انوار الحسن وسطوی، حاجی پور
رابطہ:9430649112
13جون 2020 (سوموار) روزنامہ قومی تنظیم کے”ادب نامہ“ میں محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کے ایک حکم نامہ کے حوالے سے جواں سال ادیب، شاعر اور صحافی جناب کامران غنی صبا کی تحریربعنوان ”اردو کے لیے کم سے کم اتنا تو کیجیے“ نظر نواز ہوئی۔ جس میں انہوں نے مذکورہ حکم نامہ کا حوالہ پیش کرتے ہوئے اس کی صراحت کی ہے۔ کابینہ سکریٹریٹ کا حکم نامہ یہ ہے کہ تمام سرکاری دفاتر کے اعلیٰ افسران کے ناموں کی تختی (Name Plate)، سرکاری منصوبوں کے بینر، سرکاری عمارات کا سنگِ افتتاح، ہورڈنگ، دعوت نامے وغیرہ ہندی کے ساتھ ساتھ ریاست کی دوسری سرکاری زبان اردو میں بھی آویزاں / شائع کیے جائیں۔ کامران غنی صباؔ نے اس حکم نامے کو مشتہر کرنے کے لیے باضابطہ ایک تحریر رقم کی اور اسے اخبار میں شائع بھی کرایا۔ بلاشبہ موصوف کی یہ کاوش ان کی اردو دوستی کی دلیل ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ گرچہ یہ ہدایت نامہ حکومتی احکام ہے لہٰذا متعلقہ افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ بہار کے ہر اضلاع میں اس سرکاری حکم نامے پر عمل درآمد ہوگا ہی۔ اس حکم نامے کے عمل درآمد کے لیے انھوں نے عوامی بیداری کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ موصوف کے اس خیال سے بھی عدم اتفاق کی کوئی گنجائش نہیں کہ ”ہم اردو والوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم آواز اُٹھانا اور دباؤ بنانا نہیں جانتے۔ ہم آواز وہاں اٹھاتے ہیں جہاں ہمارا ذاتی مفاد ہوتا ہے۔“ انھوں نے اس ضمن میں بہار اردو اکادمی کے کاموں کی مثال دیتے ہوئے صحیح تحریر فرمایا ہے کہ ”جب اکادمی فعال تھی تو لوگ اس کے کاموں پر تنقید کرتے تھے۔ آج جب اکادمی غیر متحرک ہے تو اس کے خلاف کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ اکادمی کی مخالفت کرنے والے لوگ چین کی نیند سو رہے ہیں۔“میں عزیز موصوف کو ان کے لڑکپن اور طالب علی کے زمانہ کی ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ ٹھیک یہی سلوک ماضی میں انجمن ترقی اردو کے ساتھ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پروفیسر عبدالمغنی کی قیادت میں انجمن جمہوری طریقے سے چل رہی تھی۔ صوبائی سطح پر مجلس عاملہ کی تشکیل ہوتی تھی۔ سال میں کم سے کم ایک دفعہ انجمن کی ریاستی مجلس عاملہ کی نشستیں منعقد ہوتی تھیں جن میں پورے بہار سے ممبران شریک ہوتے تھے۔ تجاویزمنظور کی جاتی تھیں۔ جن کی کاپی حکومت اور متعلقہ محکموں کو بھیجی جاتی تھیں۔ ضرورت پڑنے پر صدر انجمن وزیر اعظم ہند، گورنر، وزیر اعلیٰ اور وزراء کو مراسلے ارسال کرتے تھے۔ مشورہ پر حکومت حسبِ توفیق عمل بھی کرتی تھی۔ انجمن کے زیر اہتمام ایک رسالہ ”مریخ“ شائع ہوتا تھا جو انجمن کا ترجمان بھی تھا۔ اس رسالہ کو نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری اردو دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اتنے کاموں کے باوجود لوگ صدر انجمن (پروفیسر عبدالمغنی)کو ہدف تنقید بنایا کرتے تھے اور انجمن کو ’ٹو مین کمیٹی‘ کے لقب سے نوازتے تھے۔ ایسا کہنے والوں میں ابھی بھی کچھ لوگ زندہ ہیں بلکہ پورے ہوش و حواس میں ہیں۔ میں ان کا نام لے کر ان سے جھگڑا ول لینا نہیں چاہتا لیکن ان سے میرا یہ سوال ضرور ہے کہ انجمن میں اب کوئی خامی یا خرابی انھیں کیوں نظر نہیں آتی ہے؟ کیا اب انجمن ان لوگوں کی توقعا ت کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہی ہے؟ اگر نہیں تو مجھے معاف فرمائیں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ شال اور گلدستے کی چاہت نے لوگوں کی زبان کو گنگ کر رکھا ہے۔ لوگ اپنے مفاد کی خاطر ایمان کی بات بولنا نہیں چاہتے ہیں۔
کامران غنی صباؔ کی مذکورہ تحریر کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ”جس طرح دوسرے شعبہئ حیات میں نوجوان بڑھ چڑھ کر تحریک کا پرچم بلند کر رہے ہیں اسی طرح اردو تحریک کو بھی نوجوان اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔“ موصوف کی اس تجویز کو پڑھ کر مرزا غالبؔ کا یہ شعر بے ساختہ میرے ذہن میں آ گیا:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
واقعی کامران غنی صباؔ نے میرے دل کی بات کہہ دی ہے۔ میری بھی یہی تجویز ہے کہ بغیر وقت ضائع کیے اب نوجوان آگے بڑھ کر اردو تحریک کی کمان سنبھال لیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں بہار میں اردو تحریک کی کمان سید محمد ایوب ایڈوکیٹ، الحاج غلام سرور، پروفیسر عبدالمغنی، مولانا بیتاب صدیقی، شاہ مشتاق احمد، سید تقی رحیم، پروفیسر قمر اعظم ہاشمی جیسے مجاہدین اردو نے عالمِ ضعیفی میں نہیں بلکہ ایامِ جوانی میں ہی سنبھالی تھی اور لمبے عرصے تک اردو کی لڑائی لڑی تھی جس کے نتیجے میں بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوا تھا۔ میرا بھی یہ ماننا ہے کہ ریاست میں اردو کے عملی نفاذ کے سلسلہ میں اگر نئی نسل کے لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور تاریخ کو دہرائیں گے تو ان شاء اللہ ضرور کامیابی حاصل ہوگی اور اردو کے مسائل ضرور حل ہوں گے۔ میں کامران غنی صباؔ کے اس خیال کی سو فیصد تائید کرتا ہوں کہ ”آج جس طرح ملکی سطح پر نوجوانوں نے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی قیادت اور رہبری کا انتظار کیے بغیر تحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا ہے اسی طرح اردو تحریک کو بھی جواں اور گرم خون کی ضرورت ہے اور جس دن نوجوانوں نے اردو تحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں لے لیا اُس دن سے انقلاب کی ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا۔“ عزیزی کامران غنی صباؔ کا یہ جذبہ اور حوصلہ قابلِ قدر اور لائقِ تائید ہے۔