آغا شورش کاشمیری نے اپنی مشہور خود نوشت سوانح’’بوے گل،نالۂ دل،دودِچراغِ محفل‘‘میں ۱۹۳۶ میں گاندھی جی سے ملاقات کا احوال لکھا ہے۔یہ وہ دور تھا جب ہندوستانی سیاست تیزی سے کروٹ بدل رہی تھی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کا عفریت اپنے دہانے کھول رہا تھا۔شورش نے گاندھی سے ملاقات کے دوران کئی سوالات کیے،جن کے جواب گاندھی جی نے بڑے انشراح و اعتماد کے ساتھ دیا،جو ان کا انداز تھا۔ان سوالوں میں سے ایک سوال مسلم لیڈرشپ کے بارے میں تھا،انھوں نے پوچھا:
’’ مسلمانوں کی ناکامی کا سبب کیاہے؟‘‘۔
گاندھی نے جواب دیا:
’’میں سمجھتاہوں کہ ان میں کوئی شخص بھی فقیری کرنا نہیں چاہتا؛بلکہ فقیری سے اٹھ کر شہنشاہی کر رہا ہے۔قومی خدمت صرف فقیری کرنے سے ہوتی ہے‘‘۔
شورش نے گاندھی کے اس جواب کا خاص پس منظر بیان کیاہے؛لیکن اگر ہم پچھلے سو ڈیڑھ سو سال کی مسلم سیاست ،قیادت پر نظر ڈالیں تو گاندھی کی یہ بات کتنی سچی ہے؛بلکہ اگر آپ خالی الذہن ہوکر تحریکِ آزادی کے دوران صرف مسلمانوں کے پلیٹ فارم سے بننے والی سیاسی پارٹیوں کا سرسری جائزہ لیں،تو گاندھی کی اس بات کی سچائی اور بھی روشن ہوکر سامنے آئے گی ۔آزادی سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ کے علاوہ درجنوں خالص مسلم سیاسی جماعتیں تھیں اور ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ تمام مسلمانوں کی نمایندگی کا تھا۔خود مسلم لیگ جس نے مسلمانوں کے تحفظ و خود مختاری کے لیے پاکستان بنوایا،اس سے ٹوٹ کر اب تک وہاں لگ بھگ دودرجن سیاسی جماعتیں بن چکی ہیں۔ آزاد ہندوستان میں بھی ’’مسلم قیادت و سیاست‘‘کے کئی طوفان گزر چکے ہیں،اگر ان کی تاریخ دیکھ لی جائے ،تو اس سے بھی گاندھی کے ’’قومی خدمت‘‘اور ’’فقیری‘‘کے معنی سمجھے جاسکتے ہیں۔
حالیہ پانچ چھ سالوں کے دوران حکومت کی متعصبانہ پالیسیوں اور مبینہ سیکولر جماعتوں کی مسلمانوں سے کنارہ کشی کی وجہ سے جنوبی ہند کے سیاست داں اور ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی کو میدان خالی ملا اور انھوں نے مسلم مسائل پر کھل کر بولنا شروع کیا،جس کے نتیجے میں مودی حکومت کے پہلے دور کے شروع ہوتے ہی وہ قومی سطح کے مسلم لیڈر بن گئے اور پھر بتدریج مسلمانوں کے بہت بڑے طبقے میں ایک بار پھر ’’اپنی قیادت‘‘ اور ’’اپنی سیاست‘‘ کو فروغ دینے کا جذبہ پیدا ہوا ہے،مگر حیرت ؛بلکہ المیہ ہے کہ ایسا ہر شخص اِس چکر میں ہے کہ اسی کو قائدِاعظم مان لیا جائے اور باقی سارے لوگ اس کی جھنڈا برداری کرتے نظر آئیں۔سوشل میڈیا پر مفکری کی باڑھ آئی ہوئی ہے اور چوک چوراہوں پر سیاسی پھکیت اپنی ہفوات کو اتنی خود اعتمادی سے پیش کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے قوم کی نجات و ترقی کا تیر بہ ہدف نسخہ بس اسی مہاپرش کے پاس ہے۔
بہار الیکشن کے موجودہ منظرنامے پر غور کیجیے تو جو پارٹیاں مسلمانوں کے زخموں کا مداوا کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں،خود ان کی سمتیں بھی مختلف ہیں،مثال کے طورپر مجلس کسی اور اتحاد میں شامل ہے،جبکہ ایس ڈی پی آئی کسی دوسرے اتحاد کا حصہ ہے،جو کہ من حیث المجموع بہار الیکشن کا چوتھا اتحاد ہے۔ پھر مجلس کا اتحاد بھی بی ایس پی اور اوپندر کشواہا کی پارٹی سے ہے،جن کا بھی کچھ پتا نہیں کہ کیا گل کھلائیں گے۔ مایاوتی کی تاریخ بھی پلٹی بازی کی ہے اور کشواہا تو خیر این ڈی اے کے ذریعے ہی قومی سیاست میں نمایاں ہوئے ہیں اور مرکزی وزیر بھی رہے ہیں۔اس اتحاد میں اور بھی پارٹیاں شامل ہیں،مگر مرکز میں یہی تینوں ہیں اور یہ اتحاد پورے بہار میں الیکشن لڑ رہاہے۔ایس ڈی پی آئی نے چندرشیکھر آزاد اور پپو یادو والے الائنس میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے اور یہ الائنس بھی پورے صوبے میں الیکشن لڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ان سے ،خصوصاً مجلس سے وابستہ کارکنان کا ردِعمل عجیب و غریب ہے۔ عام طورپر وہ اپنا موقف معروضیت کے ساتھ رکھنے کی بجاے دوسروں پر تبرے بازی پر اتر آتے ہیں، جو سیاست کے علاوہ عام زندگی میں بھی حد درجہ مذموم ہے اور ایسی حرکتوں سے آپ کے انفرادی کیرکٹر کی ہی پول نہیں کھلتی،پوری جماعت کی اصل شبیہ سامنے آتی ہے۔
دوسری طرف کچھ لوگ جو سیاسی طبع آزمائی کے لیے مجلس سے وابستہ ہوگئے تھے اور اس امید میں تھے کہ الیکشن لڑنے اور’’اسلام کی خدمت کرنے‘‘کا موقع ملے گا،جب انھیں ’’کسی وجہ ‘‘سے ٹکٹ نہیں دیا گیا،تووہ ایک سے بڑھ کر ایک انکشاف کر رہے ہیں۔اب تک کئی لوگ سوشل میڈیا پر آکر یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مجلس نے لیاقت کی بجاے پیسے کو ٹکٹ کا معیار بنایا ہوا ہے اور بہار کے صںدرِ مجلس سمیت ان کے بعض خاص معاونین پر بھی پیسے لے کر ٹکٹ دینے کے الزامات لگ رہے ہیں،حالاں کہ یہ بات تو سارا ملک جانتا ہے کہ دوایک پارٹیوں کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو مفت میں ٹکٹ نہیں دیتیں ؛لیکن اس کو سیاسی اخلاقیات یا مجبوری یا کچھ بھی کہیے کہ ایسی باتیں بس نجی محفلوں میں ہوتی ہیں،قومی سطح پر یہ کبھی موضوعِ بحث نہیں رہا۔
اب ان الزام لگانے والوں کی باتیں درست ہیں یا نہیں،اس کی وضاحت تو پارٹی کے ذمے داران کریں گے۔خبریں تو ایسی بھی آرہی ہیں کہ بعض ناراض کارکنان کو مجلس نے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے، مگر اس پورے سلسلۂ واردات سے دوباتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ایک تو یہ کہ جو لوگ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہیں ،مجلس کی قیادت کو کوس رہے ہیں اور اس کا بھانڈا پھوڑنے کا دعویٰ کررہے ہیں،وہ کبھی بھی نہ مجلس کے تئیں مخلص رہے اور نہ اپنے اس دعوے میں کہ وہ مسلمانوں کے لیے فلاں فلاں تیر ماریں گے۔دوسری یہ کہ خود مجلس کو اُسی طرح کی ایک سیاسی پارٹی سمجھنا چاہیے،جیسی ملک کی دوسری بڑی چھوٹی پارٹیاں ہیں، جو موقع لگنے پر کسی سے بھی اتحاد کر سکتی ہے اور امیدواروں کے انتخاب میں اس کا معیار بھی وہی ہے،جو دوسری پارٹیوں کا ہے،باقی کہنے اور اپنے لوگوں کو Motivateکرنے کے لیے بے شمار باتیں ہوسکتی ہیں ۔اویسی بلا شبہ ایک قابل سیاست دان ہیں اور انھوں نے مسلمانوں سے متعلق مسائل پر کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے، مگر ایسے اور بھی بہت سے لوگ ہیں اور ان میں سے کچھ تو غیر مسلم بھی ہیں۔تو آپ اپنی صوابدید کے مطابق کسی بھی جماعت سے وابستگی اختیار کر کیجیے اور خلوص کے ساتھ سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیجیے ؛لیکن فکر و عمل میں اعتدال و وسطیت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔نہ کسی کی حمایت میں اندھا ہوجانا چاہیے اور نہ مخالفت میں حد سے گزرنا چاہیے،دونوں صورتیں مضر ہیں اور ہر حال میں مضر ہیں۔ آپ مجلس کو بھی ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں کی طرح ایک سیاسی پارٹی مان کر چلیے اور اگر دل چاہے تو اس کے پلیٹ فارم سے کام کیجیے،ایسے میں اگر خدا نخواستہ پارٹی سے کبھی آپ کا’’موہ بھنگ‘‘بھی ہوا،تو زیادہ تکلیف نہیں ہوگی؛لیکن اگر کہیں یہ سوچ کر اس سے وابستگی اختیار کرلی کہ مجلس کے جیتتے ہی مسلمانوں کے سارے مسائل ہوا ہو جائیں گے اور اویسی ’’اردوانِ ہند‘‘ہیں ،پھر کسی موقعے پر پارٹی یا اس کے قائدین آپ کی امیدوں پر کھرے نہیں اترے،تو ایسے میں تکلیف شدید ہوگی؛بلکہ بہت شدید ہوگی۔
بہار الیکشن
بہار کا سیاسی منظرنامہ اورمسلمان:واضح حکمتِ عملی کی ضرورت-محمدشارب ضیاء رحمانی
عصری سیاست،خودغرضی اورمفادپرستی کانام ہے۔بے اصولی،سیاست کاہنرہے۔اصول کے ساتھ سیاست نہیں ہوسکتی۔جوجتنابڑاخودغرض اورمفادپرست ہوگا،اتناماہرسیاست داں سمجھاجائے گا۔ دن گئے کہ لوگ سیاسی نظریات کی بنیادپرکسی پارٹی سے وابستہ ہوتے تھے،اب کوئی لیڈرکانگریس میں ہے توضروری نہیں کہ وہ ’کانگریسی‘ہو،کشتی ڈوبتی دیکھ کر’ملاح‘سفینہ بدل لیتے ہیں۔بات مسلم نمائندگی کی ہویاسیکولرزم کی سیاست کی تواس حمام میں سب یکساں ہیں۔کانگریس کی صف اول میں غلام نبی آزاد،احمدپٹیل،کے رحمن خان،سلمان خورشید اور طارق انورنظرآتے ہیں لیکن دوسری ،تیسری صف مسلم لیڈرشپ سے خالی ہے۔ کانگریس ہندونازبرداری کی سیاست پرگامزن ہے۔سخت گیرہندوتواکامقابلہ نرم ہندوتواسے نہیں کیاجاسکتا۔ملک کی سیاست اسی سمت چل پڑی ہے جدھرکی ہواہے۔ مسلم قیادت کسی پارٹی میں ہوتی ہے تو’سیکولر‘ہوتی ہے اورذرابے اعتنائی ہوئی،’مسلمان‘ہوجاتی ہے(یہی سب کچھ غلام نبی آزادکے معاملے میں دیکھنے میں آیا)جس طرح سیکولرپارٹیاں مفادات پرضرب لگتی دیکھ کرسیکولرزم کاراگ الاپناشروع کردیتی ہیں ۔مظفرنگرفسادات میں ایس پی حکومت کاکرداردیکھ لیجیے اوراب اس کاراگ سن لیجیے۔
بہارکاسیاسی منظرنامہ ہردن بدل رہاہے۔وفاداریاں اوربے وفائیاں انتخابی موسم کی روایتی چیزیں ہیں۔کوئی فرق نہیں پڑتاکہ کون کس طرف جارہاہے۔کشواہامودی سرکارمیں وزیررہے ہیں،لوک سبھاالیکشن میں ’سیکولر‘ہوگئے،اب وہ بیچ بیچ میں ہیں۔لوجپاکو’مودی سے بیرنہیں‘۔جیتن رام مانجھی ’اپمان ‘سہنے کے بعد پھرمحسن کی گودمیں بیٹھ گئے۔نتیش کمارنے مودی کی وزیراعظم کے طورپرنامزدگی کی مخالفت میں این ڈی اے کوچھوڑا،اب وہی ساتھ مل کر’وکاس ‘کی گنگابہانے کوتیارہیں۔اندازہ درست ہے کہ نتیش کمارکوکمزورکرنے کے لیے لوجپاکومیدان میں اتاراگیاہے۔لوک سبھاالیکشن میں بی جے پی کی بہترین کارکردگی(گرچہ وہ تیجسوی یادوکی حماقت سے کیوں نہ ہو)کے بعدریاستی اکائی کی طرف سے بی جے پی کو’آتم نربھر‘بنانے کی آوازاٹھنے لگی ۔لیکن فی الحال نتیش کے ساتھ الیکشن لڑنابی جے پی کی مجبوری ہے ۔چنانچہ برابرسیٹوں پراتفاق ہواکہ بی جے پی اپنے کوٹے سے لوجپاکونشست دے گی،اورجدیو،مانجھی کی ’ہم‘ کوسیٹ دے گی۔مانجھی چھے سات پرمان جاتے(جیساکہ ہوا،گرچہ چاران کے پریوارکے امیدوار ہیں،لیکن نتیش کمار’پریوارواد‘سے لڑرہے ہیں؟)اورپچیس تیس سیٹیں لوجپاکودینے کی صورت میں بی جے پی کے پاس نشستیں،جدیوسے کافی کم ہوجاتیں۔یہ صورت حال بی جے پی کے لیے ناقابل برداشت تھی ۔ لوجپاکوپہلے باہرکیاگیاتاکہ زیادہ سیٹیں نہ دینی پڑیں اورسہنی کواندرلیاگیاتاکہ کم سیٹ پرکام چل جائے اورجدیوکے ساتھ نشستوں اورووٹ بینک کاتوازن ٹھیک ٹھاک رہے۔پھرجدیوکے ووٹ میں سیندھ لگانے کے لیے لوجپاکواتاردیاگیا۔بی جے پی دونوں ہاتھوں میں لڈورکھناچاہتی ہے۔یعنی اگربی جے پی کی سیٹیں جدیوسے زیادہ آئیں تووہ اپنے وزیراعلیٰ کی دعوے داری ٹھوکے گی اور لوجپااورچھوٹی چھوٹی پارٹیوں اورآزادامیدواروں کی مددسے سرکاربناسکتی ہے۔آخرچراغ پاسوان کی امت شاہ اورجے پی نڈاکے ساتھ کئی میٹنگوں میں اورکیابات ہوئی ہوگی؟
’انترآتما‘کاحال تونہیں معلوم ،لیکن نتیش کمارکے لیے یہ صورت حال انتہائی شرمناک تھی،ان کی مجبوری ہے کہ مزدروں کی بے بسی،لاک ڈائون کی تباہ کاری،بے روزگاری اورسیلاب پرجدیوکے پاس جواب نہیں ہے چنانچہ پناہ لیناضروری ہے۔انتخابی ہنگاموں میں ’وکاس‘اورخصوصی ریاست کامدعانہیں رہے گا،البتہ رام مندر،دفعہ۳۷۰،سی اے اے کی آڑمیں چھپنے کاموقعہ مل جائے گا۔زمین کھسکتی دیکھ کرنتیش کمارنے بی جے پی کوآنکھ دکھائی۔خبرگرم ہے کہ وہ این ڈی اے کی پریس کانفرنس میں آنے کوتیارنہیں تھے ،بی جے پی کوصفائی دینی پڑی کہ’کرسی‘،کمارکے پاس رہے گی لیکن جنھیں ۲۱دن میں کوروناختم ہونے،جی ایس ٹی سے صر ف ایک ٹیکس لگنے اورنوٹ بندی سے کالادھن آنے پریقین نہیں ہے،انھیں اس وعدے پراعتمادنہیں ہے۔خودنتیش کمارکوبھی نہیں۔آخرابھی تک کھل کراعلان کیوںنہیں کیاگیاہے کہ لوجپاکواین ڈی اے سے باہرکردیاگیا؟اب لوجپاکے سیمبل پرآرایس ایس کے پرچارک سمیت بی جے پی کے متعددلیڈران اتارے گئے ہیں،بہانہ ٹکٹ نہ ملنے کاہے۔کہاجاسکتاہے کہ جدیوکی اصل حریف ، خودبی جے پی ہے۔نتیش کماریقیناََ اس کھیل کوسمجھ رہے ہیں۔ان کے ذہن میں’مہاراشٹر‘ ماڈل ہوگا۔وہ آسانی سے ’کرسی‘ نہیں چھوڑسکتے۔ویسے بھی کانگریس کے تئیں ان کارویہ نرم رہاہے اورراہل گاندھی کولالویادوکے مقابلے،نتیش کمارپسندہیں۔’سیکولر‘ثابت کرکے لیے کہاجارہاہے کہ بی جے پی ،نتیش کمارسے اپنے ایجنڈے پرکام نہیں کراپارہی ہے،اس لیے وہ انھیں ہٹاناچاہتی ہے۔ایسانہیں ہے، نتیش کمارنے کب بی جے پی کے ایجنڈے میں مددنہیں کی ہے؟اردوپربہارسرکارنے بڑاحملہ کیا،سی اے اے پرجدیونے ووٹ دیا،ماب لنچنگ ہوتی رہی،فرقہ ورانہ تشددسے کون واقف نہیں ہے؟بی جے پی کامقصداپناوزیراعلیٰ بناکرخودکفیل ہوناہے ۔اسے طنزسنناپڑتاہے کہ بہارمیں بی جے پی ’آتم نربھر‘نہیں ہے۔
تجزیہ کریں تولوجپاکے الگ ہونے سے پہلے این ڈی اے کی پوزیشن مضبوط تھی۔اب این ڈی اے میں بی جے پی مضبوط ہے،جدیوکمزورہوئی ہے۔ کمزوری کافائدہ اٹھاکرنتیش کمارکووزیراعلیٰ بننے سے روکاجائے گاتوجدیوکے جومسلم لیڈران نتیش کمارکے مبینہ’سیکولرچہرے‘پرووٹ مانگ رہے تھے،انھیں سوچناچاہیے۔این ڈی اے میں وزیراعلیٰ کاچہرہ اب غیرواضح ہے۔اسی لیے مسلمانوں کوجھانسے میں نہیں آناہے۔انھیں اپناایشونہیں چھوڑناہوگا،اردوپربہارسرکارکے حملے کویادرکھناہوگا،سی اے اے پرجدیوکی ووٹنگ نہیں بھولنی ہے۔کیوں کہ اگرجدیوکوووٹ دیاتوپیغام جائے گاکہ مسلمانوں کے ساتھ کچھ بھی کرلو،یہ قوم بھول جاتی ہے۔اس سے فرقہ پرستوں کوحوصلہ ملے گا۔بھول جانے کی یہی روایت بڑی بھول رہی ہے۔سوال معقول ہے کہ پھرکسے ووٹ دیاجائے؟متبادل کون ہے ؟(یہ سوال لوک سبھاالیکشن میں بھی پھیلایاجاتاہے کہ مودی نہیں توکون؟) سوال کاجواب اس وقت آسان ہوگاجب پہلے یہ طے کرلیں کہ کسے ووٹ نہیں دیناہے۔ حکمت عملی ہونی چاہیے کہ این ڈی اے کاکوئی امیدوارہو،ہرگزایک ووٹ نہ جائے(کچھ لوگ کہیں گے کہ جدیوکے مسلم امیدواروں کوجتایے،ان سے سوال ہے کہ مسلم ایم ایل اے نے اردوکی لازمیت ختم کرنے،سی اے اے پرووٹنگ،فرقہ ورانہ تشددپرکیااقدام کیا؟)اسی طرح چھوٹے چھوٹے ’موسمی گٹھ بندھن‘ بنے ہیں،ان کے چکرمیں ووٹ نہیں بربادکرنے چاہئیں۔مان کرچلیے،مقابلہ این ڈی اے بنام یوپی اے ہے،مہاگٹھ بندھن کمزورتھا،اوراین ڈی اے مضبوط تھا،اب این ڈی اے جزوی طورپر کمزورہواہے اورمہاگٹھ بندھن میں لیفٹ پارٹیوں کی انٹری کے بعدمضبوطی آئی ہے۔ہرسیٹ پرکچھ نہ کچھ ووٹ لیفٹ کاہے۔رہی بات کشواہا،مانجھی اورسہنی کے جانے کی تویہ لوگ گزشتہ الیکشن میں بھی یوپی اے میں نہیں تھے(بلکہ دواین ڈی اے میں تھے)لوک سبھاالیکشن میں سہنی خودنہیں جیت پائے۔پیروپیگنڈہ پھیلاجارہاہے کہ اپوزیشن کمزورہے۔یہ خاص انتخابی پلاننگ ہوتی ہے جیساکہ نیوزچینلزاوپنین پول کے ذریعے ماحول بناتے ہیں۔
اویسی،کشواہا،دیویندریادواورمایاوتی کاالائنس سامنے آیاہے۔مایاوتی جنھیں ہرذی شعوربی جے پی سے قریب پاتاہے،سے اویسی کااتحادکئی سوال کھڑے کررہاہے۔لکھ کررکھ لیجیے کہ مجلس کوکشواہابرادری،یادواوردلت کاووٹ نہیں ملے گا۔بہارمیں ذات پات پرووٹنگ ہوتی ہے لیکن مسلمان اورخاص کرمسلم پارٹی کے تئیں وہ ’ہندو‘ہوجائیں گے۔مسلمان ہرگزیہ غلطی نہ کریں کہ اس الائنس کی وجہ سے جوش میں اپنے ووٹ رالوسپا(کشواہا)یابی ایس پی کودے دیں۔ اتحادسے بی ایس پی ،رالوسپاکافائدہ توہے،مجلس کاکوئی فائدہ نہیں ہے۔ضرورت پڑی توکشواہاآسانی سے این ڈی اے میں چلے جائیں گے(جیساکہ گٹھ بندھن سے نکلنے کے بعدجانے کوبے تاب تھے)مایاوتی راجستھان کابدلہ لینے کے لیے پریشان ہیں۔اس الائنس سے متعلق منصوبہ ہوناچاہیے کہ جہاں رالوسپا،بی ایس پی کے امیدوارہوں گے وہاں انھیں ووٹ نہیں کریں گے اورجہاں مجلس کے امیدوارہوں گے وہاں جیتنے والے مجلس کے امیدوارکوجتائیں گے۔دوسری بات کہ مجلس اگرزیادہ سیٹوں پرلڑتی ہے تومزیدتجربہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے،اس سے بی جے پی کوفائدہ ہوگا،ہاں دس سیٹیں منتخب کرلی جائیں،ان منتخب سیٹوں پرمجلس کوووٹ دیاجائے،مثلاََاخترالایمان،قمرالہدیٰ کی نشستیں۔مجلس اگرپانچ سات سیٹیں بھی لاتی ہے توبڑی کامیابی ہوگی،تیجسوی کی ایٹھن ٹھیک کرنے کے لیے مجلس کاکچھ سیٹوں پرجیتناضروری ہے۔سچ ہے کہ راجدکی پالیسی سطحی رہی ہے۔وہ یادوکی نازبرداری کرتی رہی ، چاہے ٹکٹ کی تقسیم ہویاوزارت میں نمائندگی دینی ہو۔بہار میں یادوآبادی ،مسلمانوں کے قریب قریب ہے(یادرہے کہ لوک سبھاالیکشن میں یادو نے راجدکودھوکہ دیا)جب ٹکٹ نہیں دیں گے توکہاں سے مسلم نمائندگی ہوگی۔ ۲۰۰۰ میں یادوممبران اسمبلی کی تعداد۶۴تھی اور۲۰مسلمان کامیاب ہوئے،۲۰۰۵ میں۵۴ یادوممبران ،اسمبلی پہونچے جب کہ صرف ۱۶مسلمان جیتے اور پھر۲۰۱۰ میں لالوکی برادری کی تعداد۳۹ ہوگئی،اس الیکشن میں صرف ۱۹مسلم ممبران اسمبلی کامیاب ہوئے پھر۲۰۱۵میں یادوئوں کی تعداد بڑھ کر۶۱ ہوگئی۔جب کہ ۲۴مسلمان کامیاب ہوئے،جن میں ۱۲آرجے ڈی،۶کانگریس،۵جے ڈی یواورایک سی پی آئی سے تھے۔۲۰۱۵ کے اسمبلی الیکشن میں آرجے ڈی نے ۱۰۱ سیٹوں میں ۴۸ نشستوں پر یادوؤں کو ٹکٹ دیاتھا۔ان میں سے ۴۲ فاتح ہوئے۔ابھی بھی تیجسوی یہی کررہے ہیں۔جدیو نے بھی ایک سوپندرہ میں صرف گیارہ مسلم امیدوار اتارے ہیں-ہوسکتاہے کہ یادوئوں کوزیادہ ٹکٹ دینابہارکے تناظرمیں ہرپارٹی کی مجبوری رہی ہو،لیکن جس طرح اتنے کم مسلم امیدواراتارے جاتے ہیں،اس سے سیکولرپارٹیوں پرسوال بجاہے۔سچ ہے کہ لالویادونے بھی ہمیشہ مسلم سیاسی لیڈرشپ کودبایاہے۔اس لیے احتساب ہوتے رہناچاہیے،کمی یہ رہی کہ ہم نے سوال نہیں پوچھا،ان کااحتساب نہیں کیا۔ووٹ دیں،احتساب بھی کریں،بھارت کی سیاست میں ریاستی سطح پرپریشرگروپ، مسلم پارٹی سے زیادہ اہم ہیں۔فی الحال فرقہ پرستوں کواقتدارسے روکنے کے لیے ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔ہوسکتاہے کہ آپ کے علاقے میں گٹھ بندھن نے جسے ٹکٹ دیاہو،اس کے مقابلے جدیوکاامیدواراچھاہو،لیکن اپنے علاقوں اورذاتی تعلقات کی بجائے پوری ریاست اورملک کی صورت حال کودیکھناچاہیے۔اگرہرعلاقہ کے لوگ یہی دیکھتے رہے توسوچیے، نتائج کیاہوں گے ۔
خلاصہ یہ کہ پہلے طے کرلیں کہ ووٹ کسے نہیں دیناہے ،پھریہ سمجھناآسان ہوگاکہ کسے دیناہے ۔علاقائی پارٹیوں(جیسے رالوسپا،لوجپا،چندرشیکھرکی آزادسماج پارٹی،پرکاش امبیڈکرکی وی بی اے ،پپویادوکی جن ادھیکارپارٹی،بی ایس پی)کے چکرمیں ہرگزنہ پڑیں،چاہے جتنااچھاامیدواریاشیریں زبان لیڈرہو۔ورنہ ووٹ تقسیم ہوگا،اگراس حکمت عملی پرچلاجائے تومقابلہ آمنے سامنے کاہوگا۔جہاں سہ رخی مقابلہ ہوا،این ڈی اے بازی لے جائے گا،مقابلہ سہ رخی ہونے نہیں دیناہے،بی جے پی کی بھرپورکوشش یہی ہے۔اس کے بعداین ڈی اے امیدوارکوہرانے والے امیدوارپرتوجہ دی جائے۔کانگریس،راجدیالیفٹ پارٹیوں کاکوئی امیدوارہو،اسے ووٹ دیں،علاقے کے پسندکے امیدواریاذاتی تعلقات کودیکھیں گے توتقسیم کااندیشہ ہے،ملک اورریاست کی سمت اورسیاست کودیکھیں۔ہاں اپنی موجودگی اورسیکولرپارٹیوں کواحساس دلانا ضروری ہے ،اس لیے مجلس کی صرف دس سیٹوں کاانتخاب کرلیں۔اس سے زیادہ پرتجربہ مضرہوگا۔ویسے بھی اپنے گھراورگڑھ تلنگانہ میں وہ سات آٹھ سیٹوں پرلڑتی ہے۔عوام کو اورخودمجلس کوبھی تلنگانہ ماڈل اپناناچاہیے۔جوش میں ہوش نہیں کھوناہے بلکہ تقسیم سے بچتے ہوئے بیچ کی راہ نکالنی ہے۔بہارنے ہمیشہ ہوش کوسنبھالے رکھاہے،یہ مٹی سیاسی سوجھ بوجھ کے لیے اپنی پہچان رکھتی ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
یہ تو ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بہار کے مسلم ووٹرز نے ہمیشہ اپنے شعور کی پختگی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی صوابدید پر ووٹ کیا ہے کبھی کسی شاہی امام یا جماعت و جمعیت کے ” حضرت” کے ” فتووں” کو قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ ان کی صوابدید ہمیشہ مقامی ایشوز پر مبنی ہوتی تھی جس سے ضروری نہیں بہار کے باہر والے تجزیہ نگار مکمل اتفاق کریں۔ تاہم اب حالات بدل چکے ہیں اور مقامی کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت اور پارٹی کی پالیسی کل ہند سطح پر مسلمانوں کے ملی قومی ثقافتی اور لسانی مفادات کو متاثر کرنے والی ہے۔ ایسے میں محض سڑک چیک ڈیم تالاب بجلی اور پانی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ووٹ کرنے کا فیصلہ عقل پر مبنی نہیں ہوگا۔
اس وقت بہار اسمبلی الیکشن میں صورت حال بہت سیال diluted ہے، بی جے پی کے ایک حلیف نے اعلان کیا ہے کہ وہ مودی حکومت کے ایجنڈے کو اپنا ایجنڈا بنائے گی اور مودی کے نام پر الیکشن لڑے گی اس لئے کہ این ڈی اے کے دوسرے حلیف جدیو اور اس کے لیڈر نیتیش کمار لائق اقتدا نہیں ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اگر بی جے پی اور مودی حکومت کا ایجنڈا ہی اس کے انتخابی منشور کا محور ہوگا تو ماضی کا دیا اور حال کا کمل ہی کافی ہے چراغ کی ضرورت کیا ہے ؟ کیا پچھڑی جاتیوں کے ووٹ بٹورنے کے لئے؟ نتیش کمار کی جدیو اور این ڈی اے کی دوسری حلیف پارٹیاں کامن مینیمم ایجنڈا کے تحت مکمل عملی طور پر نہ سہی زبانی ہی سہی اقلیت مخالف پالیسیوں پر کھل کر رضامندی سے کتراتی تو تھیں اگر مرکز اور بی جے پی کے دباؤ میں منظوری دے بھی دی تو شرما شرمی میں تاویل اور رفو تو کرتی تھیں۔ ظاہر ہے ہارڈ ہندوتوا کو یہ پسند نہیں اس لئے بہت ممکن ہے بی جے پی نیتیش کمار سے خلاصی کا سوچ رہی ہو۔ بالفاظ دیگر نیتیش کمار کے برے دن آنے والے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں بی جے پی مخالف نعروں کے سہارے اقلیتوں کا ووٹ بلکہ مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا بہار کی اقلیت نہیں بھولی ہو گی اس لئے امید تھی کہ بڑے بھائی بی جے پی ڈوبتے کو سہارا دیتی۔ لیکن نیتیش اور جدیو بی جے پی کے لئے مفید تھی اس لئے کہ اقلیتوں کا ووٹ اسے ملتا تھا اب نیتیش پر سے چونکہ اقلیتوں کا اعتماد اٹھ گیا تو وہ بی جے پی کے لئے بھی غیر مفید ہے۔
یہ تو ہوئے سیاسی امکانات مگر جو سوال بہار کی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے تعلق سے اہم ہے وہ یہ کہ ان کے پاس متبادل کیا ہے؟ یہ جائیں تو جائیں کدھر؟ لالو پرساد یادو کی کرشماتی شخصیت کی عدم موجودگی اور آج کے تناظر میں ایم وائی سمیکرن کا کھوکھلا پن ، کانگریس اور راجد کی مسلم چہروں کو نمایاں کرنے میں جھجک اور مسلم ایشوز پر بات کرنے میں اکثریتی طبقے کی ناراضگی کے ڈر نے دراصل مسلمانوں کو ڈرا دیا ہے کہ شاید اب ایم وائی سمیکرن کی بات کبھی نہ ہو۔ ہاں ٹکٹ کچھ مسلمانوں کو مل جائے لیکن ان کی پالیسی کیا ہوگی یہ واضح نہیں ہے۔
اس لئے ضروری ہے کہ کہ ووٹرز اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں پارٹی اور امیدواروں سے مطالبہ کریں کہ وہ انتخابی منشور میں اقلیتوں کے مفادات کو یقینی بنائیں۔ اور انتخابی منشور محض کاغذ کا ٹکڑا ثابت نہ ہو اس پر عمل کرنے کا عہد کرائیں۔
اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے اہم ترین مفادات اس ملک کے دستور ، مذہب اور جات برادری کی تفریق کیے بغیر ہر طبقہ کی شمولیت inclusiveness سیکولر اقدار کا تحفظ اور پسماندہ طبقات کی سماجی سیاسی معاشی اور تعلیمی ترقی کے لئے روڈ میپ، ان امور پر کاربند ہونے کا عہد commitment ان کا بنیادی مطالبہ ہونا چاہیے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
سونیا گاندھی کی بہار میں پہلی ورچوئل ریلی، جان بوجھ کر ملک میں خوف کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے:سونیا گاندھی
پٹنہ:کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی نے جمعہ کے روز بہار کے چمپارن میں’ گاندھی چیتنا ‘ نامی ریلی سے ورچوئل میڈیم کے ذریعہ خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مرکزی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ کانگریس صدر نے کہا کہ ملک میں جان بوجھ کر خوف کی فضا پیدا کی جارہی ہے، کچھ لوگ خوف ، سراسیمگی اور جذبات کی تجارت کرکے حکومت چلا رہے ہیں۔ سونیا نے لوگوں سے احتیاط برتنے اور صحیح فیصلہ لینے کا اپیل کی۔سونیا گاندھی نے چمپارن میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کی مورتی کی بھی نقاب کشائی کی۔سونیا گاندھی نے کہا کہ کانگریس کی ہر پالیسی میں عوام کی شمولیت ناگزیر تھی ، لیکن آج کچھ لوگوں کے مفاد کے لئے پالیسیاں وضع کی جارہی ہیں۔ کانگریس نے پسماندہ ، دلتوں ، خواتین ، نوجوانوں اور کسانوں کے تحفظ اور انہیں خود کفیل بنانے کیلئے جتنے بھی قوانین وضع کئے ، انہیں کمزور کیا جارہا ہے ۔خیال رہے کہ اس سے قبل مہاتما گاندھی کے 151 ویں اور سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی 116 ویں یوم پیدائش کے موقع پر سونیا گاندھی نے کہا کہ کسان زرعی قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، لیکن حکومت سرد مہری کا مظاہرہ کررہی ہے ۔
پٹنہ:بہار میں اسمبلی الیکشن کیلئے تاریخوں کا اعلان ہوچکا ہے۔28اکتوبر کو پہلے مرحلے میں ہونے والے71اسمبلی حلقوں کیلئے کل نوٹیفکیشن جاری کردیا گیاہے۔ تمام 71حلقوں میں پرچہ نامزدگی کا کام شروع ہوگیا ہے لیکن پہلے دن کسی بھی حلقے میں کسی امیدوار نے اپنا پرچہ داخل نہیں کیا۔ پہلے مرحلے کیلئے نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ 8اکتوبر ہے۔بہار اسمبلی انتخابات کے لئیے این ڈی اے اور عظیم اتحاد کی حمایتی جماعتوں کے درمیان سیٹ شیئرنگ کا معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔ بلکہ تجسس بنا ہوا ہے۔ایل جے پی کے سربراہ چراغ پاسوان اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں جبکہ این ڈی اے نے انہیں 30سیٹیں اور قانون ساز کونسل میں دو سیٹیں دینے کا اعلان کیا ہے لیکن وہ اسے نہیں مان رہے ہیں۔ کل پھرچراغ پاسوان نے بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اس ملاقات میں مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ بھی شامل تھے کافی دیر تک چراغ قومی صدر سے بہار اسمبلی کے تازہ ترین صورتحال سے باخبر کراتے رہے لیکن جب باہر آئے تو میڈیا سے وہ نہیں ملے۔ سیدھے اپنی رہائش گاہ پہنچے۔این ڈی اے میں سیٹوں کی تقسیم کے درمیان بی جے پی کی مرکزی الیکشن کمیٹی کی میٹنگ 4 اکتوبر کو پٹنہ میںہوگی۔میٹنگ میںانتخابی کمیٹی کے اہم ذمہ داران اور بہار سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے قومی ترجمان سید شاہنواز حسین بھی شامل ہوںگے۔4اکتوبر کو سیٹوں کی تقسیم کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ میٹنگ میں بی جے پی کے امیدواروں کے فیصلے پر آخری مہر لگے گی۔ادھر عظیم اتحاد میں بھی سیٹوں کی تقسیم زیر التوا ہے آر جے ڈی کے ایم ایل اے بھولا پرساد یادو نے کہا کہ عظیم اتحاد میں آل از ویل ہے۔ جلد ہی سیٹوں کی تقسیم ہوجائے گی اور اتحادی پارٹیوں کے درمیان بھی باعزت طریقے سے سیٹوں کی تقسیم ہوگی۔
جامعہ نعمانیہ، ویکوٹہ، آندھرا پردیش
الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اعلان کے مطابق بہار اسمبلی انتخابات تین مرحلوں میں ہوں گے، 28/اکتوبر تا 7/نومبر، 10/نومبر، کو نتائج سامنے آئیں گے ، اور وینر پارٹی کے ہاتھوں میں پانچ سال کے لئے چند عہد وپیمان کے ساتھ (خواہ اس پر عمل پیرا ہو یا نہ ہو) اہل بہار کی باگ ڈور دے دی جائے گی۔
اعلان کے بعد، بلکہ اس سے قبل ہی سے ہر پارٹی کے کارندے میدان میں اترچکے ہیں، ہر ایک یہاں کے باشندوں کو نئے نئے خواب دکھانے میں لگ چکے ہیں، ہر پارٹی سیکولرازم کی دہائی دینے لگی ہے، ہر پارٹی بہار واسیوں کے لئے مسیحا بن کر سامنے آنے لگی ہے۔
ایسی صورت میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں کی ہر داخلی پارٹی کو مسلم ووٹ کی ضرورت ہے، کیونکہ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق بہار میں ساٹھ 60/اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں کے امیدواروں کی قسمت مسلمانوں کی رائے دہی فیصلہ کرتی ہے۔
دو مرتبہ سے مشہور مسلم لیڈر بیرسٹر اسدالدین اویسی بھی بہار اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے لگے ہیں۔
پچھلے مرتبہ مہاگٹھ بندھن کو کامیابی ملی اور نتیش کمار کے سر پر تاج بہار رکھا گیا، لیکن انھوں نے بہار واسیوں سے اتنی بڑی غداری کی جس کا زخم اہل بہار نہیں بھول پارہے ہیں ۔
اس مرتبہ پھر بہار میں دو اتحادیوں ”این ڈی اے“اور آرجے ڈی (مہاگٹھ بندھن) کے درمیان معرکہ ہے، ان دو کے علاوہ مجلس بھی اسی صف میں ہے،اس کے علاوہ پپویادو وغیرہ بھی ہیں۔
ایسی صورت میں بہار کے مسلمانوں کے لئے معاملہ کچھ زیادہ ہی پیچیدہ ہوگیا ہے، اب ان کو کیا کرنا چاہئے؟
اس سلسلے میں چند باتیں بندہ کے ذہن میں ہیں ، جن کو اپنانے میں ہمارے بہار واسیوں کو کچھ فائدہ ہوسکتا ہے۔
پہلی بات، اب کی بار این ڈی اے اور آر جے ڈی (مہاگٹھ بندھن) کا مقابلہ ہے۔(خیال رہے اس مہاگٹھ بندھن کی کشتی سے اب کی بار نتیش کمار جی چھلانگ لگا کر سمندر میں کود چکے ہیں،اور سمندر ہر چیز کو کھارا کرکے ملیا میٹ کردیتا ہے،اس لئے جو بھی لوگ ان کے ساتھ ہیں خاص طور سے مسلم لیڈران اور بالخصوص ہمارے سابق ایم پی علی اشرف فاطمی صاحب وغیرہ ، وہ اپنے مستقبل کو سوچ لیں، ابھی بھی وقت ہے درست راہ کی جانب آجائیں )
دوسری بات، اب کی بار بی جے پی کے ساتھ جو بھی پارٹی ہے اسے بھی معلوم ہوچکا کہ کیا ہونے والا ہے ایسی صورت میں وہ مجبوراً اس کے ساتھ ہے، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، اس لئے مسلم لیڈران جو ایسی پارٹیوں میں ہیں یا ان کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے ہیں وہ اپنے مستقبل کو دیکھ لیں۔
تیسری بات ، بی جے پی کے مقابلے میں کوئی پارٹی اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، ایسی صورت میں جہاں کہیں مسلم کنڈیڈیٹ ہو خواہ وہ کسی پارٹی سے ہو اسی کو کامیاب کرنے کی کوشش کریں۔
چوتھی بات، اسد الدین صاحب بھی آگئے ہیں جن پر یہ الزام ہے کہ وہ بی جے پی کے آدمی ہے یہ کہاں تک درست یا غلط ہے معلوم نہیں تاہم اگر وہ آتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ دس سے بارہ کنڈیڈیٹ ہی اتاریں اور وہیں اتاریں جہاں سے کامیاب ہونے کی امید ہو، اور یہ خود ان کا تجربہ ہے جس پر وہ تلنگانہ میں عمل کرتے ہیں۔
پانچویں بات، اس مرتبہ مقامی لیڈران زمینی طور پر کام کریں، اور ”دلت،مہادلت،او بی سی“ وغیرہ کو آگاہ کریں کہ مقامی لیڈران ہی صوبے میں کام کرتے ہیں، سینڑ والے تو صرف حکومت کرنا چاہتے ہیں، خواہ کانگریس ہو یا بی جے پی، جس صوبے میں ان کی حکومت ہے وہاں کچھ کام نہیں ہوتا، اس وقت پڑوسی اسٹیٹ ”اترپردیش“کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
چھٹی بات ، جہاں کہیں جس پارٹی کے امیدوار مضبوط ہوں(سیکولرازم) وہاں مسلم انہی سے جڑ جائیں (بلکہ حصہ دار بن جائے) اور یہ نہ دیکھیں کہ مسلم کنڈیڈیٹ ہے یا نہیں ہےـ
شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
بہار الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہو چکا ہے ۔ اسی کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی جوڑ توڑ تیز ہو گئی ہے ۔ سیٹوں کے بٹوارے اور ووٹ حاصل کرنے کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے ۔ انتخابی ہل چل کو دیکھ کر کورونا کے دوران انتخاب کیسے ہوگا، کیا تمام طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں گی، بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے بیماری کو بڑھنے سے کیسے روکا جائے گا، الیکشن ڈیوٹی میں لگائے گئے اسٹاف کی حفاظت کا کیا انتظام ہو گا، اس پر کتنی رقم خرچ ہوگی اور کیا حکومت یہ بوجھ اٹھانے کی حالت میں ہے وغیرہ سوالات فطری طور پر ذہن میں آتے ہیں ۔ کئی ممالک نے اپنے یہاں ہونے والے انتخابات کو کورونا کی وجہ سے ٹال دیا ہے ۔ لیکن حکومت ہند نے بہار الیکشن کا اعلان کرکے یہ واضح کر دیا کہ اس کا سروکار عوام کے بجائے حصول اقتدار سے ہے ۔ تبھی تو ایسے وقت بہار میں الیکشن کی قواعد شروع کی گئی ہے جب ہر گھر کی چوکھٹ پر کورونا، بے روزگاری، سیلاب کا پانی جمع ہونے سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور موت کی آہٹ دستک دے رہی ہیں ۔ پہلے مرحلے کی ووٹنگ بھی سیلاب زدہ علاقوں میں ہی کرانا طے ہوا ہے ۔ جہاں ابھی تک حالات معمول پر نہیں آ پائے ہیں ۔ سیلاب کی وجہ سے گھر چھوڑنے والوں کی نہ واپسی ہو پائی ہے اور نہ ہی ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی مرمت ۔ متھلا کا یہ تاریخی علاقہ آج ہر لحاظ سے پسماندہ ہے ۔ یہاں نہ کوئی صنعت ہے نہ ذریعۂ معاش، نہ صحت کی سہولیات کا مناسب بندوبست ہے نہ تعلیم کا ۔ مگر الیکشن تو پھر بھی ہونا ہی ہے ۔
یہ الیکشن پہلے سے مختلف ہوگا، اس میں نہ لالو پرساد کے محاورے ہوں گے نہ نتیش کمار کا اپنا انداز بیان، نہ ریلیاں ہوں گی نہ عوامی جلسے جلوس ۔ مانجھی ہوں یا تیجسوی یادو، چراغ پاسوان، اوپیندر کشواہا ہوں یا کنہیا کمار ان کا روب دار بھاشن بھی نہیں ہوگا ۔ ڈور ٹو ڈور جا کر امیدوار سمیت پانچ لوگ ہی تشہیر کر سکتے ہیں ۔ البتہ ورچول ریلیوں کا دور شروع ہونے والا ہے ۔ جن کے ذریعہ پارٹیاں اپنے من کی بات ووٹروں تک پہنچائیں گی ۔ جگہ جگہ ٹیلی ویژن لگا کر خواب دیکھائے اور جملے اچھالے جائیں گے، ہو سکتا ہے نوٹ بھی بٹیں ۔ اس بہانے ہو سکتا ہے کئی گھروں میں دو جون کی روٹی آ جائے ۔ ہو سکتا ہے دیوالی سے پہلے جب چناؤ کے نتیجے آئیں تو کچھ کے لئے یہ بہت شاندار دیوالی ہو کیوں کہ یہ بہار ہے ۔ وہی بہار جس کے نوجوان، کسان اور عوام اقتدار بدلنے کی طاقت رکھتے تھے ۔ جس کا انوویشن، تحقیق اور دانشوری میں نام تھا ۔ جو تحریکوں کی جنی کہلاتا ہے ۔ جہاں الیکشن کے آخری گھنٹہ میں طے ہوتا تھا کہ کس کو جتانا یا کس کو ہرانا ہے ۔
بہار کی طاقت نہرو، اندرا سے لے کر لوہیا، جے پی اور وی پی سنگھ تک نے محسوس کی ۔ مگر اقتدار کی چاہ رکھنے والے سیاست دانوں نے بہار کو مہرے کی طرح استعمال کیا ۔ اس کے نتیجہ میں آج یہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔ اس کی حالت جھارکھنڈ سے بھی زیادہ خراب ہے ۔ سینئر صحافی پونیہ پرسون باجپئ کی رپورٹ کے مطابق بہار میں دو کروڑ 73 لاکھ مزدور ہیں ۔ ان میں سے ایک کروڑ 95 لاکھ نے من ریگا کے تحت رجسٹریشن کرایا مگر جوب کارڈ ایک کروڑ 76 لاکھ کو جاری کیا گیا ۔ لیکن جنہیں کام دیا گیا ان کی تعداد صرف 65 لاکھ ہے ۔ یہاں رجسٹرڈ بے روزگار گریجویٹ کی تعداد 55 لاکھ ہے ۔ یہ وہی بہار ہے جہاں 15 لاکھ سے زیادہ کاروباری کنگال ہو چکے ہیں ۔ سات لاکھ سے زیادہ کسان ہیں جن کے پاس اپنی زمین ہے لیکن اس سے گزارے لائق آمدنی بھی نہیں ہوتی ۔ 40 لاکھ مہاجر مزدور جو کورونا کے دوران 16 یا 32 اضلاع میں لوٹے ان کے پاس آج بھی کام نہیں ہے ۔ انہیں زندگی جینے کے لئے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے ۔ یہاں کا ہر دوسرا شخص بے روزگار ہے ۔ سیاست دانوں نے بہار کو اس حال میں لاکر کھڑا کر دیا ہے کہ دو جون کی روٹی کے لئے بھی نوجوان، کسان اور مزدور سڑکوں پر نہیں اتر پا رہے ہیں ۔ اس بہار میں الیکشن ہونے والا ہے اور آخری گھنٹہ کورونا متاثرین کے لئے ہے ۔ جنہیں نہیں معلوم کہ ووٹ دینے کے بعد وہ زندہ بھی رہیں گے یا نہیں ۔
ریاست کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ ریونیو، جی ایس ٹی کا کلیکشن بھی کم ہے ۔ لوگ انکم ٹیکس دینے کی حالت میں نہیں ہیں ۔ انڈسٹریز، چھوٹی، منجھولی اور گھریلو صنعتوں کو فروغ دینے پر حکومت کی توجہ نہیں ہے ۔ اس لئے انڈسٹریز کا پروڈکشن اور ریاست کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) نیچے چلی گئی ۔ آمدنی کے لحاظ سے زراعت بھی خراب حالت میں ہے ۔ اسی وجہ سے ترقی کی شرح میں گراوٹ درج کی جا رہی ہے ۔ تعلیم، صحت، روزگار، پینے کا صاف پانی، بجلی کی فراہمی، انفراسٹرکچر کو لے کر بھی اجالا دکھائی نہیں دیتا ۔ رہی سہی کسر ہر سال آنے والا سیلاب پوری کر دیتا ہے ۔ حالات یہ ہیں کہ بہار مزدور پیدا کرنے والی ریاست بن کر رہ گیا ہے ۔ اسی لئے بہار چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے ۔ 2011 کی مردم شماری میں ریاست چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد ایک کروڑ 12 لاکھ بتائی گئی تھی ۔ ایک طرف عوام کے حالات دگر گوں ہیں وہیں دوسری طرف گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ہوئے ہر انتخاب سے عوام کی مشکلوں اور سیاست سے جڑے لوگوں کی دولت میں اضافہ ہوا ۔ اے ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق 2015 میں 160 ممبران اسمبلی کروڑ پتی تھے ۔ اس وقت 243 ممبران میں سے 222 کروڑ پتی اور ہر تیسرا ممبر کرمنل ہے ۔
موجودہ الیکشن کی بات کریں تو اسے کرانے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا اعادہ کیا گیا ہے ۔ مثلاً ایک بوتھ پر پندرہ سو کی جگہ ایک ہزار ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ ان کو کوور کرنے کے لئے زیادہ پولنگ بوتھ بنائے گئے ہیں ۔ وقت ایک گھنٹہ بڑھایا گیا ہے، اب صبح سات بجے سے شام چھ بجے تک ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ پہلے پانچ بجے تک ووٹ ڈالے جاتے تھے ۔ چھ لاکھ پی پی ای کٹ، 46 لاکھ ماسک، چھ لاکھ فیس شیلڈ، 23 لاکھ گلبس، 47 لاکھ ہینڈ سینی ٹائزر کا انتظام کیا گیا ہے ۔ ہر بوتھ پر تھرمل اسکینر، صابن اور سینی ٹائزر موجود رہے گا ۔ بزرگوں سے ووٹ ڈلوانے کا الگ نظم کیا گیا ہے ۔ اس الیکشن کو کرانے کے لئے اتنی کثیر اضافی رقم خرچ ہونے والی ہے کہ اس سے بہار کے تمام ضلع اسپتالوں کی حالت سدھر سکتی تھی ۔ جو انتہائی خستہ حالت میں ہیں ۔ دربھنگہ ضلع اسپتال میں تو اسٹریچر تک دستیاب نہیں ہے ۔ نالندہ ضلع اسپتال کے وارڈ میں پانی گھسنے، پینے کا پانی موجود نہ ہونے کی بات اب کسی سے چھپی نہیں ہے ۔ بہار ہی وہ ریاست ہے جہاں 29 ہزار لوگوں پر ایک ڈاکٹر ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک ہزار افراد پر ایک ڈاکٹر ہونا چاہئے ۔ مگر برسراقتدار جماعت اور حکومت کی ترجیحات میں عوام نہیں ہے ۔ اسے الیکشن کرانا ہے، جیتنا ہے اور حکومت بنانی ہے ۔
بہار کے لوگوں سے پوچھئے تو اندازہ ہوگا کہ نتیش کمار ہار رہے ہیں، لیکن مینجمنٹ کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی جیت رہی ہے ۔ نتیش کمار اس کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ کون جیتے گا اور کس کی حکومت بنے گی یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن اس بار کا الیکشن آسان نہیں ہے ۔ ایک طرف سوشاسن کی ہر سطح پر ناکامی کی وجہ سے عوام میں مایوسی ہے ۔ دوسری طرف تین نوجوان تیجسوی یادو، کنہیا کمار اور چراغ پاسوان انہیں چنوتی دے رہے ہیں ۔ تیسری طرف پپویادو کی سربراہی میں بنا پروگریسو ڈیموکریٹک الائنس اور سماجوادی جنتادل، ایم آئی ایم کا اتحاد بھی کئی علاقوں میں جے ڈی یو، بی جے پی کو ٹکر دیگا ۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی بھی اس انتخاب میں زیادہ وقت دینے والے ہیں ۔ جانکاروں کا ماننا ہے کہ شاید اس بار کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہ ملے ۔ اسی کے پیش نظر راجپوت ووٹوں کو اپنے پالے میں کرنے کے لئے سوشانت سنگھ خودکشی معاملہ کو طول دیا گیا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سوشانت سنگھ کی موت کے ارد گرد ابھرا بہاری عزت کا مدا زیادہ کارگر رہے گا یا مہاجر مزدوروں، کووڈ -19 کے متاثرین اور سیلاب زدگان کی تکلیفوں کا بیورا ۔ اس الیکشن سے یہ بھی صاف ہو جائے گا کہ ووٹروں میں جنگل راج کی یادیں زیادہ گہری ہیں یا موجودہ حکومت سے امیدیں ٹوٹنے کی مایوسی ۔ دیکھتے جایئے کہ عوام کا فیصلہ آنے تک الیکشن کیا کیا رنگ دکھاتا ہے ۔ بہر حال عوام کے فیصلہ کا انتظار کیجئے کہ وہ کسے چنتی ہے پریشانیوں سے چھٹکارہ دلانے والوں کو یا نتیش کمار کو ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
بہار الیکشن کے موضوع پر کل میں نے ایک تحریر پوسٹ کی تھی متعدد احباب نے اسے حوصلہ افزا قرار دیا تاہم ہمیں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ خواہشات پر مبنی سوچ wishful thinking اور زمینی حقیقت دو مختلف باتیں ہیں ان دونوں میں تطابق ممکن تو ہے مگر محنت اور صبر طلب ہے۔ یہ کوئی overnight process یعنی راتوں رات کسی پارٹی کا وجود میں آنا یا کسی ریاست میں جا کر اپنی حیثیت تسلیم کرانا محض جذباتی باتیں نہیں جہد مسلسل اور grassroots level پر کام چاہتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ انتخابی سیاست اب اتنی سہل نہیں کہ کوئی سرگرم سماجی کارکن ارادہ کرے اور پارٹی اسے ٹکٹ دیدے۔ اس کی تمام عوامی خدمات کے باوجود مذہب اور برادری کو عذر بنا کر یعنی یہ کہہ کر کہ ‘دوسری جات یا دھرم والے آپ کو قبول نہیں کریں گے’ پارٹی ٹکٹ دینے سے انکار کر دیتی ہے۔
تیسری بات یہ کہ پارٹی lobbying اور پیسے خرچ کرنے کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ٹکٹ دیتی ہے۔ بعض پارٹیاں خصوصا دو بڑی پارٹیاں امیدوار کو الیکشن لڑنے کے اخراجات دیتی ہیں تو دوسری کچھ ایسی پارٹیاں بھی ہیں جو پیسوں کے عوض ٹکٹ دیتی ہیں۔
الیکشن لڑنے کے لئے پچاس لاکھ سے ایک کروڑ تک بھی رقم درکار ہوتی ہے۔ سرمایہ کار، ٹھکیدار، بڑے تاجر اپنے مفادات کی برآری کے لئے متوقع جیتنے والے امیدواروں کو فائننس کرتے ہیں تاکہ جیتنے کے بعد ان سے کام لیا جا سکے۔
ایسے میں صاف ستھری سیاست اور "سیاست ذرا ہٹ کے” کی بات کرنا معقول نظر نہیں آتا۔ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو مثالی باتیں کون قبول کرے گا سب کی زبان پر ایک ہی بات آتی ہے کہ ایک چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا اس لیے اس سسٹم سے ہٹ کر سوچنے کا فائدہ نہیں۔
لیکن میں کہتا ہوں کہ اس کو خاطر میں لائے بغیر کہ وہ جیتے گا یا نہیں، اچھے لوگوں کو سامنے لائیں ان کی شکست میں بھی خیر کا پہلو یہ ہے کہ اس بار ان کی پہچان بنے گی پھر رفتہ رفتہ بلا تفریق مذہب و ذات برادری عوامی خدمت سے ان کی مقبولیت بڑھے گی۔ یہ آپ کے نوٹا (فہرست میں مذکور امیدواروں میں سے کوئی نہیں) سے بہتر ہے۔ جب تک آپ زمینی پکڑ نہیں بنائیں گے آپ حقیقی طور پر عوامی نمائندگی کے لائق نہیں ہوں گے۔ ہر پانچ سال کے بعد جاگیں گے اور الیکشن میں شکست کے بعد پھر سو جائیں گے۔
بہار الیکشن سے عین قبل ریاست میں کئی مسائل بھڑک اٹھے ہیں،جنھیں حل کرنے یا یہ کہیں کہ سرد کرنے کی حکومتی تدبیریں بھی جاری ہیں۔کسی دلت کے قتل پر ایک وارث کو سرکاری نوکری،انٹر پاس غیر شادی شدہ لڑکیوں کواب دس کی بجاے پچیس ہزار اور گریجویشن پاس لڑکیوں کو پچیس کی جگہ پچاس ہزار روپے کا خصوصی اسکالرشپ ، حال ہی میں اسسٹنٹ پروفیسروں کی تقرری اور اردو مترجم و معاون مترجم کی تقرری کے لیے امتحانات کی ممکنہ تاریخ کے اعلانات کو اسی سلسلے کی کڑی قرار دیاجا سکتا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی بھی مختلف شعبوں میں کئی سو کروڑ کے منصوبوں کا افتتاح کر چکے ہیں،دربھنگہ ہوائی اڈے کی شروعات کی خبر ایک بار پھر انگڑائی لینے لگی ہے ۔انہی انتخابی مسائل و موضوعات میں ایک موضوع اردو کا بھی شامل ہوگیا ہے۔حالاں کہ اردو کے کچھ مسئلے مثلاً بہار اردو اکیڈمی ،اردو مشاورتی بورڈ وغیرہ جیسے سرکاری اداروں سے متعلق پہلے سے بھی موجود تھے ۔تازہ مسئلہ بھی مئی میں ہی پیدا ہوا تھااور وہ یہ تھا کہ ہائی اسکولوں میں اردو کو لازمی مضمون کی بجاے اختیاری مضمون قرار دے دیا گیا اور اب اساتذہ کی تقرری پانچ لازمی سبجیکٹ (ہندی،انگریزی، سماجیات، سائنس، ریاضی) اور ایک استاذ کی تقرری دوسری زبان کے لیے ہوگی جس میں سنسکرت، بنگلہ، میتھلی، بھوجپوری ،عربی و فارسی وغیرہ پہلے سے تھیں اور نئے یعنی پندرہ مئی دوہزار بیس کے محکمۂ تعلیم،بہار کے نوٹیفکیشن کے بعد اس ضمن میں اردو بھی شامل ہوگئی ہے،اس سے قبل مادری زبان اور دوسری راج بھاشا ہونے کی حیثیت سے اردو لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل نصاب رہی ہے۔ نتیش کمار نے پہلی بار ہی حکومت میں آنے کے بعد یہ اعلان کیاتھا کہ بہار کے تمام اسکولوں میں اردو کے اساتذہ تقرر کیے جائیں گے،ان کی حکومت میں اردو کے حق میں کئی قابل ستایش قدم اٹھائے بھی گئے،اردو کے کئی ادارے بہار میں سرکاری سرپرستی میں چل رہے ہیں ،یہ الگ بحث کا موضوع ہے کہ ان اداروں سے اردو کے فروغ کا کیا اور کتنا کام ہو رہا ہے اور بہار کے اسکولوں میں کتنے اساتذہ کی سیٹیں ہنوز خالی ہیں۔
مئی والے نوٹیفکیشن کا علم اردو والوں کو تقریباً دو ماہ تک نہیں ہوسکا تھا یا معلوم تھا مگر اس پر خاموشی تھی ،غالباً جولائی کے آغاز یا جون کے اواخر میں ایک ہندی اخبار نے اس تعلق سے ایک خبر شائع ،پھر ڈاکٹر مشتاق دربھنگوی، مفتی ثناء الہدی قاسمی،ڈاکٹر سید احمد وغیرہ کے تفصیلی مضامین اس حوالے سے شائع ہوئے،بہار سٹیٹ اردو ٹیچرز ایسو ایشن بھی جولائی کے وسط سے اس معاملے میں سرگرم ہے،اس کی طرف سے 11جولائی کو ہی وزیر اعلیٰ کو خط لکھ کر توجہ دلائی گئی تھی۔اردو اخباروں میں کئی لوگوں کے بیانات شائع ہوئے اور اگست کے وسط تک بہار کے تقریباً تمام اردو والوں کویہ بات پتا چل گئی کہ حکومت نے ہائی اسکول سطح کے نصابِ تعلیم سے اردو سبجیکٹ کی لازمی حیثیت کو ختم کردیا ہے؛ چنانچہ پٹنہ و آس پاس میں موجود اردو کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے وابستہ بعض سرگرم اشخاص سمیت عام اردو والے بھی بیدار ہوگئے،کچھ لوگوں نے وزیر تعلیم سے ملنے اور مسئلے کو حل کروانے کی کوشش کی،تو کچھ لوگوں نے احتجاج و مطالبۂ انصاف کا فریضہ ادا کیا۔ سوشل میڈیا اور اردو اخبارات میں بہار کے متعدد اضلاع سے ایسی تصویریں مسلسل نظر آرہی ہیں ،جن میں چند لوگ اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے بہار حکومت سے اردو کے ساتھ انصاف کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور جوں جوں الیکشن کے دن قریب آ رہے ہیں،یہ سلسلہ بھی تیز تر ہوتا جارہا ہے۔
اب ایک نیا نوٹیفکیشن محکمۂ تعلیم کا گشت کر رہا ہے،جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جس اسکول میں بھی اردو یا دیگر دوسری زبانوں میں سے کسی ایک کے پڑھنے والے طلبہ ہوں گے،وہاں اس زبان کے استاذ کی تقرری ہوگی،مئی والے اور تازہ نوٹیفکیشن میں فرق یہ ہے کہ پہلے والے میں چالیس طلبہ کی حد بندی تھی،اس میں اس تعداد کو مبہم رکھا گیاہے،مگر حیثیت اردو کی دوسری بھاشا کی پہلے والے میں بھی تھی اور اس میں بھی ہے۔ یہ دوسرا اعلامیہ ستائیس اگست کا جاری کردہ ہے اور مدرسہ بورڈ کے موجودہ چیئر مین و انجمن ترقی اردو کی بہار شاخ کے سکریٹری عبدالقیوم انصاری کا کہنا ہے کہ یہ دوسرا نوٹیفکیشن انجمن ترقی اردو بہار کی کوششوں سے ہی جاری ہوا ہے،یہ بات انھوں نے جہان آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہی ہے،ان کا ایک لمباسا بیان پچیس ستمبر کو بہار کے کئی اردو اخباروں میں شائع ہوا ہے۔اس سے قبل 11ستمبر کو انجمن ترقی اردو بہار کی جانب سے لگ بھگ آدھے پیج کا ایک اشتہار شائع کروایا گیا تھا،جس میں اردو اور اقلیتوں(مسلمانوں) کے حق میں نتیش حکومت کے فیصلوں،اقدامات اور منصوبوں کا گن گان کیا گیا تھا،اس کی ابتدائی سطروں میں مئی والے نو ٹیفکیشن اور اس کے بعد ستائیس اگست والے نوٹی فکیشن کا بھی ذکر تھا اور یہ لکھا گیا تھا کہ ’’انجمن ترقی اردو بہار کی کوششوں سے محکمۂ تعلیم نے 15-05-2020کو جاری کردہ اعلامیے میں ترمیم کرتے ہوئے 27-08-2020کو نیا اعلامیہ جاری کیا ہے،جس کے مطابق اگر سکینڈری و انٹر سطح کے اسکولوں میں اردو کا ایک طالب علم بھی ہوگا تو اس کے لیے استاذ کی تقرری کی جائے گی‘‘۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ انجمن ترقی اردو ہند کے صدر دفتر یعنی دہلی سے مختلف قسم کی آواز اٹھ رہی ہے اور اس کی بہار شاخ کا موقف کچھ اور ہے۔ چوبیس ستمبر کو اردو کے اخبارات میں انجمن ترقی اردو ہند کے ذریعے وزیر اعلی بہار کو انجمن کے قومی صدر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،رکن مجلس عاملہ پروفیسر اختر الواسع اور سکریٹری اطہر فاروقی کے ذریعے روانہ کردہ ایک خط کے حوالے سے خبر شائع ہوئی ہے،جس میں انھوں نے بہار حکومت کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کی سابقہ حیثیت کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسرے نوٹیفکیشن کے حوالے سے آج روزنامہ قومی تنظیم و دیگر اردو اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی ہے،جس کا عنوان ہے’’محکمۂ تعلیم کی وضاحت،اردو کی لازمیت بر قرار‘‘،مگر خبر جے ڈی یو کے نو منتخب رکن قانون ساز کونسل پروفیسر غلام غوث اور اردو کونسل کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر اسلم جاوداں کی وزیر اعلیٰ بہار کے پرنسپل سکریٹری، محکمۂ تعلیم کے پرنسپل سکریٹری اور بہار ایگزامنیشن بورڈ کے چیئر مین کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کے تعلق سے ہے، اس میں جو تفصیلات درج ہیں،ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان افسران نے بس زبانی یقین دہانی کی کوشش کی ہے۔غلام غوث صاحب کا کہنا ہے کہ’’ اردو والوں کے مطالبات کی تکمیل کی مہم جاری رکھیں گے‘‘،انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ہمیشہ کی طرح محبانِ اردو کا تعاون انھیں حاصل رہے گا۔
بہار اسٹیٹ اردو ٹیچرس ایسوسی ایشن کے چند عہدے داروں نے مل کر24ستمبر کو حزبِ اختلاف کے لیڈر تیجسوی یادو کومیمورنڈم دیا ہے،تیجسوی نے رسمی طورپر یقین دہانی کروائی ہے کہ ’’وہ اپنی سطح پر اس مسئلے کو بھر پور طریقے سے اٹھائیں گے اور حکومت سے مطالبہ کریں گے کہ اردو کے ساتھ نا انصافی بند کرے‘‘۔ یکم ستمبر کو آرجے ڈی لیڈر عبدالباری صدیقی کابیان بھی اس ضمن میں آچکا ہے، انھوں نے کہا تھا کہ ’’اردو ٹیچر کی بحالی کے لیے چالیس طلبہ کی قید بہار سے اردو کو ختم کرنے کی سازش ہے ‘‘۔آرجے ڈی کے ممبر اسمبلی فیصل رحمن نے بھی 21ستمبر کو اس تعلق سے وزیر اعلیٰ کو خط لکھاہے۔ اس کے علاوہ جمعیت علما ے بہار اور امارت شرعیہ بھی اس تعلق سے بیان کی حد تک اپنی ذمے داری سے فارغ ہو چکی ہیں۔
الغرض ہائی اسکولوں کے نصاب میں لازمی طورپر اردو کی بقا کے سلسلے میں ایک طرف حکومت صفائیاں پیش کر رہی ہیں ،بہار ایگزامنیشن بورڈ کا پچیس ستمبر کو وضاحتی اشتہار بھی شائع ہوا ہے،دوسری طرف حکومتی موقف کے خلاف آوازیں بھی بہت زور وشور سے اٹھ رہی ہیں،مگر خاص بات یہ ہے کہ ان آوازوں میں کسی قسم کا اتحاد نہیں ہے،سب کی اپنی اپنی ڈفلی،اپنا اپنا ڈھول ہے۔گورنمنٹ کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد کے دوڈھائی ماہ تک تو مکمل خاموشی رہی،گنے چنے دانشوران اور اہلِ قلم نے اس جانب توجہ دلائی ،تو بھی متعلقہ با اثر شخصیات یا ادارے سبک سری کا مظاہرہ کرتے رہے، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی الیکشن کے موسم کو غنیمت جانتے ہوئے ’’خادمِ اردو‘‘ اور’’قائدِ اردو‘‘ کا تمغہ اپنے نام کرنا چاہتاہے۔بہار میں اردو کے نام پر سیاست کی اپنی تاریخ ہے اور اسے اِس الیکشن میں بھی دہرانے کی کوششیں تیز ہو رہی ہیں۔اب تو ووٹنگ کی تاریخوں کےاعلان کے ساتھ انتخابی ضابطۂ اخلاق بھی نافذ ہوچکا ہے،تو شاید اس موضوع پر حکومت کی جانب سے کوئی نیا عملی اقدام یا وضاحت مشکل ہے ۔ سو دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت اردو والوں مطمئن کر نے میں کامیاب ثابت ہوگی؟کیا اس نئے مسئلے کی وجہ سے جدیو اور این ڈی اے کے ووٹوں پر کچھ منفی یا مثبت اثر پڑے گا؟ اور کیا کسی دوسری پارٹی کو بھی اس کا فائدہ ہو سکتا ہے؟
بہار الیکشن: ہماری سیاسی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں؟ ـ ڈاکٹر حسن رضا
بہار اسمبلی انتخاب اب ہمارے سروں پر آلگا ہے ۔پچھلا تجربہ بتاتا ہے کہ الیکشن کے موسم میں سیاسی فیور اتنا تیز چڑھتا ہے کہ دور اندیشی ،سیاسی شعور سب کو معطل کر دیتا ہے بلکہ فضا میں جذباتیت ،عصبیت اور مفاد پرستی کا وائرس ایسا پھیلتا ہے کہ بیشتر لوگوں پر جوش و جذبات کے ساتھ ، وقتی اور الیکشنی ہار جیت کا بھوت پوری طرح سوار ہوجاتا ہے ۔حالانکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب کہ جوش وجذبات سے مغلوب ہونے کے بجائے ہر شہری کوپورے ہوش گوش کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر ہونی چاہئے اور اپنے ووٹ کی امانت کواچھی طرح سوچ سمجھ کر استعمال کر نا چاہئے ۔اس کے لئے ملکی وملی مفاد کا صحیح میزانیہ تیار کرکے ہی صحیح فیصلے پر پہنچا جاسکتا ہے ۔
اس سلسلے میں پہلی اہم بات سیاسی ترجیحات کا تعین ہے ،اور دوسری بات بر وقت واضح اور دو ٹوک فیصلے پرپہنچنا ہے ۔اگر کوئی گروہ وقت ،حالات مشکلات و مسائل کی نزاکت اور امکانات کی روشنی میں اپنی انتخابی سیاسی حکمت عملی کووضع اور ترجیحات کا تعین نہیں کرے گا اورپھر اس کی روشنی میں بر وقت فیصلہ نہیں لے گا وہ لازما الیکشنی ہنگامے میں وقتی حالات اورجذباتی ماحول کا شکار ہو جائے گا اور غلط فیصلے کر بیٹھے گا ۔اسی طرح قوم کے لیڈران اگر جذبات میں آکر وقتی حالات،اپنے ارد گرد کی بھیڑ بھاڑ ،نعرے اور عوامی جوش ولولے سے متاثر ہوجائیں گے تو اپنی قوم کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیں گے۔سیاست الیکشنی ہو یا غیر الیکشنی ،اقتدار کے حصول کی ہو یا اقتدار پر اثر انداز ہونے کی ،پارلیمان اور اسمبلی ہاؤس کے اندر فلور کی ہو یا عوام اور سماج کے ساتھ دھرنا پردرشن روڈ مارچ کرنے کی،ایشوز کی ہو یامسائل کی ،ہر جگہ دو ٹوک فیصلے، ترجیحات کے تعین، حال و مستقبل پر پوری نظر کا تقاضہ کرتی ہے ۔افسوس ،اپنی مسلمان قوم پر ہے کہ ملک کے پورے سیاسی عمل میں شریک نہیں ہوتی ہے اور صرف الیکشنی سیاست کو اصل سیاست سمجھتی ہے ،حالانکہ الیکشنی سیاست قومی سیاست کا ون تھرڈ سے زیادہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی کم ہوسکتا ہے اور کبھی بہت زیادہ بھی ہوجاتا ہے جیسے ۲۰۲۰ کا حالیہ انتخاب۔بہرحال بہار اسمبلی کا الیکشن نومبر ۲۰۲۰ کے پہلے عشرے میں اپنے نتائج کے ساتھ مکمل ہوجائے گا اور اس پہلو سے اب وقت بہت کم ہے ۔
ان حالات میں ملت کو چاہئے کہ موجودہ صورت حال کا صحیح جائزہ لے اور اپنی سیاسی ترجیحات طے کرلےـ اس سلسلے میں قابل غوربات یہ ہے کہ جن حالات میں بہار کا انتخاب ہورہا ہے ان کو تازہ کرلینا چاہئے تاکہ ترجیحات کے تعین میں وہ باتیں نگاہوں سے اوجھل نہ ہو جائیں ۔چنانچہ ا اس وقت سب سے اہم مسئلہ سی اے اے یعنی شہری ترمیمی قانون این پی آر این آر سی کی تلوار بے نیام کا ہے جو ملت کی گردن اور دستور کی شہ رگ مذہبی رواداری پر رکھی ہوئی ہے ۔ابھی کچھ دن پہلے شاہین باغ طرز پر پورے ملک میں ہماری مائیں بہنیں اور بیٹیاں سڑکوں اور چوراہوں پر بیٹھی ہوئی تھیں اور کس طرح دہلی کے منصوبہ بند فسادات کے ذریعےان کو ناکام کرنے کی کوشش کی گئی اگر کووڈ ۱۹ کی عالمی وبا کا قہر نہ ہوتا تو ملک میں کتنی جگہ فسادات کرائے جاتے ۔اور اب اسی حوالے سے معصوم نوجوانوں اور بیٹیوں کو حراست میں بھی لیا جارہا ہے ۔اسلام کے آخری قلعے یعنی خاندانی نظام کو منہدم کرنے کی ابتدا ٹریپل طلاق بل سے ہو چکی ہے ۔علی گڑھ ،جامعہ ملیہ ،جے این یو تعلیمی نظام کا بھگوا کرن اور مادری زبان کا کیا ذکر کیا جائے پوری ملت اسلامیہ کی جان مال عزت آبرو کھیت کھلیان دوکان مکان محلے آبادیاں کھان پان مسجد مدرسے سب اس وقت ہندتوا سیاست کی زد میں ہیں اسی طرح بھارت ماتا کی بھکتی راشٹر ہت اور ہندو راشٹر کے قیام کے لئے تمام مذاہب کے ساتھ رواداری کے جذبے کو پہلے بھینٹ چڑھایا جانے والا ہے اس کے لئے جمہوریت کا گلا گھونٹ کر دستور کو بے روح کرنے کا منصوبہ اپنی آخری منزل پر پہنچ چکا ہے تاکہ شہری آزادی مساوات بھائی چار گی اور سماجی عدل کے بدلے آسانی سے دستور میں ھندو راشٹر کو داخل کیا جا سکے ۔ان تمام پہلؤون سے اگر بہار کے الیکشن پر غور کیجئے تو صاف نظر آئے گا کہ اس الیکشن میں تمام باشعور ،آزاد جمہوریت پسند ہندوؤں اور مسلمانوں کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ موجودہ این ڈی اے حکومت کو ہر حال میں جانا چاہئے اور دوسرے تمام ایشوز سیاسی شکوے اور محرومی کے گلے کو دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہونا چاہئے ۔اس ترجیح کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئے جس سے سیکولر ووٹ منقسم ہو اور فرقہ پرست امیدوار کے جیتنے کا ذرا بھی امکان پیدا ہوجائے ۔عملی طور پر دیکھیں تو ایک طرف این ڈی اے ہے دوسری طرف یو پی اے ۔ایک تیسرا حلقہ بھی ہے جو ملا جلا ہے الیکشن میں کچھ پارٹیاں محض اپنے پارٹی کے وجود اور کچھ قانونی مصلحت کے طور پر کھڑی ہوجاتی ہیں کچھ پارٹیاں اور افراد ووٹ کاٹنے کی تجارت کرتے ہیں اور ہر الیکشن میں اپنی کمائی کا ایک انتظام کرلیتے ہیں ۔کچھ کالا دھن کو وھائٹ کرنے کے لئے بھی یہ جوکھم آٹھاتے ہیں کچھ بلیک لسٹیڈ افراد اپنا نامہ اعمال الیکشن کے بہانے درست کرلیتے ہیں چند اپنی ضمانت ضبط کرا کے سہی کچھ شہرت تو حاصل کر لیتے ہیں الیکشن بہتی ہوئی گنگا ہے بہت لوگ اس میں اشنان کر کے پن کماتے ہیں یا پاپ دھوتے ہیں ۔ہمارے یہاں الیکشن تماشہ بھی ہے کچھ اپنے نام سے بھالو بندر نچانے کے لئے امیدواری کا پرچہ بھر دیتے ہیں ۔کچھ سرپنچ بننے کے لئے ام آل اے میں امیدوار ہوجاتے ہیں ان لوگوں کا ذکر فضول ہے ہر حلقہ انتخاب میں اصلا مقابلہ دو کے درمیان ہوگا اور موجودہ صورت حال میں دو کے درمیان ہونا بھی چاہئے جہان جہاں مقابلہ سہ طرفہ ہوگا وہاں این ڈی اے یا این ڈی اے نواز کی جیتنے کا چانس بڑھ جائے گا ۔کانگریس +راجد +لیفٹ +جے ایم ایم جھارکھنڈ یعنی یو پی اے مہاگٹھ بندھن سب سے بہت ساری شکایتیں ہوسکتی ہیں بلکہ ہیں لیکن جب موجودہ صورت حال میں ہم تقابل کرتے ہیں تو متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ این ڈی اے کو بہر حال جانا چاہئے اور اس کےمتبادل کے طور پر یہی مہاگٹھ بندھن ہماری ترجیح ہونی چاہئے الا یہ کہ کسی حلقہ انتخاب میں کوئی استشنائی صورت پیدا ہوجائے لیکن ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جو ہماری حکمت عملی اور متفقہ ترجیح اوّل کے خلاف ہو اور این ڈی اے کو فائدہ پہنچانے والا ہو ۔
اس سلسلے میں ہم مسلمانوں کی جو سیاسی پارٹیاں ہیں خصوصا آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اورایس ڈی پی ،سے پورے احترام کے ساتھ یہ عرض کر نا چاہتے ہیں کہ وہ بہار میں کوئی ایسا رول ادا نہ کریں جو بہار کے مسلمانوں کی ترجیحات کو مجروح کردے اور نہ کوئی ایسا بیانیہ پیش کریں جو ہمارے مشترکہ اور متحدہ سیاسی عمل کے اعتماد کو متاثر کرے ہر سیاسی پارٹی کے کچھ اپنے حدود اور سیاسی اھداف ہوتے ہیں ان کے حلیف اور حریف بھی ہوتے ہیں اوراس پہلو سے ان کی ترجیحات بھی ہوتی ہیں ان حالات میں مسلم سیاسی پارٹیاں اپنے وجود اور بقا کے لئے سیکولر پارٹیوں کی کوتاہیوں کمزوریوں اور ناانصافیوں کا ذکر کرتی ہیں ہم دیکھ رہے ہیں یہ پارٹیاں اپنے روئیے سےبہار الیکشن ۲۰۲۰ کے متفقہ ترجیح کو مجروح کر رہی ہیں۔انہوں نے جو بیانیہ تشکیل دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت میں مسلمانوں کی متناسب حصے داری ان کے لئے ترجیح اوّل ہے اور این ڈی اے کی شکست ثانوی ہے لھذا اپنے ترجیح اول یعنی مسلم امیدوار کے کھڑا کرنے سے اگر این ڈی اے کا امیدوار جیت جائے تو بھی وہ اپنے امیدواری پر نظر ثانی نہیں کرین گےکیونکہ یہ مسلم پارٹیان پارٹی کے مفاد کو ملی مفاد پر ترجیح دینے پر اپنے کو مجبور کر لیتی ہیں اس لئےمسلم پارٹیان آپس میں بھی اتحاد پیدا نہیں کر پاتی ہیں وہ ہندوستان میں قومی کشمکش کے خاتمے کو بنیادی اہمیت نہیں دیتی ہیں بلکہ کبھی کبھی اس کشمکش کو اپنی پاور پالیٹکس کے لئے جوابی طور پر استعمال کرلیتی ہیں ۔اس لئے ان کے بیانئے کا اکثر جزو کا ڈانڈا سیاست میں ہندو مسلم قومی کشمکش سے مل جاتا ہے ۔اس وقت ان سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کی گفتگو اور بیان کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے خیال میں مسلمانوں کے سیاسی مسائل کا حل اور اس کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب مسلمانوں کی ایک اپنی قومی پارٹی ہو مسلمان کو اس معاملے میں غیر مسلموں کی پارٹی اور قیادت پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے ۔البتہ مسلمانوں کی قومی پارٹی ھندؤں اور دلتوں کی قومی پارٹی سے اقتدار میں اپنے اپنے قومی مفاد کی بنیاد پر سمجھوتہ کرسکتی ہے۔تب ہی مسلمانوں کو انصاف مل سکتا ہے۔ غیر مسلم جماعت پر مسلمانوں نےبھروسہ کیا تو انہیں جس طرح ستر برس سے دھوکہ ہورہا ہے ویسے ہی وہ دھوکا کھاتے رہیں گے یہ پوری لوجیک۷۰سالہ سیاسی تاریخ کی غلط تعبیر کا نتیجہ ہے آزادی کے بعد ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ ایک الگ موضوع ہے اس سلسلے میں مولانا ابولکلام آزاد کے چند جملے بہت معنی خیز ہیں
“تقسیم ملک کے بعد بر صغیر کے مسلمان تقسیم در تقسیم ہوکر کمزور ہوجائیں گے اوراس طرح ہندوستان میں رہ جانے والے کروڑوں کروڑ مسلمان اب ابد تک ظلم اور انتقام کا شکار ہوتے رہیں گے ۔پاکستان میں رہنے والے مسلمان ان کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے “ـ
مولانا آزاد کی یہ پوری تقریر غور سے سننا چاہئے میں نے بس دو تین جملے نقل کئے ہیں تاکہ ہندوستانی سیاست کو دیکھنے کا ایک ابولکلامی نقطہ نظر بھی سامنے رہے اوراس لئے سر دست میری درخواست مسلم سیاسی پارٹیوں سے یہی ہوگی کہ جہاں مقابلہ آپس میں سیکولر پارٹیوں کے درمیان ہے اور ہار جیت دو سیکولر کے بیچ ہے وہاں وہ اپنے امیدوار کھڑے کرتے ہیں تو سر دست وہ کرسکتے ہیں ویسے جن حلقوں میں وہ زیادہ ہاتھ پیر مار رہے ہیں وہاں تو وہ اپنی ہی قوم کے امیدوار یعنی محمد میاں کی جگہ پر احمد میاں کو جیت دلائیں گے اس سے فائدہ کتنا ہوگا قابل غور ہے، نقصان یہ ہوگا کہ جو سیکولر پارٹیاں مسلم ووٹ کی وجہ سے ہندتوا سے ہاتھ ملانے میں لحاظ کرتی ہیں، وہ بھی بآسانی سیکولرزم کا چوغہ اتار کر اقتدار کے کھیل میں شریک ہوجائیں گی جس سے بی جے پی کا سیاسی میدان وسیع ہوتا جائے گا اور مسلمانوں سیاسی اعتبار سے زیادہ بے اثر ہوجائیں گے یاد رہے کہ ہندوستان میں ہندتوا فورس کوہندو اور مسلمان مل کر ہی روک سکتے ہیں اوراس کو روکنے کا عمل ہندؤن کی قیادت میں زیادہ آسانی سے ہوگا۔مجلس کا سیاسی اپروچ جنوبی ھند کے کسی خاص علاقے میں وقتی طور مسلمانوں کے درد کادرماں بن سکتا ہے لیکن پورے ہندوستان میں یہ سیاسی بلو پرنٹ کاؤنٹر پروڈکٹو ہوسکتا ہے ۔بہار کے حالیہ الیکشن میں مسلم سیاسی لیڈروں کا اس طرح کا بیانیہ ،اور ترجیحی پالیسی ایک نادان دوست کی دوستی ہی کہی جاسکتی ہے ۔ان پارٹیوں نے جھارکھنڈ کے الیکشن میں حصہ لیا ۔الیکشن ختم ہونے کے بعد ان کی سیاسی تگ دو بھی ختم ہوگئی ۔ حالانکہ مسلمانوں کے سیاسی مسائل وہاں حل طلب ہیں متحدہ مسلم مجلس کی یہ بڑی کمزوری ہے ان لوگوں نے شمالی ہند میں لمسلم سیاست کو الیکشنی سیاست تک محدود کردیا ہے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کی یہ پارٹیاں بھی مسلمانوں کو نادانستہ طور پر ووٹ بینک کے طور پر ہی استعمال کرتی ہیں ۔ان باتوں کو دوستانہ شکایت ہی سمجھنا چاہئے بہر حال بہار اسمبلی انتخاب بہت نازک وقت میں ہورہا جو لوگ اس کی نزاکت ،اہمیت اور دور رس نتائج کو سمجھ رہے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دانا دشمن کی چال ہی پر نظر نہ رکھیں بلکہ نادان دوست کی سیاسی نادانی کو بھی سمجھیں ۔
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
بہار الیکشن:تیسرے محاذ کی آہٹ تیز،کیاکشواہا،چراغ،پپویادو،یشونت سنہا اور اویسی آئیں گے ساتھ؟
پٹنہ:اب تک یہ خیال کیا جارہا تھا کہ بہار اسمبلی انتخابات دو بڑے اتحادوں کے مابین ہوں گے۔ یہ مانا جارہا تھا کہ مخصوص طبقات اور خاص ذاتوں میں اثر و رسوخ رکھنے والی چھوٹی پارٹیاں دو بڑے اتحادوں میں سے کسی ایک میں شامل ہوجائیں گی؛ لیکن اب یہ صورتحال نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ این ڈی اے سے لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی)اور عظیم اتحاد سے راشٹریہ لوک سمتا پارٹی (آر ایل ایس پی) کے غیر مطمئن ہونے کے بعد تیسرے محاذ کی بنیاد پڑے گی۔ اگرپپو یادو کی جن ادھیکار پارٹی (جے اے پی) اور مکیش سہنی کی وکاس شیل انسان پارٹی (وی آئی پی) ان دونوں پارٹیوں کے ساتھ آجاتی ہیں ، تو کچھ اور چھوٹی جماعتوں کو شامل کرکے ایک مؤثر تیسرا محاذ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ البتہ یہ ایک امکان ہی ہے۔ پل پل سیاسی لیڈران کے بدلتے نظریات اور کسی اصول و نظریے کے تئیں پختہ عہد کے فقدان کی وجہ سے یقینی طورپر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
کشواہا کے سامنے اکیلے لڑنے یا تیسرے مورچے کا متبادل
پچھلے لوک سبھا الیکشن کے دوران رالوسپا عظیم اتحاد کا حصہ تھی۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ پارٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ انھیں تیجسوی کی قیادت کو قبول کرنے سےکوئی پرہیز نہیں ہے؛لیکن اب کہہ رہے ہیں کہ تیجسوی کی سربراہی والی آرجے ڈی سے ان کا اتحاد ممکن نہیں ہے۔ان کی بات مانی جائے تو آرجے ڈی کی قیادت کسی اور کے سپرد کرنی ہوگی اور یہ ناممکن ہے۔پس یہ واضح ہے کہ کشواہا آرجے ڈی کی سربراہی والے کسی اتحاد میں شامل ہونے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ پھر تیجسوی ہی کی طرح انھیں نتیش کمار بھی قبول نہیں ہیں اور وہاں بھی ان کی یہ بات نہیں مانی جا سکتی کہ این ڈی اے نتیش کی جگہ کسی اور چہرے کو آگے کرے،تب اس سے جڑیں گے۔ اب دونوں طرف حوصلہ افزا صورت حال نہ ہونے کی وجہ سے کشواہا کے سامنے دو ہی متبادل ہیں،یا تو اکیلے الیکشن لڑیں اور یا پھر کسی تیسرے محاذ کے امکانات پر غور کریں ۔
چراغ پاسوان جگارہے ہیں تیسرے محاذ کی امید
تیسرے محاذ کی امید چراغ پاسوان بھی جگا رہے ہیں۔ انھیں بھی ریاست کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنے کا شوق ہے۔ وہ جوان ہیں اور الیکشن میں کھونے کے لیے ان کے پاس بہت کچھ نہیں ہے۔ ایسا کہاجارہا تھا کہ چراغ جو کچھ کہہ رہے تھے اس کے پس پشت بی جے ہی تھی یعنی وہی کہلوا رہی تھی مگر چراغ جوش میں کچھ زیادہ ہی بولنے لگے جس کی وجہ سے بی جے پی نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اوپندر اور پپویادو کی طرح چراغ کو بھی نتیش کمار پسند نہیں ہیں ،ظاہر ہے کہ اس سے بھی تیسرے محاذ کے امکانات پختہ ہوجاتے ہیں۔
کیا پپو یادو بھی اس خیمے میں آسکتے ہیں؟
کشواہا کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ جن ادھیکار پارٹی کے سربراہ راجیش رنجن عرف پپو یادو کے دل میں بھی نتیش اور تیجسوی کے تئیں نرم گوشہ نہیں ہے۔یہ قدرِ مشترک کشواہا اور پپو یادو کو ایک اسٹیج پر لا سکتی ہے۔ ایک اور وجہ اور بھی یہ ہے کہ یہ دونوں رہنما پچھڑی برادریوں کو ایک حد تک ہی سہی،متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،حالاں کہ منفی پہلو یہ بھی ہے کہ ان دونوں رہنماؤں کو الگ الگ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا مگر نتیجہ حوصلہ افزا نہیں رہا۔ جہاں پپویادو کی پارٹی دوہزار پندرہ میں ایک سیٹ بھی حاصل نہ کر سکی،وہیں کشواہا کی پارٹی پچھلے سال لوک سبھا الیکشن میں صفر پر سمٹ گئی۔ ہاں یہ تو ہے کہ الیکشن کی ہار جیت کا اثر نیتاؤں پر اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ وہ الیکشن ہی لڑنا چھوڑ دیں۔
اویسی اور یشونت سنہا بھی تیسرے محاذ کے حق میں
اتفاق کی بات یہ ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین کے اسدالدین اویسی بھی تیسرے محاذ کی وکالت کر رہے ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں سابق مرکزی وزیر دیوندر پرساد یادو کی پارٹی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ان دونوں کو کشواہا اور پپو یادو سے بھی پرہیز نہیں ہے۔ سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا تین ماہ سے بہار کے دورے کر رہے ہیں۔’بدلو بہار‘مہم کے تحت ان کے ساتھ کچھ اور سیاسی رہنما بھی جڑے ہوئے ہیں ۔ سابق ممبر پارلیمنٹ ارون کمار کی بھی ایک پارٹی ہے’بھارتیہ سب لوگ پارٹی‘،راشٹروادی کانگریس پارٹی بھی تیسرے محاذ کے لیے تیار ہے۔ کل ملاکر پانچ چھ پارٹیاں تیسرے محاذ کے لیے آمادہ نظر آرہی ہیں،یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے اور ان سب کو ملاکر ایک تیسرا محاذ آسانی سے بن سکتا ہے۔ اگر یہ محاذ تشکیل پاتا ہے،تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا،اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا،ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس محاذ میں امیدواروں کی بہتات ضرور ہوگی۔
اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ اگر مسلم قیادت کی توسیع اور سیاسی وسعت ضروری ہے تو تلنگانہ مین سات آٹھ پر کیوں لڑتے ہیں اور جب مہاراشٹر،یوپی،بہارجاتے ہیں تو توسیع کا ڈھکوسلہ کیوں؟یہی دوہرے رویے مجلس کو مشکوک بناتے ہیں-
تلنگانہ والا فارمولہ بہار میں کیوں نہیں اپنایاجاسکتا؟
اگر جواب یہ ہے کہ بہارمیں فرضی سیکولروں کو سبق سکھاناضروری ہے تو دلیل صحیح ہے لیکن تلنگانہ کے کے سی آر بھی فرضی سیکولر بلکہ حقیقی فرقہ پرست ہیں ان کے خلاف وسیع امیدوار کیوں نہیں اتارتے؟ جو نرسمہارائو کے پریم میں ٘گرفتار ہیں اور مساجدکی شہادت کے مجرم ہیں،اسمبلی میں مجلس کے شیروں کےرہتے ہوئے بھارت رتن کی تجویز منظور ہوجاتی ہے-
بہاراور مجلس کے لیے یہی بہتر ہے کہ تلنگانہ فارمولے پر کم امیدوار اتاریں-پندرہ بیس پر محنت کریں-دس بھی جیت گئے تو سیکولروں کو ڈرانے کے لیے کافی ہے-اگر دس پندرہ جیت گئے تو کنگ میکر کی حیثیت میں ہوں ٘گے-ہم بھی چاہتے ہیں اور لاکھوں مسلمانوں کی دلی خواہش ہے کہ مجلس جیتے لیکن زیادہ جوش میں اور زیادہ فوائد کے چکر میں کہیں ہم زیادہ نقصان کی طرف تو نہیں بڑھ رہے ہیں؟مگدھ،متھلانچل کی طرف بڑھنے اور پچاس ساٹھ سیٹوں پر لڑنے کا فیصلہ غلط ہے-اگر ان پچاس سیٹوں پر سہ رخی لڑائی ہوئی تو فائدہ کس کا ہوگا یہ ہرشخص سمجھ سکتاہے-اور ان سیٹوں بلکہ پورے بہار میں ماحول بنانے میں آسانی ہوگی کہ مسلمان، مسلم پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں،اب سب ہندو ہمیں ووٹ دو-انھیں تو ماحول بنانے کا موقع ملنا چاہیے-اگر ایساہواتو یقینا بی جے پی ایجنٹ کہاجائے گا پھر برا نہیں ماننا چاہیے-
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
بہار اسمبلی الیکشن میں مجلس کی ’سیریس انٹری ‘سے وہاں کا سیاسی منظرنامہ خاصا ہنگامہ خیز ہوتا جارہا ہے۔ کل اویسی نے دویندر یادو کی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے اور اس کے دائرے کو مزید وسیع کرنے کا عندیہ دے کر معاملے کو اور بھی توجہ طلب بنادیا ہے۔
یہ صورت حال دو پارٹیوں کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک ہے،ایک آرجے ڈی اور دوسری جے ڈی یو۔ چوں کہ اب تک بہار کے مسلمان زیادہ تر انہی دو پارٹیوں کو ووٹ دیتے آرہے ہیں،کانگریس ایک عرصے سے وہاں قابلِ ذکر پوزیشن میں نہیں ہے اور بی جے پی کو تو خیر مسلم ووٹ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ نتیش کمار نے جو لگاتار تین بار کامیابی حاصل کی،اس میں ان کے اپنے سیاسی توڑ جوڑ کے علاوہ مسلم ووٹ کا بھی خاص کردار رہا،انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں کچھ اہم اور بنیادی انفراسٹریکچر سے جڑے ہوئے کام بھی کروائے ،اس کا بھی انھیں فائدہ ہوا،’سوشاسن بابو‘انھیں لقب بھی مل گیا۔ البتہ 2015میں ان کو کامیابی عظیم اتحاد کے پلیٹ فارم سے ملی تھی،جس سے انھوں نےسال ڈیڑھ سال بعد ہی پلہ جھاڑ لیا اور واپس این ڈی اے میں چلے گئے۔ اس کے بعد موجودہ مرکزی حکومت کی سربراہی میں خصوصاً مسلمانوں کے حوالے سے جو متعصبانہ اقدامات سامنے آئے،ان میں خود نتیش بھی شامل رہے،تین طلاق کے معاملے میں انھوں نے تگڑم سے کام لیا،این آرسی ؍سی اے اے کے مسئلے پر بی جے پی کے ساتھ گئے،حالاں کہ پچھلے دنوں این پی آر پر اسمبلی سے انھوں نے تجویز پاس کروالی ہے کہ اس کا فارمیٹ پہلے جیسا ہی ہوگا،اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔مگر دیگر کئی معاملوں میں انھوں نے یا تو اپنے موقف کو واضح نہیں کیا یا اندر خانہ مرکزی حکومت کی حمایت کی۔ ادھر کچھ دنوں سے بہار کے مختلف اضلاع میں فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے،ان سارے واقعات نے بہار کے مسلمانوں کو نتیش کمار کے تئیں بہت حد تک بد گمان کردیا ہے اور اب وہ کسی متبادل کی تلاش میں ہیں،مگر کیا وہ متبادل آرجے ڈی یا اس کی سربراہی میں قائم ہونے والا متوقع عظیم اتحاد ہو سکتا ہے،جس کے خط و خال تا حال واضح نہیں ہیں؛بلکہ خود آرجے ڈی کے کئی سینئر رہنما پارٹی سے روٹھ کر اِدھر اُدھر جا چکے یا اس کی تیاری میں ہیں؟ ایک قدآور آرجے ڈی لیڈر بابو رگھوونش پرساد تو پارٹی سے ناراضی کے ساتھ ہی آں جہانی ہو چکے ہیں،حالاں کہ دَل بدلنے کا یہ سلسلہ این ڈی اے کی پارٹیوں میں بھی چل رہا ہے،مگر من حیث المجموع یہاں جے ڈی یو اور بی جے پی مضبوط پوزیشن میں ہیں،جبکہ عظیم اتحاد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا،اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
لا لویادو کی عدم موجودگی میں نہیں لگتا کہ تیجسوی یادو عظیم اتحاد کے قیام اور اسے کماحقہ مینج کرسکنے کی پوزیشن میں ہیں،اس کی ایک جھلک ہم نے پچھلے سال لوک سبھا انتخاب میں دیکھی بھی ہے کہ تیجسوی اینڈ کمپنی نے بہت ہی بری چال چلی اور بے تدبیری،تجربے کی کمی اور ابلہانہ طریقِ کار کے کئی مضحکہ خیز نمونے دیکھنے کو ملے،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوک سبھا الیکشن میں بہار کی چالیس سیٹوں میں سے انتالیس پر این ڈی اے کو کامیابی ملی اور پانچ چھوٹی بڑی پارٹیوں کے اتحاد نے مل کر صرف ایک سیٹ پر کامیابی حاصل کی۔ابھی اسمبلی الیکشن سے قبل جس طرح کی صورت حال ہے،اس میں مجھے نہیں لگتا کہ حالات بہت کچھ بدل سکیں گے،تیجسوی یادو سے لوگوں کو بڑی امیدیں تھیں،مگر ان کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ نہ تو وہ اپنی پارٹی کے بڑے اور تجربہ کار لیڈروں کو کنونس کر سکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی اتحادی جماعتوں کو مطمئن کرسکنے کی پوزیشن میں ہیں،اسی وجہ سے جیتن رام مانجھی عظیم اتحاد میں شامل ہوتے ہوتے رہ گئے،انھوں نے الیکشن سے پہلے پھر این ڈی اے کا دامن تھامنے میں عافیت سمجھی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ لالو یادو کی ضمانت کی کوششیں پھر سے تیز ہو گئی ہیں،اگر وہ الیکشن سے قبل کچھ دنوں کے لیے بھی باہر آسکیں،تو کچھ امید کی جا سکتی ہے۔
مجلس اتحاد المسلمین کے ذریعے بہار الیکشن میں ایک نیا محاذ کھولنے کی کوششیں آرجے ڈی اور جے ڈی یو دونوں ہی کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوسکتی ہیں؛کیوں کہ اکیلے بھلے ہی مجلس کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے؛لیکن اگر مسٹر اویسی بہار کی دوسری پارٹیوں کے ساتھ ایک قابلِ ذکر اور مؤثر اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،تو اس کا نتیجہ یقیناً زمینی سطح پر نظر آئے گا،اسی لیے آرجے ڈی اور جے ڈی یو کے مسلم رہنما خاص طورپر پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔کل19ستمبر کو جہاں اویسی اور دویندر یادو نے اپنے اتحاد کا اعلان کیا،وہیں کل ہی جے ڈی یو کے ایم ایل سی خالد انور کی سربراہی میں ’ مسلمانوں کی ترقی میں نتیش کمار کا کردار‘ کے عنوان سے ایک ورچوئل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں بہار کے بہت سے اضلاع سے مسلم لیڈران اور عوام نے شرکت کی اور اس میں نتیش حکومت کے وزرا اشوک چودھری،نیرج کمار اور ایم ایل اے نوشاد عالم،ماسٹر مجاہد وغیرہ نے خطاب کیا اور سبھوں نے نتیش کے دورِ حکومت میں مسلمانوں کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور منصوبوں کاگن گان کیا۔کل ہی ایک یوٹیوب چینل پر آرجے ڈی کے ریاستی یوتھ صدر قاری صہیب کی ساڑھے پانچ منٹ کی بات چیت دیکھنے اور سننے کو ملی،جس میں قاری صاحب اویسی اور مجلس پر بے پناہ غصے کا اظہار کررہے ہیں اور غصے میں انھوں نے بعض ایسی باتیں بھی کہی ہیں،جن کی ایک بڑی پارٹی کی نمایندگی کرنے والے شخص سے توقع نہیں کی جاسکتی،انھوں نے ایک جذباتی مقرر کی طرح بولتے ہوئے کہا کہ مجلس ٹی بی کے مرض کی طرح ہے،وہ مسلم نوجوانوں کو بارود کے ڈھیر پر کھڑا کررہی ہے،وہ مسلم نوجوانوں کے ہاتھ سے قلم چھین کر تلوار پکڑا رہی ہے وغیرہ وغیرہ ۔دو مختلف پارٹیوں کا باہمی سیاسی اختلاف کوئی اچنبھے کی بات نہیں،مگر اس اختلاف کے اظہار کا سلیقہ ہوتا ہے،ہمارے پٹنہ ہی کے شہرۂ آفاق شاعر کلیم عاجز کہہ گئے ہیں:
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہیے
اس قسم کی گفتگو آرجے ڈی کے حق میں قطعی نہیں جا سکتی،البتہ اس سے پارٹی کو نقصان ہونے کا امکان ایک سو ایک فیصد ہے۔ اویسی سے ملک کے بے شمار مسلمانوں کو اختلاف ہے اور ان کی بہت سی باتیں،آرا قابلِ اختلاف ہیں بھی،مگر اس کی وجہ سے کیا یہ کہنا درست ہے کہ مجلس مسلم نوجوانوں کے ہاتھ میں تلوار تھما رہی ہے؟آپ کو اندازہ بھی ہے کہ محض پارٹی میں سرخروئی حاصل کرنے کے لیے کہی گئی آپ کی اس بات کا اثر کتنا گہرا اور دور رس ہو سکتاہے؟اگر آرجے ڈی اسی قسم کے مسلم نیتاؤں کو آگے بڑھا کر مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے،تو پھر اسے اپنی خیر منانی چاہیے!