جمعیت علماء ہند نے اپریل 2020 میں لاک ڈاؤن کے دوران تبلیغی جماعت سے متعلق بعض ٹی وی چینلوں اور اخبارات کی شر انگیزاور فرقہ وارانہ منفی رپورٹنگ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ کئی لمبی لمبی تاریخوں کے بعد آج اس اپیل پر تفصیلی سماعت ہوئی۔پچھلی سماعت میں سپریم کورٹ نے حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔اس اپیل پرچیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے کی بنچ میں سنوائی ہورہی ہے۔آج بنچ نے حکومت ہند کے جوابی حلف نامے کی زبان پر سخت ناراضگی ظاہر کی۔
واضح رہے کہ جمعیت علماء ہند کی طرف سے جو اپیل دائر کی گئی تھی اس میں بہت سے اخبارات کے سینکڑوں تراشے اور ٹی وی چینلوں کی رپورٹوں کی سی ڈی جمع کرائی گئی تھی۔ آج جب بنچ نے سنوائی شروع کی تو حکومت کے ذریعہ داخل کئے گئے حلف نامے پر ناگواری ظاہرکی اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی گوشمالی کی۔ حکومت کے حلف نامے میں کہا گیا تھا کہ تبلیغی جماعت سے متعلق غلط رپورٹنگ کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا اور نہ ہی عرضی گزاروں نے ایسی کوئی مثال پیش کی۔
عدالت نے پوچھا کہ یہ حلف نامہ جونئر لیول کے افسر نے کیوں داخل کیا ہے؟ عدالت نے اس حلف نامہ کوپُر فریب اوردیدہ دلیری پر مبنی قرار دیا۔۔عدالت نے پوچھا کہ عرضی گزار نے جب اتنے واقعات شمار کرائے ہیں تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ تبلیغی جماعت سے متعلق غلط اور منفی رپورٹنگ کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ عدالت نے حکم دیا کہ وزارت اطلاعات ونشریات کا کوئی سیکریٹری سطح کا افسر دوسرا حلف نامہ داخل کرے۔اب اگلی سماعت دو ہفتے کے بعد ہوگی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ لاک ڈاؤن کا اچانک اعلان ہوجانے کے بعد تبلیغی جماعت کے مرکز (بستی حضرت نظام الدین) میں تین ہزار کے آس پاس تبلیغی افراد پھنس گئے تھے۔نقل وحمل کے تمام ذرائع اس وقت بند تھے اس لئے ان میں سے ایک ہزار سے زائد غیر ملکی افرا د کے توملک سے باہر جانے کا کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ان میں بہت سے لوگ ملک کے مختلف حصوں میں اشاعت دین کی غرض سے پہلے ہی پھیل گئے تھے۔
مختلف صوبوں کی پولیس نے ان تمام کو گرفتار کرکے کورنٹائن کیا‘پھر جیلوں میں بھیجا اور ان پر بہت سی سخت دفعات کے تحت مقدمات قائم کردئے۔ان میں سے 90 فیصد کے قریب ماخوذ تبلیغی افراد مختلف مقامی اور ہائی کورٹس کے بہترین فیصلوں کے سبب چھوٹ کر اپنے گھروں کو جاچکے ہیں۔ان میں سب سے شاندار فیصلہ بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ کا تھا۔اس فیصلہ پر میں لکھ بھی چکا ہوں اور اپنا ویڈیو ایپی سوڈ بھی بناچکا ہوں۔اس فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلہ انسانوں نے نہیں بلکہ فرشتوں نے لکھا ہے۔
بہر حال لاک ڈاؤن کے دوران تبلیغی جماعت کے لوگوں کو کورونا جہادی قرار دیا گیا اوراس پروپیگنڈے کی تشہیر میں بعض ٹی وی چینلوں اور اخبارات نے انتہائی گھناؤنا کردار ادا کیا۔تبلیغی افراد کے حوالہ سے ملک کے مسلمانوں کو بدنام کیا گیا اوران کے خلاف ملک بھر میں ایک زہریلی فضا بن گئی۔جمعیت علماء نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ ان اخبارات اور چینلوں کو ضابطہ کا پابند بنایا جائے اور انہیں تبلیغی جماعت اور عام مسلمانوں کو بدنام کرنے سے روکا جائے۔
آج چیف جسٹس آف انڈیا نے حکومت کو خطاب کرتے ہوئے کہا:
"….. آپ عدالت کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرسکتے جو آپ کر رہے ہیں۔۔یہ حلف نامہ کسی جونئر افسر کی طرف سے داخل کیا گیا ہے۔۔یہ حلف نامہ پُر فریب ہے اور یہ کہتا ہے کہ عرضی گزاروں نے منفی رپورٹنگ کی کوئی مثال ہی پیش نہیں کی۔آپ اتفاق نہ کریں وہ الگ بات ہے لیکن آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ عرضی گزاروں نے غلط رپورٹنگ کی کوئی مثال پیش نہیں کی۔سیکریٹری سطح کے افسر کو دوبارہ جواب داخل کرنا ہوگا جس میں ایسی غیر ضروری اور احمقانہ باتیں شامل نہ ہوں جیسی موجودہ حلف نامہ میں کہی گئی ہیں۔۔۔” اس پر سالیسٹر جنرل (حکومت کے وکیل) نے کہا کہ دوسرا حلف نامہ سیکریٹری لیول کا افسر تیار کرے گا اوراس کو وہ خود چیک کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حالیہ دنوں میں اظہار رائے کی آزادی کے قانون کا ہی سب سے زیادہ ناجائز استعمال ہوا ہے۔انہوں نے کیبل نیٹ ورک ایکٹ 1995کے سیکشن 20 کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت سے پوچھا کہ کیا وہ اس ایکٹ کے تحت کیبل ٹی وی چینلوں پر پابندی لگاسکتی ہے؟۔سالیسٹر جنرل نے کہا کہ ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی لیکن جمعیت علماء کے وکیل دشینت دوے نے کہا کہ حکومت پابندی لگانے کا اختیار رکھتی ہے۔عدالت نے ان سے کہا کہ وہ اگلی تاریخ پر اپنے اس نکتہ کو قانون کی روشنی میں ثابت کریں۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ ابتدائی لیت ولعل کے بعد اب اس نتیجہ پر پہنچ گئی ہے کہ اس وقت ملک بھر میں بعض اخبارات اور ٹی وی چینل اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں زہر پھیلانے کا کاروبار کر رہے ہیں۔۔ظاہر ہے کہ ان چینلوں کو حکومت کی متحرک وفعال حمایت حاصل ہے۔اس طرح کے مختلف مقدمات میں حکومت نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ اس کا کھلا ثبوت ہے۔آج کل سپریم کورٹ میں اس طرح کے کئی کیس چل رہے ہیں۔ان میں ارنب گوسوامی اورامیش دیوگن اور سدرشن ٹی وی کے خلاف دائر پٹیشن خاص طور پر اہمیت کی حامل ہیں۔چیف جسٹس کا اپنے تبصرہ میں یہ کہنا کہ اظہار رائے کی آزادی کے قانون کا حالیہ دنوں میں سب سے زیادہ ناجائز استعمال ہوا ہے‘کم اہم نہیں ہے۔