آخر کار بابری مسجد انہدام کیس کا فیصلہ آج آہی گیا ۔ 1992 میں دن کے اجالے میں مسجد شہید کردی گئی تھی ۔ انہدام کے لیے ماحول بنانے والے ، ملک کے کونے کونے سے ہزاروں لوگوں کی بھیڑ اکٹھا کرنے والے ، ان کے دلوں میں نفرت کا زہر گھولنے والے ، انہیں للکار للکار کر انہدام پر اکسانے والے اور انہدام کے بعد خوشی کا جشن منانے والے ، سب دنیا کے سامنے تھے۔ انہیں ہزاروں انسانوں نے اپنی ننگی آنکھوں سے اور لاکھوں نے ٹی وی پر دیکھا تھا۔ انھوں نے کھلے الفاظ میں انہدام سے پہلے اس کا عزم ظاہر کیا تھا اور بعد میں اس کا اعتراف کیا تھا ۔ ملک کی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی نے ان میں سے 49 سرغنہ لوگوں کو ملزم بنایا اور ان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی۔ یہ مقدمہ مختلف عدالتوں میں گردش کرتا رہا _ ملزموں کی تعداد کم زیادہ ہوتی رہی ۔ ان کے خلاف مختلف الزامات طے کیے جاتے رہے ۔ ثبوتوں اور گواہوں کو پیش کیے جانے کا سلسلہ جاری رہا اور ان پر جرح ہوتی رہی ۔ یہاں تک کہ 28 برس کی طویل اور تھکا دینے والی ریاضت و مشقت کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ تمام ملزمین بے قصور ہیں ، اس لیے انہیں باعزت بری کیا جاتا ہے _ کاش کوئی بتاتا کہ اگر مسجد کو گرایا نہیں گیا تو کیا وہ زلزلہ یا کسی قدرتی آفت کا شکار ہوکر خود بہ خود زمیں بوس ہوگئی تھی؟! اگر اس کے انہدام میں ان ملزموں کا کوئی کردار نہیں ہے تو کون ہیں جنھوں نے یہ مذموم حرکت انجام دی تھی؟؟!! انہیں نام زد کرکے انہیں قانون کی گرفت میں لایا جاتا ۔
عدالت کے فیصلے پر تبصروں ، تجزیوں اور مباحثوں کا سیلاب آیا ہوا ہے ۔ ہر شخص اپنے اپنے اعتبار سے اس پر رائے زنی کررہا ہے۔ میرے نزدیک اس سے درج ذیل نتائج اور نکات مستنبط ہوتے ہیں :
(1) عدالت کے فیصلے نے انسانی قانون اور الٰہی قانون کا فرق بہت نمایاں کردیا ہے ۔ الٰہی قانون بے لاگ اور اٹل ہوتا ہے ۔ اس میں ظلم ، زیادتی اور ناانصافی کا شائبہ تک نہیں ہوتا ، جب کہ انسانوں کے بنائے ہوئے قانون میں نقائص اور بے اعتدالیاں ہوتی ہیں ۔ انسانی خواہشات کی آمیزش اس کی شفّافیت کو گدلا کرتی رہتی ہے ۔ عدلیہ کے مناصب پر فائز لوگ موم کی طرح اسے جدھر چاہتے ہیں موڑتے رہتے ہیں ۔ الٰہی قانون بے لاگ لپیٹ حق کو حق اور ناحق کو ناحق کہتا ہے ، جب کہ انسانی قانون بہت آسانی سے ناحق کو حق اور ناخوب کو خوب بنا سکتا ہے ۔
(2) عدالت کے فیصلے نے عقیدۂ آخرت پر میرے ایمان و یقین کو اور پختہ کردیا ہے ۔اِس دنیا میں کسی انسان کا حق مار لیا جائے ، کسی کو قتل کردیا جائے ، کسی گروہ کو ستایا جائے اور اسے اس کا حق نہ مل سکے اور اس کی دادرسی نہ ہوسکے ، ظالم دندناتا پھرے اور دوسرے انسانوں پر جبر و تشدّد کے پہاڑ توڑتا رہے ، پھر یہ دنیا فنا ہوجائے اور دوسری دنیا برپا نہ ہو ، انسانی عقل کہتی ہے کہ یہ صریح ناانصافی ہے ۔ ضروری ہے کہ مظلوم کو کبھی نہ کبھی اس کا حق ملے اور ظالم کو کبھی نہ کبھی اس کے کیے کی ضرور سزا ملے۔ اگر اِس دنیا میں مظلوم کو اس کا حق اور ظالم کو اس کے کیے کی سزا نہ مل سکے تو ضروری ہے کہ قیامت برپا ہو ، جس کے بعد دوبارہ دنیا وجود میں آئے اور رَتّی رَتّی کا حساب ہو _ کسی معاملے میں دنیا کی عدالتیں جو چاہیں فیصلہ کرلیں ، لیکن آخرت میں ابھی ایک اور عدالت لگنی ہے ، جہاں کیا جانے والا فیصلہ آخری ، حتمی اور مبنی بر انصاف ہوگا ۔
(3) عدالت کا یہ فیصلہ ایک بہت بڑے طوفان کی خبر دے رہا ہے _ اس کا تصوّر ہی میرے اوپر لرزہ طاری کردیتا ہے ۔ قانونِ قدرت ہے کہ حکومتیں کفر و شرک کے ساتھ چل سکتی ہیں ، لیکن ظلم کے ساتھ وہ زیادہ دن نہیں چل سکتیں۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کی رسّی ایک حد تک دراز کرتا ہے ، لیکن جب اسے کھینچ لیتا ہے تو نمرود ایک مچھّر سے ہلاک ہوجاتا ہے ، شدّاد کو اپنی جنّت کا دیدار نصیب نہیں ہوتا اور فرعون کو دریا کی موجیں نگل لیتی ہیں ۔ فلسفۂ تاریخ کے امام ابن خلدون نے لکھا ہے کہ ظلم آبادیوں کے ویران ہوجانے کا پیش خیمہ ہوتا ہے ۔ عدلیہ ، جو عدل و انصاف کے حصول کا آخری سہارا ہوتا ہے ، جب وہاں ظلم کی کاشت ہونے لگے تو سرسبز و شاداب وادی کو ریگستان بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔
(4) ضروری ہے کہ مسلمان اس موقع پر مایوسی کو اپنے اوپر طاری نہ ہونے دیں ۔ ظلم اور بے انصافی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ، بلکہ انسانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے ۔ ایسے واقعات مسلمانوں کو اللہ سے مزید قربت اختیار کرنے اور اُسی سے لَو لگانے کے مواقع فراہم کرتے ہیں _ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے ۔ آسمان اور زمین اس کی مُٹھی میں ہیں _ تمام انسانوں کے دل اس کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ وہ جس طرح چاہتا ہے ، انہیں اُلٹتا پلٹتا رہتا ہے۔ مسلمان اپنی بے بسی کا اظہار کریں ، لیکن صرف اللہ کے سامنے ، جو شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے ، جس کی طاقت و قوت اور قہّاری و جبّاری کے سامنے پوری کائنات ہیچ ہے ۔ جب انسان ربِّ کائنات کے سامنے اپنی عاجزی و بے بسی کا اظہار کرتا ہے تو اسے خود بہت اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنا معاملہ ایک طاقت ور ہستی کے حوالے کردیا ہے ، جو خود ظالموں سے نمٹ لے گا۔ دوسری طرف ربِّ کائنات کی غیرت جوش مارتی ہے اور ظالموں کے تخت و تاج کو خس و خاشاک کی طرح بہاکر دریابُرد کردیتی ہے۔ ابرہہ کے لشکر کے سامنے جب اہلِ مکہ نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا تھا تو ربِّ کعبہ کی غیرت جوش میں آگئی تھی اور نَنھّی مُنّی چڑیوں نے لشکرِ جرّار کا بُھس نکال کر رکھ دیا تھا۔
(5) ہمیں چاہیے کہ اس موقع پر ہم انسانی ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کریں۔ انسانوں کی اکثریت ، وہ چاہے جس مذہب کو ماننے والے ہوں ، ان کا ضمیر ابھی بالکل مُردہ اور بے جان نہیں ہوا ہے۔ وہ عدل کو عدل اور ظلم کو ظلم سمجھتے ہیں ۔ وہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے اور ظلم کرنے والوں سے نفرت کرتے ہیں۔ سماجی بنیادوں پر ان سے قریبی تعلقات ہمارے دین کا تقاضا ہے اور ملک میں پُرامن بقائے باہم کے لیے ہماری ضرورت بھی ہے
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)