معاون مدرس مدرسہ اسلامیہ تریاواں سہرسہ
وزیر اعلیٰ بہار عزت مآب جناب نتیش کمار نے جہاں سڑک و صحت کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں، وہیں تعلیم کے سدھار کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے ، خاص طور پر مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس اسلامیہ کی تعلیم کی طرف جس کے نتیجے میں بورڈ کا نظام بھی چست درست ہو ا اور مدارس کا نظام تعلیم بھی بہتر ہوا ، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ، اپنی سرگرمیوں ، کار کردگیوں اور حصولیابیوں کی وجہ سے اپنی ایک خاص پہچان بنا چکا ہے ، انتظام و انصرام کی درستگی اور معیار تعلیم کے لحاظ سے بورڈ رول موڈل کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے عزم و حوصلے کے ساتھ قوم و ملت کے نونہالوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی مخلصانہ اور ایماندارانہ کوششوں نے ادارے کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا ہے ، ڈیڑ ھ سال کی کار کردگی کی بنیاد پر کھویا ہوا وقار واپس ہوا ، اور قوم و ملت کا اعتماد بحال ہوا جو اپنے آپ میں ایک قابل فخر بات ہے ۔ بورڈ کی اس تاریخی کامیابی کا سہرہ موجودہ فعال اور متحرک چیئر مین عبد القیوم انصاری صاحب کے سر ہے کہ انہوں نے بہت تھوڑے عرصے میں بورڈ سے ملحق تمام مدارس ، جملہ اساتذہ ، زیر تعلیم طلبہ و طالبات کے حق میں ٹھوس اور مضبوط قدم اٹھائے ہیں ۔
جناب عبد القیوم انصاری صاحب کو جب سے چیئر مین بنایا گیا مثبت سوچ اور تعمیری جذبے کے ساتھ آگے بڑھتے رہے ، محنتی اور مخلص لوگوں کو ٹیم میں شامل کیا ، خود مسلمانوں سے بورڈ کو جو نقصان پہنچ رہا تھا انہیں باہر کا راستہ دکھایا ، محترم چیئر مین صاحب نے قومی مفاد اور اپنے اصول سے کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ، بورڈ کو ہر جہت سے مضبوط و منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا ، جدید ٹیکنا لوجی سے آراستہ کیا ، ترقیاتی منصوبے بنائے ، برسوں سے پڑے ہوئے کاموں کو نمٹایا ، بورڈ کی یہ حصولیابیاں ممکن نہیں ہوتیں اگر بہار کے موجودہ معزز وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور وزیر تعلیم کرشن نندن پرساد ورما کی توجہ خاص اور تعاون ساتھ نہیں ہوتا ، مدرسہ بورڈ کی نمایاں کامیابی میں بورڈ کے سکریٹری جناب محمد سعید انصاری صاحب کی فکر مندی اور محنت کے ساتھ ساتھ مخلص کار کنان کی کد و کاوش اور جہد مسلسل کا اہم رول ہے ، موجودہ چیئر مین صاحب نے مدرسہ بورڈ کو بد عنوانی سے پاک کیا ، امتحانات میں بڑے پیمانے پر گڑبڑی ہوتی تھی اس کے طریقہ کار کو چست و درست کرنے کی کوشش کی ، وقت پر امتحانات منعقد کرائے گئے ، اساتذہ کی شرح تنخواہ بہت کم تھی اور وہ بھی وقت پر نہیں ملتی تھی ، اساتذہ و ملازمین کی شرح تنخواہ میں اضافہ ہوا اور وقت پر تنخواہ ملنے لگی ، بورڈ کی کار کردگی کو بہتر بنانے کے لئے علاقائی دفتر پورنیہ کا قیام عمل میں آیا اور اس کے لئے 1 کڑوڑ80 لاکھ رپئے مختص کئے گئے ، جس سے علاقائی لوگوں کو بہت سہولت میسر ہوئی ، وسطانیہ ، فوقانیہ اور مولوی کے لئے آن لائن فارم بھر نے کا سلسلہ شروع ہوا ، آن لائن ایڈمٹ کارڈ دیا جانے لگا ساتھ ہی ان درجوں کے امتحانات کے رزلٹ مدرسہ بورڈ کے ویب سائٹ پر شائع کیا جانے لگا ، آن لائن مارک شیٹ بھی جاری کیا جانے لگا ، جس سے طلبہ و طالبات کو راحت ہوئی اور بہت سی پریشانیوں سے چھٹکارا ملا ۔
واضح ہو کہ درجہ وسطانیہ ، فوقانیہ اور مولوی امتحانات سال 2020 ء وقت پر ہونے اور 14 مارچ کو رزلٹ جاری کرنے میں محترم چیئر مین کی کاوشوں اور کنٹرولر آف اکزامنیشن جناب محمد اعجاز احمد کی دلچسپی اور کارکنان کی لگن شامل ہے ، جیسا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ کر اس سال تمام بورڈ اور یونیور سیٹی کے امتحانات اور رزلٹ میں تاخیر ہوئی ہے ۔ درجہ فوقانیہ میں اول پوزیشن لانے والے طلبہ و طالبات کو 10000/- اور درجہ مولوی میں اول پوزیشن لانے والی طالبات کو 15000/- حوصلہ افزائی رقم دیا جاتا ہے ۔جس کی ادائیگی دفتر محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے ذریعہ ہوتی ہے ۔ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لئے مدرسہ بورڈ کی جانب سے اساتذہ کو ٹریننگ دی گئی ، قوم کے نونہالوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے تعلیم نو بالغان کا کورس شروع کیا گیا ، ماہرین تعلیم کی نگرانی میں بورڈ کا جدید نصاب تیار کیا گیا ۔محترم جناب چیئر مین صاحب کا خوش آئند قدم یہ بھی ہے کہ مدرسہ بورڈ کے نصاب کی کتابیں جو دینی و عصری تعلیم دونوں کا سنگم ہیں ، بورڈ کے تمام ملحقہ مدارس تک پہنچائی جا رہی ہیں جو بورڈ کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے ، بورڈ کی 100 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ نمایاں کام انجام دیا جا رہا ہے ۔بہار کے 1128 مدارس میں کمپیوٹر فراہم کرانے کے تعلق سے کمپیوٹر دفتر مدرسہ بورڈ میں آچکا ہے۔جس کی تقسیم کا سلسلہ گزشتہ 23/09/2020 سے شروع ہو چکا ہے ۔ جلد از جلد 1127 زمرے کے سبھی مدارس کو کمپیوٹر فراہم کرایاجائے گا۔ کرونا مہاماری میں طلبہ و طالبات کا تعلیمی نقصان نہ ہو اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے آن لائن کلاسیز شروع کئے گئے ، جس سے کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات مستفید ہو رہے ہیں ۔ آفات و ناگہانی مصائب سے کس طرح نمٹا جائے اور اس مصیبت کی گھڑی میں لوگوں کی کس طرح مدد کی جائے اس مقصد کے تحت پانچ ہزار اساتذہ کو ٹریننگ دی گئی طلبہ و طالبات کے لئے ڈریس کوڈ نافذ کیا گیا تاکہ تعلیم کے ساتھ شعوری طور پر اپنے تہذیبی قدروں سے رشتہ برقرار رہے ، فضا کو آلودگی سے بچانے اور آب و ہوا کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لئے مدارس میں شجر کاری کی جارہی ہے ۔
بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجو کیشن بورڈ کو مزید ترقی دینے کے لئے بہت سے نئے منصوبے بنائے گئے اور وعدے کئے گئے ہیں بلکہ چند دنوں پہلے کچھ منصوبوں کا معزز وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ہاتھوں افتتاح کیا گیا ہے ، جس سے یہ امید ہوتی ہے کہ ان منصوبوں پر عملی اقدام کا ارادہ ہے ، خدا کرے کہ ان منصوبوں کو پوری نیک نیتی کے ساتھ زمین پر اتارا جائے تاکہ بورڈ کی کار کر دگیوں اور حصولیابیوں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے ۔
بہار حکومت
انوار الحسن وسطوی، حاجی پور
رابطہ:9430649112
13جون 2020 (سوموار) روزنامہ قومی تنظیم کے”ادب نامہ“ میں محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کے ایک حکم نامہ کے حوالے سے جواں سال ادیب، شاعر اور صحافی جناب کامران غنی صبا کی تحریربعنوان ”اردو کے لیے کم سے کم اتنا تو کیجیے“ نظر نواز ہوئی۔ جس میں انہوں نے مذکورہ حکم نامہ کا حوالہ پیش کرتے ہوئے اس کی صراحت کی ہے۔ کابینہ سکریٹریٹ کا حکم نامہ یہ ہے کہ تمام سرکاری دفاتر کے اعلیٰ افسران کے ناموں کی تختی (Name Plate)، سرکاری منصوبوں کے بینر، سرکاری عمارات کا سنگِ افتتاح، ہورڈنگ، دعوت نامے وغیرہ ہندی کے ساتھ ساتھ ریاست کی دوسری سرکاری زبان اردو میں بھی آویزاں / شائع کیے جائیں۔ کامران غنی صباؔ نے اس حکم نامے کو مشتہر کرنے کے لیے باضابطہ ایک تحریر رقم کی اور اسے اخبار میں شائع بھی کرایا۔ بلاشبہ موصوف کی یہ کاوش ان کی اردو دوستی کی دلیل ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ گرچہ یہ ہدایت نامہ حکومتی احکام ہے لہٰذا متعلقہ افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ بہار کے ہر اضلاع میں اس سرکاری حکم نامے پر عمل درآمد ہوگا ہی۔ اس حکم نامے کے عمل درآمد کے لیے انھوں نے عوامی بیداری کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ موصوف کے اس خیال سے بھی عدم اتفاق کی کوئی گنجائش نہیں کہ ”ہم اردو والوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم آواز اُٹھانا اور دباؤ بنانا نہیں جانتے۔ ہم آواز وہاں اٹھاتے ہیں جہاں ہمارا ذاتی مفاد ہوتا ہے۔“ انھوں نے اس ضمن میں بہار اردو اکادمی کے کاموں کی مثال دیتے ہوئے صحیح تحریر فرمایا ہے کہ ”جب اکادمی فعال تھی تو لوگ اس کے کاموں پر تنقید کرتے تھے۔ آج جب اکادمی غیر متحرک ہے تو اس کے خلاف کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ اکادمی کی مخالفت کرنے والے لوگ چین کی نیند سو رہے ہیں۔“میں عزیز موصوف کو ان کے لڑکپن اور طالب علی کے زمانہ کی ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ ٹھیک یہی سلوک ماضی میں انجمن ترقی اردو کے ساتھ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پروفیسر عبدالمغنی کی قیادت میں انجمن جمہوری طریقے سے چل رہی تھی۔ صوبائی سطح پر مجلس عاملہ کی تشکیل ہوتی تھی۔ سال میں کم سے کم ایک دفعہ انجمن کی ریاستی مجلس عاملہ کی نشستیں منعقد ہوتی تھیں جن میں پورے بہار سے ممبران شریک ہوتے تھے۔ تجاویزمنظور کی جاتی تھیں۔ جن کی کاپی حکومت اور متعلقہ محکموں کو بھیجی جاتی تھیں۔ ضرورت پڑنے پر صدر انجمن وزیر اعظم ہند، گورنر، وزیر اعلیٰ اور وزراء کو مراسلے ارسال کرتے تھے۔ مشورہ پر حکومت حسبِ توفیق عمل بھی کرتی تھی۔ انجمن کے زیر اہتمام ایک رسالہ ”مریخ“ شائع ہوتا تھا جو انجمن کا ترجمان بھی تھا۔ اس رسالہ کو نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری اردو دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اتنے کاموں کے باوجود لوگ صدر انجمن (پروفیسر عبدالمغنی)کو ہدف تنقید بنایا کرتے تھے اور انجمن کو ’ٹو مین کمیٹی‘ کے لقب سے نوازتے تھے۔ ایسا کہنے والوں میں ابھی بھی کچھ لوگ زندہ ہیں بلکہ پورے ہوش و حواس میں ہیں۔ میں ان کا نام لے کر ان سے جھگڑا ول لینا نہیں چاہتا لیکن ان سے میرا یہ سوال ضرور ہے کہ انجمن میں اب کوئی خامی یا خرابی انھیں کیوں نظر نہیں آتی ہے؟ کیا اب انجمن ان لوگوں کی توقعا ت کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہی ہے؟ اگر نہیں تو مجھے معاف فرمائیں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ شال اور گلدستے کی چاہت نے لوگوں کی زبان کو گنگ کر رکھا ہے۔ لوگ اپنے مفاد کی خاطر ایمان کی بات بولنا نہیں چاہتے ہیں۔
کامران غنی صباؔ کی مذکورہ تحریر کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ”جس طرح دوسرے شعبہئ حیات میں نوجوان بڑھ چڑھ کر تحریک کا پرچم بلند کر رہے ہیں اسی طرح اردو تحریک کو بھی نوجوان اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔“ موصوف کی اس تجویز کو پڑھ کر مرزا غالبؔ کا یہ شعر بے ساختہ میرے ذہن میں آ گیا:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
واقعی کامران غنی صباؔ نے میرے دل کی بات کہہ دی ہے۔ میری بھی یہی تجویز ہے کہ بغیر وقت ضائع کیے اب نوجوان آگے بڑھ کر اردو تحریک کی کمان سنبھال لیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں بہار میں اردو تحریک کی کمان سید محمد ایوب ایڈوکیٹ، الحاج غلام سرور، پروفیسر عبدالمغنی، مولانا بیتاب صدیقی، شاہ مشتاق احمد، سید تقی رحیم، پروفیسر قمر اعظم ہاشمی جیسے مجاہدین اردو نے عالمِ ضعیفی میں نہیں بلکہ ایامِ جوانی میں ہی سنبھالی تھی اور لمبے عرصے تک اردو کی لڑائی لڑی تھی جس کے نتیجے میں بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوا تھا۔ میرا بھی یہ ماننا ہے کہ ریاست میں اردو کے عملی نفاذ کے سلسلہ میں اگر نئی نسل کے لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور تاریخ کو دہرائیں گے تو ان شاء اللہ ضرور کامیابی حاصل ہوگی اور اردو کے مسائل ضرور حل ہوں گے۔ میں کامران غنی صباؔ کے اس خیال کی سو فیصد تائید کرتا ہوں کہ ”آج جس طرح ملکی سطح پر نوجوانوں نے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی قیادت اور رہبری کا انتظار کیے بغیر تحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا ہے اسی طرح اردو تحریک کو بھی جواں اور گرم خون کی ضرورت ہے اور جس دن نوجوانوں نے اردو تحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں لے لیا اُس دن سے انقلاب کی ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا۔“ عزیزی کامران غنی صباؔ کا یہ جذبہ اور حوصلہ قابلِ قدر اور لائقِ تائید ہے۔
اردو تحریک کو بھی جوان اور گرم خون کی ضرورت ہے
کامران غنی صبا
گزشتہ 6 جنوری 2020 ء کو محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کی جانب سے ہوم سکریٹری جناب عامر سبحانی کے دستخط کے ساتھ بہار کے تمام سرکاری دفاتر کے اعلیٰ افسران کے نام ایک حکم نامہ جاری کیا گیا ہے، جس میں بہت ہی زور دے کر تمام سرکاری دفاتر کے اعلیٰ افسران کے ناموں کی تختی (Name Plate)، سرکاری منصوبوں کے بینر، سرکاری عمارات کا سنگ افتتاح، ہورڈنگ، دعوت نامے وغیرہ ہندی کے ساتھ ساتھ ریاست کی دوسری سرکاری زبان اردو میں بھی آویزاں/ شائع کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ چونکہ یہ ہدایت نامہ حکومتی فرمان ہے لہٰذا متعلقہ افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں لیکن اس کے باوجود یہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ بہار کے سبھی اضلاع کے تمام سرکاری دفاتر میں اردو کو اس کا جائز مقام مل ہی جائے گا۔ اردو کو اس کا حق دلانے کے لیے عوامی بیداری انتہائی ضروری ہے۔ اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ سرکاری احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتی ہے اور ہمارے اعلیٰ افسران کے کانوں پر جوئیں تک نہیں رینگتی لیکن جب ان پر عوامی دباؤ بنتا ہے تو انہیں جھکنا پڑتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ستمبر 2019ء میں دیکھنے کو مل چکی ہے جب پٹنہ جنکشن کی جدید کاری کے دوران نیم پلیٹ سے اردو کو ہٹا دیا گیا تھا؛لیکن سوشل میڈیا پر جب بڑے پیمانے پر تحریک شروع ہوئی اور سوال اٹھائے جانے لگے تو راتوں رات پٹنہ جنکشن پر اردو دوبارہ سے چمکتی ہوئی نظر آنے لگی۔ ہم اردو والوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم آواز اٹھانا اور دباؤ بنانا نہیں جانتے۔ ہم آواز وہاں اٹھاتے ہیں، جہاں ہمارا ذاتی مفاد ہو۔ بہار اردو اکادمی کی مثال زیادہ پرانی نہیں ہے۔ تقریباً دو سال سے اکادمی خدا بھروسے چل رہی ہے۔سمینار، مشاعرے، کتابوں کی اشاعت، انعامات، بیمار شعرا و ادبا کی معاونت ساری سرگرمیاں ٹھپ ہیں۔ کسی کو کوئی فکر نہیں۔ جس وقت اکادمی میں باضابطہ سکریٹری تھے، اکادمی فعال تھی۔ تب سب کی نظر اکادمی پر ٹکی تھی۔ سکریٹری کے کاموں میں کیڑے نکالے جا رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر محاذ جنگ قائم تھا۔ ادب کے نام پر بدتہذیبی کا بازار گرم تھا۔ معاملہ کورٹ اور کچہری تک پہنچ چکا تھا۔ آج وہ سب لوگ جو اُس وقت فعال و متحرک نظر آ رہے تھے، چین کی نیند سو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اکادمی کے ساتھ ساتھ ان سب کی روحیں بھی پرواز کر چکی ہوں۔ اردو مشاورتی کمیٹی کا بھی یہی حال ہے۔
بات تھوڑی تلخ ضرور ہے لیکن حقیقت ہے کہ ہمارے بڑوں نے ہمیں تربیت کے نام پر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا، اپنے ذاتی مفاد کے لیے سیاست دانوں کی خوشامد اور چاپلوسی کرنا، سمینار اور مشاعروں میں شامل ہونے کے لیے جوڑ توڑ کی سیاست کرنے کے سوا اور کچھ نہیں سکھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس نہ کوئی مضبوط تنظیم ہے اور نہ کوئی ایسی مضبوط آواز جسے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکے۔یہ کوئی جذباتی باتیں نہیں ہیں بلکہ برسوں کا مشاہدہ ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح دوسرے شعبہ جات میں نوجوان بڑھ کر تحریک کا پرچم بلند کر رہے ہیں اُسی طرح اردو تحریک بھی نوجوان اپنے ہاتھوں میں لیں۔ یہ میڈیا اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ بند کمروں میں چار آدمی کے ساتھ بیٹھ کر خوش گپیاں کر لینے سے مسئلے حل نہیں ہوتے۔ ہمارے پاس زمینی سطح پر کرنے کے لیے بے شمار کام ہیں۔ بہار میں اردو کے کتنے اساتذہ ہیں؟ اردو کی کتنی نشستیں خالی ہیں؟ اردو میڈیم کی کتابیں کیوں شائع نہیں ہو رہی ہیں؟ امتحانات میں سوالنامے اردو میں کیوں نہیں پہنچ رہے ہیں؟ دوسرے موضوعات کے اساتذہ کی تربیت ہوتی ہے، اردو کے اساتذہ کی تربیت کیوں نہیں ہوتی؟انٹرمیڈیٹ کا نصاب ابھی تک اردو میں کیوں شائع نہیں کیا گیا ہے؟ نصابی کتابوں میں موجود اغلاط کی اصلاح کیوں نہیں کی جا رہی ہے؟ان جیسے بے شمار مسائل ہیں،جن پر سنجیدگی سے توجہ دی ہی نہیں جاتی۔ کیوں کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ریلوے اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ اور ہوٹلوں کی عیاشی میسر نہیں ہوتی، اسٹیج نہیں ملتا۔
سرکاری دفاتر میں اردو کے نفاذ کے تعلق سے حکومت کی پہل قابلِ تعریف ہے؛ لیکن یہ اسی وقت مؤثر ہوگی جب ہر ضلع اور ہر بلاک کی اردو آبادی خاص طور پر نوجوان طبقہ بے لوث جذبے کے ساتھ اردو کی خدمت کے لیے آگے آئے۔ جہاں کہیں ان احکامات کی خلاف ورزی ہوتی نظر آئے، تو کابینہ سکریٹریٹ سے جاری مذکورہ مکتوب کی کاپی لے کر متعلقہ دفتر کے افسران سے رابطہ قائم کیا جائے۔ اس کے باوجود اگر اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک ہوتا نظر آئے، تو میڈیا اور سوشل میڈیا کا سہارا لیا جائے۔ جس سرکاری دفتر میں اردو کے ساتھ ناانصافی ہوتی نظر آئے، وہاں کی تصویر اور ویڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے عام کی جائے۔ ٹوئٹر پر وزیر اعلیٰ اور سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں کو یہ تصویریں اور ویڈیوز ٹیگ کیے جائیں۔ جس دن نوجوانوں نے اردوتحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں لے لیا، اُس دن سے انقلاب کی ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا۔
آج جس طرح ملکی سطح پر نوجوانوں نے تحریک کا پرچم اپنے ہاتھوں میں اٹھاکر مذہبی اور سیاسی ٹھکیداروں کو حاشیے پر پھینک دیا ہے، اُسی طرح اردو تحریک کو بھی جوان اور گرم خون کی ضرورت ہے، ورنہ اردو کے نام نہاد ٹھکیدار اردو کے نام پر اپنی دکانوں کو چمکاتے رہیں گے اور اردو اپنی بے بسی کا نوحہ پڑھتی رہے گی۔