(پہلی قسط)
ایم ودود ساجد
گزشتہ 2 جولائی کو ایک طرف جہاں یہ بُری خبر آئی کہ سپریم کورٹ نے تبلیغی جماعت کے 2000 کے قریب غیر ملکی افراد کے مستقبل کو غیر یقینی بنادیا ہے وہیں دوسری طرف 4 جولائی کوایک اچھی خبر یہ آئی کہ (مغربی اترپردیش کے شہر) سہارنپورمیں کم وبیش چار ماہ سے مشکلات سے دوچار تبلیغی جماعت کے 16انڈونیشیائی شہری آج اندرا گاندھی ہوائی اڈہ سے گروڈا کی خصوصی فلائٹ نمبر 8250 پرسوار ہوکراپنے ملک کے لئے روانہ ہوگئے۔واضح رہے کہ ایک انڈونیشیائی ممبئی میں تھا اور اس کو بھی وزارت خارجہ کے ایک فہرست نما خط کے مطابق ان 16کے ساتھ جانے کی اجازت دیدی گئی ـ
اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں:
1- یہ اتنے سارے غیر ملکی کیسے پھنسے رہ گئے اور
2- سہارنپور میں پھنسے ہوئے 57غیر ملکیوں میں سے 16انڈونیشیائی کیسے رہا ہوکر انڈونیشیا کیلئے روانہ ہو گئے؟
پہلے سوال کا جواب بہت تکلیف دہ اورتشویش ناک ہے۔وہ جنہوں نے مظلوموں کی دکھ بھری داستانوں کواپنی ”شہرت“کا ذریعہ بنالیا ہے اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔
دوسرے سوال کا جواب بہت راحت بخش اورتابناک ہے۔وہ جنہیں اپنی عاقبت کی فکر ہے‘ جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہے اور جنہیں جاہ ومال اور نام ونمود کی خواہش نہیں ہے‘57غیر ملکیوں کی گلو خلاصی کا ذریعہ بن گئےـ
اب لمبی تحریریں لوگ پڑھتے نہیں۔ورنہ سہارنپور کے جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت کا فیصلہ ایسا ہے کہ اسے من وعن ترجمہ کرکے پیش کیا جائے۔جس طرح ملک بھر میں بتاتے ہیں کہ 2100 کے قریب غیر ملکی جماعتی ہیں ان میں سے یوپی میں 737 موجود ہیں۔ان میں سے صرف سہارنپور میں ہی 57 غیر ملکی پائے گئے تھے-
سہارنپور میں ان جماعتی افراد کو پہلے پولیس تھانوں‘پھر کورنٹائن سینٹروں اور پھر جیلوں میں وقت گزارنا پڑا۔۔دو مہینوں کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد ان 57 افراد کو سہارنپور کی عدالت نے 10جون کو ایک شاندار فیصلہ تحریر کرکے بری کردیا تھا۔13جون سے یہ افراد سہارنپور کے ممبر پارلیمنٹ حاجی فضل الرحمن اور ان کے داماد اوصاف (گڈو) کے مہمان ہیں۔دراصل سہارنپور کی عدالت میں انہی لوگوں نے ان پریشان حال اللہ والوں کا مقدمہ لڑاتھاـ
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حاجی فضل الرحمن اور اوصاف (گڈو) کے وکلاء نے عدالت سے یہ استدعا نہیں کی کہ انہیں ضمانت پر رہا کردیا جائے۔بلکہ عدالت میں براہ راست یہ استدلال کیا کہ ا ن کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنتا اور انہیں باعزت بری کیا جائے۔عدالت سے یہ بھی کہا گیا کہ اگرانہیں دفعہ 188 کی خلاف ورزی کا مرتکب مان بھی لیا جائے تب بھی ان کی سزا ایک مہینہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔جبکہ وہ جیلوں اور کورنٹائن سینٹروں میں پہلے ہی مشکلات سے بھرے دو مہینے کاٹ چکے ہیں۔
پولیس نے انہیں مسجدوں سے گرفتار کیا تھا اور بتایا تھا کہ ان سب کو کورونا ہے۔ان پر چارج شیٹ میں یہ الزام بھی عاید کیا گیا تھا کہ وہ یہاں کورونا پھیلانے کا سبب بھی بنے۔پولیس نے ان کے خلاف بہت مضبوط معاملہ بنانے کی بھرپور کوشش کی۔اپنی بات میں دم پیدا کرنے کے لئے سرکاری وکیلوں نے دلائل کے دوران مختلف ہائی کورٹوں سمیت سپریم کورٹ کے بھی کئی فیصلوں کا ذکر کیا۔ ان پر دفعہ 14, 188, 269, 271 اور ڈزاسٹر مینجمنٹ کی دفعہ تین میں الزامات عاید کئے گئے۔ان دفعات میں سزا تو محض پانچ سال کی ہوتی لیکن اگر انہیں ضمانت پر رہا کرالیا جاتا تو مقدمہ فیصل ہونے تک برسوں لگ جاتے۔ظاہر ہے کہ اتنے عرصہ تک یہ لوگ کہاں رہتے‘کس طرح رہتے؟جبکہ حکومت نے ان کے ویزا منسوخ کرکے ان کے پاسپورٹ بھی ضبط کرلئے تھے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کی رپورٹ Nagative آئی۔یعنی انہیں کورونا نہیں تھا۔اور جن کی رپورٹ Positive آئی تھی وہ بھی بہت جلد شفایاب ہوگئے۔اس دوران کورنٹائن سینٹروں اور پھرجیلوں میں ان کا رویہ بہت اچھا رہا۔انہوں نے کسی کو پریشان نہیں کیا۔وہ سہارنپور کی سڑکوں پر گھومے نہیں۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں ان کے اس رویہ کا بھی ذکر کیا۔عدالت نے یہ بھی لکھا کہ جب اچانک پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان ہوگیا تو آخر یہ لوگ کہاں جاتے؟ عدالت نے ان کی یہ دلیل بھی تسلیم کرلی کہ ان کے خلاف زیادہ سے زیادہ دفعہ 188کے تحت معاملہ بنتا ہے جس کی سزا وہ پہلے ہی بھگت چکے ہیں۔
ان پر الزام تھا کہ انہوں نے غیر ملکی شہریوں کے لئے وضع ویزا قوانین کی خلاف ورزی کی۔ عدالت میں ان کے وکلاء نے بتایا کہ حکومت ہند کے جاری کردہ پالیسی کے ضابطہ نمبر 15کے تحت یہ واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کے ویزا کے حامل غیر ملکی کے کسی بھی مذہبی مقام پر جانے اور عام مذہبی سرگرمیوں میں شرکت کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔۔۔ لیکن مذہبی مقامات میں تقریر کرنے اورآڈیواور پمفلٹ وغیرہ تقسیم کرنے کو ویزا کی شرائط کی خلاف ورزی مانا جائے گا۔عدالت نے کہا کہ چونکہ چارج شیٹ میں یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ ان لوگوں نے کس طرح ویزا قوانین کی خلاف ورزی کی اس لئے ان پر ویزا قوانین کے تحت لگائی گئی دفعات بے بنیاد ہیں۔
عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ جائز ویزا لے کر ہندوستان آئے تھے اور چونکہ 22 مارچ کے بعد سبھی مذہبی مقامات‘ہوٹل‘ریسٹورینٹ‘لاج اور سرائے وغیرہ بند کردی گئی تھیں‘ان لوگوں کے پاس مسجد ہی ایک ایسی متبادل جگہ رہ گئی تھی جہاں وہ یہ وقت گزار سکتے تھے۔ انہوں نے مسجدوں میں قیام کے دوران انتظامیہ کو اطلاع دی‘ اپنی ڈاکٹری جانچ ایف آئی آر ہونے سے پہلے کرائی‘ان کی رپورٹ درست یعنی کورونا منفی آئی‘وہ پوری طرح صحت مند پائے گئے‘۔اس کے علاوہ انہوں نے ڈزاسٹر مینجمنٹ کے تحت عاید کی گئی شرائط کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔انہیں پولس نے مسجد کے اندر سے گرفتار کیا کسی عوامی جگہ سے نہیں۔ لہذا ان کے خلاف ڈزاسٹر مینجمنٹ کے تحت عاید کی گئی دفعات بھی بے بنیاد ہیں۔
اسی طرح عدالت نے تسلیم کیا کہ جس وقت انہیں مسجدوں سے گرفتار کرکے جیل لے جایاگیا اس وقت تک ان کے ویزا Valid تھے اور وہ ایک ضابطہ کے تحت جائز ویزا لے کر جائز طورپر ہندوستان کی سرحد میں داخل ہوئے تھے۔اسی طرح وہ لاک ڈاؤن سے پہلے ہی ان مسجدوں میں آگئے تھے اور لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد وہ ان مسجدوں سے باہر نہیں نکلے۔
عدالت نے یہ ذکر بھی کیا کہ غیر ملکی شہریوں کے لئے جاری پالیسی اور ضوابط میں ایس کوئی پابندی نہیں ہے کہ یہ لوگ اپنے مذہب کے مطابق عبادت نہیں کرسکتے۔اور یہ لوگ اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق عبادت گزاری کے لئے ہی مسجدوں میں ٹھہرے ہوئے تھے۔عدالت نے لکھا کہ اس سلسلہ میں انتظامیہ نے جو الزامات عاید کئے ہیں بادی النظر میں وہ درست تو کیا ہوں گے بلکہ ملزمین پر شک کرنے کے لایق بھی نہیں ہیں. ۔عدالت نے یہ بھی لکھا کہ چونکہ ملزمین غیر ملکی شہری ہیں اس لئے اس معاملہ میں احتیاط اوران کے تحفظ اور غیر ملکوں سے ہندوستان کے تعلقات کی حساسیت کے عناصر بھی نہاں ہیں۔اس لئے کسی کو من مانے طریقہ پر ماخوذ کرنا انتہائی غیر منصفانہ عمل ہوگا۔
انتظامیہ کے وکیلوں نے عدالت کے سامنے مختلف ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کے ذریعہ وقتاً فوقتاً دی گئی رولنگس کا بھی ذکر کیا۔چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ نے اس ضمن میں لکھا کہ میں نے بصد احترام ان تمام رولنگس کا مطالعہ کیا ہے اور میں نے پایا ہے کہ مذکورہ افراد پر ان رولنگس کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا۔آخر میں عدالت نے حتمی فیصلہ سناتے ہوئے حکم جاری کیا کہ ان تمام 57 افراد کوجیل سے فی الفور رہا کیا جائے اور انہیں بحفاظت ان کے ملکوں کوواپس بھیجنے کے انتظامات کئے جائیں۔
10 جون کے اس فیصلہ کے بعد سہارنپور انتظامیہ نے کچھ لیت ولعل کے بعد ان تمام افراد کو 13 جون کو جیلوں سے رہا کرکے اوصاف گڈو کے حوالہ کردیا۔انہوں نے Imperial Resort میں ان تمام افراد کے رہنے اور کھانے پینے کا بہترین انتظام کیا۔اس ضمن میں یہ بتانا ضروری ہے کہ کافی کوشش کی گئی کہ ضلع انتظامیہ عدالت کے اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرے لیکن مقامی ممبر پارلیمنٹ اور ان کے نمائندے کی کوششوں سے ضلع انتظامیہ اس عمل سے باز رہا۔
اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پورے ملک میں‘جہاں جہاں بھی تبلیغی جماعت کے یہ افراد پھنسے ہوئے ہیں‘وہاں کی عدالتوں میں بلکہ صوبوں کی ہائی کورٹوں میں سہارنپور کی عدالت کے اس فیصلہ کو نظیر کے طورپر پیش کرکے ان تمام ماخوذ افراد کو اسی طرح رہا کرانے کی کوشش کی جاتی۔۔۔۔لیکن افسوس یہ ہے کہ بعض انجمنوں‘جماعتوں اور وکیلوں نے عدالتوں سے محض ان کی ضمانت کی استدعا کی۔۔۔۔ یہی نہیں جو دلائل سہارنپور کے وکیل جاں نثار نے عدالت کے سامنے رکھے انہیں بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ان دلائل کی وجہ سے ہی سہارنپور کی عدالت نے ایک ایک کرکے تمام دفعات کو کالعدم اور بے بنیاد قرار دیا۔
رہی سہی کسر سپریم کورٹ میں ان کا معاملہ لے جاکر پوری کردی گئی۔۔۔2 جولائی سے پہلے تک مختلف افراد‘وکیلوں’انجمنوں اور جماعتوں نے اردو اخبارات میں لمبی چوڑی خبریں شائع کرائیں اور اس یقین کی خوب تشہیر کی کہ سپریم کورٹ سے جلد ہی یہ غیر ملکی تبلیغی چھوٹ جائیں گے۔لیکن جیسے ہی 2 جولائی کو سپریم کورٹ نے ہاتھ کھڑے کئے اور اسی لائن کی تصدیق کردی جس پر مرکزی حکومت چل رہی تھی تو یہ سب منظر نامہ سے غائب ہوگئے۔
میرے سامنے نوح (ہریانہ) کی مقامی عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے اور تامل ناڈو ہائی کورٹ کی مدورائی بنچ کا بھی فیصلہ موجود ہے۔نوح کی عدالت نے بھی کم وبیش ایسا ہی فیصلہ دیا اور ملزمین پر ایک ایک ہزار روپیہ کا جرمانہ عاید کرکے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔مدورائی بنچ کا فیصلہ بھی کسی حد تک اچھا ہے لیکن اس میں بھی وکلاء نے وہ دلائل نہیں دئے جن کی ضرورت تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس میں بعض ایسی باتیں بھی آگئی ہیں جو تبلیغی جماعت کے لئے بہت خطرناک’ قابل اعتراض اور نقصان دہ ہیں(مدورائی بنچ کے فیصلہ کا جائزہ پھر کسی وقت)
اب اس صورتحال میں چند سوالات سامنے آتے ہیں:
1- کیا ان تمام غیر ملکی افراد کے مقدمات ضلعی یا صوبائی سطح پر تبلیغی جماعت کی مرکزی قیادت کو ایک ہی لائن اختیار کرکے نہیں لڑنے چاہئیں تھے؟
2- کیا جماعت کی مرکزی قیادت کو سینئر وکیلوں کا ایک پینل بناکر مقامی وکیلوں کی رہنمائی نہیں کرنی چاہئے تھی؟
3- آخر یہ کون لوگ تھے جو مختلف اضلاع یا صوبوں میں ان پریشان حال لوگوں کے مقدمات ختم کرانے کی کوشش کی بجائے انہیں محض ضمانت پر رہا کرانے کی کوشش کر رہے تھے؟
4- آخر ایسے لوگوں کے پاس ان غیر ملکیوں کو ٹھہرانے‘ان کے کھانے پینے اور ان کی دیگر ضروریات کے اخراجات کے کیا منصوبے تھے؟
5- پھر سپریم کورٹ میں انتہائی کمزور بنیادوں پر اس معاملہ کو کیوں لے جایا گیا؟
6- کیوں مرکزی حکومت کے ویزا منسوخ کرنے کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا اور کیوں وہ دلائل نہیں رکھے گئے جن کی بنیاد پر سہارنپور کی عدالت نے 57 غیر ملکی افراد کو باعزت رہا کردیا تھا؟
7- یہ سوال حق بجانب ہے کہ آخر تبلیغی مرکز کا اصل مجاز وکیل کو ن ہے؟ کیوں درجنوں وکیل مرکز کی نمائندگی کا دعوی کرتے ہیں اور کیوں مرکز کی طرف سے کوئی واضح بات سامنے نہیں آتی؟
8- آخر مرکز کی نمائندگی کا دعوی کرنے والے ان ڈھیروں وکیلوں کی فیس کون ادا کر رہا ہے؟ اگر یہ کوئی پیسہ نہیں لے رہے ہیں تو پھر انہیں کیا لالچ ہے؟ آخر ناکامی کی صورت میں وہ کس کو جواب دہ ہیں؟
ان تمام سوالات کے جوابات کا آنا بے حد ضروری ہے۔اس لئے کہ وکیلوں‘انجمنوں‘جماعتوں اور’خیر خواہوں کے اس جھرمٹ نے معاملہ کی اصل تصویر کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے اورمعاملہ اتنا الجھ گیا ہے کہ کوئی سرا نظر نہیں آتا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)