صفدر امام قادری
صدر شعبۂ اردو ،کالج آف کامرس ،آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
ان دنوں وبائی ماحول کے پردے میں حکومتِ ہند طرح طرح کے فیصلوں کی جھڑی لگا کر مشکل حالات میں اپنے فائدے کے مواقع حاصل کرنے میںہوا کی رفتار سے اُڑ رہی ہے۔ جب سے بابری مسجد کے سلسلے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ،اس کے بعد سے ایک عجیب و غریب جگل بندی چل رہی ہے۔ ہر کام میں حکومتِ ہند کو مختلف عدالتوں کا سہارامل جا رہا ہے اور بار بارانصاف کے طلب گار افراد ٹھگے ہوئے محسوس کر رہے ہیں۔ ان کاموں میں وبا متاثرین کی تعداد میں جو تیزی ہے ، اس سے بھی زیادہ برق رفتاری دیکھنے کو مل رہی ہے۔
نیٹ اور جے۔ای۔ای۔ کے مقابلہ جاتی امتحان کرائے جانے کے معاملے میں سرکار نے ایک ضدّی آدمی کی طرح فیصلہ لینے کی جلدی دکھائی ہے۔دو سو اور پانچ سو افراد پر مشتمل قانون ساز اسمبلی اور پارلیامنٹ کی نشستیں کرانے میںحکومت ابھی تک ناکام ہے جہاں پچیس برس سے کم عمر کا کوئی بھی آدمی رکن نہیں ہوتا۔مگر حکومت کو سولہ سترہ برس کے لاکھوں بچّوں کو ملک کے گوشے گوشے میں پہنچ کر امتحان دلانے کی عجیب و غریب عجلت ہے۔آدھاملک، طلبہ و طالبات اور ان کے سر پرست پریشان ہیںکہ اس غیر یقینی صورتِ حال میں ان کے لختِ جگر اپنی کامیابی کی توقع میں ہتھیلی پر جان لٹانے کے لیے کہاں کہا ں جائیں گے۔
آسام، اڑیسا ،مغربی بنگال ، بہار، اترپردیش ،اترا کھنڈ، گجرات اور راجستھان سیلاب کی چپیٹ میں ہیں۔ملک کے دو تہائی حصّے میں آنے جانے کے وسائل موجود نہیں ۔ ٹرین کا نظام حکومت نے بند کر رکھا ہے۔ایسی حالت میں ہمارے بچّے کہاں تک پہنچ سکیں گے اور کیسے امتحان دے پائیں گے، یہ صر ف خدا ہی جانتا ہے۔
ہندستان کے وزیرِ اعظم کو لاکھوں کروڑوں کے مسائل سے اکثر سر و کار نہیں ہو تا ہے اوروہ خاموش رہنے میں اپنی عافیت محسوس کرتے ہیں ۔اس معاملے میں حکومت کے وکیل کے طور پر ملک کے وزیرِ تعلیم کو سامنے رکھا گیا ہے اوروہ ایک فکر مند شہری کے انداز میں اپنے نو نہالوں کی معاونت کا حوالہ دیتے ہو ئے کہتے ہیںکہ بچّوں کے مستقبل کو پسِ پُشت نہیں رکھا جا سکتا۔ وزیرِ تعلیم کے لیے کُمک کے طو ر پر یو ۔جی۔سی ۔اور دوسرے سرکاری ادارے ہمیشہ موجود رہتے ہیں ۔سب کو معلوم ہے کہ حکومت کے تمام اداروں کو ایک ہی راگ میںمقرّرہ متن دہرانا پڑے گا اور یہی ہو رہا ہے۔
ملک کے مختلف صوبوں میں رہنے والے طلبہ نے سپریم کورٹ میں درخواست دی کہ یہ امتحانات ایک مّدت کے لیے ٹال دیے جائیں ورنہ بچّوںکی جان سے کھلواڑ کا اندیشہ پیدا ہو تا ہے۔عدالت نے حکومت کا نقطۂ نظر سمجھا اور بچّوں کے مقابلے حکومتِ ہند کی باتیں اسے زیادہ پسند آئیں ۔ ایساکئی مہینوں سے لگاتار ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔بابری مسجد کے سلسلے سے نظرِ ثانی کی درخواست فوراًخارج کر دی گئی ۔ لاک ڈاؤن میں ریل یا بس چلے یا بھوکے ننگے عوام کو حکومت خوراک فراہم کرے ،اس کے لیے سماعت کی تاریخ اس قدر طول کھنچتی گئی کہ سارے بگاڑ بھی انجام تک پہنچ چکے تھے۔ جسے بھوک سے مرنا تھا، وہ مر چکا تھا۔جسے ہزار کلو میٹر اور دو ہزار کلو میٹر پیدل چل کر سڑک پر کچل کر مر جانا تھا، وہ بھی اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔ سیاسی مبصّرین نے اسے حکومت کی طرف داری ہی مانا تھا اور آئین کے رکھوالوں کا عوام کے حقوق کی حفاظت سے خود کو دور رکھنے کو ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھا تھا۔
ابھی پرشانت بھوشن کے معاملے میں جلدی جلدی سماعت کرنے اور سزا تک پہنچ جانے کے معاملے میں بہت سارے قانون کے ماہرین نے اپنا یہ مشاہدہ درج کرایا کہ اس میں ایسی جلدی لازم نہیں تھی۔سب کو معلوم ہے کہ پرشانت بھوشن موجودہ حکومت کو مختلف مواقع سے پریشانی میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔بعض افراد کو اب یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ حکومت حسبِ ضرورت اور توفیق کچھ کام خود کرتی ہے اور کچھ کام عدالت میں پہنچ کر اپنے انداز سے کرالینے میں کا میاب ہوتی ہے۔ موسیقی کی اصطلاح میں اسے جگل بندی کہتے ہیں ۔ جہاں دو گانے والے یا بجانے والے ایک ساتھ اپنی مہارت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
ملک کے سارے ا سکول اور کالج ،یونی ورسٹیاں بند ہیں ۔درس و تدریس کا کام اس لیے نہیں کرایا جا رہا ہے تاکہ جب بہت سارے لوگ یکجا ہو ں گے تو وبا کے پھیلنے کے امکانات بڑھیں گے ۔ایک اسکول اور ایک کالج میں کسی ایک جماعت میں پانچ سو اور ہزار بچّے نہیں ہو تے ۔ تیس سے سوا سو کے قریب طالبِ علم ایک کلاس میں شامل ہو تے ہیں۔ ملک کا کوئی بھی تعلیمی ادارہ یا خود حکوتِ ہند تیس اور پچاس یا سو بچّوں کو جمع کر کے تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے مگر امتحان دینے کے لیے ایک مرکز پر پانچ سو اور ہزار بچّے جمع کر نے میں حکومت کے پاس بہت جوش اور جذبہ کا م کر رہا ہے۔اسے سپریم کورٹ کی طرف دا ری حاصل ہے اور کانگریس یا بہت ساری ریاستی حکومتو ں کی گزارشات کو اَن دیکھی کر نے میں اقتدار کا نشہ اضافی سرور پہنچا رہا ہے۔ تین سو اور چار سو کلو میٹر دور کے سینٹر تک یہ بچّے کیسے پہنچیں گے ، حکومت نے یہ مان لیا ہے کہ یہ سب بچّو ں اور ان کے سر پرستوں کا مسئلہ ہے ۔ اب الطاف حسین حالی کی رباعی یا د آتی ہے جس میں وہ کپڑے دھونے کے مرحلے میں داغ اور دھبّے کو مٹانے کی کوششوں میں اس بات کی تنبیہ کرتے ہیں کہ کپڑے کو حساب سے ہی رگڑنا چاہیے ورنہ بہ قولِ حالی:’دھبّا رہے کپڑے پہ نہ کپڑا باقی‘۔اب امتحان اور میڈکل اور انجینیرنگ کے مواقع فراہم تو ہو جائیں گے مگر کسی وجہ سے اگر ہمارے بچّے ہی نہ بچے تو کیا ہوگا؟
حکومت کے بڑ ے اداروں سے لے کر عدالتوں اور انتظامیہ کے نمائندوں میں سماج کا وہ طبقہ سب سے آگے ہے جسے ملائی دار طبقہ کہا جاتا ہے۔اسے وزیرِ اعظم نے پہلے ہی سے ایک فارمولہ دے رکھا ہے۔وہ وبا میں سنہرے موقعے کے تلاش میں ہے۔گذشتہ مارچ سے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی مالی اعتبار سے پست اور زندگی کی مشکلات میں مبتلا ہے۔ تیس کڑور سے زیادہ افراد اپنے روزگار گنوا چکے ہیں ۔ ان سب کے گھروں میں دو وقت کا کھانابھی بہ مشکل حاصل ہو رہا ہے۔ایسے لوگوں کے بال بچّے کیا پچھلے پانچ مہینوں میں اپنی تعلیم پر یکسو ہو کر مرتکز رہ سکے ہوں گے؟ ہر گز نہیں ۔جو کسی طرح سے جی سکتے ہیں ،ان کے بھی نفسیاتی حالات معمول پر نہیں ہیں۔ یہ پوری دنیا میں دیکھا جا رہا ہے۔حکومت اور فیصلہ کرنے والے اداروں میں ایک بڑا طبقہ ایسے ہی مواقع کی تاک میں رہتا ہے۔جن کے پیٹ بھرے ہو ئے ہیں اور جن کے گھر بار ٹھیک سے چل رہے تھے، ان کے بچّوں نے اس دوران اسی طرح پڑھنا لکھناجاری رکھا۔ زبر دستی امتحان کرانے میں صر ف اسی ملائی دار طبقے کو فائدہ حاصل ہو گا ۔ اسے غربا اور مساکین یا محروم طبقوں کی اولاد سے زیادہ مقابلہ نہیں کرنا پڑے گا۔ اگر پانچ سات لاکھ لوگ امتحان میں شامل نہ ہوں اور پانچ سات لاکھ لوگ کم تیاری کے ساتھ میدان میں آئیں تو اس ملائی دار طبقے کے بچّوں کو آسانی سے اور کم مقابلہ کر کے کامیابی مل سکے گی ۔ اسی لیے افسروں سے لے کر وزرا اور جج تک ایک ہی بولی بو ل رہے ہیں۔
ملک کے چھے صوبوں کی حکومتو ں نے سپریم کورٹ کی نظرِ ثانی کی درخواست جمع کی ہے۔خدا کرے کہ سپریم کورٹ کو ملک کے زمینی حالات سمجھ میں آجائیں اور اس امتحان کی تاریخ میں کم از کم دو مہینے کی توسیع کر دی جائے۔ حکومت اور عدالت کا کہنا ہے کہ امتحانات روکے نہیں جاسکتے ۔ملک کے بچّوں کے ا یک سال یا ایک سیشن کی بربادی کا یہاں معاملہ نہیں ہے۔ آنے والے دوسیشن میں دو یا تین مہینوں کی تخفیف کر کے ،چھٹیوں کو کم کر کے یاتعلیم کے اوقات بڑھا کر ہم اس دیری کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ اگر وبائی صورتِ حال مزید بد تر ہوئی اور ہمیں پورا ایک سیشن گنوانا پڑا تب بھی لاکھوں بچوں کی جان کے مقابلے یہ یکسر نقصان نہیں ہے۔ اگلے سال میڈیکل اور انجینیرنگ کی سیٹیں دوگنی کر کے اس صورتِ حال سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔مگر دشواری یہ ہے کہ حکومت اور کبھی کبھی کورٹ بھی ایک ضدّی اور شہ زور بچّے کی طرح اپنے فیصلے اور منطق پیش کرتے ہو ئے نظر آرہی ہیں۔ کسی جمہوری اور فلاحی ملک میں یہ طَور کسی بھی طرح سے زیبا نہیں ۔ خد ا عوام کے مفاد میں فیصلے لینے کا ہمیں شعور عطا کرے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)