بہار الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہو چکا ہے ۔ اسی کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی جوڑ توڑ تیز ہو گئی ہے ۔ سیٹوں کے بٹوارے اور ووٹ حاصل کرنے کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے ۔ انتخابی ہل چل کو دیکھ کر کورونا کے دوران انتخاب کیسے ہوگا، کیا تمام طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں گی، بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے بیماری کو بڑھنے سے کیسے روکا جائے گا، الیکشن ڈیوٹی میں لگائے گئے اسٹاف کی حفاظت کا کیا انتظام ہو گا، اس پر کتنی رقم خرچ ہوگی اور کیا حکومت یہ بوجھ اٹھانے کی حالت میں ہے وغیرہ سوالات فطری طور پر ذہن میں آتے ہیں ۔ کئی ممالک نے اپنے یہاں ہونے والے انتخابات کو کورونا کی وجہ سے ٹال دیا ہے ۔ لیکن حکومت ہند نے بہار الیکشن کا اعلان کرکے یہ واضح کر دیا کہ اس کا سروکار عوام کے بجائے حصول اقتدار سے ہے ۔ تبھی تو ایسے وقت بہار میں الیکشن کی قواعد شروع کی گئی ہے جب ہر گھر کی چوکھٹ پر کورونا، بے روزگاری، سیلاب کا پانی جمع ہونے سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور موت کی آہٹ دستک دے رہی ہیں ۔ پہلے مرحلے کی ووٹنگ بھی سیلاب زدہ علاقوں میں ہی کرانا طے ہوا ہے ۔ جہاں ابھی تک حالات معمول پر نہیں آ پائے ہیں ۔ سیلاب کی وجہ سے گھر چھوڑنے والوں کی نہ واپسی ہو پائی ہے اور نہ ہی ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی مرمت ۔ متھلا کا یہ تاریخی علاقہ آج ہر لحاظ سے پسماندہ ہے ۔ یہاں نہ کوئی صنعت ہے نہ ذریعۂ معاش، نہ صحت کی سہولیات کا مناسب بندوبست ہے نہ تعلیم کا ۔ مگر الیکشن تو پھر بھی ہونا ہی ہے ۔
یہ الیکشن پہلے سے مختلف ہوگا، اس میں نہ لالو پرساد کے محاورے ہوں گے نہ نتیش کمار کا اپنا انداز بیان، نہ ریلیاں ہوں گی نہ عوامی جلسے جلوس ۔ مانجھی ہوں یا تیجسوی یادو، چراغ پاسوان، اوپیندر کشواہا ہوں یا کنہیا کمار ان کا روب دار بھاشن بھی نہیں ہوگا ۔ ڈور ٹو ڈور جا کر امیدوار سمیت پانچ لوگ ہی تشہیر کر سکتے ہیں ۔ البتہ ورچول ریلیوں کا دور شروع ہونے والا ہے ۔ جن کے ذریعہ پارٹیاں اپنے من کی بات ووٹروں تک پہنچائیں گی ۔ جگہ جگہ ٹیلی ویژن لگا کر خواب دیکھائے اور جملے اچھالے جائیں گے، ہو سکتا ہے نوٹ بھی بٹیں ۔ اس بہانے ہو سکتا ہے کئی گھروں میں دو جون کی روٹی آ جائے ۔ ہو سکتا ہے دیوالی سے پہلے جب چناؤ کے نتیجے آئیں تو کچھ کے لئے یہ بہت شاندار دیوالی ہو کیوں کہ یہ بہار ہے ۔ وہی بہار جس کے نوجوان، کسان اور عوام اقتدار بدلنے کی طاقت رکھتے تھے ۔ جس کا انوویشن، تحقیق اور دانشوری میں نام تھا ۔ جو تحریکوں کی جنی کہلاتا ہے ۔ جہاں الیکشن کے آخری گھنٹہ میں طے ہوتا تھا کہ کس کو جتانا یا کس کو ہرانا ہے ۔
بہار کی طاقت نہرو، اندرا سے لے کر لوہیا، جے پی اور وی پی سنگھ تک نے محسوس کی ۔ مگر اقتدار کی چاہ رکھنے والے سیاست دانوں نے بہار کو مہرے کی طرح استعمال کیا ۔ اس کے نتیجہ میں آج یہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔ اس کی حالت جھارکھنڈ سے بھی زیادہ خراب ہے ۔ سینئر صحافی پونیہ پرسون باجپئ کی رپورٹ کے مطابق بہار میں دو کروڑ 73 لاکھ مزدور ہیں ۔ ان میں سے ایک کروڑ 95 لاکھ نے من ریگا کے تحت رجسٹریشن کرایا مگر جوب کارڈ ایک کروڑ 76 لاکھ کو جاری کیا گیا ۔ لیکن جنہیں کام دیا گیا ان کی تعداد صرف 65 لاکھ ہے ۔ یہاں رجسٹرڈ بے روزگار گریجویٹ کی تعداد 55 لاکھ ہے ۔ یہ وہی بہار ہے جہاں 15 لاکھ سے زیادہ کاروباری کنگال ہو چکے ہیں ۔ سات لاکھ سے زیادہ کسان ہیں جن کے پاس اپنی زمین ہے لیکن اس سے گزارے لائق آمدنی بھی نہیں ہوتی ۔ 40 لاکھ مہاجر مزدور جو کورونا کے دوران 16 یا 32 اضلاع میں لوٹے ان کے پاس آج بھی کام نہیں ہے ۔ انہیں زندگی جینے کے لئے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے ۔ یہاں کا ہر دوسرا شخص بے روزگار ہے ۔ سیاست دانوں نے بہار کو اس حال میں لاکر کھڑا کر دیا ہے کہ دو جون کی روٹی کے لئے بھی نوجوان، کسان اور مزدور سڑکوں پر نہیں اتر پا رہے ہیں ۔ اس بہار میں الیکشن ہونے والا ہے اور آخری گھنٹہ کورونا متاثرین کے لئے ہے ۔ جنہیں نہیں معلوم کہ ووٹ دینے کے بعد وہ زندہ بھی رہیں گے یا نہیں ۔
ریاست کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ ریونیو، جی ایس ٹی کا کلیکشن بھی کم ہے ۔ لوگ انکم ٹیکس دینے کی حالت میں نہیں ہیں ۔ انڈسٹریز، چھوٹی، منجھولی اور گھریلو صنعتوں کو فروغ دینے پر حکومت کی توجہ نہیں ہے ۔ اس لئے انڈسٹریز کا پروڈکشن اور ریاست کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) نیچے چلی گئی ۔ آمدنی کے لحاظ سے زراعت بھی خراب حالت میں ہے ۔ اسی وجہ سے ترقی کی شرح میں گراوٹ درج کی جا رہی ہے ۔ تعلیم، صحت، روزگار، پینے کا صاف پانی، بجلی کی فراہمی، انفراسٹرکچر کو لے کر بھی اجالا دکھائی نہیں دیتا ۔ رہی سہی کسر ہر سال آنے والا سیلاب پوری کر دیتا ہے ۔ حالات یہ ہیں کہ بہار مزدور پیدا کرنے والی ریاست بن کر رہ گیا ہے ۔ اسی لئے بہار چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے ۔ 2011 کی مردم شماری میں ریاست چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد ایک کروڑ 12 لاکھ بتائی گئی تھی ۔ ایک طرف عوام کے حالات دگر گوں ہیں وہیں دوسری طرف گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ہوئے ہر انتخاب سے عوام کی مشکلوں اور سیاست سے جڑے لوگوں کی دولت میں اضافہ ہوا ۔ اے ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق 2015 میں 160 ممبران اسمبلی کروڑ پتی تھے ۔ اس وقت 243 ممبران میں سے 222 کروڑ پتی اور ہر تیسرا ممبر کرمنل ہے ۔
موجودہ الیکشن کی بات کریں تو اسے کرانے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا اعادہ کیا گیا ہے ۔ مثلاً ایک بوتھ پر پندرہ سو کی جگہ ایک ہزار ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ ان کو کوور کرنے کے لئے زیادہ پولنگ بوتھ بنائے گئے ہیں ۔ وقت ایک گھنٹہ بڑھایا گیا ہے، اب صبح سات بجے سے شام چھ بجے تک ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ پہلے پانچ بجے تک ووٹ ڈالے جاتے تھے ۔ چھ لاکھ پی پی ای کٹ، 46 لاکھ ماسک، چھ لاکھ فیس شیلڈ، 23 لاکھ گلبس، 47 لاکھ ہینڈ سینی ٹائزر کا انتظام کیا گیا ہے ۔ ہر بوتھ پر تھرمل اسکینر، صابن اور سینی ٹائزر موجود رہے گا ۔ بزرگوں سے ووٹ ڈلوانے کا الگ نظم کیا گیا ہے ۔ اس الیکشن کو کرانے کے لئے اتنی کثیر اضافی رقم خرچ ہونے والی ہے کہ اس سے بہار کے تمام ضلع اسپتالوں کی حالت سدھر سکتی تھی ۔ جو انتہائی خستہ حالت میں ہیں ۔ دربھنگہ ضلع اسپتال میں تو اسٹریچر تک دستیاب نہیں ہے ۔ نالندہ ضلع اسپتال کے وارڈ میں پانی گھسنے، پینے کا پانی موجود نہ ہونے کی بات اب کسی سے چھپی نہیں ہے ۔ بہار ہی وہ ریاست ہے جہاں 29 ہزار لوگوں پر ایک ڈاکٹر ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک ہزار افراد پر ایک ڈاکٹر ہونا چاہئے ۔ مگر برسراقتدار جماعت اور حکومت کی ترجیحات میں عوام نہیں ہے ۔ اسے الیکشن کرانا ہے، جیتنا ہے اور حکومت بنانی ہے ۔
بہار کے لوگوں سے پوچھئے تو اندازہ ہوگا کہ نتیش کمار ہار رہے ہیں، لیکن مینجمنٹ کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی جیت رہی ہے ۔ نتیش کمار اس کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ کون جیتے گا اور کس کی حکومت بنے گی یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن اس بار کا الیکشن آسان نہیں ہے ۔ ایک طرف سوشاسن کی ہر سطح پر ناکامی کی وجہ سے عوام میں مایوسی ہے ۔ دوسری طرف تین نوجوان تیجسوی یادو، کنہیا کمار اور چراغ پاسوان انہیں چنوتی دے رہے ہیں ۔ تیسری طرف پپویادو کی سربراہی میں بنا پروگریسو ڈیموکریٹک الائنس اور سماجوادی جنتادل، ایم آئی ایم کا اتحاد بھی کئی علاقوں میں جے ڈی یو، بی جے پی کو ٹکر دیگا ۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی بھی اس انتخاب میں زیادہ وقت دینے والے ہیں ۔ جانکاروں کا ماننا ہے کہ شاید اس بار کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہ ملے ۔ اسی کے پیش نظر راجپوت ووٹوں کو اپنے پالے میں کرنے کے لئے سوشانت سنگھ خودکشی معاملہ کو طول دیا گیا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سوشانت سنگھ کی موت کے ارد گرد ابھرا بہاری عزت کا مدا زیادہ کارگر رہے گا یا مہاجر مزدوروں، کووڈ -19 کے متاثرین اور سیلاب زدگان کی تکلیفوں کا بیورا ۔ اس الیکشن سے یہ بھی صاف ہو جائے گا کہ ووٹروں میں جنگل راج کی یادیں زیادہ گہری ہیں یا موجودہ حکومت سے امیدیں ٹوٹنے کی مایوسی ۔ دیکھتے جایئے کہ عوام کا فیصلہ آنے تک الیکشن کیا کیا رنگ دکھاتا ہے ۔ بہر حال عوام کے فیصلہ کا انتظار کیجئے کہ وہ کسے چنتی ہے پریشانیوں سے چھٹکارہ دلانے والوں کو یا نتیش کمار کو ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)