کو ظاہر کرنے والی علامتوں او ر صوتیات سے مملو ہوتی ہے اور جب تک لفظ اور علامتوں کا برتاوا منفی نہیں ہے، تب تک اس میں کچھ برائی بھی نہیں۔ اس کے برعکس اگر ظلم کی مخالفت اور آزادیوں کی حمایت کی با ت ہے تو یہ ہر طرح سے پروگریسو ہے اور اس کی ہر حال میں تائید کی جانی چاہیے۔
یہ نظم اس وقت لکھی گئی تھی جب فیض امریکہ میں مقیم تھے اور وطن سے دور اپنے اس قیام کو جلا وطنی سے بھی تعبیر کرتے تھے ، یہ نظم فیض کے دیوان ’’مرے دل مرے مسافر‘‘ میں شامل ہے۔ اس کا عنوان ’ویبقیٰ وجہ ربک‘‘ہے، جو سورۂ رحمان کی آیت کا ایک ٹکڑاہے۔ یہ نظم ڈکٹیٹر شپ کے خلاف بغاوت کا اعلامیہ ہے اور جمہور کی حکومت کا مژدہ سنانے والی ہے۔ ا س میں یہ دعویٰ بہت یقین کے ساتھ دوہرایا گیا ہے کہ حالات ایک دن یقینا بد لیں گے۔شاعر کے دل میں یقین کی یہ کیفیت قرآن کے بیانیے اور اس پر اعتماد ویقین سے بھی پیدا ہوئی ہے ۔ اور ان ادبی وسیاسی سرگرمیوں اور وابستگیوں سے بھی، جن سے وہ عمر بھر وابستہ رہے۔اقبال اور رومی تو ان کے پسندیدہ شاعر رہے ہیں۔
اس نظم میں جتنے بھی ایسے الفاظ آئے ہیں جو مذہبی شعار اورعلامات کے حوالے سے جانے پہچانے ہیں جیسے کعبہ وبُت اور حرم وانا الحق وغیرہ ، حقیقت یہ ہے کہ یہ سب الفاظ علامتی اور استعاراتی معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی بھی حقیقی معنیٰ میں استعمال نہیں ہوا ۔ بُت سے مراد بھی ہندو مذہب کےدیوی ودیوتاؤں کی کوئی مورتی نہیں ہے بلکہ ظالم حکمراں اور نامراد اہل سیاست مراد ہیں۔اردو شاعری میں بُت کا استعمال بہت کثرت اور بہتات کے ساتھ ملتا ہے۔اور اکثر جگہ اس سے معشوق مراد ہوتا ہے، خاص کر وہ ،جو شوخ اوربے پرواہ ہے جو محبت کا مثبت جواب نہیں دیتا۔پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی نے کہا ہے:
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
نسیم کے اس شعر میں ’’ بُت‘‘ سے مراد کوئی مورتی نہیں ہے اور نہ ہی ’’کفر ‘‘کا اشارہ کسی غیر مسلم کی طرف ہے، بلکہ بت سے مراد معشوق ہے اور کفر سے مراد اس کی ضد اور ’نہیں نہیں‘ ہے۔
فیض کی نظم میں اللہ کا نام بے شک حقیقی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے اوراس نظم کی یہی لائن ’’ بس نام رہے گا اللہ کا‘‘ اس نظم اور اس کے عنوان میں ربط پیدا کرتی ہے۔مگر یہاں لفظ ’اللہ‘ کے استعمال کی وجہ یہ ہے کہ نظم اردو زبان میں ہے اورشاعر اللہ کی ذات میں عقیدہ (آستھا) رکھتا ہے۔ اگر شاعر غیر مسلم ہوتا یا نظم دوسری زبان میں ہوتی تو اللہ کے سوا کوئی دوسرا لفظ ہوسکتا تھا جیسے مالک ،بھگوان اور گاڈ وغیرہ۔ اسی طرح ’حرم ‘اور ’کعبہ ‘ بھی ایوان سیاست کی اعلی مسندوں کے معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں۔ اور یہ اسی طرح ہے جس طرح عدالتِ عالیہ کو’’ انصاف کا مندر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ ایسا کہتے وقت حقیقی مندر مراد نہیں ہوتا اور نہ ہی عدالت ِعالیہ کو مندر بتانا مقصود ہوتا ہے۔
’’ہم دیکھیں گے/لازم ہے کہ ہم دیکھیں گے‘‘
ان لائن میں دو نوعیت کا مضمون ہے۔ ایک یہ کہ دیکھتے ہیں اللہ ظلم کو مٹانے اور انصاف قائم کرنے کا اپنا وعدہ کس طرح پورا فرماتا ہے اور دوسرے یہ کہ اللہ کا یہ وعدہ سچ ہوکر رہے گا اور ہم (یعنی انسان، نہ کہ خود فیض) اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔
’’وہ دن کے جس کا وعدہ ہے/جو لوح ازل میں لکھا ہے‘‘
یہاں وعدے کے دن سے قیامت کا دن مراد نہیں ہے اور نہ ہی لوح ازل سے محض قرآن مراد ہے، جیسا کہ بعض اہل قلم نے بتانے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے قوانین فطرت میں بھی اور قوانین شریعت میں بھی اللہ کا یہ اصول اور وعدہ ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جب ظالم بے موت مارا جاتا ہے اور مظلوم سرخ رو ہوتا ہے۔ موسیٰ وفرعون کی لمبی داستان ِ دلخراش میں ایک دن وہ بھی آیا جب فرعون غرقاب ہوا اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم سرخ روہوئی ۔ یہی بات قرآن میں اس طرح لکھی ہے۔ جاء الحق وذہق الباطل۔ جس طرح فرعون کا غرق ہونا دنیا میں ہی ہوا ، اسی طرح یہ بھی دنیا ہی میں ہوتا ہے کہ باطل کا چراغ گل ہوتا ہے اور حق کی شمع روشن ہوتی ہے۔اس لئے ’’وعدے کے دن ‘‘سے قیامت کا دن مراد لینا درست نہیں اور’’ لوح ازل ‘‘سے قرآن ہی سمجھنا بھی غلط ہوسکتا ہے۔اس میں ابتدائےآفرینش کے معنی بھی ہوسکتے ہیں۔اسی طرح نظم میں زمین کے دھڑدھڑ دھڑکنے اور بجلی کے کڑکڑ کڑکنے کی صوتیات کی خام بنیادیں قرآنی بیانئے میں تلاش کرنا بھی دور کی کوڑی لانےکے مترادف ہے۔مگر کئی قلم کاروں نے یہ کوشش بھی کرڈالی ہے۔
’’جب ارضِ خدا کے کعبے سے /سب بت اٹھوائے جائیں گے‘‘
ارضِ خدا کے کعبے سے یعنی اللہ کی زمین کے قابل احترام مقامات اور ایوان سیاست سے ، جب ظالم حکمرانوں کو بے عزت کرکے نکالا جائے گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح بیت اللہ سے بتوں کو نکالا گیا تھا۔ یہا ں تلمیحاً اُس واقعے کی طرف اشارہ ہے، جب بیت اللہ الحرام کو بتوں سے پاک کیا گیا تھا ، مگر مقصود آج کے زمانے کے ظالم حکمرانوں سے سیاست کے ایوانوں کو پاک کرنا ہے۔ اور مردودِ حرم، (سیاست کے محل اور ایوانوں سے دھتکارے ہوئے لوگ) یعنی عوام کو ایوان سیاست کی اعلیٰ مسندوں پر بٹھایا جائے گا۔آج کی دنیا میں جو دھتکارے ہوئے لوگ ہیں اور دبے کچلے انسان ہیں ، جلد ہی وہ دن بھی آئے گا جب وہ سیاسی و مذہبی محلوں اورایوانوں کی اعلی مسندوں پر جلوہ افروز ہوں گے اور یہ ہوکر رہے گا کیونکہ قدرت کے کارخانے میں ہمیشہ سے یہی ہوتا رہا ہے۔
اس نظم کا عنوان اور پھر نظم میں موجود بعض الفاظ اور تلمیھات اس کو مذہب اسلام ،اسلامی تہذیب اور پھر اسلامی بیانیے سے جوڑ دیتی ہیں۔عنوان کے لیے تو قرآن کے الفاظ من وعن لے لیے گئے ہیں۔ اس میں منصور کے نعرے ’انا الحق‘ کا ذکر بھی بطور تلمیح آگیا ہے ۔یہ نعرہ بھی بنیادی طور پر کسی غیراسلامی مذہب کے مخالف نہیں ہے، بلکہ اُس وقت جب یہ نعرہ حسین بن منصور حلاج کی زبان سے اداہواتھا ، اسے اسلامی توحید کے خلاف ہی سمجھا گیا تھا ، بعد میں سیاست بھی اس کے خلاف ہوگئی اور منصور کو دار پر کھینچا گیا۔ اور پھر مزید بعد کے زمانوں میں یہ نعرہ سیاست گردی کے خلاف اور غلامی کے خلاف ’انقلاب زندہ باد ‘ جیسا نعرہ بن گیا ۔ اور فیض کی نظم میں اس نعرے کی گھن گرج نعرۂ انقلاب کی گھن گرج کے ہم معنیٰ ہی ہے۔اب اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ فیض اس نعرے سے فی الواقع کیا معنیٰ سمجھتے تھے، وہ بھلے ہی منصور کو درست مانتے ہوں اور اپنے من میں ’انا الحق‘ کی کوئی توجیہ کرتے ہوں جیسے کہ بہت سے صوفیاء اور علماء نے کی ہے ،مگر نظم میں یہ محض عزم واستقلال اور انقلاب کے معنیٰ میں ہی ہے۔ اس میں اس عزم کا اظہار ہے کہ منصور حلاج کی طرح ہم بھی خوشی خوشی تختہ دار کو چوم لیں گے مگر اپنے دعوے سے سرمو انحراف نہ کریں گے۔
ایک جملۂ معترضہ کے طورپر یہ بھی سن لیں کہ نعرۂ اناالحق سے کوئی کچھ بھی سمجھے اور جو چاہے معانی نکالے مگر’ اناالحق‘ فرعون کے نعرے ’انا ربکم الا علیٰ‘ سے بہت مختلف ہے۔ اس میں غرور اور خدائی کا دعویٰ ہے جبکہ’ اناالحق‘ میں عاجزی اور فنا کا تصور ہے۔دونوں قلبی واردات کی سطح پر ایک دوسرے کے متضاد ہیں، ایسے ہی جیسے کفر اور ایمان ایک دوسرے کے کھلے متضاد ہیں۔
اورجس طرح کوئی فلم، ناول یا افسانہ وغیرہ جس کی زمین مذہبی علامتوں پر استوار ہو، یا اس کی کہانی مندر، مسجد، گردوارہ یا چرچ وغیرہ کے ارد گرد گھومتی ہو تو محض اس بات سے وہ افسانہ، ناول یا فلم مذہبی نہیں ہوجاتی،اسی طرح کوئی نظم، فن پارہ یا ادب مذہبی علامتوں کی وجہ سے مذہبی نہیں ہوجاتا۔انہیں اگر کوئی چیز مذہبی بناتی ہے تو وہ لفظوں ، استعاروں اور تلمیحات کا برتاوا ہے کہ ان میں معنیٰ کو کس کیف ونوع کے ساتھ برتا گیا ہے۔اگر کسی نے یہ بات نہیں جانی تو اس نے آرٹ اور ادب کو نہیں جانا۔
اس نظم کو یا اس کی کسی لائن کو ہندومخالف بتاناشعر وادب سے سراسر ناآشنائی والی بات ہے یا پھر یہ کہ سیاست چلانا مقصود ہے اور کچھ نہیں، کوئی بھی ادب وساہتیہ کا آدمی اس نظم کو ہندومخالف نہیں کہہ سکتا ۔اور جبکہ یہ معلوم ہے کہ یہ نظم خود پڑوسی ملک کے حکمراں جنرل ضیاء الحق کی بعض پالیسیوں کے خلاف کہی گئی تھی ،تب تو اور بھی کوئی تُک نہیں بنتی کہ اسے ہندو مخالف بتایا جائے۔
تعجب ہے کہ پڑوسی ملک پاکستان میں جس شاعر کو ہندوستان نواز کہا گیا، آج اسی کے چند بول ہندو مخالف قرار دئے جارہے ہیں۔اس نظم سے ایک زمانے میں پاکستان کی حکومت خوف کھاتی تھی اور آج ہندوستان کی حکومت کو اسی نظم سے ڈر ستارہا ہے۔ سیاسی اکھاڑوں کے پہلوان بھی کتنے بہادر ہوتے ہیں، کہ لفظ وصوت کی گھن گرج سے ڈرجاتے ہیں ، حالانکہ ان کے اپنے پاس توپوں ، میزائیلوں اور ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ ہوتی ہے اور پھر بھی وہ کمزور اور سریلی آوازوں سے خوف کھاتے ہیں۔ کیا یہ اپنے آپ میں کچھ کم تعجب خیز بات ہے۔
ترجمہ:نایاب حسن
مودی حکومت کے ذریعے لائے گئے نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاجات کی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں،جن سے مسلمانوں کے تئیں روایتی سوچ کا خاتمہ ہورہاہے۔اس بار علمااور مذہبی شخصیات قیادت نہیں کررہی ہیں؛بلکہ قیادت کرنے والے نوجوان اور گھریلوخواتین ہیں۔یہ احتجاج خالص مسلمانوں کابھی نہیں ہے،جیساکہ ماضی میں سلمان رشدی،تین طلاق یا تسلیمہ نسرین کے معاملوں میں دیکھاگیاتھا،اس کے برخلاف یہ ایک نئی ہمہ گیر تحریک ہے،جس میں جامع مسجد کی سیڑھیوں سے شاہی امام کی بجائے چندشیکھر آزاد خطاب کررہاہے۔تمام طبقات و مذاہب کے طلبہ ساتھ مل کر”آزادی“کا غیر فرقہ وارانہ نعرہ لگارہے ہیں۔تمام مظاہرین کی ایک اہم اور توانادلیل یہ ہے کہ جب دستور وآئین کے مطابق قانون کی نظر میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت حاصل ہے،توہندوستانی پارلیمنٹ اکیسویں صدی میں کوئی بھی قانون سازی کرکے اس دستور میں مذہبی تفریق کا عنصر داخل نہیں کرسکتی۔
ان مظاہرین کے پاس ایک مضبوط ہتھیارہے اوروہ ہے ہندوستانی آئین کا”دیباچہ“۔کپڑے اور طرزِپوشش کا اختلاف یہاں معنی نہیں رکھتا،جینز،جیکٹ اور حجاب سب ساتھ ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی خواتین یا بنگلور کی سافٹ ویئر پروفیشنلزیا جامعہ کے طلبہ و طالبات کاپرانے مظلومیت و متاثرہونے کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی بجائے ان محب وطن ہندوستانیوں کی جانب سے پوری توانائی اور طاقت کے ساتھ برابری کے حقِ شہریت کا اظہار کیاجارہاہے۔
مظاہروں کے مقامات پر آپ کو ایسے بچے اور جوان نظر آئیں گے، جنھوں نے اپنے چہروں پرہندوستانی ترنگانقش کروا رکھاہے،ایسے مناظر عموماً ہندوستان کے کرکٹ میچوں یا یومِ آزادی کے موقعے پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔شاہین باغ میں ایک انڈیاگیٹ اور ہندوستان کا ایک عظیم الشان نقشہ بنایاگیاہے۔آزادی کے ہیروگاندھی،بھگت سنگھ،امبیڈکر اور مولانا آزاد کی تصویریں ایک قطار میں لگائی گئی ہیں۔ان سب کو ایک ساتھ دکھانے کا آئیڈیا(جوکہ روایتی سیاست دان نہیں کرتے)ہی اس احتجاج کو نظریاتی طورپر منفرد بناتاہے۔
حیدرآبادمیں اسداالدین اویسی ترنگا ریلی نکال رہے ہیں اور یوم جمہوریہ کے موقعے پر چار مینارکوترنگاسے روشن کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ممبئی میں دھاراوی کی جگی جھونپڑیوں میں رہنے والے مسلمان اپنے مراٹھی پڑوسیوں کے ساتھ مل کر قومی گیت گارہے ہیں۔مجلس کے لیڈر وارث پٹھان نے پوری قوت کے ساتھ کہاکہ دوسرے لوگ بھلے ہی آسٹریلیا،امریکہ ہجرت کرجائیں مگر اس ملک کے مسلمان اپنے پیارے وطن ہندوستان کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے۔
ایک سوال ہوسکتا ہے کہ کیامسلمان ڈرکے مارے اپنی حب الوطنی کا اظہار کررہے ہیں؟بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ وطن سے محبت ووفاداری کا اظہار واعلان یقینی طورپر وہی چیز ہے، جس کا بی جے پی شروع سے مطالبہ کرتی رہی ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے،وہ کھل کر اپنے خلاف ہونے والے تعصب کو چیلنج کررہے ہیں؛بلکہ وہ کسی بھی دقیانوسیت اور بھدی تصویر کشی کو صریحاً مسترد کررہے ہیں۔ساتھ ہی دیگر محب وطن افراد کے ساتھ صف بستہ ہونے کے لیے لوگوں میں بین المذاہب بھائی چارے اور یکجہتی کا شوقِ فراواں پیدا ہورہاہے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص کاکہناہے”اب بہت ہوچکا ہے۔کیاہم ایودھیا فیصلے پر خاموش نہیں تھے؟کیاہم اس وقت بھی خاموش نہیں تھے، جب مویشیوں کی تجارت کے نئے قانون کے ذریعے ہمارے کاروبارکو نقصان پہنچایاگیا؟کیاہم اس وقت بھی چپ نہیں تھے، جب ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو وفاقی خطے(یونین ٹیریٹری) میں بدل دیاگیا؟کیاہم نے اپنی مسلسل ہتک کے باوجود امن وامان کی باتیں نہیں کیں؟مگراب جبکہ ہماری شہریت کو چیلنج کیاگیاہے،تو ہمیں اپنی مادرِ وطن سے مضبوط انتساب کے اظہاراورحکومت کے تئیں شدید ناراضگی جتانے میں کوئی جھجھک نہیں ہے“۔
یہ آواز صرف اکثریت پسندی کے خلاف نہیں ہے؛بلکہ ساتھ ہی یہ خود مسلمانوں کے ان دانشوروں (مثلاً ماضی قریب میں سید شہاب الدین)کے بھی خلاف ہے،جو ہندوستانیت کی بجاے مسلم شناخت پر زوردینے کی کوشش کرتے ہیں؛چنانچہ شاہین باغ کے احتجاج میں ”ہندوستان کے چارسپاہی- ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی“جیسے نعرے تواتر کے ساتھ لگ رہے ہیں، جس سے یہ تیقن حاصل ہوتاہے کہ بین المذاہب اشتراک و اتحادکے ذریعےہی ایک حقیقی طورپر آزادہندوستان کی تعمیر و تشکیل ہوسکتی ہے۔
یوپی،مغربی بنگال اور منگلورومیں تشدد کے واقعات اور انتہاپسندانہ سیاست کی وجہ سے اس تحریک کے اخلاقی وقار کوکچھ ٹھیس پہنچی تھی ،مگر زیادہ تر احتجاجات تاحال پرامن ہیں اور ممکن ہے ان سے مخلصانہ وپرامن سول تحریک کے تئیں ایک بار پھر سے لوگوں کااعتمادویقین لوٹ آئے۔اب ذمے داری اکثریتی طبقے کی ہے،کیاسبھی ہندواس دستوری لڑائی میں شامل ہوں گے اور سیاست دانوں کے ذریعے کیے گئے اس دقیانوسی پروپیگنڈے کو ناکام ثابت کریں گے کہ ”مظاہرین اپنے کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں“؟
بی جے پی نے برطانوی استعمار کا لغت اپنالیاہے۔ایک تحقیقی کتاب‘Beyond Turk and Hindu’میں یہ بتایاگیاہے کہ کس طرح استعماری دورِ حکومت میں محکمۂ شماریات کے افسران نے ہندوستانیوں کوواضح طورپر”مسلم“اور ”ہندو“کے طبقوں میں تقسیم کیا۔اس سے پہلے برصغیر “Islamicate” اور“Indic”لوگوں کی آمدورفت کے لیے یکساں وسعت رکھتا تھا۔ان مظاہروں نے ان پرانے اشتراک و تعلقات کو زندہ کردیاہے اور مسلمانوں کے اس دعوے کو مضبوط کردیاہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ان کی حصے داری نہایت پرانی ہے۔
ان احتجاجات کومسلم ایشوکے طورپر دیکھنا غلط ہے،اسی طرح مظاہرین کے لیے بھی غلط ہوگاکہ وہ ”شناخت کی سیاست“کے تنگنائے میں منحصر ہوکررہ جائیں۔یہ وقت نئے دستوری اقدارکی بازیابی کے لیے جدوجہد اور دوقومی نظریے کوپوری قوت سے مسترد کرنے کاہے۔فی الحقیقت یہ مظاہرے اکثریت -اقلیت کی تقسیم سے ماورا ایک نئی سرگرم مسلم سٹیزن شپ کے ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں؛کیوں کہ اس تحریک کے ذریعے طاقت ورانداز میں یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کسی بھی اعتبار سے اس ”دیش بھگتی“سے کم نہیں ہے،جس کا ہندووں کودعویٰ ہے۔ان احتجاجات میں پوری قوت سے یہ احساس ابھر کرسامنے آرہاہے کہ:فخرسے کہو،ہم ہندوستانی مسلم ہیں!
(بہ شکریہ روزنامہ ٹائمس آف انڈیا)
مختلف سیاسی وسماجی شخصیتوں کی آمد،سخت سردی اور بارش کے باوجود مظاہرین پرجوش ، یواین اوکی تحقیقاتی ٹیم کا دورہ کل
نئی دہلی۔ ۱۰؍جنوری ( جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ) جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیمی قانون، این آر سی و این پی آر کے خلاف احتجاج کا آج ۲۹؍واں دن تھا۔ سخت سردی اور بارش کے باوجود لوگوں کا جوش ولولہ قابل دید تھا۔ آج جمعہ ہونے کی وجہ سے مظاہرین کی کچھ زیادہ ہی بھیڑ تھی۔ طلبا نے مجموعی طورپر اپنے عزم وہمت کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس تحریک کو اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ہماری جان میں جان ہے۔ اس موقع پر طلبانے پرزور آواز میں حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ طلبا کی ایک بڑی تعداد بھوک ہڑتال پر بھی بیٹھی ہوئی ہے۔ اسی درمیان طلبا کو حمایت دینے اور ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے والوں کا بھی تانتا بندھا ہوا ہے۔ بڑی تعداد میں سماجی کارکنان، دانشوران اور ملی قائدین ، یونیورسٹی وکالج کے پروفیسران طلبہ کے ساتھ اظہار یگانگت کےلیے گیٹ نمبر 7 باب مولانا ابوالکلام آزاد پر پہنچ رہے ہیں۔ آج کے اس احتجاج میں جن شخصیتوں نے خطاب کیا ان میں معروف دانشور پروفیسر زویا حسن، سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ ڈاکٹر زیڈ کے فیضان، معروف قلمکار اشوک کمار پانڈے، آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان عاصم وقار، معروف اسلامی اسکالر مولانا یحییٰ نعمانی، یوتھ فور پیس کے جنرل سکریٹری علی نسیم رضی ، یوپی کانگریس کے نوجوان لیڈر سلمان خان علیگ، ایم ای ای ایم کے صدر سید فرمان احمد اور شعرا میں حسین حیدری، سومیہ دیپ مرشدآباد کے نام قابل ذکرہیں۔ آج کے احتجاج میں خطاب کرتے ہوئے معروف دانشورو جامعہ کے سابق وائس چانسلر مشیرالحسن کی اہلیہ پروفیسر زویا حسن نے کہاکہ آزادی کے بعد سے میں نے اتنی بڑی تحریک نہیں دیکھی ہے، نربھیا اور انا احتجاج بھی صرف دہلی تک ہی محدود تھا لیکن یہ احتجاج ملک بھر میں ہے۔ انہو ں نے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے۔سپریم کورٹ کے وکیل زیڈکے فیضان نے کہاکہ یہ سیاہ قانون آئین مخالف ہے، حکومت آپ کے احتجاج سے بوکھلائی ہوئی ہے، جامعہ کیمپس میں گھر کر دہلی پولس کے ذریعے تشدد پر انہو ں نے کہاکہ جو بھی جامعہ میں ہوا وہ وائس چانسلر اور پولس کی ملی بھگت سے ہوا۔ مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان عاصم وقار نے کہاکہ میں یہاں سیاست کرنے نہیں بلکہ اپنی ذمے داری نبھانے آیا ہوں کہ ہم اپنے حقوق اور آئین کے تحفظ کےلیے لڑیں، جس سے ملک کی روح بچی رہے، انہوں نے مظاہرین کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہاکہ آپ سب اکیلے نہیں ہیں ہماری پارٹی آپ کے ساتھ ہے،یہ لڑائی صرف مسلم اور حکومت کے درمیان نہیں بلکہ یہ ملک اور حکومت کے درمیان کی لڑائی ہے۔ معروف اسلامی اسکالر مولانا یحییٰ نعمانی نے کہاکہ آپ جو کررہے ہیں زیادہ تر لوگ یہ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، انہوں نے کہاکہ اس تحریک کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں ایک زبان، ایک نعرہ ہے ہم سب ایک ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جامعہ نے پورے ملک کو جگا دیا ہے۔ اس موقع پر سبھی مقررین نے جامعہ کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی اور تحریک جاری رکھنے پر مبارک باد دی۔ڈاکٹر شکیل احمد خان ، کدوہ ، بہار سے ممبر قانون ساز اسمبلی نے کہا ، “یہ احتجاج اگلی نسل کے لئے ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی ایک اور عنوان لے کر آئے گی اور ہماری توجہ دوبارہ ہٹانے کی کوشش کرے گی لیکن ہمیں اپنے معاملے پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگا اور لڑائی جاری رکھنا ہوگا۔ نوجوان لیڈر سلمان خان علیگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں بابا صاحب امبیڈکر اوران کے آئین کو مانتا ہوں، انہوں نے کہاکہ ہم تعلیم یافتہ ہیں اور ہماری تعلیم بے کار ہے اگر ہم فرقہ پرست حکومت کے خلاف نہیں لڑے ، انہوں نے مظاہرین سے کہاکہ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ اس تحریک کو اتحاد کے ساتھ جاری رکھیں ـ ادھر دوسری جانب جنوبی دہلی کے شاہین باغ کا احتجاج بھی انتہائی جوش وخروش کے ساتھ جاری رہا۔ دہلی ہائی کورٹ نے شاہین باغ کے مظاہرین کو راحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں سے مظاہرین نہیں ہٹیں گے۔ جس سے مظاہرین میں خوشی کی لہر ہے۔ ہائی کورٹ میں دائر عرضداشت میںں کہاگیا تھا کہ شاہین باغ علاقے میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کو لے کر ہورہے احتجاجی مظاہرے کی وجہ سے ڈی این ڈی فلائی اوور پر روز عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد لوگوں میں خوشی کے آثار دیکھے گئے، اس موقع پر مظاہرین نے کہاکہ اب جو ہوجائے ہم اس کالے قانون کو واپس لیے جانے سے پہلے یہاں سے جانے والے نہیں ہیں، ہم پولس کی گولی کھانے کو بھی تیار ہیں، لیکن بنا سی اے اے قانون کو ہٹوائے ہم یہاں سے جانے والے نہیں ہیں۔ قابل ذکرہے کہ اتوارکو شام 7:30 بجےشاہین باغ کے احتجاج میں یو این او کی ٹیم اس احتجاج اور ملک کے موجودہ منظر نامے کا جائزہ لینے کے لئے آرہی ہےـ منتظمین نے اس موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں سے شرکت کی درخواست کی ہےـ