نئی دہلی: (رضوان الدین فاروقی) اردو کے بلند پایہ ناقد، ادیب اور ڈرامہ نگار پروفیسر شمیم حنفی رضائے الٰہی سے وفات پا گئے ہیں ـ شمیم حنفی 17 مئی، 1939ء کو سلطانپور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی زندگی سلطانپور ہی میں گزاری۔ پھر کالج کی تعلیم کے لیے الہ آباد چلے گئے۔ یہاں وہ فراق گورکھپوری کے تعلق میں آئے جنہوں نے ان کے دماغ پر گہرا اثر چھوڑا۔ شمیم حنفی نے کچھ وقت اندور، مدھیہ پردیش میں بھی گزارا۔
پروفیسر شمیم حنفی نے ابتداءاً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تدریسی فرائض انجام دیے تھے۔ بعد میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اعزازی پروفیسر کے طور پر مقرر ہوئے۔موجودہ وقت میں وہ اردو کے ایک قد آور تنقید نگار شمار کیے جاتے تھے ـ انھوں نے جدید تنقیدی رویوں اور رجحانات کی تشکیل اور ان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ـ ان کی کتابوں میں جدیدیت کی فلسفیانہ اساس،غزل کا نیا منظرنامہ، نئی شعری روایت، کہانی کے پانچ رنگ، فراق: شعروشخص،فراق: دیار شب کا مسافر،اقبال کا حرف تمنا،قاری کا مکالمہ،سیاہ فام ادب،سر سید سے اکبر تک،غالب کی تخلیقی حیثیت،ہم سفروں کے درمیان،ہم نفسوں کے بزم میں،دکان شیشہ گراں،اجتماعی زندگی اور انفرادی شعور ـ تراجم میں قومی یکجہتی اور سیکیولرازم (ڈاکٹر تارا چند کے خطابات)،یادوں کی دنیا (ڈاکٹر بھگوان سنگھ کی سوانح عمری)،شب خون آشام (معاصر بنگالی زبان کی شاعری)،ہماری آزادی (مولانا ابو الکلام آزاد کی مشہور کتاب India Wins Freedom کا اردو ترجمہ)خاص طور پرقابل ذکر ہیں ـ انھوں نے کئی ڈرامے بھی لکھے اور بچوں کے لیے کہانیاں بھی تحریر کیں ـ شمیم حنفی کی وفات سے پوری اردو دنیا سخت غمگین ہےـ ان کا جانا اردو ادب و نقد کے ایک عہد کا خاتمہ ہےـ