پٹنہ : (خان افسر قاسمی) بہار کے سیاسی گلیاروں سے بڑی خبر سامنے آرہی ہے جہاں اسدالدین اویسی کی پارٹی میں شگاف پڑ گیا ہے۔ اویسی کی پارٹی کے چار ممبر اسمبلی کی لالو یادو کی پارٹی میں شمولیت کی قیاس آرائیاں جاری ہیں، بتایاجارہا ہے کہ بہار پارٹی صدر اخترالایمان کو چھوڑ کر کوچا دھامن سیٹ سے محمد اظہار ، جوکی ہاٹ سے شہنواز عالم، بیاسی سے رکن الدین احمد، بہادر گنج سے انظار نعیمی جلد ہی آرجے ڈی جوائن کرسکتے ہیں۔ اویسی کی پارٹی کے چار ممبران اسمبلی کی شامل ہونے کی تصدیق بہار اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے خود کی ہے۔ آر جے ڈی بہار نے اپنے ٹوئٹر سے بھی اعلان کردیا ہے کہ ’’سماجی انصاف اور سیکولرازم راشٹریہ جنتا دل کی سیاست کے ستون ہیں اور یہی وجہ ہےتیجسوی یادو جی سےمتاثر ہوکر آر جے ڈی میں شامل ہورہے ہیں۔ اے آئی ایم آئی ایم کے پانچ میں سے چار ایم ایل اے آر جے ڈی میں شامل!بتایاجارہا ہے کہ آج دوپہر اچانک تیجسوی یادو نے بہار ودھان سبھا کے صدر وجے سنہا کے کمرے میں ایم آئی ایم کے چار ممبران اسمبلی کے ساتھ پہنچ کر ملاقات کی اس دوران اخترالایمان کے علاوہ مذکورہ سبھی موجود تھے۔ ان چاروں کی آر جے ڈی میں شمولیت کے ساتھ ہی بہار میں آر جے ڈی سب سے بڑی پارٹی ہوجائے گی، آر جے ڈی کے ۷۹ ممبران ہوں گے تو وہیں بی جے پی کے ۷۷ ہوں گے جو کہ دوسرے نمبر کی پارٹی ہوجائے گی۔
بہار
امارتِ شرعیہ کے امیر کا انتخاب یا علماے کرام کی سیاسی بصیرت کا امتحان؟-صفدر امام قادری
شعبۂ اردو،کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
اخبارات و رسائل میں یہ خبر شاہ سرخیوں میں آنی چاہیے تھی کہ قوم و ملّت کے جاں سوز اور دوٗر اندیش علماے کرام نے ۱۹۲۱ء میں امارتِ شرعیہ کے نام سے جو ایک چھوٹا سا پودا لگایا، وہ سو برس کی منزل پار کرکے بے شک ایک تناور درخت بن گیا۔گذشتہ ڈیڑھ برسوں کے وبائی ماحول نے کسی جشن کی گنجایش کسی ادارے کے لیے نہیں چھوڑی ورنہ امارتِ شرعیہ بہار، جھارکھنڈ ، اڑیسہ اور آسام کا جتنا بڑا دائرۂ اثر ہے، اس کے اعتبارسے اس کا صد سالہ جشن پورے سال چلنا چاہیے تھا۔مگر رسمی طَور پر ہی جشنِ صد سالہ کو منا لینا ممکن ہُوا۔ مگر اِسی سو سال کی تکمیل سے ذرا پہلے اپریل ۲۰۲۱ء میں ساتویں امیرِ شریعت مولانا ولی رحمانی کا انتقال ہوا اور اپریل سے ان سطروں کے لکھنے تک جو سیاست، عالمانہ چپقلش اور علماے کرام کی ، علماے کرام کے ذریعے تذلیل اور خفّت و ردِّ خفّت کے جو مناظر دیکھنے کو مِلے، وہ حیرت انگیز ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ بزرگوں کی امانت کو سرِ عام اور رُسوا سرِبازار کرنے کے لیے ہر کوئی در پَے ہے۔اب امیرِ شریعت کے انتخاب کی الگ الگ دو تاریخیں بھی سامنے آ چکی ہیں، اس لیے جنگ و جدال، مقدّمہ اور پولس کیس جیسے خدشات سے انکار کرنافصیلِ وقت پر واضح عبارتوں کو جھٹلانے جیسا معلوم ہوتا ہے۔
کہنے کو امارتِ شرعیہ اپنی طویل روایت اورضابطوں کی پابند ہے مگر الگ الگ وقتوں میں حسبِ ضرورت یا حسبِ سہولت اس میں ترمیم و اضافہ بھی کیا گیا۔آخر آخر میں وہ ادارہ ٹرسٹ در ٹرسٹ کے دائرۂ کار میں بھی چلا آیااور اب جتنے مسائل پیدا ہوں گے ، موجودہ عہد کے قوانین سے ان کی مطابقت لازم ہوگی اور ذرا سی پیچیدگی آنے پراصحابِ اقتدار اور انتظامیہ کی مداخلت کے امکانات اپنے آپ پیدا ہوجائیں گے۔ان خطرات کو ہر شخص سمجھ تو رہا ہے مگر زبان پر اور کھُلے منچ سے کوئی کہنے کے لیے تیّار نہیں ہے۔زبان سے رٹی رٹائی یہی بات ہر شخص یا تمام فریق ادا کر رہے ہیں کہ امارتِ شرعیہ کی مہتم بالشّان روایت اور اس کی ملّی خدمات کے پیشِ نظر اُس کا تحفّظ لازم ہے۔مگر اس تحفّظ کے اعلان میں بکھراو کے کتنے اوزار سب نے چھپا رکھے ہیں، اس کا اعلان بھلے نہ کیا جائے مگر دنیا آنکھیں کھول کر یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ افسوس اس کا ہے کہ متعلّقہ اکثر و بیش تر افراد اس حمّام میں ایک ہی جیسی کیفیت میں مبتلا نظر آ رہے ہیں۔
امارتِ شرعیہ کے ضابطے میں یہ بات موجود ہے کہ امیرِ شریعت جِسے چاہیں اپنا نائب مقرّر کر دیں۔اسی ضابطے کے تحت مولانا ولی رحمانی نے اپنی بیماری کے دوران مولانا شمشاد رحمانی کو نائب امیرِ شریعت نام زد کیا۔ فوری طَور پر سماج میں کوئی ردِّ عمل نہیں ہواجس کا مطلب یہ ہے کہ امیرِ شریعت نے جسے اپنا نائب بنایا، اُسے سب نے تسلیم کر لیا۔ حالاں کہ جمہوری عہد اور مذہبی صلاح و مشورہ کا اصول یہ کہتا ہے کہ امیرِ شریعت جب اپنا نائب مقرّر کریں تو کیوں نہیں مجلسِ شوریٰ اور اربابِ حلّ و عقد کی مجلس کا عِندیہ بھی جان لیں؟ کیوں کہ امیرِ شریعت کے نہیں رہنے پر نائب امیرِ شریعت تمام و کمال امیرِ شریعت کا درجہ رکھتا ہے۔اس میں پریشانی یوں بھی نہ ہونی چاہیے کہ امیرِ شریعت اپنا نائب یقینی طَور پر ایسے لائق و فائق کو منتخب کریں گے ، جن کی بزرگی اور قائدانہ صلاحیت پر انھیں یقین ہوگا۔مگر امارتِ شرعیہ کے ضابطے میں ایسی کوئی جمہوری شِق موجود نہیں۔ بزرگوں نے اپنی سادگی اور شرافت یا نیکی میں مستقبل کے خدشات پر نگاہ نہ رکھی۔یہ محض اتّفاق ہے کہ مولانا سجّاد سے لے کر مولانا شمشاد رحمانی تک سُلجھی ہوئی فکر کے افراد نائب امیرِ شریعت بنتے رہے اور قوم و ملّت کی آبروٗ کی سلامتی میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوا۔
امارتِ شرعیہ کے ضابطے میں یہ ہے کہ امیرِ شریعت کے وصال کے تین مہینے کے اندر نائب امیرِ شریعت نئے امیرِ شریعت کے انتخاب کی کارروائی مکمّل کر لیں۔اس مدّت میں اگر وہ یہ کام انجام تک نہیں پہنچا سکیں تب مجلسِ شوریٰ اپنی نشست بُلائے گی اور نئے امیرِ شریعت کے انتخاب کے لیے ناظمِ امارتِ شرعیہ کو کارروائی مکمّل کرنے کی ہدایت دیے گی۔مسائل اِنھی دونوں پہلووں سے پیدا ہوئے۔مولانا ولی رحمانی بھی کورونا کی وبا میں رخصت ہوئے اور ان کی وفات کے تین مہینے گُزرنے تک واقعتا ایسی کوئی گنجایش قانونی طَور پر سماج میں موجود نہیں تھی کہ آٹھ سو اکیاون(۸۵۱) افراد کو کسی ایک جگہ پر جمع کر کے اربابِ حلّ و عقد نئے امیرِ شریعت کا انتخاب کرلیں۔اس لیے نائب امیرِ شریعت نے مجلسِ شوریٰ کی آن لائن نشست بُلائی اور شوریٰ نے وبائی صورتِ حال کے پیشِ نظر نائب امیرِ شریعت کو تین مہینے کی رُکاوٹ سے علاحدہ رکھا اور انھیں یہ حق دیا کہ حالات درست ہونے کی صورت میں انتخاب کی کارروائی وہ مکمّل کریں۔اگست میں انتخاب کی تاریخ متعیّن ہوئی اور مختلف حلقوں میں بانٹ کر الگ الگ انتخاب کے مراکز بنائے گئے۔اس میں کوئی قباحت نہیں تھی اور اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ کسی ایک مرکز پر پچاس -ساٹھ سے زیادہ افراد نہ ہوں۔
اس انتخاب کی ایک شرط تھی کہ اربابِ حلّ و عقد کے ایک سو اکیاون(۱۵۱) ممبران کی توثیق کے بعد ہی کوئی آدمی امّید وار بن سکتا ہے۔ یہ بھی تھا کہ جو لوگ اپنی نام زدگیاں پیش کریں گے، اس کے مطابق بیلٹ پیپر تیار کیا جائے گا۔بعض جیّد علماے کرام جن کی باتیں ملک و قوم بہ غور سُنتی ہے، انھوں نے اس رائے دہندگی کے طریقے کو غیر اسلامی کہا۔ایک بڑے عالمِ دین نے یہ بھی کہا کہ بیلٹ پیپر کے ذریعہ امیرِ شریعت کا انتخاب سراسر اسلامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔حالاں کہ اسی دوران اُن بڑے علما میں سے ایک نے پریس کے سامنے یہ بیان دیا کہ مجھے بہ اتّفاقِ رائے امیرِ شریعت منتخب کر لیا جائے تو مَیں اس کے لیے راضی ہوں۔ حالاں کہ یہ بات پہلے بحث میں آئی تھی کہ امیرِ شریعت بننے کا دعوی کرنا یا خواہش کا اظہار کرنا، یہ بزرگوں کی شان نہیں ہے ۔ اسی لیے امّید واری طلب کرنا یا نام زدگی کے کاغذات داخل کرنا غیر اسلامی ہے۔ مگر خود سے یہ دعوی کرنا کہ بہ اتّفاقِ رائے مجھے چُن لیا جائے تو مَیں خدمت کے لیے تیّار رہوں گا؛ کیا یہ خواہش کا اظہار نہیں ہے؟ حالاں کہ مختلف مراکز پر ووٹنگ اور بیلٹ پیپر کا استعمال وبائی اور قانونی دونوں صورتوں میں نادرست کہنا نامناسب تھا۔ ہاں، یہ ضرور تھا کہ ۸۵۱؍ ممبران والے ’اربابِ حلّ و عقد‘ سے ۱۵۱؍ افراد کی توثیق غیر ضروری تھی اور اس کے پس پشت مخفی مقاصد اندیشوں کو جنم دے رہے تھے۔ مختلف حلقوں سے اس کے ردِّ عمل میں ہنگامہ آرائیاں ہوئیں اور آخر کار یہ انتخاب اعلان سے آگے نہ بڑھ سکا اور التوا کے خانے میں چلا گیا۔
اس دوران ستمبر کے آغاز میں اچانک یہ خبر شایع ہوئی کہ مجلسِ شوریٰ نے اَلمعہدالاسلامی میں ایک نشست منعقد کی اور دس اکتوبر ۲۰۲۱ء کو امیرِ شریعت کے انتخاب کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اسی خبر میں یہ بات بھی درج تھی کہ تین مہینے کی مدّت ختم ہونے کے بعد نائب امیرِ شریعت کا حقِ انتخاب ختم ہو گیا مگر اس سے چار مہینے قبل آن لائن مجلسِ شوریٰ میں آخر اُن کے اختیارات وبائی صورتِ حال کے پیشِ نظر بڑھائے گئے تھے، اُسے کیا مانا جائے؟ چند دنوں کی خاموشی کے بعد دس اکتوبر کے انتخاب کا اعلان امارتِ شرعیہ کی طرف سے جاری ہوا۔ یہ اتنا اہم موضوع تھا مگر قایم مقام ناظم کی جگہ پر کسی دوسرے شخص کا دستخط ثبت تھا۔ پھر بعد میں ناظم(قایم مقام) اور نائب امیرِ شریعت کے بیانات سے بھی یہ واضح ہوا کہ دس اکتوبر کو ہی یہ انتخاب عمل میں آئے گا۔ یہ بھی اعلان ہوا کہ اتّفاقِ رائے نہ ہونے پر پسندیدہ فرد کے نام کو لکھ کر بکس میں ڈالنے کی سہولت رہے گی۔ گویا یہ بیلٹ پیپر سے الگ قسم کی کوئی ’’اسلامی صورت‘‘ سامنے آ گئی۔
حقیقی سوالات کئی ہیں جنھیں اس اعلان میں پسِ پشت رکھا گیا۔ اگر مجلسِ شوریٰ میں ۱۰۱؍ ممبران ہیں تو ان میں سے کم از کم ۵۱؍ افرادجمع ہوئے بغیر اکثریت سے تاریخِ انتخاب کا فیصلہ کیسے ہو گیا اور اسے کیوں کر تسلیم کیا گیا؟ مجلسِ شوریٰ کی نشست کے دعوت نامے کب جاری ہوئے اور کب لوگوں کو اس کی اطّلاع دی گئی؟ آج کی تاریخ تک اس خاص نشست کی ویڈیو ریکارڈنگ سامنے نہیں آسکی جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ اس نشست میں کم از کم ۵۱؍ ارکانِ شوریٰ شامل تھے۔ دستخط اور ان کی جعل سازیاں، فہرست ارکان کی خبرمیں شمولیت اور تشہیر جیسے معاملات پر اخبارات میں جگ ہنسائی ہو چکی ہے۔ ایسی صورت میں وہ مجلسِ شوریٰ کی نشست جس کی اطلاع تمام ارکان کو نہ دی گئی ہواور جس میں شریک افراد کی ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی نہ دستیاب کرائی گئی ہو؛ ایسی شوریٰ کی ہدایت کو نائب امیرِ شریعت یا قایم مقام ناظم نے کس طرح اور کیوں قبول کیا، یہ سمجھ سے پَرے ہے اور ان کی صواب دید پر سوال ہے۔
اب تازہ صورتِ حال یہ ہے کہ ایک اور مجلسِ شوریٰ نے نشست منعقد کی اور امیرِ شریعت کے انتخاب کی تاریخ ۹؍ اکتوبر متعیّن کر دی ہے۔ اس نشست کے لیے بھی کوئی اشتہار، دعوت نامہ یا اعلان پہلے سے نظر نہیں آیا۔ المعہد الاسلامی کی ستمبر کے آغاز کی مجلسِ شوریٰ کی نشست اگر غیر قانونی نہیں ہے تو یہ نشست بھی آئینی ہے۔دونوں شوریٰ کی نشستوں کے جو نتائج اخبارات تک روانہ کیے گئے ، ان میں محض چند ارکان کے نام اور کسی ایک کا دستخط ثبت ہے۔ اب اقبال کے لفظوں میں یہ سوال اربابِ حلّ و عقد پوچھتے ہیں:
خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
دس اکتوبرکے انتخاب کے لیے جو جگہ مقرّر ہے، وہ ۸۵۱؍ اربابِ حلّ وعقد کے لیے غیر مناسب ہے۔ ایک سو اور دو سو کے لیے وہ جگہ موزوں تھی مگر پتا نہیں کس عقل و شعور سے وہ جگہ چُنی گئی۔ وبائی صورتِ حال میں جسمانی دوری کا خیال رکھتے ہوئے کوئی کھُلی جگہ چُنی جانی چاہیے یا شری کرشن میموریل ہال یا اسی طرح بڑی جگہ ہونی چاہیے۔ تازہ تر اطلاعات کے مطابق ابھی تک ارکان کو کسی مجلس نے خطوط جاری نہیں کیے ہیں۔ باضابطہ طور پر اربابِ حلّ و عقد کی تصویروں کے ساتھ شناختی کارڈ بنوانے چاہئیں اور ووٹر لسٹ تصویروں کے ساتھ شایع کرکے پولس یا سِوِل انتظامیہ کے حوالے کر دیا جائے تاکہ جس تاریخ کو امیرِ شریعت کا انتخاب ہو، اربابِ حلّ و عقدکا جسمانی تحفّظ بھی ہو اور متوقّع انتشار یا علما کے پس پردہ جرائم پیشہ حلقے کی بہ راہِ راست شمولیت کا کوئی راستہ نہ کھُل جائے۔ مناسب یہ ہوگا کہ امارتِ شرعیہ، مجلسِ شوری اور اربابِ حلّ و عقد سے باہر کے افراد انتخابی عمل کے کار پرداز ہوں۔ امارتِ شرعیہ ٹرسٹ تو ہے ہی، کیا بُرائی ہوگی اگر کلکٹر یا کمشنر کی سطح کے کسی افسر اور اس کے اہل کاروں کو صاف و شفّاف طریقے سے انتخابی عمل کی تکمیل کے لیے دعوت دے دی جائے، ورنہ پنچایت اور اسمبلی یا پارلیمنٹ انتخابات کے اعمالِ بد کے مظاہر سے انکار ممکن نہیں۔
کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گذرگئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
ایثار وقربانی اور استغناء و بے نیازی اہل ایمان بالخصوص صالحین کے لیے سرمایہ گراں مایہ ہے… عہدہ طلب کر نے کی شناعت اور بغیر مانگے عہدہ ملنے پر قبول کرنے کی ترغیب اور اس سلسلے میں تائید الہی کی بشارت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں موجود ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے پیارے صحابی عبدالرحمٰن بن سمرہؓ کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی:
’’یَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَۃَ، لَا تَسْأَلِ الْاِمَارَۃَ، فَاِنَّکَ اِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ مَسْأَلَۃٍ وُکِلْتَ اِلَیْھَا، وََ اِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْأَلَۃٍ أُعِنْتَ عَلَیْھَا(صحیح بخاری، کتاب الأحکام، باب مَنْ سَأَلَ الْاِمَارَۃَ وُکِلِ اِلَیْھَا، بروایت عبد الرحمٰن بن سمرہؓ)
‘یعنی’’ اے عبد الرحمٰن بن سمرہ! کبھی امارت کی درخواست نہ کرنا،کیوں کہ اگر تمھیں یہ مانگنے کے بعد ملے گا تو تم اسی کے حوالے کردئے جاؤگے (اللہ پاک اپنی مدد تجھ سے اٹھالے گا کہ تو جانے تیرا کام جانے) اور اگر وہ عہدہ تمھیں بغیر مانگے مل گیا تو اس میں (اللہ کی طرف سے ) تمھاری اعانت کی جائے گی‘‘۔
اس حدیث میں ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ عہدہ طلب کرنے پر اللہ کی طرف سے مدد بھی اٹھ جاتی ہے اورا نسان آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے لیکن اگر عہدہ بغیر طلب کئے ملتا ہے تو اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔
مشہور صحابی ابوذرؓ نے ایک بار آپؐ سے کسی منصب کی خواہش ظاہر کی۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:
"یَا أَبَا ذَرٍّ اِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَ اِنّھَا أَمَانَۃُ وَ اِنّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَ نَدَامَۃٌ اِلَّا مَنْ أَخَذَھَا بِحَقِّھَا وَ أَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ فِیْھَا (صحیح مسلم،کتاب الامارۃ، باب کراھۃ الامارۃ بغیر ضرورۃ، بروایت ابوذرؓ)۔
‘یعنی’’ اے ابوذرؓ! تو کمزور ہے اوربلاشبہ یہ (امارت) امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے سوائے اس شخص کے جس نے اس کے حقوق پورے کئے اور اس سلسلہ میں جو ذمہ داریاں اس پر عائد تھیں انھیں ادا کیا‘‘۔
آپؐ نے ایک موقع سے ارشاد فرمایا:
’’لَنْ (أَوْ لَا) نَسْتَعْمِلُ عَلٰی عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَہُ (صحیح بخاری، کتاب استتابۃ المرتدین، باب حُکْمِ الْمُرْتَدِّ وَ الْمُرْتَدَّۃِ، بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ)۔
‘یعنی’’ہم ہرگز کسی ایسے شخص کو عامل مقرر نہیں کریں گے جو عامل بننا چاہے‘‘۔
صحیح ابن حبان کے الفاظ اس طرح ہیں:
’اِنَّا وَ اللّٰہِ لَا نُوَلِّی عَلٰی ھٰذَا الْعَمَلِ اَحَدًا سَاَلَہٗ، وَ لَا اَحَدًا حَرَصَ عَلَیْہِ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذکر الزجر عن سؤال المرء الامارۃ لئلا یوکل الیھا اذا کان سائلا لھا، بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ)۔
یعنی ’’اللہ کی قسم ! ہم اس کام کا نگراں کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کریں گے جو اسے مانگتا ہو اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو مقرر کریں گے جو اس کی لالچ کرتا ہو‘‘۔
ان نبوی ہدایات کے مطابق ہرزمانے کے اہل اللہ نے اجتماعی معاملات میں ایثار وقربانی کی روش اختیار کی.. اور عہدہ ومنصب کے سلسلے میں ہمیشہ استغناء اور ایثار کا رویہ اپنایا اور جب عدمِ طلب کے باوجود عہدہ ملا تو تائید الہی سے مکمل اخلاص وللہیت کےساتھ مفوضہ ذمہ داریوں کو باحسن وجوہ انجام دیا… کبھی ملت کے اعلی مفاد میں حق دار ہونے کے باوجود عہدہ ومنصب کو ترک کر کے اسوہ حسنی کی پیروی کی، تو کبھی نااہلوں کے درمیان امانت کی حفاظت کے لیے امین بن کر سنت یوسفی پر بھی عمل پیرا ہوئے۔
ہندوستان میں مسلم حکم رانی کے زوال کے بعد اکابر علماء نے امارت شرعیہ کی ضرورت کا ادراک کیا… اور عملی شکل میں ابوالمحاسن سید محمد سجاد کی فکر مندی کے نتیجے میں سب سے پہلے بہار (اڑیسہ بہار کا حصہ تھا) میں سنہ انیس سو اکیس میں امارت شرعیہ قائم ہوئی۔
امارت شرعیہ ایک ایسا اجتماعی نظام ہے، جس کی بنیاد اخلاص وللہیت پر ہے، جس کا شعار ہمیشہ” کلمۃُ اللہ ھی العلیا "رہا ہے۔ کلمہ واحدہ کی بنیاد پر ملت اسلامیہ کو جوڑنے اور ایک امیر کی ماتحتی میں شرعی زندگی گذارنےکی نقیب ہے امارت شرعیہ۔ اس کے سو سالہ تاریخ میں امارت شرعیہ کو ایسے خدا ترس، تقوی شعار مخلص اللہ والے امراء شریعت ملے ہیں؛ جو عہدہ طلبی سے کوسوں دور اور استغنا وایثار کے جامع تھے،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب ذمہ داروں کے اصرار پر عہدہ قبول کیا؛ تو اللہ رب العزت کی ایسی نصرت اور تائید ملی کہ امارت شرعیہ اتحاد امت کی سب سے مضبوط آواز بن گئی اور اس میں خلافت راشدہ کی جھلک نظر آنے لگی۔
امارت شرعیہ کی تجویز :
جب جمعیت علمائے ہند کے دوسرے سالانہ اجلاس منعقدہ19، 20، و21/ نومبر1920ء دہلی میں امارت شرعیہ کی تجویز پیش ہوئی تو اس کی اہمیت کے پیش نظر صدر اجلاس شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ نے ودیگر تمام پانچ سو علماء نے اس کی تائید کی. جب امیر الہند منتخب کر نے کی بات آئی تو حضرت شیخ الہند نے شدید علالت کے باوجود فرمایا کہ:
”میری چارپائی اٹھا کر جلسہ گاہ لے چلو، میں پہلا شخص ہوں گا، جو امیر کے ہاتھ پر بیعت کرے گا۔“(تاریخ امارت شرعیہ ص53)
متعدد اسباب کی وجہ سے ملکی پیمانے پر جب امارت شرعیہ کا قیام نہیں ہوسکا توحضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کی بصیرت ودور اندیشی کے مطابق انھیں کی تحریک پر 23،24/ شعبان، 1339ھ مطابق 2،3/ مئی 1921ء کو دربھنگہ کے جمعیت علمائے صوبہ بہار کے اجلاس عام کے موقع پر امارت شرعیہ کے قیام کی تجویز منظور کی گئی۔“ تجویز کے الفاظ یہ تھے :
”جمعیت تجویز کرتی ہے کہ صوبہ بہار و اڑیسہ کے محکمہ شرعیہ کے لیے ایک عالم اور مقتدر شخص کا امیر ہونا انتخاب کیا جائے، جس کے ہاتھ میں تمام محکمہ شرعیہ کی باگ ڈور ہو۔ اور اس کا ہر حکم مطابق شریعت ہر مسلمان کے لیے واجب العمل ہو، نیز تمام علما و مشائخ اس کے ہاتھ پر خدمت و حفاظت اسلام کے لیے بیعت کریں جو سمع و طاعت کی بیعت ہوگی، جو بیعت طریقت سے الگ ایک ضروری اور اہم چیز ہے۔ جمعیت علما متفقہ طور پر تجویز کرتی ہے کہ انتخاب امیر محکمہ شرعیہ کے لیے ایک خاص اجلاس علمائے بہار کا بمقام پٹنہ وسط شوال میں کیا جائے۔“ (تاریخ امارت، ص/58)
حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رح نے صرف امارت شرعیہ کا خاکہ تیار کرنے پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ اکابر علماء، خانقاہ کے سجادہ نشینوں، دانشوروں اور مولانا ابوالکلام آزاد سے نجی ملاقات کرکے قیام امارت شرعیہ کے لیے راہ ہموار کی، معاملہ مولانا ابوالکلام آزاد کی رانچی نظر بندی کی وجہ سے ٹلتا رہا، ١٩٢٠ء میں یہ نظر بندی ختم ہوئی، تو مولانا نے ١٩/ شوال ١٣٣٩ھ مطابق ٢٦/جون ١٩٢١ء کو محلہ پتھر کی مسجد پٹنہ میں اس سلسلے کی مٹنگ بلائ، مولانا ابوالکلام آزاد کی صدارت میں منعقد اس اجلاس میں مختلف مکتبہ فکر کے کم و بیش پانچ سو علماء، مشائخ اور دانشور ان جمع ہوئے، بیرون ریاست کے شرکاء میں مولانا آزاد کے علاوہ مولانا آزاد سبحانی اور مولانا سبحان اللہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
خود مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے خطبہ صدارت لاہور میں حضرت مولانا محمد سجاد سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :اسی زمانے میں میرے عزیز ورفیق مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب رانچی میں مجھ سے ملے تھے اور اسی وقت سعی وتدبیر میں مشغول ہوگئے تھے، میں نہیں جانتا کن لفظوں میں میں حضرات علمائے بہار کو مبارکباد دوں کہ انھوں نے سبقت بالخیر کا مقام اعلیٰ حاصل کیا اور جمعیت علمائے بہار کے جلسے میں تین سو کے مجمع علماء نے بالاتفاق اپنا امیر شریعت منتخب کرلیا۔(خطبات آزاد ص 126)
علما ومشائخ کے علاوہ دیگر شرکاء کی تعداد تقریباً چار ہزار سے متجاوز تھی. شرکاء اجلاس نے اتفاق رائے سے حضرت مولانا شاہ بدرالدین قادری کو امیر شریعت اور حضرت مولانا سجاد کو (جو اس وقت جمعیت علماء بہار کے ناظم تھے) نائب امیر شریعت منتخب کیا لیکن خود ان اکابر کا رجحان عہدہ قبول کرنے کی طرف نہیں تھا بلکہ بادل ناخواستہ علماء ومشائخ کے اصرار پر ان دونوں حضرات نے عہدہ قبول کیا۔
حضرت شاہ بدرالدین نے حضرتِ سجاد کے دعوت نامے کے جواب میں جو مکتوب تحریر فرمایا، اس میں انھوں نے امیر شریعت کے لیے قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری رح کے نام کی سفارش کی۔
لکھتے ہیں: میں جمعیت علماء بہار کے اس جلسے میں حاضر ہونے سے معذور ہوں؛ البتہ محکمہ شرعیہ کے امیر کے لیے میری رائے میں جو پانچ صفات ہونی بتائی گئی ہیں، بہت مناسب ہیں. اس صوبہ بہار میں ان صفات سے موصوف اس وقت جناب شاہ محمد علی رحمانی کے سوا دوسرے کسی کو نہیں پاتا.. اس لیے میری رائے ہے کہ اس منصب پر وہی مقرر کیے جائیں…. (تاریخ امارت شرعیہ ص47)
لیکن جب ان کی خواہش کے برعکس انھیں کو امیر شریعت منتخب کرلیا گیا؛ تو انھوں نے لکھا :میں نے اس عہدے کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا… اور اپنی رائے تحریر کردیا تھا کہ جناب مولوی سید شاہ محمد علی رحمانی کو میں اس منصب کا اہل جانتا ہوں آج معلوم ہوا کہ قرعہ فال بنام من دیوانہ زنند جب آپ لوگوں کی بالاتفاق یہی رائے ہے تو اب قبول کرنے کے سوا کیا چارہ ہے. اگر اللہ کی مشیت یہی ہے تو افوض امری الی اللہ… (تاریخ امارت ص 82)
یہ تو رہا پہلے امیر شریعت کے ایثار استغنا اور انکساری کا واقعہ۔ خود بانی امارت شرعیہ مولانا محمد سجاد جو جمعیت علماء بہار کے ناظم کے طور پر داعی اجلاس بھی تھے ان کا حال یہ تھا کہ وہ چاہتے تو پہلے امیر شریعت بن سکتے تھے، علماء ومشائخ انھیں پلکوں پر بٹھاتے؛ کہ امارت کا عظیم تصور انھیں کی فکر رسا کا پیش کیا ہوا تھا؛ لیکن ہمیشہ عہدہ ومنصب سے دور رہ کر محض خلوص وللہیت کی بنیاد پر کام کر نے والی شخصیت کو یہ کب گوارا ہوسکتا تھا.. بقولِ مولانا رحمانی :حضرت مولانا محمد سجاد کو نائب امیر شریعت منتخب کیا گیا. جب کہ حضرت مولانا سجاد کسی عہدہ کے لیے راضی نہ تھے.. لیکن شرکاء کے دباؤ میں آپ نے نائب امیر شریعت کا عہدہ قبول کیا… اور امیر شریعت کی نیابت میں حاضرین سے سمع وطاعت کی بیعت لی۔
دوسری طرف حضرت مولانا مونگیری رح نے مولانا سید شاہ بدرالدین قادری رح کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اس منصب جلیلہ کو قبول کرلیں؛ حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری کے بارے میں ، حضرت مولانا مونگیری نے لکھا تھا کہ”یہ فقیر اپنے خاص محبین سے اتنا اور کہتا ہے کہ اس وقت جوامیر شریعت ہیں انہوں نے میرے ہی کہنے سے اس امارت کو قبول کیا ہے اب میں تمام محبین سے باصرارو منت کہتا ہوں کہ اس میں کسی قسم کا اختلاف نہ کریں”۔
حضرت قطب عالم محمد علی مونگیری ، حضرت امیر شریعت اول شاہ بدرالدین قادری اور نائب امیر شریعت حضرت مولانا ابو المحاسن سید محمدسجاد کےسوز دروں اخلاص وللہیت اور عملی جد و جہد اور پوری ریاست کے علماء ومشائخ کے اعتماد کے نتیجہ میں امارت شرعیہ نے عوام و خواص میں کم وقت میں مضبوط پکڑ بنالی۔
امیر شریعت ثانی کا انتخاب:
امیر شریعت اول مولانا شاہ بدر الدین کے انتقال کے بعد،19/ صفر1343 ھ (19/ ستمبر1924ء) کو منعقد جمعیت علمائے بہار کی مجلس منتظمہ میں امیر شریعت ثانی کے انتخاب کے لیے 8، و 9/ ربیع الاول1343ھ (مطابق 7/8 اکتوبر1924ء) کو پھلواری شریف پٹنہ میں ایک اجلاس عام کرنے کا فیصلہ کیاگیا. چنانچہ انتخاب امیر کے اس جلسہ میں ”تقریبا ڈیڑھ سو علما کے اسماء پیش کیے گئے کہ وہ امیر شریعت کو منتخب کریں۔اس اجلاس کے مجلس استقبالیہ کے صدر مولانا شاہ قمرالدین پھلواروی تھے اور اس کی صدارت حضرت مولانا محمد علی مونگیری کی نیابت میں ان کے بڑے صاحبزادے سید شاہ لطف اللہ رحمانی نے کی اور حضرت مونگیری کا تحریر کیا ہوا وقیع خطبہ صدارت پڑھ کر سنایا… یہ جامع ومدلل خطبہ صدارت بعد میں امارت شرعیہ کی طرف سے شائع بھی ہوا.
انتخاب کنندگان کی مجلس 3/ بجے دن سے منعقد ہوئی اور عشا تک ہوتی رہی اور حضرت مولانا شاہ محی الدین صاحب امیر شریعت ثانی منتخب کیے گئے۔“ (جمعیت و امارت تاریخ کے آئینہ میں، ص/7)
اس اجلاس میں تقریباً چار ہزار علماء، صوفیا اور دانشوران شریک ہوئے (محاسن التذکرۃ. ص 507)
آپ کے عہد میں امارت شرعیہ نے کافی ترقی کی اور آپ ہی کے عہد میں امارت شرعیہ نے مسلم انڈی پنڈنٹ پارٹی کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بھی قائم کی اور محمد یونس وزیر اعلی کی قیادت میں بہار میں اس کی حکومت بھی قائم ہوئی.خود وزیر اعلیٰ نے امیر شریعت ثانی کے ہاتھ پر سمع وطاعت کی بیعت کی .. اس اجلاس میں جمعیت علمائے ہند کے نائب صدر سبحان الہند مولانا احمد سعید دہلوی اور مولانا عبدالحلیم صدیقی ناظم جمعیت علماء ہند بطورِ مہمان خصوصی ومشاہد کے شریک ہوئے.. حضرت شیخ الاسلام مدنی علیہ الرحمہ کو بھی شرکت کرنی تھی لیکن عین وقت پر ریلوے لائن خراب ہونے کی وجہ سے عدم شرکت اور نیک خواہشات کا پیغام بھیجا۔
حضرت مولانا شاہ محی الدین قادری اپنے والد امیر شریعت اول کے عہد میں حضرت کے دست راست اور بیرونی کاموں کے لیے نفس ناطقہ تھے، تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات میں مولانا ہی خانقاہ مجیبیہ اور صاحب سجادہ کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتےرہے، ۱۹۲۰ء ١٩٢١ء میں تمام ملی وسماجی سرگرمیوں میں آپ کی فعال شرکت رہی۔
انہوں نے امارت شرعیہ کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے ابو المحاحسن حضرت مولانا محمد سجاد ؒ کے ساتھ غیر منقسم بہار کے اسفار کیے، اور لوگوں تک امارت شرعیہ کے پیغام کو پہونچانے میں مولانا کے معاون رہے، امیر شریعت اول کی وفات کے بعد؛ عہدہ و منصب سے بے نیاز ہونے کے باوجود جب یہ ذمہ داری آپ کے گلے ڈال دی گئی؛ جس کے آپ پوری طرح مستحق تھے تو آپ نے اپنے کلیدی خطبے میں بحیثیت امیر شریعت ارشاد فرمایا:
” جب آپ حضرات اتفاق رائے سے مجھ پر یہ بار ڈال رہے ہیں، تو میں صرف اس لیے کہ میرے انکار سے تفرقہ کا خوف ہے، مجبور ہوکر قبول کرتا ہوں۔”آپ کا عہد امارت 23سالوں پر محیط ہے .
امیر شریعت ثالث کا انتخاب:
شاہ محی الدین قادری کی وفات کے بعد 26، 27/ جون1947ء کو ڈھاکہ ضلع مشرقی چمپارن میں جمعیت علمائے صوبہ بہار کا عظیم الشان اجلاس عام ہوا۔ مولانا سید محمد میاں صاحب ناظم جمعیت علمائے ہند نے اجلاس عام کی صدارت کی۔ خطبہ استقبالیہ و خطبہ صدارت کے علاوہ مزید تقریریں ہوئیں۔ 27/ جون 1947ء کو 8/ بجے صبح سے مجلس منتظمہ جمعیت علمائے بہار کا اجلاس عام ہوا۔ تین گھنٹے کے کامل آزادانہ غوروفکر کے بعد حضرت مولانا شاہ قمر الدین صاحب کو ارباب حل و عقد اور مجلس منتظمہ کے ارکان و مدعوین نے باتفاق صوبہ کا امیر شریعت منتخب کرلیا۔“ ، مجلسِ استقبالیہ کے صدر شیخ التفسیر حضرت مولانا ریاض احمد صاحب سنت پوری تھے(جمعیت و امارت تاریخ کے آئینہ میں، ص/8)
اس انتخابی جلاس میں امیر شریعت کے لیے چار نام، مولانا منت اللہ رحمانی، علامہ سید سلیمان ندوی،مولانا قاضی سید نور الحسن، مولانا سید شاہ محمد قمر الدین،ان کے علاوہ مولانا ریاض احمد صاحب سنت پوری چمپارنی اور مولانا عبد الصمد رحمانی (مانڈر، کھگڑیا) نائب امیر شریعت کے اسماء گرامی قدر پیش ہوئے، ان میں آخر کے دوناموں کا اضافہ مجلسِ استقبالیہ نے کیا تھا؛ گویا کہ امیر شریعت کے لیے چھ نام پیش ہوئے، لیکن چونکہ تمام اکابر اخلاص وللہیت کے پیکر تھے. ان میں کوئی بھی عہدہ کا طلب گار اور منصب کا خواہش مند نہیں تھا،، اس لیے کوئی جھگڑا، انتشار، اور افتراق نہیں ہوا. ان چھ ناموں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کے لیے انتخابی اجلاس نے ایک نو(٩) نفری کمیٹی بنائی، جس نے امیر شریعت ثالث کی حیثیت سے مولانا شاہ قمر الدین کو منتخب کرلیا، اجلاس کی توثیق کے بعد بیعت سمع و طاعت لی گئی۔
امیر شریعت ثالث ؒکو امارت کی خدمت کے لیے زندگی کے دس سال ملے، کمی صرف یہ تھی کہ سابق دونوں امیر شریعت کے دور میں بانی امارت شرعیہ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد ؒموجود تھے اور ان کی فکری بصیرت اور عملی تگ و دو سے کام آگے بڑھتا تھا، امیر شریعت ثالث کے دور سے پہلے ہی ان کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا؛ لیکن اس کمی کو حضرت سجاد کے تربیت یافتہ دیگر علماء بالخصوص حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی اور قاضی احمد حسین نے پورا کیا ۔
امیر شریعت ثالث کے انتخاب کے صرف ڈیڑھ ماہ کے بعد ملک آزاد ہوا اور تقسیم وطن کا درد بھی جھیلنا پڑا… تقسیم کے رد عمل میں ملک فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آگیا، پورے ہندوستان میں عموماً اور بہار میں خصوصاً فرقہ وارانہ فسادات کا ایک خونی سلسلہ شروع ہوگیا ،
یہ دور کتنی آزمائش کا تھا اس کا اندازہ سبحان الہند احمد سعید دہلوی کے ان جملوں سے لگایا جا سکتا ہے :
” وہ نظم امارت میں بھی اپنی امارت شرعیہ کے فرائض انجام دینے میں امیر اول اور امیر ثانی کے نقشہائے قدم کی پیروی فرمائی حالانکہ ان کا دور سخت نازک دور تھا اور امت محمدیہ ان کے مختلف مصائب اور ہر قسم کے فتنے میں مبتلا تھی اور پوری امت وجعلنابعضکم لبعض فتنہ کی مظہر بنی ہوئی تھی ایسے نازک اور زمانہ فتن میں امیر ثالث کی ہمت کو شاباش ہے کہ انھوں نے ہر قسم کے خطرات میں امت کی صحیح رہنمائی فرمائی. "نی(ہفت روزہ نقیب بابت ٢١ فروری ١٩٥٧ ء)
ایسے میں امیر شریعت ثالث نے اپنے رفقاء کے مشورے سے اہلِ اقتدار بالخصوص گاندھی جی کو اس صورت حال کی طرف مضبوطی سے متوجہ کیا،اس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور مرکزی قائدین نے ان علاقوں کا دورہ کیا۔ امارت شرعیہ کی طرف سے ریلیف کا زبردست کام ہوا. اور اکابر امارت نے مصیبت کی اس گھڑی میں اہل ایمان کو جمانے اور حوصلہ دینے کا کام کیا۔
امیر شریعت رابع کا انتخاب:
”24/ مارچ 1957ء کو سوپول ضلع دربھنگہ میں ارکان جمعیت علمائے بہاراور ارکان شوریٰ امارت شرعیہ کا اجتماع شیخ التفسیر مولانا ریاض احمد صاحب چمپارنی کی صدارت میں ہوا۔ مجلس نے بحث و تمحیص کے بعد مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی کا نام امیر شریعت کے لیے منتخب کیا۔“
مولانا حفظ الرحمن صاحب ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند کی شرکت بحیثیت مشاہد ہوئی تھی،چار اکابر کا نام امیر شریعت کے طور پر پیش کیا گیا. مولانا شاہ نظام الدین قادری مولانا امان اللہ قادری. مولانا منت اللہ رحمانی اور نائب امیر شریعت حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی…. آخر الذکر نے پہلے ہی امیر کا عہدہ قبول کرنے سے معذرت کر لی… بعدازاں ارکان میں سے ایک مخصوص کمیٹی نے کامل غور و خوض کے بعد اتفاق رائے سے حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی کو امیر شریعت رابع منتخب کرلیا.. تمام حضرات نے سمع وطاعت کی بیعت کی۔ شرکاء میں ، مولانا محمد عثمان غنی ناظم امارت شرعیہ، مولانا عبد الرحمن صاحب گودنا(جو پہلے نائب امیر شریعت بعد میں امیر شریعت خامس بنے) قاضی احمد حسین صاحب، مولانا مسعود الرحمن، مولانا محمد عثمان سوپول رحمھم اللہ وغیرہ بطور خاص شریک تھے۔ امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کے عہد کو امارت شرعیہ کا عہد زریں کہاجاسکتاہے۔ آپ کے عہد میں ظاہری ومعنوی دونوں سطح سے امارت کی ترقی ہوئی۔
جب اللہ کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو رفقاء کار بھی اسی انداز اور اسی معیار کے عطا فرماتا ہے، چنانچہ حضرتِ رحمانی کو مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ اور مولانا سید نظام الدین صاحب جیسے عالی حوصلہ رفقاء کار ملے. حضرت امیر شریعت رابع کی فکر و تحریک کو ان حضرات نے زمین پر اتارنے اور آپ کے خاکوں میں رنگ بھری کازبردست کام کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امارت شرعیہ کا کام بہار واڑیسہ سے نکل کر پورے ملک میں جانا پہچانا جانے لگا. بلکہ اس کی صدائے باز گشت بیرونی ممالک میں بھی سنی جانے لگی . امیر شریعت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکرٹری کے طور پر حضرت مولانا منت اللہ رحمانی نے پورے ملک کے انقلابی اسفار کیے جس سے امارت کی شناخت مستحکم ہوئی.. آپ کا عہدِ امارت تقریباً چونتیس سال پر محیط ہے۔
امیر شریعت کاانتخاب پہلے جمعیت علمائے بہار کی مجلس منتظمہ، یا پھر اس کے ساتھ ساتھ ارکان شوریٰ امارت شرعیہ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ امیر شریعت رابع تک یہ سلسلہ بدستور قائم رہا… امیر شریعت رابع کی وفات کے بعد جمعیت علماء کا حلقہ اسی طریقے کو جاری رکھنے پر مصر تھا تو امارت شرعیہ کے عہدے داران وارکان شوری اپنے طور پر امارت کے اندر انتخاب امیر کے مسئلے کو حل کرنا چاہتے تھے،چنانچہ چوتھے امیر شریعت کے انتقال کے بعد جمعیت علمائے صوبہ بہار کے صدر مولانا سید شاہ عون احمد قادری رح کے حکم پر ناظم اعلیٰ جمعیت علمائے بہار مولانا ازہر صاحب رانچوی نے 24/ اپریل 1991ء کو جمعیت علمائے بہار کی مجلس منتظمہ کا اجلاس طلب کیا۔ ادھر دوسری طرف اس وقت کے ناظم امارت شرعیہ مولانا سید نظام الدین صاحب نے انتخاب امیر کے لیے 31/ مارچ1991ء کو امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کرلیا. جمعیت علمائے بہار کی طرف سے اجلاس طلب کرنے کے باوجود ناظم امارت شرعیہ کی طرف سے دوسرا اجلاس طلب کرنے کے پیچھے شکوہ یہ تھا کہ جمعیت نے امارت شرعیہ سے مشورہ نہیں کیا۔ بہر کیف بعد میں 30/ مارچ 1991ء کو دونوں کے درمیان مصالحت ہوگئی۔ ایک معاہدہ کے تحت دونوں نے اپنے اپنے اجلاس ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔ بعد ازاں حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کی تحریک اور ناظم امارت شرعیہ مولانا نظام الدین اور قاضی القضاۃ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کی تائید سے ارکان شوری ومدعوین نے 31/ مارچ 1991ء کو احاطہ امارت شرعیہ پھلواری شریف میں منعقد اجلاس میں نائب امیر شریعت مولانا عبد الرحمن (جو 1973 سے ہی اس عہدہ پر تھے) کو امیر شریعت خامس منتخب کرلیا۔ اس کے بعد جمعیت علمائے بہار، امیر شریعت کے انتخاب سے بالکل علاحدہ ہوگئی۔
امیر شریعت خامس کا عہد امارت تقریباً سات سال ہے.. آپ کے عہد میں بھی امارت کی ترقی کاسفر جاری رہا،باضابطہ مجلس ارباب حل وعقد کے نام سے ایک دستوری مجلس تشکیل دی گئی.. پانچویں امیر شریعت حضرت مولانا عبد الرحمان ؒ کے بعد یکم نومبر 1998ء کو نائب امیر شریعت مولانا نظام الدین صاحب کو حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کی تحریک اور اربابِ حل وعقد کی تائید سے چھٹا امیر شریعت بنایا گیا۔اس وقت ایک بڑا طبقہ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کو امیر شریعت بنانا چاہتا تھا اور حضرت مولانا محمد ولی رحمانی اپنے تجربات اور ہمہ جہت خوبیوں کے مد نظر اس کے مستحق بھی تھے لیکن آپ نے اکابر کی روایات کے عین مطابق ایثار وقربانی کی راہ اپناتے ہوئے مولانا نظام الدین کا نام پیش فرما کر ایک تاریخ رقم کردی.حضرت مولانا نظام الدین صاحب کا عہد امارت سترہ سال ہے آپ کے عہد میں بھی امارت کی ترقی کی رفتار تیز رہی. المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء اور دار العلوم امارت شرعیہ ودیگر معیاری اداروں کا قیام عمل میں آیا .علمی فکری اور قائدانہ محوریت کے لحاظ سے آپ کا عہد ممتاز ہے… مسلم پرسنل لا بورڈ کی صدارت ونظامت اعلی دونوں امارت شرعیہ میں جمع ہوگئی.. مولانا نظام الدین صاحب؛ َنائب امیر شریعت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کو بنانا چاہتے تھے؛ لیکن قاضی صاحب اس کے لیے تیار نہیں تھے.. بلکہ قاضی صاحب نے ایثار کی راہ اپناتے ہوئے حضرت مولانا اشتیاق احمد مظفرپوری خلیفہ حضرت شیخ زکریا رح کی نشاندہی کی چنانچہ ان بزرگوں کی طرف سے . حضرت مولانا اشتیاق صاحب کی خدمت میں مفتی نسیم احمد سابق نائب ناظم کی قیادت میں ایک وفد ارسال کیا گیا.. حضرت مولانا اشتیاق احمد نے بکمال تواضع وانکساری نائب امیر بننے سے معذرت کرلی تو مولاناسید نظام الدین صاحب نے 9ربیع الاول 1420 ھ کو قاضی مجاہد الاسلام کو باصرارنائب امیر شریعت نامزد فرمایا…. پھر حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب کی وفات کے بعد 3 اپریل 2005 ء میں مجلس شوریٰ میں حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کو نائب امیر شریعت نامزد فرمایا۔ مولانا سید نظام الدین رح کی وفات کے بعد اتفاق رائے سے مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب ساتویں امیر شریعت منتخب ہوئے ۔آپ کا انتخاب19/ نومبر2015ء کو ارریہ کے ایک عظیم الشان اجلاس میں کیا گیا۔ حضرت کے عہد میں امارت شرعیہ نے کئی عظیم کارنامے انجام دیے. اور کئی جہات سے بے مثال ترقی کی .. جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مورخہ 3 اپریل 2021 ء کو آپ کی وفات حسرت آیات سے یہ عہدہ خالی ہوگیا. آپ پانچ سال چار مہینہ امیر شریعت رہے، حضرت کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے؛ وہ پوری امت بالخصوص امارت شرعیہ کے لیے عظیم خسارہ ہے… اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ وہ اس ادارے کی ضرور حفاظت کرے گا اور” مردے از غیب بیرون آید "کے مطابق ایثار وقربانی اور استغناء کی عظیم روایات کے مطابق۔ ان شاء اللہ امارت شرعیہ کے آٹھویں امیر شریعت منتخب ہوں گے اور ان کی سربراہی میں نہ صرف یہ ہے کہ امارت شرعیہ اپنی عظمتوں کو برقرار رکھے گی بلکہ اس میں مزید فروغ ہوگا.. وما ذلک علی اللہ بعزیز.
آغا شورش کاشمیری نے اپنی مشہور خود نوشت سوانح’’بوے گل،نالۂ دل،دودِچراغِ محفل‘‘میں ۱۹۳۶ میں گاندھی جی سے ملاقات کا احوال لکھا ہے۔یہ وہ دور تھا جب ہندوستانی سیاست تیزی سے کروٹ بدل رہی تھی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کا عفریت اپنے دہانے کھول رہا تھا۔شورش نے گاندھی سے ملاقات کے دوران کئی سوالات کیے،جن کے جواب گاندھی جی نے بڑے انشراح و اعتماد کے ساتھ دیا،جو ان کا انداز تھا۔ان سوالوں میں سے ایک سوال مسلم لیڈرشپ کے بارے میں تھا،انھوں نے پوچھا:
’’ مسلمانوں کی ناکامی کا سبب کیاہے؟‘‘۔
گاندھی نے جواب دیا:
’’میں سمجھتاہوں کہ ان میں کوئی شخص بھی فقیری کرنا نہیں چاہتا؛بلکہ فقیری سے اٹھ کر شہنشاہی کر رہا ہے۔قومی خدمت صرف فقیری کرنے سے ہوتی ہے‘‘۔
شورش نے گاندھی کے اس جواب کا خاص پس منظر بیان کیاہے؛لیکن اگر ہم پچھلے سو ڈیڑھ سو سال کی مسلم سیاست ،قیادت پر نظر ڈالیں تو گاندھی کی یہ بات کتنی سچی ہے؛بلکہ اگر آپ خالی الذہن ہوکر تحریکِ آزادی کے دوران صرف مسلمانوں کے پلیٹ فارم سے بننے والی سیاسی پارٹیوں کا سرسری جائزہ لیں،تو گاندھی کی اس بات کی سچائی اور بھی روشن ہوکر سامنے آئے گی ۔آزادی سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ کے علاوہ درجنوں خالص مسلم سیاسی جماعتیں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ تمام مسلمانوں کی نمایندگی کا تھا۔خود مسلم لیگ جس نے مسلمانوں کے تحفظ و خود مختاری کے لیے پاکستان بنوایا،اس سے ٹوٹ کر اب تک وہاں لگ بھگ دودرجن سیاسی جماعتیں بن چکی ہیں۔ آزاد ہندوستان میں بھی ’’مسلم قیادت و سیاست‘‘کے کئی طوفان گزر چکے ہیں،اگر ان کی تاریخ دیکھ لی جائے ،تو اس سے بھی گاندھی کے ’’قومی خدمت‘‘اور ’’فقیری‘‘کے معنی سمجھے جاسکتے ہیں۔
حالیہ پانچ چھ سالوں کے دوران حکومت کی متعصبانہ پالیسیوں اور مبینہ سیکولر جماعتوں کی مسلمانوں سے کنارہ کشی کی وجہ سے جنوبی ہند کے سیاست داں اور ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کو میدان خالی ملا اور انھوں نے مسلم مسائل پر کھل کر بولنا شروع کیا،جس کے نتیجے میں مودی حکومت کے پہلے دور کے شروع ہوتے ہی وہ قومی سطح کے مسلم لیڈر بن گئے اور پھر بتدریج مسلمانوں کے بہت بڑے طبقے میں ایک بار پھر ’’اپنی قیادت‘‘ اور ’’اپنی سیاست‘‘ کو فروغ دینے کا جذبہ پیدا ہوا ہے،مگر حیرت ؛بلکہ المیہ ہے کہ ایسا ہر شخص اِس چکر میں ہے کہ اسی کو قائدِاعظم مان لیا جائے اور باقی سارے لوگ اس کی جھنڈا برداری کرتے نظر آئیں۔سوشل میڈیا پر مفکری کی باڑھ آئی ہوئی ہے اور چوک چوراہوں پر سیاسی پھکیت اپنی ہفوات کو اتنی خود اعتمادی سے پیش کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے قوم کی نجات و ترقی کا تیر بہ ہدف نسخہ بس اسی مہاپرش کے پاس ہے۔
بہار الیکشن کے موجودہ منظرنامے پر غور کیجیے تو جو پارٹیاں مسلمانوں کے زخموں کا مداوا کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں،خود ان کی سمتیں بھی مختلف ہیں،مثال کے طورپر مجلس کسی اور اتحاد میں شامل ہے،جبکہ ایس ڈی پی آئی کسی دوسرے اتحاد کا حصہ ہے،جو کہ من حیث المجموع بہار الیکشن کا چوتھا اتحاد ہے۔ پھر مجلس کا اتحاد بھی بی ایس پی اور اوپندر کشواہا کی پارٹی سے ہے،جن کا بھی کچھ پتا نہیں کہ کیا گل کھلائیں گے۔ مایاوتی کی تاریخ بھی پلٹی بازی کی ہے اور کشواہا تو خیر این ڈی اے کے ذریعے ہی قومی سیاست میں نمایاں ہوئے ہیں اور مرکزی وزیر بھی رہے ہیں۔اس اتحاد میں اور بھی پارٹیاں شامل ہیں،مگر مرکز میں یہی تینوں ہیں اور یہ اتحاد پورے بہار میں الیکشن لڑ رہاہے۔ایس ڈی پی آئی نے چندرشیکھر آزاد اور پپو یادو والے الائنس میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے اور یہ الائنس بھی پورے صوبے میں الیکشن لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ان سے ،خصوصاً مجلس سے وابستہ کارکنان کا ردِعمل عجیب و غریب ہے۔ عام طورپر وہ اپنا موقف معروضیت کے ساتھ رکھنے کی بجاے دوسروں پر تبرے بازی پر اتر آتے ہیں، جو سیاست کے علاوہ عام زندگی میں بھی حد درجہ مذموم ہے اور ایسی حرکتوں سے آپ کے انفرادی کیرکٹر کی ہی پول نہیں کھلتی،پوری جماعت کی اصل شبیہ سامنے آتی ہے۔
دوسری طرف کچھ لوگ جو سیاسی طبع آزمائی کے لیے مجلس سے وابستہ ہوگئے تھے اور اس امید میں تھے کہ الیکشن لڑنے اور’’اسلام کی خدمت کرنے‘‘کا موقع ملے گا،جب انھیں ’’کسی وجہ ‘‘سے ٹکٹ نہیں دیا گیا،تووہ ایک سے بڑھ کر ایک انکشاف کر رہے ہیں۔اب تک کئی لوگ سوشل میڈیا پر آکر یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مجلس نے لیاقت کی بجاے پیسے کو ٹکٹ کا معیار بنایا ہوا ہے اور بہار کے صںدرِ مجلس سمیت ان کے بعض خاص معاونین پر بھی پیسے لے کر ٹکٹ دینے کے الزامات لگ رہے ہیں،حالاں کہ یہ بات تو سارا ملک جانتا ہے کہ دوایک پارٹیوں کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو مفت میں ٹکٹ نہیں دیتیں ؛لیکن اس کو سیاسی اخلاقیات یا مجبوری یا کچھ بھی کہیے کہ ایسی باتیں بس نجی محفلوں میں ہوتی ہیں،قومی سطح پر یہ کبھی موضوعِ بحث نہیں رہا۔
اب ان الزام لگانے والوں کی باتیں درست ہیں یا نہیں،اس کی وضاحت تو پارٹی کے ذمے داران کریں گے۔خبریں تو ایسی بھی آرہی ہیں کہ بعض ناراض کارکنان کو مجلس نے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے، مگر اس پورے سلسلۂ واردات سے دوباتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ایک تو یہ کہ جو لوگ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں ،مجلس کی قیادت کو کوس رہے ہیں اور اس کا بھانڈا پھوڑنے کا دعویٰ کررہے ہیں،وہ کبھی بھی نہ مجلس کے تئیں مخلص رہے اور نہ اپنے اس دعوے میں کہ وہ مسلمانوں کے لیے فلاں فلاں تیر ماریں گے۔دوسری یہ کہ خود مجلس کو اُسی طرح کی ایک سیاسی پارٹی سمجھنا چاہیے،جیسی ملک کی دوسری بڑی چھوٹی پارٹیاں ہیں، جو موقع لگنے پر کسی سے بھی اتحاد کر سکتی ہے اور امیدواروں کے انتخاب میں اس کا معیار بھی وہی ہے،جو دوسری پارٹیوں کا ہے،باقی کہنے اور اپنے لوگوں کو Motivateکرنے کے لیے بے شمار باتیں ہوسکتی ہیں ۔اویسی بلا شبہ ایک قابل سیاست دان ہیں اور انھوں نے مسلمانوں سے متعلق مسائل پر کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے، مگر ایسے اور بھی بہت سے لوگ ہیں اور ان میں سے کچھ تو غیر مسلم بھی ہیں۔تو آپ اپنی صوابدید کے مطابق کسی بھی جماعت سے وابستگی اختیار کر کیجیے اور خلوص کے ساتھ سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیجیے ؛لیکن فکر و عمل میں اعتدال و وسطیت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔نہ کسی کی حمایت میں اندھا ہوجانا چاہیے اور نہ مخالفت میں حد سے گزرنا چاہیے،دونوں صورتیں مضر ہیں اور ہر حال میں مضر ہیں۔ آپ مجلس کو بھی ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح ایک سیاسی پارٹی مان کر چلیے اور اگر دل چاہے تو اس کے پلیٹ فارم سے کام کیجیے،ایسے میں اگر خدا نخواستہ پارٹی سے کبھی آپ کا’’موہ بھنگ‘‘بھی ہوا،تو زیادہ تکلیف نہیں ہوگی؛لیکن اگر کہیں یہ سوچ کر اس سے وابستگی اختیار کرلی کہ مجلس کے جیتتے ہی مسلمانوں کے سارے مسائل ہوا ہو جائیں گے اور اویسی ’’اردوانِ ہند‘‘ہیں ،پھر کسی موقعے پر پارٹی یا اس کے قائدین آپ کی امیدوں پر کھرے نہیں اترے،تو ایسے میں تکلیف شدید ہوگی؛بلکہ بہت شدید ہوگی۔
پٹنہ:بہاراسمبلی انتخابات 2020 سے پہلے بہار کے سابق ڈی جی پی گپتیشور پانڈے نے اپنی سیاسی اننگ کا آغاز کردیا ہے اوروہ باضابطہ طورپرجدیومیں شامل ہوگئے ہیں۔سوشانت کیس کوہائی لائیٹ کرنے اورپھراس پرسیاست گرمانے کے بعدہی ان کے جدیوکے لیے کام کرنے کی قیاس آرائیاں ہورہی تھیں۔وہ جدیوکے معاون مانے جاتے رہے ہیں۔ بہارکے سابق ڈی جی پی گپتیشور پانڈے بہار انتخابات سے قبل جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) میں شامل ہوگئے ہیں۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمارکی موجودگی میں ، گپتیشور پانڈے نے جے ڈی یو کی رکنیت حاصل کی ہے۔کل انھوں نے وزیراعلیٰ سے ملاقات کی تھی۔استعفے کے فوراََبعدبی جے پی نے این ڈی اے میں خیرمقد م کرناشروع کردیاتھااورآج بھی گری راج سنگھ نے ان کی تعریف کی ہے۔
بہار الیکشن کے موضوع پر کل میں نے ایک تحریر پوسٹ کی تھی متعدد احباب نے اسے حوصلہ افزا قرار دیا تاہم ہمیں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ خواہشات پر مبنی سوچ wishful thinking اور زمینی حقیقت دو مختلف باتیں ہیں ان دونوں میں تطابق ممکن تو ہے مگر محنت اور صبر طلب ہے۔ یہ کوئی overnight process یعنی راتوں رات کسی پارٹی کا وجود میں آنا یا کسی ریاست میں جا کر اپنی حیثیت تسلیم کرانا محض جذباتی باتیں نہیں جہد مسلسل اور grassroots level پر کام چاہتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ انتخابی سیاست اب اتنی سہل نہیں کہ کوئی سرگرم سماجی کارکن ارادہ کرے اور پارٹی اسے ٹکٹ دیدے۔ اس کی تمام عوامی خدمات کے باوجود مذہب اور برادری کو عذر بنا کر یعنی یہ کہہ کر کہ ‘دوسری جات یا دھرم والے آپ کو قبول نہیں کریں گے’ پارٹی ٹکٹ دینے سے انکار کر دیتی ہے۔
تیسری بات یہ کہ پارٹی lobbying اور پیسے خرچ کرنے کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ٹکٹ دیتی ہے۔ بعض پارٹیاں خصوصا دو بڑی پارٹیاں امیدوار کو الیکشن لڑنے کے اخراجات دیتی ہیں تو دوسری کچھ ایسی پارٹیاں بھی ہیں جو پیسوں کے عوض ٹکٹ دیتی ہیں۔
الیکشن لڑنے کے لئے پچاس لاکھ سے ایک کروڑ تک بھی رقم درکار ہوتی ہے۔ سرمایہ کار، ٹھکیدار، بڑے تاجر اپنے مفادات کی برآری کے لئے متوقع جیتنے والے امیدواروں کو فائننس کرتے ہیں تاکہ جیتنے کے بعد ان سے کام لیا جا سکے۔
ایسے میں صاف ستھری سیاست اور "سیاست ذرا ہٹ کے” کی بات کرنا معقول نظر نہیں آتا۔ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو مثالی باتیں کون قبول کرے گا سب کی زبان پر ایک ہی بات آتی ہے کہ ایک چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا اس لیے اس سسٹم سے ہٹ کر سوچنے کا فائدہ نہیں۔
لیکن میں کہتا ہوں کہ اس کو خاطر میں لائے بغیر کہ وہ جیتے گا یا نہیں، اچھے لوگوں کو سامنے لائیں ان کی شکست میں بھی خیر کا پہلو یہ ہے کہ اس بار ان کی پہچان بنے گی پھر رفتہ رفتہ بلا تفریق مذہب و ذات برادری عوامی خدمت سے ان کی مقبولیت بڑھے گی۔ یہ آپ کے نوٹا (فہرست میں مذکور امیدواروں میں سے کوئی نہیں) سے بہتر ہے۔ جب تک آپ زمینی پکڑ نہیں بنائیں گے آپ حقیقی طور پر عوامی نمائندگی کے لائق نہیں ہوں گے۔ ہر پانچ سال کے بعد جاگیں گے اور الیکشن میں شکست کے بعد پھر سو جائیں گے۔
کسان ترمیمی ایکٹ کے خلاف تحریک بہارپہنچی،آرجے ڈی 25 ستمبرسے سڑکوں پراترے گی
پٹنہ:آر جے ڈی کسان بل کوایک اہم انتخابی مسئلہ کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ پارٹی کسانوں کی کمر پر ہاتھ ڈال کر ووٹ حاصل کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔تیجسوی یادو کی قیادت میں پارٹی کارکنان اور لیڈران 25 ستمبر سے سڑکوں پراحتجاج کریں گے۔تیجسوی یادونے بدھ کے روز پریس کانفرنس میں کہاہے کہ کسانوں کے ساتھ دھوکہ کیا جارہا ہے۔ پارٹی اس کو برداشت نہیں کرے گی اور ہر سطح پر لڑنے کے لیے تیارہے۔ ایک سوال کے جواب میں تیجسوی یادونے کہا کہ آر جے ڈی ہمیشہ سے کسانوں کے ساتھ رہی ہے اور رہے گی۔ وہ اس مسئلے پر ہر لڑائی لڑنے کے لیے تیارہے۔تیجسوی یادو نے وزیر اعظم پر طنزیہ لہجے میں کہا کہ جن کاشتکاروں نے پیٹ بھر ا آج ان پر حملہ کیا جارہا ہے۔ کسانوں کی اذیت کو بیان کرتے ہوئے تیجسوی یادونے کہا کہ آر جے ڈی ان کے ساتھ ہے۔ جے جوان اورجے کسان کا نعرہ ہمیشہ رہا ہے ، اسی بنا پر حکومت سے جوابات طلب کیے جائیں گے۔بدھ کے روز تیجسوی یادونے آر جے ڈی آفس سے تشہیر ی رتھ کو بھی روانہ کیا۔
ترجمہ : نورالزماں ارشد
عام لوگوں کے علاوہ تاریخ دانوں کے مابین بھی یہ تصورعام ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت ’دوقومی نظریہ‘ (Two Nation Theory)کے حق میں تھی۔ یہ تصور مسلمانوں سے نفرت کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ حالانکہ بہار میں لیگ کے علیحدگی پسندی پر مبنی رجحانات و فرقہ پرستانہ سیاست کی مخالفت و مزاحمت میں امارت شرعیہ، جمعیۃ العلما، شیعہ ، مومن و راعین اور ان کی جماعتوں کے علاوہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادکمر بستہ تھی۔اس تناظر میں یہاں بہار کے حوالے سے تاریخی تفصیلات دی جارہی ہیں۔
صرف مسلمانوں پر تقسیم ہند کا الزام عایدکرنے کی سیاست کی تردید کے لیے بہار کی مثال ضروری ہے ۔ مسلمانوں کی جانب سے علاحدگی پسندی کی مخالفت اور مزاحمت پنجاب، بنگال اور اترپردیش میں بھی تھی۔ لیکن مسلم لیگ کی فرقہ پرستانہ سیاست کے خلاف سب سے زیادہ سخت آواز بہار کی مسلم قیادت نے اٹھائی تھی۔ مشترکہ اور متحدہ وطنیت کے لیے بہار کے مسلمانوں نے کہیں زیادہ وابستگی ظاہر کی۔ شاہ محمد (۱۹۷۸- ۱۸۹۴) نے اپنی سوانح حیات ’تلاش منزل‘ میں پہلی باراس پر اپنا اظہار خیال پیش کیا۔ اس کتاب کو ۴۴-۱۹۴۲ء میں تب لکھا گیا تھا جب وہ ۱۹۴۲ء کے بھارت چھوڑو آندولن میں حصہ لینے پر ہزاری باغ جیل میں قید تھے۔ یہ کتاب ۱۹۶۷ء میں شائع ہوئی تھی۔
جہاں تک مسلم لیگ کے لاہور اجلاس اور پاکستان کی تجویز کی قبولیت کا تعلق ہے، تو اجلاس میں شرکت بڑھانے کے لیے بڑی تعداد میںاشتعال انگیز پروپگنڈا اور سرگرم مہم چل رہی تھی۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تیزی سے بدلتے مناظر میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہب اور مذہبی مقامات کا استعمال کھل کر کیاگیا۔ مسلمانوں اور متعلقہ قوم پرست گروہوں نے ۲۹-۲۷؍اپریل ۱۹۴۰ کو دہلی میں ایک کانفرنس منعقد کی، تاکہ مسلم فرقہ پرستوں کی رجعت پسندی اور تخریبی طاقتوں کو شکست دی جاسکے۔ اس اجلاس میں ہندو مسلم اتحاد اور مذہبی رواداری پر زور دیا گیا۔
’’نقیب‘‘ نے دو قومی نظریہ کو مسترد کردیا:
مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد (۱۹۴۰-۱۸۸۰ء) نے لیگ کی علاحدگی پسندی کے خلاف انتہائی بہترین اور تیز ردعمل کا اظہار امارت شرعیہ کے اردوہفتہ واراخبار نقیب کے ۱۴؍اپریل ۱۹۴۰ء کے شمارے میں کیا۔ اس طویل مضمون کا عنوان ’مسلم انڈیا اور ہندوانڈیا کی اسکیم پر ایک اہم تبصرہ‘ تھا۔ یہ عنوان نہ صرف امارت شرعیہ (۱۹۲۱ء) کے سیاسی نظریے کی عکاسی کرتا ہے بلکہ استعمار کے خلاف اسلامی وسائل کے استعمال کا تحریری ثبوت بھی پیش کرتا ہے۔ مولانا سجاد نے جناح و ان کے ساتھیوں کے سامنے کچھ بے حد مشکل سوال رکھ دیے۔ ہندو اکثریتی صوبوں میںمسلمانوں پر ہورہے ظلم و ستم پر جناح و لیگ کے رہنما ہائے توبہ مچارہے تھے، جبکہ وہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک بنانا چاہتے تھے۔ مولانا سجاد نے لوگوں سے اپیل کی کہ ہندو و مسلمان مل کر مکمل آزادی کے لیے جدو جہد کریں اور ایک ایسا جمہوری ہندوستان قائم کرنا چاہئے جہاں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے ماتحت نہیں ہوں گے۔
اس سے قبل نقیب (۲۰؍فروری ۱۹۴۰ء) میں مولانا سجاد نے فرقہ وارانہ تنازعہ کے حل کے لیے کچھ حد تک جارحانہ تجاویز پیش کی تھیں۔ اپنے مضمون ’فرقہ ورانہ معاملات کا فیصلہ کن اصولوں پر ہونا چاہیے‘؟ میں لکھتے ہیں کہ کسی کو بھی اپنے مذہبی عقیدے کو عوامی شعبے میںاس طرح ظاہر نہیں کرنا چاہئے کہ یہ دوسروں کے عقیدے کے لیے بھی بحران پیدا کردے۔ اسے ذاتی حد تک ہی محدود ہونا چاہیے۔ جناح سے ہوئے خط و کتابت میں انھوں نے اس بات کاذکر کیا ہے کہ لیگ نے جاگیرداروں اور سرمایہ دارانہ مسلمانوں کے برعکس عام مسلمانوں کے لیے کسی بھی طرح کا کوئی تعمیری اقتصادی پروگرام پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ علیحدہ قومی ریاست کو عمل میں لانے والی لیگ کی حکمتوں کے خلاف مولانا سجاد کی دانشورانہ تنقیدان کے فکر کی عکاسی کرتی ہےکہ آنے والے وقت میں مذہب کے نام پر جذباتی استحصال کا ہتھیار نہیں بننا چاہیے۔
امارت شرعیہ کے مولانا سجاد کی ہی طرح دیو بند کی قیادت بھی ہندوستان کے اتحاد کے لیے کھڑی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند نے بہت سارے دوسرے مسلم اداروں کے ساتھ مل کر ۳۰-۲۷؍اپریل ۱۹۴۰ء کو دہلی میں ’آزاد مسلم کانفرنس‘ کا انعقاد کیا۔ سید طفیل احمدمنگلوری (۱۹۴۶-۱۸۶۸ء) نے اپنی کتاب’ مسلمانوں کا وروشن مستقبل‘ میں لکھا ہے کہ الگ الگ علاقوں اور ریاستوں کے تقریباً ۷۵ ہزار افراد نے اس کانفرنس میںشرکت کی تھی۔ اس کانفرنس نے اقلیت کی آواز ہونے کا دعوی کیا۔ اس نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کا مقصد مکمل آزادی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے مذہبی اور فرقہ پرست حقوق کا تحفظ بھی ہے۔
بقول منگلوری ۶تا۸مئی ۱۹۴۴ء کو کلکتہ میں شیخ محمد جان کے زیر انتظام ’آل انڈیا مسلم مجلس‘ کے زیر اہتمام کچھ مسلم گروہ دہلی میں دوبارہ جمع ہوئے۔ آل انڈیا مسلم مجلس کا مقصدیہ تھا کہ ہندوستان بادستور ایک متحدہ ملک رہنا چاہیے۔ منگلوری نے خود ’مسلمانوں کاروشن مستقبل ۱۹۳۷ء کے پانچویں ایڈیشن میں پاکستان کے تخیل پرتنقید کی تھی۔ جس کے ذیلی عنوان کچھ اس طرح تھے۔ ’تاریخی پس منظر‘ پاکستان ایک بڑی رکاوٹ، کیسے مسلم اکثریتی صوبہ کو مسلم اقلیتی صوبہ میں تبدیل کردیا گیا۔(جناح،۱۹۱۶لکھنؤ معاہدہ)۔ اسی طرح جمعیۃ العلماء ہند کے مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی (۱۹۶۲-۱۹۰۱)نے۴۶-۱۹۴۵ کے انتخابات سے قبل ہی اپنے کتابچہ ’تحریک پاکستان پرایک نظر‘ میں لیگ کے نظریہ پاکستان پر تنقید کی تھی۔ یہ بجنور کے نیم ہفتہ وار’ مدینہ‘ میں شائع ہونے والے ان کے مضامین کا مجموعہ تھا۔
مسلمانوں کی بڑی تعداد آزاد مسلم کانفرنس کے ساتھ ہو، یہ لیگ اور برطانوی حکومت کے عین موافق نہ تھا۔ یہ بات حسین شہید سہروردی (۱۹۶۰-۱۸۹۲ء) اور لیوپولڈ امری(۱۹۵۵-۱۸۳۷ء) کے مابین ہوئے خط و کتابت سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس مراسلے میں آزاد پارٹی کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا گیا کہ مسلم لیگ بلاشبہ ہندوستانی مسلمانوں کے خیالات کی نمائندگی کرتی ہے۔
یہ مراسلت لیگ و برطانوی حکومت کی سازش کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ جب ستمبر ۱۹۴۴ء میں گاندھی جناح بات چیت چل رہی تھی، تو اس کو ناکام بنانے کے سرکاری منصوبے بھی چل رہے تھے۔ واویل نے کہا کہ ہم نے نچلے طبقوں کو کھینج کر اس میں شامل کیا اور ساتھ ہی دیگر بولنے والی اقلیتوں کو بھی واضح طور پر اکسایا کہ مسئلہ کے حل کی ہر کوشش ناکام کردیں۔
مومن کانفرنس کا لیگ کے خلاف احتجاج :
ایک اور تنظیم تھی مومن کانفرنس جو مستقل طور پر مسلم لیگ کے خلاف جدوجہد کررہی تھی۔ ۲۶-۱۹۲۵ء میں روہتاس میں قائم شدہ اس تنظیم کی شاخ بہار کے کئی اضلاع کے ساتھ ساتھ دوسری ریاستوں میں بھی تھی۔ اس سے پہلے ادارہ ’’فلاح المومنین‘‘ بھی تھا۔ اس کا ایک مقصد غیر اسلامی رذیل – شریف (کمترواشرافیہ) تقسیم بھی تھا۔ اسی دور میں مومن کانفرنس نے مسلم لیگ کے نعرے’ اسلام خطرے میںہے‘کی پر زور مخالفت کی۔ ۲۱؍اپریل ۱۹۴۰ء کو مسلم لیگ کی لاہور قرار داد کی مخالفت میں بہار ریاست مومن کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس میں عبدالقیوم انصاری (۱۹۷۴-۱۹۰۵ء)نے کہا ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ کہنا کفر ہے۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں فرقوں کے مابین لیگ کے ثقافتی عدم مساوات کے دلائل قابل اعتبار نہیں ہیں۔ لیگ کے پاکستان منصوبہ پر تنقید کرتے ہوئے اپنا موقف ظاہر کیا اور کہا کہ پلان ہندو اکثریتی صوبوں میںمسلمانوں کے تحفظ میں ناکام ہوجائے گا۔ عبدالقیوم انصاری نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ اگر منصوبۂ پاکستان عمل میں آجاتا ہے تو ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی زبان و ثقافت خطرے میں پڑجائے گی ۔جس کے تحفظ پر مسلم لیگ ہنگامہ آرا ہے ۔ اس کانفرنس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیاگیا کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں مومن اور دیگر مزدور طبقوں کو رذیل سمجھا جاتا ہے اور ویسا ہی عمل کیا جاتا ہے۔ لہذا پاکستان کے مطالبہ کی تائید کے لیے کانفرنس میں انصاری نے بھی حوصلہ افزائی کی کہ غیر اسلامی مسلم لیگ کے وجود کو ختم کرنے کے لیے ہر سچا مومن کوشش کرے۔
مومن کانفرنس کے مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے قیوم انصاری نے راجندر پرساد کے ساتھ ہوئے اپنے خط و کتابت (۳۰؍اکتوبر۱۹۳۹ء) میں بیان کیا کہ لیگ کو اشراف یعنی اعلیٰ طبقے کے افراد چلا رہے ہیں۔ وہ بظاہر غریب مسلم اور نچلے طبقوں کے خلاف ہیں۔ زیادہ تر مومن غریب اور پسماندہ ہیں۔ لہٰذا لیگ جیسی اشرافیہ تنظیم سے انکا کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔
دسمبر ۱۹۳۹ء میں انصاری نے جواہر لال نہرو کو ایک اور خط لکھا ،جس میں انھوں نے کہا کہ تاریخ اور تجربہ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ اعلیٰ طبقوں کے مسلمانوں کے زیر انتظام کسی بھی ادارے پر اعتبار نہ کریں، مسلم لیگ ایسا ہی ایک ادارہ ہے۔ گاندھی جی اور راجندر پرساد سے ۱۹۳۹ء میں ہوئی اپنی ایک مراسلت میںانصاری نے یہاں تک مطالبہ کیا کہ مرکزی اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں اوردستور ساز اسمبلی میں مسلم نشستوں کا ۵۰ فیصد مومنوں یعنی ارذال کے لیے مخصوص کیاجائے۔
لیگ اور مومن کانفرنس کے درمیان اختلافات اتنے گہرے تھے کہ ووٹ شماری کے معاملے پر بھی ابھر کر سامنے آگئے، بہار صوبائی مسلم لیگ نے مسلمانوں کو یہ ہدایت دی کہ خود کو بطور مسلمان رجسٹریشن کروائیں۔ لیکن مومن کانفرنس نے اس بنیاد پر اس کی مخالفت کی کہ یہ نوآبادیاتی ریکارڈ میںمومنوں کی تعداد کو کم کرنے کی سازش ہے۔ مومن کانفرنس نے اپنے ممبروں سے کہا کہ وہ خود کو مومن کے طور پر رجسٹریشن کروائیں۔
یہ ایک معمّہ ہی ہے اور تحقیق کا موضوع ہے کہ عبدالقیوم انصاری بی آر امبیڈکر (۱۹۵۶-۱۸۹۱ء) کے ساتھ کسی بھی گفتگو اور افہام و تفہیم کے لیے آگے کیوں نہیں آئے؟ امبیڈکر کی کتاب پاکستان یا تقسیم ہند سے پہلے ہی شائع ہوچکی تھی۔ اس میںامبیڈکر نے مسلمانوں میں ذات پات کے نظام کے وجود کی تردید کی تھی۔انصاری نے رام منوہر لوہیا (۶۷-۱۹۱۰ء) کے ساتھ بھی اس معاملے میں کوئی بات چیت نہیں کی۔ ہماری معلومات کے مطابق انھوں نے دستور ساز اسمبلی کے کسی بھی رکن کو متاثر کرنے کی کوشش نہیں کی کہ ارذال مسلمانوں کو درج فہرست ذات /نچلے طبقے (SC) کے زمرے میں شامل کیا جائے۔
راعین اور منصوریوں کا مسلم لیگ پر اعتراض
مومنوں کے علاوہ مسلمانوں کی کچھ دوسری پسماندہ جماعتیں بھی ۱۹۴۰ء تک کافی منظم ہوگئی تھیں۔ بہار میں راعین کانفرنس (قائم شدہ:۲۰؍اکتوبر۱۹۳۲ء ) نے زین الدین کی صدارت میں، آرا میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیاجس میں انھوں نے مومن کی طرح مسلم لیگ کی اشرافیہ سیاست پر تنقید کی۔
امتیازی سلوک کے لیے لیگ کوتنبیہ کرتے ہوئے انھوں نے یہ کہا کہ وہ لیگ اور اعلیٰ ذات کے مسلمانوں کے خلاف لڑائی جاری رکھیں گے۔ مومنوں کی طرح نچلی ذاتوں کی مشترکہ طاقتوں کے ساتھ وہ بھی کانگریس میں پناہ لیں گے۔ اس راہ پر چلتے ہوئے مسلمانوں کی منصوری (دُھنیا) برادری نے ایک ادارہ بہار جمعیت المنصور قائم کیا،جو ۱۹۳۰ سے ہی کام کررہا تھا۔ جمعیت المنصور کے علاوہ جمعیت القریش (۱۹۳۰میں قائم شدہ کسائیوں کی تنظیم) بہار میںمومن کانفرنس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی تھی۔
شیعوں نے جناح کو درکنار کیا
پسماندہ ذاتوں کی طرح مسلمانوں کے اہل تشیع نے بھی خود کو آل انڈیا شیعہ سیاسی کانفرنس کے طور پر منظم کیا۔ زیادہ تر شیعہ اشرافیہ ہی ہیں۔ بہار یونٹ کے شیعہ سیاسی کانفرنس نے ۱۸؍اپریل ۱۹۴۰ء کو چھپرا میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا۔ کانفرنس میں شامل تمام ممبران نے لیگ کی لاہور تجویز کی مذمت کی۔
۲۲؍اکتوبر ۱۹۴۴ء کو شیعہ سیاسی کانفرنس کے صدر سید علی ظہیر نے جناح کو ایک خط لکھا جس میںانھوں نے درخواست کی کہ مسلم لیگ مجوزہ پاکستان کے منصوبے میں شیعوںکی حیثیت کو واضح کرے۔انھوں نے مجوزہ پاکستان میں شیعوں کے لیے کچھ یقین دہانیوں کا مطالبہ کیا۔ ظہیر کے خط کے جواب میں جناح نے بظاہر کچھ نہیں کہا۔ یہ ابہام شیعہ سیاسی کانفرنس کو قبول نہ تھا۔
۳۱-۲۹؍دسمبر ۱۹۳۹ء کو چھپرا میں ہونے والے کانفرنس میں شیعہ سیاسی کانفرنس نے مخلوط طریقۂ انتخاب کا مطالبہ کیا۔ یہ جدا گانہ طریقۂ انتخاب کے خاتمے کا مطالبہ تھا۔ جلسہ میں کانفرنس کے جنرل سکریٹری جعفرحسین نے کہا کی شیعوں کے لیے یہ خطرناک ہوگا کہ وہ خود کو کانگریس سے دور رکھیں۔شیعہ سیاسی کانفرنس کے مقاصد کو پیش کرتے ہوئے مولوی سجاد نے کہا کہ شیعہ سیاسی کانفرنس کا مقصد ملک و قوم کے لیے زندہ رہنا اور مرنا ہے۔ انھوں نے مادر وطن کی آزادی کے لیے سب کچھ قربان کرنے پر بھی زور دیا۔ ’’سرچ لائٹ‘‘نے اپنے اداریہ میں لیگ کے ساتھ شیعہ رشتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ شیعہ منظم طور پر لیگ کے ساتھ نہیں ہیں اور اس کے ساتھ جانا بھی نہیں چاہتے ہیں۔
لیگ کے جداگانہ طریقۂ انتخاب کی منطق اورجھگڑے کی مخالفت کی بنیاد پر مومن، منصوری، راعین، شیعہ وغیرہ نظریات اور رجحانات کی جانچ پڑتال کے بعد انڈین نیشنل کانگریس کے مسلم سیاست دانوںکے خیالات و رجحانات کی جانچ کی جاسکتی ہے۔ لیگ کی لاہور تجویز پر انھوں نے کیا ردِ عمل ظاہر کیا؟ وہ اپنے رد عمل کے ساتھ عوامی سطح پرگئے ؟
سید محمود (۱۹۷۱-۱۸۸۹ء، کانگریس) نے لیگ کی لاہور تجویز پر سختی سے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دو قوموں کی تقسیم کے نظریہ اور منصوبے کی کوئی تاریخی اساس نہیں ہے۔ اس سے ہندوؤںیامسلمانوں کو نہیں بلکہ صرف انگریزوں کو فائدہ ہوگا۔
۲۹-۲۷؍اپریل ۱۹۴۰ء کو دہلی میں ہونے والی قوم پرست مسلمانوں کی کانفرنس میں شامل ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے عبدالباری، انیس الرحمن، ایس ایچ رضوی جیسے لوگوں نے کہا کہ تمام آزادی پسند، محب وطن مسلمانوں کو مسلم رجعت پسند تخریبی طاقتوں کو شکست دینے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔
اپریل۱۹۴۰ء میں دربھنگہ میں بہار ریاستی طلبہ کانفرنس نے اپنے جلسہ میںمسلم لیگ کی لاہور قرار داد کی کھلے طور پر مذمت کی اور غم و غصہ کا اظہار کیا۔ ۲۰؍اپریل ۱۹۴۰ء کو پٹنہ میں ’’یوم ہندوستان‘‘ کو جشن کی طرح منایاگیا۔ جس میں پاکستان کے منصوبے کی پرزور مذمت کی گئی۔ جلسے کو خطاب کرتے ہوئے عبدالباری نے اس معاملے کو اٹھانے کے لیے مسلم لیگ کی تنقید کی۔ لیگ کے پاس مسلمانوں کے لیے تخلیقی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ صرف وہی تحریک چل سکتی ہے جو لوگوں کی غربت، ناخواندگی، صحت اور معاشی پسماندگی جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کرتی ہو۔
سونپور میں ستیہ گرہ ٹریننگ کیمپ کے زیر اہتمام اپنے خطبات میں انھوں نے مسلم لیگ کے ارادوں کو شکست دینے کے لیے مسلمانوں سے براہ راست بات چیت کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ باری نے حسین احمد مدنی (۱۹۵۷-۱۸۷۹) رفیع احمد قدوائی (۱۹۵۴-۱۸۹۴ء) اور حافظ محمد ابراہیم (۱۹۶۸-۱۸۸۸) کے ساتھ مل کر تجویز پیش کی کہ کاشتکاروں کی فلاح و بہبود، اجرت میں کمی، مزدوری میں اضافہ، روزگار کی اسکیمیں نوآبادیاتی حکومت سے آزادی کے لیے ضروری شرائط ہیں۔
لیگ کے ارادوں کو مسمار کرنے کے لیے لیگ کے لاہور منصوبے سے کئی مہینے قبل ہی کوشش کی جارہی تھی۔ مسلم قیادت نے مسلمانوں کو ’لیگ سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ جنوری ۱۹۴۰ء انگریزی روز نامہ سرچ لائٹ میں عرب مسلمانوں کے ذریعہ جناح کی پرزورمذمت کی خبر موصول ہوئی۔ اس میں کہا گیا کہ جناح کے کارنامے غیر وقتی، غیر معقول اورغیرمفید ہیں۔
جمہور مسلم لیگ کی علیحدگی پسندی کے خلاف جدوجہد
مظفر پور کے مغفور احمد اعجازی (۱۹۶۶-۱۹۰۰ء) نے آل انڈیا جمہور مسلم لیگ (اپریل۱۹۴۰ء) صرف لیگ کی علیحدگی پسندی کی مخالفت کرنے کے لیے مظفر پور میں قائم کی تھی۔ لیگ کی لاہورتجویز کے خلاف اس نے گھر گھر جاکر(۴۷-۱۹۴۶ء) لوگوں سے ملاقات کرنے کی مہم چلائی۔ ۱۹۴۲ء میں انھوں نے اپنی لیگ کو کانگریس میں ضم کردیا۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اکثر ہورہے فرقہ وارانہ فسادات کے درمیان سائیکل پر گاؤں گاؤں کا دورہ کیا اور لیگ کی جدا گانہ قومیت کے خلاف مسلمانوں کو مذہبی انداز میں سمجھانے کی کوشش کی۔
متعدد مسلم پارٹیوں کی مسلم لیگ کی تجویز کی مخالفت کے باوجود گاندھی کا خیال تھا کہ لیگ مسلمانوں کی سب سے طاقتور تنظیم ہے اور جناح ہندوستانی مسلمانوں کے نمائندے ہیں ۔ گاندھی جیسی شخصیت کا جناح سے متعلق یہ خیال مومن کانفرنس کے لیے الجھن کی بات تھی۔مومن کانفرنس کا خیال تھا کہ ۱۹۳۹ء میں اگر کانگریس نے مسلمانوں کے چھ مطالبات کو تسلیم کرلیا ہوتا تو لیگ کے زہریلے دانت خود ہی ٹوٹ جاتے۔ ۱۹۴۰ء میں نہرو نے ان مطالبات کا جواب اس دلیل کے ساتھ دیا کہ نشستوں کے ریزرویشن سے کمیونٹی کمزور ہی ہوگی۔ یہ نہ توعملی ہے اور نہ ہی ضروری بلکہ اس کے برعکس یہ بہت خطرناک ہے۔
بہاری مسلمانوں کے علیحدگی پسندی اور نوآبادیاتی مخالف عزم کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ ۱۹۴۲ء کے بھارت چھوڑو آندولن میں بڑی تعداد میں شامل ہوئے۔ ۲۵ جولائی ۱۹۴۲ء کواپنے بیٹے کی موت کے باوجود مغفور ہمت کے ساتھ کھڑے رہے اور مضبوطی کے ساتھ بھارت چھوڑو آندولن ۱۹۴۲ء میںمظفر پور کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے رہیں۔ ۳؍ستمبر ۱۹۴۲ء کو سیتا مڑھی کے باجپٹی ریلوے اسٹیشن پر پولیس نے پانچ مسلمانوں کو شہید کردیا تھا۔
پٹنہ کے مشہور شاعر کلیم عاجز اپنی سوانح عمری میں یاد کرتے ہیں کہ پٹنہ میں بہار نیشنل کالج کے سامنے ایک نوجوان عبدالقدوس نے ایک ظالم پولس انسپکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پورے جوش میں نعرے لگائے بھارت چھوڑ دو، انقلاب زندہ باد۔ اس نے ایسا اثر ڈالا کی بالآخر وہ پولیس انسپکٹر اس قومی تحریک میں شامل ہوگیا۔
قوم پرست مسلم تنظیم اتنی مضبوط تھی کہ کانگریس کے بجائے امارت شرعیہ، جمعیت علماء اور مومن کانفرنس کے رہنما ہی ۱۹۴۶ء کی انتخابی مہم کی نگرانی کر رہے تھے۔ انتخاب سے عین پہلے جمعیت علماء بھی لیگ کی مخالفت میں آگئی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ مولانا مودودی (۷۹-۱۹۰۲ء) جمعیت علماء کے سابق رفیق اور ۱۹۲۵ میں اس کے ترجمان ’الجمعیۃ‘ کے مدیر تھے۔
ایسا اس لیے بھی ہوا کہ بعد میں الگ ہوکر انھوں نے ۱۱؍مارچ ۱۹۴۱ء کو پٹھان کوٹ(پنجاب) میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ لیگ کی پر زور مذمت کے بعد مولانا مودودی اس حد تک چلے گئے کہ جناح کی ذاتی زندگی اور پاکستان کے نظریے کی بھی شدید مذمت کی۔
۱؍مئی ۱۹۴۵ء کو لیگ کے اخبار ’’نوائے وقت‘‘ (لاہور) میں مودودی نے غیر منقسم ہندوستان میں ہندو مسلم مسئلہ کے حل کے لیے وفاقی نظام کے تحت تجاویز بھی پیش کیں۔ خاص طور سے مسلم اقلیتی صوبوں کے لیے۔ لیگ کے خلاف بہار کی تقریبا تمام بڑی تنظیمیں پر امید تھیں کہ وہ وسیع پیمانے پر انتخابی مہم چلاتے ہوئے اچھی نشستیں حاصل کریں گی ۔ یہاں تک کہ ۲ مارچ ۱۹۴۶ء کو راجندر پرساد کو بھی کانگریس سے منسلک تنظیموں کے بہار میں ۵۰ فیصد مسلم سیٹ حاصل کرنے کی توقع تھی۔ لیکن نتیجہ برخلاف اور صدمے کی طرح سامنے آیا۔ لیگ ۴۰ میں سے ۳۴ سیٹیں اپنے قبضہ میں کرنے میں کامیاب رہی۔ حالانکہ لیگ کو بھی ایسے نتائج کی توقع نہیں تھی۔ کانگریس نے مسلم حلقوں میں ۹؍امیدوار کھڑے کیے تھے لیکن کامیابی صرف ایک نے حاصل کی۔ کانگریس کے لیے سب سے بڑی پریشانی کا سبب پروفسیر عبدالباری کی شکست تھی جو تحریک خلافت کے دوان آزادی کی جدوجہد میں شامل تھے۔
۱۹۴۶ میں مسلم لیگ کی انتخابی فتح
یہ سوال ہمارے ذہن میں شدت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے کہ ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگ کی فتح کی وجہ کیا تھی؟ مورخین کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ نظریۂ پاکستان کی جغرافیائی غیر یقینی صورت حال جناح کی سیاست کی طاقت تھی، جس سے پاپیا گھوش قطعی متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ۱۹۴۰ء میں مسلم لیگ کی لاہور قرار داد کے وقت یہ بات بالکل واضح ہوگئی تھی کہ مسلم اقلیتی صوبوں کو نئے پاکسان سے دور رکھا جائے گا۔ لیگ کے بیشتر رہنماؤں کو یہ واضح کرنا پڑا کہ اگر اقلیتی صوبوں میں ہندو مسلمانوںکے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں تو ہم مسلم اکثریتی صدبوں میں بھی ٹھیک ویسا ہی رویہ اختیار کریں گے۔
تاریخ دانوں کا خیال کچھ بھی ہو، عموماً لوگ منتقلی کے خوف سے لیگ کے پاکستان کی حمایت کرنے پر راضی نہیں تھے۔ لہٰذا لیگ کو ایک زبردست پروپگنڈا مہم چلانی پڑی لوگوں کو یقین دلانے کے لیے ،لاہور قرار داد میں منتقلی کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیاگیا۔ نظریۂ ضمانت کو آگے بڑھانے کے پیچھے یہی مقصد تھا۔ لوگوں کو سمجھایا گیا کہ جو لوگ جہاں ہیں وہیں رہیں گے۔ ہندو ملک میں مسلمان اور مسلم ملک میں ہندو ضامن ہونے کے ناطے دونوں ممالک میں اقلیتوںکے تحفظ کی ضمانت بن جائیگی۔
’یاد گار زندگی‘ (۱۹۷۲ء) کے اے حمید کی سوانح عمری ہے۔ اس میں درج ہے کہ انھوں نے سردار پٹیل کو تقسیم پر ایک خصوصی رائے عامہ کے لیے تیار کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ سردار پٹیل خاموش رہے۔ بعد میں حمید کو یہ احساس ہوا کہ پٹیل نے من ہی من یہ قبول کرلیا ہے کہ اسے نظر انداز کرنا ان کی غلطی تھی۔
تاریخ دانوں کے مابین اس بات پر پرزور بحث ہوئی کہ اگر اس مسئلے پر عمومی طور پر بالغوں کی رائے دہی ہوئی ہوتی ،تو مسلم لیگ کے لیے ملک کو تقسیم کرپانا ناممکن ہونا۔ تاہم ۱۹۴۶ء کے انتخابات ایک طرح سے پاکستان کے لیے رائے عامہ ہموار ہونے کے مترادف تھے۔
اپریل ۱۹۴۶ء میں بہار کے وزیر اعلیٰ سری کرشن سنہا(۱۹۶۱-۱۸۸۷ء) نے کہا تھا کہ اقلیتوں کا کانگریس پر پختہ یقین ہے۔ سنہا نے اعتراف کیا کہ لیگ کی انتخابی جیت کا تعلق پرتشدد انتخابی مہم سے ہے۔ اس نے کافی حد تک مسلمانوں کو خوفزدہ کیا۔
ایک بات یہ بھی تھی کہ پڑھے لکھے مسلمان بھی نہیں سمجھتے تھے کہ پاکستان کا کیا مطلب ہے۔اگر پاکستان بنایا گیا تو کیا صحیح ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ ۱۹۴۶ء کے انتخاب میں ہندوستان کی کل آبادی (جس میں ہندومسلم بھی شامل ہیں) کے صرف ۱۳ فیصد کو ہی رائے دہی کا حق تھا۔ نیز رائے دہی کا حق جائداد کی ملکیت کی شرائط سے وابستہ تھا۔۶۴روپیہ سالانہ مالگزاری یا ۲۵۔روپے چوکیداری ٹیکس دینے والا ساتھ ہی ہائی اسکول پاس مرد و پڑھی لکھی عورتوں کو ہی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل تھا۔ نو آبادیاتی حکومت کو بخوبی اندازہ تھا کہ محدود رائے دہی کا حق جناح کی لیگ کے لیے مدد گار ثابت ہوگا۔
ہندو فرقہ پرستی: مہاسبھا- کانگریس کاگٹھ جوڑ
کانگریس کے مشہور رہنماؤں کے جیل میں ہونے کی وجہ سے ہی مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کا تیزی کے ساتھ زور بندھا۔ بہت سے کانگریسی ہندو مہا سبھا سے وابستہ تھے۔ غرض یہ کہ اسی سے مسلمانوں میں کانگریس کے خلاف عام عدم اطمینان پیدا ہوا۔ بہار میں بڑھتی فرقہ وارانہ کشیدگی کو مسلم لیگ نے کچھ حد تک اطمینان سے دیکھا۔ کیونکہ اس نے انتخابات میں نمایاں کامیابی کے لیے مواقع فراہم کیے۔ ۱۹۴۵ء کے بعد کانگریس قائدین نے ہندو مہاسبھا کے ساتھ انتخابی اتحاد کا اعلان کرنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ راجندرپرساد نے بھی اس سے اتفاق کیا۔ تاہم نہرو نے آگاہ کیا تھا کہ ایسا نظام لیگ کے پروپگنڈا کو مزید ہوا دے گا کہ کانگریس ہی اصل میں ہندو مہا سبھا ہے۔
انتخابات میں قوم پرست مسلم تنظیموں کی شکست کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس انتخابات لڑنے کے لیے بہت کم وسائل تھے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ نے انتخابی مہم میں بڑی رقم خرچ کی تھی۔ قائدین کو معلوم تھا کہ معاشی بے بسی انتخابات کے آخری نتائج میں بڑا کردار ادا کریگی اور مدد و تعاون کے لیے کانگریس سے خط و کتابت تک کرنی پڑی تھی، حالانکہ یہ درخواست نامنظور کردی گئی تھی۔ چنانچہ انتخابی شکست کی ایک بڑی وجہ قوم پرست سیاست دانوں کی مالی پسماندگی بھی تھی۔
دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ کانگریس اور قوم پرست مسلم تنظیمیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں ناکام رہیں۔ انتخابات میں ایک مشترکہ منشور کے سامنے نہ آنے کی وجہ سے انتخابی مہم نہ توواضح اور نہ ہی متفقہ رہی۔ مسلمانوں کے ساتھ ہورہے امتیازی سلوک لیگ کا اصل مسئلہ تھا۔ قوم پرست مسلمانوں نے کانگریس سے اس کو مسترد کرنے کے لیے کچھ مطالبات کیے جن کی تکمیل نہ ہوسکی۔
بہت پہلے ۱۹۳۹ء سے ہی بہار کی قوم پرست مسلم تنظیموں (امارت شرعیہ) نے کانگریس کے خلاف مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے فاصلے کے خلاف کانگریس کو آگاہ کرنا شروع کردیا تھا۔ لیکن معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اسی وجہ سے پٹنہ سے تعلق رکھنے والے قوم پرست مسلمان محمد یونس کو یہ کہنا پڑا کہ کانگریس مسلمانوں سے عوامی تعلقات کے بارے میں بات کرتی اور لکھتی تو ہے، لیکن کرتی کچھ بھی نہیں۔ اس کے لیے کانگریس کے علاوہ کوئی اور ذمہ دار نہیں تھی۔
امارت شرعیہ کے نائب امیر شریعت اور جمعیت علماء ہند کے بہار یونٹ کے صدر مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد (۱۹۴۰-۱۸۸۰ء) نے نمبر ۱۹۳۹ء میں کانگریس کو ایک خط لکھا۔ اس میں کانگریس اور مسلمانوں کے بڑھتے فاصلوں کو ترجیح کے ساتھ دیکھنے کی درخواست کی گئی تھی۔ مسلم تعلقات عامہ کی بنیاد پر اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے صاف طور پر کہا تھا کہ صرف عوامی رابطہ ہونا چاہئے۔ یہاں ہندو عوام سے رابطہ عیسائی عوام سے رابطہ سکھ عوام سے رابطہ جیسی کوئی چیز نہیں۔ انھوں نے کانگریس پر لاتعداد غلطیوں کا الزام عائد کیا۔
انتخابی شکست کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ کانگریس کے اندر دائیں بازو کے عناصر نے اس پرچے کی سختی سے مذمت کی جس میں ان کے سیاسی بالادستی کو حکم عدولی مل سکتی تھی۔ ہر مسلم عوامی رابطہ کے ساتھ دائیں بازو کے کانگریسیوں کو ہندو کانگریس میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد کا سامنا کرنا پڑا۔
ضلع کانگریس کمیٹیاں خاموش پڑی رہیں۔ کانگریس میںمسلم مخالفت والے لوگ زیادہ تر صوبائی اور ضلع کمیٹی کے ہیڈ تھے۔ ان کاایک پاؤں ہندو مہا سبھا میں رہتا تھا کچھ لوگ فرقہ ورانہ فسادات میں بھی ملوث تھے۔ ان لوگوں نے بڑی چالاکی سے عوامی رابطہ مہم کے فنڈ کو کمزور کردیا۔
اس طرح عوامی رابطہ کی مہم کو ختم کرتے ہوئے کانگریس نے جناح کو بڑھتی فرقہ وارانہ کشیدگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔ مسلمانوں کا علیحدگی پسندی کی طرف منتقل ہونا آسان ہوگیا۔ کے- ایم- اشرف (۱۹۶۲-۱۹۰۳ء) نے اسے یوں درج کیاہے’’ کانگریس کی اس ناکامی کی وجہ سے مسلم لیگ راتوں رات ایک مکمل منظم طاقت بن کر ابھری‘‘۔
جئے پرکاش نارائن (۱۹۷۹-۱۹۰۲ء) نے بھی اپنی ’فرقہ وارانہ سوال پر نوٹ‘ میں کچھ ایسا ہی کہا تھا۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ کانگریس کو کچھ اہم اقدامات اٹھانے چاہییں۔ مثلاً مسلمانوں کی معاشی اصلاح کے لیے کام کرنا، کانگریس کمیٹی میں ان کی نمائندگی طے کرنا ،سرکاری نوکریوں میں حصہ داری طے کرنا اور قوم پرست مسلمانوں کی حمایت کرنا۔ سردار پٹیل نے بھی راجندر پرساد کو ۱۵؍اکتوبر ۱۹۳۸ء کو لکھے اپنے ایک خط میں اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ لارڈ واویل نے بھی سراینڈیو کلو (گورنر بمبئی) کو ۷؍اکتوبر ۱۹۴۶ء کو لکھا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی شکایت معاشی و سیاسی وجوہات سے تھی۔
صرف ۱۹۴۶ء کی لیگ کی انتخابی کامیابی نے پاکستان کو عملی شکل نہیں دی۔ پاکستان کو حقیقت بنایا نوآبادیاتی حکمرانوں نے، فرقہ پرستی کی طرف سے حمایت اور حوصلہ ملا۔ بنگال میں لیگ کی طرف سے براہ راست اقدام کے نتیجے میں ہندوؤں کے خلاف بھاری خونریزی ہوئی۔ اس کے رد عمل میں بہار کے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ بہت سے لوگ بے گھر ہوگئے اور بنگال جانے پر مجبور ہوگئے۔ یہی وہ جبری منتقلی تھی جس نے لیگ کی سازشوں کو کامیاب بنایا۔ بہار میں سب سے زیادہ حیران کن اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ کانگریس نہ صرف فسادات کی بھیڑ کو آگے بڑھانے میں شامل تھی بلکہ رہنمائی بھی کررہی تھی۔ گاندھی کے سامنے کچھ کانگریسیوں نے بھی فسادات میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔
مسلم لیگ یہ بھی جانتی تھی کہ انتخابی فتوحات کے باوجود کم از کم بہار میں وہ عوامی سطح پر تعاون حاصل کرنے میںناکام رہے گی۔ لہٰذا لیگ اس بات کو لیکر فکرمند تھی کہ مسلمانوں پر کس طرح اضافی گرفت بنائی جائے۔ ستمبر اکتوبر ۱۹۴۶ء کے بعد ہی (جب فسادات شروع ہوئے) لیگ نے اپنی فرقہ پرست سیاست کے لیے فسادات کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ اگر چہ بہار کے مہاجروں کے بنگال کی طرف جانے میں لیگ کا کوئی ہاتھ بھلے نہ ہو لیکن اکسانے میں ضرور تھا۔ بنگال میں لوگوں سے مفت زمین اور گھروں کا وعدہ کیاگیا تھا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے ان علاقوں کو بھی خیرباد کہہ دیا جو نسبتاً زیادہ پر امن تھے۔
لیگ کے کارکنان بہار میں امداد اور تعاون کے لیے سرگرم تھے۔ دوسری طرف سردار پٹیل (۱۹۵۰- ۱۸۷۵ء) نے بہار میں کسی بھی طرح کی امداد اور تعاون دینے سے صاف انکار کردیا۔ انھوں نے گاندھی کی مسلمانوں کی مدد اور اعتماد کی بحالی کے لیے پارٹی کی تجویز کو یکسر مسترد کردیا۔ انھوں نے تو یہاں تک کہا کہ بہار میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
بہار میں کانگریس اور اکثریتی فرقہ پرستی
اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ کانگریس ۱۹۴۷ء سے کئی دہائی قبل بہار میں ہندوطرز پر کافی حد تک فرقہ پرست ہوچکی تھی۔وائسرائے کا یہ پختہ خیال تھا کہ یوپی اور بہار میں ہونے والے فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کے لیے کانگریس کی نچلی سطح کی قیادت ذمہ دار ہے۔ فسادات بے شک طے شدہ تھے۔ کانگریس کارکنان کے ذریعہ طے شدہ بھی تھے۔ بہار کانگریس کے ایک رکن ایچ -بی- چندر نے راجندر پرساد کو لکھا کہ گاؤں میں ہندووں کے ہجوم نے قتل و غارت کو انجام دیا۔ لوگ وہی کام کر رہے تھے جو کانگریس قائدین نے نواکھالی(موجودہ بنگلہ دیش) کے بعد ان سے کرنے کو کہا تھا۔
نہ صرف یہ بلکہ گاندھی کی انکوائری کمیٹی کی تقرری کی تجویز کو بھی بہار حکومت نے ۱۳؍فرور ۱۹۴۷ء کو کافی دیر اور ہچکچاتے ہوئے منظور کیا تھا۔ سید محمود نے گاندھی کو لکھا کہ فسادات کے چار ماہ بعد بھی عدم اعتماد اور خوف کا ماحول ہے۔ لوگوں کے دلوں سے خوف کو دور کرنا ہی سب سے بڑا جرأت مندانہ فعل تھا۔ انھوںنے بھی واضح طور پر کہا تھا کہ وہ کانگریس ہی کی ممبر تھے جنہوں نے نواکھالی کا بدلہ لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ تقی رحیم (۹۹-۱۹۲۱ء) (ہم عصر اردو مصنف و سیاسی کارکن) نے سید محمود کے خط کے موضوعات کی تصدیق کرتے ہوئے یاد دلایاہے کہ کانگریسی اخبار روزنامہ سرچ لائٹ سمیت زیادہ تر اخبارات نے فرقہ وارانہ تشدد کو مزید ہوا دی۔
سید محمود کے خط (۱۷-۱۶؍فروری۱۹۴۷ء) کے جواب میں ۲؍ مارچ ۱۹۴۷ء کو گاندھی بذات خود پٹنہ نمودار ہوئے۔ اس واقعہ نے کانگریس کی شمولیت کو اور بھی واضح کردیا۔ متاثرہ علاقوں میں گاندھی کے پیدل جانے پر کانگریس وزرا نے احتجاج کیا ،بہار میں جانچ کمیٹی کے تشکیل دینے میں کانگریس کی عدم دلچسپی سے گاندھی نالاں تھے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ سری کرشن سنہا کو اس بات سے دو دفعہ آگاہ کیاگیا تھا لیکن وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ اگر حکومت جانچ کمیٹی تشکیل دینے کی طرف بڑھ گئی تو لیگ اس کا سیاسی فائدہ اٹھائے گی۔(سنہانے یقین دلایا تھا کہ ڈیوڈ عذرادوبین(۱۹۷۶-۱۸۹۳ء) پٹنہ ہائی کورٹ کے موجود جج کی سربراہی میں ایک جانچ کمیٹی تشکیل دی جائے گی) گاندھی نے اس کے علاوہ یہ بھی تجویز پیش کی تھی کہ سید محمود کو امداد اور تعاونی کاموں کا سربراہ مقرر کیا جائے لیکن وزرانے دوبارہ اسے مسترد کردیا۔
چنانچہ ایسی ہی وجوہات نے بہار کے مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ بہار کانگریس سمیت عام ہندو مسلمانوں کو ایک علیحدہ ملک کے زمرہ میں سمجھنے لگے ہیں۔ ۴۷-۱۹۴۶تک جیسا کہ گاندھی کہتے ہیں، ہندو بھی تقسیم چاہتے تھے۔ یہ کیفیت تو ایک وقت تک مسلمانوں کے دل و دماغ پر چھائی رہی۔ قوم پرست مسلمانوں کے لیے تقریبا یہ ناممکن ہوگیا تھاکہ وہ مسلم لیگ کو درکنار کرسکیں۔ ۱۹۴۶ء کے بہار فسادات نے آخر کار غیر منقسم ہندوستان کے خواب کو تباہ و برباد کردیا۔ فسادات کے بعد ان تنظیموں نے امداد اور تعاونی کاموں کے ساتھ لوگوں کو راضی کرنے اور یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ کہیں اور منتقل نہ ہوں۔ ۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو امارت شرعیہ کے ترجمان نقیب کے ایک اداریہ نے لیگ کے دو قومی نظریہ کے خلاف بحث کا آغاز کیا اور متحدہ قومیت یا مشترکہ ثقافت پر اپنے یقین کو دہرایا۔
المختصر یہ کہ بھارت کا بٹوارہ مقابلہ جاتی فرقہ پرستانہ سیاست کی وجہ سے ہوا۔ نوآبادیات سے پہلے ہندوستان میں کوئی فرقہ پرستانہ سیاست نہیں تھی ۔ موقع پرستانہ سیاست کے اس کھیل میں مسلمانوں کو تقسیم ہند کے لیے ذمہ دار ٹھہرانا صریحاً غلط ہوگا؛بلکہ اس کو صحیح تاریخی پس منظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
( یہ مضمون پروفیسر محمد سجادکی کتاب Muslim Politics in Bihar: Changing Contours, Routledge2014/2018(Repint) کے چوتھے باب سے ماخوذ ہے)
(معاون ناظم امارت شرعیہ پٹنہ)
گذشتہ چندسالوں کے دوران ہمارے ملک میں نفرت و تعصب نے پنجے گاڑ دیے ہیں،جس کے نتیجے میں فرقہ واریت کی آگ نے مختلف ریاستوں کو جھلساکر رکھ دیا ہے۔مذہبی رواداری اور بھائی چارہ کا انوکھا اور بے مثال ملک بھارت رفتہ رفتہ شدت پسندوں کاشکار ہو تا جا رہا ہے، کرسی اور اقتدار کی بے انتہا ہوس نے ایک خاص جماعت کو ایسا اندھا کر دیا ہے، جس نے روادا ری کی جگہ تشدد، پریم کی جگہ نفرت، پھول کی جگہ کانٹے اورملک کے شہریوں کے دلوں میں دوسرے شہریوں کے تئیں محبت و دوستی کے بجائے دشمنی و عداوت پیداکرنے کاظالمانہ کام انجام دیا ہے۔ ایسی سیاست کا بُر ا ہو، جس نے ملک کے امن و امان اور ا س کی صدیوں پرانی قومی یکجہتی کو صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے پامال کر رکھا ہے، کب اور کس جگہ زہریلی ہوا اور نفرت کی فضا چھا جائے،کہنا مشکل ہے۔ جو ملک کی موجودہ صورت حال ہے، اسے دیکھ کر کسی طرح یقین نہیں آتاکہ یہ مہاتمابودھ، شری مہاویر جین، گرو نانک، خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور ان جیسے سیکڑوں محبت اور انسانیت کے علم برداروں کا وہی ملک ہے، جس کی مقدس زمین پر انہوں نے بھائی چارہ وانسانی رواداری کا درس دیا تھا۔ خیر ابھی بھی اس سر زمین پر انسانیت کے داعی، اخوت و بھائی چارے کے علم بردار، قومی یکجہتی کے نقیب اور گنگا جمنی تہذیب کے نمائندہ افرادو جماعتیں زندہ ہیں، جن کے دم سے اس گلستاں میں زندگی کا رنگ و بو اور اس چمن کی آبرو باقی ہے،انہیں میں ملک کی ایک عظیم سو سالہ پرانی تنظیم ”امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ“ ہے، جو پورے ملک میں اپنے دوسرے ملی و اجتماعی کارناموں کے ساتھ انسانیت نوازی اور خدمت خلق کے میدان میں بھی ممتاز ہے، ملک کی صف اول کے اس عالی شان ادارے نے جہاں جنگ آزادی میں نمایاں قربانیاں پیش کیں، وہیں آزادی کے بعد سے آج تک مسلسل ملک کی سا لمیت،قومی یگانگت، انسانی ہمدردی، سماجی بھائی چارہ، مذہبی رواداری اور فرقہ وارنہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے روشن و تابناک خدمات انجام دی ہیں جو لائق ستائش بھی ہیں اور قابل تقلید بھی۔
اس طویل ترین سفر میں ملک اور اس کی ریاستوں نے نہ جانے کتنی کروٹیں لی ہیں اور حالات نے کتنی نزاکتیں پیدا کی ہیں، سیاسی موجوں نے بارہا ملک کے پرسکون حالات میں تلاطم و اضطراب پیدا کرنے کی ناپاک کوششیں کی ہیں، جن کا شمار نہیں، مگر ہر دوراور ہر حال میں امارت شرعیہ کے اکابر و ذمہ داران نے ملک کی سماجی ساکھ اور اس کے تہذیبی وقار کو بچانے کا بے مثال کارنامہ انجام دیا ہے۔ جب بھی نفرت کے سوداگروں نے انسانی جانوں کا سودا کرنا چاہا تو اس تنظیم کے رہنماؤں نے آگے بڑھ کر ان کے ظالم ہاتھوں کو جرأت مندی اور پامردی سے روکنے کا کام سرا نجام دیا ہے۔جب بھی ظالموں نے ظلم و ستم کا بازار گرم کرنا چاہا تو اس ادارہ نے پوری قوت سے ان کے گریبان کو پکڑا ہے اور بروقت ایسے عناصر کے خاتمے کی کوشش کی ہے، اس تنظیم کا امتیازی وصف رہا ہے کہ جب نازک وقت میں اچھے اچھوں کی زبانیں حکومت وقت کے سامنے خاموش تھیں تو اس کے اکابرین وقت کے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دلیرانہ مکالمہ فرما رہے تھے اور ملک کی سالمیت و تحفظ کا فریضہ ادا کررہے تھے، جب وقت کی بر سر اقتدار حکومت اپنی ناکامی کاالزام ملک کی معصوم عوام کے سر تھوپ رہی تھی تو تاریخ شاہد ہے کہ اس ادارہ کے غیور و بے باک رہنما چوتھے امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ نے حکومت کو للکارتے ہوئے اس کے فرائض منصبی یاد دلائے۔
الحاصل امارت شرعیہ نے اپنے پہلے ہی دن سے ملک کی قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو اپنا موضوع بنا کرایک ایسی عظیم خدمت انجام دی ہے، جس کی مثال آزاد ہندوستان میں ملنی مشکل ہے۔ اس سلسلہ میں امارت شرعیہ کا طریقہئ کار نہایت مؤثر اور عملی ہے، اس کے نمائندوں سے متعلقہ تین ریاستوں؛بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ میں کوئی مسلم بستی خالی نہیں ہے، ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں اس کے نمائندے اور نقیب ہیں، جو رضاکارانہ طور پر سماجی اور رفاہی خدمات انجام دیتے ہیں۔انسانی بنیادوں پر بے لوث ہو کر کام انجام دیناان کی پہچان ہے،در اصل امارت شرعیہ کے ضابطہ کی پہلی سطر انسانیت کی فلاح وبہبود پر مشتمل ہے، جس سے اصلاح و درستگی، ملکی خیر سگالی، باہمی اخوت و محبت، سماجی بھائی چارہ اور بے شمار خیر و بھلائی کے سوتے پھوٹتے ہیں،اگر اس مخلص انسانی ادارے کی یہی ایک بات سچائی کے ترازو میں تولی جائے تو ملک کی ان گنت مقامی و قومی سیاسی جماعتوں کی کم مائیگی اور ہلکا پن روشن سورج کی طرح سامنے آجائے گا۔اگر صحیح طور پر جائزہ لیا جائے تو در حقیقت امارت شرعیہ نے ان سیاسی تنظیموں کو موقع بہ موقع سماجی و انسانی خدمت، ملکی ثقافت، باہمی محبت اور فکر انسانیت کا سبق پڑھایا ہے اور جب بھی وہ بے راہ روی کا شکار ہوئی ہیں تو ان کی صحیح سمت میں رہنمائی کی ہے۔
مفاد پرست، تشدد پسند اورمذہبی سیاست کے نتیجے میں چند دہائیوں سے جس طرح آئے دن مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کا انسانیت سوز کھیل کھیلا جا رہا ہے اور ملک کی قدیم سماجی محبت و یگانگت کا خاتمہ کیا جا رہا ہے، یہ پورے ملک کے لیے انتہائی تشویش کا موضوع ہے۔ خاص کر موجودہ بر سر اقتدار جماعت کے دورحکومت میں اکثریتی فرقے کی جانب سے اقلیتوں پر بڑی زیادتی ہورہی ہے۔اس دوران فرقہ وارانہ چھوٹے بڑے اتنے واقعات رونماہوئے ہیں جن کا شمار مشکل ہے، ان میں سیکڑوں جانوں اور اربوں کے اثاثے کا نقصان ہوا۔ رواں مہینے (اگست۰۲۰۲ء) کی پانچ تاریخ کو صدیوں پرانی بابری مسجد کی جگہ اور ایودھیا میں متنازع اراضی پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدپوری شان و شوکت سے رام مندر کی تقریب سنگ بنیاد میں جب سے بھومی پوجن کیا گیا ہے،اس کے بعد خصوصیت سے ریاست بہارمیں فرقہ وارانہ کشیدگی کانہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہو گیا ہے، دربھنگہ، سیتا مڑھی، جموئی، مظفر پور، مشرقی چمپارن، مدھوبنی وغیرہ اضلاع کے کئی علاقوں میں تسلسل کے ساتھ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو چکی ہے، جو اب بھی بعض خطوں میں رہ رہ کر سر ابھاررہی ہے، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اکثریتی فرقہ کے حوصلے کافی بلند ہو گئے ہیں، بہار کا اسمبلی الیکشن بھی مدنظر ہے،تاکہ اس کے نتائج حسب خواہ ظاہر ہوں، اور خاص نقطہئ نظر سے مختلف طبقوں میں بکھرے ووٹوں کا پولرائزیشن کیا جا سکے۔ بلوائیوں اور فتنہ پروروں کوفقط ہلکا سا شیرہ ملنا چاہئے، چھوٹی چھوٹی ناقابل توجہ اور معمولی باتوں کو بھی بڑی کشیدگی کا عنوان بنا دیا جارہا ہے، جس سے حکومت و انتظامیہ کو بھی شدید پریشانی لاحق ہے، لا ء اینڈآرڈر اور اخلاقی ضابطوں کی سر عام دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، لمحوں میں پورا کا پورا خطہ اور علاقہ کا علاقہ امن و امان سے محروم ہو کر خطرے میں گھر جا رہا ہے، ایسے برے اور نازک وقت میں جب امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ کے مرکزی دفتر سے اس کے مقامی نقیب یا منتخب صدر و سکریٹری رابطہ کرتے ہیں تو امارت شرعیہ بے چین ہو کر حکومت بہار اور اس کے اعلیٰ حکام و افسران سے فوری کارروائی کا تقاضہ کرتی ہے، پھرجلد از جلد ریاستی ذمہ داران ضلع انتظامیہ کوجائے واردات پر بھیج کر حالات کو قابو میں لانے کا انسانی فریضہ انجام دیتے ہیں،جس میں امارت شرعیہ کورات ودن ایک کرناپڑتا ہے،جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
زمینی سطح پر امارت شرعیہ کی تنظیم اتنی مستحکم اور فعال ہے کہ اکثر اوقات حکومت کو اس طرح سے پیش آنے والے واقعات کا پہلے سے علم نہیں ہوتا، بسا اوقات تھانہ اور ضلعی افسران کو بھی امارت شرعیہ کے ذریعہ ہی اطلاع ملتی ہے۔ اس طرح کے تما م واقعات و حادثات پراس ادارہ کی شروع سے آج تک بڑی گہری اور حساس نظر رہی ہے، بروقت واقعات وحالات کاصحیح ادراک کرکے مقامی سطح سے مرکزی سطح تک اپنے ذمہ داران وکارکنان کے ذریعہ حالات کو معمول پر لانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے میں امارت شرعیہ کا اولین کردار رہا ہے۔ اس طرح کے مواقع پر امارت شرعیہ حتی الامکان پوری جد و جہدکرتی ہے اور اپنی ساری توانائی صرف کر دیتی ہے، پل پل کی خبر لینا، ضرورت کے مطابق جائے واردات پر پولیس فورس کی تعیناتی کے لیے حکومت سے تاکید کرنا، امن کمیٹی تشکیل دینا، پھر ان کے ذریعہ دونوں طرف کے فرقوں سے امن و امان کی بحالی کی درخواست کرنا، ظالموں کی گرفتاری اور مظلوم کی فریاد رسی کرنا امارت شرعیہ کا وہ عظیم کارنامہ ہے جو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ اس کے علاوہ ماب لنچنگ وفرقہ وارانہ فساد میں شہید و زخمی ہونے والے بے قصور لوگوں کی قابل ذکر مالی امداد بھی امارت شرعیہ کی جانب سے کی جاتی رہی ہے۔
CAA،NRC،NPRکے خلاف ملک گیراحتجاج کے موقع پر پھلواری شریف کے فساد سے لے کر اب تک چھوٹے بڑے بیسیوں جگہ کشیدگی کا ماحول بن چکا ہے، ان تمام مواقع پر امارت شرعیہ نے حکومت کو بروقت متوجہ کر کے ہزاروں انسانی جانوں کو سلامتی بخشی ہے اور ملک و ریاست کے امن و امان کی حفاظت کی ہے۔ان چند سطور بالا میں اس حوالہ سے امارت شرعیہ کی ان خدمات کا فقط ایک اجمالی خاکہ پیش کیاگیا ہے، ورنہ اس جہت میں اس کی خدمات سو سال پر محیط ہیں جو کافی وقیع اور بے حد وسیع ہیں، اس کے لیے ایک بڑے دفتر کی ضرورت درکار ہے۔ع
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لیے
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب بھی امارت شرعیہ کے انتہائی متحرک و فعال اور سر گرم کار قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب مد ظلہ العالی نے حکومت کو ان واقعات کی جانب متوجہ کیا تو حکومت نے اسے سنجیدگی سے لے کر امن و امان کی بحالی کی کوشش کی۔دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس شجر سایہ دار کو اپنی توجہات و عنایات میں رکھے، اور اس سفینہئ ملت کے ناخدا امیر شریعت مفکر اسلام حضر ت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہم اور اس کے جملہ اکابرین و خادمین کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے(آمین)
رانچی، بہار کے سابق وزیر اعلی اور راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے صدر لالو پرساد یادو کے تحفظ میں تعینات 9 جوانوں کو کورونا مثبت پایا گیا ہے۔ تمام متاثرہ جوانوںکو علاج کے لئے اسپتال بھیج دیا گیا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ تمام جوان رانچی رمس کے ڈائریکٹر بنگلے کے باہر تعینات تھے۔ کوئی جوان براہ راست یا بالواسطہ لالو پرساد سے رابطہ نہیں آیا تھا۔ فی الحال یہاں نئے پولیس اہلکاروں کو یہاں تعینات کرنے کو کہا گیا ہے۔ نئے سکیورٹی اہلکاروں کی کورونا جانچ تعیناتی سے پہلے کی جائے گی ۔لالو پرساد کا کورونا ٹیسٹ گذشتہ ماہ ہوا تھا، ان کی رپورٹ نگیٹیوآئی۔ ان میں پہلے سے ہی کورونا کی کوئی علامت نہیں تھی۔ اب ان پر ایک ہفتے تک خاص نگرانی کی جائے گی۔
مولانا محمد قاسم مظفرپوری کی حالت بدستور نازک،امارت شرعیہ کے وفد نے ہسپتال پہنچ کر عیادت کی،مسلمانوں سے دعاے صحت کی اپیل
مظفرپور:امیرشریعت مولاناسید محمد ولی رحمانی کی ہدایت پرامارت شرعیہ کےقاٸم مقام ناظم مولانامحمدشبلی القاسمی کی معیت میں ایک وفد قاضی شریعت مولانا محمدقاسم مظفرپوری کی عیادت کیلٸے آج شام گلیکسی ہوسپیٹل چاندنی چوک مظفرپور پہنچا۔ قاضی صاحب امارت شرعیہ کےقضاة میں صف اول میں ہیں، کافی دنوں سے بیمارچل رہےہیں،امارت شرعیہ کےقاٸم مقام ناظم نےقاضی صاحب کی صحت کےتعلق سےمکمل جانکاری قاضی صاحب کےنواسےجناب مولاناتقی احمدسے لی اوراُنہیں تسلی دی ۔ حضرت امیرشریعت کے دعاٸیہ کلمات اُن تک پہنچائے اورمتعلقہ احباب کوبہترعلاج ومعالجہ اوراچھےاندازمیں دیکھ ریکھ کی ہدایت دی۔ ناظم صاحب نےکہاکہ قاضی صاحب کی شخصیت اس وقت غنیمت اور اللہ کی بڑی نعمت ہے، قاضی صاحب کاشمارملک کےممتازعلما ٕمیں ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ نےآپ سے لمبےعرصےتک مختلف علوم اسلامیہ کےساتھ علم حدیث کی خدمت کاعظیم کام لیاہے،آپ امارت شرعیہ کےقاضی شریعت تھےقضاة میں آپ کامقام بہت بلندہے۔ طویل عرصے سے منصب قضا ٕپرفاٸزرہ کرکارِقضا انجام دیتےآرہےہیں۔ امارت شرعیہ سےان کی والہانہ عقیدت ومحبت کایہ عالم ہے کہ ناظم صاحب سےان کےنواسےمولاتقی احمدنےبتایاکہ قاضی صاحب بسترعلالت پرمرض کی شدت میں بھی اپنےخاندان عزیزواقارب کواس بات کی ہدایت کرتےرہے کہ امارت شرعیہ پھلواری شریف اوراس کےاکابرسےتعلقات کومضبوط رکھنا اورامارت شرعیہ سے محبت اور وابستگی میں کمی نہ آنےدینا،تمام لوگوں کوقاضی صاحب کی صحت کیلٸے دعا ٕکرنی چاہیےاس وقت قاضی صاحب کی صحت کی صورت حال بہت ہی نازک ہے،بظاہردعا ٕہی ایک سہارا ہے،وفدمیں امارت شرعیہ کےناٸب ناظم جناب مولانا مفتی سہراب ندوی، جناب مولانا مفتی وصی احمدقاسمی ناٸب قاضی شر یعت امارت شرعیہ پٹنہ، جناب مولانامفتی سعیدالرحمٰن قاسمی،مولانا محمدنصیرالدین مظاہری اورمظفرپور امارت شرعیہ کمیٹی کےضلع ذمہ دار حافظ صبغت اللہ رحمانی موجودتھے۔
مظفر پور کے بعد دربھنگہ، جالے کے علاقے میں ماحول بگاڑنے کی کوشش،نہتھے مسافروں پر حملہ،متعدد افراد زخمی
ایڈشنل چیف سکریٹری(داخلہ)عامر سبحانی مقامی افسران کے رابطے میں،حالات کو فوری طورپر قابو کرنے کی ہدایت
دربھنگہ:ابھی مظفر پور کے اورائی بلاک کے مصر اولیا گاؤں میں حالات پوری طرح کنٹرول بھی نہیں ہوئے ہیں کہ دربھنگہ ضلع کے جالے علاقے میں واقع پاکٹولہ گاؤں میں مورتی وسرجن کو لے کر ماحول بگاڑنے کی کوشش کی خبریں آرہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مذکورہ گاؤں میں دو فرقوں کے درمیان زبانی کہا سنی کے ساتھ پتھر بازی بھی ہوئی جس میں کئی لوگوں کو چوٹیں بھی آئی ہیں۔ گاؤں کے ایک باشندے کے مطابق آج مغرب کی نماز کے وقت اچانک شرپسندوں کا ایک جلوس مسجد کے سامنے آکر جذبات کو بر انگیختہ کرنے والے نعرے لگانے لگا، ماحول خراب ہے،کچھ لوگ مسجد میں یا اپنے گھروں میں بند ہیں اور ڈرے سہمے ہوئے ہیں۔
ایک دوسرے واقعے میں آج شام کے چھ بجے جالے تھانہ کے دوگھراگاؤں کے باشندے مولانا ذکی احمدمظاہری،سمیع احمد، مولانا زاہد وصی ندوی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ پڑوس کی بستی سے لوٹ رہے تھے کہ مہادیو چوک پر پہلے سے فساد مچا رہے چند دنگائیوں نے ان کی گاڑی جبرا رکوائی اور انہیں بے دردی کے ساتھ زد وکوب کیا ہے۔ سمیع احمد جو کہ ہارٹ کے مریض ہیں، ان کا سر بری طرح زخمی ہوگیا ہے، وہیں مولانا ذکی احمد مظاہری اور دیگر لوگوں کو بھی ہاتھ اور پاؤں میں بہت زیادہ چوٹیں آئی ہیں۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس پورے واقعے میں پولیس نے اب تک ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے۔ بلکہ پولیس کی موجودگی میں شرپسند عناصر نہتھے راہ گیروں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ انھوں نے مقامی تھانہ کے اعلی افسران اور حکومت سے اپیل کی ہے کہ فوری طورپر حالات کو قابو کیا جائے تاکہ علاقے کا امن و امان بگڑنے سے محفوظ رہے۔ بہار حکومت کے ایڈشنل چیف سکریٹری(داخلہ)عامر سبحانی نے اطلاع ملتے ہی متعلقہ افسران سے بات کرکے حالات کنٹرول کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ وہ مسلسل حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور کشیدگی دور کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جارہے ہیں۔
بہار: آر جے ڈی نے الیکشن کمیشن سے کی اپیل : کورونا وبا میں بیلٹ پیپر سے کرائیے ووٹنگ
پٹنہ:
راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر کووڈ 19 وبا کے دوران بہار اسمبلی انتخابات ہوتے ہیں تو ای وی ایم کی جگہ بیلٹ پیپر کااستعمال کیا جانا چاہیے۔آر جے ڈی کے قومی جنرل سکریٹری عبدالباری صدیقی نے 30 جولائی کو الیکشن کمیشن کو لکھے گئے ایک خط میں مشورہ دیا ہے کہ اگر بہار میں وبا کے دوران اسمبلی انتخابات ہوتے ہیں تو بیلٹ پیپر کا استعمال کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ تحقیق کے مطابق یہ پتہ چلا ہے کہ کورونا وائرس پلاسٹک اور دھات پر کئی دن زندہ رہتا ہے۔آر جے ڈی کے ترجمان تیواری نے کہاکہ کووڈ 19 وبائی امراض کے دوران اگربہار اسمبلی انتخابات کرانا نہیں ہے تو پھر انتخابات ورچوئل اور ڈیجیٹل نہیں ہونا چاہئے بلکہ روایت کے مطابق ہونے چاہئیں یہاں پر بیلٹ پیپر کا استعمال ہونا چاہے۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے اس وبا کے دوران اسمبلی انتخابات کے حوالے سے بہار کی تمام سیاسی جماعتوں سے اپنی رائے طلب کی تھی۔ اس کے بارے میں آر جے ڈی کی جانب سے عبدالباری صدیقی نے الیکشن کمیشن کو بتایا ہے کہ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو ای وی ایم کے بجائے بیلٹ پیپر کا استعمال کیا جائے تاکہ ووٹنگ کے دوران انفیکشن پھیلنے کے خدشات کو کم کیا جاسکے۔آر جے ڈی نے الیکشن کمیشن سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ذریعہ ورچوئل کمپیننگ پر پابندی لگائے۔ آر جے ڈی نے کہا ہے کہ ورچوئل ریلی کا فائدہ صرف ان سیاسی جماعتوں کو ملے گا جن کے پاس وسائل ہیں۔ لیکن چھوٹی سیاسی جماعتوں کے پاس جن کے پاس وسائل کی کمی ہے، ان کے لیے تشہیری مہم ناممکن ہے ۔
مسعود جاوید
دہلی انتخابات کے نتائج سے نہ تو ملک کے حاکم وقت کی کرسی ہلے گی نہ لوک سبھا کے ایوان میں زلزلہ آئے گا اور نہ ہی راجیہ سبھا میں جادوئی نمبر اکثریت و اقلیت کے توازن کو متاثر کرے گا۔دہلی کی کل آبادی ٢٠٢٠ میں تقریباً دو کروڑ اٹھارہ لاکھ ہے جس میں ہندو تقریباً %80.21، مسلم %12.78 اور سکھ %4.43 ہیں۔ کل 7لوک سبھا سیٹ ہیں۔کل ووٹرز 1,46,92,136 ہیں جن میں سے %62.59 نے 8فروری 2020 کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیاہے۔
آخری اسمبلی الیکشن 2015 میں ہوا تھا جس کی 70 سیٹوں میں سے 67 پر فتحیاب ہوکر عام آدمی پارٹی نے حکومت بنائی تھی جس کی میعاد گزشتہ ہفتہ پوری ہوئی،دہلی ایک مکمل ریاست نہیں ہے، یہ ایک یونین ٹیریٹری یعنی مرکز کے زیر انتظام خطہ ہے۔ مزید یہ کہ مرکز/دارالحکومت میں ہونے کی وجہ سے اس نیم ریاست کے کئی اختیارات جیسے پولیس ، لااینڈ آرڈر اور اراضی مرکزی حکومت ( فی الحال بی جے پی) کے پاس ہوتے ہیں۔ باقی شہری امور کی انتظامیہ یعنی نصف ریاست تو اس کا بھی ایک حصہ میونسپل کارپوریشن کے پاس ہے جو بی جے پی کے ہاتھ میں ہے۔ اب جو بچا وہ دہلی کی منتخب حکومت کے پاس ہے۔ پھر بھی ملک بھر کے عوام کو بے صبری سے اس کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا انتظار ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں :
١- شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہرے شروع ہونے کے بعد یہ پہلا الیکشن ہے۔
٢- اس مقامی اسمبلی الیکشن کو کیجریوال بنام مودی پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔
٣- اس مقامی اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کے مقامی موضوعات بجلی،پانی،سڑک، اسکول اور محلہ کلینک کے مقابل بی جے پی نے فرقہ پرستی کو ابھارنے والے نعرے ؛ ہندو مسلمان، پاکستان، شاہین باغ، بریانی، غداروں کو گولی مارو، دہشتگردوں کی تربیت جیسے نعروں کا سہارا لیا۔
٤- اور سب سے اہم بات جس کی وجہ سے ملک اور بیرون ملک ہندوستانیوں کو دہلی اسمبلی الیکشن کے نتائج کا شدت سے انتظار ہے وہ ہے ملک میں شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ میں احتجاجی مظاہرے اور ملک کے مختلف علاقوں میں "شاہین باغ”جیسا احتجاج،اس لئے کہ لوگوں کا خیال ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعے لائے گئےشہریت سے متعلق ایکٹ اور فرمان ہندوستان کی اکثریت کے لئے قابل قبول ہے یا نہیں، دہلی انتخابات کا نتیجہ واضح کرے گا۔ یہ ایک مِنی ریفرنڈم ہے اس لئے کہ دہلی ایک ایسا میٹروپولیٹن شہر ہے،جہاں کم و بیش ہندوستان کے ہر حصے،فرقے اور طبقے کے لوگ مقیم ہیں جن میں تقریباً %48 اترپردیش، بہار،بنگال،راجستھان اور مدھیہ پردیش کے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
انوار الحسن وسطوی، حاجی پور
رابطہ:9430649112
13جون 2020 (سوموار) روزنامہ قومی تنظیم کے”ادب نامہ“ میں محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کے ایک حکم نامہ کے حوالے سے جواں سال ادیب، شاعر اور صحافی جناب کامران غنی صبا کی تحریربعنوان ”اردو کے لیے کم سے کم اتنا تو کیجیے“ نظر نواز ہوئی۔ جس میں انہوں نے مذکورہ حکم نامہ کا حوالہ پیش کرتے ہوئے اس کی صراحت کی ہے۔ کابینہ سکریٹریٹ کا حکم نامہ یہ ہے کہ تمام سرکاری دفاتر کے اعلیٰ افسران کے ناموں کی تختی (Name Plate)، سرکاری منصوبوں کے بینر، سرکاری عمارات کا سنگِ افتتاح، ہورڈنگ، دعوت نامے وغیرہ ہندی کے ساتھ ساتھ ریاست کی دوسری سرکاری زبان اردو میں بھی آویزاں / شائع کیے جائیں۔ کامران غنی صباؔ نے اس حکم نامے کو مشتہر کرنے کے لیے باضابطہ ایک تحریر رقم کی اور اسے اخبار میں شائع بھی کرایا۔ بلاشبہ موصوف کی یہ کاوش ان کی اردو دوستی کی دلیل ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ گرچہ یہ ہدایت نامہ حکومتی احکام ہے لہٰذا متعلقہ افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ بہار کے ہر اضلاع میں اس سرکاری حکم نامے پر عمل درآمد ہوگا ہی۔ اس حکم نامے کے عمل درآمد کے لیے انھوں نے عوامی بیداری کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ موصوف کے اس خیال سے بھی عدم اتفاق کی کوئی گنجائش نہیں کہ ”ہم اردو والوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم آواز اُٹھانا اور دباؤ بنانا نہیں جانتے۔ ہم آواز وہاں اٹھاتے ہیں جہاں ہمارا ذاتی مفاد ہوتا ہے۔“ انھوں نے اس ضمن میں بہار اردو اکادمی کے کاموں کی مثال دیتے ہوئے صحیح تحریر فرمایا ہے کہ ”جب اکادمی فعال تھی تو لوگ اس کے کاموں پر تنقید کرتے تھے۔ آج جب اکادمی غیر متحرک ہے تو اس کے خلاف کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ اکادمی کی مخالفت کرنے والے لوگ چین کی نیند سو رہے ہیں۔“میں عزیز موصوف کو ان کے لڑکپن اور طالب علی کے زمانہ کی ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ ٹھیک یہی سلوک ماضی میں انجمن ترقی اردو کے ساتھ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پروفیسر عبدالمغنی کی قیادت میں انجمن جمہوری طریقے سے چل رہی تھی۔ صوبائی سطح پر مجلس عاملہ کی تشکیل ہوتی تھی۔ سال میں کم سے کم ایک دفعہ انجمن کی ریاستی مجلس عاملہ کی نشستیں منعقد ہوتی تھیں جن میں پورے بہار سے ممبران شریک ہوتے تھے۔ تجاویزمنظور کی جاتی تھیں۔ جن کی کاپی حکومت اور متعلقہ محکموں کو بھیجی جاتی تھیں۔ ضرورت پڑنے پر صدر انجمن وزیر اعظم ہند، گورنر، وزیر اعلیٰ اور وزراء کو مراسلے ارسال کرتے تھے۔ مشورہ پر حکومت حسبِ توفیق عمل بھی کرتی تھی۔ انجمن کے زیر اہتمام ایک رسالہ ”مریخ“ شائع ہوتا تھا جو انجمن کا ترجمان بھی تھا۔ اس رسالہ کو نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری اردو دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اتنے کاموں کے باوجود لوگ صدر انجمن (پروفیسر عبدالمغنی)کو ہدف تنقید بنایا کرتے تھے اور انجمن کو ’ٹو مین کمیٹی‘ کے لقب سے نوازتے تھے۔ ایسا کہنے والوں میں ابھی بھی کچھ لوگ زندہ ہیں بلکہ پورے ہوش و حواس میں ہیں۔ میں ان کا نام لے کر ان سے جھگڑا ول لینا نہیں چاہتا لیکن ان سے میرا یہ سوال ضرور ہے کہ انجمن میں اب کوئی خامی یا خرابی انھیں کیوں نظر نہیں آتی ہے؟ کیا اب انجمن ان لوگوں کی توقعا ت کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہی ہے؟ اگر نہیں تو مجھے معاف فرمائیں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ شال اور گلدستے کی چاہت نے لوگوں کی زبان کو گنگ کر رکھا ہے۔ لوگ اپنے مفاد کی خاطر ایمان کی بات بولنا نہیں چاہتے ہیں۔
کامران غنی صباؔ کی مذکورہ تحریر کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ”جس طرح دوسرے شعبہئ حیات میں نوجوان بڑھ چڑھ کر تحریک کا پرچم بلند کر رہے ہیں اسی طرح اردو تحریک کو بھی نوجوان اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔“ موصوف کی اس تجویز کو پڑھ کر مرزا غالبؔ کا یہ شعر بے ساختہ میرے ذہن میں آ گیا:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
واقعی کامران غنی صباؔ نے میرے دل کی بات کہہ دی ہے۔ میری بھی یہی تجویز ہے کہ بغیر وقت ضائع کیے اب نوجوان آگے بڑھ کر اردو تحریک کی کمان سنبھال لیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں بہار میں اردو تحریک کی کمان سید محمد ایوب ایڈوکیٹ، الحاج غلام سرور، پروفیسر عبدالمغنی، مولانا بیتاب صدیقی، شاہ مشتاق احمد، سید تقی رحیم، پروفیسر قمر اعظم ہاشمی جیسے مجاہدین اردو نے عالمِ ضعیفی میں نہیں بلکہ ایامِ جوانی میں ہی سنبھالی تھی اور لمبے عرصے تک اردو کی لڑائی لڑی تھی جس کے نتیجے میں بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوا تھا۔ میرا بھی یہ ماننا ہے کہ ریاست میں اردو کے عملی نفاذ کے سلسلہ میں اگر نئی نسل کے لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور تاریخ کو دہرائیں گے تو ان شاء اللہ ضرور کامیابی حاصل ہوگی اور اردو کے مسائل ضرور حل ہوں گے۔ میں کامران غنی صباؔ کے اس خیال کی سو فیصد تائید کرتا ہوں کہ ”آج جس طرح ملکی سطح پر نوجوانوں نے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی قیادت اور رہبری کا انتظار کیے بغیر تحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا ہے اسی طرح اردو تحریک کو بھی جواں اور گرم خون کی ضرورت ہے اور جس دن نوجوانوں نے اردو تحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں لے لیا اُس دن سے انقلاب کی ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا۔“ عزیزی کامران غنی صباؔ کا یہ جذبہ اور حوصلہ قابلِ قدر اور لائقِ تائید ہے۔
حافظ محمد ہا شم قادری مصباحی جمشید پور
َِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ جان سے زیادہ پیارا ہمارا ملک ہندوستان آج انتہائی مشکل دورسے گزر رہا ہے۔خواہ وہ مالی خسارے کے اعتبار سے ہو،یا لا قانونیت کے اعتبار سے ہو،مہنگائی ہو، عوامی بے چینی ہو وغیرہ۔ اہل علم ودانش سے لیکر سبھی طبقہ کے لوگ پوری طاقت سے چلا رہے ہیں، لیکن انتہائی فکر کی بات یہ ہے کہ حکمراں طبقہ بالکل توجہ نہیں دے رہا ہے، فاشزم،ضد، ہٹ دھر می اور غرور میں چور یہ حکومت(جسے اصل میں آر ایس ایس چلا رہی ہے) اپنے عزائم سے پیچھے ہٹنے کو ذرا بھی تیار نہیں ہے، ہوم منسٹر کا غرور بھرا بیان آچکا ہے کہ این آر سی،سی اے اے، این پی آر سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
جاں گسل،صبرآزما اور پر عزیمت جدو جہد، اللہ کی جانب سے خصوصی حما یت ونصرت ملے تبھی اس ملک گیر متحدہ مزاحمتی جدو جہد کو کا میابی مل سکتی ہے،”ان شا ء اللہ تعالیٰ ضرور ملے گی“۔غریب ودر میانی طبقہ،ہرذات ومذہب کا انسان کراہ رہا ہے لیکن موجودہ حکومت اس طرف توجہ نہ دینے کی قسم کھا کر پوری طاقت سے ہندتوا کے ایجنڈے پر اور آر ایس ایس کی آئیڈیا لوجی کو نافذ کر نے پر تلی ہوئی ہے، ایک دو ہوں تو گنا یا جائے، دوچار دس ہوں تو رونا رویا جائے۔ تین طلاق، کشمیر، بابری مسجد،NRC-National Rejgister of Citizens,CAA-Citizenship Amendment Act NRP-National Population Register,لاکر مسلما نوں کے سینے میں خنجر گھونپ دیا، ساتھ میں غریب،دلت و پچھڑے طبقے کے براد رانِ وطن کو بھی پریشانی میں لا کھڑا کیا اور سب سے بڑی بات ہندوستان کے سمْوِد ھان کو بدلنے کی جسارت ہی نہیں کی بلکہ پوری قوت سے سمْوِ دھان پر حملہ بول دیا ہے۔ اورہندتوا کے ایجنڈے پر پوری طرح سے عمل شروع کر دیا ہے، تاکہ جو ملکی مسائل ہیں ان کی طرف کسی کا دھیان نہ جائے۔ یہ طریقہ بہت تشویش ناک ہے۔
ملک کی گرتی معیشت اور حکمرانوں کی ہٹ دہر می:سوال یہ ہے کہ آخرعوام کرے تو کیا کرے، بے روز گاری سے لیکر گرتی معیشت آزادی کی بعد سے سب سے نچلی سطح پر چلی گئی ہے، کسانوں کی خود کشی کے بڑھتے واقعات کا مسئلہ، دلتوں اور مسلمانوں پر بڑھتے موب لنچینگ و مظالم کا مسئلہ،تعلیمی شعبے میں فیس کا زبر دست اضافہ، عورتوں پر بڑھتے مظالم خاص کر اعلیٰ عہدوں پر براجمان نیتا وعہدیداران کی طرف سے زنا کاری جیسے شرم ناک واقعات پر افسوس و شرم کے اظہار کے بجائے مظلوم کی جان اس کے وکیل ورشتے دار تک کوجان سے مار دے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستا ن کے غریب دلت و مسلمانوں کے سکون کو غارت کردیا ہے۔ حکومت کسی کی بھی آواز سن نہیں رہی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سن کر بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی طرح عوام کی ہر بات کا جواب سختی سے دے رہی ہے،مظلوموں کے بولنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ ظاہر سی بات ہے جب چاروں طرف سے کسی پر مار پڑے گی تووہ گھبرا جائے گا اور مایوس ہو جائے گا۔ جب سے بی جے پی کی حکومت اقتدار میں آئی ہے آئے دن نت نئے فتنوں سے، دلتوں پچھڑوں، آدی باسیوں اور آر ایس ایس کی آئیڈیا لوجی کی مخالفت کرنے والوں خصوصاً مسلما نوں پر یلغار(حملہ، دھاوا،) کر دیا ہے، تین طلاق، کشمیر کی دفعہ370 کو ختم کرنا، بابری مسجد کا فیصلہ اپنے حق میں کراکر انصاف کا قتل کر نا اور اب تو ظلم کی ساری حدیں پار کر کے غریبوں،کمزوروں، آدی باسیوں،پچھڑوں اور مسلمانوں پر این آر سی۔NATIONAL REGISTER OF CITIZENSَ َ,سی اے اے،CITIZENSHIP AMENDMEEND ACT این پی آر، NATIONAL POPULATION REGISTR, جیسے کالے قوانین کو لاکر پورے ملک کے چین و سکون کو غارت کر دیا ہے۔ زر خرید غلاموں جسے عرف عام میں گودی میڈیا کہا جاتا ہے ان سے جھوٹ کو سچ،سچ کو جھوٹ پھیلانے میں لگا دیا ہے، گودی میڈیا نے پوری طاقت جھونک دی ہے۔ اور بی جے پی، آ ئی ٹی سیل کی ٹیم،واٹس ایپ یونی ورسٹی کے غلام اور بی جے پی حکومت کے وہ نمک (حلال×)حرام تنخواہ دار جو دن رات جھوٹ کو سچ بتانے کے لیے نوکری میں رکھے گئے ہیں، لاکھوں مدح سرا اور پرستار بے روز گاروں کو ملک گیر سطح پر دوسو سے لیکر ایک ہزار روپیے یومیہ کی مز دوری پر روز گار دے رکھا ہے،اُچھلنے کود نے، دنگا کرنے،ٹرول کرنے، لنچینگ کرنے،غیر فاشسٹ دانشوروں، انقلابیوں، نیز مخلص ومحب وطن باشندوں کو غدارِ وطن، ملک دشمن، اور قسم قسم کے گندے اور تذلیل تبصرے وگالیاں دینے اور زمین پر ان کا صفایا کر نے کے لیے (اپنے بھگتوں) کو تو روز گار بی جے پی نے دے دیا ہے، بقیہ عوام کو روز گار کیوں دیں؟ انھوں نے ووٹ تو دیا نہیں تھا، نہ ہی وہ حکومت کے مدد گار ہیں، نہ ہی دنگا فساد کا اہم ومفید کام کر رہے ہیں، یہ مسلمان، دلت، کمزور طبقہ کے لوگ اپنے حق اور دستور(CONSTITUTION) کی بات کرتے ہیں، تو ایسے ناسمجھوں اور دیش درو ہیوں کو ایک راشٹر وادی سر کار، نسل پرست سر کار، ارب پتیوں کی غلام سر کار، بھلا سب کو روز گار کیوں دے؟
ووٹ کا حق چھیننے کی سازش: آرایس ایس کے پلان کے مطابق مسلمانوں،دلتوں،پچھڑوں،آدی باسیوں سے ووٹ کا حق چھین لیا جائے اور انھیں DETENTION CENTRE میں ڈال دیا جائے۔ طرح طرح کے مظالم کر کے ان کو ڈمرا لائز کر دیا جائے اور ملک کے دوسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے اور یہ کام موجودہ حکومت بہت منصوبے کے تحت کر رہی ہے۔ این آر سی، سی اے اے، این پی آر جیسے کالے قانون اسی لیے لائے گئے ہیں،اللہ خیر فر مائے۔
شبِ دیجور کے بعد، صبح نو ضرور آئے گی اِن شا اللہ!: پورے ملک ہی نہیں پوری دنیا میں NCR,CAA, NPR, قا نون کے خلاف زبر دست احتجاج ہو رہا ہے۔جامعہ ملیہ دہلی اور شاہین باغ کی شاہین صفت خواتین و معصوم بچوں اور بوڑھی دادیوں نے تو انقلاب بر پا کر دیا ہے۔ ایک سو اٹھارہ سال ریکارڈ توڑ 2 ڈگری درجہ حرارت میں، ان انقلا بی خواتین کی ہمت نے پورے ملک کو جگا دیا اور اسوقت پورے ہندوستان میں 20 سے زیادہ جگہوں پر شدید احتجاج جاری ہے اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے،ان شاء اللہ اور اضافہ ہو گا۔ حالات جتنے خراب ہوں کسی کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، خاص کر اہل ایمان کو۔اسلامی تاریخ کا مطالعہ فر مائیں، کتابِ ہدایت قرآن مجید واحادیث طیبہ کا مطالعہ فر مائیں،مدد لیں،واضح ہدایات موجود ہیں، روشنی ومدد ملے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!
اردو تحریک کو بھی جوان اور گرم خون کی ضرورت ہے
کامران غنی صبا
گزشتہ 6 جنوری 2020 ء کو محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کی جانب سے ہوم سکریٹری جناب عامر سبحانی کے دستخط کے ساتھ بہار کے تمام سرکاری دفاتر کے اعلیٰ افسران کے نام ایک حکم نامہ جاری کیا گیا ہے، جس میں بہت ہی زور دے کر تمام سرکاری دفاتر کے اعلیٰ افسران کے ناموں کی تختی (Name Plate)، سرکاری منصوبوں کے بینر، سرکاری عمارات کا سنگ افتتاح، ہورڈنگ، دعوت نامے وغیرہ ہندی کے ساتھ ساتھ ریاست کی دوسری سرکاری زبان اردو میں بھی آویزاں/ شائع کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ چونکہ یہ ہدایت نامہ حکومتی فرمان ہے لہٰذا متعلقہ افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں لیکن اس کے باوجود یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ بہار کے سبھی اضلاع کے تمام سرکاری دفاتر میں اردو کو اس کا جائز مقام مل ہی جائے گا۔ اردو کو اس کا حق دلانے کے لیے عوامی بیداری انتہائی ضروری ہے۔ اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ سرکاری احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتی ہے اور ہمارے اعلیٰ افسران کے کانوں پر جوئیں تک نہیں رینگتی لیکن جب ان پر عوامی دباؤ بنتا ہے تو انہیں جھکنا پڑتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ستمبر 2019ء میں دیکھنے کو مل چکی ہے جب پٹنہ جنکشن کی جدید کاری کے دوران نیم پلیٹ سے اردو کو ہٹا دیا گیا تھا؛لیکن سوشل میڈیا پر جب بڑے پیمانے پر تحریک شروع ہوئی اور سوال اٹھائے جانے لگے تو راتوں رات پٹنہ جنکشن پر اردو دوبارہ سے چمکتی ہوئی نظر آنے لگی۔ ہم اردو والوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم آواز اٹھانا اور دباؤ بنانا نہیں جانتے۔ ہم آواز وہاں اٹھاتے ہیں، جہاں ہمارا ذاتی مفاد ہو۔ بہار اردو اکادمی کی مثال زیادہ پرانی نہیں ہے۔ تقریباً دو سال سے اکادمی خدا بھروسے چل رہی ہے۔سمینار، مشاعرے، کتابوں کی اشاعت، انعامات، بیمار شعرا و ادبا کی معاونت ساری سرگرمیاں ٹھپ ہیں۔ کسی کو کوئی فکر نہیں۔ جس وقت اکادمی میں باضابطہ سکریٹری تھے، اکادمی فعال تھی۔ تب سب کی نظر اکادمی پر ٹکی تھی۔ سکریٹری کے کاموں میں کیڑے نکالے جا رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر محاذ جنگ قائم تھا۔ ادب کے نام پر بدتہذیبی کا بازار گرم تھا۔ معاملہ کورٹ اور کچہری تک پہنچ چکا تھا۔ آج وہ سب لوگ جو اُس وقت فعال و متحرک نظر آ رہے تھے، چین کی نیند سو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اکادمی کے ساتھ ساتھ ان سب کی روحیں بھی پرواز کر چکی ہوں۔ اردو مشاورتی کمیٹی کا بھی یہی حال ہے۔
بات تھوڑی تلخ ضرور ہے لیکن حقیقت ہے کہ ہمارے بڑوں نے ہمیں تربیت کے نام پر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا، اپنے ذاتی مفاد کے لیے سیاست دانوں کی خوشامد اور چاپلوسی کرنا، سمینار اور مشاعروں میں شامل ہونے کے لیے جوڑ توڑ کی سیاست کرنے کے سوا اور کچھ نہیں سکھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس نہ کوئی مضبوط تنظیم ہے اور نہ کوئی ایسی مضبوط آواز جسے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکے۔یہ کوئی جذباتی باتیں نہیں ہیں بلکہ برسوں کا مشاہدہ ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح دوسرے شعبہ جات میں نوجوان بڑھ کر تحریک کا پرچم بلند کر رہے ہیں اُسی طرح اردو تحریک بھی نوجوان اپنے ہاتھوں میں لیں۔ یہ میڈیا اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ بند کمروں میں چار آدمی کے ساتھ بیٹھ کر خوش گپیاں کر لینے سے مسئلے حل نہیں ہوتے۔ ہمارے پاس زمینی سطح پر کرنے کے لیے بے شمار کام ہیں۔ بہار میں اردو کے کتنے اساتذہ ہیں؟ اردو کی کتنی نشستیں خالی ہیں؟ اردو میڈیم کی کتابیں کیوں شائع نہیں ہو رہی ہیں؟ امتحانات میں سوالنامے اردو میں کیوں نہیں پہنچ رہے ہیں؟ دوسرے موضوعات کے اساتذہ کی تربیت ہوتی ہے، اردو کے اساتذہ کی تربیت کیوں نہیں ہوتی؟انٹرمیڈیٹ کا نصاب ابھی تک اردو میں کیوں شائع نہیں کیا گیا ہے؟ نصابی کتابوں میں موجود اغلاط کی اصلاح کیوں نہیں کی جا رہی ہے؟ان جیسے بے شمار مسائل ہیں،جن پر سنجیدگی سے توجہ دی ہی نہیں جاتی۔ کیوں کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ریلوے اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ اور ہوٹلوں کی عیاشی میسر نہیں ہوتی، اسٹیج نہیں ملتا۔
سرکاری دفاتر میں اردو کے نفاذ کے تعلق سے حکومت کی پہل قابلِ تعریف ہے؛ لیکن یہ اسی وقت مؤثر ہوگی جب ہر ضلع اور ہر بلاک کی اردو آبادی خاص طور پر نوجوان طبقہ بے لوث جذبے کے ساتھ اردو کی خدمت کے لیے آگے آئے۔ جہاں کہیں ان احکامات کی خلاف ورزی ہوتی نظر آئے، تو کابینہ سکریٹریٹ سے جاری مذکورہ مکتوب کی کاپی لے کر متعلقہ دفتر کے افسران سے رابطہ قائم کیا جائے۔ اس کے باوجود اگر اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک ہوتا نظر آئے، تو میڈیا اور سوشل میڈیا کا سہارا لیا جائے۔ جس سرکاری دفتر میں اردو کے ساتھ ناانصافی ہوتی نظر آئے، وہاں کی تصویر اور ویڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے عام کی جائے۔ ٹوئٹر پر وزیر اعلیٰ اور سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں کو یہ تصویریں اور ویڈیوز ٹیگ کیے جائیں۔ جس دن نوجوانوں نے اردوتحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں لے لیا، اُس دن سے انقلاب کی ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا۔
آج جس طرح ملکی سطح پر نوجوانوں نے تحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں اٹھاکر مذہبی اور سیاسی ٹھکیداروں کو حاشیے پر پھینک دیا ہے، اُسی طرح اردو تحریک کو بھی جوان اور گرم خون کی ضرورت ہے، ورنہ اردو کے نام نہاد ٹھکیدار اردو کے نام پر اپنی دکانوں کو چمکاتے رہیں گے اور اردو اپنی بے بسی کا نوحہ پڑھتی رہے گی۔
پٹنہ: بہار کے وزیراعلیٰ اورجنتا دل یونائیٹڈ کے سربراہ نتیش کمار نے وزیر اعظم نریندر مودی سے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے)کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ نتیش کمارکا کہنا ہے کہ وزیر اعظم متنازعہ امور پر اتفاق رائے کے لیے اتحادیوں کا اجلاس طلب کریں۔ انہوں نے کہاہے کہ جے ڈی یو موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے این ڈی اے کے فوری اجلاس کا مطالبہ کرتی ہے۔اس سے پہلے کل بہارکی جماعت اسلامی،جمیعة علمائ،جمیعة اہل حدیث اورامارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم نے امیرشریعت مولانامحمدولی رحمانی کی سربراہی میں نتیش کمارملاقات کی تھی،جس میں نتیش کمارنے کسی بھی قیمت پر،چاہے بی جے پی کے ساتھ اتحادرہے یانہ رہے،این آرسی لاگونہ کرنے کے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا،ساتھ ہی وزیراعلیٰ نے وعدہ کیاکہ این آرسی بل آنے کی صورت میں این ڈی اے کی تمام پارٹیوں کومخالفت کرنے کے لیے تیارکریں گے اورشہریت ترمیمی قانون پربی جے پی پردباؤبنانے کے لیے اپنے طورپرکوشش کریں گے۔وفدنے وزیراعلیٰ کوبہارکے مسلمانوں کے احساسات سے واقف کرایااورکہاہے کہ آپ پرکسی بھی صورت میں بھروسہ کرنامشکل ہے،جس پروزیراعلیٰ نے اپنے اقدامات کی یقین دہانی کرانی کی کوشش کی ہے۔ آپ کو بتادیں کہ جے ڈی یو نے پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دیاتھا۔ تاہم،پارٹی کے نائب صدر پرشانت کشورکے شہریت کے قانون اور این آر سی کی مخالفت کرنے کے بعد بہار کی سیاست میں ہلچل بڑھ گئی۔ انہوں نے جے ڈی یو کی پارلیمنٹ میں شہریت کے قانون کی حمایت کی مخالفت کی۔پٹنہ میں وزیراعلیٰ سے ملاقات کے بعد ، پرشانت کشور نے کہا تھا کہ نتیش کمار این آر سی کے خلاف ہیں۔ تب پرشانت کشور نے واضح طور پر کہا تھا کہ سی اے اے کو این آر سی سے جوڑنے سے دشواری میں اضافہ ہوگا۔ کشور نے اس وقت کہا تھا کہ نتیش نے وعدہ کیا ہے کہ بہار میں این آر سی لاگو نہیں ہوگا۔اس کے بعد ، سی ایم نتیش کمار نے بہارمیں این آرسی کے نافذنہ کرنے اعلان کیا۔جنتا دل (یونائیٹڈ) کے سربراہ نتیش کمار ، جو شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی حمایت کر رہے ہیں، نے جمعہ کے روز پٹنہ میں صحافیوں کو بتایا کہ بہار میں این آر سی کا اطلاق نہیں ہوگا۔
میانہ قد، سر پہ جالی دار ٹوپی، آنکھوں پہ موٹے فریم کی عینک، جس کے پیچھے دو چمک دار آنکھیں، جن میں حیا کا نور، وجیہ چہرہ، جس پہ متانت کا پہرہ، ہونٹوں پہ کھیلتی ہوئی مسکراہٹ، ان کے تمام رویہ ہاے حیات کی شرافت، علم و فقہ اور قضا و افتا کی خداداد صلاحیتوں کے مالک، پختہ کار و پختہ ذہن عالم، خلوص ومحبت کا پیکر، جاذبیت اور کشش کا تاج محل، قائدانہ لیاقت کے بے پناہ خزانے کے مالک، رجال شناس ورجال ساز، مفکرانہ سوز و گداز، ملت کا غم گسار، ششہ و شگفتہ، نپی تلی، بلیغ، موقع ومحل کے لیے موزوں، موتیوں کی طرح پروئی ہوئی ، حشو و زائد سے پاک اور حجت و برہان سے مستحکم شیرینی گفتگو سے محظوظ کرنے کا نرالا پن، حاضرین پر جادو کرنی کی طرح تبسم آمیز کلام، ذہانت ریز سوز و گداز اور ہر مخاطب کو اپنی منفرد رویے سے اسیر کرلینے کا ملکہ؛ ان تمام خوبیوں کو ایک انسانی قالب میں رکھ کر دیکھیں! جس شخصیت کا پیکر سامنے آئے؛ انھیں کو "حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی ” کہاجاتا ہے.
مجاہد ملت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی ہندوستان کی جدید تاریخ کے معماروں اور ایسے مجاہدوں میں تھے، جن کی زندگی آخری سانس تک قوم و ملت کی خدمت میں لگی رہی. مجاہد ملت کو ان کی ایمانی فراست، علمی رفعت، سیاسی بصیرت، بے پناہ جرأت، پرجوش خطابت، فکر کی پختگی، ارادے کی مضبوطی جذبے کی توانائی اور ان کے کارناموں نے ملی تاریخ کا ایک شاندار کردار بنا دیا. مسلمانوں کو سربلندی سے ہم کنار کرنے کی ان کے دل میں ایک تڑپ تھی، جس نے شب و روز ان کو متحرک رکھا. وہ ہندوستانی مسلمانوں کی آواز اور دل ودماغ تھے. انھوں نے جتنے اخلاص اور بے لوث جذبوں کے ساتھ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خدمات انجام دیں ہیں، ہمارے ملی رہنماؤں کی تاریخ میں اتنی فعال و متحرک اور علمی صداقت رکھنے والی شخصیتیں بہت کم نظر آتی ہیں.
آپ نہایت ہی خلیق، ملنسار اور ہر دل عزیز انسان تھے، بڑے ہی بیباک اور بے خوف طبیعت کے مالک تھے، مودت ومروت، تہذیب و ثقافت، حلم و برد باری اور متانت و سنجیدگی آپ کی رگ و ریشے میں بھری ہوئی تھی، سیدھا سادھا پیکر عظیم.
آپ صوبہ بہار کے مردم خیز ضلع "دربھنگہ” کے "جالہ” نامی گاؤں کے ایک علمی ودینی گھرانے میں 1355ھ =9/اکتوبر 1936ء کو پیدا ہوئے. سلسلہ نسب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے "محمد بن حنفیہ” سے جا ملتا ہے.
ابتدائی تعلیم :آپ نے قرآن مجید ناظرہ اپنی والدہ سے پڑھا، اردو، فارسی اور عربی کی ابتداء کتابیں اپنے بڑے بھائی "مولانا زین العابدین صاحب” سے پڑھیں. "میزان الصرف”اپنے والد ماجد "مولانا عبد الاحد” سے پڑھی.
متوسط وثانوی تعلیم :مدرسہ محمود العلوم، دَملہ، ضلع مدھو بنی، مدرسہ امدادیہ دربھنگہ اور دار العلوم مئو ناتھ بھنجن سے متوسط و ثانوی درجے کی تعلیم حاصل کی.
اعلی تعلیم :1951ء(1370ھ)سے 1955ء (1374) یعنی چار سال تک دار العلوم، دیوبند میں اعلی تعلیم حاصل کی :شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے آپ نے "بخاری شریف ” پڑھی. آپ نے "حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی”، "علامہ محمد ابراہیم بلیاوی”، مولانا عبد الحفيظ بلیاوی”،” مولانا محمد حسین بہاری "،” مولانا فخر الحسن مراد آبادی "،” مولانا بشیر احمد خاں "،” مولانا نصیر احمد خاں”اور مولانا معراج الحق صاحب جیسے باکمال، ماہر فن اور یکتائے روزگار سے علوم و فنون کی مختلف کتابیں پڑھیں.
مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی کو اللہ تعالٰی نے چند ایسی صفات سے متصف کیا تھا جو انھیں اپنے معاصرین و اقران سے بالکل ممتاز کرتی ہیں. انھوں نے طالب علمی کے زمانے میں حصول میں ایمان داری کے ساتھ، پورے ذوق و شوق سے کما حقُہ محنت کی، خداداد فطانت اور حوصلہ مندی نے ان کا ساتھ دیا، توفیقِ الہی ہم قدم رہی، اخّاذ اور بیدار ذہن نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا. مولانا مجاہد الاسلام حضرت مدنی کے فیضِ تعلیم و تربیت اور دار العلوم، دیوبند کے روح پرور اور روح ساز ماحول کی بہ دولت اور بہ توفیقِ الہی اعلی درجے کے عالم بن کے ابھرے. ان کے علم و فضل میں خیر و برکت کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی، کہ انھیں اپنے دیگر عالی مرتبت اساتذہ کے ساتھ ساتھ، "شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حیسن احمد مدنی” سے اور اپنی مادر علمی دار العلوم، دیوبند سے عشق کی حد تک محبت و عقیدت تھی . وہ جب بھی ان دونوں کا، یا دونوں میں سے کسی ایک کا تذکرہ کرتے، تو بے اختیار مچلتے اور جھومتے اور ایسے وقت میں ان کے لہجے میں بلا کی شیرینی اور عشقِ کرشمہ ساز کی قیامت خیز وارفتگی پائی جاتی، کہ سننے والا بھی وجد کرنے لگتا.
فصاحت جھومتی تھی ان کے اندازِ انشا پر.
لبِ اعجاز پر ان کی بلاغت ناز کرتی تھی.
آپ کا شمار بلاشبہ ان افراد میں ہوتاہے، جن کی پوری زندگی سعی محنت، جد وجہد اور عزم وارادے سے عبارت ہے.
مولانا سید منت اللہ رحمانی ایک عقابی سوچ اور شاہین فکر کے متحمل عالم و قائد تھے. ان کی شخصیت بلاشک وشبہ رجال ساز اور رجال شناس کی حسین سنگم تھی اس گوہری جوہر شناس نظروں نے قاضی صاحب کے اندر چھپے جوہر کو دیکھ لیا تھا اور وہ بھانپ گئے تھے کہ یہ آفتابِ عالم تاب کی طرح چڑھتا ہوا یہ شخص، خاص قسم کی غیر معمولی فقہی بصیرت، زر خیز ذہن اور علم وفن کے صدف کا آب دار موتی ہے؛ چناں چہ جب امیر شریعت رابع کی حیثیت سے مولانا منت اللہ رحمانی کا انتخاب عمل میں آیا، تو انھوں نے امارت شرعیہ کے قاضی و مفتی کی حیثیت سے مولانا مجاہد صاحب کو پھلواری شریف پٹنہ بھیج دیا. انھوں نے امارت کی زلفوں میں پڑے پیچ و تاب کو اپنے رفقائے کار کے مثلِ شمع مخلصانہ اشتراک و تعاون سے اس طرح سنوارا کہ نہ صرف علم وقضا اور فقہ و فتاوی کے منصب کو چار چاند لگائے؛ بل کہ امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ ان کے نام کا عنوان اور ان کی زندگی کا حصہ بن گیا اور دونوں اس طرح لازم و ملزوم ہوگئے کہ ایک کا تصور دوسرے کے بغیر ممکن نہ رہا. امارت کی جدت کاری اور ترقیات سے ہم دوشِ ثریا کرنے میں جس طرح انھوں نے اور ان کے رفقائے کار نے خون پسینہ ایک کیا؛ بل کہ جگر کا خون کیا؛ جان کاہی اور کوہ کنی کہ جو زندگی بسر کی؛ ذہانت، فراست، بصیرت اور علم آگہی کے خزانے کو جس طرح لٹایا؛ وسائل کی کمی، حالات کی سنگ دلی اور وقت کی جس بے التفاتی کا، کاروانِ امارت کو اُس زمانے میں سامنا رہا، وہ خود ایک مستقل تاریخ ہے اور خدام امارت کی عزیمت کا نشانِ امتیاز ہے. مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی تقریباً 35 سال تک یہاں قضا و افتا کاجام اس طرح لنڈھایا کہ "قاضی” أن کے نام کا ہمیشہ کے لیے سابقہ بن گیا اور لوگ انھیں "مولانا مجاہد الاسلام قاسمی” کی بہ جائے "قاضی مجاہد الاسلام قاسمی” کہنے لگے. انھوں نے سیکڑوں معاملات کے اسلامی شریعت کی روشنی اور فقہ اجتہاد کے اصول کی بنیاد پر نہ صرف فیصلے کیے ہیں؛ بل کہ سیکولر اور غیر اسلامی ہندوستان میں امارت شرعیہ کے برپا ہونے کی صورت کو اجاگر کیا اور عملی شکل میں مختلف صوبوں اور خطوں میں اس کا قیام کی بار آور کوشش کی.
انھیں حضرات کی سعی پیہم کی وجہ سے پھلواری شریف کی تنگ گلی کے دو ایک تنگ راستوں سے نکل کر امارت شرعیہ کا مرکز پھلواری شریف کی شاہ راہِ عام پر اپنے نئے، کشادہ اور خوش منظر اور حوصلہ بخش دفتروں میں آگیا اور اس کی خدمات بھی ہندوستانی کی متنوع ضروریات اور جذبات کا احاطہ کرنے لگیں؛ چناں چہ کئی عدد ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ قائم ہوے سجاد ہاسپٹل بنا،المعد العالی للقضاء کا قیام عمل میں آیا، دارالعلوم امارت شرعیہ کی بنیاد گزاری روبہ عمل آئی اور ملت کہ تمناؤں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی مختلف شکلیں پیدا کی گئیں، بہار کے مدارس کو ایک نظام کے تحت مربوط کیا گیا، ریلیف کا کام وسیع پیمانے پر استوار کیا گیا، مکاتب کا جال پھیلایا گیا، امت کے نوع بہ نوع دکھ درد کی زود اثر اور اصلی دوائیں ایجاد کرنے کی طرح ڈالی گئی. اس طرح امارت کا نام نہ صرف مسلمانوں؛ بل کہ کم از کم بہار کی سطح پر حکومتِ وقت کی نگاہ میں معتبر بن گیا، مشکل تھا کہ ملتِ اسلامی کے حوالے سے بہار گورنمنٹ کوئی قدم اٹھائے اور امارت شرعیہ کے چشم وابرو کے اشارے سے صرف نظر کرلے.
مجسم فقہ و قضاء افتا:
یوں محسوس ہوتا ہے کہ حضرت والا سر سے پاؤں تک فقہ ہی فقہ تھے. قانونِ شرعیہ اور قانون ہندوستانی کا اللہ آنے انھیں غضب کی صلاحیت دی تھی. بر صغیر کے علما میں وہ اس بات میں بھی ممتاز تھے، کہ ان کا ذہن ایک عبقری تھا، علمِ فقہ اور قضا و افتا کے لیے خدائے علیم نے خاص طور پر ڈھلا تھا، ان کی پہچان اس فن میں خاص عالم کی حیثیت سے تھی. ان کی شہرت جب مشک کی صفت اختیار کر لی اور بیرون ملک میں بھی اس مشک کی خوش بو پھیلنے لگی، تو عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کے علما ہی نہیں، وہاں کے قانون دانوں کو ان کی ہمہ گیر فقہی بصیرت کا علم ہوا، تو سبھوں نے ان کا لوہا مانا، چناں چہ عالم عرب کے علاوہ دیگر مغربی اور افریقی ممالک میں انھیں فقہی، شرعی اور علمی سیمیناروں میں دعوت دی گئی، وہاں کے متعدد فقہی وعلمی اداروں کے ممبر اور سرپرست منتخب ہوئے، ہر جگہ نہ صرف ان کو عزت وتکریم کی نگاہوں سے لوگوں نے دیکھا؛ بل کہ فقہ و قضا و اجتہاد میں ان کی انفرادیت کا ماہرینِ فن اور مفکرین نے کھلے لفظوں میں منہ بھر بھر کے تعریف کی. کویت، سعودی عرب اور مصر کے علما و اربابِ علم ودانش نے تو بہ طورِ خاص انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا، سروں پہ بیٹھایا اور پلکوں پہ سجا کے دیدہ ودل کو ان کے استقبال میں ہمیشہ ہی نچھاور کیے رکھا. جامعہ ازہر کے شیخ سید طنطاوی ان سے بہت ہی متاثر تھے. علوم شریعت میں ان کی گہرائی کو خراجِ عقیدت ہی کی بات تھی کہ انھیں اسلامک فقہ اکیڈمی جدہ، اسلامک فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ، علمی اکیڈمی شام، ہیتیہ خیریہ اسلامیہ کویت وغیرہ کا رکن منتخب کیاگیا اور اندرون ملک تو وہ اسلامی فقہ وقضا کا عنوان ہی بن گیے تھے
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ تو روز اول سے ہی ہندی مسلمانوں کا سب سے زیادہ مضبوط، مستحکم، موثر اور وسیع البنیاد پلیٹ فارم رہا، جس کو مولانا مجاہد نے حضرت منت اللہ رحمانی کی سرپرستی میں، اول دن سے ہی ملت کو ایک دھاگے میں پرونے کے لیے استعمال کیا. بہ جا طور پہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی ملی تشخص کو برقرار کو رکھنے کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ نے جو کوششیں کیں اور ملت کی ملی وشرعی زندگی سے متعلق مسائل کے تئیں جو فیصلے کیے، اس کی مثال آزاد بھارت کی اتہاس میں کسی اور ارادے کے حوالے سے ہر گز پیش نہیں کی جاسکتی. اتحاد ملت ہی کے جذبے سے انھوں نے آل انڈیا ملی کونسل کے نام سے ایک تنظیم قائم کی؛ تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کو متحدہ پیلٹ فارم کے ذریعے مؤثر طریقے سے پیش کیا جاسکے. مولانا مجاہد الاسلام صاحب قاسمی کا ایک یہ بھی بہت ہی بڑا کارنامہ ہے کہ انھوں نے فقہ اکیڈمی انڈیا کی تاسیس کی. اس کے سیمیناروں اور فقہی اجتماعات کے ذریعے؛ نہ صرف یہ کہ ان گنت نئے نئے مسائل کے شرعی حل پیش کیے اور امام اعظم ابو حنیفہ کے طرز علم پہ چلتے ہوئے اجتماعی اجتہاد کے نقطہ نظر کو عملی جامہ پہنایا، عام کیا اور علما کو اس کام کا عادی بنایا؛ بل کہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے انھوں نے نوجوان علما وفضلا کو نئے حالات ومسائل پر سوچنے، لکھنے، غور کرنے اور بولنے کا موقع دیا اور نوجوان علما کی ایک بڑی کھیپ کو صحیح وقت پر صحیح سمت میں سرگرمِ سفر کردیا اور بہت سے لوگ فقہ واجتہاد کے متنوع موضوعات پر لکھ کر مصنف و مؤلف بن گئے اور بنتے جا رہے ہیں.
یہ دنیا کتنی بے وفا ہے، زندگی کے ساتھ انسان بے پناہ محبت کرتا ہے، اپنی زندگی کے لیے حد درجہ قربانی پیش کرتا ہے، دل ودماغ میں فلک بوس عمارتیں تعمیر کیے رہتا ہے؛ لیکن یہ زندگی اتنی بےوفا اور بے مروت ہے، کہ تمام وفاؤں کو پسِ پشت ڈال کر منٹوں میں خوابوں کے محلات مسمار کردیتی ہے اور انسان کے تخیلات، تصورات نہ چاہ کر بھی دم توڑ نے پر مجبور ہوجاتے ہیں:
زندگی تو بےوفا ہے، ایک نہ ایک دن ٹھکرائے گی.
موت محبوبہ ہے اپنی ساتھ لے کر جائے گی
چناں چہ موت اپنی اسی محبوبائی کی فطرت کو بہ روئے کار لاتے ہوئے، مولانا کے کارناموں سے کچھ اس طرح وارفتگی کا شکار ہوئی کہ اپنے اس محبوب کو ہمیشہ ہمیش کے لیے دنیا کی نظروں سے بچا کر جمعرات :20/محرم الحرام 1433ھ=4/اپریل 2002ء کو سات بج کر پانچ منٹ میں اپولو ہسپتال سے اپنی آغوش میں چھپا لیا. انا للہ و انا الیہ راجعون.
بہر حال حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی ہمارے درمیان سے اپنی طبعی عمر پوری کرکے چلے گئے ہیں؛ مگر ان کے کارنامے اس قدر ہیں، کہ وہ صدیوں تک بھلائے نہیں جا سکیں گے، نئی نسل ان کی علمی تحقیقات سے ہمیشہ مستفید ہوتی رہے گی. اور استاذ ذوق کی زبانی میں کہوں گا کہ :
رہتا ہے سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوق!
اولاد سے یہی کہ دو پشت چار پشت.
شمس تبریز قاسمی ،موتیہاری
ریسرچ اسکالر شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم، دیوبند