دوحہ(ایجنسی) شیخ حمد ایوارڈ برائے ترجمہ اور بین الاقوامی مفاہمت کی تقریبات کے ضمن میں ہر سال ایوارڈ کی میڈیا کمیٹی، ایوارڈ کے لیے منتخب کی گئی زبانوں میں عربی ترجمے کی صورتحال کو سامنے لانے کے لیے مذاکروں اور سیمیناروں کا اہتمام کرتی ہے۔ اسی ضمن میں ہندوستان میں عربی سے اردو اور اردو سے عربی ترجمے کی موجودہ اور تاریخی صورتحال اور اس حوالے سے افراد اور اداروں کی خدمات اور پیش آمدہ مشکلات کے وقیع موضوع پر علمی آن لائن مذاکرے کا اہتمام کیا جس میں شیخ حمد ایوارڈ کی میڈیا ایڈوائزر ڈاکٹر حنان الفیاض نے بذات خود شرکت کی۔ ویبنار کی نظامت میڈیا پرسنالٹی اور ترجمہ نگار عبید طاہر نے کی، جبکہ شرکا میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں عربی شعبے کے صدر اور صدارتی ایوارڈ یافتہ پروفیسر عبدالماجد القاضی اور شعبے کے سابق سربراہ پروفیسر حبیب اللہ خان، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے پروفیسر صدارتی تمغے سے سرفراز ثناء اللہ ندوی اور جے این یو میں اسلامی اور افریقی اسٹڈیز سینٹر کے سابق سربراہ اور صدارتی ایوارڈ کے حامل پروفیسر مجیب الرحمن شامل تھے۔
پروفیسر حبیب اللہ خان نے ہندوستان میں تراجم کے سلسلے میں اداروں اور افراد کی خدمات کا جائزہ لیا اور بتایا کہ اٹھارہ ہزار سے زیادہ کتابیں اداروں کی سطح پر عربی سے ترجمہ کی گئی ہیں جبکہ شخصی خدمات کا اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں ہے۔ پروفیسر مجیب الرحمن نے اپنی ریسرچ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 90فیصد تراجم عربی سے اردو میں کیے گئے ہیں جبکہ صرف 10فیصد اردو سے عربی میں کیے گئے ہیں، انہوں نے اس کے اسباب اور تدارک کے ذرائع پر بھی روشنی ڈالی۔
ویبنار کے تیسرے موضوع یعنی ترجمے کے میدان میں ذاتی تجربات کو پروفیسر ثنااللہ ندوی نے موضوع گفتگو بناتے ہوئے کہا کہ مترجم کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں زبانوں پر مہارت کے ساتھ ساتھ اصل متن کے موضوع سے بھی واقفیت رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر اگر فن معماری کی کتاب ہے تو اس فن کی اصطلاحوں اور ناموں کے متعلق اس کو پوری معلومات ہوں اور اسی طرح دیگر علوم و فنون۔ ویبنار کے آخری مقرر پروفیسر عبدالماجد قاضی نے درست ترجمے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا علمی اور تحقیقی جائزہ لیا اور بالخصوص شعری ترجمہ کرتے ہوئے ممکنہ پریشانیوں کی وضاحت کی اور مثالوں کے ذریعے واضح کیا کہ ایک لفظ کے ادھر اُدھر ہونے سے کس طرح اصل متن کی روح ختم ہوسکتی ہے۔ ویبنار کے آخر میں ایوارڈ کمیٹی کی میڈیا ایڈوائزر ڈاکٹر حنان الفیاض نے مقررین کی وقیع گفتگو پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ایوارڈ کے وژن، مقاصد، شرائط اور اس کی مالیت اور تقسیم کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی، جس کے بعد ویبنار کے ناظم اور ہندوپاک کے لیے میڈیا کمیٹی کے کوارڈینیٹر عبید طاہر نے شرکا اور آن لائن دیکھنے والے تقریباً چار ہزار ناظرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دو گھنٹے سے زیادہ جاری رہنے والے وقیع اور علمی مذاکرے کے اختتام کا اعلان کیا۔ انہوںنے بتایا کہ ایوارڈ میں شرکت اور تفصیلات کے لیے ویب سائٹ www.hta.wa پر رابطہ کرسکتے ہیں۔
ترجمہ
(محمد صدیق المنشاوی کے 100 ویں یوم پیدائش پر خصوصی مضمون)
20 جنوری کا دن مجھ جیسوں کے لئے بہت اہم ہے۔مگراس سال 20 جنوری کی اہمیت اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ تلاوتِ قرآن کی دنیامیں عالم اسلام کے مشہور قاری محمد صدیق المنشاوی کی پیدائش کو آج 100سال پورے ہوگئے ہیں۔
تلاوت قرآن کے ایک باذوق سامع کی حیثیت سے صدیق المنشاوی پر لکھنا میرے اوپر فرض تھا۔ایک عرصہ سے برادر خورد حافظ محفوظ محمد بھی اصرار کرتے آرہے ہیں کہ میں منشاوی مرحوم پر لکھوں۔پچھلے دنوں ان کی وفات کو 50سال پورے ہوئے تب بھی میں لکھ نہ سکا۔۔۔اب جب لکھ رہا ہوں تو ملک کے احوال اچھے نہیں ہیں اور ہر ذی شعور انسان اور خاص طورپر حساس قلم کار اس وقت ذہنی الجھنوں کے شکار ہیں۔۔۔ایسے میں صدیق منشاوی پر وہ تو شاید نہ لکھا جاسکے جس کی ان کی ذات مستحق ہے لیکن جو بھی لکھا جاسکے شاید اسی کی برکت سے موجودہ احوال میں جلد بہتری کی کوئی صورت نکل آئے۔
تجوید،مخارج اور صحت لفظی کی رعایت اور خوش الحانی کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کی معلوم ابتدا افریقی عرب ملک مصر سے ہی ہوئی۔مصر نے بڑے بڑے نامور قراء پیدا کئے۔ان میں مصطفی اسماعیل اور قاری عبدالباسط کے نام صف اول میں سب سے نمایاں مقام پر ہیں۔کہتے ہیں کہ قرائت قرآن کی موجودہ روش کے موجد مصطفی اسماعیل تھے۔وہ 17جون 1905کو پیدا ہوئے تھے۔جب وہ تلاوت کرتے تھے تو ان کے اردگرد جمع ہونے والے لوگ حیرت میں ڈوب جاتے تھے۔کیونکہ قرآن پاک کو اس طرح’ طرز اور غنائیت کے ساتھ پہلی بار وہ کسی کو پڑھتے ہوئے سن رہے تھے۔
اس فن کو مصطفی اسماعیل کے بعدشیخ محمد صدیق المنشاوی نے کمال کو پہنچا دیا۔گوکہ ان کے والد صدیق المنشاوی بھی اپنے وقت کے معروف قراء میں سے تھے لیکن جو شہرت وعظمت محمد صدیق المنشاوی کے حصہ میں آئی وہ قابل رشک تھی۔مصطفی اسماعیل کی طرز اب رائج نہیں ہے۔لیکن ان کی طرز منفرد تھی۔محمد صدیق المنشاوی نے جب قرائت قرآن شروع کی تو وہ لوگوں کے دلوں میں گھر کرتے چلے گئے۔واقعہ یہ ہے کہ بیسویں صدی میں منشاوی صاحب کا نام عالم اسلام کے باہر بھی گھر گھر میں زبان زد عام ہوگیا۔انہوں نے اپنے استاذ شیخ ابراہیم السعودی سے فن تجوید اور قرآئت کے اصول وضوابط سیکھے۔وہ سبعہ عشرہ کے ماہرین میں تھے۔سبعہ عشرہ در اصل عربی میں 17کے عدد کو کہتے ہیں۔لیکن فن تجوید وقرائت میں سبعہ عشرہ اس فن قرائت کا نام ہے جس میں آیات کے بعض حصوں کو اور خاص طورپراسماء اور صیغوں کو مختلف انداز میں پڑھاجاتا ہے۔لیکن اس سے معانی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
دراصل عربی زبان دنیا کی تمام زبانوں میں سب سے فصیح‘سب سے بلیغ اور سب سے وسیع زبان ہے۔یہ مسلم ملکوں میں زیادہ تر ممالک کی زبان ہے۔لیکن ہر ملک میں اس کا لہجہ اور انداز مختلف ہے۔مثال کے طورپر کہا جاتا ہے کہ سب سے فصیح عربی زبان ملک شام میں بولی جاتی ہے۔اسی طرح مختلف ملکوں کے اپنے لہجے بھی ہیں۔مثال کے طورپرافریقی عرب ممالک کا لہجہ قدرے ٹھیٹھ ہے۔لیکن خلیجی عرب ممالک کا لہجہ کچھ مہذب اور اشراف کا سا ہے۔۔۔ مصر میں عربی زبان کوئی بہت زیادہ فصیح نہیں ہے اور عام بول چال میں مصری لوگ جیم (ج) کی جگہ گاف (گ) کی آواز نکالتے ہیں۔عام شہری ہی نہیں پڑھے لکھے لوگ بھی عام گفتگو میں جیم کو گاف ہی ادا کرتے ہیں۔لیکن قرآن پاک کی تلاوت اور قرآئت کرتے ہوئے جیم کو جیم ہی پڑھتے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ قرآن کا ہی اعجاز ہے۔
ہم نے جس گھرانہ میں آنکھ کھولی وہاں کوئی گانا‘غزل نہیں سناجاتا تھا۔وہاں صرف قرائت قرآن پاک ہی سننے کو ملتی تھی۔شیخ مصطفی اسماعیل‘محمد صدیق المنشاوی اور قاری عبدالباسط کی تلاوت کی کیسٹیں الماری میں بھری پڑی تھیں۔فجر کے بعد تو بلا ناغہ ہر روز کا معمول تھا۔گھر کے سب لوگ بیٹھ کر منشاوی اور عبدالباسط صاحبان کو سنتے تھے۔اس سے بھی پہلے بڑا سا ریڈیو ہوتا تھا‘اس پر صبح کو مختلف قراء کی تلاوت آیا کرتی تھی۔ایران‘پاکستان‘بنگلہ دیش‘یہاں تک کہ مصر کے ریڈیو سے مختلف قراء کی تلاوت نشر کی جاتی تھی۔ریڈیو مکہ سے تو بہت بعد میں تلاوت شروع ہوئی۔بہر حال والد محترم تجوید کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کی اہمیت بتایا کرتے تھے۔اس لئے بچپن سے ہی یہ مزاج بن گیا تھا کہ اگر کوئی خلاف تجوید پڑھتا تھا تو بہت کوفت ہوتی تھی۔
ہر زبان کی اپنی حساسیت ہوتی ہے۔ عربی زبان سب سے زیادہ حساس زبان ہے۔وہ جتنی فصیح وبلیغ ہے اتنی ہی نزاکت سے مرصع بھی ہے۔ عربی میں تلفظ کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔الف اور ع’ ہ ح اور ک اور ق کے فرق سے ترجمہ میں زمین وآسمان کا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ الحمد کا مطلب اگر تمام تعریف ہے تو الہمد کا مطلب لاش (نعش) ہے۔ آلمین اور عالمین کا ترجمہ بھی بہت مختلف ہے۔
جن لوگوں نے قرآن کو تجوید کے ساتھ نہیں پڑھا انہیں اس نزاکت اور حساسیت کا اندازہ تک نہیں ہو پاتا۔۔۔ لیکن جو لوگ تجوید سے واقف ہوتے ہیں انہیں مجہول قرائت سب سے زیادہ کھلتی اور اکھرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی سر پر لٹھ مار رہا ہے اور دل پر چھری چلا رہا ہے۔
بہر حال قرآن پاک کو پڑھنے کے تین مختلف طریقے ہیں۔تجوید‘ترتیل اور حدر۔ترتیل وہ ہے جو عام طورپر قراء حضرات خوش الحانی اور تکلف کے ساتھ قرائت کرتے ہیں۔حدر بہت جلدی جلدی پڑھنے کو کہتے ہیں۔حالانکہ تجوید تو مستقل ایک فن کا نام ہے۔لیکن مذکورہ دونوں طریقوں کے درمیان کے فن کا نام بھی تجوید ہے۔
امام جزری فرماتے ہیں:
والاخذ بالتجوید حتم لازم_من لم یجود القرآن آثم۔ یعنی فن تجوید کا سیکھنا لازم ہے۔جو قرآن کو تجوید کے ساتھ نہ پڑھے وہ گناہ گار ہے۔
شیخ محمد صدیق المنشاوی ان چند قرامیں سرفہرست ہیں جنہوں نے قرآن پاک کو ان تینوں اصناف میں پڑھا ہے۔ان کی تجوید‘ترتیل اور حدر کی تلاوت کی کیسٹیں پوری دنیا میں فروخت ہوتی تھیں۔اب تو نئے زمانے اور نئی تکنیک نے کیسٹوں کی ضرورت ختم کردی ہے۔۔اب تو یوٹیوب پر اتنا مواد موجود ہے کہ شاید ہی کسی اور پلیٹ فارم پر اتنا مواد یکجا ملے۔منشاوی صاحب نے دنیا کے بہت سے ممالک کا سفر کیا اور اپنی تلاوت سے لوگوں کو مسحور کردیا۔اللہ کا کلام تو ہے ہی ایسا کہ جو سمجھ کر پڑھیں اور سن کر سمجھ لیں ان کی دنیا روشن ہوجاتی ہے لیکن جو سمجھ نہ سکیں ان پر بھی تلاوت کا اثر ہوتا ہے۔
مصر کے دو تین قراایسے ہوئے ہیں کہ جن کومصرکے کئی نامی حکمران اپنے غیر ملکی اسفار میں ساتھ لے گئے اور مہمان ملک کے حکمرانوں کے سامنے ان سے تلاوت کرائی۔ان قراء میں منشاوی صاحب کا بھی نام ہے۔انہوں نے مسجد اقصی اور حرمین شریفین میں بھی اپنی قرائت سے فرزندان توحید کو محظوظ کیا۔منشاوی صاحب کی ایک ممتاز صفت یہ تھی کہ انہوں نے قرآ ن پاک کو تجوید وقرائت سے پڑھنے کے سلسلہ میں بچوں پر بھی محنت کی۔لہذا آج بھی یوٹیوب پر ان کی ایسی آڈیوز موجود ہیں جن میں وہ بچوں کو تجوید وقرائت سے پڑھا رہے ہیں۔بعض بچوں نے تو ان کی تلاوت کی ہوبہو نقل کی اور ان کو سننے والے یہ سمجھنے لگے کہ شایدیہ آواز منشاوی صاحب کے بچپن کی آواز ہے۔
منشاوی صاحب کو مصر میں فن قرائت پر اتھارٹی مانا جاتا تھا اور اس سلسلہ میں ان کی آراء کو حرف آخر تسلیم کیا جاتا تھا۔انہوں نے فن قرائت‘ قرآنی علوم اور قرآن کے مختلف پہلوؤں پر بہت سی کتابیں بھی تحریر کیں۔ان کی تلاوت سن کر بہت سے عیسائیوں نے اسلام قبول کیا۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔امریکہ کی مشہور گلوکارہ جینفر گراؤٹ نے مراقش کی ایک فلم میں کام کیا تو وہ مراقشی عوام کے جذبہ خیر سگالی اور سخاوت وفیاضی سے بہت متاثر ہوئی۔
جینفر نے 2013 میں اسلام قبول کرلیا۔گوکہ یہ خبر 2014 میں ہی منظر عام پر آسکی۔لیکن جینفر پر قاری محمد صدیق المنشاوی کی تلاوت نے بہت زیادہ اثر کیا۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج جینفربھی ہوبہو منشاوی صاحب کی طرز میں تلاوت کرتی ہے۔اس کی ایک ویڈیو آج کل بہت گردش کر رہی ہے جس میں اس نے سورہ بقرہ کی آخری آیات—لایکلف اللہ نفسا الا وسعہا سے کافرین تک منشاوی صاحب کی ہی طرز میں قرائت کی ہے۔۔28دسمبر 2019 کو جینفر نے ایک جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ قاری محمد صدیق المنشاوی میرے لئے دنیا کے سب سے ممتاز قاری ہیں۔
آج پوری دنیا میں شیخ منشاوی کی نقل کی جاتی ہے۔وہ محض خوش الحانی کے ساتھ قرائت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ آیات کے مدوجزراور واقعات کے نشیب وفراز کو اپنے انداز میں بھی سموتے تھے۔جن آیات میں قیامت کا ذکر ہے منشاوی صاحب نے ان آیات کو مغموم انداز میں پڑھ کر ایمان کی حرارت تلاش کرنے والے سامعین کو ایک مستقل سامان فراہم کردیا ہے۔سورہ قاف (ق) کی وہ آیات جن میں قیامت کے دن کا ذکر ہے اور جس میں اللہ کے حضور بندوں اورشیطان کا مکالمہ ہوگا‘منشاوی صاحب نے اس انداز سے پڑھ دی ہیں کہ جو لوگ ترجمہ سمجھتے ہوں وہ روئے بغیر نہیں رہ سکتے۔شیطان کہے گا کہ اے اللہ میں نے اس کو(بندے کو) گمراہ نہیں کیااور وہ تو خود ہی گمراہ ہوگیا تھا۔ اللہ تعالی فرمائیں گے کہ میرے سامنے جھگڑو مت‘ میں نے تمہیں پہلے ہی انتباہ دیدیا تھا اور میری بات بدلتی نہیں۔۔۔اور نہ ہی میں اپنے بندوں پر ظلم کرتا ہوں۔
شیخ منشاوی کا انتقال محض 49 سال کی عمر میں ہوگیا تھا لیکن اتنی عمر میں ہی انہوں نے وہ تمام مقامات پڑھ دئے جو آج رائج ہیں ۔ آج بھی انہی کے حوالے دئے جاتے ہیں ۔
شیخ عبدالعزیز بن باز نے شیخ منشاوی کے تعلق سے کہا تھا کہ : اگر آپ قرآن کو اس طرح سننا چاہیں جس طرح وہ نازل ہوا تھا تو پوری توجہ کے ساتھ شیخ منشاوی کو سنیں۔ یہ ایک ایسی آواز ہے کہ جس سے آپ کبھی اکتائیں گے نہیں’ یہ آواز بالکل ایسی ہے جیسے صاف شفاف پانی کا بہتا ہوا چشمہ جو پیاسوں کی پیاس بجھا رہا ہے۔
ترجمہ:نایاب حسن
مودی حکومت کے ذریعے لائے گئے نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاجات کی ایسی تصویریں سامنے آرہی ہیں،جن سے مسلمانوں کے تئیں روایتی سوچ کا خاتمہ ہورہاہے۔اس بار علمااور مذہبی شخصیات قیادت نہیں کررہی ہیں؛بلکہ قیادت کرنے والے نوجوان اور گھریلوخواتین ہیں۔یہ احتجاج خالص مسلمانوں کابھی نہیں ہے،جیساکہ ماضی میں سلمان رشدی،تین طلاق یا تسلیمہ نسرین کے معاملوں میں دیکھاگیاتھا،اس کے برخلاف یہ ایک نئی ہمہ گیر تحریک ہے،جس میں جامع مسجد کی سیڑھیوں سے شاہی امام کی بجائے چندشیکھر آزاد خطاب کررہاہے۔تمام طبقات و مذاہب کے طلبہ ساتھ مل کر”آزادی“کا غیر فرقہ وارانہ نعرہ لگارہے ہیں۔تمام مظاہرین کی ایک اہم اور توانادلیل یہ ہے کہ جب دستور وآئین کے مطابق قانون کی نظر میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت حاصل ہے،توہندوستانی پارلیمنٹ اکیسویں صدی میں کوئی بھی قانون سازی کرکے اس دستور میں مذہبی تفریق کا عنصر داخل نہیں کرسکتی۔
ان مظاہرین کے پاس ایک مضبوط ہتھیارہے اوروہ ہے ہندوستانی آئین کا”دیباچہ“۔کپڑے اور طرزِپوشش کا اختلاف یہاں معنی نہیں رکھتا،جینز،جیکٹ اور حجاب سب ساتھ ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ شاہین باغ کی خواتین یا بنگلور کی سافٹ ویئر پروفیشنلزیا جامعہ کے طلبہ و طالبات کاپرانے مظلومیت و متاثرہونے کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی بجائے ان محب وطن ہندوستانیوں کی جانب سے پوری توانائی اور طاقت کے ساتھ برابری کے حقِ شہریت کا اظہار کیاجارہاہے۔
مظاہروں کے مقامات پر آپ کو ایسے بچے اور جوان نظر آئیں گے، جنھوں نے اپنے چہروں پرہندوستانی ترنگانقش کروا رکھاہے،ایسے مناظر عموماً ہندوستان کے کرکٹ میچوں یا یومِ آزادی کے موقعے پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔شاہین باغ میں ایک انڈیاگیٹ اور ہندوستان کا ایک عظیم الشان نقشہ بنایاگیاہے۔آزادی کے ہیروگاندھی،بھگت سنگھ،امبیڈکر اور مولانا آزاد کی تصویریں ایک قطار میں لگائی گئی ہیں۔ان سب کو ایک ساتھ دکھانے کا آئیڈیا(جوکہ روایتی سیاست دان نہیں کرتے)ہی اس احتجاج کو نظریاتی طورپر منفرد بناتاہے۔
حیدرآبادمیں اسداالدین اویسی ترنگا ریلی نکال رہے ہیں اور یوم جمہوریہ کے موقعے پر چار مینارکوترنگاسے روشن کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔ممبئی میں دھاراوی کی جگی جھونپڑیوں میں رہنے والے مسلمان اپنے مراٹھی پڑوسیوں کے ساتھ مل کر قومی گیت گارہے ہیں۔مجلس کے لیڈر وارث پٹھان نے پوری قوت کے ساتھ کہاکہ دوسرے لوگ بھلے ہی آسٹریلیا،امریکہ ہجرت کرجائیں مگر اس ملک کے مسلمان اپنے پیارے وطن ہندوستان کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے۔
ایک سوال ہوسکتا ہے کہ کیامسلمان ڈرکے مارے اپنی حب الوطنی کا اظہار کررہے ہیں؟بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ وطن سے محبت ووفاداری کا اظہار واعلان یقینی طورپر وہی چیز ہے، جس کا بی جے پی شروع سے مطالبہ کرتی رہی ہے، مگرحقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے،وہ کھل کر اپنے خلاف ہونے والے تعصب کو چیلنج کررہے ہیں؛بلکہ وہ کسی بھی دقیانوسیت اور بھدی تصویر کشی کو صریحاً مسترد کررہے ہیں۔ساتھ ہی دیگر محب وطن افراد کے ساتھ صف بستہ ہونے کے لیے لوگوں میں بین المذاہب بھائی چارے اور یکجہتی کا شوقِ فراواں پیدا ہورہاہے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص کاکہناہے”اب بہت ہوچکا ہے۔کیاہم ایودھیا فیصلے پر خاموش نہیں تھے؟کیاہم اس وقت بھی خاموش نہیں تھے، جب مویشیوں کی تجارت کے نئے قانون کے ذریعے ہمارے کاروبارکو نقصان پہنچایاگیا؟کیاہم اس وقت بھی چپ نہیں تھے، جب ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو وفاقی خطے(یونین ٹیریٹری) میں بدل دیاگیا؟کیاہم نے اپنی مسلسل ہتک کے باوجود امن وامان کی باتیں نہیں کیں؟مگراب جبکہ ہماری شہریت کو چیلنج کیاگیاہے،تو ہمیں اپنی مادرِ وطن سے مضبوط انتساب کے اظہاراورحکومت کے تئیں شدید ناراضگی جتانے میں کوئی جھجھک نہیں ہے“۔
یہ آواز صرف اکثریت پسندی کے خلاف نہیں ہے؛بلکہ ساتھ ہی یہ خود مسلمانوں کے ان دانشوروں (مثلاً ماضی قریب میں سید شہاب الدین)کے بھی خلاف ہے،جو ہندوستانیت کی بجاے مسلم شناخت پر زوردینے کی کوشش کرتے ہیں؛چنانچہ شاہین باغ کے احتجاج میں ”ہندوستان کے چارسپاہی- ہندو، مسلم،سکھ،عیسائی“جیسے نعرے تواتر کے ساتھ لگ رہے ہیں، جس سے یہ تیقن حاصل ہوتاہے کہ بین المذاہب اشتراک و اتحادکے ذریعےہی ایک حقیقی طورپر آزادہندوستان کی تعمیر و تشکیل ہوسکتی ہے۔
یوپی،مغربی بنگال اور منگلورومیں تشدد کے واقعات اور انتہاپسندانہ سیاست کی وجہ سے اس تحریک کے اخلاقی وقار کوکچھ ٹھیس پہنچی تھی ،مگر زیادہ تر احتجاجات تاحال پرامن ہیں اور ممکن ہے ان سے مخلصانہ وپرامن سول تحریک کے تئیں ایک بار پھر سے لوگوں کااعتمادویقین لوٹ آئے۔اب ذمے داری اکثریتی طبقے کی ہے،کیاسبھی ہندواس دستوری لڑائی میں شامل ہوں گے اور سیاست دانوں کے ذریعے کیے گئے اس دقیانوسی پروپیگنڈے کو ناکام ثابت کریں گے کہ ”مظاہرین اپنے کپڑوں سے پہچانے جاسکتے ہیں“؟
بی جے پی نے برطانوی استعمار کا لغت اپنالیاہے۔ایک تحقیقی کتاب‘Beyond Turk and Hindu’میں یہ بتایاگیاہے کہ کس طرح استعماری دورِ حکومت میں محکمۂ شماریات کے افسران نے ہندوستانیوں کوواضح طورپر”مسلم“اور ”ہندو“کے طبقوں میں تقسیم کیا۔اس سے پہلے برصغیر “Islamicate” اور“Indic”لوگوں کی آمدورفت کے لیے یکساں وسعت رکھتا تھا۔ان مظاہروں نے ان پرانے اشتراک و تعلقات کو زندہ کردیاہے اور مسلمانوں کے اس دعوے کو مضبوط کردیاہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ان کی حصے داری نہایت پرانی ہے۔
ان احتجاجات کومسلم ایشوکے طورپر دیکھنا غلط ہے،اسی طرح مظاہرین کے لیے بھی غلط ہوگاکہ وہ ”شناخت کی سیاست“کے تنگنائے میں منحصر ہوکررہ جائیں۔یہ وقت نئے دستوری اقدارکی بازیابی کے لیے جدوجہد اور دوقومی نظریے کوپوری قوت سے مسترد کرنے کاہے۔فی الحقیقت یہ مظاہرے اکثریت -اقلیت کی تقسیم سے ماورا ایک نئی سرگرم مسلم سٹیزن شپ کے ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں؛کیوں کہ اس تحریک کے ذریعے طاقت ورانداز میں یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ مسلمانوں کی حب الوطنی کسی بھی اعتبار سے اس ”دیش بھگتی“سے کم نہیں ہے،جس کا ہندووں کودعویٰ ہے۔ان احتجاجات میں پوری قوت سے یہ احساس ابھر کرسامنے آرہاہے کہ:فخرسے کہو،ہم ہندوستانی مسلم ہیں!
(بہ شکریہ روزنامہ ٹائمس آف انڈیا)