نورنگ دواخانہ، بنگلور.
4 سال پہلے میرا ایک شاگرد(جس نے مجھ سے ترجمہ قرآن پاک اور تفسیر جلالین پڑھی تھی) بڑے احترام سے اصرار کرنے لگا کہ "حضرت میرے گاؤں چل کرآپ میرا نکاح پڑھا دیجئے”. میں نے معذرت کی اور اپنی مصروفیات کا حوالہ دیتا رہا لیکن وہ نہ مانا. لہذا مجھے وعدہ کرنا ہی پڑا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ میں اکیلا نہیں جاسکتا اس لئے ایک رفیق سفر کو ساتھ رکھوں گا. اس نے بخوشی منظور کیا۔ میرے ایک عزیز مولانا دوست ہیں جو ہرطرح کے سفری ٹکٹ بنانے کا کام کرتے ہیں. میں نے ان سے کہا کہ مجھے ایک شادی میں شرکت اور نکاح پڑھانے کے لئے”باگل کوٹ” جانا ہے۔ رات بھر کا قطاری سفر ہے لیکن اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو آمد و رفت کے دو ٹکٹ اے سی سکنڈ کلاس کے بنادیجئے۔ وہ خوش دلی اور سعادت مندی کے ساتھ تیار ہو گئے اور ہم دونوں شام میں روانہ ہو کر صبح سویرے اُس گاؤں کے اسٹیشن پر اترے جو 30 کلو میٹر کے طویل فاصلے پر تھا۔ میرا شاگرد اچھی صاف ستھری چار چَکّا اے سی گاڑی لئے اسٹیشن پر ڈرائیور کے ساتھ موجود تھا. مجھے دیکھتے ہی شاگرد کی بانجھیں کھِل گئیں، بڑے ادب سے گاڑی میں ہمیں بٹھایا اور گاڑی چلی، تھوڑی ہی دیر میں ہم جنگل بیابان اور پہاڑوں میں سے گذرنے لگے. میں نے ظرافتاً رفیق سفر مولانا سے کہا کہ "ہمیں شادی میں لے جایا جارہا ہے یا ہم اغوا کئے جارہے ہیں؟”
خیر سے ہم لوگ اس گاؤں میں پہنچے جہاں نکاح ہونا تھا یعنی دلہن کا گاؤں. شاگرد نے دانشمندی سے ہمیں لب سڑک بنی گاؤں کی مسجد میں ٹھہرایا، صبح کو میں ایک کپ کافی پیتا ہوں، یہ شاگرد کو معلوم تھا اس لئے دیہات کی ٹھنڈی، کڑوی کسیلی کافی زیر حلق اتار کے ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد حسب توفیق نمازیں پڑھ لیں۔ میں چونکہ سفر میں ناشتہ کرتا نہیں ہوں اس لئے ایسا کوئی جھمیلا نہیں رکھا گیا تھا اور میرے رفیق سفر مولانا نے بھی استغنائی ولولہ دکھاکے ناشتے سے آزادی کا اعلان کردیا. ہم نے دعوتی بھائیوں کی طرح مسجد میں ہی کمر سیدھی کرلی، نیند تو کیا آتی بس یونہی الٹ پلٹ کرتے رہے کیونکہ تکیہ تھا نہ بستر. اتنے میں نکاح کا وقت ہو گیا اور ہمیں نکاح کے شامیانے کی طرف ہانکا گیا. شامیانہ پہلے سے اَٹا پڑا تھا اس لئے ہم کنارے سے نکاح کے اسٹیج پر سوار ہوئے اور کرسی پر بیٹھ کر اَکڑ گئے. نکاح کے شرکاء میں عورت مرد خلط ملط اور کَسے کَسائے بیٹھے تھے. مرد مردانگی میں مسلمان لگ رہے تھے نہ عورتیں نسوانیت میں "مسلمانہ” لگ رہی تھیں. قسم کھانے کو بھی برقع حجاب یا اسلامی ٹوپی نظر نہیں آئی. نکاح بھول کر میں خود کو گویا کسی گاؤں کے پنچایت چناؤ سبھا میں مُکھیا پَد کا امیدوار بن کے اسٹیج پر پَسرا محسوس کرنے لگا۔ ادھر دل ہی دل میں نکاح کا خطبہ بھی بُدبُداتا رہا کہ کہیں اس”سبھائی ماحول” میں خطبہ نہ بھول جاؤں چونکہ زندگی میں صرف دوسری بار کسی کا نکاح پڑھا رہا تھا۔
نکاح ہو گیا، چھوہارے کی جگہ مدوّر، مثلث، مُربّع اور مُطوّل "بتاشائی شیرینی” تقسیم ہوئی.
ظہر کا وقت قریب تھا لہٰذا ہمیں اسکول کے ایک کمرے میں چٹائی پر بٹھا کر شادی کا کھانا نہایت سادگی کے ساتھ بغیر دسترخوان کے اسٹیل کی بڑی بڑی رکابیوں میں پروسا گیا (سادے چاول، کَسے ہوئے کچے ناریل، شکر اور دودھ). کھانے کے بعد وہ بچہ ہمیں اپنے گاؤں اپنا گھر اور گاؤں دکھانے لے گیا جو اس گاؤں سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔
اب جھکا شرم سے سر
پورا گاؤں دیکھا لیکن مسجد نظر نہیں آئی حالانکہ 30 گھر مسلمانوں کے تھے، میرے شاگرد نے بتایا کہ پنج وقتہ نماز تو دور کی بات ہے، ہم لوگ جمعہ اور تراویح تک نہیں پڑھتے، قبرستان نہیں ہے، لوگ اپنا مُردہ اپنےاپنے کھیت میں دفناتے ہیں، غسل دینے اور جنازہ پڑھانے کے لئے سات کلومیٹر دور گاؤں سے مولوی صاحب کو بلایا جاتا ہے، رمضان میں بمشکل دو چار لوگ روزہ رکھتے ہوں گے، ٹِن کا ایک چھوٹاسا روم ہے جس میں کسی طرح 5 لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں وہ بھی بند ہی رہتا ہے، میں نے پوچھا کہ گوشت وغیرہ کہاں سے لیتے ہو؟ تو میرے شاگرد نے جواب دیا کہ یہاں گوشت کھاتے ہیں مگر گوشت ملتا نہیں ہے. یعنی جب کبھی جنگلی خنزیر گاؤں میں آجاتا ہے تو اسے کاٹ کے کھا لیتے ہیں. میرے شاگرد نے نگاہیں جھکاتے ہوئے کہا کہ حضرت، دین پڑھنے سے پہلے وہ گوشت میں بھی کھاتا رہا ہوں. لیکن اب میرے گھر والے دینی تعلیم کی برکت سے الحمد للہ! اس نجاست خوری سے محفوظ ہیں۔
اس بچے نے یہ بھی بتایا کہ اس گاؤں میں وہ اکیلا حافظ قرآن اور عالمِ دین ہے۔