ممبئی:نارکوٹکس کنٹرول بیورو (این سی بی) بالی ووڈ میں منشیات کے استعمال کے سلسلے کی مسلسل تحقیقات کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی این سی بی کی جانب سے کئی بڑے فنکاروں کو سمن بھیجا گیا ہے۔ دریں اثنا،مرکزی وزیر رام داس اٹھاؤلے نے کہاہے کہ منشیات کے کنیکشن والے اداکاروں کو فلم پروڈیوسر کام نہ دیں۔ریپبلکن پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر اور مرکزی وزیر مملکت برائے سماجی انصاف و امپاور رام داس اٹھائولے نے دشا سالیان کی موت کی سی بی آئی تحقیقات کا مطالبہ کیاہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی پارٹی پائل گھوش کو انصاف دلانے کے لیے تحریک چلائے گی۔مرکزی وزیر رام داس اٹھائولے نے کہا ہے کہ منشیات کے ملزم اداکاروں کو فلم پروڈیوسروں کو کام نہیں دیناچاہیے۔ ہم ایسے پروڈیوسروں کے خلاف احتجاج کریں گے اور شوٹنگ روکنایقینی بنائیں گے۔ اس کے علاوہ سی بی آئی کو دشا سالیان کی موت کی بھی تحقیقات کرنی چاہیے۔
بالی ووڈ
مشہور گلوکار ایس پی بالاسبرمنیم کا 74 سال کی عمر میں انتقال،کورونا وائرس سے تھے متاثر
نئی دہلی:ہندی، تیلگو، ملیالم اور تمل سمیت 16 زبانوں میں تقریباً40000 گانوں کو آواز دینے والے مشہور گلوکار ایس پی بالاسبرمنیم کا انتقال ہوگیا۔ ایس پی بالاسبرمنیم طویل عرصے سے اسپتال میں داخل علاج تھے اور انہیں کورونا وائرس کا انفیکشن بھی ہوا تھا۔ گلوکار ایس پی بالاسبرمنیم کے بیٹے چرن نے بتایا ہے کہ ان کے والد کا انتقال آج سہ پہر 1.45 بجے ہوگیا ۔ وہ 74 سال کے تھے۔ ایس پی کو 5 اگست کو کورونا انفیکشن ہوا تھا اور وہ وینٹی لیٹر پر تھے۔ آج سلمان خان نے بھی ان کی صحت کے بارے میں ٹویٹ کیاتھا۔ایس پی بالاسبرمنیم نیلور کے تیلگو گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے والد ایس پی تھے۔ بالاسبرمنیم آرٹسٹ تھے۔ ایس پی بالاسبرمنیم بالی ووڈ میں سلمان خان کی آواز رہ چکے اور انہوں نے ’میں پیار کیا‘ اور ‘’ آپ کے ہیں کون‘ جیسی فلموں میں گانے گائے تھے۔ ایس پی بالاسبرمنیم پلے بیک گلوکار کے علاوہ میوزک ڈائریکٹر، اداکار، ڈبنگ آرٹسٹ اور فلم پروڈیوسر بھی تھے۔ ایس پی بالاسبرمنیم 6 بار قومی فلم کا ایوارڈ بھی جیت چکے ہیں۔ایس پی بالاسبرمنیم کے نام سب سے زیادہ تر فلمی گانوں میں آواز دینے کاگینز ورلڈ ریکارڈ درج ہے۔ ایس پی بالاسبرمنیم کو پدم شری (2001) اور پدم بھوشن (2011) سے بھی نوازا گیا تھا۔ انہیںایس پی بی اور بالوکے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ بالی ووڈ میں ایس پی بالاسبرمنیم نے ’میں پیار کیا‘، ’ہم آپ کے ہیں کون‘،’آندھا کانون‘، ’ساجن‘،’ 100 ڈیز‘، ’چنئی ایکسپریس‘ اور ’انگار‘ جیسی فلموں میں اپنی آواز دے چکے تھے۔
بالی ووڈ اداکار سشانت سنگھ راجپوت نے گزشتہ دنوں اپنی رہائش گاہ پر خودکشی کر لی۔ عوام کے ایک بڑے طبقے کی جانب سے ان کی خودکشی پر شکوک و شبہات ظاہر کیے جارہے ہیں، وہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ راجپوت گزشتہ 6 ماہ سے ڈپریشن میں مبتلا تھے اور اس کا علاج بھی کروا رہے تھے۔ ان کی رہائش گاہ سے ڈپریشن کے علاج کی فائلس بھی برآمد ہوئی ہیں، جس کے بعد اس ضمن میں کوئی شک و شبہ نہیں پایا گیا کہ وہ واقعی ڈپریشن میں مبتلا تھے بھی یا نہیں۔ اسی دوران کانگریس لیڈر سنجے نروپم کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ سشانت کی فلم ‘چھچھورے’ ہٹ ہونے کے بعد یکے بعد دیگرے 6 بڑی فلمیں ان کے ہاتھ سے نکل گئی تھیں۔ نروپم یہ دعویٰ کس بنیاد پر کررہے تھے یا ان کے ذرائع کیا تھے یہ صرف انہیں ہی پتہ ہے۔ بالی ووڈ میں سشانت کے بائیکاٹ اور انہیں الگ تھلگ کردینے کے دعوؤں کو سشانت کے ہی ایک ‘کمنٹ’ سے ہوا ملی ہے جو انہوں نے انسٹا گرام پر ایک خاتون کو ریپلائے میں کیا تھا۔ سشانت کا کہنا تھا کہ اگر آپ (عوام) ان کی فلمیں نہیں دیکھیں گے تو ‘وہ’ انہیں بالی ووڈ سے باہر کردیں گے۔ سشانت کا مزید کہنا تھا کہ انڈسٹری میں ان کا کوئی گاڈ فادر نہیں ہے اور انہوں نے ناظرین کو ہی اپنا ‘گاڈ’ اور ‘فادر’ بنایا ہے۔ سشانت کے اس کمنٹ سے ہی اول ان کے بائیکاٹ کی خبریں گردش میں آئیں بعد ازاں گاڈ فادر کے حوالے سے بالی ووڈ میں جاری اقربا پرستی (Nepotism) کا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ اقربا پرستی کے حوالے سے بالی ووڈ سے صرف ایک آواز کنگنا راناوت کی اٹھی۔ بالی ووڈ میں کنگنا راناوت اسی مزاج کی حامل ہیں جو سیاست میں سنجے نروپم کا خاصہ ہے، دونوں کو ہی متنازع بیانات دینے کا شوق ہے اور ہر معاملے میں اکثر و بیشتر ان کا موقف جداگانہ ہی رہتا ہے۔
عوام نے سشانت کی موت کو مرڈر ثابت کرنے کیلئے چھوٹی سے چھوٹی بات کو خاصی اہمیت دی، اور ایوارڈ شو میں ان اسکرپٹیڈ مکالموں کو بھی خودکشی کی وجوہات میں شمار کیا گیا جس میں بظاہر سشانت کی ‘کھچا ئی’ کی گئی تھی۔ حیرت انگیز طور پر اس دوران سشانت کے ‘ڈپریشن’ میں رہنے کی بات کو نظر انداز کردیا گیا۔ کوئی یہ تسلیم کرنے کیلئے اب تک تیار نہیں ہے کہ ڈپریشن کا شکار انسان انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے۔ یہ بات صرف سشانت کے حوالے سے نہیں بلکہ عام معاملات میں ڈپریشن کے تئیں عوام کی بیداری اور واقفیت نہیں کے برابر ہے اور بعض حلقوں میں ڈپریشن کو قابل علاج مرض ہی تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 20 سے 25 لاکھ آبادی والے شہروں میں سند یافتہ ماہرین نفسیات ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے ۔ عوامی شعور کا یہی مقام ہے جہاں ڈپریشن سے زیادہ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ سشانت نے انسٹاگرام پر کہا تھا کہ انہیں بالی ووڈ میں تحفظات درپیش ہیں، کیا ہوا جو انہوں نےاس بات کے ساتھ ‘اسمائیلی ایموجی’ بھی لگائی تھی جس سے یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ اس وقت وہ کس موڈ میں تھے اور انہوں نے یہ بات سنجیدگی سے کہی تھی یا ازراہ مذاق اس کا تذکرہ کیا تھا۔ ان سطور کا مقصد یہ نہیں کہ سشانت کی موت کو خودکشی تسلیم کرلیا جائے اور ان کے قتل یا بائیکاٹ کی خبریں دروغ پر مبنی ہیں۔ اس میں سچائی بھی ہوسکتی ہے اور اس کی تلاش کیلئے پولیس تحقیقات بلکہ سی بی آئی تحقیقات ہونی چاہئیں، مگر ڈپریشن جیسے خطرناک مرض کو ہم اتنی آسانی سے خارج نہیں کرسکتے اور عوام میں اس کے تئیں بیداری پیدا کرنی ناگزیر ہے۔ یہاں تو عالم یہ ہے کہ ڈپریشن کا شکار افراد کی ایک بڑی تعداد کو اس بات کا ادراک تک نہیں ہوتا کہ وہ ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔
بیزاری، بے کیفی، محرومی اور حق تلفی سے ڈپریشن کے سوتے پھوٹتے ہیں اور نہایت تیزی کے ساتھ یہ کیفیت انسانی نفسیات اور شعور کو کسی کینسر کی طرح اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ نوجوان نسل میں معاشقے میں ناکامی یا کسی ‘خاص’ کی بے اعتنائی اس کیفیت میں لا پھینکتی ہے۔ اگر سنجے نروپم کے دعووں کو تسلیم کرلیا جائے تو سشانت سنگھ راجپوت کے ساتھ وہ محرومی اور حق تلفی کی واردات ہوئی ہے جس کے سبب نروپم کے بقول یکے بعد دیگرے 6 فلمیں سشانت کے ہاتھوں سے پھسل گئی تھیں۔ معاشقے کے حوالے سے بات کی جائے تو سشانت کی سابقہ معشوقہ انکیتا لوکھنڈے نے گزشتہ دنوں ہی کسی اور کے ساتھ انگیجمنٹ کی تھی، سشانت کے دوستوں کے بقول سشانت انکیتا کو ‘مس’ کررہے تھے۔ یہ ساری باتیں سشانت کو ڈپریشن میں ڈال سکتی ہیں۔ سشانت کا تعلق کوئی فلمی فیملی سے نہیں ہے۔ بالی ووڈ کیلئے وہ آؤٹ سائڈر تھے اور انہوں نے والدین کو ایک نارمل لائف گزارتے دیکھا تھا۔ بالی ووڈ کی بظاہر روشنی اور بباطن تیرگی کو وہ سمجھ نہیں سکے جہاں بچے اپنے والدین کے معاشقوں اور افیئرس کی کہانیاں سن سن کر بڑے ہوتے ہیں اور اس سیٹ اپ میں نفسیاتی طور پر فٹ بھی ہوجاتے ہیں جس میں فٹ ہونے کیلئے آؤٹ سائڈرس کو ‘Survive’ کرنا پڑتا ہے۔ اگر سشانت کی خودکشی کو قتل ثابت کرنے کی کوشش کی جائے تو گاڑی بالی ووڈ میں بائیکاٹ اور بڑے بینرس کی جانب سے غیر اعلانیہ بین سے آگے نہیں بڑھے گی۔ اس بائیکاٹ یا بین جو بہ آسانی ایک تجارتی فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے اور ہندوستان میں کس کو ڈپریشن میں مبتلا کردینے کی کوئی سزا نہیں دی جاسکتی، اور پھر ڈپریشن میں مبتلا کرنے والے افراد ملک کے مشہور افراد ہیں تو پھر سزا کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے میں سشانت کو بہترین خراج عقیدت یہ ہوگا کہ ڈپریشن کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ اپنے اطراف میں ڈپریشن میں مبتلا افراد کی شناخت کی جائے، ان کے دکھوں کا مداوا کیا جائے اور ان کی داد رسی کی جائے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)