آغا شورش کاشمیری نے اپنی مشہور خود نوشت سوانح’’بوے گل،نالۂ دل،دودِچراغِ محفل‘‘میں ۱۹۳۶ میں گاندھی جی سے ملاقات کا احوال لکھا ہے۔یہ وہ دور تھا جب ہندوستانی سیاست تیزی سے کروٹ بدل رہی تھی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کا عفریت اپنے دہانے کھول رہا تھا۔شورش نے گاندھی سے ملاقات کے دوران کئی سوالات کیے،جن کے جواب گاندھی جی نے بڑے انشراح و اعتماد کے ساتھ دیا،جو ان کا انداز تھا۔ان سوالوں میں سے ایک سوال مسلم لیڈرشپ کے بارے میں تھا،انھوں نے پوچھا:
’’ مسلمانوں کی ناکامی کا سبب کیاہے؟‘‘۔
گاندھی نے جواب دیا:
’’میں سمجھتاہوں کہ ان میں کوئی شخص بھی فقیری کرنا نہیں چاہتا؛بلکہ فقیری سے اٹھ کر شہنشاہی کر رہا ہے۔قومی خدمت صرف فقیری کرنے سے ہوتی ہے‘‘۔
شورش نے گاندھی کے اس جواب کا خاص پس منظر بیان کیاہے؛لیکن اگر ہم پچھلے سو ڈیڑھ سو سال کی مسلم سیاست ،قیادت پر نظر ڈالیں تو گاندھی کی یہ بات کتنی سچی ہے؛بلکہ اگر آپ خالی الذہن ہوکر تحریکِ آزادی کے دوران صرف مسلمانوں کے پلیٹ فارم سے بننے والی سیاسی پارٹیوں کا سرسری جائزہ لیں،تو گاندھی کی اس بات کی سچائی اور بھی روشن ہوکر سامنے آئے گی ۔آزادی سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ کے علاوہ درجنوں خالص مسلم سیاسی جماعتیں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ تمام مسلمانوں کی نمایندگی کا تھا۔خود مسلم لیگ جس نے مسلمانوں کے تحفظ و خود مختاری کے لیے پاکستان بنوایا،اس سے ٹوٹ کر اب تک وہاں لگ بھگ دودرجن سیاسی جماعتیں بن چکی ہیں۔ آزاد ہندوستان میں بھی ’’مسلم قیادت و سیاست‘‘کے کئی طوفان گزر چکے ہیں،اگر ان کی تاریخ دیکھ لی جائے ،تو اس سے بھی گاندھی کے ’’قومی خدمت‘‘اور ’’فقیری‘‘کے معنی سمجھے جاسکتے ہیں۔
حالیہ پانچ چھ سالوں کے دوران حکومت کی متعصبانہ پالیسیوں اور مبینہ سیکولر جماعتوں کی مسلمانوں سے کنارہ کشی کی وجہ سے جنوبی ہند کے سیاست داں اور ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کو میدان خالی ملا اور انھوں نے مسلم مسائل پر کھل کر بولنا شروع کیا،جس کے نتیجے میں مودی حکومت کے پہلے دور کے شروع ہوتے ہی وہ قومی سطح کے مسلم لیڈر بن گئے اور پھر بتدریج مسلمانوں کے بہت بڑے طبقے میں ایک بار پھر ’’اپنی قیادت‘‘ اور ’’اپنی سیاست‘‘ کو فروغ دینے کا جذبہ پیدا ہوا ہے،مگر حیرت ؛بلکہ المیہ ہے کہ ایسا ہر شخص اِس چکر میں ہے کہ اسی کو قائدِاعظم مان لیا جائے اور باقی سارے لوگ اس کی جھنڈا برداری کرتے نظر آئیں۔سوشل میڈیا پر مفکری کی باڑھ آئی ہوئی ہے اور چوک چوراہوں پر سیاسی پھکیت اپنی ہفوات کو اتنی خود اعتمادی سے پیش کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے قوم کی نجات و ترقی کا تیر بہ ہدف نسخہ بس اسی مہاپرش کے پاس ہے۔
بہار الیکشن کے موجودہ منظرنامے پر غور کیجیے تو جو پارٹیاں مسلمانوں کے زخموں کا مداوا کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں،خود ان کی سمتیں بھی مختلف ہیں،مثال کے طورپر مجلس کسی اور اتحاد میں شامل ہے،جبکہ ایس ڈی پی آئی کسی دوسرے اتحاد کا حصہ ہے،جو کہ من حیث المجموع بہار الیکشن کا چوتھا اتحاد ہے۔ پھر مجلس کا اتحاد بھی بی ایس پی اور اوپندر کشواہا کی پارٹی سے ہے،جن کا بھی کچھ پتا نہیں کہ کیا گل کھلائیں گے۔ مایاوتی کی تاریخ بھی پلٹی بازی کی ہے اور کشواہا تو خیر این ڈی اے کے ذریعے ہی قومی سیاست میں نمایاں ہوئے ہیں اور مرکزی وزیر بھی رہے ہیں۔اس اتحاد میں اور بھی پارٹیاں شامل ہیں،مگر مرکز میں یہی تینوں ہیں اور یہ اتحاد پورے بہار میں الیکشن لڑ رہاہے۔ایس ڈی پی آئی نے چندرشیکھر آزاد اور پپو یادو والے الائنس میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے اور یہ الائنس بھی پورے صوبے میں الیکشن لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ان سے ،خصوصاً مجلس سے وابستہ کارکنان کا ردِعمل عجیب و غریب ہے۔ عام طورپر وہ اپنا موقف معروضیت کے ساتھ رکھنے کی بجاے دوسروں پر تبرے بازی پر اتر آتے ہیں، جو سیاست کے علاوہ عام زندگی میں بھی حد درجہ مذموم ہے اور ایسی حرکتوں سے آپ کے انفرادی کیرکٹر کی ہی پول نہیں کھلتی،پوری جماعت کی اصل شبیہ سامنے آتی ہے۔
دوسری طرف کچھ لوگ جو سیاسی طبع آزمائی کے لیے مجلس سے وابستہ ہوگئے تھے اور اس امید میں تھے کہ الیکشن لڑنے اور’’اسلام کی خدمت کرنے‘‘کا موقع ملے گا،جب انھیں ’’کسی وجہ ‘‘سے ٹکٹ نہیں دیا گیا،تووہ ایک سے بڑھ کر ایک انکشاف کر رہے ہیں۔اب تک کئی لوگ سوشل میڈیا پر آکر یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مجلس نے لیاقت کی بجاے پیسے کو ٹکٹ کا معیار بنایا ہوا ہے اور بہار کے صںدرِ مجلس سمیت ان کے بعض خاص معاونین پر بھی پیسے لے کر ٹکٹ دینے کے الزامات لگ رہے ہیں،حالاں کہ یہ بات تو سارا ملک جانتا ہے کہ دوایک پارٹیوں کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو مفت میں ٹکٹ نہیں دیتیں ؛لیکن اس کو سیاسی اخلاقیات یا مجبوری یا کچھ بھی کہیے کہ ایسی باتیں بس نجی محفلوں میں ہوتی ہیں،قومی سطح پر یہ کبھی موضوعِ بحث نہیں رہا۔
اب ان الزام لگانے والوں کی باتیں درست ہیں یا نہیں،اس کی وضاحت تو پارٹی کے ذمے داران کریں گے۔خبریں تو ایسی بھی آرہی ہیں کہ بعض ناراض کارکنان کو مجلس نے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے، مگر اس پورے سلسلۂ واردات سے دوباتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ایک تو یہ کہ جو لوگ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں ،مجلس کی قیادت کو کوس رہے ہیں اور اس کا بھانڈا پھوڑنے کا دعویٰ کررہے ہیں،وہ کبھی بھی نہ مجلس کے تئیں مخلص رہے اور نہ اپنے اس دعوے میں کہ وہ مسلمانوں کے لیے فلاں فلاں تیر ماریں گے۔دوسری یہ کہ خود مجلس کو اُسی طرح کی ایک سیاسی پارٹی سمجھنا چاہیے،جیسی ملک کی دوسری بڑی چھوٹی پارٹیاں ہیں، جو موقع لگنے پر کسی سے بھی اتحاد کر سکتی ہے اور امیدواروں کے انتخاب میں اس کا معیار بھی وہی ہے،جو دوسری پارٹیوں کا ہے،باقی کہنے اور اپنے لوگوں کو Motivateکرنے کے لیے بے شمار باتیں ہوسکتی ہیں ۔اویسی بلا شبہ ایک قابل سیاست دان ہیں اور انھوں نے مسلمانوں سے متعلق مسائل پر کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے، مگر ایسے اور بھی بہت سے لوگ ہیں اور ان میں سے کچھ تو غیر مسلم بھی ہیں۔تو آپ اپنی صوابدید کے مطابق کسی بھی جماعت سے وابستگی اختیار کر کیجیے اور خلوص کے ساتھ سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیجیے ؛لیکن فکر و عمل میں اعتدال و وسطیت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔نہ کسی کی حمایت میں اندھا ہوجانا چاہیے اور نہ مخالفت میں حد سے گزرنا چاہیے،دونوں صورتیں مضر ہیں اور ہر حال میں مضر ہیں۔ آپ مجلس کو بھی ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح ایک سیاسی پارٹی مان کر چلیے اور اگر دل چاہے تو اس کے پلیٹ فارم سے کام کیجیے،ایسے میں اگر خدا نخواستہ پارٹی سے کبھی آپ کا’’موہ بھنگ‘‘بھی ہوا،تو زیادہ تکلیف نہیں ہوگی؛لیکن اگر کہیں یہ سوچ کر اس سے وابستگی اختیار کرلی کہ مجلس کے جیتتے ہی مسلمانوں کے سارے مسائل ہوا ہو جائیں گے اور اویسی ’’اردوانِ ہند‘‘ہیں ،پھر کسی موقعے پر پارٹی یا اس کے قائدین آپ کی امیدوں پر کھرے نہیں اترے،تو ایسے میں تکلیف شدید ہوگی؛بلکہ بہت شدید ہوگی۔
بہار انتخابات
بہار انتخابات:مہاگٹھ بندھن میں سیٹ کی تقسیم پر ہوا اتفاق،آرجے ڈی 143اور 70 سیٹوں پر لڑ ے گی کانگریس
پٹنہ:بہار میں اہم پوزیشن پارٹی راشٹریہ جنتا دل کی سربراہی والے مہا گٹھ بندھن میں سیٹ شیئرنگ پر اتفاق رائے ہوگئی ہے ۔ ذرائع کے مطابق 243 رکنی اسمبلی کے لئے مہا گٹھ بندھن کی سب سے بڑی جماعت آر جے ڈی 143 نشستوں پر انتخاب لڑے گی، جبکہ کانگریس 70 نشستوں پر امیدوار کھڑا کرے گی۔ ذرائع کے مطابق بائیں بازو کی جماعتوں کو 28 سے 30 نشستیں ملی ہیں۔سیٹ شیئرنگ سے متعلق یہ معاہدہ پہلے مرحلے کی نامزدگی کے دوسرے دن ہوا ، حالانکہ اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ ریاست میں پولنگ کا پہلا مرحلہ 28 اکتوبر کو 71 نشستوں پر ہونا ہے۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے کے انتخابات 3 اور 7 نومبر کو ہونے ہیں۔ ووٹوں کی گنتی 10 نومبر کو ہوگی۔ پہلے مرحلے کے لئے نامزدگی جمعرات (یکم اکتوبر) سے شروع ہوگئی ہے۔ یہ 8 اکتوبر تک جاری رہے گی ۔
بہار الیکشن کے موضوع پر کل میں نے ایک تحریر پوسٹ کی تھی متعدد احباب نے اسے حوصلہ افزا قرار دیا تاہم ہمیں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ خواہشات پر مبنی سوچ wishful thinking اور زمینی حقیقت دو مختلف باتیں ہیں ان دونوں میں تطابق ممکن تو ہے مگر محنت اور صبر طلب ہے۔ یہ کوئی overnight process یعنی راتوں رات کسی پارٹی کا وجود میں آنا یا کسی ریاست میں جا کر اپنی حیثیت تسلیم کرانا محض جذباتی باتیں نہیں جہد مسلسل اور grassroots level پر کام چاہتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ انتخابی سیاست اب اتنی سہل نہیں کہ کوئی سرگرم سماجی کارکن ارادہ کرے اور پارٹی اسے ٹکٹ دیدے۔ اس کی تمام عوامی خدمات کے باوجود مذہب اور برادری کو عذر بنا کر یعنی یہ کہہ کر کہ ‘دوسری جات یا دھرم والے آپ کو قبول نہیں کریں گے’ پارٹی ٹکٹ دینے سے انکار کر دیتی ہے۔
تیسری بات یہ کہ پارٹی lobbying اور پیسے خرچ کرنے کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ٹکٹ دیتی ہے۔ بعض پارٹیاں خصوصا دو بڑی پارٹیاں امیدوار کو الیکشن لڑنے کے اخراجات دیتی ہیں تو دوسری کچھ ایسی پارٹیاں بھی ہیں جو پیسوں کے عوض ٹکٹ دیتی ہیں۔
الیکشن لڑنے کے لئے پچاس لاکھ سے ایک کروڑ تک بھی رقم درکار ہوتی ہے۔ سرمایہ کار، ٹھکیدار، بڑے تاجر اپنے مفادات کی برآری کے لئے متوقع جیتنے والے امیدواروں کو فائننس کرتے ہیں تاکہ جیتنے کے بعد ان سے کام لیا جا سکے۔
ایسے میں صاف ستھری سیاست اور "سیاست ذرا ہٹ کے” کی بات کرنا معقول نظر نہیں آتا۔ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو مثالی باتیں کون قبول کرے گا سب کی زبان پر ایک ہی بات آتی ہے کہ ایک چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا اس لیے اس سسٹم سے ہٹ کر سوچنے کا فائدہ نہیں۔
لیکن میں کہتا ہوں کہ اس کو خاطر میں لائے بغیر کہ وہ جیتے گا یا نہیں، اچھے لوگوں کو سامنے لائیں ان کی شکست میں بھی خیر کا پہلو یہ ہے کہ اس بار ان کی پہچان بنے گی پھر رفتہ رفتہ بلا تفریق مذہب و ذات برادری عوامی خدمت سے ان کی مقبولیت بڑھے گی۔ یہ آپ کے نوٹا (فہرست میں مذکور امیدواروں میں سے کوئی نہیں) سے بہتر ہے۔ جب تک آپ زمینی پکڑ نہیں بنائیں گے آپ حقیقی طور پر عوامی نمائندگی کے لائق نہیں ہوں گے۔ ہر پانچ سال کے بعد جاگیں گے اور الیکشن میں شکست کے بعد پھر سو جائیں گے۔
گڈ گورننس،ترقی کے مسائل پر لڑیں بہار الیکشن،مسائل کم پڑرہے ہوں توہم بھجوائیں گے:سنجے راوت
نئی دہلی:شیوسینا لیڈر اور راجیہ سبھا رکن سنجے راوت نے کہا ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات صرف گڈ گورننس، ترقی اور ریاست میں موجودہ نظم ونسق کے حالات پر لڑنا چاہئے۔ انہوں نے سختی سے کہا کہ اگر اس طرح کے مسائل کی کمی ہے تو ہم ممبئی سے پارسل بھیج دیں گے۔دراصل راوت بہار انتخابات سے قبل اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کی سیاست کرنے کے لئے بی جے پی اور جے ڈی یو کی مخلوط حکومت کو نشانہ بنارہے تھے۔ راوت نے یہ بھی کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے حکومت نے پارلیمنٹ کا مون سون اجلاس وقت سے پہلے ہی ختم کردیا ہے لیکن بہار کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ کیا بہار میں کورونا وائرس کا اثر ختم ہوچکا ہے؟سنجے راوت کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب الیکشن کمیشن نے بہار میں تین مراحل میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ 28 اکتوبر، 3 نومبر اور 7 نومبر کو بہار میں ووٹ ڈالے جائیں گے، جبکہ ووٹوں کی گنتی 10 نومبر کو ہوگی۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ بہار انتخابات میں سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کا معاملہ بھی ایک مسئلہ ہوگا ،تو راوت نے کہاکہ مرکز اور ریاست (بہار) نے صرف سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کو ایک سیاسی مسئلہ بنانے کے لئے اس معاملے پر سیاست کی۔ جے ڈی (یو) نے پہلے ہی اس سمت میں راجپوت کے نام والے پوسٹر شائع کیے ہیں اور اسے تشہیر میں بھی لایا ہے۔اسے انتخابی مسئلہ بنایا جارہا ہے کیونکہ حکومت بہار کے پاس ترقیاتی امور یا گڈ گورننس کے بارے میں بولنے کے لیے کچھ بھی نہیں ۔
نئی دہلی:الیکشن کمیشن نے بہار میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کردیا ہے۔ ووٹنگ تین مرحلوں میں ہوگی۔ پہلے مرحلے میں ووٹنگ 28 اکتوبر کو ہوگی جبکہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں ووٹنگ 3 نومبر اور 7 نومبر کو ہوگی۔ ووٹوں کی گنتی 10 نومبر کو کی جائے گی۔ کمیشن نے کورونا بحران میں ہونے والے انتخابات کے لئے ٹھوس انتظامات کیے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے ہر بوتھ پر صرف 1000 ووٹر ہی ووٹ ڈال سکیں گے۔ پہلے یہ تعداد 1500 ہوتی تھی۔ کمیشن کے مطابق قرنطین مریض بھی ووٹ ڈال سکیں گے۔ کورونا سے متاثرہ مریض ووٹنگ کے آخری ایک گھنٹہ میں ووٹ دے سکیں گے۔پولنگ کے آخری گھنٹے، یعنی شام 5 بجے سے شام 6 بجے تک صرف کورونا سے متاثرہ مریضوں کے لیے رکھا گیا ہے۔ اسی وجہ سے کمیشن نے ووٹنگ کا وقت بڑھا دیا ہے۔ ریاست بھر کے بوتھ پر 23 لاکھ ہینڈ گلبس استعمال ہوں گے۔ تمام بوتھ پر قرنطین مریضوں کے لئے خصوصی انتظامات کیے جائیں۔ کورونا سے پولنگ ورکرز کی حفاظت کے لئے بوتھ پر 6 لاکھ پی پی ای کٹس کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ کمیشن کے مطابق 46 لاکھ ماسک پولنگ عملہ استعمال کرے گا۔ ریاست بھر کے بوتھوں پر سات لاکھ ہینڈ سینیائٹرز کا انتظام کیا جائے گا۔ ان کے علاوہ 6 لاکھ فیس شیلڈ بھی استعمال میں لایا جائے گا ۔ کمیشن نے کہا کہ بہار میں 18 لاکھ سے زیادہ مہاجروطن مزدور ہیں، جن میں سے 16 لاکھ ووٹ ڈالے جانے کا امکان ہے۔چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑا نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ 80 سال تک کے لوگ پوسٹل بیلٹ سے ووٹ ڈال سکیں گے۔ ہر بوتھ پر صابن، سینیٹائزر اور دیگر چیزیں مہیا کی جائیں گی۔ کمیشن نے ڈور ٹو ڈور مہم میں صرف پانچ افراد کو جانے کی اجازت دی ہے۔ کورونا کی وجہ سے امیدوار نامزدگی اور حلف نامہ آن لائن بھی پُر کرسکیں گے۔ڈپوزٹ بھی آن لائن جمع ہوگا ۔ نامزدگی کے وقت دو سے زیادہ افراد پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کمیشن نے انتخابی مہم کے دوران ہاتھ ملانے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔