الور:تحفظ آئین وجمہوریت محاذکی جانب سے سی اے اے، این پی آراوراین آرسی کی مخالفت میں ہفتہ کوجیل چوراہاکے قریب واقع کربلا میدان میں جلسہ عام منعقدکیاگیا۔ جلسے میں بھارت رتن ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر بھی پہنچے۔ انھوں نے کہاہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ 1 اپریل کے بعد مجھے حالات بے قابو ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔کوشش ہماری یہ ہے کہ 4 مارچ کودہلی کی کئی تنظیموں کی جنتر منتر پر ریلی منعقدہو۔ امید یہ ہے کہ لاکھوں کی بھیڑ وہاں پر ہوگی۔ جہاں سے بحث کرنے کی شروعات ہوگی۔ جہاں حکومت بات چیت کرنے کے لیے تیارنہیں ہے۔ وہاں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہونے کی نوبت آ چکی ہے۔ جیسے شاہین باغ 50 دن ہونے کے بعد بھی ٹس سے مس نہیں ہورہاہے۔ اسی طرح مودی جی یہ کہہ رہے ہیں ہم این آرسی ابھی لاگوکریں گے، لیکن این آرسی سے پہلے نیشنل پاپولیشن رجسٹریشن کامطلب آبادی کارجسٹریشن کرناہے۔کسی نے سشما سوراج جی کی بات ایوان میں سنی ہو تو انہوں نے یہ کہا تھاکہ این آرسی سے پہلے کا مرحلہ این پی آرہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی اپنی آزادی سے محروم نہیں چاہتاہے۔ لہٰذااس ملک میں امن بنا رہے۔ ورنہ یکم اپریل کے بعد کیا ہوگا۔ معلوم نہیں۔ انہوں نے کہاہے کہ جویہاں پر پیداہواہے۔ جن کے بزرگوں نے یہاں پر جنم لیا ہے ان سب کاملک ہے۔بی جے پی اور آر ایس ایس کا ملک بالکل نہیں ہے۔ اصلیت کی ان دیکھی جائے تو 15 اگست کو یوم سیاہ منانے کا جو یہ سلسلہ ہے اس کی شروعات آر ایس ایس نے کی ہے۔انہوں نے کہا کہ 1949 تک انہوں نے یوم سیاہ منایا جس کے بعد1950 میں یوم سیاہ نہ منائے اس کے لیے انہیں جیل میں ڈالاگیاتھا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے ان سے کہاکہ اگر یوم سیاہ 1950 میں مناؤگے توزندگی بھرجیل میں ڈال دیں گے۔ تب جاکر انہوں نے لکھ کر دیا کہ ہم اس ملک کے آئین، ترنگے جھنڈے،اشوک چکر کے ساتھ ہیں، 15 اگست اس ملک کی آزادی کا دن ہے۔ یہ لکھنے کے بعد ان پرسے پابندی ہٹائی گئی تھی۔ یہ ان کی اصلیت ہے۔پرکاش امبیڈکر نے کہاہے کہ این آرسی کی آج کے وقت میں ضرورت کیاہے۔70 سال بعد اگر کوئی سیاسی پارٹی یہ کہہ رہی ہے کہ ہم کسی کی شہریت چیک کرنے جا رہے ہیں تو یہ آئین کے خلاف ہے۔آئین کی دفعہ 4 اور 5 کہتی ہے کہ جس نے بھارت سال میں جنم لیاہے اس کی شہریت پیدائش سے ملتی ہے۔ جہاں یہ قانون ہے۔ وہاں دوبارہ شہریت دینے کی بات کس طرح کر سکتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کی حکومت کی منشاکچھ مختلف ہے۔ گولوالکر کی ایک کتاب ہے جس میں انہوں نے بھارت کا نقشہ کیساہوناچاہیے، معاشرے کا بندوبست کیسا ہوناچاہیے، اس کی مکمل طورپر تفصیل بیان کی ہے۔ ان کی تفصیل منووادی نظام ہے۔دوسری بات اس میں یہ ہے کہ اور کوئی مذہب کے لوگ جیسے مسلم، جین، سکھ اور عیسائی ان تمام مذاہب کوبھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر ان کو رہنا ہے تو دوسرے درجے کے شہری کی طرح رہناہے۔جوحق حکومت دے گی رہی حق دیاجائے گا جو قانون سازواں نے حق دیاہے وہ چھینا جائے گا۔مطلب یہ نئے نظریات کی حکومت بن چکی ہے۔ وہ اپنے نظریات ملک پر لاگو کرنے کے لیے جارہی ہے۔