بھوپال :ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع راج گڑھ میں بی جے پی اقلیتی مورچہ کے ضلع صدر اشرف قریشی نے ایک درخواست کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ پارٹی میٹنگ میں اقلیتوں کے بارے میں ایسی زبان استعمال نہ کی جائے جس سے انہیں تکلیف ہو۔ پارٹی کے اقلیتی محاذ نے اپنا درد ظاہر کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے مدھیہ پردیش کے انچارج مرلی دھر راؤ کے سامنے اقلیت مخالف بیان بازی پر اعتراض کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی اجلاس میں ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جس سے اقلیتوں کو تکلیف ہو۔ اس نے کہا میں 10 لوگوں کو شامل کرتا ہوں اور 25 لوگ بھاگ جاتے ہیں۔ راج گڑھ میں بی جے پی اقلیتی مورچہ کے ضلع صدر اشرف قریشی نے کہا کہ میری درخواست ہے کہ جب بھی کوئی میٹنگ ہو، اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ وہاں اقلیتیں بھی موجود ہوں۔ اس لیے ایسے وقت میں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ آپ اس قسم کا کام نہ کریں یا ایسی بات نہ کریں جس سے ہمارے جذبات مجروح ہوں کیونکہ اس سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔میں 10 لوگوں کو شامل کرتا ہوں اور 25 لوگ بھاگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد اشرف قریشی نے پارٹی میں موجود لوگوں سے معافی بھی مانگی اور کہا کہ حاضرین اگر میری بات سے آپ کو تکلیف ہوئی ہے تو میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ میں نے آپ کے سامنے اپنے دل کی بات رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دلبر سنگھ یادو جو کہ ضلع صدر ہیں وہ مجھے بہت سپورٹ کرتے ہیں۔ مجھے آگے بڑھانے کے لیے کام کریں اور میں تھوڑا سخت ہونے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
بی جے پی
کشمیری لیڈران کے ساتھ پی ایم کی میٹنگ کی خبروں کے درمیان جے پی نڈا کا بڑا بیان:جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ حکومت کی بڑی کامیابی
نئی دہلی:بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے آج مرکزی حکومت کے جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹانے کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ بی جے پی آج پورے ملک میں ڈاکٹر شیام پرساد مکھرجی کا یوم قربانی منارہی ہے۔ اس موقع پر بی جے پی ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ ایک پروگرام میں جے پی نڈا نے شیام پرساد مکھرجی کو یاد کیا اور کہا کہ ڈاکٹر مکھرجی نے جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے لیے ایک مہم شروع کی تھی ’ایک نشان ، ایک ودھان، ایک پردھان‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ نڈا نے کہا کہ ڈاکٹر مکھرجی کو حقیقی خراج تحسین یہی ہوگا کہ ہم ان کے دکھائے ہوئے راستے پر چلیں ۔بی جے پی صدر نے کہا کہ آج ہم سب اس عظیم روح کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے ہندوستان کے اتحاد اور سالمیت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ شیام پرساد مکھرجی کی قربانی کو یاد کرتے ہوئے نڈانے کہا کہ وہ آزاد ہندوستان کے ان رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے ملک کی یکجہتی اور سالمیت کے لئے اپنی ہر چیز کی قربانی دی۔
قومی سیاست میں اویسی کا عروج:مضمرات و عواقب کیا ہوسکتے ہیں؟-کانچا اِلائیّا
ترجمہ:نایاب حسن
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے رہنما اسدالدین اویسی مسلمانوں کے قومی رہنما بننے کی تیاری میں ہیں۔ ان کا انتخابی دائرہ حیدر آباد کے باہر مہاراشٹر اور اب بہار تک پھیل گیا ہے ، جہاں ان کی پارٹی نے اسمبلی اور میونسپل دونوں سیٹیں جیتی ہیں۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں مجلس نے حیدرآباد سے باہر مہاراشٹرمیں ایک نشست پر کامیابی حاصل کی تھی۔ مجلس کے عروج کی وجہ دراصل آر ایس ایس اور بی جے پی کا سیاسی اُٹھان ہے ، جو ہندوستانی مسلمانوں کو لگاتار مین اسٹریم سے علیحدہ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اس ملک میں مسلمان کل آبادی کا 14.2 فیصد ہیں۔ بعض شہری حلقے ایسے ہیں کہ وہاں اگر مسلمان یک طرفہ ووٹ کریں تو مجلس کئی سیٹیں جیت سکتی ہے۔
اسدالدین کے والد صلاح الدین اویسی (1931-2008) حیدرآباد انتخابی حلقے کی نمایندگی کرنے والے رکن پارلیمنٹ تھے ، ان کی شبیہ قومی سطح کے جدید مسلم رہنما کی نہیں تھی؛ان کے مقابلے میں ان کے بیٹے اسدالدین اویسی انگلینڈ سے تعلیم یافتہ ہیں ، انھوں نے بیرسٹری کی تربیت بھی حاصل کی ہے ، انھیں گہرا یقین ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے جمہوریت ایک ضروری سیاسی نظام ہے۔ انھوں نے 2012 میں یو پی اے سے علیحدگی اختیار کی ، جس کے بعد ان کے قومی عزائم کو برق رفتاری حاصل ہوئی۔ اس کے بعد ہی وہ ایک ایسے مسلم چہرے کے طورپر سامنے آئے جسے بی جے پی / آر ایس ایس نے مسلسل تنقیدوں کا نشانہ بنایا۔
مجلس کے پھیلاؤ میں بی جے پی اور کانگریس دونوں کے لیے گہرے مضمرات پوشیدہ ہیں۔ مسلم سیاسی حلقہ کھڑا کرنے میں ان کی کامیابی کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا اور دوسری طرف کانگریس بےحال ہوتی جائے گی۔ اگر مسلمان کانگریس سے دور ہوگئے تو بی جے پی کے ہر ریاست میں کامیاب ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ کچھ علاقائی جماعتیں جیسے سماج وادی پارٹی اور آر جے ڈی بھی شکست سے دوچار ہوں گی؛ لہذا اویسی کا علانیہ مسلم لیڈر کے طور پر عروج جتنا مجلس اتحاد المسلمین چاہتی ہے ،اتنا ہی بی جے پی بھی چاہتی ہے۔
اسی طرح ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی پر اس کا ایک اور اثر ہوسکتا ہے۔ چونکہ مسلم آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ شہری علاقوں میں بساہوا ہے ؛ لہذا ان کی سیاسی تنظیمی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور ایک مذہبی – نظریاتی قیادت سامنے آئے گی۔ مسلم عوام بھی بڑے پیمانے پر سیکولر زم سے ناخوش ہیں ، جو انھیں اقلیتی- اکثریتی ڈسکورس میں الجھاتا ہے، جس میں ان کی مسلم شناخت ختم ہوگئی ہے۔
ایس سی / ایس ٹی / او بی سی و اقلیتی اتحاد کے پرانے نعرے میں بھی اب اتنا دم نہیں رہا۔ اگرچہ اویسی دلت مسلم اتحاد کی بات کرتے ہیں؛ لیکن اویسی کے پاس شودروں یا او بی سی سے خطاب کرنے کی کوئی زبان نہیں ہے۔ آر ایس ایس-بی جے پی گٹھ جوڑ اویسی کی جارحانہ مخالفت کرکے تلنگانہ جیسی ریاست میں اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ بی جے پی؍آرایس ایس نے حیدرآباد شہر میں بنیادی طور پر او بی سی کو مسلمانوں کے خلاف متحرک کرکے اپنے لیے راستہ بنایا ہے ، جس کے واضح اثرات حالیہ بلدیاتی انتخابات میں دیکھے گئے ہیں۔ اب یہی سیاست وہ تلنگانہ کے دیہی علاقوں میں کریں گے۔ چونکہ ماضی میں مجلس کی ایک آزاد نظام ریاست (جسے 1940 کی دہائی میں قاسم رضوی کی رضاکار تحریک کے دوران جنوبی پاکستان کہاجاتا تھا) کے مطالبے کی تاریخ رہی ہے؛ لہذا ہندوتوا طاقتیں آسانی سے پرانے شہر کو پاکستان اور اویسی کو اس کا جناح قرار دے دیتی ہیں۔
حیدرآباد کی طرح بہت سے ایسے شہروں میں ، جہاں مسلمانوں کی خاصی آبادی ہے ، وہاں شودر/ او بی سی اور مسلمانوں کے درمیان کوئی گہرے تعلقات نہیں ہیں۔ او بی سی طبقے کے لوگ عموماً گوشت خور ہیں ؛ لیکن بہت سے لوگ نہیں بھی کھاتے ہیں۔ آر ایس ایس / بی جے پی نیٹ ورک ان اختلافات کو استعمال کرکے شودر / او بی سی عوام کومسلمانوں کے خلاف منظم کرنا چاہتا ہے۔ ذات پات کے حوالے سے اویسی نے حالیہ دنوں میں بولنا شروع کیا ہے، جبکہ ان کے تندگو بھائی تو تمام اوبی سیز کو ہندو ہی مانتے ہیں۔
در حقیقت اب تک کسی بھی مسلم رہنما اور دانشور نے ذات پات کے نظام اور اس کے فالٹ لائن کا کماحقہ مطالعہ نہیں کیا ہے۔ ان کی توجہ ہمیشہ ہندو- مسلم تقسیم و تفریق کے معاملات پر رہی ہے۔ ذات پات کے نظام کے تضادات کے بارے میں ان کی تفہیم البیرونی کی کتاب الہند تک محدود ہے؛ لیکن ہندوستان میں ویدک کلچر کے دنوں سے ہی طبقاتی جبر کی ایک طویل تاریخ موجود ہے ،یہی جبر 11 ویں صدی میں مسلم حکومت کے قیام کی تمہید ثابت ہوا تھا۔
آر ایس ایس-بی جے پی کی جعلی ہندوتوا قوم پرستی نے سیکولرزم کے نظریے کو چیلنج کردیا ہے ، جس میں مسلم رہنماؤں کو ایک مقام حاصل تھا۔ اویسی کی سربراہی والی مجلس بھی مسلم قوم پرستی کی زبان بولتی ہے۔ چونکہ اویسی کے آباو اجداد نے حیدرآباد چھوڑ کر پاکستان جانے سے انکار کردیا تھا ؛ لہذا مجلس کے رہنما اپنی ہندوستانی مسلم قوم پرستی کو بی جے پی-آر ایس ایس کی مسلمانوں کو غیر ملکی یا پاکستانی قرار دینے کی کوشش کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں؛ اسی لیے ہندوستان بھر کے مسلمان ان کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں، مگرجس طرح سنگھ مسلمانوں کو اپنے مستقل دشمن کے طور پر نشانہ بناتا ہے اور اس کے مقابلے میں جس طرح اویسی مسلمانوں کو انتخابی سطح پر منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ،یہ قومی انتشاراور بہ تدریج ملک تباہی کا باعث بن سکتی ہیں۔
(مضمون نگار معروف سیاسی مفکر،مصنف اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،حیدرآباد میں سینٹر فار سٹڈی آف سوشل ایکسکلوزن اینڈ انکلوزیو پالیسی کے ڈائریکٹر ہیں۔یہ مضمون آج روزنامہ انڈین ایکسپریس میں شائع ہوا ہے۔مضمون نگار کے خیالات سے مترجم یا قندیل کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔)
بی جے پی نہ اویسی کو پسند کرتی ہے اور نا ہی اسے اویسی کی ضرورت ہے- شیوم وِج
ترجمہ:احمد الحریری
اکثر ایسا کہا جاتا ہے کہ بی جے پی انتخابات جیتنے کے لیے ہر وہ چیز جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے کرلیتی ہے لیکن ایک چیز جو وہ نہیں کرتی اور خاص طور سے مودی اور شاہ والی بی جے پی، وہ یہ ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کو شاید ہی کبھی ٹکٹ دیتی ہے، چاہے اس کی قیمت مسلم اکثریتی سیٹوں سے ہی کیوں نہ چکانا پڑے، بی جے پی کا مقصد صرف نشستیں جیتنا ہوتا تو وہ خوشی خوشی مسلمانوں کو ٹکٹ دیتی۔ ٹکٹ کی تقسیم میں مسلمانوں کو کچھ نمائندگی دے کر بی جے پی شاید مدھیہ پردیش، کرناٹک، دہلی اور راجستھان کے ریاستی انتخابات کو جیت سکتی تھی،انتخابات کی جیت پر اجارہ داری رکھنے والی پارٹی سے جڑنے کے لئے آپ کو بہت سے خواہش مند مسلمان مل جائیں گے،دوسری بہت سی کمیونیٹیز کی طرح مسلمان بھی اہل اقتدار کے ساتھ رہنے کو کوئی مسئلہ نہیں مانتے۔
یہ بے جے پی ہی ہے جو مسلمانوں کی خواہشات پر توجہ نہیں دیتی ، کیونکہ بی جے پی نظریہ جیسی چیزوں کو انتخابات جیتنے سے زیادہ ویلیو دیتی ہے، 2014 کے بعد تو یہ پہلے سے کہیں زیادہ صاف ہوگیا ہے کہ بی جے پی کا نظریاتی مقصد مسلمانوں کو پسماندگی کے اس نقطے پر لے آنا ہے کہ وہ منظر سے بالکل ہی غائب ہی ہوجائیں،ان کے نظریے کے اعتبار سے مسلمانوں کو خاموش اور گھروں میں قید رہنا چاہئے، مسلمانوں کو ایم ایل اے، ایم پی، منسٹر اور لیڈر نہیں بننا چاہئے، مسلمانوں کو آواز بلند نہیں کرنی چاہئے اور ان کے مطالبات نہیں سنے جانے چاہئیں۔
شہریت ترمیم بل مخالف مظاہروں میں ایک یا دو سڑک جام کردینا کون سا بڑا معاملہ تھا کہ دہلی میں فسادات بھڑک گئے؟شمالی دہلی میں ایک ایسے روڈ کو جسے کوئی بھی سچ میں مسافروں کے لئے مسئلہ نہیں مانتا تھا کو بلاک کردینا کون سا بڑا معاملہ تھا؟لیکن بے جے پی کے لئے مسلم سیاسی آواز سخت ناقابل قبول تھی۔
بی جے پی اویسی کو پسند نہیں کرتی ہے:
یہ کہنا بالکل مذاق ہے کہ بی جے پی اویسی کے سیاست کے ارد گرد رہنے کو پسند کرتی ہے، بی جے پی داڑھی اور ٹوپی والے مسلم کو پسند نہیں کرتی ہے، میری سمجھ یہ ہے کہ بی جے پی پارلیمنٹ میں کھڑے ہونے والے ایک مسلم کو پسند نہیں کرتی ہے پھر وہ پہلی صف میں ایک ہندو راشٹر کے پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی موجودگی کو کیوں پسند کرے گی؟
بہار کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ حزب اقتدار میں ایک بھی مسلم ایم ایل اے نہیں ہے، بہار کی سترہ فیصد آبادی والی کمیونٹی کو بی جے پی نے ایک بھی ٹکٹ نہیں دیا، یہ واحد پارٹی ہے جو سیاسی گلیاروں سے پوری کمیونٹی کو قوت کے ساتھ ختم کر دینا چاہتی ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اسمبلی میں مجلس کے پانچ ایم ایل اے کو دیکھنا پسند کرے گی؟
پانچ سیٹوں پر مجلس کی جیت کے بعد وہی عام سی بحث شروع ہوگئی ہے کہ اویسی کے عروج کو جس طرح سے بی جے پی چاہ رہی ہے وہی ہورہا ہے کہ مسلم مسلم پارٹی کو اسی طرح سے ووٹ دیں جس طرح ہندو ہندو پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں، بی جے پی کے ایجنڈہ کی یہ ایک غلط ترجمانی ہے، بی جے پی اور آر ایس ایس نے سیکولر جماعتوں کو مسلم ووٹوں کے تئیں شرمندہ کردیا ہے اور ایسا ہندوستانی سیاست اور عوامی زندگی میں مسلم کمیونٹی کی آواز کو خاموش کرا کر کیا جا رہا ہے، اس لئے اب اگر مجلس اور اویسی کے ذریعے مسلمانوں کو ایک سیاسی قوت حاصل ہورہی ہے تو اس سے بی جے پی کا مقصد پورا نہیں ہوتا ہے۔
بلکہ اس کے بجائے بی جے پی تو چاہتی ہے کہ مسلمانوں کا مطلق کوئی ووٹ ہی نا ہو،اور دھیرے دھیرے یہ مقصد ترتیب وار این پی آر، این آر سی اور سی اے اے جیسے قوانین سے حاصل کیا جاسکتا ہے، یہ وہ قوانین ہیں جو بہت سارے مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرسکتے ہیں،آسام میں این آر سی کی بار بار کوششیں یہ بتاتی ہیں کہ بی جے پی کس طرح انتخابی رول سے مسلم رائے دہندگان کی تعداد کم کردینا چاہتی ہے، اس سے نہ یہ کہ حزب اقتدار سے مسلم نمائندگی ختم ہوجائے گی بلکہ حزب اختلاف میں بھی مسلم نمائندگی نہیں رہے گی۔
بی جے پی کو اویسی کی ضرورت نہیں ہے:
پولرائزیش کے لئے بی جے پی کو اویسی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بی جے پی نے بہر حال پولرائزیش گیم کی منزل کو طے کر لیا ہے، اور اس میں اسے اویسی کی ضرورت نہیں ہے، مثال کے طور پر مسلمانوں کے خلاف اس جھوٹی خبر کو ہی لے لیجئے کہ جب پال گھر میں سادھوؤں کی ماب لنچنگ کر دی گئی تھی تو اس کے فوراً بعد مسلمانوں پر اس کا الزام لگا دیا گیا تھا،حالانکہ اس میں کوئی بھی فرقہ وارانہ پہلو نہیں تھا، اگر اویسی کے آئینی نیشنل ازم کا اظہار تھوڑا بھی بی جے پی لیڈران اور ان کے حمایتیوں کی راہ میں آتا ہے تب مسلمانوں پر ہندؤوں سے نفرت، پاکستان پرست اور گائے ذبح کرنے جیسی چیزوں کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔
ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ہندو رائے دہندگان صرف مذہب کی بنیاد پر ووٹ کرتا ہے، اگر مذہبی شناخت کافی ہوتی تو وزیراعظم مودی کو”خود انحصار ہندوستان”یعنی "آتم نربھر ” اور اس جیسے دوسرے جدید نعرے بیچنے کی ضرورت نہیں پڑتی،اس طرح کے رائے دہندگان جو بی جے پی کو ووٹ کرتے تھے وہ بہر حال بی جے پی کو ہی ووٹ کرینگے،اویسی کی موجودگی اور عدم موجودگی ہندوتوا ذہنیت کے حامل رائے دہندگان کو بی جے پی کے تئیں متاثر نہیں کرے گا۔
اویسی کی ضرورت کسے ہے؟
اگر اویسی کی کسی کو ضرورت ہے تو وہ مسلمان ہیں، ہندوستانی مسلمانوں کو پبلک ڈسکورس میں ایک آواز سے محروم کیا جارہا ہے کیونکہ وہ سیکولر پارٹیاں جو ان کے مفادات کے تحفظ کا دعویٰ کرتی تھیں وہ بھی خاموش ہوچکی ہیں بلکہ وہ خاموشی سے بڑھ کر ہندو بنیاد پرستی کے ساتھ عملی تعاون اور اشتراک کر رہی ہیں اگر آپ اروند کیجریوال، کمل ناتھ اور پرینکا گاندھی کی حالیہ سرگرمیوں کو دیکھیں گے تو یہ صاف نظر آئے گا۔
ایسے وقت میں اویسی ہندوستانی سیاست میں اچھائی کی ایک طاقت ہیں، وہ کوئی وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم نہیں بننے جا رہے ہیں اور وہ یہ جانتے بھی ہیں، انہیں جو کچھ حاصل ہوگا وہ یہ ہوگا کہ وہ مسلم ووٹوں کے لیے کچھ چیلنج پیدا کردیں گے جو سیکولر پارٹیوں کو اس بات کے اعتراف پر مجبور کرے گا کہ ہاں ہندوستان میں مسلمان ہیں اور ان کے ساتھ تمام سیاسی پارٹیوں کو اسی عزت کا معاملہ کیا جانا چاہیے جو دوسرے ووٹروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
28 سال قبل صرف بابری مسجد نہیں ٹوٹی تھی،اور بھی بہت کچھ ٹوٹا تھا- رام دت ترپاٹھی
(آج سے ٹھیک 28 برس قبل، یعنی چھ دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسندوں نے ایودھیا میں قائم بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ اس روز ہونے والے فسادات میں بابری مسجد کے علاوہ اور بہت سی مساجد اور املاک کو یا تو منہدم کیا گیا یا نذر آتش۔ اس واقعے کا آنکھوں دیکھا حال پڑھیے اس تحریر میں جو پہلی مرتبہ سنہ 2017 میں شائع ہوئی تھی۔ بشکریہ بی بی سی اردو)
طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود چھ دسمبر کی یاد آتے ہی میں خود کو مانس بھون کی چھت پر پاتا ہوں اور بابری مسجد کے انہدام کا پورا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔مانس بھون وہی دھرم شالہ ہے جہاں میں اس واقعے سے دس سال قبل سنہ 1982 میں ایک بار ٹھہرا تھا۔ ایک صحافی دوست نے متنازع بابری مسجد دکھائی تھی جس کے باہری حصے میں ایک چبوترے پر کیرتن بھجن ہوتا تھا اور لوگ ’سیتا رسوئی‘ (سیتا کے کچن) اور رام کے ’کھڑاون‘ کے خیالی مقامات کے سامنے سر جھکاتے تھے۔اس رام چبوترے پر طویل عرصے سے رامانندی فرقے کے نرموہی اکھاڑے کا قبضہ تھا۔ نرموہی اکھاڑا سوا سو سال سے زائد عرصے سے وہاں مندر کی تعمیر کے لیے قانونی جنگ لڑ رہا تھا۔
مسجد کے اندر سنہ 1949 میں 22 اور 23 دسمبر کی درمیانی شب ضلع مجسٹریٹ کی مدد سے رام کی بچپن کی مورتی رکھی گئی۔ اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے مسجد سے مورتی ہٹانے کا حکم دیا لیکن ضلع مجسٹریٹ نے اس پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔ اسی وقت سے عدالت نے مسجد سیل کر کے نگران تعینات کر دیا۔ باہر پولیس کا پہرہ بٹھا دیا گيا اور عدالت کا مقرر کردہ پجاری وہاں پوجا کیا کرتا تھا۔
سنگھ پریوار یعنی ہندوتوا کے نظریات کی حامل جماعتیں طویل عرصے سے ایسے مسئلے کی تلاش میں تھیں جس کے ذریعے ذات پات میں منقسم ہندو برادری کو یکجا کیا جا سکے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اسی مقصد کے تحت سنہ 1984 میں رام جنم بھومی کی آزادی کی تحریک شروع کی گئی تھی۔
اس مہم کی وجہ سے یکم فروری سنہ 1986 میں عدالت نے متنازع احاطے کے تالے کھلوائے۔ جواب میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔دریں اثنا معاملہ ضلع عدالت سے نکل کر لکھنؤ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔ سنہ 1989 کے عام انتخابات سے قبل مصالحت کی امید میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے مسجد سے تقریباً 200 فٹ کے فاصلے پر رام مندر کا سنگ بنیاد رکھوا دیا۔راجیو گاندھی کو انتخابات میں شکست ہوئی جبکہ وی پی سنگھ اور چندرشیکھر کی حکومت میں بھی مصالحت کی تمام تر کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانی نے گجرات کے سومناتھ مندر سے رام مندر کے لیے رتھ یاترا نکال کر سیاسی طوفان کھڑا کر دیا۔سنہ 1991 میں کانگریس ایک بار پھر دہلی میں بر سر اقتدار آئی اور پی وی نرسمہا راؤ وزیر اعظم بنے لیکن رام مندر کی تحریک کے طفیل انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں پہلی بار کلیان سنگھ کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بنی۔
کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا کہ وہ مسجد کی حفاظت کریں گے جس کے بعد عدالت نے وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کو علامتی کار سیوا کی اجازت دے دی۔ دوسری جانب وی ایچ پی اور بی جے پی کے رہنماؤں نے ملک بھر میں گھوم گھوم کر لوگوں سے بابری مسجد کو نیست نابود کرنے کی قسم لی تھی۔ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے کلیان سنگھ نے اعلان کیا تھا کہ پولیس کار سیوکوں پر فائرنگ نہیں کرے گی۔
اس سے قبل سنہ 1990 میں ملائم سنگھ یادو نے کار سیوکوں پر فائرنگ کروائی تھی اور مسجد کی حفاظت کی تھی۔
کلیان سنگھ حکومت نے متنازع کیمپس کے قریب مجوزہ رام پارک کی تعمیر کے لیے وی ایچ پی کو 42 ایکڑ زمین دے دی تھی۔ اس کے علاوہ سیاحت کے فروغ کے نام پر بہت سے مندروں اور دھرم شالاؤں کی زمین حاصل کرکے اسے ہموار کر دیا گیا تھا اور فیض آباد – ایودھیا شاہراہ سے براہ راست متنازع مقام تک چوڑی سڑک تعمیر کر دی گئی تھی۔
ملک بھر سے آنے والے کارسیوکوں کے قیام کے لیے متنازع احاطے سے ملحق شامیانے اور ٹینٹ لگائے گئے تھے۔ انھیں لگانے کے لیے کدال، بیلچے اور رسیاں بھی لائی گئیں جو بعد میں مسجد کے گنبد پر چڑھنے اور اسے توڑنے کے کام میں آئیں۔ مجموعی طور پر متنازع مقام کے آس پاس کے علاقے پر کار سیوکوں کا ہی قبضہ تھا۔ ان لوگوں نے چار پانچ دن قبل ہی بعض قریبی مزاروں کو نقصان پہنچا کر اور مسلمانوں کے مکانوں کو آگ لگا کر اپنی جارحیت کا اظہار کر دیا تھا۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ کے مقرر کردہ مبصر ضلعی جج پریم شنکر گپتا کہہ رہے تھے کہ علامتی کار سیوا پر امن طور پر کروانے کے لیے سارے انتظام اچھی طرح سے کیے گئے ہیں۔
ایک دن قبل یعنی پانچ دسمبر کو وی ایچ پی کے رہنما نے باضابطہ یہ اعلان کیا کہ وہاں صرف علامتی کارسیوا (پوجا) ہوگی۔ فیصلے کے مطابق کارسیوک دریائے سرجو سے پانی اور ریت لے کر آئیں گے اور مسجد سے کچھ فاصلے پر سنگ بنیاد کی جگہ اسے نذر کر کے واپس ہو جائیں گے۔
جیسے ہی اس کا اعلان ہوا کار سیوکوں میں غصہ پھیل گیا۔ جب وی ایچ پی کے اعلیٰ رہنما کارسیوک پورم پہنچے تو مشتعل کارسیوکوں نے انھیں گھیر لیا اور بہت بھلا برا کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ رہنما کچھ بھی کہیں وہ اصلی کارسیوا یعنی مسجد کو منہدم کرکے ہی جائيں گے۔ شام تک کارسیوکوں نے کئی ٹی وی رپورٹرز اور کیمرہ مین کے ساتھ مار پیٹ کی۔ دوسری طرف بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپئی نے ایک عام اجلاس میں کارسیوکوں کی یہ کہتے ہوئے حوصلہ افزائی کی کہ سپریم کورٹ نے اس کی اجازت دی ہے۔
واجپئی شام کی ٹرین سے دہلی چلے گئے جبکہ ایل کے اڈوانی اور ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی رات میں وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سے بات چیت کر کے ایودھیا پہنچ گئے۔ چھ دسمبر کی صبح جہاں ایودھیا میں ’جے شری رام‘ کے نعرے گونج رہے تھے وہیں فیض آباد چھاؤنی کے علاقے میں بڑی تعداد میں مرکزی نیم فوجی دستے اس تیاری میں تھے کہ جیسے ہی بلاوا آئے گا وہ ایودھیا کی جانب کوچ کریں گے۔ فوج اور فضائيہ بھی نگرانی پر تعینات تھی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ریاستی حکومت نے ان کی تعیناتی پر اعتراض کیا تھا، یعنی ریاستی حکومت کی جانب سے واضح تھا کہ کار سیوکوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ مانس بھون کی چھت پر جہاں ہم صحافی یکجا تھے مسجد اس کے بالکل سامنے تھی۔ دائیں طرف پر جنم بھومی (مقام پیدائش) کے مندر کی چھت پر کمشنر، ڈی آئی جی اور پولیس کے اعلیٰ افسر تھے اور مانس بھون کی بائیں جانب رام کتھا کنج میں ایک اجلاس عام رکھا گیا تھا جہاں اشوک سنگھل، اڈوانی، جوشی، اوما بھارتی اور دیگر رہنما جمع تھے۔ مسجد اور مانس بھون کے درمیان سنگ بنیاد کے مقام کو پوجا کا مقام بنایا گیا تھا جہاں مہنت رام چندر پرمہنس اور دیگر سادھو سنیاسی جمع تھے۔ اسی جگہ پر گیارہ بجے سے علامتی پوجا ہونی تھی۔ آر ایس ایس کے اراکین سر پر زعفرانی پٹی باندھے حفاظت کے لیے تعینات تھے۔ ان کے پیچھے پولیس رسّہ لے کر تیار تھی تاکہ مخصوص لوگ ہی وہاں تک جا سکیں۔ تقریباً 10:30 بجے ڈاکٹر جوشی اور اڈوانی یگیہ کی جگہ پہنچے۔ ان کے ساتھ بہت سے کارسیوک وہاں داخل ہونے لگے۔ پولیس نے روکا لیکن انھوں نے بات نہیں مانی۔
اس کے بعد زعفرانی پٹی والے رضاکاروں نے ان پر لاٹھی چلانی شروع کر دی جس پر وہاں سخت ہلچل نظر آئی۔ دیکھتے دیکھتے سینکڑوں کارسیوک مسجد کی جانب دوڑتے نظر آئے۔ مسجد کی حفاظت کے لیے چاروں جانب لوہے کا جال لگایا گيا تھا۔ پیچھے سے ایک گروپ نے درخت پر رسّہ پھینک کر مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ وی آئی پی کے لیے تعینات پولیس نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن چند ہی منٹوں میں ایک ایک کرکے بہت سے کارسیوک مسجد کے گنبد پر نظر آنے لگے۔
انھیں دیکھ کر یہ نعرے گونجنے لگے: ’ایک دھکا اور دو، بابری مسجد کو توڑ دو۔‘ جلسہ گاہ سے اشوک سنگھل اور دیگر رہنماؤں نے کار سیوکوں سے نيچے اترنے کی اپیل بھی کی لیکن ان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔کدال، بیلچہ جس کے ہاتھ جو سامان آیا اسی سے گنبد توڑنے لگا۔ بعض ہاتھوں سے ہی چونے سرخی سے بنی اس عمارت کو توڑنے لگے۔مسجد کی حفاظت پر تعینات مسلح سکیورٹی فورسز کندھے پر رائفلیں لٹکائے باہر نکل آئے۔ سارے افسران لاچار کھڑے تماشائی تھے۔
اسی دوران کارسیوکوں کے ایک گروپ نے آس پاس کے سارے ٹیلی فون تار کاٹ ڈالے۔ ان کا ایک گروپ مانس بھون پر چڑھ آیا اور تصاویر لینے سے منع کرنے لگا۔ میں نے اپنا کیمرہ ایک خاتون صحافی کے بیگ میں چھپا دیا؛ لیکن بہت سے فوٹوگرافروں کے کیمرے چھین کر انھیں مارا پیٹا گیا۔ 12 بجے تک مسجد توڑنے کا کام اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔
اڈوانی کو یہ خدشہ تھا کہ نیم فوجی مرکزی فورس یا فوج فیض آباد سے آ سکتی ہے۔ لہٰذا انھوں نے لوگوں سے وہاں سے آنے والی سڑک کو جام کرنے کی اپیل کی۔
کہتے ہیں کہ کلیان سنگھ تک جب یہ خبر پہنچی تو انھوں نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کی پیشکش کی لیکن اڈوانی نے انھیں یہ پیغام دیا کہ جب تک مسجد گر نہ جائے وہ استعفیٰ نہ دیں، کیونکہ استعفیٰ دیتے ہی ریاست مرکز کے کنٹرول میں چلی جائے گی۔ اسی دوران کچھ پجاری رام اور لکشمن کی مورتیاں نکال لائے۔ دیکھتے دیکھتے پانچ بجے تک مسجد کے تینوں گنبد مسمار ہو چکے تھے۔ اس کے بعد ہی کلیان سنگھ نے استعفیٰ پیش کیا۔ شام تک ریاست میں صدر راج نافذ ہو چکا تھا لیکن انتظامیہ کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا کرنا ہے؟ بہرحال کارروائی کے خوف سے کارسیوک چپکے چپکے ایودھیا سے نکلنے لگے۔ بعض لوگ بطور نشانی مسجد کی اینٹ اپنے ساتھ لے چلے۔
اڈوانی، جوشی اور واجپئی جیسے بڑے رہنماؤں نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔ پولیس نے مسجد منہدم کیے جانے پر ہزاروں نامعلوم کار سیوکوں کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا۔ چند منٹ بعد، بی جے پی اور وی ایچ پی کے آٹھ بڑے رہنماؤں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے کا مقدمہ دائر کیا گیا۔ وزیراعظم نرسمہا راؤ دن بھر خاموش تھے لیکن شام کو انھوں نے نہ صرف اس واقعے کی مذمت کی بلکہ مسجد کی دوبارہ تعمیر کی بات بھی کی۔مرکزی حکومت کی ہدایت پر خصوصی ٹرینیں اور بسیں چلائی گئیں، جس سے کارسیوک اپنے گھروں کو جا سکیں اور انتظامیہ بغیر طاقت کا استعمال کیے متنازع مقام پر کنٹرول کر سکے۔ دوسری جانب منہدم مسجد کے ملبے پر ایک گروپ نے ایک عارضی مندر کی تعمیر شروع کر دی اور وہاں مورتیاں رکھ دی گئیں۔
سات دسمبر کی رات تک یہ جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ انتظامیہ کب وہاں اپنا کنٹرول قائم کرتی ہے۔ اچانک صبح چار بجے کچھ ہلچل سی نظر آئي۔ جب ایودھ پہنچے تو دیکھا کہ انتظامیہ نے باقی ماندہ چند کارسیوکوں کو بھگا کر عارضی مندر کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے، اور نیم فوجی دستے کے سپاہی عقیدت اور احترام میں رام (کے بچپن کی مورتی) کی زیارت کر رہے ہیں اور آشیرواد لے رہے ہیں۔ ہم نے بھی کچھ تصاویر لیں اور افسروں سے بات کی۔
اگر آپ چھ دسمبر کے پورے واقعے پر نظر ڈالیں تو آپ پائیں گے کہ اس دن صرف بابری مسجد نہیں ٹوٹی بلکہ اس دن ہندوستان کے آئین کی تینوں شاخ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کی ساکھ بھی ٹوٹ گئی۔ طاقت کو تقسیم کرنے کا وفاق کا مفروضہ ٹوٹا، قانون کی حکمرانی کی بنیاد ٹوٹی، جمہوریت کا چوتھا ستون یعنی میڈیا بھی کارسیوکوں کے حملے کا شکار ہوا اور اس کے ساتھ ہی سنگھ پریوار کے نظم و ضبط کا دعویٰ بھی ٹوٹا۔
اس بات میں اب کوئی شک نہیں ہے کہ انڈیا میں 2014 سے برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی اس وقت ملک کے سیاسی پس منظر کی سب سے طاقتور جماعت ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں اس نے دو عام انتخابات فیصلہ کن انداز میں جیتے ہیں اور اگرچہ اس نے ریاستیں کھوئی ہیں، تاہم اس کی انڈیا پر سیاسی گرفت مضبوط ہوتی رہی ہے۔حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کانگریس کا کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہے، ماضی کی طاقتور علاقائی جماعتیں اپنے سارے حربے آزما چکی ہیں اور نریندر مودی کے خلاف کوئی حقیقی چیلنجر سامنے نہیں آیا ہے۔
ماہرِ سیاسیات سوہاس پلشکر اسے انڈیا میں دوسرا پارٹی حاوی نظام کہتے ہیں جہاں اندرا گاندھی کی کانگریس نے نصف صدی سے زیادہ پہلے ایک پارٹی کے حاوی رہنے والے نظام کو چلایا۔ بی جے پی وہ واحد جماعت ہے جس نے 1984 کے انتخابات میں کانگریس کی واضح کامیابی کے بعد پہلی مرتبہ ملک کے عام انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی ہے۔ سوہاس پلشکر کہتے ہیں کہ اندرا گاندھی کے بعد نریندر مودی وہ واحد رہنما ہیں جو ملک بھر میں مقبول ہیں۔ بی جے پی کی کامیابی کا سہرا مودی کی شخصیت، مذہبی سیاست، اور سخت قوم پرستی کو جاتا ہے۔ ان کی سیاسی مہم میں ان تھک محنت کرنے والے بہت سے کارکن ہیں جو کہ ان کی نظریاتی بنیاد رکھنے والی جماعتوں آر ایس ایس یا وی ایچ پی سے منسلک رہے ہیں۔ وی ایچ پی کو تجزیہ کار آر ایس ایس کا عسکری ونگ تصور کرتے ہیں۔
گذشتہ چند سالوں میں بی جے پی کو کافی زیادہ عطیات بھی دیے گئے ہیں جن کی تفصیلات منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں۔ ساتھ میں اس جماعت کو میڈیا کی شدید حمایت حاصل رہی ہے۔ مگر ماہرِ سیاسیات ونے سیتاپاتی اپنے آئندہ آنے والی کتاب ’جگل بندی: مودی سے پہلے کی بی جے پی‘ میں یہ خیال پیش کر رہی ہیں کہ اگر ہم ایک لمحے کو رک کر دیکھیں کہ بی جے پی کے پاس ایسا کون سا گُر ہے کہ وہ کامیاب رہی ہے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس کی وجہ اس کی قومی اتحاد سے نہ ہٹنے والی توجہ ہو سکتی ہے۔
اشوکا یونیورسٹی کی پروفیسر سیتاپاتی کہتی ہیں ’بہت چھوٹی سی عمر سے آر ایس ایس میں بچوں کو ایک مخصوص قسم کی ہندو تاریخ پڑھائی جاتی ہے جس میں شاندار ہندو معاشرہ ایک دوسرے کی کمر میں چاقو مار مار کر تباہ ہو گیا اور وہ ناکام ہی اس لیے ہوا کیونکہ وہ متحد نہیں تھا۔‘ ’ان کو مزید پختہ کرنے کے لیے مشقیں کروائی جاتی ہیں جو کہ صرف ورزش نہیں بلکہ جماعت میں ورزش ہے۔‘ لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اکھٹے مارچ کریں، اور ایک دوسرے کے ساتھ کھیلیں، جیسے نجی کمپنیوں میں ٹیم سازی کی مشقیں ہوتی ہیں۔ ’اس سب کا مقصد اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ یہی یکساں یقین تنظیمی رویہ بن جاتا ہے۔ یہ دیگر جماعتوں کی طرح نہیں ہے۔‘
پروفیسر سیتاپاتی کہتی ہیں کہ بی جے پی کی کوشش ہے کہ وہ ہندوؤں کو متحد کر لے جو کہ انڈیا کی آبادی کا 80 فیصد سے زیادہ ہیں اور ایک ساتھ ووٹ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ذات پات کی بات نہیں کرتے جو کہ روایتی طور پر ہندوؤں کو منقسم کرنے کی وجہ تھی۔ اسی لیے وہ اسلام مخالف آواز اٹھاتے ہیں اور قدیم ہندو کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں۔‘ مگر دیگر جماعتوں کی طرح بی جے پی میں اپنے حصے کی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ابھی اسے اقتدار میں آئے صرف 12 سال ہوئے ہیں مگر ان کی انتخابی عمر 40 سال پرانی ہے۔ اقتدار میں نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں ہے۔
جماعت کے اعلیٰ ترین رہنماؤں اٹل بہاری واجپئی اور لال کرشنا اڈوانی کے درمیان تعلقات اکثر کشیدہ رہتے تھے۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ کیسے واجپئی اور ان کی کابینہ کے کچھ لوگ مودی کے گجرات میں 2002 میں مسلم مخالف فسادات کے بعد وزیراعلیٰ رہنے کے خلاف تھے۔ ان مسائل کے دوران بھی پارٹی متحد رہی۔ پروفیسر سیتاپاتی کہتی ہیں کہ وہ ایک ایسی فیملی کی طرح ہے جو ایک دوسرے سے ناراض ہو کر بھی ایک ساتھ ہی رہتی ہے۔ ان کے اتحاد کی وجہ انڈین معاشرے کے مسائل کی گہری سمجھ بوجھ ہے۔‘ سیاسی جماعت عموماً مفادات کا اتحاد ہوتا ہے جو کہ ہمیشہ ایک ہی سمت نہیں ہوتے۔ انھیں کرشماتی شخصیت والے رہنما اکھٹا رکھتے ہیں، کچھ نظریات جوڑتے ہیں، تنظیمی ڈھانچہ کارآمد ہوتا ہے اور انڈیا کے معاملے میں ذات بھی متحد رکھتی ہے۔ مگر تفریقِ رائے، یا پارٹی کے اندر کشیدگی ایک عام سی بات ہے۔ انڈیا کی جماعتیں لیڈران کی انا کے مقابلوں اور دھڑے بندیوں کی وجہ سے تقسیم ہوتی رہتی ہیں۔ کئی رہنما کانگریس سے علیحدہ ہو کر کامیاب علاقائی جماعتیں بنا چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک بی جے پی میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔
پہلے واجپئی اور اڈوانی اور اب مودی اور امت شاہ کی قیادت اور آر ایس ایس کی حمایت نے اسے جوڑے رکھا ہے۔ پروفیسر سیتاپاتی کہتی ہیں کہ ’میں جب کہتی ہوں کہ بہت سے بی جے پی کے رہنما مودی کو پسند نہیں کرتے تو کوئی خفیہ راز افشا نہیں کر رہی ہوتی۔ بہت سے بی جے پی، آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے رہنما جن کے میں نے انٹرویو کیے ہیں مسٹر مودی کے نظریے سے مخلص ہونے اور انتخابات جیتنے کے طریقے کی تعریف کرتے ہیں۔ لیکن بہت سے انھیں بے رحم، خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والا اور دوسروں سے کٹا ہوا سمجھتے ہیں۔‘
میلان ویئشناو کے الفاظ درست لگتے ہیں کہ بی جے پی ایک ’غیر معمولی جماعت‘ ہے۔ پرفیسر ویشناؤ واشنگٹن میں قائم کارنیگی اینڈؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے سینیئر فیلو ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ہندو قوم پرست تنظیموں کے ستاروں کے بڑے جھرمٹ کا ایک سیاسی بازو ہے۔ یہ بہت مشکل ہے کہ اس کے سیاسی وجود کو اس سے منسلک اتحادی اور برائے نام سیاسی اداروں سے علیحدہ کیا جا سکے۔ پھیلے ہوئے جال کے ماڈل کا مطلب ہے کہ بی جے پی نچلی سطح کی تنظیموں سے بہت طاقت حاصل کرتی ہے اور کہہ سکتے ہیں کہ اس کے گھنے نیٹ ورک لوگوں کو اس کی چھتری تلے ہی رکھتے ہیں۔‘
ایسا نہیں ہے کہ اختلافِ رائے رکھنے والوں نے بی جے پی کو کبھی نہیں چھوڑا۔ سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اور کتاب ’آئیڈیالوجی اینڈ آئڈینٹٹی‘ کے شریک مصنف راہول ورما کہتے ہیں کہ ’پہیلی یہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر زندہ نہیں رہ سکتے اور پارٹی میں واپس آ جاتے ہیں۔ شاید وجہ یہ ہے کہ بی جے پی ایک انتہائی نظریاتی جماعت ہے اور نظریاتی گوند اسے جوڑ کر رکھتی ہے۔ اور آپ ایسا دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں میں بھی پائیں گے۔‘ ایسی پیشنگوئی کرنا مشکل ہے کہ کیا بی جے پی ہمیشہ اکٹھی رہے گی؟ اس کے ’جارحانہ اور بے رحم‘ سیاست کے انداز کا مطلب ہے کہ انھوں نے اپنے دروازے دوسری جماعتوں کے اختلافِ رائے رکھنے والوں کے لیے، جن میں سے کئی داغدار بھی ہوتے ہیں، کھول رکھے ہیں۔ یہ نظریاتی پاکیزگی کے ناگزیر تضادات کی طرف لے جاتا ہے۔ ورما سوال کرتے ہیں کہ ’آپ کب تک تضادات کو سنبھالتے رہیں گے؟‘ یقیناً اس وقت تک جب تک پارٹی جیت رہی ہے۔ اسی وجہ سے بی جے پی کی بقا کے لیے انتخابات بہت ضروری ہیں۔ ورما کہتے ہیں کہ بی جے پی کی سماجی بنیاد پھیل رہی ہے لیکن اس کی قیادت ابھی بھی زیادہ تر اونچی ذات کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک تضاد ہے جس کا سامنا مستقبل میں پارٹی کو کرنا پڑ سکتا ہے۔
نقادوں کا خیال ہے کہ بی جے پی کی اکثریتی سیاست ’انڈیا کے نظریے‘ کو بدل رہی ہے جو کہ سیکیولر اقدار کی وجہ سے زیادہ روادار اور باخبر تھا۔
پروفیسر سیتا پاتی کہتی ہیں کہ ’ان کا خیال جیت گیا تھا کیونکہ انھوں نے ایک ہو کر کام کیا تھا۔‘
(بشکریہ بی بی سی اردو)
ہاتھر س گینگ ریپ کو ہندومسلم فساد کی تھیوری بتانا شرمناک،ریپ کے مجرموں کو بچانا بی جے پی کی پرانی روش:ڈاکٹر منظور عالم
نئی دہلی:ہاتھر س گینگ ریپ کے مجرموں کو بچانے اور اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے یوپی کی حکومت نے جونئی تھیوری پیش کی ہے وہ شرمناک اور متاثرین کے ساتھ ایک اور سنگین ظلم ہے ۔ سرکارکی ذمہ داری ہے کہ وہ مجرموں کو سزا دے اور متاثرین کو انصاف فراہم کرے لیکن حکومت اس پورے معاملہ پر اب فساد کی نئی تھیوری پیش کررہی ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ سرکار کی منشاء مجرموں کو بچانا اور مسلمانوں کو بلی کا بکرا بناناہے ۔ ان خیالات کا اظہار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے کیا ۔پنے ایک بیان میں ڈاکٹر محمد منظور عالم نے کہاکہ ہاتھرس میں جو کچھ ہواہے وہ بیحد شرمناک ہے ۔یہاں صرف ایک معاملہ نہیں ہے بلکہ کئی معاملے ہیں ۔ پہلا معاملہ لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ کا ہے ۔ دوسرا معاملہ پولس اور انتظامیہ کی لاپرواہی کا جس نے چودہ دنوں تک کوئی توجہ نہیں دیا ۔ تیسرا معاملہ لڑکی کی لاش کو رات کی تاریکی میں اہل خانہ کی منظوری کے بغیر جلانے کا ہے ۔ چوتھا معاملہ ریپ سے انکارکا ہے ۔ پانچواں معاملہ مجرموں کو بچانے کا ہے ۔ چھٹا معاملہ میڈیا ۔اپوزیشن اور سول سوسائٹی کو کئی دنوں تک وہاں جانے اور متاثرہ کی فیملی سے ملنے سے روکنے کا ہے اور اب سب سے بڑا معاملہ یہ آگیاہے کہ سرکار فساد کی تھیوری پیش کررہی ہے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے ساتھ مل کر کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے ایک سازش کے تحت یہ سب کیا ۔ ان کی منشاء وہاں دنگا اور فساد کرانے کی تھی ۔ یوگی آدتیہ ناتھ ۔ نریندر مودی اور بی جے پی کی شبیہ بگاڑنے کیلئے یہ سب ہاتھر س میں کیاگیا ۔سرکار کی یہ تھیوری ملک اور جمہوریت کیلئے شرمناک ہے ۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ سرکار متاثرہ کے ساتھ انصا ف نہیں کرنا چاہتی ہے ۔ پی ایف آئی اور اپوزیشن کو بلی کا بکرا بناکر اس معاملہ کو ہندو مسلمان کی لڑائی میں بدلنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی کی یہ پرانی روش ہے اور اس مرتبہ بھی سرکار اپنی ناکامی چھپانے کیلئے یہی ہتھکنڈ ہ اپنارہی ہے ۔ آل انڈیا ملی کونسل اس کی شدید مذمت کرتی ہے اور یہ امیدہے کہ بھارت کے سیکولر عوام سرکار کی اس گھنائونی سازش کو سمجھیں گے اوراس تھیوری پر بھروسہ کرنے کے بجائے متاثرہ لڑکی کو انصاف دلانے کی مانگ جاری رکھیں گے تاکہ خواتین کا تحفظ یقینی بن سکے ۔شرپسندوں اور درندوں کے دلوں میںقانون کا خوف پیدا ہوسکے ۔
جب سے” بی جے پی” برسراقتدار آئی ہے، اس وقت سے ہندو مسلم کے مابین بہت ہی دوری ہو نےلگی ہے اور ہر ہندو مسلمانوں کو اپنا جانی و مالی دشمن خیال کرنے لگا ہے۔متعصب ہندو افراد ہر روز کسی نہ کسی صوبہ میں ایک نہ ایک معصوم عن الخطا مسلمان کو فرضی جرائم کی پاداش میں اس وقت تک اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنائے رکھتے ہیں، جب تک کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز نہیں کر جاتی ہے، ہندو مسلم کے مابین دوری کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے؟۔
اسی طرح اس کی حکومت میں جو جسے اور جب چاہتا ہے دھمکی دیتا ہے اور افسوس کہ اس کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہیں ہوتی ہے، جس کی وجہ سےظالموں کاظلم آئےدن بڑھتے ہی جا رہا ہے ،اوراب تو عدلیہ بھی ظالموں کے ظلم کے فروغ میں ایک اہم رول اداکررہی ہے ،نیزحکومت و عدلیہ بھی اب یہی چاہتی ہےکہ مسلمانوں پر خوب ظلم و ستم ڈھائے جائیں۔اورمسلمانوں پر ہر چہار جانب سے یلغاریں ہوں اور مسلمانوں کو ظلم و ستم کی چکی میں خوب پیساجائے ،تاکہ انہیں حکومت وعدلیہ کے خلاف کچھ بولنے کی جرأت بھی نہ ہو،اور وہ غلامانہ زندگی جینے پر مجبور ہوجائیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب ہندوستان میں نہ ہی مسلمانوں کی جانیں محفوظ ہیں، نہ عزتیں، نہ اموال اور نہ ہی مساجد ومدارس اور خانقاہیں،الغرض سب کچھ غیرمحفوظ ہیں۔
ہر ملک میں ملک سے ظلم وستم کے خاتمے اور ظالم مظلوم کے مابین عدل و انصاف کے قیام کے لیے عدلیہ کا قیام عمل میں آتا ہے اور عدلیہ اسی وقت تک عدلیہ کہلانے کا حق رکھتا ہے،جب تک اس کے ذریعے عوام الناس کوان کے ہر معاملے میں عدل و انصاف ملے اور وہ عدل و انصاف کو اپنا فرض منصبی بھی سمجھتی ہو، نیز اس کے ذریعے ملک میں امن و امان بھی قائم رہے ؛مگر جب عدلیہ ہی خود عدل و انصاف کا جنازہ نکالنے لگے اور ملک میں بدامنی کی فضا قائم کردے،تو پھر ملک میں ظلم و ستم ایک عام سی بات نہیں ہوگی، تو پھر اور کیا ہوگی؟۔
ابھی حال ہی میں یعنی 30 /ستمبر 2020ء کو مسلمانوں کے ساتھ بڑا ظلم و ناانصافی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سی بی ائی کی خصوصی عدالت نے 28/سالہ قدیم مقدمہ بابری مسجد انہدام کے تمام ہی ملازمین کو معصوم عن الخطا قرار دے کر بری کر دیا ہے۔
سی بی ائی کی خصوصی عدالت نے ان 32/ ملزمین کو یہ کہتے ہوئے بری کردیا ہے:کہ ان کے خلاف ٹھوس ثبوت فراہم نہیں ہوسکے ہیں ،انہوں نے مسجد انہدام کے لیے مشتعل ہجوم کو روکنے کی کوششیں کی تھیں،سی بی آئی کے ذریعہ فراہم کردہ آڈیواور ویڈیو ریکارڈنگ کی صداقت ثابت نہیں ہوسکی ہے اور یہ بھی کہا:کہ مسجد کی شہادت پہلے سے منصوبہ بند نہیں تھی، یعنی کسی منصوبے کے تحت مسجد کو شہید نہیں کیا گیا تھا، جج ایس کےیادو نے کہا :کہ یہ ایک حادثاتی واقعہ تھا اور حتمی تجزیہ یہ ہے کہ سماج دشمن عناصر نے مسجد کا ڈھانچہ شہید کیا تھا، جب کہ ملزمین انہیں ہجومی اشتعال سے روکنے کی کوششیں کررہے تھے؛ اس لیے یہ ملزمین مجرم نہیں؛بل کہ خیرخواہ ہوئے،(30/ستمبر 2020ء،سماج نیوزسروس ایجنسیاں)۔
جب کہ یہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اصل ملزم و مجرم یہی لوگ ہیں، دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ دن کی روشنی میں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ بابری مسجد کو شہید کیا گیا، دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ کن لوگوں نے اللہ کے گھر کی بے حرمتی کی اور اسے زمین بوس کردیا، ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کے ملزم ہونے کی دلیلیں موجود نہیں ہیں؛ بل کہ آج بھی ویڈیو میں ان کی تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں، شاید اسی لیے تو ملکی اور بین الاقوامی میڈیا نے ان کے ویڈیو بنا لیے تھے،کہ کہیں ان کے حامین انہیں معصوم قرار دے کر ان کی رہائی کا اعلان نہ کردے اور ایسا ہی ہوا بھی کہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے بالآخرسارےحتمی براہین کونظر انداز کرتےہوئے،رکیک ولچر تاویلات کے ذریعے انہیں معصوم قرار دےکررہائی کااعلان کرہی دیا۔
جب کہ 9/نومبر 2020ء کو عدالت عظمی سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے بابری مسجد -رام جنم بھومی حق ملکیت پراپناجانب دارانہ اور غیر منصفانہ فیصلہ رام مندر کےحق میں سناتے وقت ،چند حقائق و شواہد کا کھلے لفظوں میں اعتراف بھی کیا تھا ،وہ حقائق وشواہد مندرجہ ذیل ہیں: وہ اعتراف یہ تھا کہ اجودھیامیں سن 1528ء میں ظہیر الدین بابر کے حکم سے ان کے کمانڈر میر باقی نے خالی جگہ میں بابری مسجد تعمیر کیا تھا، وہاں کسی طرح کا کوئی مندر نہیں تھا ،22/ 23/ دسمبر کی رات میں بابری مسجد میں مورتیوں کا رکھناغیرقانونی اور مجرمانہ عمل تھا،جن لوگوں نے جن کے اشاروں سے بابری مسجد کی عزت وحرمت کو تار تار کیا ،ان تمام کو اس کی پاداش میں کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے تھا، اسی طرح 6/دسمبر 1992ء کو بابری مسجد شہید کرنا، کسی بھی طرح صحیح نہیں تھا،ان ظالموں نے بابری مسجد شہید کرکے دین اسلام، مسلمان اور شعائراللہ کا مذاق اڑایا ،یہ ظلم بھی ناقابل برداشت تھا۔ اسی طرح ہندوؤں کا ایک دعوی یہ بھی تھا کہ یہاں پہلے سے مندر تھا، جسے توڑ کر بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی، اس دعوٰی بےبنیاد کو بھی عدالت عالیہ نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ بابری مسجد کی داغ بیل خالی جگہ میں ڈالی گئی تھی، وہاں کبھی بھی کسی طرح کا کوئی مندر نہیں تھا۔نیز ان کاایک دعوٰی یہ بھی تھاکہ آثارقدیمہ کی کھدائی میں کچھ ایسےڈھانچےبھی دستیاب ہوئےتھے،جن سےصاف معلوم ہوتا تھا کہ پہلےوہاں مندرتھا،جسےتوڑ کربابری مسجد بنائی گئی تھی ،سپریم کورٹ نے ہندوؤں کےاس باطل دعوٰی کوبھی یہ کہہ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاکہ آثار قدیمہ کی کھدائی میں کوئی ایک بھی ایساڈھانچہ نہیں مل سکا،جس سے یہ دعوٰی قائم کیاجاسکے کہ "بابری مسجد "کی جگہ پہلے”مندر”تھا،جسےمنہدم کرکےبابری مسجد بنائی گئی تھی ۔
یہ چندحقائق ہیں ،جن کاعدالت عظمی نےاقرار کیاہے اور ان سےہرہندوستانی خواہ وہ مسلم ہویامشرک بخوبی واقف ہے ؛بل کہ میں تویقین کامل کےساتھ کہتاہوں کہ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کےجج صاحبان بھی بباطن ان ہی 32/شرپسند افراد کوبابری مسجدانہدام کےاصل مجرم تسلیم کرتےہوں گے؛مگر پھر بھی یقینی شواہد ودلائل سےپہلوتہی اختیار کرتےہوئے سی بی آئی کی خصوصی عدالت کامن چاہی فیصلہ صادر کرنا،انتہائی افسوس ناک ہے اور ظلم وستم پرمبنی حیران کن یہ فیصلہ جمہوری اور سیکولر ملک کےلیے ایک بدنما داغ ہے ۔
مجھےحیرانی اس بات کی ہے کہ بابری مسجد انہدام کا مقدمہ ایک ایسامقدمہ ہے ،جس کےحقیقی ملزمین کی شہادت ہربیناشخص دیتاہے؛حتی کہ بعض ملزمین بھی گاہے بگاہے خود اقرار جرم بھی کرچکےہیں کہ واقعی بابری مسجد انہدام کےاصل مجرم ہم ہی ہیں اور عدالت عالیہ کےحقائق کےاعتراف سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ اس کےنزدیک بھی اس کےحقیقی مجرم یہی 32/افراد ہیں ،پھر بھی سی بی آئی کی خصوصی عدالت کاحقائق کےخلاف فیصلہ سنانا،چند بڑے اور اہم سوالات ضرور پیداکرتاہے۔
بالفرض ہم مان بھی لیتےہیں کہ یہ 32/افراد ملزم نہیں ہیں، توپھر بالآخر اس کےملزم کون ہیں؟کیابابری مسجد خود بخود شہید ہوگئی تھی؟اگر خود بخود شہید ہوگئی تھی تواتنابڑاہنگامہ کیوں بڑپاہواکہ بابری مسجد کی جگہ پہلے رام مندرتھا؟اور پھرظلمانہ فیصلے کےذریعے اس پراب قابض بھی ہوگئے۔
کیاسی بی آئی کی خصوصی عدالت نےعدالت عظمی پریہ الزام عائدنہیں کیاکہ اس نے جوبابری مسجد شہادت کےچند حقائق وشواہد کااعتراف کیا،وہ غلط تھا؟اور سی بی آئی کی خصوصی عدالت کاسپریم کورٹ پریہ الزام عائد کرنا،قطعی درست نہیں ہوسکتاہے؛کیوں کہ سپریم کورٹ نے ایسےحقائق کااعتراف کیاہے،جن سے ہرشخص اچھی طرح باخبر ہے،ان کاانکاردرحقیقت ایساہی ہے کہ کوئی دن کےاجالے میں کہے:کہ یہ دن نہیں؛ بل کہ رات ہے۔
اسی سے یہ سوال بھی پیدا ہو گیا کہ جب حقائق کی روشنی میں ملزمین کی شناخت یقینی تھی، تو پھر کیوں سی بی ائی کی خصوصی عدالت نے سارے براہین کا انکار کرتے ہوئے ایک ظالمانہ فیصلہ سنایا؟کیا عدالت کامعنی ظلم کرنا ہے؟ اگر ظلم ہی کرنا ہے،تو پھر عدالت کیسے؟۔
یقینا سی بی ائی کی خصوصی عدالت اپنے اس ظالمانہ فیصلے کے ذریعے ملک میں ظلم و ستم کی مختلف راہیں کھول دی ہے،اس فیصلہ کواگر سراپاظلم ہی کہہ دیا جائے،تو کوئی غلط نہیں ہوگا،اس لیے اس فیصلے کی جس قدر بھی مذمت کی جائے بہت ہی کم ہے۔
اس ظالمانہ فیصلہ کےتناظرمیں چند بڑے مذہبی اور سیاسی قائدین کے اقوال پیش خدمت ہیں: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے کہا: کہ یہ ایک بے بنیاد فیصلہ ہے، جس میں شہادتوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور قانون کابھی پاس ولحاظ نہیں رکھا گیا ہے، مولانا نے کہا: کہ یہ فیصلہ اسی ذہنیت کا آئینہ دار ہے ،جوذہنیت حکومت کی ہے اور اس کا اظہار بابری مسجد کیس میں سپریم کورٹ کے ججوں نے کیا تھا،مولانا نے مزید کہا:کہ لوگوں کویادہوگا کہ بابری مسجد کی شہادت کے عظیم حادثہ کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ تعصب کی لہر چل پڑی اوربڑے پیمانے پر مسلمانوں کے جان ومال کانقصان ہوا۔
سی بی آئی کی خصوصی عدالت کایہ فیصلہ مسجد کی شہادت کی ذمہ داری کسی پرنہیں ڈالتا،توکیاوہ سارامجمع اورسارے لوگ جو بی جے پی میں بہت بڑی حیثیت کےمالک رہے ہیں،مسجد کوشہید نہیں کیا؟یاکسی غیبی طاقت نے مسجد کی عمارت کونیست ونابود کردیا؟یقینایہ فیصلہ ناانصافی کی تاریخ میں ایک مثال کی حیثیت سے پیش کیا جائے گا ۔
جمعیت علمائے ہند کے صدراور دارالعلوم /دیوبند کےاستاذ حدیث حضرت مولانا سیدارشدمدنی صاحب نےکہا:کہ سی بی آئی کورٹ یہ کہہ رہی ہےکہ ان 32/ملزمین کاکوئی قصور نہیں ہے اور یہ باعزت بری کیےجاتےہیں،عقل حیران ہے کہ اس کوکس چیز سے تعبیر کیاجائے،اس فیصلے کوکس نظریہ سےدیکھاجائے ،کیااس فیصلہ سےعوام کاعدالت پراعتماد بحال رہ سکےگا؟۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن اوربابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نےکہا:کہ ایک بارپھرمسلم فریق کوانصاف نہیں ملا،عدالت جن ویڈیو اور آڈیوکوثبوت نہیں ماناہے،وہی اصل میں ثبوت ہیں، ہمارے پاس متبادل موجود ہے،ہم صلاح و مشورہ کرکےہائی کورٹ کارخ کریں گے ۔
جمعیت علمائے ہند کےجنرل سکریٹری حضرت مولانا محمودمدنی صاحب نے کہا:کہ سی بی آئی کورٹ کایہ فیصلہ انتہائی تشویش ناک ہے؛ کیوں کہ جہاں ایک طرف اس سے فسطائی عناصرجوکہ دیگر مساجد کوبھی اپنےظلم وستم کانشانہ بناناچاہتےہیں،انہیں شہ ملےگی اور ملک میں امن وامان کوزبرست خطرہ لاحق ہوگا،تووہیں دوسری طرف اقلیتوں اورکمزورطبقات کےدرمیان مایوسی پھیلےگی اورعدالتوں پراعتماد میں کمی آنے کےباعث بہت سارے تنازعات پرامن طریقے سےحل کیےجانےکےبجائےزورزبردستی اورتشدد کےذریعے طےکرنےکارواج قائم ہوگا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
اسمرتی ایرانی نے بھی سنبھالا بی جے پی کے دفاع کا محاذ،راہل گاندھی انصاف کے لیے نہیں بلکہ سیاست کے لیے ہاتھرس جارہے ہیں
نئی دہلی:مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے راہل گاندھی کو ہاتھرس کے دورے پر سخت نشانہ بنایا ہے۔ اسمرتی ایرانی نے کہا کہ راہل گاندھی متاثرہ افراد کے انصاف کے لئے نہیں بلکہ سیاست کے لیے ہاتھرس جارہے ہیں۔ راہل گاندھی کے ہاتھرس کے دورے کے پیش نظر دہلی-نوئیڈا ڈائرکٹ فلائی وے پر سکیورٹی انتظامات سخت کردیئے گئے ہیں۔مرکزی وزیر اور بی جے پی رہنما سمرتی ایرانی نے کہاکہ عوام کانگریس کی حکمت عملی سے واقف ہے۔اس لیے انہوں نے 2019 میں بی جے پی کوفتح دلائی ۔ انہوں نے کہاکہ جمہوری ملک میں سیاست دانوں کو روک نہیں سکتے ہیں، لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ راہل گاندھی کا ہاتھرس کا دورہ ان کی سیاست کے لئے ہے، مقتول کو انصاف دلانے کے لئے نہیں۔ آج صبح راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا اور کہاکہ ہاتھرس کے اس متاثرخاندان سے ملنے اور ان کے دکھ بانٹنے سے دنیا کی کوئی بھی چیز مجھے روک نہیں سکتی ہے۔یوپی پولیس نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو گاؤں میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔ نوئیڈا پولیس نے کہا ہے کہ وہ راہل گاندھی اور دیگر رہنماؤں کو دہلی-نوئیڈا بارڈر سے آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ راہل اور پرینکا اور دیگر رہنما دوپہر کے بعد ہاتھرس کے لیے روانہ ہوں گے۔ اسی دوران ہاتھرس صدر کے ایس ڈی ایم پریم پرکاش نے کہا کہ میڈیا کو گاؤں میں متاثرہ کے لواحقین سے ملنے کی اجازت ہے، کیوں کہ اب ایس آئی ٹی کی تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں۔
ترجمہ:نایاب حسن
عموماً ہندوستانی ریاستوں اور خاص طور پر یوپی میں مضبوط سیاسی ڈھانچہ اور سماجی (طبقاتی) اشتراک ہی الیکشن میں کامیابی حاصل کرتا، اقتدار سنبھالتا اورتھانوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ تھانہ جو انتظامیہ کا سب سے کم تر درجے کا یونٹ ہوتا ہے،مگراس کا شہریوں کے ساتھ سب سے زیادہ رابطہ ہوتا ہے۔ اگر آپ لکھنؤ میں برسرِ اقتدار ہیں تو آپ ہی فیصلہ کریں گے کہ ان مقامی پولیس اسٹیشنوں کے پولیس آفیسر انچارج کون ہوں گے۔ اگر آپ ایک مضبوط ذات پات پر مبنی سیاسی دھارے سے آتے ہیں یا آپ اپنی برادری کے تئیں وفادار ہیں تو ممکن ہے کہ ان تھانوں کے ذمے داران یا تو ایک ہی ذات پات کے ہوں گے یا سیاسی طور پر غالب برادری کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتے ہوں گے۔ اس کا منطقی انجام یہ ہوگا کہ حکمراں برادری اور اس کے اتحادیوں سے باہر کی برادریوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے انصاف تک رسائی مشکل ہوگی۔
ہاتھرس کا چونکانے والا واقعہ سیاسی طاقت، ریاست کے طریقۂ کار اور سماجی حرکیات کے مابین اسی سنگین گٹھ جوڑ کا عکاس ہے۔ جب یوپی میں سماج وادی پارٹی برسر اقتدارتھی ،تب یادو انتظامی ڈھانچے پر حاوی تھے اور مقامی تھانے بنیادی طور پر یادو کا گڑھ مانے جاتے تھے۔ جب بہوجن سماج پارٹی اقتدار میں تھی ، تو دلتوں( جوعموماً اقتدار سے باہر ہوتے ہیں) کو مقامی پولیس تک زیادہ رسائی حاصل تھی۔ مگر بھارتیہ جنتا پارٹی ہندووں کو وسیع تر ہندو شناخت کا احساس دلاکر مجتمع کرکے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی طور پر مسلمانوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی ، جو ریاستی اداروں تک ان کی رسائی کو محدود کرتی ہے؛ لیکن خاص بات یہ ہے کہ ہندووں کے داخلی طبقاتی اختلاف کی وجہ سے بی جے پی کی زیرقیادت انتظامیہ نہ صرف مسلمانوں کو ریاستی اداروں سے دور رکھتی ہے؛بلکہ وہ خود ہندووں کی بعض برادریوں کو بعض دوسری برادریوں پر فوقیت دیتی ہے۔
در حقیقت یہی چیز ہمیشہ ہندو ووٹ کو متحد کرنے کی بی جے پی کی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ رہی ہے۔ پچھلے چھ سالوں کے دوران پارٹی نے زیادہ سے زیادہ ہندووں کو اپنے اندر سمونے کوشش کی ہے اور بی جے پی کو ایک ایسی پارٹی کے طورپر پیش کیا گیا ، جو تمام ہندو ذاتوں کو قبول کرتی ہے اور روایتی اعلی ذات کی طرف جھکاؤ سے اوپر اٹھ کر سوچتی ہے۔اسی وجہ سے نہ صرف دلتوں نے بڑی تعداد میں بی جے پی کو ووٹ دیا ہے؛ بلکہ اِس وقت بی جے پی میں دلت عوامی نمائندوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور انھیں پارٹی کے بنیادی ڈھانچے میں جگہ دینے کی کوشش کی گئی ہے؛ لیکن یوپی میں بی جے پی کا یہ اصول روایتی طبقاتی کشمکش اور اعلیٰ ذات کی برتری کے رجحان سے مسلسل متصادم ہے۔ یوگی حکومت ٹھاکروں کی حامی مانی جاتی ہے،سو وہاں پولیس کے طریقۂ کار میں واضح تعصب پایا جاتا ہے اورٹھاکروں کے علاوہ دوسرے سماجی طبقات کو حاشیے پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہاتھرس صرف ایک انسانی المیہ اور یوپی حکومت کی انتظامی ناکامی نہیں ہے؛بلکہ یہ بی جے پی کی سیاسی ناکامی بھی ہے۔ اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ مختلف برادریوں کے مابین ہم آہنگی انصاف کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
دس لاکھ نوکری پرآرجے ڈی نے کہا،بی جے پی والے کنویں کے مینڈک،ہم نے بلیوپرنٹ تیارکرلیاہے
پٹنہ:بہاراسمبلی انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے ذریعہ ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا دور چل رہا ہے۔ آر جے ڈی لیڈرتیجسوی یادونے کابینہ کی پہلی میٹنگ میں 10 لاکھ لوگوں کو مستقل ملازمت دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس پراین ڈی اے جملے بازی کررہاہے ۔ آر جے ڈی نے این ڈی اے اتحاد میں شامل افراد کو کنویں کے مینڈک سے تشبیہ دی ہے۔ آر جے ڈی کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل کے ایک ٹویٹ میں کہاگیاہے کہ آپ جوکچھ بھی کر سکتے ہو ، کر کے دکھاؤ!۔ این ڈی اے نے 15 سالوں میں ثابت کیاہے کہ اس کے بس میں جھوٹ بولنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ وہ بیوقوف کنویں کے مینڈک ہیں جو کہتے ہیں کہ 10 لاکھ نوکری دیناممکن نہیں۔سارا بلیوپرنٹ یہاں تیارہے۔
بی جے پی میں پرموشن کا اثر؟تیجسوی سوریہ نے بنگلوروکو بتایا دہشت گردی کا مرکز،این آئی اے کے دفتر کا مطالبہ
نئی دہلی:بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریہ نے دعوی کیا ہے کہ بنگلور دہشت گردی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے ۔ اسی سلسلے میں انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ کرناٹک کے دارالحکومت میں قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کا مستقل دفتر قائم کیا جائے۔ بھارتیہ جنتا یووا مورچہ (بی جے وائی ایم) کا صدر مقرر کئے جانے کے اگلے ہی دن سوریہ نے کہا کہ بنگلورو میں بہت سے دہشت گردوں کے اڈوں کا پردہ فاش ہوا ہے۔ سوریہ نے دعوی کیا کہ دہشت گرد تنظیمیں شہر کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانا چاہتی ہیں۔ سوریہ نے بتایا کہ اس سلسلے میں دو دن قبل انہوں نے وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کی اور بنگلورو میں این آئی اے کا دفتر کھولنے کی تاکید کی، جو جدید سہولیات سے آراستہ ہو اور جہاں ملازمین کی تعداد کافی ہو۔ انہوں نے کہاکہ وزیر داخلہ نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ جلد از جلد پولیس سپرنٹنڈنٹ کے عہدے کے افسر کی نگرانی میں مستقل دفتر کھولنے کی ہدایت دیںگے۔لوک سبھا میں جنوبی بنگلور سیٹ کی نمائندگی کرنے والے سوریہ نے کہاکہ ہندوستان کی سلیکن ویلی گذشتہ چند سالوں میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کا ایک مرکز بن چکا ہے۔ یہ تفتیشی ایجنسیوں کی گرفتاریوں اور دیگر انکشافات سے بھی واضح ہو گیا ہے۔ بی جے پی میں نئی ذمہ داری کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ پہلے بی جے وائی ایم صدر کی حیثیت سے بہار کا دورہ کریں گے اور پارٹی کے نوجوان کارکنوں سے ملاقات کریں گے۔ بہار میں اسمبلی انتخابات اکتوبر اور نومبر میں تین مراحل میں ہوں گے۔
پٹنہ:بہاراسمبلی انتخابات میں حزب اختلاف کے لیڈرتیجسوی یادونے ایک بڑادائوکھیلاہے ۔ بے روزگارمعاشرے کی شہ رگ پرانگلی رکھتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر ان کی حکومت بنی تو کابینہ کی پہلی میٹنگ میں ریاست میں 10 لاکھ افراد کے روزگارکے بارے میں پہلافیصلہ کیاجائے گا۔بے روزگاری ایسامعاملہ ہے جس سے عوام پریشان ہیں۔لاک ڈاؤن کے بعدبہاربھی بری طرح متاثرہواہے۔جدیو،بی جے پی اس مدعے پرخاموش ہیں،وہ ا س کوانتخابی ایشوبنانے سے ڈربھی رہی ہیں کہ کہیں عظیم اتحادبے روزگاری،معاشی بدحالی اورمہنگائی کوایشونہ بنائے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا ہے کہ پہلی کابینہ میں بہار کے 10 لاکھ نوجوانوں پر پہلاقلم چلے گا۔ بہار میں پہلے ہی 4 لاکھ 50 ہزار اسامیاں خالی ہیں۔تعلیم،صحت، محکمہ داخلہ سمیت دیگر محکموں میں ، قومی اوسط معیارکے مطابق بہار میں 5 لاکھ 50 ہزار تقرریوں کی اشدضرورت ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ بہار معیار کے نچلے حصے میں ہے جس کوخود وزارت صحت نے مرتب کیا ہے۔ بہار کی آبادی تقریباََ 12.5 ملین ہے۔ ڈبلیوایچ اوکے معیار کے مطابق فی 1000 افراد پر ایک ڈاکٹر ہوناچاہیے ، لیکن بہار میں ہر 17 ہزار آبادی میں ایک ڈاکٹرہے۔ اس کے مطابق بہارمیں ایک لاکھ پچیس ہزار ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ نرسوں ، لیب ٹیکنیشنز ، فارماسسٹ جیسے معاون عملے کی اسی تناسب میں ضرورت ہے۔ صرف محکمہ صحت میں ڈھائی لاکھ افراد کی ضرورت ہے۔ریاست میں پولیس اہلکاروں کی 50 ہزار سے زیادہ آسامیاں خالی ہیں۔ یہ تب ہے جب بہار میں پولیس کا عوامی تناسب نچلی سطح تک پہنچ گیاہے ، فی ایک لاکھ آبادی میں صرف 77 پولیس اہلکار موجودہیں ، جبکہ منی پور جیسی ریاست میں پولیس اہلکاروں کی تعداد ایک لاکھ آبادی میں ایک ہزارسے زیادہ ہے۔ قومی اوسط فی ایک لاکھ آبادی میں 144 پولیس اہلکارہیں۔ بہار میں پولیس اہلکاروں کی کل تعداد 1.26 لاکھ ہے۔انھوں نے کہاہے کہ اس وقت محکمہ پولیس میں 50 ہزار کے قریب آسامیاں خالی ہیں۔ یہاں تک کہ قومی اوسط سے ، بہار میں 1.72 لاکھ پولیس اہلکار کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود پولیس اہلکاروں کی تقرری میں عدم توجہی جاری ہے اور آج تک بحالی کاعمل شروع نہیں ہواہے۔
نئی دہلی:بی جے پی کی قومی نائب صدر اور مدھیہ پردیش کی سابق وزیراعلیٰ اوما بھارتی نے رشی کیش اور ہری دوار کے مابین ایک جگہ پرخود کوآئسولیٹ کرلیا ہے۔ اوما بھارتی نے ٹویٹ کرکے یہ معلومات دی ہیں۔ انھوں نے اپنے ساتھ رابطے میں آنے والے تمام لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اپنا کورونا ٹیسٹ کروائیں اورانہیں محتاط رہناچاہیے۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ کوروناوائرس سے متاثر ہیں۔ اوما بھارتی اتراکھنڈمیں ہیں۔اس دوران انھوں نے بیمار ہونے پرخودکوالگ کرلیا ہے۔ اوما بھارتی نے آج آدھی رات کو ٹویٹ کیاہے کہ میں یہ بات آپ کے نوٹس میں ڈال رہی ہوں کہ میں نے اپنے پہاڑی سفرکے اختتام کے آخری دن انتظامیہ سے گزارش کرتے ہوئے کورونا ٹیسٹ ٹیم کو بلایاکیونکہ تین دن سے زیادہ سے ہلکا بخارتھا۔انہوں نے کہاہے کہ میں نے ہمالیہ میں کوویڈ کے تمام قانونی اور معاشرتی فاصلے پر عمل کیا ہے،اس کے باوجودمیں کوروناپوزیٹیوہوگئی ہوں۔اوما بھارتی نے ٹویٹ کیاہے کہ میرے بھائی اور بہن جو بھی میرے ساتھ رابطے میں آئے ہیں یا اس ٹویٹ کو جانتے ہیں،ان سے میری اپیل ہے کہ وہ ان کی کورونا ٹیسٹ کروائیں اور احتیاطی تدابیراختیارکریں۔
چنڈی گڑھ:وزیراعلیٰ پنجاب کیپٹن امریندر سنگھ نے شرومنی اکالی دل کے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) چھوڑنے کے اقدام کو بادل خاندان کی مایوسی کے ساتھ سیاسی مجبوری کامعاملہ قرار دیاہے۔ وزیراعلیٰ نے کہاہے کہ زرعی بل پربی جے پی کی عوامی تنقیدکے بعدبادل خاندان کے پاس کوئی دوسراآپشن نہیں بچاتھا۔ہفتہ کی رات کی میٹنگ میں اکالی دل کے فیصلہ سازلوگوں نے متفقہ طور پر بی جے پی کے زیرقیادت این ڈی اے چھوڑنے کافیصلہ کیاہے۔ کیونکہ مرکزنے کم سے کم سپورٹ قیمت پرکسانوں کی فصلوں کی یقین دہانی کی مارکیٹنگ کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی ضمانت دینے سے انکار کردیا ہے۔ یہ اجلاس اکالی دل کے صدر سکھبیر سنگھ بادل کے زیرصدارت ہوا اور این ڈی اے چھوڑنے کا فیصلہ اجلاس کے اختتام پرآیاجوتین گھنٹے سے زیادہ جاری رہا۔امریندر سنگھ نے کہاہے کہ شرومنی اکالی دل (ایس اے ڈی) کے اس فیصلے میں کوئی اخلاقی بنیادنہیں ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہاہے کہ اکالیوں کے پاس ان سے پہلے کوئی چارہ نہیں تھاکیونکہ بی جے پی نے پہلے ہی یہ واضح کردیاتھاکہ اس نے ایس ڈی پرالزام لگایاتھاکہ وہ کسانوں کو زرعی بلوں کی بھلائی کے بارے میں راضی کرنے میں ناکام رہاہے۔
چنڈی گڑھ:بی جے پی کی اتحادی شرومنی اکالی دل کے سربراہ سکھبیر سنگھ بادل نے ہفتہ کے روزپنجاب حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ فوری طور پر ایک آرڈیننس سامنے لایا جائے جس کے تحت ریاست کے زرعی بلوں کو یہاں پر لاگو ہونے سے روکنے کے لیے پوری ریاست کو زرعی مارکیٹ قرار دیا جائے۔ انھوں نےایک بیان میں کہاہے کہ وزیراعلیٰ کیپٹن امیندر سنگھ کو دن بھر اکالی فوبیامیں مبتلارہنے اوراپنے مخالفین کے خلاف بدنیتی پر مبنی الزامات عائد کرنے کی بجائے کسانوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔بادل نے کہاہے کہ پنجاب میں مرکز کے نئے قوانین کو روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ پوری ریاستی منڈی کو زرعی پیداوار کی منڈی قرار دیا جائے۔انھوں نے کہاہے کہ جس بھی علاقے کو مارکیٹ قرار دیا جائے گا وہ نئے قانون کے دائرے سے باہرہوگا۔
بی جے پی دفترسے گزرتے وقت حفاظت کے لیے لاٹھی ساتھ رکھو،پپو یادو کے حامیوں پرحملے کے بعدتیج پرتاپ یادوکاطنز
نئی دہلی:لیڈران کی جانب سے ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کے دورمیں بہار اسمبلی انتخابات میں شدت آگئی ہے۔ کسان بل پر احتجاج کے دوران پپو یادو کی پارٹی جن ادھیکار پارٹی اور بی جے پی کارکنان کے درمیان جھڑپ ہوئی۔بی جے پی کارکنوں پرپپو یادوکے حامیوں کو پیٹنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ پپو یادوکے حامی بی جے پی کے دفتر کا محاصرہ کر رہے تھے۔ اس دوران بی جے پی کارکنوں نے انھیں لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے پیٹا۔ ہفتہ کے روز بہار کے سابق وزیر صحت اور آر جے ڈی رہنما تیج پرتاپ یادونے اس واقعے پرطنزکیاہے۔تیج پرتاپ یادونے ہفتے کے روز ایک ٹویٹ میں لکھاہے کہ تمام لوگوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ بہار بی جے پی کے دفتر سے گزرتے ہوئے انہیں لاٹھیاں ساتھ رکھنی ہوں گی ۔ بصورت دیگر وہ کچل دیئے جائیں گے۔کوشاشن باقی رہے گا لیکن خاموش تماشائی بن کر۔ اس واقعے پر جن ادھیکار پارٹی کے صدر اور سابق رکن اسمبلی پپو یادونے کہاہے کہ بہارکے عوام کسانوں کے لیے احتجاج کرنے والے ہمارے معزز سابق ایم ایل اے رام چندر یادو جی پربی جے پی کے غنڈوں کے حملے کا زبردست جواب دیں گے۔کسان مخالف نریندر مودی اور ان کے دہشت گردوں کو عوام جواب دے گی۔
نئی دہلی:بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے پارٹی میں بہت ساری اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ بی جے پی نے پارٹی کے قومی نائب صدر،قومی جنرل سکریٹری ، قومی جنرل سکریٹری (تنظیم) ، قومی کوآپریٹو جنرل سکریٹری اور قومی ترجمان سمیت متعدد اہم عہدوں میں تبدیلی کرتے ہوئے نئے چہروں کوبھی موقع فراہم کیا ہے۔اس کے ساتھ ہی بی جے پی نے تیجسوی سوریہ کوبھارتیہ جنتا یووا مورچہ کی کمان سونپی ہے۔بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے بی جے پی کے مرکزی عہدیداروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے۔ اس دوران بہت سارے بڑے لیڈروں کواہم عہدوں سے ہٹا دیا گیاہے اور نئے چہروں کوموقع دیاگیا ہے۔ نئے چہروں میں ، بی جے پی نے تیجسوی سوریہ کو یووا مورچہ کے قومی صدر کی ذمہ داری سونپی ہے۔ تیجسوی سوریہ سے پہلے پونم مہاجن یووا مورچہ کی قومی صدرتھیں۔تیجسوی سوریہ جنوبی بنگلورو لوک سبھاسیٹ سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ تیجسوی سوریہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور کرناٹک ہائی کورٹ میں بھی وکالت کرتے ہیں۔ اپنے متنازعہ بیانوں کے لیے مشہور تیجسوی سوریہ اس سے قبل بی جے پی یوتھ مورچہ کے ریاستی جنرل سکریٹری رہ چکے ہیں۔
ممبئی:بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے لیڈر اور مہاراشٹرکے سابق وزیراعلیٰ دیویندر فڑنویس اورشیوسیناکے ممبرپارلیمنٹ سنجے راوت کے مابین ایک ملاقات ہوئی ہے۔ مہاراشٹر میں شیوسیناکی کانگریس اور این سی پی کے ساتھ مخلوط حکومت کے قیام کے بعد شاید دونوں لیڈروں کے درمیان یہ پہلی ملاقات ہے۔دیویندر فڑنویس اور سنجے راوت نے ممبئی کے ایک ہوٹل میں ملاقات کی۔ دراصل سنجے راوت شیوسینا کے ترجمان سامناکے لیے فڑنویس کا انٹرویو لینے جارہے ہیں۔ اسی دوران فڑنویس نے کہاہے کہ اس انٹرویو کو ترمیم کیے بغیر ہی شائع کرناچاہیے۔ نیزیہ بہار انتخابات کے بعد کیا جائے گا۔تاہم اس ملاقات کے پیچھے کسی بھی سیاسی خواہش کی تردیدکی جارہی ہے۔فی الحال دیویندر فڑنویس کی توجہ بہاراسمبلی انتخابات2020 پرمرکوزہے۔بہار کے انتخابات کے لیے بی جے پی نے دیویندر فڑنویس کو انتخابی انچارج مقرر کیا ہے۔بہارانتخابات کی تاریخوں کا بھی اعلان کردیا گیا ہے اور اس کے نتائج 10 نومبر کو آنے ہیں۔
اکھلیش یادو کابی جے پی حکومت سے مطالبہ:پی ایم کیئرز فنڈ کو عوام کیئرز فنڈ بنایا جائے
لکھنؤ:سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے صدر اکھلیش یادو نے مطالبہ کیا ہے کہ کورونا سے نمٹنے کے لئے بنائے گئے پی ایم کیئرز فنڈ کو عوام کیئرز فنڈ میں تبدیل کیا جائے۔ بدھ کے روز ایک ٹویٹ میں انہوںنے کہاکہ کیا بی جے پی جو انتخابی ریلی کے لئے لاکھوںایل ای ڈی ٹی وی پر اربوں روپئے خرچ کرتی ہے اس کے پاس اساتذہ اور طالب علموں کی آن لائن تعلیم کاانتظام کرنے کے لئے فنڈ نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت ایمانداری کے ساتھ پی ایم کیئرس فنڈ کو عوام کیئرس فنڈ بنائے اور ملک کے مستقبل کی فکر کرے ۔ اکھلیش نے ٹویٹ کے ساتھ اپنی حکومت کے دور میں طلباء میں مفت لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تصاویر بھی پوسٹ کیں۔ ایس پی صدر نے کورونا انفیکشن کی موجودہ صورتحال کے درمیان اسکول کھولنے کی بھی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ کورونا بحران میں تدریسی سیشن کو مستقل رکھنے کے لئے اسکولوں کا کھولنا کوئی محفوظ متبادل نہیں ہے۔ حکومت غریب خاندانوں میں فی طالب علم ایک سمارٹ فون، انٹرنیٹ نیٹ ورک اور بجلی فراہم کرے۔ نیز اساتذہ کو گھر پر ڈیجیٹل تعلیم کے لئے مفت ہارڈ ویئر دیں۔
شاہین باغ کا شہزاد علی بی جے پی میں شامل،ٹوئٹر پر ہنگامہ،’کیجریوال بریگیڈ‘ شاہین باغ پروٹیسٹ کو ’بی جے پی اسپانسپرڈ‘ قرار دینے میں جٹی
سماجی کارکن و آرٹی آئی ایکٹوسٹ ساکیت گوکھلے نے شہزاد علی کو بتایا راشٹریہ علما کونسل کے دہلی چیپٹر کا سکریٹری،ثبوت کے طورپر ٹوئٹر پر پارٹی کا تقرری لیٹر بھی شیئر کیا
نئی دہلی:(قندیل نیوز) نیوز ایجنسی اے این آئی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پرچار بج کر بیس منٹ پرچند تصویروں کے ساتھ ایک مختصر سی خبر پوسٹ کی جس میں لکھا تھا کہ’’شاہین باغ کے سوشل ایکٹوسٹ شہزاد علی نے دہلی بی جے پی صدر آدیش گپتا اور پارٹی لیڈر شیام جاجو کی موجودگی بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس موقعے پر انھوں نے کہا کہ میں نے بی جے پی میں اس لیے شمولیت اختیار کی ہے کہ اس تصور کو غلط ثابت کرسکوں کہ بی جے پی مسلمانوں کی دشمن ہے۔ ہم مل کر ان سے سی اے اے سے متعلق مسلمانوں کے خدشات پر بات کریں گے‘‘۔
یہ خبرٹوئٹر پر اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو گئی اور جہاں ایک طرف عام آدمی پارٹی اور کانگریس والے اسے اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے میں لگ گئے کہ شاہین باغ کا احتجاج بی جے پی کے ذریعے اسپانسرڈ تھا،وہیں دوسری طرف مختلف سماجی کارکنان اور شاہین باغ احتجاج کا حصہ رہنے والے افراد شہزاد علی کے متعلق سوالات اٹھانے لگے۔ زیادہ تر لوگوں کا کہناہے کہ شہزاد علی شروع سے آخر تک شاہین باغ موومنٹ میں کہیں بھی نہیں تھا اور ہم نے کبھی اس کا نام بھی نہیں سنا،جبکہ کچھ لوگوں نے یہ کہاکہ شاہین باغ کا رہایشی ہونے اور شاہین باغ احتجاج کا حصہ رہنے میں فرق ہے اور ممکن ہے کہ یہ شخص شاہین باغ کا باشندہ ہو مگر اس کا این آرسی اور سی اے اے کے خلاف شاہین باغ میں تقریبا تین ماہ تک چلنے والے احتجاج سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
وہیں دوسری طرف معروف سماجی کارکن اور آرٹی آئی ایکٹوسٹ ساکیت گوکھلے نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر دو تصویریں شیئر کی ہیں،جن میں سے ایک راشٹریہ علماکونسل کے لیٹر پیڈ پر جاری ہونے والا تقرری نامہ ہے،جس میں یہ لکھا ہے کہ شہزاد علی کو دہلی پردیش کا سکریٹری بنایا جاتا ہے اور ساتھ ہی پارٹی کی توسیع و فروغ کی امید جتائی گئی ہے۔
اس خط کے اجرا کی تاریخ 11فروری 2019درج ہے۔ اور راشٹریہ علماکونسل دہلی کے صدر ایس ایم نوراللہ کے دستخط سے جاری ہوا ہے۔ ساکیت گوکھلے نے ایک دوسری تصویر انگریزی نیوز ویب سائٹ’’فرسٹ پوسٹ‘‘پرشائع شدہ علماکونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی کے ایک انٹرویوکی شیئر کی ہے،جس میں انھوں نے ملک کی مبینہ سیکولر پارٹیوں پر تنقید کی تھی اورعلما کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھاکہ انھوں نے مسلمانوں کو نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی حمایت پر اکساکر انھیں بی جے پی کا دشمن بنادیا ہے۔ یہ انٹرویو مذکورہ ویب سائٹ پر موجود ہے۔ ٹوئٹر پر شہزاد علی کی راشٹریہ علما کونسل کے لیڈروں کے ساتھ کئی تصویریں بھی گشت کر رہی ہیں۔ البتہ پارٹی کی طرف سے ابھی اس پر کوئی وضاحت نہیں آئی ہے۔
بہر کیف ٹوئٹر پر شام سے ہی یہ خبرٹرینڈ کررہی ہے اور مختلف قسم کے لوگ اپنی اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق مختلف آرا کا اظہار کررہے ہیں۔
شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
سی اے اے کے خلاف کامیاب عوامی تحریک نے ’ یرقانیوں‘ کے ہو ش اڑادیئے ہیں ۔
اور اب کوشش یہ ہورہی ہے کہ سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کے خلاف جاری تحریک کو ’کمزور‘ کرنے کے لئے ’ میر جعفروں ‘ اور ’ میر صادقوں‘ کو استعمال کیا جائے ۔ اور اس میں تو کوئی شک وشبہہ ہے ہی نہیں کہ مسلمانوں میں ان ’ منافقوں‘ کی کوئی کمی نہیں ہے جنہیں ’ میر جعفر‘ اور ’میر صادق‘ کہا جاسکتا ہے ۔۔۔ ایسے ہی چند ’ منافقین‘ کے چہرے ۱۶؍ جنوری کے روز دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں نظر آئے ، باریش، صافوں اور پگڑیوں سے سرڈھکے ہوئے اور کرتا پائجاموں میں ملبوس۔ یہ سارے کے سارے ’ مسلم راشٹریہ منچ‘ کے اسٹیج پر ، جو کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ’طفیلی تنظیم‘ ہے ، منچ کے صدر ، سینئر سنگھی لیڈر اندریش کمار کے ساتھ براجمان تھے اور سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کی حمایت میں سنگھی ٹولے کی ہاں میں ہاں ملارہے تھے ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا انہیں یہ نہیں پتہ کہ جس سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کی وہ حمایت کررہے ہیں اسے مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال کیا جائے گا ؟ اس سوال کا جواب ’ہاں‘ میں ہے ۔ وہ یہ خوب جانتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے ’ ضمیر‘ کو بیچ دیا ہے ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید زیادہ درست ہوگا کہ یہ جس ’ خمیر‘ سے بنے ہوئے ہیں اس کی فطرت ہی میں ’ بے ضمیری‘ شامل ہے ۔ انہیں صرف اپنا عیش عزیز ہے ، نہ ملک ان کے لئے عزیز ہے ، نہ ہی سنگھ اور نہ ہی قوم ، انہیں سب سے زیادہ عزیز اپنا پیٹ ہے اور یہ پیٹ کے لئے ملک اور قوم کیا اپنا ایمان بھی بیچ سکتے ہیں ، بلکہ ایمان بیچ چکے ہیں ۔
کانسٹی ٹیوشن کلب میں اندریش کمار کو قطعی یہ اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ ان کی اور ان کے ساتھی ’منافقین ‘ کی کوئی مخالفت بھی کرسکے گا ، پر چند جیالے تھے ، چند ’باضمیر‘ افراد ، قوم اور ملک سے محبت رکھنے والے لوگ ، علمائے حق اور برادرانِ وطن جنہوں نے اندریش کمار کے سامنے ہی سی اے اے، این آرسی اور این پی آر مردہ باد کے نعرے شروع کردیئے ۔ ان کے ہاتھوں میں مردہ باد کے پلے کارڈ تھے ۔ ایسے میں ’ منافقوں‘ نے وہی کیا جو ان کے ’آقا‘ چاہتے تھے وہ ’ حق پرستوں‘ پر پل پڑے مگر ’ مردہ باد‘ کے نعرے رکے نہیں ! انہیں ہم سب کا سلام ہے ۔
سی اے اے کے خلاف جو تحریک چھڑی ہوئی ہے اس نے بہت سارے چہروں کو اجاگر کیا ہے ۔ یہ تحریک طلباء کی تحریک ہے ، یہ تحریک خواتین کی تحریک ہے ، یہ تحریک ملک کے جمہوری اور سیکولر ڈھانچے پر یقین رکھنے والے بردارانِ وطن کی تحریک ہے اور یہ تحریک چندر شیکھر آزاد جیسے دلتوں کی تحریک ہے ۔۔۔ افسوس کہ اس تحریک کے ساتھ جنہیں چلنا تھا ، وہ جنہیں مسلمان اپنا مذہبی، سیاسی او رملی قائد سمجھتے تھے، وہ یا تو اس تحریک سے غائب ہیں ، یا اس تحریک کو کمزور کرنے کے لئے کوشاں ہیں یا اس تحریک کو ہائی جیک کرنے کی سعی کررہے ہیں ۔
ان سب سے بچنا ہوگا ۔۔۔ جن سے بچنا ہے ان میں ’ باریش یرقانی مسلمان‘ بھی شامل ہیں جن کی باگ ڈور اندریش کمار کے ہاتھ میں ہے اور جنہوں نے ’مسلم راشٹریہ منچ‘ کو اپنا مندر بنالیا ہے ۔۔۔
یہ ’ مسلم راشٹریہ منچ‘ کیا ہے ؟
یہ اندریش کمار کون ہیں؟
ان دونوں سوالوں کے جواب پہلے بھی دیئے جاچکے ہیں لیکن اب پھر سے ان سوالوں کے جواب دینے کی ضرورت ہے تاکہ ’مسلمانوں کی فلاح‘ کے نام پر کام کرنے والی اس تنظیم، اس کے سربراہ اوراس میں شامل ’ باریش منافقین‘ کی حقیقت پھر اجاگر ہوسکے ۔
آر ایس ایس کے منصوبے کبھی پردے میں نہیں تھے۔ سب کچھ عیاں تھا، جیسے کہ مرکزی وزیر اوما بھارتی نے بابری مسجد کی شہادت کے معاملے میں کہا تھا کہ ’’ہم نے جو کچھ کیا وہ کھلے عام کیا‘‘ ۔مگر وہ مسلمان کیسے اندھے او ربہرے ہیں، جو آر ایس ایس او ربی جے پی کا دامن تھامے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے مودی کی بات سننا ہی بہتر ہے۔ سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر پر مودی جو کہہ رہے ہیں اسے ہی وہ عین سچ مان رہے ہیں ۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے طلاق ثلاثہ کے معاملے میں مودی اور یوگی کی ہاں میں ہاں ملائی ہے۔ لائوڈ اسپیکروں سے اذان کی بات ہوتی ہے تو یہ اذانیںبند کروانے کے لیے ’یرقانیوں‘ سے بھی دو ہاتھ آگے کھڑے نظر آتے ہیں۔ بابری مسجد کی جگہ اگر ان کے بس میں ہو تاتو سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی یہ رام مندر کی تعمیر کے لیے سونپ دیتے ۔ انہیں وہ ’زہریلی باتیں‘جو سنگھی لیڈروں کی زبانوں سے نکلتی ہیں سنائی تک نہیں دیتیں۔ یہ بہرے ہیں۔ انہیں وہ سب کچھ جو یرقانی تنظیمیں ’ہندو توا‘ کے نفاذ کے لیے کررہی ہیں نظر تک نہیں آتا۔ یہ اندھے ہوگئے ہیں۔ یہ اندھے اور بہرے سنگھی بھاجپائی مسلمان مختلف نام کی تنظیمیں بنا کر سرگرم ہیں۔ ’ مسلم راشٹریہ منچ ‘ ایسی ہی ایک تنظیم ہے ۔ یہ تنظیم ایسے مسلمانوں کو ساتھ ملا کر جو ’ننگ ملت، ننگ دین، ننگ وطن‘ کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں اس ملک سے جمہوریت اور سیکولر ازم کے خاتمے اور ’ہندو راشٹر‘ کے قیام کی تحریک چلائے ہوئے ہے، ان سب کے سرپر آر ایس ایس کا ہاتھ ہے۔
’مسلم راشٹریہ منچ‘ کے سربراہ ا ندریش کمار ہیں، اندریش کمار کا تعارف کیسے کرایا جائے!انہیں آر ایس ایس کا’پرچارک‘کہا جائے یا اجمیر شریف اور’سمجھوتہ ایکسپریس‘کے بم دھماکوں کے ایک ایسے ملزم کے طور پر پیش کیا جائے جس پر قومی تفتیشی ایجنسی(این آئی اے)اچانک یوں مہربان ہوئی کہ ہر طرح کی’دہشت گردی ‘کے الزام سے کلین چٹ دے دی۔یاکہ پھر انہیں مفتی ‘مولوی یا علامہ قرار دیاجائے کہ یہ آج اپنے ہم جلیس مسلمانوں کو’ شرعی مسائل‘سے آگاہ بھی کرتے ہیں اور ’قرآن اوراحادیث کی تشریح اورتفسیر ‘بھی۔ آج یہ انہیں جو سی اے اے کے خلاف ہیں ’شیطان پرست‘ اور جو حامی مسلمان ہیں انہیں ’ امن پرست‘ کہہ رہے ہیں ۔ آیئے ’راشٹریہ مسلم منچ ‘کی تاریخ پر ایک نظرڈال لی جائے۔
بات ۲۴؍دسمبر۲۰۰۴ء کی ہے جب ا سوقت کے آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک یعنی سربراہ کے ایس سدرشن کی ایماء پر دہلی میں’عید ملن‘کی ایک تقریب کا اہتمام کیاگیاتھا‘اس تقریب کے انعقاد میں ہندی کے ایک صحافی سیدمظفرحسین اوران کی اہلیہ نفیسہ مظفرحسین نے بڑھ چڑھ کر محنت کی تھی۔یہ بتادیں کہ یہ دونوں بوہرہ سماج کے ہیں اورآرایس ایس سے جڑے رہے ہیں۔مظفر حسین کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہوچکا ہے ۔اس تقریب میں سدرشن کے ساتھ آرایس ایس کے نظریہ ساز ایم جی ویدیہ،مدن داس اوراندریش کمار بھی شریک تھے۔مسلمانوں کی کئی اہم سماجی اورمذہبی شخصیات جیسے کہ کل ہند امام کونسل کے صدرمولانا جمیل الیاسی،مولانا وحید الدین خان اورفتحپوری مسجدکے شاہی امام مفتی مکرم بھی اس تقریب میں آئے تھے……اور’صوفی مسلمان‘ بھی تھے۔
بتاتے چلیں کہ سدرشن کے دل میں ان دنوں منجاب اللہ مسلمانوں کے تئیں نرمی اورہمدردی پیدا ہو گئی تھی۔خبرتویہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی طرح نمازپڑھناشروع کردیاتھا۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہو گئے تھے۔واللہ اعلم۔بہرحال سدرشن نے اس موقع پر یہ کہاتھا کہ لوگوں نے ’’اسلام کے انتہا پسندانہ روئیے کو دیکھا ہے اس کے اس چہرے کو نہیں جو امن وامان اورسلامتی کی عملی تبلیغ کرتا ہے۔‘‘اس طرح’مسلم راشٹریہ منچ‘کی بنیادپڑی تھی۔مقصد یہ تھا کہ ’مسلمانوں اورآر ایس ایس کے درمیان ایسی قربت پیدا کی جائے کہ میل ملاپ ہر طرح کی غلط فہمیوں کو دورکردےاورلوگ اسلامی اخلاق سے واقف ہو سکیں۔‘مگرآج ہو یہ رہاہے کہ’مسلم راشٹریہ منچ‘کا استعمال غلط فہمیوں کو دورکرنے کے لیے نہیں سنگھی نظریات کومسلمانوں پر تھوپنے کے لیے کیا جارہا ہے۔یہ کام ’مسلم راشٹریہ منچ‘کو شاید مشکل اس لیے نہیں لگ رہاہےکہ اس کےپاس’میر جعفروں اورمیرصادقوں ‘کی ایک پوری ٹولی ہے۔وہ ’قوم پرست مسلمانوں‘کواپنے دامن میں پناہ دئیے ہوئے ہے اوراس کی نظرمیں ’قوم پرست مسلمان‘وہی ہے جو اس ملک میں ’ہندوراشٹر‘کے قیام کے لیے سنگھ پریوار کی جدوجہد کو سراہے یا اس کام میں اس کے ساتھ کھڑا ہو جیسے کہ وہ جو سی اے اے کی حمایت کررہے ہیں ۔ اوراب توملک میں بی جے پی کی حکومت ہے‘کئی ریاستوں میں اس کی سرکاریں ہیں اس لیے ’مسلم راشٹریہ منچ‘ کو یہ لگ رہاہے کہ وہ ’میر جعفروں اورمیر صادقوں‘کی مدد سے ہندوستان کے سارے مسلمانوں کو’قوم پرست مسلمان‘بنالے گا۔سب’ہندوراشٹر‘کے لیے جدوجہد کریں گے۔ ویسے ان ’ منافقین ‘ نے اندریش کمار کے دل کی مرادیں پوری کی بھی ہیں ،ایودھیا میں رام مندرکی تعمیر میں یہ ساتھ دے رہے ہیں،کشمیر سے آرٹیکل370 کا ہٹنا ان کے نزدیک قوم پرستی ہے اوریہی نہیں قرآن اوراحادیث کی اسی تعلیم کو درست مانتے اور سمجھتےجو اندریش کمار دیتے ہیں ۔ شایداندریش کمار سے ’سیکھنے‘کے بعدان کے ’بھکت مسلمان‘جن میں قاسمی بھی ہیں‘نقوی بھی اورقادری بھی، عام مسلمانوں کو اندریش والی تعلیم دیں گے۔
’مسلم راشٹریہ منچ‘ میں مسلم مردوں اور خواتین کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ یہ’مسلمانوں اورآر ایس ایس کے درمیان ایسی قربت کے لیے بناتھا جو غلط فہمیوں کا ازالہ کرے‘مگر اس کے کام دیکھئے ،اس کے مسلم ممبران ایودھیا اینٹیں لے کر گئے تاکہ شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندربناسکیں،انہوں نے کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کروانے کے لیے آرٹیکل 370کے خاتمے کے لیے مورچہ نکالا،انہوں نے وارانسی کے مدرسے پر قومی پرچم لہرایا حالانکہ آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر واقع ناگپورپردہائیوں قومی پرچم نہیں لہرایا گیا!انہوں نے ناگپورکے بوہرہ مدرسے پر قومی پرچم لہرایا‘انہوں نے مسلمانوں کے لیے نہیں ،دودھ دینے والے جانوروں کو پالنے پوسنے کےواسطے مسلمانوں کی امداد کا مطالبہ کیا‘سینکڑوں مسلمانوں کو’گئو رکشک‘بننے کی تربیت دی،طلاقِ ثلاثہ کے خلاف انہوں نے ملک گیرتحریک چلائی۔اندریش کمار نے ایسی ہی ایک طلاقِ ثلاثہ مخالف مہم کے دوران مسلمانوں کو یہ مشورہ دیاتھا کہ وہ اس موضوع پر جاگیں۔’مسلم راشٹریہ منچ‘کے پلیٹ فارم سےکہاگیاتھا کہ’’تمام ہندوستانیوں کے لیے ایک قومی قانون کی تحریک شروع کریں گے۔‘‘باالفاظ دیگر یہ کہ ’میر جعفروں ومیر صادقوں ‘کو لے کر’یکساں سول کوڈ ‘کی تحریک شروع کی جائے گی!سارے ملک میں ’بیف‘پرپابندی کی حمایت کی۔مسلم نام والی اس سنگھی تنظیم کے پلیٹ فارم سے ’یوگا‘اور’نماز‘کویکساں قراردیاگیا‘سوریۂ نمسکار کی تعلیم دی گئی۔غرضیکہ ہر اس عمل کو’مسلم راشٹریہ منچ‘کے پلیٹ فارم سے یاتواجاگرکیاگیا یا اس سلسلے میں تحریک چلائی گئی جو یاتومسلمانوں کی شریعت کے خلاف ہےیا جو خالصتاً’ہندومذہب‘کاجزوہے۔
اور اب اندریش کمار نے سی اے اے کی حمایت میں تحریک شروع کررکھی ہے ۔ جو سی اے اے مخالف ہیں وہ انہیں ’بہکے ہوئے‘ اور ’ اسلام کو بدنام کرنے والے‘ اور ’شیطان پرست‘ قرار دیتے ہیں۔’منچ‘ کی یہ کوشش ہے کہ ملک بھر میںمسلمانوں کے بیچ اپنے ’میر جعفروں‘ اور ’ میر صادقوں‘ یا آسان الفاظ میں ’ منافقین‘ کو بھیج کر مسلمانوں کو سی اے اے کی حمایت کے لئے آمادہ کرے ۔منافق ٹولی سرگرم ہوگئی ہے۔ اس کام میں اس کا ساتھ کئی مذہبی ، سیاسی اور سماجی مقتدر شخصیات بھی دے رہی ہیں ۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اندریش کمارکا اپنے سرپر ہاتھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے زیادہ اچھا لگ رہا ہے ۔ انہیں لگ رہا ہے کہ اس طرح وہ مودی ، شاہ ، یوگی کے ’منظور نظر‘ ہوجائیں گے ۔ یہ قوم ، ملک ، دین ، ایمان اور مذہب کوبیچ کر دنیا تو کماسکتے ہیں پر انہیں یادرکھنا چاہیئے کہ اللہ رب العزت کی نگاہ سے جوگرجاتا ہے وہ کبھی عزت نہیں پاتا اس کے لئے بس ذلت ہی ذلت ہے ۔
دیکھ لیجیے ایک بار آپ سڑکوں پر کیا نکلے۔ ٹی وی والوں کو پریشانی ہوگٸی کہ کیا دکھاٸیں۔ جھارکھنڈ میں بی جے پی کی ہار، بنگال میں بی جے پی کی بوکھلاہٹ، دہلی میں بی جے پی کے خلاف ستیہ گرہ۔ کل رام لیلا میں نریندر مودی بھی پراعتماد جھوٹ نہیں بول سکے۔ الفاظ لڑکھڑا رہے تھے۔ زبان میں لکنت تھی اور پیشانی پر فکر مندی کی لکیریں۔ وہ اپنے وزیرداخلہ کے بیان کو جھوٹ بتا رہے تھے یا این آر سی پر خود ایک بڑا جھوٹ بول رہے تھے۔ یہ خود نہیں سمجھ پا رہے تھے۔
بھارت بھر میں پھیلے اتنے بڑے آندولن میں مسلمانوں کہ شراکت سے جہاں ملی قائدین حیران رہ گٸے،وہیں سب سے زیادہ حیرانی مودی سرکار کو ہوئی ہے۔
انہیں حیرانی اس بات کی ہے کہ تقریبا 400مسلمانوں کی ماب لنچنگ پر مسلمان سڑکوں پر نہیں اترے۔ شریعت میں دراندازی ہوئی مسلمان سڑکوں پر نہیں اترے۔ بابری مسجد کا غیرمنصفانہ فیصلہ آیا مسلمان سڑکوں پر نہیں اترے۔ این آرسی پر امت شاہ کاتکبرانہ بیان مسلسل آتا گیا مگر مسلمان خاموش ہی رہے۔لیکن سی اے اے کے بننے کے بعد یکایک مسلمان سڑکوں پر اترآئیں گے اس سے شاید سرکار کا خفیہ محکمہ بھی آگاہ نہیں ہو سکا۔ ایسا اس لٸے ہوا کہ مودی سرکار اور اس کے تمام شعبہ جات نے اپنے اور دیش والوں کے دماغ میں یہ بٹھانے کی کوشش کی کہ مسلمان غدار ہیں اور انہیں جتنا بھی زدو کوب کروگے ہندو ہمارے ساتھ آئیں گے۔
مگر بی جے پی اور سنگھ کی تمام تر کارگزاریوں کو دیش کا مسلمان ہی نہیں دیش کا ہندو بھی بے حد باریکیوں کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ بات جب آئین پر حملہ تک پہنچ گٸی،تب مسلمانوں کو برداشت نہیں ہوا اور وہ سڑکوں پر اترے اور انہیں ان ہندوؤں کا ساتھ مل گیا جو ہر ظلم کے خلاف سڑکوں پر اترتے تھے لیکن انہیں مسلمانوں کا ساتھ نہیں مل پاتا تھا۔
دراصل میڈیا خاص کر ٹی وی چینلز مودی سرکار کی لائف لائن ہے۔ دیش میں نفرت کو بڑھاوا دینے میں ٹی وی چینلزکا جو رول رہا اس نے میڈیا کے تمام اصول و ضوابط کو تہہ و بالا کر دیا۔ عوام کو مجرم بنانے میں اس کا زبردست رول رہا۔ سی اے اے پر عوام کا غصہ اسے نہیں دِکھا۔ وہ مظاہرہ کے پہلے دن سے ماسٹر مائنڈ تلاش کرنے میں مصروف رہا۔ جب نارتھ ایسٹ کے لوگ سڑکوں پر تھے تو تمام ٹی وی میڈیا اول جلول خبریں دکھاتا رہا اور مظاہرہ کو بلیک آؤٹ کیا۔ دہلی میں جب طلبا سراپا احتجاج ہوئے تو میڈیا نے کیجریوال کو ماسٹر مائنڈ بتانا شروع کیا۔ دوسرے دن پوری اپوزیشن ماسٹر مائنڈ ہوگٸی۔ پھر سونیا کا ویڈیو مسیج ماسٹر مائنڈ ہوگیا۔ اس کے بعد ایک چینل کو اس پورے مظاہرہ میں آئی ایس آئی کا ہاتھ مل گیا۔مگر مظاہرین کے وسوسوں اندیشوں اور مطالبوں کو سمجھنا اس نے ضروری نہیں سمجھا۔ پولیس پر پتھراؤکی خوب تشہیر ہوئی لیکن پولیس کی فائرنگ اس کے کیمرے میں قید نہیں ہو سکی۔ بھارت کو آج اس حال میں لانے کا اصل ذمہ دار یہی میڈیا اور اس کے جاہل اینکر ہیں۔ ان میڈیا ہاؤسز کے سامنے مظاہرے بہت ضروری ہیں۔یہ بالکل بے لگام ہو چکے ہیں اور آئین و دستور کو برباد کر رہے ہیں۔الٹی گنتی شروع ہو گٸی ہے اور اس کے اصل حقدار مظاہرین ہیں۔ مہاراشٹر کے بعد اب ایک اور امیر ریاست بی جے پی کے ہاتھ سے پھسلی۔ دہلی اور بہار بھی جانے والا ہے۔ لوک سبھا ہندو مسلمان اور ای وی ایم سے جیت جانے والی سرکار کو ملک کی مہنگائی ، بے روزگاری ، جی ڈی پی، تعلیمی گراوٹ ودھان سبھا میں ہرا دیتی ہے۔بچوں کو کب تک لوری دیتے رہوگے دودھ تو دینا ہوگا۔ ریاستیں بھاجپا مکت ہو رہی ہیں۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ بی جے پی اور اس کے پچھلگوٶں کو اب تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ مسلمانوں کو برباد کرتے کرتے وہ بھارت کو بربادی کی طرف مسلسل گھسیٹے جارہے ہیں، انہیں کوئی یہ کیوں نہیں سمجھا پا رہا ہے کہ جیسے نوٹ بندی سے ہندوؤں کا ہی نقصان ہوا اسی طرح این آر سی سے بھی ہندوؤں کا ہی نقصان ہوگا۔ جوہندو یہ سمجھ رہا ہے وہ سڑکوں پر اتر رہا ہے۔
مشرّف عالم ذوقی
2002 میں گجرات حادثہ ہوا،ایک بڑی پلاننگ پر کام شروع ہوا ، تب کے ایک وزیر اعلی اوراب کے وزیر اعظم نے مسلمانوں کو کتے کا پلا کہا ، ہم اس وقت بھی نہیں سمجھے کہ حکومت نے مسلمانوں کو ان کی اوقات سمجھانے کے لئے مہرے چلنے شروع کر دیے ہیں، تین طلاق ، ہجومی تشدد ، اشتعال انگیز بیانات ، میڈیا کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنا، ہم یہ سب دیکھ رہے تھے اور بابری مسجد میں الجھے ہوئے تھے ، کرایہ داروں کی نہ زمین ہوتی ہے نہ مسجد ۔ اس طاقت کا اندازہ لگائیے کہ کسی مذہب کے خلاف کھل کر بولنا کیسا ہوتا ہے ؟ اس میں ہمت تھی ،پارلیمنٹ میں سب کے سامنے جھوٹ بولنے کی، جبکہ ابھی کوئی وقت نہیں تھا اس بل کو لانے کا۔ جب معیشت دم توڑ رہی ہو ، بھوک ہر دروازے پر دستک دے رہی ہو ، نوجوان روزگار کو لے کر بے حال ہوں ، کسان خود کشی کر رہے ہوں ، ایسے ماحول میں ملک کے معیار کو بلند کرنے کی جگہ نفرت کے ایسے بل کو سامنے لایا گیا ، جس نے ساری حدیں توڑ دیں ، یہ ہونا تھا یہ ہو گیا ، یہ پہلے بھی ہو رہا تھا،چھ برسوں سے وہ شخص ہر جگہ ، ہر اجلاس میں بھگوڑوں کو نکال باہر کرنے کی باتیں کرتا تھا اور ہماری ملی تنظیمیں ایسے اشتعال انگیز بیانات کے خلاف متحد نہیں ہو سکیں، جناح جیتے ، ہٹلر جیتا ، یا بی جے پی جیتی سوال اس کا نہیں ، اب ماضی اور تاریخ کے حوالے بدل جائیں گے،سوچئے آگے کیا ہوگا ؟ مستقبل کا کیا ہوگا ؟ اگر اب بھی نہیں سوچ رہے ،تو وہ گیس چیمبر زیادہ دور نہیں ،جس کی پیشین گوئی میں نے مرگ انبوہ میں کی ہے، انکے لئے یہ سوال ہے ہی نہیں کہ تیس کروڑ مسلمان کہاں جائیں گے ؟ وہ جہنم میں جائیں ، اس بات سے انھیں کویئی سروکار نہیں ؛ لیکن اس بات سے سروکار اب ضرور ہے کہ فلم ، میڈیا ، سپورٹس ، سرکاری نوکری ، ملک کے اہم منصب اور عہدوں پر مسلمان نہ ہوں ، مسلمانوں کی سماجی ، سیاسی حیثیت کو زیرو بنا دیا جائے ، ابھی وقت تاریخ کے مجرے دیکھنے کا نہیں ہے ،ابھی وقت مولانا ابو الکلام آزاد جیسوں کو یاد کرنے کا نہیں ہے، یہ حالات مختلف ہیں ، ہندوستان کو میانمار یا روہنگیا میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ،آگے کچھ بھی ہو سکتا ہے ؛ اس لئے کہ لوک سبھا سے راجیہ سبھا تک انھیں روکنے والا کوئی نہیں ،چار دسمبر کو کچھ ہندی اخباروں کی سرخی تھی ’’مسلماں نا منظور‘‘ دینک بھاسکر نے سرخی لگائی کتے کا پلا – غیر مسلم منظور‘‘ ۔ آزاد ہندوستان میں ایساپہلی بار ہواکہ مسلمان نا منظور کی سرخیاں اخباروں کی زینت بنیں ، ہم ابھی بھی اس وہم میں مبتلا ہیں کہ این آر سی اور شہری ترمیم بل دو علیحدہ بل ہیں ، جبکہ اس ملک کی حقیقت یہ ہے کہ جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کی شروعات بھی مسلمانوں کو ذہن میں رکھ کر کی گئی ، آپ مغالطے میں ہیں اگر اب بھی آپ کو احساس ہے کہ دوسرے درجے کے شہری ہو کر آپ کامیابی کی سیڑھیاں طے کر سکتے ہیں ، کوئی انقلاب لا سکتے ہیں، کویئی کرشمہ دکھا سکتے ہیں، شہریت ترمیم بل کو کسی راجیہ سبھا میں بھیجے جانے کی ضرورت نہیں، وہ اپنی طاقت ، اپنے منصوبوں ، اپنے ارادوں سے واقف ہیں اور اب کھلے طور پر انہوں نے اعلان کر دیا کہ ہندو راشٹر میں مسلمان دوئم درجے کے شہری ہیں ۔ اس کا احساس 2014 میں ہو چکا تھا؛لیکن یہ یقین نہیں تھا کہ کویئی بھی حکومت اس طرح کھلے عام مسلمانوں کو ملک سے باہر کا راستہ دکھا سکتی ہے، کیا غیر مسلم جنہیں تلاش کر کر کے اس ملک میں جگہ دی جائے گی ، وہ صرف ہندو ہوں گے ؟ کیا سکھ طبقہ اپنے مذہب کو قربان کر دیگا ؟ کیا بودھ اپنا مذھب بھول جائیں گے ؟ کیا جین مذھب کے پیروکار اپنے مذہب کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں ؟ بھاجپائی ایکٹر اور لیڈر روی کشن نے بیان دیا کہ100 کروڑ ہندو آبادی والے ملک کو ہندو راشٹر ہی کہا جائے گا، میڈیا تو پہلے دن سے مسلمانوں کے خلاف ہے ، مودی خاموش ہیں، وزیر داخلہ نے اب شطرنج کی نئی بساط پر وزیر کو اتار دیا ہے ،مہرے پٹ رہے ہیں اور مسلمان سیاسی تماشا دیکھنے پر مجبور — امبیڈکر کے آئین سے آہستہ آہستہ مساوات ، ملت ، برابری کے حقوق کا صفحہ غائب ہو جائے گا ، پھر ہماری مسجدیں ، ہمارے مدرسے سب ان کی تحویل میں ہوں گے، فرض کیجئے ہم سڑکوں پر اترتے ہیں ، سو کروڑ آبادی کے سامنے ہماری کوئی بساط نہیں ،وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان سڑکوں پر آئیں اور اکثریت کو اپنی مضبوطی کا شدید احساس ہو ، اس وقت معاشی اعتبار سے ملک کی موت ہو چکی ہے؛ لیکن اکثریت میں جشن کا ماحول ہوگا کہ آخر مسلمانوں کو حقیر درجے تک پہنچا دیا گیا ، پھر عدالتیں رہ جاتی ہیں ۔ اب ملی تنظیموں کو اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے چاہئے کہ عدالت کا رخ کریں ، ہماری طاقت بچے گی ،تو ہماری شناخت بھی محفوظ ہوگی ، ہماری مسجدیں بھی ۔میں نے مرگ انبوہ میں لکھا کہ مسلمان گھر اور بیشمار مسلمان اچانک راتوں رات غائب ہو جاتے ہیں ، میرے ایک قاری نے سوال کیا ، ایسا کیسے ممکن ہے ؟ میرا جواب تھا ، شہریت ترمیم بل اور این آر سی پر عمل ہونے دیجئے ،جرمن آج بھی مرگ انبوہ کو فراموش نہیں کر سکے،لاکھوں کی تعداد میں سیاحتاریخ کے المناک مناظر کی یاد تازہ کرنے آتے ہیں ،جبکہ جرمنوں کو مرگ انبوہ کا لفظ سننا بھی گوارا نہیں ، کل یہی ہوگا ، تاریخ یاد رکھے گی کہ پچیس کروڑ آبادی والی اقلیت کے ساتھ مرگ انبوہ کی ریہرسل کی گئی، میں نے ناول مرگ انبوہ لکھتے ہوئے ان تمام حقیقتوں کو سامنے رکھا تھا،مجھے یقین تھا کہ اس کے بعد ہندو راشٹر اور این آر سی کا ہر سفر آسان ہو جائے گا، ابھی صرف ریہرسل ہے ،ملک کا نوے فیصد میڈیا ہندو راشٹر کی بحالی کے لئے مسلمانوںکے خلاف ہے،اس وقت ملک کے صفحہ پر مسلمانوں کے خون سے جو کہانی لکھی جا رہی ہے،اسے روکنا ہوگا۔اشتعال انگیز بیانات اور روز روز ہونے والی ہلاکت کے قصّوں کو ختم کرنا ہوگا؛لیکن کیا یہ آسان ہے ؟آپ ڈرینگے تو حکومت ڈرائیگی،آپ جس دن ڈرنا چھوڑ دیں گے ،اس دن سے حکومت ڈرنے لگے گی، —نفسیات کا یہ معمولی نکتہ ہے کہ ہر ہٹلر اندر سے کمزور ہوتا ہے،وہ مجمع میں دہاڑتا ہے ۔سچ بولنے والے ایک معمولی سے آدمی سے بھی وہ ڈر جاتا ہے۔میڈیا ،ٹی وی چینلس اور حکومت نے مسلمانوں کو دوسرے بلکہ تیسرے درجے کی مخلوق گرداننا شروع کر دیا ہے،ایک ایسی مخلوق جسے بس اس سر زمین سے باہر نکالنا باقی رہ گیا ہے ،آنکھیں بدل گئی ہیں ،کچھ دن اسی طرح گزرے، تو مسلمان اس ملک میں نمائش کی چیز بن کر رہ جائیں گے،دیکھو وہ جا رہا ہے مسلمان ،یہ ہونے جا رہا ہے،سوالات کے رخ خطرناک طور پر مسلمانوں کے لئے مایوسی کی فضا تیار کر رہے ہیں ،ہندوستان کی مقدّس سر زمین نفرت کی متحمل نہیں ہو سکتی اور مشن اپنے نظریہ میں تبدیلی لاے ،یہ ممکن نہیں،سوال بہت سے ہیں ،ہندوستان کے چوراہوں اوردیواروں پر صرف یہ عبارت لکھی جانی باقی ہے کہ ہندو راشٹر میں آپ کا سواگت ہے۔مسلمانوں اور دلتوں کا قتل ، ہر روز نئے مظالم ، صرف میڈیا کی آنکھ بند ہے ،اسلئے کہ مکمل میڈیا خریدا جا چکا ہے،حکومت ہر شعبہ کو خرید چکی ہے ،انصاف کی عمارت پر بھی زعفرانی پرچم چند دہشت گرد لہرا چکے ہیں،2002 تک ہندستانی سماج اس مقام تک نہیں پہنچا تھا، جہاں وہ اب پہنچتا نظر آرہا ہے اور اب شہریت ترمیم بل نے ہندو راشٹر کے سفر کو آسان بنا دیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے امبیڈکر کا آئین غائب ہو جائے گا ، یہی تو مرگِ انبوہ ہے،میں نے مرگِ انبوہ میں ہندوستان کے مستقبل کو دیکھا ہے ۔